پاکستان میں نظام خلافت امکانات، خدوخال اور قیام کا طریق کار

نحمد ہ ونصلی علی رسولہ الکریم. اما بعد: 
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ 
(النور: ۵۵
’’وعدہ کر لیا اللہ نے ان لوگوں سے جو تم میں ایمان لائیں اور عمل صالح کا حق ادا کریں کہ وہ انہیں لازماً زمین میں خلافت عطا فرمائے گا، جیسا کہ خلافت عطا کی تھی اُن کو جو اِن سے پہلے تھے اور ان کے لیے ان کے دین کو تمکن عطا فرما دے گا جو اُس نے ان کے لیے پسند کیا ہے، اور ان کے لیے خوف کے بعد امن کی حالت پیدا کر دے گا. پھر ایسے لوگ میری ہی بندگی کریں گے، کسی کو میرے ساتھ شریک نہیں ٹھہرائیں گے. پھر اس (قدر پختہ وعدے) کے بعد بھی جو لوگ روگردانی اختیار کریں (یعنی ایمان و عمل صالح کے تقاضے پورے نہ کریں) تو ایسے ہی لوگ فاسق (نافرمان) ہیں.‘‘

آج میں امت مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ کے حوالے سے آپ سے کچھ گفتگو کروں گا اور کچھ بات مستقبل کے بارے میں ہو گی. ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم زمانہ حال ہی میں گم رہنے کے عادی ہو چکے ہیں، جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا تھا ؎

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مؤمن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق

زمانہ حال کے اندر گم ہو جانا بھی درحقیقت اللہ تعالیٰ سے دُور ہو جانے کی وجہ سے ہوتا ہے. مطلوب شے تو یہ ہے کہ ماضی سے رشتہ استوار رکھو، مستقبل کی فکر کرو اور ان دونوں کو سامنے رکھتے ہوئے زمانہ حال میں اپنے طرزِ عمل کا تعین کرو. لیکن اگر صورت یہ ہو کہ ماضی سے بھی رشتہ کٹا ہوا ہو، مستقبل کی بھی فکر نہ ہو تو پھر انسان زمانۂ حال کے اندر گم ہو کر رہ جاتا ہے اور یہ چیز انسان کو ایمان کی بجائے کفر کی طرف لے جاتی ہے.