سورۃ النور کی آیت نمبر ۵۵ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے تین نہایت ہی مؤکد وعدے فرمائے ہیں، اگرچہ ہر وعدہ مشروط ہے. جیسے دوسرے مقامات پر فرمایا: اِنۡ تَنۡصُرُوا اللّٰہَ یَنۡصُرۡکُمۡ (اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا) اور فَاذۡکُرُوۡنِیۡۤ اَذۡکُرۡکُمۡ (تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا) اسی طرح کا مضمون حدیث میں بھی آیا ہے، فرمایا: ’’میرا بندہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی جانب دوڑ کر آتا ہوں، میرا بندہ میری طرف بالشت بھر آتا ہے تو میں اس کی طرف ہاتھ بھر آتا ہوں.‘‘ لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ بندہ تو اپنا رُخ شیطان کی طرف کئے ہوئے ہو اور اللہ تعالیٰ پھر بھی اس کی طرف متوجہ رہے. اگر ہم اللہ کی طرف رخ کر لیں، توجہ کر لیں تو وہ سراپا رحمت ذات ہر وقت رحمت کی بارش برسانے کے لیے تیار ہے ؎

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے راہروِ منزل ہی نہیں

زیر گفتگو آیت میں بھی اس قاعدہ کلیہ کے حوالے سے دو شرطیں موجود ہیں، یعنی ایمان اور عمل صالح. 
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ 
یہ خطاب مسلمانوں سے ہے. مدینہ میں مسلمانوں کے مابین منافقین کا گروہ بھی موجود 
تھا، چنانچہ یہ وعدہ منافقوں سے نہیں، نام کے مسلمانوں سے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ان مسلمانوں سے ہے جو ایمان اور عمل صالح کا حق ادا کرنے والے ہوں، پہلے خود اپنے اوپر اللہ کے دین کو قائم کرنے والے ہوں، اپنی ذات کی حد تک اللہ کے خلیفہ بن گئے ہوں، اپنے گھر اوراپنے دائرہ اختیار میں اللہ تعالیٰ کی خلافت کا تقاضا پورا کرتے ہوں اور پھر مل جل کر طاقت اور قوت حاصل کر کے باطل سے ٹکرانے اور پنجہ آزمائی کرنے کو مستعد ہوں. باطل نظام سے ٹکر لیے بغیر کوئی کام نہیں بنتا. چھوٹے سے چھوٹا پودا بھی آسانی سے اپنی جڑ نہیں چھوڑتا، ایک جمے ہوئے درخت کو اکھاڑنے کے لیے تو بڑی قوت کی ضرورت ہوتی ہے. اسی طرح رائج الوقت باطل نظام آسانی سے تبدیل نہیں کر سکتا. اس مقصد کے حصول کے لیے لوگوں کو اپنی جانوں کی قربانی پیش کرنا پڑے گی، خون کی ندیاں بہانا پڑیں گی. اگر صحابہ کرام ؓ کو اپنے خون کا نذرانہ پیش کرنا پڑا تو ہم مین سے کون ایسا ہے جو اس سے استثناء چاہتا ہو؟ اگر آنحضورؐ کا خون طائف کی سر زمین میں جذب ہوا اور آپؐ کا خون دامن حد میں گرا تو اور کون شخص یہ کہے گا کہ خون دیئے بغیر ایسا ہو سکتا ہے.

ہمارے سامنے تو کتنی ہی روشن اور تابناک مثالیں موجود ہیں. ایمان اور عمل صالح کے ساتھ اگر جہاد ہو گا تو ہمارے لیے اللہ کے تین وعدے ہیں جو اس آیہ مبارکہ میں بیان کئے گئے ہیں. ایک یہ کہ اللہ ہمیں لازماً زمین میں خلافت عطا فرمائے گا، جیسے اس سے پہلے عطا کی گئی تھی. بنی اسرائیل بھی اس زمرے میں آتے ہیں اور حضرت دائود ؑ اور حضرت سلیمان کو بھی بڑی ہی عظیم الشان مملکت عطا کی گئی تھی. حضرت سلیمانؑ کی حکومت ہوا اور جناب پر تھی. یہ استخلاف اللہ نے حضرت سلیمان ؑ کو عطا فرمایا تھا. مسلمانوں سے فرمایا جا رہا ہے کہ تمہیں ایسا ہی، بلکہ اس سے بھی بڑا استخلاف عطا فرمائے گا اگر تم ایمان اور عمل صالح کا حق ادا کرو گے. دوسرا وعدہ یہ ہے کہ اس دین کو جسے اللہ نے تمہارے لیے پسند فرمایا ہے، تمکن عطا کرے گا، کیونکہ حق کا یہ حق ہے کہ وہ غالب ہو نہ کہ مغلوب. مغلوب تو باطل کو ہونا چاہئے 
’’اَلْحَقُّ یَعْلُوْا وَلاَ یَعْلٰی عَلَیْہِ‘‘ حق تو غالب رہنے کے لیے آیا ہے جب کہ مغلوبیت باطل کا شیوہ ہے. تاہم حق کے غلبے کے لیے اہل حق کو قربانی دینا پڑتی ہے. تیسرا وعدہ یہ ہے کہ وہ ہماری خوف کی حالت کو حالت امن سے بدل دے گا. خوف کی یہ حالت مکہ میں بھی تھی، جب صحابہ ؓ کو ستایا جاتا تھا، ایذائیں پہنچائی جا رہی تھیں. مدینہ میں بھی ہر وقت خوف کی حالت طاری تھی، کبھی مکہ سے مشرکین کی فوجوں کی آمد کا خطرہ رہتا تو کبھی مشرق سے یہودیوں کی سازشیں تھیں مگر اللہ تعالیٰ نے اس صورتِ حال کو امن سے بدل دیا.

ان تین مؤکد وعدوں کا نتیجہ بیان فرماتے ہوئے کہا کہ پھر یہ لوگ میرے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے. یہی سو باتوں کی ایک بات ہے اور دین کی حقیقت بھی یہی ہے. اسلام دین توحید ہے. بندگی، اطاعت، قانون، حکم سب اللہ کا ہے کہ اِنِ الْحُکْمُ اِلاَّ لِلّٰہِ ط اََمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُوْا اِلاَّ اِیَّاہٗ (حکم دینے کا اختیار سوائے اللہ کے کسی کو بھی حاصل نہیں ہے اور اسی نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی بندگی اور اطاعت نہیں ہو گی.) فرمایا: وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ اتنے پختہ وعدوں کے بعد بھی اگر لوگوں کو اعتبار نہ آئے اور پھر بھی مسلمان اپنی جان اور مال لگانے کو تیار نہ ہوں، یہ لوگ پھر بھی اس کام کے لیے کمر ہمت کسنے کو تیار نہ ہوں اور اتنے پختہ وعدوں کی بھی ناقدری کریں تو پھر یہ لوگ فاسق ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے اپنی نگاہِ کرم پھیر لے گا.

سورۃ النور کی اس آیت میں خلافت ارضی کا جو وعدہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے کیا ہے، وہ ایک مرتبہ پورا ہو چکا ہے. خود حضورؐ کی زندگی میں سرزمین عرب پر غلبۂ دین مکمل ہو گیا تھا. اس کے بعد خلافت راشدہ کے عہد میں پورا شمالی افریقہ اور مشرق میں پورا ترکستان کا علاقہ، جو ستر (۷۰) برس کے بعد روسی استبداد کے نیچے سے اب آزاد ہو رہا ہے، اسلامی ریاست میں شامل ہو گیا. گویا بحر اوقیانوس سے دریائے جیحوں تک کے پورے علاقے میں خلافت کا نظام قائم ہو گیا. یوں خلافت ارضی کے وعدۂ الٰہی کی تکمیل ہو گئی، قیصر و کسریٰ کی بادشاہتیں ختم ہو گئیں، کرۂ ارضی کے ایک بڑے حصے پر اللہ کا دین غالب ہو گیا اور اللہ کی حاکمیت قائم ہو گئی. یہ سب کچھ ہمیں بھی تاریخی اعتبار سے معلوم ہے اور دنیا بھی اس حقیقت کو نہیں جھٹلا سکتی.