قیامت سے قبل ’’خلافت علیٰ منہاج النبوۃ‘‘ کے قیام کی پیشین گوئی

حضورؐ نے یہ پیشین گوئی فرمائی ہے کہ دنیا کے خاتمے سے پہلے خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا یہ نظام بالفعل دوبارہ قائم ہو گا اور خلافت کے اس نظام کا غلبہ اب عالمی سطح پر پورے کرۂ ارضی پر ہو گا. وہ صرف بحراوقیانوس سے دریا جیحوں تک ہی نہیں ہو گا بلکہ کل زمین پر ہو گا. شاید آج کے حالات میں لوگوں کو یہ باتیں بڑی عجیب لگیں کہ آج تو مسلمان پسماندہ ہیں، مغلوب ہیں، دبے ہوئے ہیں، امریکہ کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں. مگر ان سب حالات کے باوجود احادیث نبویہ کیا کہتی ہیں، آیئے دیکھتے ہیں. مسند احمد میں موجود حدیث کے مطابق حضور نے پانچ ادوار کا ذکر فرمایا. چشم تصور سے ملاحظہ فرمایئے! حضور صحابہ ؓ کے سامنے خطبہ ارشاد فرما رہے ہیں اور یہ خبر دے رہے ہیں، آپ ؐ نے فرمایا: 

تَکُوْنُ النُّبُوَّۃُ فِیْکُمْ مَا شَائَ اللّٰہُ اَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اللّٰہُ اِذَا شَآئَ اَنْ یَّرْفَعَھَا 

’’تمہارے اندر نبوت کا دور رہے گا جب تک اللہ چاہے گا کہ رہے،پھر اللہ اسے اٹھالے گا جب اٹھانا چاہے گا.‘‘

یعنی جب تک حضور موجود رہے، مجسم نبوت کا دَور جاری رہا اور پھر حضور اَللٰھُمَّ فِی الرَّفِیْقِ الْاعْلٰی کہتے ہوۓ دنیا سے پردہ فرما گئے تو وہ دَور ختم ہو گیا.پھر 
حضور نے دوسرے دور کا ذکر فرمایا : 

ثُمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃً عَلٰی مِنْھَاجِ النُّبُوَّۃِ ’’پھر خلافت علٰی منہاج النبوۃ قائم ہو گی.‘‘

یعنی نبوت کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے طریق نبوت پر خلافت قائم ہو گی. اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور کو دین حق کے غلبے کے لئے مبعوث فرمایا تھا، آپؐ کو اسلام کا نظام عدل اجتماعی قائم کرنے کے لئے بھیجا تھا. نبوت کا یہ مشن خود حضور کی زندگی میں جزیرہ نماۓ عرب کی حد تک پورا ہو گیا تھا مگر اسے ابھی آگے بڑھنا تھا لہٰذا وہ آگے بڑھا. یہاں تک کہ : 

فَتَکُوْنُ ما شَآ اللہُ اَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعُھَا اللٰہُ اِذَا شَآءَ اَنْ یَرْفَعُھَا 

’’پس یہ (دوسرا دور بھی) جاری رہے گا جب تک اللہ چاہے گا کہ رہے، پھر اللہ جب چاہے گا اسے بھی اٹھا لے گا.‘‘

اس کے بعد حضور نے تیسرے دور کے بارے میں فرمایا: 
ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا عَاضًا 

’’اس کے بعد کاٹ کھانے والی حکومت کا دور آئے گا.‘‘

کٹکھنی حکومت کا یہ دور بنو امیہ اور بنوعباس کی ملوکیت کا دور ہے. خلافت تو درحقیقت حضرت حسن ؓ پر ختم ہو گئی تھی، چنانچہ اہل سنت حضرت امیر معاویہؓ کے دورِ حکومت کو عہد خلافت راشدہ میں شامل نہیں کرتے. اسی ملوکیت کے دور میں کربلا کا حادثہ فاجعہ رونما ہوا جس میں حضرت حسینؓ اپنے بہت سے ساتھیوں کے ساتھ شہید کر دیئے گئے، پھر حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کو مکے میں شہید کیا گیا.اسی عہد ملوکیت میں واقعہ حرہ کے نتیجے میں مدینۃ النبیؐ تباہ ہوا. اسی دور ملوکیت میں حجاج بن یوسف کے ہاتھوں سینکڑوں تابعی ؒ شہید ہوئے، محمد بن قاسم کو سندھ سے واپس بلا کر شہید کر دیا گیا، اس لیے کہ بادشاہت کا تو یہ خاصہ ہوتا ہے کہ بادشاہ کسی دوسرے شخص کے مقبول ہونے سے ڈرنے لگتاہے. بادشاہوں کے سامنے اپنے ذاتی مفادات ہوتے ہیں جن کو حاصل کرنے کے لیے وہ لوگوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم کر دیتے ہیں. حضور کے فرمان کے مطابق یہی دورِ ملوکیت کاٹ کھانے والی حکومتوں کا دور ہے. اس کے بارے میں آنحضور نے ارشاد فرمایا: 

فَتَکُوْنُ مَا شَائَ اللّٰہُ اَنْ تَکُوْنَ ثُمَّ یَرْفَعَھَا اِذَا شَآئَ اللّٰہُ اَنْ یَرْفَعَھَا 

’’یہ دور بھی رہے گا جب تک اللہ چاہے گا، پھر اللہ جب چاہے گا اسے بھی ختم فرما دے گا.‘‘

پھر حضور نے چوتھے دور کا ذکر فرمایا: 

ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا جَبرِیًّا 

’’پھر جابرانہ بادشاہت کا ایک دور آئے گا.‘‘

آج چودہ سو برس کی تاریخ کھلی کتاب کی مانند ہمارے سامنے موجود ہے جس کی وجہ سے ہم یہ باتیں بہت اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں. جابرانہ بادشاہت سے مراد غیروں کی غلامی کا زمانہ ہے. کسی علاقے پر انگریزوں نے قبضہ کر لیا تو کہیں فرانسیسیوں نے ، کہیں ولندیزیوں نے اور کہیں اطالویوں نے اپنے نیچے گاڑ لیے. بنو اُمیہ اور بنوعباس کے خلفاء چاہے خلفاءِ راشدین نہیں تھے مگر تھے تو مسلمان ہی. پھر انہی مین سے اچھے لوگ بھی سامنے آئے، انہی میں عبدالملک بن مروان ؒ جیسے بڑے محدث اور فقیہہ انسان بھی تھے اور عمر بن عبدالعزیزؒ بھی جنہیں خلیفہ راشد تسلیم کیا جاتا ہے. جب یہ دور بھی ختم ہوا تو غیروں کی حکومت آ گئی. برصغیر کی یہ سرزمین انگیریزوں کے تسلط میں آنے سے پہلے سکھوں کے قبضے میں تھی. دورِ غلامی کی یہ حکومت آہستہ آہستہ تمام مسلم علاقوں سے ختم ہو گئی ہے. اگرچہ غلامی کا یہ دور ابھی پورے طور پر ختم نہیں ہوا. انڈونیشیا آزاد ہوا، ملائیشیا آزاد ہوا، تمام عرب ممالک آزاد ہوئے، مگر ذہنی غلامی جوں کی توں قائم ہے، تہذیبی غلام پہلے سے بھی زیادہ ہے، معاشی غلامی کے بندھنوں میں بھی ہم جکڑے ہوئے ہیں. ہماری اس ؎ حالت کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا تھا ؎

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

مملکت خداداد پاکستان مین ہم آج بھی انگریزوں کے چھوڑے ہوئے نظام کو جوں کا توں لے کر چل رہے ہیں. سیاسی نظام بھی وہی، تمدنی اقدار بھی وہی، معاشی نظام بھی وہی، غرض سارا نظام وہی.

یہ دَور جس میں ہم سانس لے رہے ہیں یہ چوتھے اور پانچویں دَور کا درمیانی عرصہ ہے. اس دَور کے اختتام پر پانچواں دَور آئے گا. دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ اس دَورِ سعید کو جلد لائے اور اس دَور کو لانے کے لیے اللہ تعالیٰ ہماری زندگیوں کو قبول فرما لے. ہماری کامیابی اسی میں ہے کہ ہم اس راہ میں اپنی جانیں نچھاور کر دیں. ہمارا ایمان ہے کہ وہ دَور لازماً آئے گا جس کی خبر نبی اکرم نے ہمیں دی ہے کہ آپؐ سچے ہیں اور آپؐ کے سچے ہونے کی گواہی دی گئی ہے، لہٰذا آپؐ کی دی ہوئی خبر کبھی غلط نہیں ہو سکتی. حضور نے پانچویں دَور کے بارے میں ارشاد فرمایا: 

ثُمَّ تَکُوْنُ خِلاَفَۃً عَلٰی مِنْھَاجِ النَّبُوَّۃِ 

’’پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہو گی.‘‘

یعنی پھر پہلے ہی کی طرح خلافت کا دَور آئے گا جو نبوت کے نقشے پر ہی قائم ہو گا، نبوت کے مشن کے لیے ہو گا. راوی کے مطابق ان پانچ اَدوار کی خبر دینے کے بعد حضور نے سکوت اختیار فرمایا. حدیث کے آخری الفاظ ہیں: 

ثُمَّ سَکَتَ 

’’پھر آپؐ خاموش ہو گئے.‘‘

معلوم ہوا کہ اس پانچویں دَور پر ہی دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا. اس وقت نوعِ انسانی پانچویں دَور کی دہلیز پر کھڑی نظر آ رہی ہے.

جیسا کہ میں نے عرض کیا اب جب نظام خلافت قائم ہو گا تو وہ عالمی سطح پر قائم ہو گا. اس ضمن میں آنحضور کا ارشادِ مبارک ملاحظہ فرمایئے. یہ حدیث حضرت ثوبانؓ سے صحیح مسلم میں روایت کی گئی ہے. حضور نے ارشاد فرمایا: 

اِنَّ اللّٰہَ زَوٰی لِیَ الْاَرْضَ فَرَاَیْتَ مَشَارِقَھَا وَمَغَارَبِھَا وَاِنْ اُمَّتِیْ سَیَبْلُغُ مُلْکُھَا مَا زُوِیَ لِی مِنْھَا 

’’اللہ نے میرے لیے زمین کو لپیٹ دیا، پس میں نے زمین کے سارے مشرق بھی دیکھ لیے اور سارے مغرب بھی، میری امت کی حکومت ان تمام علاقوں پر قائم ہو کر رہے گی جو مجھے لپیٹ کر دکھائے گئے.‘‘

ایک اور حدیث میں جو مسند احمدؒ کی ہے، نبی اکرم نے فرمایا: 

لاَ یَبْقٰی عَلٰی ظَھْرِ الْاَرْضِ بَیْتُ مَدَرٍ وَلاَ وَبَرٍ اِلاَّ اَدْخَلَہُ اللّٰہُ کَلِمَۃَ الْاِسْلَامِ بِعِزِّ عَزِیْزٍ وَ ذُلِّ ذَلِیْلٍ 

’’روئے ارضی پر نہ کوئی گھر جو اینٹ گارے سے بنا ہوا ہو، باقی بچے گا، نہ کمبلوں سے بنا ہوا خیمہ جس میں اللہ کلمۂ اسلام کو داخل نہ کر دے! خواہ کسی سعادت مند کو عزت دے کر خواہ کسی بدبخت کی مغلوبیت کے ذریعے.‘‘

یعنی اس داخلے کی دو شکلیں ہوں گی. یا تو عزت والے کے اعزاز کے ساتھ یا ذلیل کی تذلیل کے ساتھ. 

اِمَّا یُعِزُّھُمْ اللّٰہُ فَیَجْعُلُھُمْ مِنْ اَھْلِھَا اَوْ یُذِلُّھُمْ فَیَدِیْنُوْنَ لَھَا 

’’یا تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عزت عطا فرما دے گا کہ انہیں اس (کلمۂ اسلام) کا قائل و حامل بنا دے گا، یا انہیں مغلوب فرما دے گا کہ اس کے محکوم بن جائیں.‘‘

یعنی اگر گھر والا خود اپنی مرضی سے اسلام کو قبول کر لے گا تو یہ صورت اعزاز کی ہو گی، اس لیے کہ وَ لِلّٰہِ الۡعِزَّۃُ وَ لِرَسُوۡلِہٖ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ کہ عزت تو اللہ کا حق ہے، اس کے رسول اور اہل ایمان کا حق ہے. چنانچہ گھر والا اسلام قبول کر کے اس عزت میں شامل ہو جائے گا. لیکن اگر وہ اسلام قبول نہیں کرے گا تو اسلام تب بھی اس کے گھر میں داخل ہو گا. اس صورت میں ازروئے فرمان الٰہی: یُعۡطُوا الۡجِزۡیَۃَ عَنۡ ‌یَّدٍ وَّ ہُمۡ صٰغِرُوۡنَ اسے جزیہ دینا ہو گا، اسے اسلام کی بالادستی قبول کرنا ہو گی،اسے اسلامی قانون کی پابندی کا عہد کرنا ہو گا. یہی وجہ ہے کہ خلافت راشدہ کے عہد میں اسلامی افواج کا کمانڈر ہمیشہ دشمن کے پاس تین باتیں رکھتا تھا.

ایک یہ کہ اسلام لے آئو تو تم لوگوں کو ہمارے جیسی حیثیت حاصل ہو جائے گی، تمہاری جان، تمہارا مال، تمہاری عزت اتنی ہی محترم ہو گی جتنی خود ہماری ہے، تم ہمارے برابر کے بھائی بن جائو گے… اگر تمہیں یہ صورت قبول نہیں تو تم اپنے مذہب پر رہتے ہوئے ہمیں جزیہ ادا کرو اور اللہ کے دین کی بالادستی کو تسلیم کر لو… لیکن اگر تمہیں یہ شرط بھی قبول نہیں تو میدان میں آئو، تلوار ہمارے اور تمہارے مابین فیصلہ کر دے گی. اسلامی تاریخ سے اس حد تک تو ہر مسلمان واقف ہے کہ ہر جنگ سے پہلے یہی تین باتیں کہی جاتی تھیں، چوتھی بات کوئی نہ تھی کیونکہ حقیقی مسلمان کفر کے غلبے کو برداشت کر ہی نہیں سکتا. ہاں اگر اس کی طاقت نہیں تو کفر کے غلبے کو ختم کرنے کی کوشش کرتا رہے گا. اسی جدوجہد میں جان دے دے تو ایسا شخص اللہ کے ہاں کامیاب سمجھا جائے گا.