ان احادیث کے حوالے سے یہ بات بخوبی واضح ہو چکی ہے کہ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا دَور دوبارہ آئے گا اور یہ خلافت عالمی سطح پر قائم ہو گی. اس تصور کو قرآن مجید نے بھی بیان کیا ہے. آپ حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ میرا بنیادی کام ہی قرآن مجید کو پڑھنا اور پڑھانا ہے. ہماری دعوت کا پہلا قدم ’’رجوع الی القرآن‘‘ ہے. اسی مشن میں میری پوری عمر لگ گئی ہے اور اب میرا آخری قدم ’’رجوع الی الخلافہ‘ ‘ ہے. حضور نے مکے میں قرآن پڑھ کر سنایا اور مدینے میں خلافت کا نظائم قائم فرما دیا.

یہی تدریج اور یہی طریقہ ہے جو میں نے حضور کی سیرت سے سیکھا ہے. حضورکے ہاتھوں یہ مشن بالفعل پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا تھا، لیکن ہم اگر اسی کام میں اپنی جانیں لگا دیں اور کھپا دیں تو ہمارے لیے کامیابی ہی کامیابی ہے. حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی تو اپنی آنکھوں سے اسلام کا غلبہ نہیں دیکھا کہ وہ تو غزوۂ احد میں ہی شید کر دیئے گئے تھے. حضرت یاسرؓ اور حضرت سمیہؓ مکہ ہی میں شہید کر دیئے گئے تھے، انہیں بھی اسلام کا غلبہ دیکھنا تو کیا مدینہ دیکھنا بھی نصیب نہیں ہوا. لیکن معاذاللہ یہ ناکام ٹھہرے؟ اس طرح ہم نظامِ خلافت کی جدوجہد ہی میں اپنی جان دے دیں تو ہم کامیاب ہوں گے، بشرطیکہ یہ یقین رہے کہ نظامِ خلافت کا قیام ہو کر رہے گا… حضور کا مقصع بعثت دین کا غلبہ تھا، جسے قرآن حکیم میں تین بار اِن الفاظ میں بیان فرما دیا گیا: 

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰۦ وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ 
(الفتح: ۱۲۸
’’وہی (اللہ) ہے جس نے بھیجا اپنے رسولؐ کو ہدایت نامہ (قرآن حکیم) اور دین حق کے ساتھ، تاکہ اسے غالب کر دے کل کے کل دین پر.‘‘

اور ایک جگہ فرمایا گیا: 

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا 

’’(اے نبیؐ !) ہم نے نہیں بھیجا ہے آپؐ کو مگر تمام انسانوں کے لیے بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر!‘‘

ان دونوں باتوں کو باہم جوڑنے سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ اگر پورے عالم ارضی پر دین کا غلبہ نہ ہو تو حضور کا مقصد بعثت شرمندۂ تکمیل رہتا ہے. یہی بات علامہ اقبال نے کہی تھی ؎

وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

پورا کرۂ ارضی جب تک نورِ توحید سے جگمگا نہیں جاتا اس وقت تک محمد کا مشن جاری رہے گا. جیسے کبھی میدانِ بدر اور دامن بدر میں حق و باطل کی معرکہ آرائی تھی ویسے ہی حق و باطل کا معرکہ آج بھی جاری ہے. اسے دیکھنے کے لیے بصیرت چاہئے، بصارت چاہئے. بقول اقبال ؏

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی

ہاں، ایک وقت آ کر رہے گا جب شرار بولہبی بجھ جائے، اور چراغِ مصطفویؐ سے چہار دانگ عالم منور ہو جائے گا.