اِن حالات میں ہمارے لیے سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ نظام خلافت کیا تھا جو محمد عربی کے ذریعے قائم ہوا؟ ہم صرف لفظ ’’خلافت‘‘ ہی کی تکرار کرتے رہیں اور نظامِ خلافت کی وضاحت نہ ہو تو ظاہر بات ہے کہ معاملہ آگے نہیں بڑھ سکے گا. ہمیں دنیا کے سامنے واضح کرنا ہو گا کہ وہ نظامِ خلافت ہے کیا جو ہمارے پیش نظر ہے. پھر اس میں روحِ خلافت بھی قائم رہے، وہاں یہ لازم ہے کہ عصر حاضر کے تقاضے بھی اس کے اندر سمو دیئے جائیں. میں اپنی اس بات کو ایک مثال کے حوالے سے واضح کرنا چاہتا ہوں. ایک دَور وہ تھا جب نوعِ انسانی بادشاہت کے علاوہ کسی اور طرزِ حکومت کوجانتی نہیں تھی تواُس زمانے میں خلافت بھی بادشاہت ہی کی شکل میں تھی. حضرت دائودبادشاہ ہی تھے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یَا دَاوٗدَ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ … لیکن حضور کے زمانے میں یہ خلافت مسلمانوں کی ایک مشترکہ متاع بن گئی، اسے اجتماعی حیثیت حاصل ہو گئی. اب مسلمانوں کو خود اپنے میں سے کسی فرد کو خلیفہ چننا ہے. اب خلافت نہ نسلی بنیادوں پر قائم ہو گی اور نہ ہی وراثت میں منتقل ہو گی. بنو امیہ اور بنوعباس کے زمانے میں حکومت کا معاملہ جب نسل اور وراثت کے حوالے سے طے ہونے لگا تو یہ نظا م نظامِ خلافت نہ رہا، بلکہ ملوکیت میں تبدیل ہوگیا. اسی طرح عثمانی خلافت کو بھی ملوکیت ہی کا عہد حکومت کہا جائے گا. چنانچہ اگر ہم دنیا میں پھر سے خلافت کا نظام قائم کرنے چلے ہیں تو اس کی وضاحت ضروری ہے کہ اس کے اصول کیا ہوں گے. اگرچہ اس پہلو سے اس میں بعض علمی باتیں بھی آتی ہیں، پھر بھی ہمیں ان سب باتوں کو سمجھنا ہے تاکہ پہلے خود ہمارے، ہمارے ساتھیوں اور احباب کے ذہن صاف اور واضح ہوں، تبھی ہم دوسرے لوگوں کے خدشات بھی دور کر سکین گے، تبھی چراغ سے چراغ روشن ہو گا. میں آج اپنی بات دس نکات کی شکل میں پیش کررہا ہوں کہ خلافت راشدہ کا دَورِ اوّلین کیا تھا! اب اس نظام کی کیا شکل ہو گی؟

۱ . اللہ کی حاکمیت اور قرآن و سنت کی بالادستی

سب سے پہلا نکتہ دراصل نظامِ خلافت کا اصل تقاضا ہے، یعنی یہ طے کر دیا جائے کہ حاکمیت کا اختیار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے. اس کے برعکس جمہوریت اس اعتبار سے ایک ملعون نظام ہے کہ اس میں حاکمیت کا اختیار عوام کو حاصل ہوتا ہے اور یہی چیز کفر ہے، شرک ہے، اس لیے کہ ؎

سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آذری

اس سے پہلے جمہوریت کے ساتھ اسلام کالاحقہ لگا کر ہم اسے اسلامی جمہوریت کہتے رہے ہیں، لیکن جمہوریت میں عوام کی حاکمیت کا بیج اتنا گہرا پڑا ہوا ہے کہ اسے نکالنے کی لاکھ کوشش کریں لیکن پھر بھی نہیں نکلتا. علامہ نے جمہوریت کے اسی تصور کو بتانِ آذری سے تعبیر کیا. اسلام میں اللہ کے علاوہ کسی کو حاکمیت کا اختیار حاصل نہیں اور ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کی صورت میں پاکستان کے آئین میں طے کر دیا گیا ہے. اس ضمن میں مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کی جدوجہد کو بڑی اہمیت حاصل ہے. قراردادِ مقاصد کی منظوری کے لیے مولانا شبیر احمد عثمانی کو یہ دھمکی بھی دینا پڑی کہ اگر دستور سازاسمبلی قراردادِ مقاصد کو منظور نہیں کرے گی تو میں اسمبلی سے باہر جا کر عوام سے کہوں گا کہ مسلم لیگ نے مسلمانوں کے تحفظ کے لیے دھوکہ بازی کے ذریعے مسلمانوں کے ووٹ حاصل کیے. اس دھمکی کے بعد دستور ساز اسمبلی سے قرارداد مقاصد پاس ہوئی. اس قرارداد کو منظور کرانے کے لیے جماعت اسلامی نے بھی بڑی ہی منظم مہم چلائی جس کا پاکستان کے لوگوں نے ساتھ دیا تھا. جماعت اس وقت تک ایک سیاسی جماعت نہیں تھی اور براہِ راست مدمقابل کی حیثیت سے الیکشن کے میدان میں نہیں آئی تھی، اس لیے جماعت کی اس مہم کی پذیرائی کی گئی کہ یہ اسلام کی بات ہے، سیاست کی بات نہیں، یہ اقتدار کا کھیل نہیں ہے. بہرحال اس قرارداد کی منظوری میں جس کا جتنا ہاتھ ہے، جس کی جتنی کوشش ہے اللہ تعالیٰ ان سب کو اجر و ثواب سے نوازے. الحمد للہ اس قراردادِ مقاصد کی شکل میں ہمارے آئین میں خدا کی حاکمیت کو تسلیم کر لیا گیا ہے.

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کی حاکمیت کی عملی صورت کیا ہے؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں عملاً تو موجود نہیں. اگرچہ وہ ہر جگہ موجود ہے لیکن درمیان میں غیب کا پردہ حائل ہے. لہٰذا اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا نفاذ درحقیقت کتاب و سنت کی غیر مشروط اور بلااستثناء بالادستی کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے. دستور میں اگر کتاب و سنت کی 
بالادستی طے کر دی جائے تو اس طرح اللہ کی حاکمیت کا تقاضا پورا ہو جاتا ہے. مگر ہم نے اس پہلو سے بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ بڑی چالبازیاں کی ہیں، اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے اور اس کی سزائیں بھی مل چکی ہیں اور مل رہی ہیں. ۱۹۷۱ء میں اسی جرم کی سزا کے طور پر پاکستان دولخت ہوا، ہندو کے ہاتھوں ہمارے ایک لاکھ جوان قیدی بنے، لیکن پھر بھی ہم ہوش میں نہ آئے. غنیمت ہے کہ یہ خطہ ابھی باقی ہے. تاہم اللہ کے ساتھ دھوکہ بازی سے ہم باز نہ آئے تو ہو سکتا ہے کہ یہ خطبہ بھی مختلف حصوں میں تقسیم ہو جائے. مشرقی پاکستان تو بنگلہ دیش بن کر ایک وحدت کی حیثیت سے موجود ہے، لیکن اگر خدانخواستہ اس مغربی حصے کو کچھ ہوا تو اس کے کئی ٹکڑے ہونے کا اندیشہ ہے. جب تک ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنی دھوکے بازی بند نہیں کریں گے، بحیثیت قوم شدید خطرے کی زد میں ہی رہیں گے.

یہ دھوکے بازی کیا ہے؟ ہم نے دستورِ پاکستان میں یہ دفعہ رکھی کہ ’’قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہو گی‘‘ لیکن اس دفعہ کو محض ’’راہنما اصول‘‘ 
(Directive Principle) کی حیثیت دی گئی نہ کہ ’‘عملی ضابطہ‘‘ (Operative Clause) کی. گویا اصول کی حد تک کتاب و سنت کی بالادستی قبول ہے، مگر اس کی بنیاد پر عدالتوں میں کوئی معاملہ زیر بحث نہیں لایا جا سکتا تھا. ضیاء الحق مرحوم کے دَور اقتدار تک یہ دھوکے بازی چلتی رہی، تاآنکہ ضیاء الحق نے ایک قدم آگے بڑھایا اور وفاقی شرعی عدالت قائم کر دی، جسے یہ اختیار دیا گیا کہ یہ عدالت جس قانون کو کتاب و سنت کے منافی سمجھے اسے کالعدم قرار دے دے. لیکن وفاقی شرعی عدالت کے معاملے میں ایک اور پہلو سے بہت بڑا دھوکہ یہ کیا گیا کہ اسے دو ہتھکڑیاں اور دو بیڑیاں پہنا دی گئیں. یعنی وہ نہ تو دستورِ پاکستان کے بارے میں اپنی رائے دے سکتی ہے اور نہ ہی عدالتی قوانین کا جائزہ لے سکتی ہے. پھر یہ کہ عدالت مالی قوانین کا جائزہ بھی نہیں لے سکتی اور حد یہ ہے کہ عائلی قوانین پر رائے دینے کی مجاز بھی نہیں. اس قدر پابندیاں اور جکڑبندیاں لگا کر شرعی عدالت بنانے سے کیا کچھ حاصل ہو سکتا تھا؟ آج کے دَور میں مالیات اور اقتصادیات سب سے بڑی شے ہیں، لیکن ان میں بھی شریعت کا عمل دخل پسند نہیں کیا گیا. عائلی قوانین جو ہمارے تمدن کی جڑ اور بنیاد ہیں، وہ بھی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سے ابھی تک باہر ہیں. البتہ مالی قوانین کے ضمن میں دس سال کی جو پابندی عائد کی گئی تھی وہ مدت گزرنے کے بعد یہ ہتھکڑی ازخود کھل گئی ہے. چنانچہ وفاقی شرعی عدالت نے ۲۲ مالی قوانین کو سودی اور خلافِ اسلام قرار دے کر حرام قرار دے دیا ہے اور حکومت کو چھ ماہ کی مہلت دی گئی ہے کہ اس عرصے میں متعلقہ قوانین کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تشکیل دے سکے.

ہماری قومی اسمبلی نے تو وفاقی شرعی عدالت کے اختیارات محدود کرنے سے بھی بڑا دھوکہ کیا ہے. وہ یوں کہ ’’نفاذِ شریعت ایکٹ‘‘ بھی منظور کر لیا اور ساتھ ہی ہر قسم کے سودی کاروبار کو جاری رکھنے کی سند بھی عطا کر دی گئی. اس فیصلے سے گویا بحیثیت قوم ہم نے اللہ کے ساتھ اعلانِ جنگ کر دیا. ہم تو حکمرانوں سے یہی کہہ سکتے ہیں کہ خدارا اللہ تعالیٰ کو دھوکہ مت دو. خدا کے لیے مسلمانوں کو دھوکہ مت دو. وزیراعظم نواز شریف نے نفاذِ شریعت ایکٹ کے اعلان کے ساتھ قوم سے دستور میں ضروری ترمیم کا وعدہ بھی کیا تھا مگر یہ وعدہ وفا ہونے کی نوبت آج تک نہیں آ سکی ہے. جب تک دستور میں یہ ترمیم نہیں ہوتی کہ کتاب و سنت کو پاکستان کے دستور اور نظام و قوانین سب پر بالادستی حاصل ہو گی اس وقت تک نفاذ اسلام کی جانب نتیجہ خیز پیش رفت نہیں ہو سکتی. آئین میں کتاب و سنت کی بالادستی طے کر دی جائے تو یہ معاملہ اعلیٰ عدالتوں کے ذریعے طے ہوتا رہے گا کہ کون سا قانون یا ضابطہ خلافِ اسلام ہے اور کون سا نہیں. یہ اختیار اسمبلی کے ممبران کو بھی نہیں دیا جا سکتا، کیونکہ ان کی عظیم اکثریت اَن پڑھ ہوتی ہے اور جو لوگ پڑھے لکھے ہیں، تعلیم یافتہ ہیں. وہ بھی مغربی تعلیم سے آراستہ ہیں، انہیں دین کا علم حاصل نہیں. چنانچہ یہ کام عدالت ہی کر سکتی ہے. وہاں علماء بھی اپنے دلائل پیش کریں، دانشور حضرات بھی 
اپنی بات رکھیں، اس لیے کہ عدالت کی فضا تو سیاسی جلسے سے بہت مختلف ہوتی ہے، عدالت اَن پڑھ لوگوں کی پارلیمنٹ نہیں ہوتی. ایک بزرگ جو اَب فوت ہو چکے ہیں، وہ ’’پڑھے لکھے ان پڑھ‘‘ کی اصطلاح استعمال کیا کرتے تھے. ایک شخص نے ایک طرف ایم بی بی ایس کیا ہوا ہے، پی ایچ ڈی کی ڈگری کا حامل ہے، لیکن دوسری طرف دین کا ایک حرف بھی نہیں پڑھا تو اس حوالے سے وہ جاہل مطلق ہے، جبکہ اسمبلی میں تو ’’چٹے اَن پڑھ‘‘ بھی ہوتے ہیں جو زمینداری اور وڈیرا شاہی کی وجہ سے وہاں پہنچ جاتے ہیں. شریعت کے حلال و حرام کا فیصلہ ایسے لوگوں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا.

۲ . خلیفہ کا براہِ راست انتخاب

خلافت راشدہ کے عہد میں خلافت کا منصب مسلمانوں کے باہمی مشورے سے پُر کیا جاتا تھا. اس ضمن میں حضرت عمرؓ کا خطبہ بڑی اہمیت کا حامل ہے. آپؓ کا یہ خطبہ مسند احمدؒ میں بھی موجود ہے اور اسے امام بخاریؒ نے بھی اپنی صحیح میں نقل کیا ہے. ایک موقع پر حضرت عمر فاروقؓ کو جب یہ اطلاع ملی کہ کچھ لوگ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں کہ اگر کسی وقت اچانک عمرؓ کا انتقال ہو جائے تو اس صوت میں ہم فوراً فلاں شخص کے ہاتھ پر بیعت کر لیں گے تو حضرت عمرؓ نے اس حوالے سے مدینہ میں ایک طویل خطبہ ارشاد فرمایا: ’‘لوگو! میں تمہیں ان لوگوں کی سازش سے خبردار کرنا چاہتا ہوں جو تمہیں تمہارے حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں، اس لیے کہ خلیفہ کا انتخاب مسلمانوں کے باہمی مشورے سے ہی ہو سکتا ہے. اگر خلیفہ کے منصب کے لیے کسی شخص کی اچانک بیعت کر لی گئی تو وہ بیعت بیعت ہی نہیں ہو گی. ‘‘ صحیح بخاری میں تو الفاظ یہ بھی ہیں کہ ’’جس کی بیعت کی گئی نہ اس کی کوئی حیثیت ہو گی اور نہ بیعت کرنے والے کی بیعت کی‘‘… ایسے سب کے سب لوگ نااہل ہو جائیں گے. خلافت کا منصب اگر مِنْ غَیْرِ مَشْوَرَۃِ الْمُسْلمین (مسلمانوں کے مشورے کے بغیر) طے ہوا ہو تو ایسا فعل خلافِ اسلام ہو گا. یہ بات بھی سمجھ لیجئے کہ اُس وقت آج کی طرح بیلٹ بکس نہ تھے، انتخابات کا باقاعدہ نظام بھی موجود نہ تھا، تاہم صحابہ کرامؓ کے مابین ایک درجہ بندی قائم تھی. اصحابِ بدر بھی معین تھے، عشرہ مبشرہ بھی معلوم و معروف تھے اور بیعت رضوان کے حوالے سے اصحابِ شجرہ بھی موجود تھے. اب اس طرح کی درجہ بندی موجود نہیں ہے. اسی طرح وہاں قبائلی نظام رائج تھا اور اس نظام میں ایک ایک آدمی سے رائے نہیں لی جاتی تھی، لیکن آج تمام مسلمان ایک ہی حیثیت کے مالک ہیں. اب تو مسلمانوں کے باہمی مشورے کی ایک ہی شکل ہے کہ خلیفہ کے براہِ راست انتخاب کے لیی تمام مسلمان، مرد بھی اور عورتیں بھی، اپنا ووٹ استعمال کریں اور اکثریتی ووٹ حاصل کرنے والا شخص خلیفہ کے منصب کا اہل ہو. اگرچہ بعض حضرات کا یہ موقف بھی سامنے آیا ہے کہ ووٹ دینے کا حق صرف اہل تقویٰ کو حاصل ہونا چاہئے، ووٹ دینے والا کم از کم نماز کا تو پابند ہو، لیکن آج کے دَور میں اس طرح کی سب باتیں غلط ہیں، اس لیے کہ امام ابوحنیفہؒ نے اس بات کو ہمیشہ کے لیے طے کر دیا کہ ’’اَلْمُسْلِمُ کُفُوٌ لِکُلِّ مُسْلِمٍ‘‘ یعنی مسلم فاسق ہو یا متقی ہو، دونوں کے قانونی حقوق یکساں ہوں گے. یہ بات جان لیجئے کہ اسلام کا قانون یہ ہے کہ تقویٰ اور فسق و فجور دونوں کا ثواب و عذاب آخرت سے متعلق ہے. اس دنیا میں سماجی سطح پر تمام مسلمان یکساں حیثیت کے حامل ہیں اور قانون کی سطح پر بھی تمام مسلمان باہم برابر ہیں. اس بات کو نہایت سادہ مثال سے سمجھئے! ایک باپ کے اگر دو بیٹے ہوں، جن میں سے ایک متقی ہو، تہجد گزار ہو اور دوسرا فاسق ہو اور نماز کے قریب بھی نہ پھٹکتا ہو، تب بھی دونوں کو وراثت میں ایک جیسا حصہ ملے گا. متقی کو زیادہ اور فاسق کو کم نہیں. اس بنیاد پر ووٹ کا حق ہر مسلمان کو حاصل ہے. یہی روحِ عصر بھی ہے اور آج کے دَور کا تقاضا بھی.

پورے ملک کی سطح پر خلیفہ براہِ راست انتخاب ہو گا. اس اصول کو اختیار کرنے سے چھوٹے چھوٹے اور علاقائی وڈیرے غیر مؤثر ہو جائیں گے. لوگ لازماً 
یہ دیکھیں گے کہ کون شخص خلیفہ کے منصب کی واقعی اہلیت رکھتا ہے. ہمارے عوام کے اندر شعور ہے چاہے ان کی اکثریت کا طرزِ عمل فاسق و فاجر لوگوں سے ہی مشابہت کیوں نہ رکھتا ہو. عوام خوب جانتے ہیں کہ اسلام کیا ہے اور کیا نہیں ہے، لہٰذا اس طریق کار کے تحت اپنی رائے کسی اہل تر شخص کے حق ہی میں دیں گے. البتہ یہ اصول طے کرنا پڑے گا کہ جو لوگ انتخابات کے لیے آگے آئیں، یہ چاہے خلیفہ کے منصب کا انتخاب لڑے رہے ہوں یا مجلس ملی یعنی پارلیمنٹ کا، ہر دو صورتوں میں ان کے کردار و اخلاق کی پوری چان بین ضروری ہو گی. اس لیے کہ ایسے لوگ حرام خوری کرنے والے نہ ہوں، بدکردار نہ ہوں تب ہی بات بنے گی. میرے خیال میں ہر ووٹر کے لیے اس طرح کی شرائط عائد کرنا ضروری نہیں ہے. اس طرح سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے اور عوام الناس کو حق رائے وہی حاصل ہو جاتا ہے.

۳ . مخلوط قومیت کی نفی اور غیر مسلموں کے حق کا تحفظ

خلافت کے نظام میں اگلی بات غیر مسلموں کی حیثیت سے متعلق ہے. اسلامی ریاست میں غیر مسلم برابر کا شہری نہیں ہو سکتا، غیر مسلم ذمی ہو گا. ہمارے یہاں تو عجیب و غریب تماشے ہوتے رہے ہیں. ضیاء الحق نے مجلس شوریٰ بنائی تو اس میں مسلمان تو تھے ہی، ان کے ساتھ ساتھ ہندو، عیسائی اور پارسی بھی مجلس شوریٰ کے رکن تھے. کیا ایسے ایوان کو مجلس شوریٰ کا نام دیا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں! میں بھی غلطی سے اس شوریٰ کا رکن بن گیا تھا لیکن صرف دو مہینے کے بعد ہی میں نے اسے چھوڑ دیا. خلافت کے نظام میں ایسا نہیں ہو سکتا. البتہ غیر مسلم رعایا کو ہر طرح کا تحفظ حاصل ہو گا. ان کی جان، عزت، آبرو اور مال کی حفاظت کی ذمہ داری اسلامی ریاست ہو گی اور اسی حوالے سے اسلمی ریاست کے غیر مسلم باشندوں کو ’’ذمی‘‘ کہا جاتا ہے. غیر مسلم رعایا کی جان بھی اتنی ہی محترم ہو گی جتنی کسی مسلمان کی محترم ہوتی ہے. ان کی عزت و آبرو بھی اتنی ہی محترم ہے جتنی کسی مسلمان کی، ان کی جائیداد کی حفاظت کا اتنا ہی اہتمام ہو گا جتنا کسی مسلمان کی جائیداد کا اہتمام ہو گا. انہیں عقیدہ و عبادت کی مکمل آزادی حاصل رہے گی، ان کی عبادت گاہیں اتنی ہی مقدس اور محترم ہوں گی جتنی خود مسلمانوں کی مسجدیں سمجھی جاتی ہیں. انہیں اپنے مذہب کی تبلیغ اپنی آئندہ نسلوں اور اپنی ہم عقیدہ قوم میں کرنے کا حق حاصل ہو گا، البتہ یہ لوگ مسلمانوں میں اپنے مذہب کی تبلیغ نہیں کر سکیں گے.

پاکستان میں عیسائیت کو تیزی سے فروغ حاصل ہو رہا ہے اور اقلیتی رکن قومی اسمبلی جے سالک کے مابق مسیحی آبادی ۷۵ لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے. اگرچہ یہ اعداد و شمار کسی بھی طرح صحیح نہیں ہیں لیکن پھر بھی عیسائیت کو پاکستان میں فروغ تو دیا جا رہا ہے. پوری دنیا میں عیسائیت کے فروغ کے لیے چند آتے ہیں. عیسائی مشنریوں کے سالانہ بجٹ بعض ممالک کے بجٹ کی رقوم سے بھی زیادہ ہوتے ہیں. جیسے لکڑی کو دیمک اندر ہی اندر چٹ کر جاتی ہے ویسے ہی ہمارے معاشرے میں عیسائیت کی تبلیغ ہو رہی ہے. قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے لیکن اس کے باوجود قادیانیوں کی تبلیغ کا سلسلہ جاری ہے اور یہ سلسلہ پورے زور کے ساتھ اندر ہی اندر چل رہا ہے.

اسلامی ریاست میں کوئی غیر مسلم رعایا برابر کے شہری کی حیثیت نہیں رکھتی، لہٰذا خلیفہ کے انتخاب میں یہ لوگ رائے دینے کے مجاز نہ ہوں گے. ایسے لوگ نہ تو مجلس شوریٰ کے رکن بن سکین گے اور نہ اراکین شوریٰ کے انتخاب میں ووٹ دینے کے اہل ہوں گے. تکنیکی نوعیت کی ملازمتوں میں ان لوگوں کے لیے راستہ کھلا ہو گا. چنانچہ طب کا شعبہ ہو یا انجنیئرنگ کا میدان، ایسے شعبہ جات میں ان کے لیے گنجائش ہو گی، لیکن جہاں تک قانون سازی اور پالیسی سازی کا تعلق ہے اس میں کسی غیر مسلم کو شریک نہیں کیا جائے گا. یہی نظام خلافت راشدہ کے عہد میں رائج تھا اور اب بھی یہی اصول کار فرما ہو گا.

ایسے لوگوں سے 
یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍوَّھُمْ صَاغِرُوْنَ کے مصداق جزیہ لیا جائے گا. ’’جزیہ‘‘ کوئی گالی نہیں ہے بلکہ قرآنی اصطلاح ہے. جزیہ کا لفظ جزا سے بنا ہے جبکہ ذمی ذمہ سے بنا ہے. میری اس بات کو ایک مثال سے سمجھئے. خلافت راشدہ کے دَور میں جہادِ اسلامی کا فریضہ جاری تھا. اسی دَوران شام کا ایک شہر مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا تو متعلقہ حکام نے وہاں کے باشندوں سے جزیہ کی رقم وصول کر لی. جزیہ کی وصولی کے بعد ایسی صورتِ حال بن گئی کہ مسلمانوں کویہ شہر چھوڑنا پڑ رہا تھا، دفاعی اقدام کے طور پر اسے خالی کرنا ضروری تھا. اس موقع پر اسلامی افواج کے سپہ سالار حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غیر مسلم رعایا کو بلایا اور ان کی پوری رقم یہ کہہ کر واپس کر دی کہ ہم نے آپ لوگوں سے آپ ہی کی حفاظت کے معاوضے کے طور پر ’’جزیہ‘‘ کی صورت میں رقم لی تھی، لیکن اب چونکہ ہمیں اس شہر کو چھوڑنا پڑ رہا ہے اور ہم آپ لوگوں کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں لے سکتے لہٰذا جزیہ کی یہ رقم واپس کی جاتی ہے. اس موقع پر وہاں کی عیسائی آبادی دھاڑیں مار مار کر رونے لگی کہ ایسے راست باز اور با اخلاق لوگ تو ہم نے آج تک دیکھے ہی نہیں. ہمارے حاکم تو ظالم تھے، لیکن مسلمانوں کی دیانت کا یہ عالم ہے کہ جزیہ کی رقم بھی واپس کر دی گئی ہے. اسلامی ریاست میں ہندو، عیسائی، قادیانی اور پارسی وغیرہ سب کو اپنی حفاظت کے عوض حکومت کو ایک ٹیکس ادا کرنا ہو گا، اس ٹیکس کا نام ’’جزیہ‘‘ ہے. اب ہمیں اپنے اندر ایسی جرأت پیدا کرنا ہو گی کہ اس طرح کی باتیں ہم ڈنکے کی چوٹ پر کہہ سکیں اور روایتی معذرت خواہانہ اندازِ فکر کو ترک کر دیں.

۴ . نظام صلوٰۃ کا قیام

چوتھی چیز نماز کے نظام کا قیام ہے. آپ کہیں گے کہ نماز کا نظام تو اب بھی قائم ہے. تو حقیقت یہ ہے کہ اس وقت نماز کا نظام قائم نہیں ہے. اس لیے کہ اسلام میں دوئی کا کوئی تصور نہیں ہے. رسول اللہ خود مسجد نبویؐ کے خطیب اور امام بھی تھے اور یہی معاملہ خلفائِ راشدین کا ہے. اسی طرح درجہ بدرجہ تمام عامل (گورنر، کمشنر وغیرہ) نمازِ جمعہ کی امامت کا فریضہ بھی ادا کرتے تھے اور مملکت کے فرائض بھی سر انجام دیتے تھے. حنفی فقہ کے مطابق حکومت کی اجازت کے بغیر کوئی شخص جمعہ نہیں پڑھا سکتا. نمازِ پنجگانہ کا اہتمام عام مساجد میں ہر کوئی کر سکتا ہے اور پڑھا بھی سکتا ہے، مگر جامع مسجد کا انتظام حکومت کی اجازت اور نظم کے تحت ہی قائم ہو سکتا ہے. آج کی طرح کا معاملہ نہیں کہ چلتا پھر کوئی آدمی لا کر مصلے پر کھڑا کر دیا اور اسے امام کہہ د یا. ایسے تصورِ دین و مذہب پر علامہ اقبال نے پھبتی چست کی تھی ؎

قوم کیا چیز ہے، قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا سمجھیں یہ بے چارے دو رکعت کے امام

ان کی جو عزت معاشرے میں ہے وہ ہم سب کو معلوم ہے. دیہات کی مسجد کا مولوی زمیندار کے ’’کمی‘‘ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا اور شہروں کے اندر مولوی حضرات انتظامیہ کمیٹی ہی کے دست نگر ہوتے ہیں. ہاں چالاک اور ذہین و فطین لوگوں کے اس حوالے سے بڑے ٹھاٹھ کے دھندے ضرور چل رہے ہیں. تاہم ان آئمہ اور خطباء میں بہت سے متقی، پرہیزگار اور خدا ترس بھی ہیں. نظامِ خلافت کے تحت پوری ریاست کی سطح پر نماز کا نظام قائم ہو گا اور خلیفۂ وقت دارالخلافہ کی جامع مسجد کا خطیب و امام خود ہو گا. صوبائی صدر مقامات اور درجہ بدرجہ دیگر جگہوں پر بھی اسی طریقے سے نماز کا اہتمام ہو گا.

۵ . زکوٰۃ کی کامل تنفیذ

زکوٰۃ کے شرعی فریضے کو بھی ہم نے بہت زیادہ بدنام کر رکھا ہے اور بدقسمتی سے ضیاء الحق مرحوم کے زمانے میں اس ضمن میں جو قدم اٹھایا گیا اس نے زکوٰۃ کو مزید بدنام کر دیا. زکوٰۃ کا اصل مقصد ہے کیا؟ اسے سمجھنا نہایت ضروری ہے. زکوٰۃ کا اسلام کے معاشی شعبے میں بہت اہم حصہ ہے. ہر شہری کی بنیادی ضروریات کی کفالت اسلامی ریاست کی اوّلین ذمہ داری ہے. کوئی شخص بھوکا رہتا ہے تو اس کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے. اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا کہ ’’اگر دریائے فرات کے کنارے پر کوئی کتا بھی بھوکا مر گیا تو قیامت کے دن اس کی جواب دہی عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے ہو گی‘‘ معلوم ہوا کہ ہر شہری کے لیے روٹی، کپڑا، مکان، لباس اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی ریاست کے ذمے ہے. کبھی ذالفقار علی بھٹو نے بھی روٹی، کپڑے اور مکان کا نعرہ لگایا تھا، لیکن وہ محض ایک نعرہ ہی تھا. سیاسی اختلافات کی وجہ سے اس نعرے کے خلاف ۳۱۳ علماءکے فتوے بھی جاری ہو گئے تھے. جاننا چاہیے کہ روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ کافرانہ نعرہ نہیں ہے،بلکہ یہ چیزیں انسان کی بنیادی ضروریات میں داخل ہیں اور ان کا حصول ہر شہری کا حق ہے. اگر آپ اسلام کا نظامِ خلافت قائم کرنے کی بات کرتے ہیں تو یہ ذمہ داری آپ کو نبھانی پڑے گی کہ کوئی شہری روٹی، کپڑے اور مکان جیسی بنیادی ضروریات سے محروم رہا تو خلافت کا حق ادا نہیں ہو گا. قول و عمل میں تضاد جلد ہی لوگوں کے سامنے آ جاتا ہے. چنانچہ بھٹو کی وڈیرہ شاہی جلد ہی سامنے آ گئی. اسے تاریخ میں ایک بہت بڑا موقع حاصل تھا. وہ چاہتا تو جاگیرداری نظام کا خاتمہ کر سکتا تھا. دین کے ساتھ اس کا کوئی عملی تعلق نہیں تھا لیکن وہ اس ملک کا ماؤزے تنگ تو بن ہی سکتا تھا، مگر وہ اپنی جاگیردارانہ کھال سے باہر نہیں نکل سکا. تاہم جو نعرہ اس نے لگایا وہ صحیح تھا ’’کَلِمَۃُ حَقٍّ اُرِیْدَ بِہِ الْبَاطِل‘‘ کے مصداق اس نعرے سے وہ جو مقصد حاصل کرنا چاہتا تھا وہ کوئی اور تھا.

سوال یہ ہے کہ ہر شہری کی بنیادی ضروریات پوری کرنا اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے تو اسلامی ریاست یہ سب کچھ کیسے فراہم کرے گی؟ نظام خلافت ہر شہری کو بنیادی ضروریات کہاں سے فراہم کرے گا؟ یہ سب کچھ زکوٰۃ کی مدد سے پورا ہو گا.بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا اور اس تصور کو بدنام کر دیا، اسی طرح ضیاء الحق نے زکوٰۃ کو بدنام کر دیا کہ صرف بینک ڈیپازٹ میں سے زکوٰۃ کاٹی جائے گی. یعنی سود مین سے زکوٰۃ کاٹ لو، نجاست میں سے نجاست کو منہا کر لو، اس لیے کہ بینک ڈیپازٹ پر لوگوں کو سود ملتا ہے اور یہی سود سب سے بڑی نجاست اور گندگی ہے. 
واقعہ یہ ہے کہ انسانی فضلہ بھی اس قدر گندگی کا حامل نہیں ہے جس قدر گندگی کا حامل سود ہے. جتنا بڑا جرم اور گناہ سود ہے اتنا بڑا دوسرا کوئی جرم نہیں، اس لیے کہ حضور نے فرمایا: (اَلرِّبَا سَبْعُوْنَ جَزْئً اَ یسرُھَا اَنْ یَّنْکِحَ الرَّجُلُ اُمَّہُ) یعنی سود کے گناہ کے ستر حصے ہیں اور اس کا ہلکا ترین حصہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کا ارتکاب کرے. تو اس غلاظت میں سے آپ نے ڈھائی فیصد شرح سے نجاست منہا کر لی اور اسے زکوٰۃ کا نام دے دیا تو کیا زکوٰۃ کا نظام قائم ہو گیا؟ حالانکہ بعض علماء کے نزدیک بینک ڈیپازٹ اموالِ باطنہ کی ذیل میں آتا ہے اور اموالِ باطنہ پر حکومت جبراً زکوٰۃ وصول نہیں کر سکتی. یہی موقف مولانا مفتی محمود کا تھا اوراموالِ باطنہ اور اموالِ ظاہرہ کے مسئلے پر بحث و تمحیص کے دَوران ہی مفتی صاحب کراچی میں قائم بنوری ٹائون کی مدرسے ہی میں انتقال کر گئے.

حکومت اموال ظاہرہ پر جبراً زکوٰۃ وصول کر سکتی ہے جس میں مال تجارت سر فہرست ہے اور مالِ تجارت کی کل مالیت پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے نہ کہ منافع پر. کاروبار میں نفع ہو یا نقصان اس سے کوئی بحث نہیں، حاضر مال پر زکوٰۃ ادا کرنا پڑے گی. اسی طرح کارخانوں اور فیکٹریوں کا معاملہ ہے. کارخانوں کی زمین، ان کی عمارت، ان کی مشینری، کارخانے کے اوزار اور آلات سب زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہوں گے، لیکن کارخانے مین تیار مال اور خام مال دونوں کی مالیت کو جمع کر کے ڈھائی فی صد کے حساب سے زکوٰۃ وصول کرلی جائے گی. زکوٰۃ کے اس نظام سے اس مد میں اس قدر روپیہ جمع ہو جائے گا کہ ریاست ہر شہری کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کا ذمہ لے سکتی ہے. اور وہ وقت بھی آ سکتا ہے جب لوگ اپنے اموالِ باطنہ کی زکوٰۃ لیے لیے پھریں گے لیکن اسے لینا والا کوئی نہ ہوگا جیسے خلافت راشدہ کے دَور میں ہوا تھا. آج دنیا میں کافروں نے یہ سب کچھ کر دکھایا ہے کہ وہاں ویلفیئر کا نظام بہت ہی مضبوط بنیادوں پر استوار ہے جو ہر بے روزگار، معذور اور مجبور شہری کی کفالت کا ضامن ہے. یہاں بھی ہر صاحب نصاب مسلمان زکوٰۃ دینے کے لیے تیار ہے لیکن 
آپ انکم ٹیکس کی لعنت کا خاتمہ تو کریں، دوسرے لعنتی قسم کے ٹیکس بھی ختم کر دیں. نظام خلافت کے تحت زکوٰۃ کا جو نظام قائم ہو گا اس میں ان تمام ٹیکسوں سے لوگوں کو نجات حاصل ہو جائے گی. انکم ٹیکس کے نظام نے ہر کاروباری آدمی کو جھوٹا اور بے ایمان بنا دیا ہے، اس لیے کہ اسے غلط گوشوارہ داخل کرنا پڑتا ہے، ورنہ کاروبار کی بساط تہہ کرنا پڑتی ہے. آدمی جب ایک دفعہ کسی معاملے میں جھوٹ بولتا ہے، چاہے مجبوراً ہی سہی، پھر جھوٹ اس کی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے اور زہر معاملے میں جھوٹ کی حکمرانی قائم ہو جاتی ہے.

۶ . سود کا کامل انسداد

نظامِ خلافت میں سود کے کامل انسداد کے ذریعے معیشت کی تطہیر کی جائے گی. حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ سود کو بھی چھوڑ دو اور جس چیز میں سود کا شائبہ بھی پایا جاتا ہو، اسے بھی چھوڑ دو. دَور ملوکیت میں بہت سی غلط چیزوں کے جواز کا فتویٰ دے دیا گیا تھا، جیسے ادھار مال کی فروخت پر زائد بھائو لگنا جائز سمجھا جاتا ہے، حالانکہ یہ سود ہی کی شکل ہے. اگر یہ سود نہیں تو سود اور کس بلا کا نام ہے. اگر کوئی شخص کسی دوسرے فرد کو ایک سو روپیہ قرض دے اور دس روپے کا اضافہ مانگے تو یہ سود ہے، لیکن اگر سو روپے کی کوئی شے ادھار بیچے اور اس کے ۱۱۰ روپے وصول کرے تو یہ سود نہیں تو اور کیا ہے؟ سینیٹر حافظ حسین احمد کا بیان آپ لوگوں نے بھی اخبارات میں پڑھا ہو گا جس میں انہوں نے اپنے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی وجہ سے اب حکومت سود ہی کو سند جواز عطا کرنے کی کوشش کرے گی. یعنی بیع مؤجل اور بیع مرابحہ کی آڑ میں سود کو جائز قرار دلوانے کی کوشش ہو گی. اس موضوع پر مفتی سیاح الدین کاکاخیلؒ کا تفصیلی مضمون ’’حکمت قرآن‘‘ کے ماہ جنوری ۱۹۹۲ء کے شمارے میں شائع ہوا ہے، تفصیل کے طالب حضرات کو اس کا مطالعہ کرنا چاہئے.

۷. جاگیرداری نظام کا خاتمہ

ساتویں بات جاگیرداری کا سدباب ہے. میری گفتگو میں بار بار حضرت عمرؓ کا نام آ رہا ہے. ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں کو اس سے کچھ تکلیف بھی محسوس ہوتی ہو کہ انہیں ہر معاملے میں عمر رضی اللہ عنہ ہی نظر آتے ہیں. اس کی بھی ایک وجہ ہے، اور وہ یہ کہ اسلامی نظام خلافت کی برکات پوری طرح حضرت عمرؓ کے دَور خلافت میں ہی ظاہر ہوئی تھی. رسول اللہ کی حیات ِ طیبہ میں انقلابی جدوجہد کا مرحلہ سر کیا جا رہا تھا، ہر طرف جہاد و قتال کے معرکے برپا تھے، جبکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہد خلافت میں ہر چہار طرف سے فتنہ پرور عناصر کھڑے ہو گئے ہیں. یہ لوگ مانعین زکوٰۃ کی شکل میں بھی سامنے آئے اور جھوٹے مدعیان نبوت کی صورت میں بھی ظاہر ہوئے. حضرت ابوبکرؓ کا مختصر عہد حکومت ان سازشوں کو ختم کرنے ہی میں ختم ہو گیا. خلافت راشدہ کے نظام کا پھول پوری طرح دَور فاروقی ؓ میں کھلا اور حضرت عثمانؓ کی خلافت کے پہلے دس برس بھی اسی شان و شوکت کے حامل تھے جس میں خلافت راشدہ کی برکات اپنے عروج پر نظر آتی تھیں. چنانچہ جاگیرداری نظام کے خاتمہ کے ضمن میں بھی حضرت عمرؓ کا اجتہاد فیصلہ کن امر بن کر سامنے آتا ہے. عہد فاروقیؓ میں مسلمان افواج نے عراق، مصر اور شام جیسے علاقے بھی فتح کر لیے تو مجاہدین نے حسب دستور مفتوحہ زمینوں کی تقسیم کا مطالبہ کیا کہ یہ اراضی مالِ غنیمت ہے. غنیمت کے مال کی تقسیم کا یہ قانون ہے کہ پانچواں حصہ ریاست یعنی بیت المال کا ہوتا ہے اور باقی مجاہدین میں تقسیم ہوتا ہے. حضرت عمر نے مفتوحہ زمینوں کا فیصلہ شوریٰ کے سامنے رکھا. بڑی طویل بحث و تمحیص اور ردوقدح کے بعد طے ہوا کہ مفتوحہ اراضی پر مالِ غنیمت کا قانون لاگو نہیں ہو گا بلکہ اس پر مال فے کے مصارف کا اطلاق ہو گا. اس بناء پر تمام تر اراضی بیت المال کی ملکیت قرار پائیں اور ان کا خراج براہِ راست بیت المال میں پہنچنے لگا اور یہی خراج تمام مسلمانوں کی اجتماعی بہبود پر خرچ ہوتا رہا. اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ اگر اس وقت حضرت عمرؓ یہ اراضی مجاہدین میں تقسیم کر دیتے تو بدترین قسم کا جاگیردارانہ نظام لازماً قائم ہو جاتا . جس طرح زکوٰۃ کے ضمن میں میں نے آپ حضرات کے سامنے اموالِ ظاہرہ اور اموالِ باطنہ کی دو تقسیمیں رکھی ہیں ویسے ہی اراضی کے ضمن میں عشری اراضی اور خراجی اراضی کی دو اقسام ہیں. جو علاقے کسی بھی وقت مسلمانوں نے بزورِ شمشیر فتح کیے ہوں اور ان کی زمینیں قیامت تک کے لیے خراجی قرار پاتی ہیں. پاکستان کی اکثر وبیشتر اراضی بھی خراجی ہیں. پاکستان کی زمینیں کسی شخص کی ملکیت نہیں ہیں، کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہیں. یہ جاگیریں انگریز حکمرانوں نے اپنے حواریوں اور کاسہ لیسوں کو مسلمانوں سے غداری کے عوض انعام میں دی تھیں، لہٰذا جاگیرداروں اور زمین داروں کا حق ملکیت از خود ساقط ہو جاتا ہے. نظامِ خلافت میں ہمیں ایک نیا بندوبست اراضی تشکیل دینا ہو گا تاکہ زمین کے سینے کو چیرنے والے اور اس میں اپنا خونِ جگر دینے والے کاشتکار کوبھی اس کی محنت کا معاوضہ مل سکے! یہ کاشتکار، یہ کسان، یہ ہاری سب کے سب حیوانوں کی سطح پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں. یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ کبھی کمیونزم کے سرخ سویرے کی طرف دیکھتے ہیں اور کبھی کوئی دھوکہ باز کوئی اور سبز باغ دکھا کر انہیں اپنے پیچھے لگا لیتا ہے. اس معاملے میں بھی اصل جرم ہمارا ہے کہ اسلام نے جو حل دیا ہے اسے ہم اختیار نہیں کرتے، لہٰذا یہ لوگ پھر چار و ناچار کسی دوسرے ’’ازم‘‘ کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہوتے ہیں. بہرحال جاگیرداری کا سدباب حضرت عمرؓ نے اپنی بے پناہ بصیرت کی بناء پر کر دیا تھا اور آج بھی اسی اجتہاد کی بنیاد بنا کر ہم موجودہ زمینداری نظام کو ختم کر سکتے ہیں.

۸ . شراب اور جوئے پر پابندی

نظام خلافت میں شراب اور جوئے پر مکمل پابندی عائد ہو گی کہ یہ چیزیں رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ کے قبیل سے تعلق رکھتی ہیں. لاٹری سیف گیم ریفل کے نام سے ہو یا فاطمید ریفل ٹکٹ کے نام سے، یہ سب جو اہے اور شیطانی دھندہ ہے. لاٹری کی شکل میں جوئے کی یہ لعنت بھی ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے جس سے ہمیں چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا. انگریز جس طرح سود کی لعنت کو ہمارے گلے کا ہار بنا گیا تھا ویسی ہی خباثت جوئے کی شکل میں بھی چھوڑ گیا ہے.

شراب اور جوئے کو قرآن مجید میں ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے. وہ اس لیے کہ یہ دونوں اشیاء انسانوں کو محنت سے دُور بھگا دیتی ہیں. شراب کے نشے میں دھت انسان حقائق کا سامنا کرنے کی بجائے ان سے گریز کی راہ اختیار کرتا ہے اور جوا محنت کی بجائے دائو کھیلنے کی ترغیب ہی کا دوسرا نام ہے. دراصل یہ دونوں چیزیں انسانی شرافت اور وقار کے منافی ہیں. حقائق کا دلیری کے ساتھ سامنا کرنا ہی اصل مردانگی ہے اور محنت ہی انسان کا اصل زیور ہے.

۹ . مکمل سماجی اور قانونی مساوات

نظامِ خلافت میں کامل انسانی مساوات کا تصور کار فرما ہو گا. تمام انسان برابر سمجھے جائیں گے، نہ کوئی اونچا ہو گا اور نہ کوئی نیچا. اسلامی معاشرے میں کوئی سید اونچا اور کوئی مصلی نیچا نہیں. ایسے تمام تصورات کو ختم کرنا ہو گا اور ان کی جڑیں کھودنا ہوں گی، اس لیے کہ اسلام میں اونچ نیچ کا کوئی تصور موجود نہیں ہے. حضرت عمرh حضرت بلال حبشیؓ کو سیدنا بلال کہہ کر مخاطب کرتے تھے.

اسی طرح قانون کی نظر میں سب لوگ برابر ہوں گے. اسلام کے عدالتی نظام میں یہ تصور موجود نہیں ہے کہ سربراہِ مملکت یا خلیفۂ وقت عدالت میں حاضری سے مستثنیٰ ہے. یہ تو خیر اتنی انہونی بات نہیں ہے. لیکن نظام خلافت میں دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ مطلوبہ گواہوں کی عدم دستیابی کے باعث خود خلیفۂ وقت کا مقدمہ عدالت سے خارج کر دیا گیا تھا. حضرت علیؓ کا مقدمہ قاضی شریح ؒ کی عدالت میں زیر سماعت تھا اور یہ مقدمہ اس لیے خارج ہو گیا تھاکہ حضرت علیؓ کے پاس غلام اور بیٹے کی گواہی کے علاوہ کوئی دوسری شہادت موجود نہ تھی، اور یہ شہادتیں اسلام کے قانونِ شہادت کے مطابق قابل قبول نہ تھیں. لہٰذا مقدمہ خارج ہو گیا. اسلام کے اس قدر بے لاگ انصاف کو دیکھ کر شریک مقدمہ یہودی اسلام لے آیا. چنانچہ 
سربراہِ مملکت کو حاصل خصوصی تحفظات ہوں یا ممبران اسمبلی کا استحقاق ہو، یہ سب غیر اسلامی چیزیں ہیں. اسلام میں خلیفہ کو بھی کوئی خصوصی تحفظ مقامِ امتیاز حاصل نہیں ہے.

ا لبتہ اگر یہ ضرورت محسوس ہو کہ بدمعاش قسم کے لوگ ہر وقت خلیفہ کو مقدمے بازی ہی میں نہ پھنسائے رکھیں تو سدباب بھی کیا جا سکتا ہے. اس معاملے میں حد قذف پر قیاس کرتے ہوئے اس طرح حل کیا جا سکتا ہے کہ خلیفۂ وقت پر جھوٹا اور غلط مقدمہدائر کر نے والے شخص کو بھی سزا دینے کا قانون بنا دیا جائے.

۱۰ . مخلوط معاشرت کا سد باب

اس ایک بات میں سو باتیں جمع ہیں. اسلام کے سماجی نظام میں عورتوں اور مردوں کا دائرہ کار علیحدہ اور جدا ہے. عورتوں کا جسمانی نظام بھی مردوں سے مختلف ہے اور نفسیاتی ساخت بھی جدا ہے، لہٰذا دونوں اصناف کی ذمہ داریاں جدا ہیں، حال کا معاملہ مردوں کے حوالے اور قوم کا مستقبل عورتوں کے حوالے ہے، کیونکہ نئی نسل کی پرورش اور تربیت ہی تو مستقبل ہے. عورت کے لیے حمل کا زمانہ، بچے کو دودھ پلانے کا عرصہ اور پھر اس کی نگہداشت کیا یہ سب کچھ غیر اہم اور غیر پیداواری کام ہیں کہ اسے شمع محفل بنائے بغیر چارہ نہیں. اقبال نے کہا تھا ؎

بتولے باش و پنہاں شو ازیں عصر
کہ در آغوش شبیرے بگیری

اے مسلمان خاتون! تُو اگر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما جیسا کردار اختیار کر لے تو تیری گود میں حسن اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما جیسے پھول کھلیں گے. چنانچہ ہمیں ایسی خواتین درکار ہیں، ایسی ماؤں کی ضرورت ہے، ایسی بہنوں کی ضرورت ہے، ایسی ہی بیویوں کی ضرورت ہے. ہمیں ہر جائی خواتین کی کوئی ضرورت نہیں. نظام خلافت میں خواتین اور مردوں کے دائرہ ہائے کار علیحدہ علیحدہ ہوں گے، اس لیے کہ یہ آگ اور پانی کا میل ہے. ہمیں مخلوط معاشرت کا مکمل خاتمہ کرنا ہو گا. سکولوں سے لے کر یونیورسٹی تک ہر جگہ تعلیمی ادارے الگ الگ ہوں. خواتین کے تعلیمی اداروں میں خواتین ہی پڑھنے والی ہوں اور خواتین ہی پڑھانے والی، اور دوسرا تمام عملہ بھی خواتین ہی پر مشتمل ہو. اسی طرح کا معاملہ ہسپتالوں کا بھی ہے. عورتوں کے ہسپتال میں خواتین ہی نرسیں ہوں، ڈاکٹر ہوں اور خواتین ہی ملازم ہوں، جبکہ مردوں کے ہسپتالوں میں مرد ڈاکٹر اور مرد نرسیں (Male Nurses) ہوں. اسی طرح کا معاملہ صنعتی اداروں میں بھی اختیار کیا جا سکتا ہے. اگر ارادہ ہو، ایمان ہو اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی دی ہوئی تعلیم پر یقین کامل ہو تو ہر شے ممکن ہے، ہر مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے.