آخری بات اگرچہ نظامِ خلافت سے متعلق نہیں ہے لیکن یہ چیز روحِ عصر کا تقاضا ہے. ہم یہ بات کہتے ہیں کہ خلیفہ ایک ہی ہو اور خلیفہ مجلس شوریٰ کی اکثریت کا محتاج نہ ہو. یہ نہیں ہو گا کہ وہ ہر وقت ادھر سے ادھر پھدکنے والے مینڈکوں کو ہی سنبھالتا رہے. آج کی دنیا میں رائج الوقت صدارتی نظام میں منتخب ہونے والے سربراہِ مملکت کو مقررہ مدت تک کام کرنے کا پورا موقع دیا جاتا ہے. وہ کسی کانگریس یا پارلیمنٹ کا محتاج محض نہیں ہوتا. یہ باتیں مغرب نے اسلام ہی سے سیکھی ہیں، اگرچہ ہم خود اِن اوصاف سے محروم ہیں. چنانچہ علامہ اقبال نے فرمایا تھا ؎

ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو آنکہ از خاکش بروید آرزو
یازِ نورِ مصطفی،ؐ اُو را بہاست یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفی،ؐ است

یعنی اس دنیا میں جہاں کہیں کوئی خیر اور بھلائی کی روشنی نظر آتی ہے وہ یا تو براہِ راست حضور کا عطیہ ہے یا ابھی انسانیت اس نور کی تلاش ہی میں سفر کر رہی 
ہے، قافلہ انسانی کا رُخ اس طرف ہے اور وہ جلد یا بدیر ادھر ہی پہنچے گا. اس اعتبار سے ضروری ہے کہ موجودہ صوبوں کے معاملے کا بھی ازسر نوجائزہ لیا جائے. پہلے ہی تین صوبے پنجاب کے بڑا ہونے پر شور مچاتے رہتے ہیں، حالانکہ بڑا بھائی ہونے کے ناطے پنجاب کو نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے. سینٹ میں پنجاب کے بھی اتنے ہی نمائندے ہیں جتنے بلوچستان کے، حالانکہ بلوچستان کی کل آبادی لاہور شہر سے بھی آدھی ہے. اسی طرح پانی کی تقسیم کے معاہدے میں پنجاب کو نقصان پہنچا ہے. ہر جگہ بڑا بھائی ہی مار کھا رہا ہے لیکن واویلا پھر بھی یہی ہے کہ پنجابی ہمیں لوٹ کر کھا گئے. صدارتی نظام میں یہ احساس محرومی اور بڑھ جانے کا خطرہ موجود ہے. اس کا حل یہ ہے کہ صوبوں کی نئی تقسیم عمل میں لائی جائے اور چھوٹے چھوٹے صوبے تشکیل دیئے جائیں. یہ بات ضیاء الحق نے بھی کہی تھی اور اچھی بات کہی تھی. ملک کے خیر خواہ عناصر بھی یہی کہتے چلے آ رہے ہیں کہ صوبے چھوٹے کر دیئے جائیں. ضیاء الحق مرحوم نے تو یہاں تک کہا تھا کہ پڑوسی ملک افغانستان کو دیکھو وہ آبادی کے لحاظ سے ہمارا پانچواں حصہ ہے لیکن صوبوں کے اعتبار سے ہم سے بارہ گناہ بڑا ہے. افغانستان کے پچاس صوبے ہیں جب کہ اس کی آبادی صرف دو کروڑ ہے، لہٰذا یہاں پر بھی چھوٹے چھوٹے صوبے بنائے جائیں. نئی صوبائی تقسیم میں لسانی اور جغرافیائی عوامل کو بھی مدنظر رکھا جائے اور ایک کروڑ کی آبادی سے زیادہ کوئی صوبہ نہ ہو. مولانا عبدالستار نیازی صاحب نے بھی نئی صوبائی تشکیل کی بات ارشاد فرمائی اور صحیح فرمائی ہے. وقت کا تقاضا ہے کہ صوبے چھوٹے ہوں اور انہیں زیادہ سے زیادہ اختیار دیئے جائیں.