اس رکوع کی پہلی دو آیات کا مضمون سمجھ لینے کے بعد اب ہم اگلی پانچ آیات (الفرقان: ۶۳تا۶۷کا مطالعہ کرتے ہیں. ان آیات میں اللہ تعالیٰ اپنے ان بندوں کے اوصاف بیان فرما رہا ہے جو اُسے بہت ہی پسند اور محبوب ہیں. چنانچہ گفتگو کی جو ابتدا ہوئی ہے وہ عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ کے الفاظ سے ہوئی ہے. اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ’’اَلرَّحۡمٰن‘‘ نہایت پیارا نام ہے. اس لیے بھی کہ یہ رحمت سے مشتق ہے‘ اور ظاہر بات ہے کہ بندوں کو جس چیز کی زیادہ احتیاج ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی ہے. اور اس لیے بھی کہ اگرچہ رحمت سے اللہ تعالیٰ کا ایک نام اور بھی بنتا ہے اور وہ ہے ’’الرَّحِیۡمُ‘‘ لیکن’’الرحیم‘‘ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کی شان ایک مستقل اور دائم حقیقت کی حیثیت سے سامنے آتی ہے‘ جبکہ ’’اَلرَّحۡمٰن‘‘ میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کی جو شان سامنے آتی ہے وہ ایک ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے مانند ہے‘ جس میں جوش و خروش ہو‘ جس میں ہیجان ہو. یہ لفظ ہیجان بھی فَعْلَان کے وزن پر عربی ہی کا لفظ ہے. اسی وزن پر عربی زبان میں متعدد الفاظ آتے ہیں. مثلاً عَطْشَان یعنی انتہائی پیاسا‘ جس کی پیاس سے جان نکلی جا رہی ہو‘ جَوْعَان یعنی نہایت بھوکا‘ جو بھوک سے مر رہا ہو. تو اللہ تعالیٰ کا یہ نامِ نامی‘ اسم گرامی ’’اَلرَّحۡمٰن‘‘ بہت ہی پیارا ہے. اس میں اللہ تعالیٰ کی رحمت ایک ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح سامنے آتی ہے.

پھر 
’’ عِبَادُ الرَّحۡمٰنِ‘‘ کے فرمانے میں بھی ایک محبت اور شفقت و عنایت کا انداز ہے ‘یعنی اللہ کے محبوب بندے‘ اللہ کے پسندیدہ بندے یہ ہیں جن میں یہ اوصاف پائے جاتے ہوں جن کا ذکر آگے آ رہا ہے. 

(۱) تواضع و انکساری

ان اوصاف میں سے پہلا وصف آیا : الَّذِیۡنَ یَمۡشُوۡنَ عَلَی الۡاَرۡضِ ہَوۡنًا ’’وہ لوگ جو زمین پر چلتے ہیں آہستگی سے( نرمی سے)‘‘. ان کی چال سے تواضع نمایاں ہوتی ہے. یہ بات جان لیجیے کہ جیسے انگریزی میں کہتے ہیں کہ: ".Face is the index of the mind" آپ کسی انسان کے چہرے کو دیکھ کر اس کے باطنی احساسات و جذبات کا اندازہ کر سکتے ہیں‘ اسی طرح انسان کی چال سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں غرور ہے‘ یہ کسی فخر میں مبتلا ہے‘ یہ گھمنڈی ہے. اکڑ کر چلے گا تو اس کی چال بتائے گی کہ اس کی ذہنی کیفیت کیا ہے! یا پھر اس کی چال سے یہ ظاہر ہوگا کہ اس میں عجز و تواضع ‘ فروتنی‘ انکساری اور خاکساری ہے. تو یہ ہے پہلا وصف اور بندے کو یہ حقیقت پہچان لینی چاہیے کہ میں بندہ ہوں‘ آقا نہیں ہوں‘ آقا تو صرف ایک ہے اور وہ اللہ ہے ‘باقی بڑے سے بڑا انسان بھی بندہ ہے‘ اور عبدیت ہی درحقیقت ہمارا طرۂ امتیاز ہے. چنانچہ قرآن مجید میں جہاں بھی اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم سے خصوصی عنایت کے ساتھ خطاب فرمایا ہے‘ یا آپ کا ذکر خصوصی محبت و شفقت اور التفات کے ساتھ فرمایا ہے وہاں حضور کی عبدیت کو نمایاں کیا جاتا ہے. جیسے: سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا اور: اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلٰی عَبۡدِہِ الۡکِتٰبَ اور جیسے: تَبٰرَکَ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ عَلٰی عَبۡدِہٖ لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا ۙ﴿۱﴾. دیکھئے کس قدر لطیف ربط ہمارے سامنے آتا ہے! یہ اس سورۂ مبارکہ کی پہلی آیت ہے جس کے آخری رکوع کا ہم مطالعہ کر رہے ہیں. اس سورۂ مبارکہ کے آخری رکوع کا آغاز بھی ’’تَبٰرَکَ الَّذِیۡ‘‘ کے الفاظ سے ہوتا ہے. آغاز میں فرمایا گیا: ’’بڑی بابرکت‘ بلند مرتبت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے( ) پر الفرقان (یعنی قرآن مجید ) نازل فرمایا‘‘.

تو یہ عبدیت درحقیقت معراج ِانسانیت ہے. لہذا یہاں 
’’عِبَادُ الرَّحۡمٰن‘‘ فرمانے میں بڑی شفقت‘ محبت‘ عنایت اور التفات کے پہلو مضمر ہیں. مراد ہیں وہ لوگ جو واقعی اللہ کے بندے ہیں‘ ان کی چال ڈھال سے نمایاں ہوتا ہے کہ یہ اپنے آپ کو بندہ ہی سمجھتے ہیں‘ آقا نہیں سمجھتے. یہ اپنے آپ کو مملوک سمجھتے ہیں اور اپنے مالک‘ اپنے آقا کو پہچانتے ہیں. چنانچہ ان کی چال گواہی دیتی ہے کہ فخر و غرور کے بجائے ان میں عجز و فروتنی کے احساسات و جذبات جاگزیں ہیں.

ہمارے اس منتخب نصاب کا جو تیسرا درس سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع پر مشتمل ہے‘ اس کے آخر میں بھی اسی وصف پر زور دیا گیا ہے : 
وَ لَا تُصَعِّرۡ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍ ﴿ۚ۱۸﴾ حضرت لقمان اپنے بچے کو نصیحت فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’اے میرے بچے! اپنے گال لوگوں کے لیے پھلا کر نہ رکھ اور زمین پر اکڑ کر مت چل‘ بے شک اللہ کو بالکل پسند نہیں ہیں شیخی خورے اور اترانے اور غرور و فخر سے کام لینے والے‘‘. تو یہاں نقطۂ آغاز وہ وصف ہے جہاں سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع کے مضامین کی قریباً انتہا ہوئی تھی. 

(۲) ہٹ دھرمی کے جواب میں طرزِ عمل

اسی آیت میں دوسرا وصف بیان ہوا ہے : وَ اِذَا خَاطَبَہُمُ الۡجٰہِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا ﴿۶۳﴾ ’’ اور جب جاہل اُن سے مخاطب ہوتے ہیں (اور اُن سے اُلجھنا چاہتے ہیں) تو وہ سلام کہہ دیتے ہیں (اور اس طرح اُن سے علیحدہ ہو جاتے ہیں)‘‘.یہ بھی درحقیقت انسان کی شخصیت کی پختگی کی ایک بہت بڑی علامت ہے. بعض لوگ اپنے جذبات سے مغلوب ہو کر لوگوں سے بے کار سی بحث و تمحیص میں الجھ جاتے ہیں‘ حالانکہ اس طرح کے بحث و مباحثہ کا حاصل کچھ نہیں ہوتا. ایک پختہ (mature) انسان کا لازمی وصف یہ ہوگا کہ وہ اندازہ کرے کہ اس کا مخاطب اس وقت بات سمجھنے کے موڈمیں ہے یا محض بحث و نزاع پر تلا ہوا ہے. اور اگر وہ یہ محسوس کرے کہ یہ شخص اِس وقت افہام و تفہیم کے موڈ میں نہیں ہے‘ یہ میری بات کو سنجیدگی سے نہیں سن رہا‘ بلکہ ضد اور عناد میں مبتلا ہو چکا ہے‘ اس وقت اس پر ہٹ دھرمی مسلط ہو چکی ہے‘ یہ خواہ مخواہ مجھ سے الجھ رہا ہے‘ بات کو سمجھنا اس کے پیش نظر سرے سے ہے ہی نہیں‘ تو بڑی خوبصورتی سے سلام کہہ کر اس سے علیحدہ ہو جائے. بعض جوشیلے قسم کے مبلغین ایسے موقع پر تلخی پر اتر آتے ہیں‘ تلخ کلامی اختیار کر لیتے ہیں‘ یا علیحدہ بھی ہو تے ہیں تو اس طور سے گویا لٹھ مار کر علیحدہ ہو رہے ہیں. نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پھر دوبارہ گفتگو کا موقع باقی نہیں رہتا. اگر آپ خوبصورتی کے ساتھ علیحدگی اختیار کریں تو موقع رہے گا کہ آپ آئندہ کسی مناسب وقت پر جب یہ محسوس کریں کہ یہ شخص سمجھنے سمجھانے کے موڈ میں ہے تو اس کے سامنے دوبارہ اپنی بات رکھنے کی پوزیشن میں ہو سکتے ہیں. یہ دونوں چیزیں بڑی ہی پختہ شخصیت کے نمایاں اوصاف میں سے ہیں‘ جن سے یہاں گفتگو کا آغاز ہو رہا ہے.

(۳) قیام اللیل کا اہتمام

اس کے بعد فرمایا: وَ الَّذِیۡنَ یَبِیۡتُوۡنَ لِرَبِّہِمۡ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا ﴿۶۴﴾ ’’اور جو راتیں بسرکرتے ہیں اپنے ربّ کے حضور میں سجدہ کرتے ہوئے اور دست بستہ کھڑے رہ کر‘‘.اب یہاں ایک فوری تقابل (simultaneous contrast) آپ کے سامنے رہے. ہمارے سابقہ درس میں نماز کا ذکر بار بار آیا تھا: قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾ اور پھر ان اوصاف کا اختتام ان الفاظِ مبارکہ پر ہوا: وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَوٰتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ ۘ﴿۹﴾ یعنی ابتدا بھی صلوٰۃ کے ذکر سے اور اختتام بھی صلوٰۃ کے ذکر پر. پہلے صلوٰۃ میں خشوع کا ذکر ہے جو اِس کی باطنی روح ہے اور آخر میں صلوٰۃ کی محافظت اور مداومت کا ذکر ہے. لیکن یہاں رات کی نماز یعنی تہجد کا ذکر ہے. اس لیے کہ ایک مسلمان میں جو بنیادی اوصاف درکار ہیں ‘جن سے تعمیر سیرت کا وہ پروگرام وجود میں آتا ہے جو قرآن مجید دیتا ہے‘اس کی ابتدا و انتہا اقامت الصلوٰۃ یعنی نمازِ پنجگانہ کا اہتمام ہے جو فرض ہے. اس کی پابندی کرنا‘ اس کے تمام آداب اور جملہ شرائط کے ساتھ اس کی ادائیگی کا اہتمام کرنا ضروری ہے.

لیکن یہاں بات بالکل دوسری ہے. یہاں تو اس سطح کی گفتگو ہورہی ہے جہاں ایک انسان اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کا مقام اور درجہ حاصل کر لے. یہاں جس نماز کا ذکر ہے وہ رات کی تنہائی کی نماز ہے. ارشاد ہو رہا ہے: وَ الَّذِیۡنَ یَبِیۡتُوۡنَ لِرَبِّہِمۡ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا ﴿۶۴﴾ یعنی اُن کی راتوں کا نقشہ اُن لوگوں کی راتوں کی کیفیت سے بالکل مختلف ہے جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں‘ جو پوری رات پاؤں پھیلا کر سوتے ہیں. ان کو اس غفلت کا احساس تک نہیں ہوتا ‘کیونکہ ان کے دل میں کوئی لگن نہیں ہے‘ ان کے دل میں اللہ کی محبت کا جذبہ نہیں ہے لیکن جن لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت گھر کر چکی ہو اُن کو ان کا وہ جذبۂ محبت رات کے وقت سونے نہیں دیتا. وہ رات کو بار بار اٹھتے ہیں‘ اپنے ربّ کے حضور دست بستہ کھڑے ہوتے ہیں یا اپنے ربّ کے سامنے سجدہ ریز رہتے ہیں. نبی اکرم کی رات کی نماز کی کیفیات کے متعلق ہمیں روایات میں یہ نقشہ ملتا ہے کہ آپؐ راتوں کو بار بار اٹھتے تھے‘ چونک چونک کر اٹھتے تھے اور آپؐ اپنے ربّ کے سامنے نماز میں دست بستہ کھڑے ہوتے تھے‘ سجدہ ریز ہوتے تھے. بندۂ مؤمن کی شخصیت کے تکمیلی اوصاف میں یہ رات کی نماز یعنی تہجد یا قیام اللیل عظیم ترین اہمیت کی حامل ہے اور اساسی و بنیادی اوصاف میں سب سے زیادہ اہم وصف اقامت الصلوٰۃ ‘ یعنی پنج وقتہ فرض نماز کی پابندی ہے. ظاہر بات ہے کہ جو لوگ رات کے وقت کی اس نماز کی پابندی کر رہے ہوں‘ کیسے ممکن ہے کہ وہ فرض نمازوں کے نظام میں کسی درجہ میں بھی کوتاہی یا غفلت سے کام لیں !! 

(۴) عذابِ جہنم سے بچاؤ کی دُعا

اس کے بعد فرمایا کہ اپنے ربّ کے سامنے اس قیام اللیل کے نتیجہ میں جو دعا ان کے دل سے نکل کر زبان پر آتی ہے وہ یہ ہے کہ : رَبَّنَا اصۡرِفۡ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ ٭ۖ ’’اے ربّ ہمارے! جہنم کی سزا کو ہم سے دُور کر دے (ہمیں اس سے بچا)‘‘. اس میں درحقیقت اس طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ جہاں مخلوق کے سامنے ان کی روش تواضع اور فروتنی کی ہوتی ہے‘ وہاں وہ اپنے ربّ کے سامنے بھی نہایت عاجزی کا انداز اختیار کرتے ہیں. انہیں اپنی نیکی پر کوئی فخر یا غرور نہیں ہوتا. وہ کسی زعم یا گھمنڈ میں مبتلا نہیں ہوتے‘ بلکہ اُن کو ہمیشہ یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ نمعلوم ہمارے اعمال اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول ہو رہے ہیں یا نہیں! لہذا اُن پر ایک لرزہ طاری رہتا ہے. یہ مضمون اس سے پہلے سورۃ النور کے پانچویں رکوع کی آیات میں آ چکا ہے کہ وہ لوگ اپنے ربّ کے عذاب سے خائف رہتے ہیں‘ لرزاں و ترساں رہتے ہیں چنانچہ ہم کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حالات میں یہ پڑھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک عجیب کیفیت کے عالَم میں یہ فرمایا کرتے تھے کہ کاش میں گھاس کا ایک تنکا ہوتا جو جلا دیا جاتا ہے اور اس سے کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا! کاش میں درختوں پر چہچہانے والی ایک چڑیا ہوتا جو چہچہاتی ہے‘ پھر ختم ہو جاتی ہے‘ لیکن اس سے کوئی محاسبہ نہیں ہوگا! حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ ویسے تو آپؓ کا جسم بہت گٹھا ہوا اور بڑا مضبوط تھا ‘لیکن جب آپؓ نماز میں کھڑے ہوتے تھے توجسم خشیت ِ الٰہی سے نرم پڑ جاتا تھا. ایک مرتبہ آپؓ کے جسم میں ایک تیر پیوست ہو گیا جو نکالے نکل نہیں رہا تھا. آپؓ نے فرمایا کہ مجھے نماز کی نیت باندھ لینے دو‘ اس حالت میں تیر نکال لینا. یہ ہے وہ کیفیت : وَ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اصۡرِفۡ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ ٭ۖ . اس کے ساتھ ہی فرمایا: اِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا ﴿٭ۖ۶۵﴾ ’’یقینا اس کاعذاب تو چمٹ جانے والی چیز ہے‘‘. یہ عذاب تو جان کو لاگو ہو جانے والا ہے‘ اس سے انسان کو چھٹکارا نہیں ملے گا.

آگے جہنم کے بارے میں الفاظ آئے ہیں : 
اِنَّہَا سَآءَتۡ مُسۡتَقَرًّا وَّ مُقَامًا ﴿۶۶﴾ ’’یقینا وہ مستقر بھی بہت بُرا ہے اور مقام بھی‘‘. عربی زبان میں ’’مستقر‘‘ جائے قرار کو کہتے ہیں جہاں انسان کا مستقل ٹھکانا ہو. اردو میں بھی مستقر اِسی معنی میں مستعمل ہے اور ’’مقام‘‘ کے معنی ہیں قیام کی جگہ. جہاں بھی تھوڑی دیر کے لیے انسان رکتا ہے وہ اُس کا مقام ہے. تو اِن الفاظ کے ذریعے یہ تا ٔثر دیا جا رہا ہے کہ جہنم اتنی بُری جگہ ہے کہ اگر کسی کی مستقل جائے قرار بن جائے تو اس کی بربادی‘ رسوائی اور ہلاکت کا ذکر ہی کیا ہے! یہ تو اتنی بری جگہ ہے کہ اس میں اگر تھوڑی دیر کے لیے بھی قیام ہو تو یہ اپنی تمام ہولناکیاں اور سختیاں پورے طور پر ظاہر کر دے گی. عام طور پر ہمارا یہ تصور ہے کہ کسی اچھی سے اچھی جگہ پر بھی اگر مستقل رہنا پڑے تو اس میں دلچسپی اور رعنائی نہ رہے گی‘ انسان اُکتا جائے گا‘ اور بری سے بری جگہ پر بھی انسان اگر تھوڑی دیر کے لیے چلا جائے تو یہ تبدیلی اس کے لیے تفریح کا ذریعہ بن جائے گی. لیکن یہاں الفاظ ہیں : اِنَّہَا سَآءَتۡ مُسۡتَقَرًّا وَّ مُقَامًا ﴿۶۶﴾ اور اس رکوع کے آخر میں جنت کے بارے میں آیا ہے: حَسُنَتۡ مُسۡتَقَرًّا وَّ مُقَامًا ﴿۷۶﴾. یہ بھی ایک فوری تقابل کے لیے ہے کہ جنت اتنی اچھی جگہ ہے کہ انسان اس میں ہمیشہ کے لیے رہے گا تب بھی اس جنت کی رعنائیوں‘ دل آویزیوں‘ لطافتوں اور دلچسپیوں میں اسے کوئی کمی محسوس نہیں ہوگی‘ انسان اکتائے گا نہیں‘ اور جہنم اتنی بری جگہ ہے کہ ایک لمحہ کے لیے بھی اگر کسی کو اس میں داخل کر دیا جائے تو وہ اپنی ساری شدتیں‘ اپنی ساری غلظتیں ‘ اپنی ساری کلفتیں آنِ واحد میں ظاہر کر دے گی.

(۵) اخراجات میں میانہ روی

اس کے بعد فرمایا: 

وَ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ یُسۡرِفُوۡا وَ لَمۡ یَقۡتُرُوۡا وَ کَانَ بَیۡنَ ذٰلِکَ قَوَامًا ﴿۶۷
’’اوروہ لوگ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل‘ بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے در میان اعتدال پر قائم رہتا ہے‘‘. 

میانہ روی اختیار کرنا بھی شخصیت کی پختگی اور بالغ نظری کی علامت ہے. یعنی ایسا نہ ہو کہ اگر ایک وقت ہاتھ کشادہ ہے تو انسان اللّوں تللّوں میں پیسہ اڑا دے اور اگر کسی وقت تنگی ہو گئی ہو تو انسان بالکل بجھ کر رہ جائے اور نہ ایسا ہو کہ جہاں خرچ لازمی اور ضروری ہو وہاں وہ ہاتھ روک لے‘ یہ بخیلی ہے. ان تین رویوں کے بجائے ایک بین بین اور معتدل روش اختیار کرنا ایک اعلیٰ و ارفع وصف ہے. لہذا فرمایاکہ وہ لوگ جو جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف سے کام لیتے ہیں اور نہ بخل سے ‘ بلکہ ان کا طرزِ عمل اس کے بین بین ہوتا ہے. یہ بات بھی سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع کے آخر میں آئی تھی : 
وَ اقۡصِدۡ فِیۡ مَشۡیِکَ ’’اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر‘‘یہاں چال ڈھال میں بھی اعتدال مراد ہے اور خرچ میں بھی تو وہی وصف ہے جو یہاں ایک ایک دوسرے اسلوب سے بیان ہوا . 

(۶) کبیرہ گناہوں سے اجتناب

اگلی دو آیات میں فرمایا: 

وَ الَّذِیۡنَ لَا یَدۡعُوۡنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ وَ لَا یَقۡتُلُوۡنَ النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَ لَا یَزۡنُوۡنَ ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ یَلۡقَ اَثَامًا ﴿ۙ۶۸﴾یُّضٰعَفۡ لَہُ الۡعَذَابُ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَ یَخۡلُدۡ فِیۡہٖ مُہَانًا ﴿٭ۖ۶۹
’’اور وہ لوگ جو نہیں پکارتے اللہ کے سوا کسی اور معبود کو‘ اور نہ وہ قتل کرتے ہیں کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے مگر حق کے ساتھ ‘ اور نہ ہی وہ زنا کرتے ہیں ‘ اور جو کوئی یہ کام کرے گا وہ اس کی پاداش پائے گا. دوگنا کیا جائے گا اس کے لیے عذاب کو قیامت کے دن‘ اور وہ رہے گا اس میں ہمیشہ ہمیش نہایت ذلیل و خوار ہو کر‘‘.

اُن مثبت اوصاف اور مثبت اقدار کے ذکر کے بعد جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں‘ جن سے ایک بندۂ مؤمن کی شخصیت میں دل آویزی اور جاذبیت پیدا ہوتی ہے اور جو ایک مؤمن کی شخصیت کی پختگی اور 
"maturity" کی علامات ہیں‘ اب ان دو آیات میں اندازِ بیان منفی ہے. یعنی عباد الرحمن میں یہ چیزیں بالکل نہیں ہوتیں‘ وہ اِن چیزوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتے.

اس سلسلے میں قرآن مجید کی حکمت کا ایک اہم باب ہمارے سامنے آ رہا ہے کہ وہ کون کون سے کام ہیں جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ مغضوب اور مبغوض ہیں‘ جن سے وہ سخت ناراض ہوتا ہے اور جن سے اس کا غیظ و غضب شدید ترین طور پر بھڑکتا ہے. یا بالفاظِ دیگر یوں سمجھئے کہ ہمارے یہاں جو یہ تصور ہے کہ ایک گناہ کبیرہ ہوتے ہیں اور ایک گناہ صغیرہ ہوتے ہیں تو ہم سمجھیں کہ کبیرہ گناہوں میں چوٹی کے گناہ کون سے ہیں! ان دو آیات میں سے پہلی آیت چوٹی کے تین گناہوں کو معین کر رہی ہے. یعنی اس ایک آیت میں کبائر میں سے درجہ بدرجہ تین سب سے بڑے گناہوں کا 
ذکر ہے. 

اکبر الکبائر

سب سے کبیرہ گناہ‘ عظیم ترین گناہ‘ جس کے بارے میں سورۃ النساء میں دو مرتبہ یہ الفاظ وارد ہوئے: اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ (آیت ۴۸‘ ۱۱۶’’بے شک اللہ اِس کو تو ہر گز معاف نہیں فرمائے گا کہ اُس کے ساتھ شرک کیا جائے‘ البتہ اس سے کمتر (گناہ) جس کے لیے چاہے گامعاف فرما دے گا‘‘ گویا قرآن مجید کی رُو سے ہمارے دین میں سب سے بڑا جرم‘ سب سے بڑا اور قطعی ناقابلِ معافی گناہ شرک ہے.

سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع کے درس کے ضمن میں ’’اقسامِ شرک‘‘ کے موضوع پر کچھ مختصر گفتگو ہوئی تھی کہ ایک شرک ہے 
شرک فی الذات. یعنی اللہ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا. اور ایک شرک وہ ہے جو اللہ کی صفات کے ضمن میں ہے‘ یعنی شرک فی الصفات اور تیسرا شرک ہےشرک فی العبادت. اور نبی اکرم نے عبادت کے لبِّ لباب کی حیثیت دعا کو دی ہے. ارشادِ نبویؐ ہے: اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ (۱’’دعا عبادت کا اصل جوہر ہے.‘‘ اور : اَلدُّعَاءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ (۲’’دعا ہی اصل عبادت ہے‘‘. لہذا یہاں نوٹ کیجیے کہ الفاظ آئے ہیں : وَ الَّذِیۡنَ لَا یَدۡعُوۡنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ’’اوروہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے‘‘. یہ پکارنا کس مقصد کے لیے ہوتا ہے؟ ظاہر ہے کہ استمداد‘ استدعا‘ استغاثہ اور استعانت کے لیے. یعنی پکارنا کسی کو اپنی کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے پکارنا کسی کو اپنی کسی مصیبت کو دُور کرنے کے لیے پکارنا کسی کو اپنی حاجت روائی کے لیے پکارنا کسی کو اپنی مشکل کشائی اور دستگیری کے لیے پکارنا کسی کو اپنی مدد و اعانت کے لیے. غور کیجیے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ ’’اللہ کو چھوڑ کر کسی اور معبود کو نہیں پکارتے ‘‘ بلکہ واضح کر دیا گیا کہ : ’’اللہ کے ساتھ کسی اور کو پکارنا‘‘ یہ شرک ہے. بس یوں سمجھئے کہ (۱) سنن الترمذی‘ کتاب الدعوات عن رسول اللہ ‘ باب المنہ.

(۲) سنن الترمذی‘ کتاب تفسیر القرآن عن رسول اللہ ‘ باب ومن سورۃالبقرۃ. 
ہمارے دین میں شرک تو اکبر الکبائر ہے. کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑا کبیرہ گناہ شرک ہے. چنانچہ آغاز میں سب سے پہلے اُسی کا ذکر ہوا. اس لیے کہ درحقیقت شرک سے انسان کا نقطۂ نظر غلط ہو جاتا ہے. گویا پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی لگ گئی تو اس کے بعد اس کا جو نتیجہ نکلے گا وہ ظاہر ہے کہ ؎ 

خشت اوّل چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج

پھر تو کجی ہی کجی ہوگی. انسان کی اپنی ذاتی سیرت میں بھی کجی ہوگی. ایسے لوگوں پر مشتمل جو معاشرہ وجود میں آئے گا وہ بھی کج ہوگا. لہذا یہاں سب سے پہلے شرک کا ذکر ہوا.

قتل ناحق

دوسرے بڑے گناہ کا ذکر بایں الفاظ ہوا : وَ لَا یَقۡتُلُوۡنَ النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالۡحَقِّ ’’اور جو نہیں قتل کرتے کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے‘ مگر حق کے ساتھ‘‘. اس کا تعلق انسانی جان کے احترام سے ہے. یہ بات جان لیجیے کہ شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ قتلِ عمد ہے‘ اس لیے کہ اس سے تمدن کی جڑ کٹ جاتی ہے. یہ جو ہم کہتے ہیں کہ انسان ایک متمدن حیوان ہے‘ انگریزی میں کہا جاتا ہے کہ "Man is a gregarious animal" تمدن کی بنیاد مل جل کر رہنا ہے. تہذیب‘ تمدن اور حضارت مل جل کر رہنے سے ہی وجود میں آتی ہے‘ اور اس کی جڑ اور بنیاد یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے کی جانوں کا احترام کریں. اگر احترام ِجان ہی ختم ہو گیا تو گویا تمدن کی اساس ہی منہدم ہو گئی. لہذا تہذیب و تمدن کی بقا کے لیے لازم ہے کہ معاشرے کے اندر احترام ِجان کا پورا پورا اہتمام و التزام رہے. اللہ تعالیٰ نے انسانی جان کو بہت محترم ٹھہرایا ہے. البتہ بعض ایسی صورتیں ضرور ہیں کہ جہاں کوئی شخص قانون کی زد میں آ کر قتل کامستوجب قرار پائے گا اور اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے گا.

شریعت میں 
اِلَّا بِالۡحَقِّ کی مصداق چار صورتیں ہیں. پہلی یہ کہ قتلِ عمد کی صورت میں اگر مقتول کے وارث دیت یا خون بہا لینے کے لیے بھی آمادہ نہ ہوں اور معاف کرنے کے لیے بھی تیار نہ ہوں تو جان کے بدلے جان لی جائے گی . ازروئے الفاظِ قرآنی : اَنَّ النَّفۡسَ بِالنَّفۡسِ (المائدۃ:۴۵’’ کہ جان کے بدلے جان ہے.‘‘ دوسری یہ کہ کوئی شخص شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرے تو شریعت میں اس کے لیے رجم کی سزا ہے کہ اس کو سنگسار کیا جائے تاآنکہ وہ ہلاک ہو جائے. تیسری یہ کہ اسلام میں ارتداد کی سزا قتل ہے. چوتھی یہ کہ وہ کافر جو حربی ہو‘ جس کے ساتھ باقاعدہ اور اعلانیہ جنگ ہو رہی ہو. کسی اسلامی ریاست کا پُر امن ذمی یا معاہد غیر مسلم اس کا مصداق نہیں بن سکتا. اس کی جان تو اتنی ہی محترم ہے جتنی کسی مسلمان کی جان ہے. اُسے وہی تحفظات حاصل ہیں جو کسی مسلمان کو حاصل ہوتے ہیں. البتہ جہاں کفار و مشرکین کے ساتھ جنگ ہورہی ہو وہاں کافر کی جان مؤمن کے لیے حلال ہوگی. ان چار صورتوں کے سوا کسی بھی حالت میں انسانی جان کا لینا قتل ناحق ہوگا اور اس آیت مبارکہ کی رُو سے قتلِ ناحق کے متعلق یہ جان لیجیے کہ دینِ اسلام کے نظام میں شرک کے بعد یہ سب سے بڑا جرم ہے. 

جنسی بے راہ روی

تیسری بات فرمائی کہ : وَ لَا یَزۡنُوۡنَ ’’اور وہ زنا نہیں کرتے‘‘ ہم اس سے پہلے سورۃ المؤمنون اور سورۃ المعارج کی بعض آیات کے درس میں دیکھ چکے ہیں کہ اپنے شہوانی جذبات پر قابو پانے (sex discipline) کی کتنی اہمیت بیان ہوئی ہے. دونوں مقامات پر فرمایا: وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِفُرُوۡجِہِمۡ حٰفِظُوۡنَ ۙ﴿۵﴾اِلَّا عَلٰۤی اَزۡوَاجِہِمۡ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ فَاِنَّہُمۡ غَیۡرُ مَلُوۡمِیۡنَ ۚ﴿۶﴾فَمَنِ ابۡتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡعٰدُوۡنَ ۚ﴿۷﴾ یہاں وہی بات ہے لیکن اسلوب منفی ہے.وہاں مثبت پہلو سے بیان کیا گیا کہ وہ لوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں‘ اپنی شہوت پر قابو یافتہ ہیں‘ حلال راستہ کے علاوہ اپنی شہوت کی تسکین کے لیے کوئی حرام راستہ اختیار نہیں کرتے. یہاں وہی بات منفی اسلوب سے بیان فرمائی کہ ’’وہ زنا نہیں کرتے‘‘. البتہ یہاں جس سیاق (context) میں یہ بات آئی ہے اس سے ہمارے سامنے یہ عظیم حقیقت آتی ہے کہ قتلِ ناحق کے بعد سب سے بڑاجرم زنا ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ جس معاشرے میں یہ فعلِ بد رواج پا جائے اس میں سے اعتمادِ باہمی اور محبت و الفت بالکل ختم ہو کر رہ جاتی ہے. اس لیے کہ باہمی محبت کا سرچشمہ ایک شوہر اور اُس کی بیوی کے مابین اعتماد کا احساس ہے. اگر یہ اعتماد موجود ہے تو محبت بھی ہوگی‘ مودّت بھی ہوگی اور یہ خاندان اس دنیا میں جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ کی کیفیت کا مظہر بن جائے گا. لیکن اگر کسی معاشرہ میں بدچلنی کا رواج ہو جائے‘ شوہر کو بیوی پر اعتماد نہ رہے اور بیوی کا شوہر پر سے اعتماد اٹھ جائے اور بے اعتمادی باہمی اعتماد کی جگہ لے لے تو اُس معاشرے میں اعلیٰ اوصاف کبھی ترقی نہیں کریں گے. جو نئی نسل اس گھر میں پرورش پائے گی اس میں حسنات اور اعلیٰ اخلاق کبھی بھی نشوونما نہیں پا سکیں گے‘ بلکہ ایسے ماحول میں پرورش پانے والی نسل میں ایک منفی کردار پیدا ہو جائے گا. تو گویا زنا وہ چیز ہے جو تمدن میں حسن و خوبی کے پھول کھلانے کے بجائے اسے ایک متعفن سنڈاس بنا کر رکھ دے گی. لہذا تیسری چیز فرمائی :وَ لَا یَزۡنُوۡنَ ’’اور وہ زنا نہیں کرتے‘‘.