گناہ کا خمیازہ ‘اور رستگاری کی واحد صورت : توبہ

اِن تین سب سے بڑے گناہوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ یَلۡقَ اَثَامًا ﴿ۙ۶۸﴾ ’’اور جو کوئی بھی یہ کرے گا وہ اس کی پاداش بھگت کر رہے گا‘‘. یعنی جو کوئی بھی ان میں سے کسی فعل کا ارتکاب کرے گا یعنی شرک کرے گا‘ اللہ کے ساتھ کسی اور کو بھی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے پکارے گا‘ کسی اور کی بھی عبادت کرے گا‘ یا وہ انسانی جان ناحق لے گا‘ انسانی خون ناحق بہائے گا‘ یا وہ زنا کرے گا تو وہ جان لے کہ اس کی پاداش اس کو بھگتنی پڑے گی.وہ یہ نہ سمجھے کہ بچ نکلے گا‘ کوئی گرفت نہیں ہے‘ کوئی سزا نہیں ہے. اگر اس دنیا میں اسے سزا نہیں ملی تو آخرت میں اسے اس کا بھرپور خمیازہ بھگتنا پڑے گا.

اگلی آیت میں فرمایا: 
یُّضٰعَفۡ لَہُ الۡعَذَابُ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ’’قیامت کے دن اس کے لیے عذاب دوگنا کر دیا جائے گا ‘‘ اس کا ایک مفہوم تو یہ لیا گیا ہے کہ یہ عذاب بڑھتا چلا جائے گا‘ اس میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا. بجائے اس کے کہ سزا اور عذاب میں تخفیف یا کمی واقع ہو‘ اس کی تندی اور سختی میں زیادتی ہوتی چلی جائے گی. لیکن اس کا ایک دوسرا مفہوم بھی ہے‘ جو اپنے اندر ایک لطیف نکتہ لیے ہوئے ہے. بعض حضرات کا یہ گمان ہے کہ عذابِ اُخروی اور یوم القیامۃ سے قبل عالم برزخ کے عذاب یا بالفاظِ دیگر عذابِ قبر کی جو خبریں احادیث نبویہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں ہیں‘ قرآن مجید میں ان کا ذکر نہیں ہے. تو ایسے سب حضرات کے لیے جو قرآن میں ذکر نہ ہونے کی وجہ سے عذابِ قبر کو تسلیم کرنے میں متأمل ہیں‘ یہ مقام بہت ہی لائقِ توجہ ہے. فرمایا: یُضٰعَفۡ لَہُ الۡعَذَابُ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ’’دو گنا کر دیا جائے گا اس کے لیے عذاب قیامت کے دن‘‘. اس سے یہ بات آپ سے آپ نکل رہی ہے کہ قیامت کے دن سے پہلے بھی عذاب موجود ہے‘ جس کو دوگنا کرنے یا جس میں اضافہ کرنے کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے. یہی وہ عذاب ہے جسے ہم عذابِ قبر سے تعبیر کرتے ہیں اور جس کی خبر ہمیں نبی اکرم نے احادیث میں دی ہے‘ اور یہ احادیث محدثین کے مقرر کردہ سخت سے سخت معیار کے مطابق مستند اور صحیح تسلیم کی گئی ہیں.

اگر کسی کو یہ اشکال ہو کہ ابھی قیامت کی عدالت تو لگی ہی نہیں‘ ابھی حساب کتاب اور وزنِ اعمال تو ہواہی نہیں تو اس سے پہلے سزا کیسی؟ تو ان کے اطمینان کے لیے عرض ہے کہ انسان جو کچھ کرتا ہے اسے خوب جانتا ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی: 
بَلِ الۡاِنۡسَانُ عَلٰی نَفۡسِہٖ بَصِیۡرَۃٌ ﴿ۙ۱۴﴾ یہ آیت ہم سورۃ القیامۃ میں پڑھ چکے ہیں. وہ طالب علم جس نے امتحان میں کچھ نہیں کیا‘ وہ جانتا ہے کہ اس نے پرچے کیسے کیے ہیں. چنانچہ امتحان کا نتیجہ نکلنے سے پہلے ہی اس کی جان سوکھتی رہتی ہے. اس کو معلوم ہوتا ہے کہ میری کارکردگی کیا ہے جس کا نتیجے کے طور پر اعلان ہونے والا ہے. نتیجے کے اعلان کے دن سے پہلے ہی وہ گویا ایک نوع کے کرب اور کوفت کی کیفیت میں مبتلا ہوتا ہے. تو یہی ہے اصل حقیقت کہ اس دنیا سے عالمِ برزخ کی طرف منتقل ہونے کے فوراً بعد اس چیز کا ایک عکس انسان کی روح پر پڑنا شروع ہو جاتا ہے جو کچھ اس نے اس دنیا میں کیا ہے. یہی ہے وہ بات جس کو نبی اکرم نے یوں تعبیر فرمایا کہ’’ قبر جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے‘‘. اِدھر آنکھ بند ہوئی‘ اُدھر عالم برزخ میں آنکھ کھل گئی‘ اور اس میں انسان پر ان کیفیات کا ایک عکس پڑنا شروع ہو جاتا ہے جن سے اُسے بالآخر اپنے اعمال کی پاداش میں قیامت کے دن دوچار ہونا ہے. اس آیت مبارکہ کے ایک حصہ میں کس قدر خوبصورتی سے اس طرف ایک لطیف اشارہ آگیا: یُضٰعَفۡ لَہُ الۡعَذَابُ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ قیامت کے دن تو عذاب دوگنا ہو جائے گا‘ عذاب بڑھ چڑھ کر آئے گا اور پھر انسان اس میں ہمیشہ ہمیش رہے گا. وَ یَخۡلُدۡ فِیۡہٖ مُہَانًا ﴿٭ۖ۶۹﴾ خلود اور دوام اس کا مقدر ہوگا اور وہ اس میں رہے گا نہایت ذلیل و خوار ہو کر‘ رسوا ہو کر. اور یہ ذلت بھی دائمی ہوگی‘ اس سے رستگاری ممکن نہیں ہوگی. البتہ ایک استثناء ہے جو اگلی آیت میں بیان ہو رہا ہے: 

اِلَّا مَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمۡ حَسَنٰتٍ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۷۰﴾وَ مَنۡ تَابَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ یَتُوۡبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَابًا ﴿۷۱﴾ 
’’سوائے اس کے جو تائب ہوا اور ایمان لایا اور اس نے اچھے عمل کیے‘ تو یہ وہ لوگ ہیں کہ جن کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں اور نیکیوں سے بدل دے گا‘ اور اللہ تو ہے ہی مغفرت فرمانے والا‘ رحم فرمانے والا. اور جو توبہ کرتا ہے اور اچھے عمل کرتا ہے تو وہی ہے جو توبہ کرتا ہے اللہ کی جناب میں جیسا کہ توبہ کرنے کا حق ہے‘‘.