عباد الرحمن کے اوصاف کے ضمن میں اگلی آیات میں فرمایا گیا:

وَ الَّذِیۡنَ لَا یَشۡہَدُوۡنَ الزُّوۡرَ ۙ وَ اِذَا مَرُّوۡا بِاللَّغۡوِ مَرُّوۡا کِرَامًا ﴿۷۲﴾وَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِّرُوۡا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمۡ لَمۡ یَخِرُّوۡا عَلَیۡہَا صُمًّا وَّ عُمۡیَانًا ﴿۷۳﴾وَ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا ﴿۷۴﴾اُولٰٓئِکَ یُجۡزَوۡنَ الۡغُرۡفَۃَ بِمَا صَبَرُوۡا وَ یُلَقَّوۡنَ فِیۡہَا تَحِیَّۃً وَّ سَلٰمًا ﴿ۙ۷۵﴾خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ حَسُنَتۡ مُسۡتَقَرًّا وَّ مُقَامًا ﴿۷۶

’’اور وہ لوگ جو جھوٹ میں شرکت گوارا نہیں کرتے اور اگر اتفاقاً کسی لغو کام پر ان کا گزر ہو جائے تو وہ وہاں سے اپنا دامن بچاتے ہوئے گزر جاتے ہیں. اور وہ جنہیں جب اپنے ربّ کی آیات کے ذریعے سے تذکیر اور نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے ہو کر گر نہیں پڑتے. اور وہ جو کہتے ہیں: اے ہمارے ربّ! ہمیں عطا فرما ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک ‘اور ہمیں متقی لوگوں کا امام بنا. یہ ہیں وہ لوگ کہ جنہیں بدلے میں دیے جائیں گے بالا خانے بسبب ان کے صبر کے‘ اور اُن کا استقبال ہوگا جنت میں دعا اور سلام کے ساتھ. رہیں گے وہ اس میں ہمیشہ ہمیش. بہت ہی اچھی ہے وہ جگہ مستقل جائے قرار ہونے کے اعتبار سے بھی‘ اور تھوڑی دیر قیام کے لیے بھی‘‘.

سورۃ الفرقان کی مندرجہ بالا آیات میں پھر وہی مضمون آیا ہے جو اس سے پہلے اس رکوع کی تیسری آیت سے لے کر آٹھویں آیت تک آیا تھا. یعنی اللہ کے محبوب 
بندوں کے اوصاف. گویا وہ اوصاف جو اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں. اس رکوع کی تیسری سے آٹھویں آیت تک چھ اوصاف کا ذکر ہو چکا ہے‘ جن میں سے پہلا وصف تواضع ہے‘ یعنی وہ لوگ جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں‘ ان کی چال سے عجز و انکسار اور تواضع کا اظہار ہوتا ہے. دوسری صفت خواہ مخواہ کی بحث و تمحیص سے دامن بچانا ہے. اللہ کے ان محبوب بندوں سے جب مشتعل مزاج لوگ خواہ مخواہ حجت بازی پر اتر آتے ہیں تو وہ سلام کہہ کر ان سے جدا ہو جاتے ہیں. تیسرے یہ کہ شب کی عبادت میں اللہ کے محبوب بندے اپنی راتیں اللہ کے حضور سجدے اور قیام میں گزارتے ہیں : وَ الَّذِیۡنَ یَبِیۡتُوۡنَ لِرَبِّہِمۡ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا ﴿۶۴﴾. چوتھی صفت جہنم سے پناہ مانگتے رہنا بیان ہوئی‘ کہ اے ربّ ہمارے! ہمیں عذابِ جہنم سے بچا لے. ان کی پانچویں صفت میانہ روی ہے‘ بالخصوص خرچ کے معاملہ میں : وَ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ یُسۡرِفُوۡا وَ لَمۡ یَقۡتُرُوۡا وَ کَانَ بَیۡنَ ذٰلِکَ قَوَامًا ﴿۶۷﴾. چھٹی صفت کبیرہ گناہوں سے بچتے رہنا ہے‘ جس کا ذکر سورۃ الشوریٰ اور سورۃ النجم میں بایں الفاظ مبارکہ آیا ہے : اَلَّذِیۡنَ یَجۡتَنِبُوۡنَ کَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ وَ الۡفَوَاحِشَ’’اوروہ لوگ جو بڑے بڑے گناہوں اور فحش کاموں سے بالفعل مجتنب رہتے ہیں‘‘. اور ہم کئی مرتبہ دیکھ چکے ہیں کہ از روئے قرآن مجید کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑے اور چوٹی کے گناہ تین ہیں : شرک‘ قتل ناحق اور زنا.

ان چھ اوصاف کے ذکر کے بعد ایک ضمنی بحث توبہ کی حقیقت‘ توبہ کی اہمیت اور توبہ کی شرائط کے بارے میں آ گئی تھی. اب مضمون پھر اسی سلسلۂ گفتگو کی طرف لوٹ رہا ہے‘ یعنی عباد الرحمن کے اوصاف کیا کیا ہوتے ہیں. 

(۱) جھوٹ سے بیزاری

یہاں پہلا وصف بیان ہوا: وَ الَّذِیۡنَ لَا یَشۡہَدُوۡنَ الزُّوۡرَ. ’’ زُوْر‘‘ جھوٹ کو کہتے ہیں اور شَہِدَ یَشْہَدُ کا معنی موجود ہونا ہے. تو معلوم ہوا کہ وہ لوگ جھوٹ پر اپنی موجودگی بھی گوارا نہیں کرتے. کہیں جھوٹ کا معاملہ ہورہا ہو ‘ کہیں جھوٹ کی بنیاد پر لین دین ہو رہا ہو‘ کہیں کوئی سازش ہو رہی ہو‘ کہیں کچھ جھوٹ گھڑے جا رہے ہوں تو ایسی جگہوں پر انہیں اپنی موجودگی تک گوارا نہیں. ظاہر بات ہے کہ جھوٹی گواہی اس میں ازخود آجائے گی. جو لوگ جھوٹ میں ادنی ٰ درجہ کی شرکت اور شمولیت گوارا نہیں کرتے وہ جھوٹی گواہی کیونکر دیں گے؟

(۲) لغویات سے کنارہ کشی

دوسرا وصف ہے: وَ اِذَا مَرُّوۡا بِاللَّغۡوِ مَرُّوۡا کِرَامًا ﴿۷۲﴾ یعنی وہ لوگ کہ جن کا کسی لغو اور بے کار کام کی طرف قصد اور ارادہ کر کے جانا تو سرے سے خارج از بحث ہے ہی‘ اگر کسی لغو کام پر ان کا اتفاقاً گزر ہو جائے ‘مثلاً راہ چلتے ہوئے جب دیکھیں کہ کوئی مداری تماشا دکھا رہا ہے تب بھی یہ لوگ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے‘ بلکہ اپنے دامن کو بچاتے ہوئے وہاں سے گزر جاتے ہیں. یہ مضمون اس سے پہلے سورۃ المؤمنون کی ابتدائی آیات میں آ چکا ہے : وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ ﴿ۙ۳﴾ لیکن یہاں جو فرق ہے اسے نوٹ کر لیجیے کہ ایک ہے لغو کام کا ارادہ کرنا. لیکن یہاں نقشہ یہ کھینچا گیا ہے کہ اس کا تو سوال ہی نہیں کہ اللہ کے یہ محبوب بندے کوئی لغو اور بے کار کام کریں. اگر اتفاقاً بھی کسی لغو کام پر ان کا گزر ہو جائے تو وہ باعزت طور پر اپنا دامن بچاتے ہوئے گزر جاتے ہیں. اصل میں مؤمن کو اپنے وقت کی قدر ہوتی ہے. یہ محدود سا وقت اور محدود سی فرصت جو اِس دنیا میں حاصل ہے ‘یہ بڑی قیمتی ہے. ا س لیے کہ اس کے نتائج اُس دنیا میں نکلیں گے جو لامحدود ہے. لہذا نتیجہ کے اعتبار سے اُس زندگی کا ہر لمحہ اَمر ہے. اس کا ثمرہ اُس زندگی میں ملے گا جو کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے. لہذا ان کے پاس کوئی فالتو وقت نہیں ہوتا کہ اسے بے کار کاموں میں صرف کریں. 

(۳) آیاتِ الٰہی پر تفکر و تدبر

تیسرا وصف یہ بیان ہوا کہ جب انہیں ان کے ربّ کی آیات کے ذریعہ سے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اندھے بہرے ہو کر نہیں گر پڑتے : لَمۡ یَخِرُّوۡا عَلَیۡہَا صُمًّا وَّ عُمۡیَانًا ﴿۷۳﴾ اس میں کفار کی طرف ایک تعریض ہے کہ انہیں جب آیاتِ الٰہی سنائی جاتی ہیں تو ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ جیسے وہ ان کی مخالفت پر اُدھار کھائے بیٹھے ہیں. وہ غور ہی نہیں کرتے‘ سنتے ہی نہیں‘ تدبر ہی نہیں کرتے. پہلے ہی سے طے کیے بیٹھے ہوتے ہیں کہ اعتراضات وارد کریں. یہ معاملہ مذکورہ بالا اوصاف کے حامل عباد الرحمن کا نہیں ہوتا ہے. اس قدر (value) کو اگر ہم مثبت طور پر معین کریں تو وہ یہ ہوگی کہ آیاتِ قرآنیہ پر‘ آیاتِ ربانیہ پر تدبر و تفکر ہو‘ ان پر غور کیا جائے‘ انہیں گوشِ حقیقت نیوش سے سنا جائے‘ انسان ان آیاتِ الٰہیہ کی گہرائیوں میں غوطہ زنی کرے. 

(۴) اہل و عیال کے لیے دُعا

چوتھا وصف انسانی فطرت سے وابستہ ہے. جو شخص خود نیک ہو گا اور سیدھے راستے پر زندگی بسر کر رہا ہوگا‘ لازماً اس کی تمنا ہوگی کہ اس کے اہل و عیال بھی اسی راستہ پر چلیں اور وہ بھی تقویٰ اور احسان کی روش اختیار کریں. لہذا وہ اپنے ربّ سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ : رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ ’’اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنی بیویوں سے اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما‘‘. ایک مؤمن کی آنکھوں کی ٹھنڈک اسی میں ہے کہ اس کی اولاد بھی ایمان و اسلام اور تقویٰ و احسان کے راستہ پر گامزن ہو‘ اس کے گھر میں برِ و تقویٰ کا ماحول ہو. چنانچہ اس معاملے میں ہمارے قریب کے زمانہ میں شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ علیہ کی مثال بڑی عظیم ہے. اللہ تعالیٰ نے انہیں چار بیٹے عطا فرمائے‘ شاہ عبدالقادر ‘ شاہ عبدالعزیز‘ شاہ عبدالغنی اور شاہ رفیع الدین رحمہم اللہ. یہ چاروں نہایت نیک اور نہایت پارسا تھے. ان میں سے دو بیٹے تو وہ ہیں (یعنی شاہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین رحمۃ اللہ علیہما) جنہوں نے قرآن مجید کے اُردو میں اولین ترجمے کیے اور آج تک مستند ترین ترجمے وہی ہیں. تیسرے بیٹے نے دہلی میں درس گاہ قائم کی جو مدرسہ شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ علیہ کے نام سے مشہور ہے جس سے برعظیم پاک و ہند میں بہت علم پھیلا. جبکہ چوتھے بیٹے شاہ عبدالغنی رحمہ اللہ علیہ کا نوجوانی ہی میں انتقال ہو گیا تھا‘ لہذا کسی علمی میدان میں ان کی صلاحیتیں زیادہ نمایاں نہیں ہو سکیں. تاہم اس کی تلافی اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرما دی کہ آگے ان کے بیٹے شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ علیہ تھے اور ان کا نام اپنے اس نامور عالم و مجاہد اور شہید بیٹے کی وجہ سے روشن ہوا. تو آپ غور کیجیے کہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کو اپنی اولاد کو ان کیفیات میں دیکھ کر کس قدر آنکھوں کی ٹھنڈک میسر آتی ہوگی! 

(۵) ’’متقیوں کی پیشوائی‘‘ کی دُعا

اس کے بعد فرمایا: وَ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا ﴿۷۴﴾ اور وہ یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ ’’ہمیں متقیوں کا امام بنا دے‘‘.ان الفاظ سے یہ مضمون بھی متبادر ہو سکتا ہے کہ یہ دعا کی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نیک لوگوں کا امام اور پیشوا بنائے‘ نیک لوگوں کے آگے چلنے والا بنائے. اگرچہ اس کی خواہش رکھنابھی کوئی بری بات نہیں ہے‘ لیکن جس سیاق و سباق میں یہ الفاظ آ رہے ہیں اس کے اعتبار سے ان کا مفہوم کچھ مختلف ہے. درحقیقت ان الفاظ کے ذریعے پہلی بات ہی کی مزید تاکید ہو رہی ہے. اس لیے کہ ہر شخص فطری طور پر اپنے اہل و عیال کا امام ہے. قیامت کے روز جب لوگ اٹھیں گے تو ان کے پیچھے ان کی نسلیں چلی آ رہی ہوں گی‘ ان کی اولاد و اَخلاف ان کے پیچھے چلے آرہے ہوں گے. تو گویا وہی بات ذرا اسلوب بدل کر کہی گئی ہے کہ اے ربّ ہم جن کے امام ہیں ان کو متقی بنا دے. ایسا نہ ہو کہ ہمارے پیچھے آنے والے‘ ہماری آئندہ نسلیں فساق و فجار پر مشتمل ہوں.

نبی اکرم کا ارشاد گرامی ہے : کُلُّکُمْ رَاعٍ وَّکُلُّکُمْ مُسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ (۱’’تم میں سے ہر ایک کی حیثیت ایک چرواہے کی ہے اور تم میں سے ہر ایک اپنے ریوڑ کے بارے میں جواب دہ ہے‘‘. جیسے بھیڑ بکریاں چرانے والا ایک چرواہا ہوتا ہے اور چند بھیڑ بکریاں اس کی ذمہ داری میں ہوتی ہیں‘ شام کو اگر کوئی بھیڑ یا بکری لوٹ کر نہ آئی تو اس سے پوچھا جائے گا ‘ وہ ان کے بارے میں مسئول ہے‘ اسی طرح تم میں سے ہر شخص کی حیثیت ایک چرواہے کی ہے‘ اللہ نے اپنی مخلوق میں سے کچھ افراد تمہارے حوالے کر دیے ہیں‘ وہ تمہاری بیویاں ہیں‘ تمہاری اولاد ہیں‘ وہ تمہارے زیرکفالت ہیں‘ وہ تمہارے زیر تربیت ہیں‘ یہ تمہارا وہ گلہ ہے جس کے بارے میں اللہ تم (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الجمعۃ‘ باب الجمعۃ فی القری والمدن. سے پوچھے گا کہ تم نے ان کی صحیح رُخ پر تعلیم و تربیت کا کتنا اہتمام کیا؟ انہیں اللہ کے نیک اور متقی بندے بنانے کے لیے کتنی محنت کی؟ یہ ہے مفہوم اس ارشادِ نبویؐ کا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَّکُلُّکُمْ مُسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ. چنانچہ ہر بندۂ مؤمن کی یہ دعا ہونی چاہیے کہ اے اللہ! جو گلہ تو نے مجھے عطا فرمایا ہے‘ جس کی ذمہ داری تو نے مجھے سونپی ہے‘ اس کو توفیق دے کہ وہ نیکی اور تقویٰ کی روش اختیار کرے‘ اور ہم کو ایسے متقیوں کا امام بنا. وَ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا ﴿۷۴