نبوت و رسالت کی غرض و غایت

آخر میں ارشاد فرمایا: 

قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡ لَا دُعَآؤُکُمۡ ۚ فَقَدۡ کَذَّبۡتُمۡ فَسَوۡفَ یَکُوۡنُ لِزَامًا ﴿٪۷۷﴾ (الفرقان) 
’’(اے نبی !) فرما دیجیے کہ میرے ربّ کو تمہاری کوئی پروا نہیں ہے اگر نہ ہوتا تمہارا پکارنا‘سو تم جھٹلا چکے ہو‘ اب اس کی سزا جلد ہی تمہیں چمٹ کر رہے گی‘‘.
اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سورۃ الفرقان کی اس آخری آیت میں اور اس سورۂ مبارکہ کی پہلی آیت میں بڑا گہرا ربط و تعلق ہے:

تَبٰرَکَ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ عَلٰی عَبۡدِہٖ لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا ۙ﴿۱﴾ 
’’بڑی بابرکت ہے وہ ہستی جس نے نازل فرمایا الفرقان اپنے بندے ( )پر تا کہ وہ تمام جہان والوں کے لیے خبردار کرنے والے بن جائیں‘‘.
ایمانیات کے ذیل میں یہ بات ہمارے سامنے آ چکی ہے کہ ایمان کے تین بڑے بڑے اجزاء ہیں : (۱) ایمان باللہ یا توحید (۲) ایمان بالآخرۃ یا معاد‘ اور (۳) ایمان بالرسالت. سورۃ الفرقان کے آخری رکوع کی پہلی دو آیات ایمان باللہ سے بحث کرتی ہیں. ارشاد ہوا:

تَبٰرَکَ الَّذِیۡ جَعَلَ فِی السَّمَآءِ بُرُوۡجًا وَّ جَعَلَ فِیۡہَا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیۡرًا ﴿۶۱﴾وَ ہُوَ الَّذِیۡ جَعَلَ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ خِلۡفَۃً لِّمَنۡ اَرَادَ اَنۡ یَّذَّکَّرَ اَوۡ اَرَادَ شُکُوۡرًا ﴿۶۲
میں نے عرض کیا تھا کہ ان سب کا نتیجہ ایمان باللہ ہے. سورۃ الفرقان کی پہلی اور آخری آیت کا تعلق ایمان بالرسالت سے ہے کہ اللہ تعالیٰ رسولوں کو کیوں بھیجتا رہا! نبوت و رسالت کی غرض و غایت کیا ہے! سورۃ النساء کی آیت ۱۶۵ میں یہ مضمون بڑی وضاحت سے اور بڑے واضح الفاظ میں آیا ہے. فرمایا:

رُسُلًا مُّبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌۢ بَعۡدَ الرُّسُلِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿۱۶۵
’’ہم اپنے رسولوں کو بشارت دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجتے رہے ہیں تا کہ رسولوں کی آمد کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے یہاں کوئی عذر باقی نہ رہ جائے. اور اللہ تو ہے ہی غالب‘حکمت والا‘‘.

معلوم ہوا کہ رسولوں کو بھیجنے کا ایک اہم مقصد ’’اتمام ِحجت‘‘ اور ’’قطعِ عذر‘‘ تھا ‘تا کہ لوگ یہ نہ کہہ سکیں کہ اے اللہ! ہمیں پتا نہیں تھا کہ تو کیا چاہتا ہے! ہمیں معلوم نہیں تھا کہ 
تجھے کون کون سے اوصاف پسند ہیں! ہم جانتے نہیں تھے کہ تو کن چیزوں سے ناراض ہوتا ہے! اگرچہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں سماعت و بصارت‘ عقل و شعور اور نیکی و بدی کی تمیز جیسی بہت سی چیزوں سے مسلح کر کے بھیجا ہے اور یہ بنیادی اور ابتدائی حجت ہے جو ہر انسان پر قائم ہے‘ لیکن اتمامِ حجت تب ہوتا ہے جب رسول تشریف لاتے ہیں. چنانچہ رسولوں نے حق کو قولا ً اور عملا ً پیش کر دیا. سچ بولنے کی ترغیب دی تو ساری عمر سچ بول کر دکھایا. دیانت اور امانت کی تلقین کی تو اپنی زندگیوں میں دیانت و امانت کا نمونہ پیش فرما دیا. عدل و قسط کی تاکید کی تو دوست و دشمن کی تمیز و امتیاز کے بغیر عدل و انصاف کر کے دکھایا. عفو و صفح کی نصیحت کی تواپنی جان کے دشمنوں اور خود اپنے اوپر اور اپنے ساتھیوں پر بے پناہ مظالم ڈھانے والوں کو معاف کر کے دکھایا. جو دعوت دی اس کا عملی نمونہ بھی لوگوں کے سامنے رکھ دیا. تو گویا لوگوں پر قولا ًاور عملا ً آخری درجہ میں حجت قائم ہو گئی. یہی وہ حقیقت ہے جو سورۃ النساء کی مذکورہ بالا آیت میں بیان فرمائی گئی ہے.

یہی مضمون سورۃ الفرقان کی پہلی آیت میں آیا ہے کہ انبیاء و رُسل کی اس مقدس جماعت میں رسول اللہ کی ایک امتیازی شان ہے. پہلے بھی رسول بشیر و نذیر بن کر آتے تھے لیکن وہ اپنی اپنی قوموں کی طرف آتے تھے. قرآن مجید میں یہ مضمون تکرار کے ساتھ آیا ہے : 
وَ اِلٰی عَادٍ اَخَاہُمۡ ہُوۡدًا ؕ... وَ اِلٰی ثَمُوۡدَ اَخَاہُمۡ صٰلِحًا ۘ...وَ اِلٰی مَدۡیَنَ اَخَاہُمۡ شُعَیۡبًا ؕ (الاعراف:۶۵‘ ۷۳ ‘ ۸۵’’اورقومِ عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہودؑ کو بھیجا… اورقومِ ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالح ؑ کو بھیجا…اور مدین (میں رہنے والی قوم) کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیبؑ کو بھیجا‘‘.چنانچہ مطالعہ قرآن حکیم کی روشنی میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نبی اکرم کی بعثت سے قبل نبوت و رسالت کا معاملہ علاقائی یا قومی ہوتا تھا‘ لیکن جناب محمدٌ رسول اللہ کی ذاتِ مبارکہ پر جو نبوت کا اختتام و اتمام ہوا اور رسالت کی تکمیل ہوئی‘ اس کا ایک مظہر یہ ہے کہ آپؐ سارے جہان والوں کے لیے خبردار کرنے والے بن کر تشریف لائے اور قرآن مجید‘ فرقانِ حمید اسی مقصد کے لیے نازل فرمایا گیا:

تَبٰرَکَ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ عَلٰی عَبۡدِہٖ لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا ۙ﴿۱
یہی بات سورۃ الانبیاء میں بایں الفاظِ مبارکہ فرمائی گئی : وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۷﴾ اور سورۂ سبا میں آنحضور کی آفاقی و عالمی شان کو اور بھی واضح الفاظ میں بیان فرمایا گیا:

وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا (آیت ۲۸
’’اور (اے نبیؐ !) ہم نے نہیں بھیجا آپ کو مگر تمام لوگوں کے لیے بشیر اور نذیر بناکر!‘‘

لیکن یہ بات جان لیجیے کہ رسول ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برہان‘ دلیل اور بیّنہ بن کر تشریف لاتے ہیں‘ لہذا جہاں رسولوں کی بعثت رحمت ہے وہاں جو انکار کرنے والے ہیں ان کے لیے دنیا اور آخرت میں یہی چیز موجب عذاب اور موجب سزا بھی ہے. رسولوں کی آمد سے پہلے ان کے پاس کوئی عذر تو تھا کہ اے اللہ ہمیں معلوم نہیں تھا ‘ ہم جانتے نہیں تھے کہ تیری رضا کیا ہے. لیکن رسولوں کے آنے کے بعد یہ عذر ختم ہو گیا. اب محاسبہ شدید ہوگا اور پکڑ سخت ہوگی. یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں بار بار اُن قوموں کا ذکر ہوا ہے جن کی طرف رسولوں کو مبعوث فرمایا گیا‘ اور جب انہوں نے ان رسولوں کا انکار کیا‘ ان کی تکذیب کی‘ ان کو قتل کرنے کے درپے ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو اور ان چند لوگوں کو جو اُن رسولوں پر ایمان لائے تھے‘ بچا لیا اور اُن قوموں کو ہلاک کر دیا. 

سورۃ الفرقان کی اس آخری آیت میں اہل عرب کو یہی تنبیہہ فرمائی جا رہی ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ ہمارے رسول اگر تمہیں دعوت دے رہے ہیں‘ تبلیغ کر رہے ہیں‘ تمہارے پیچھے پیچھے پھر رہے ہیں‘ ایک ایک گھر پر جا کر پیغامِ ربانی پہنچا رہے ہیں‘ ایک ایک انسان کے دل پر دستک دے رہے ہیں تو میرے ربّ کو تمہاری کوئی پروا ہے. اللہ کو ہر گز تمہاری کوئی پروا نہیں ہے. اگر تمہیں پکارنا اور خبردار کرنا مقصود نہ ہوتا تو ہمارے 
رسول یہ مشقت نہ جھیلتے. اس لیے کہ اللہ کی سنت یہی ہے کہ کسی قوم پر عذاب بھیجنے سے پہلے اُسے متنبہ اور خبردار کر دیا جائے‘ جیسا کہ سورۂ بنی اسرائیل میں فرمایا:

وَ مَا کُنَّا مُعَذِّبِیۡنَ حَتّٰی نَبۡعَثَ رَسُوۡلًا ﴿۱۵﴾ 
’’ہم عذاب نہیں بھیجتے رہے ہیں جب تک رسولوں کو مبعوث نہ فرما دیں‘‘.

یعنی رسولوں کی آمد کے ذریعے جب تک اتمامِ حجت نہ ہو جائے اس سے پہلے قومیں ہلاک نہیں کی جاتیں. لہذا یہاں نبی اکرم سے کہلوایا جا رہا ہے کہ میں نے تم تک تمہارے ربّ کا پیغام پہنچا دیا‘ تمہارے سامنے تمہارے ربّ کی دعوت پیش کر دی‘ مجھ تک جو ہدایتِ ربّانی آئی تھی اسے قولاً اور عملاً تمہارے سامنے پیش کر دیا‘ یہ تمہارے ہی نفع کے لیے کیا گیا ہے‘ ورنہ میرے ربّ کو تمہاری کوئی پروا نہیں ہے . یہ تبلیغ و دعوت اس لیے ہے کہ تم کو خبردار کر دیا جائے. اگر تمہیں پکارنا نہ ہوتاتو رشد و ہدایت اور دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری بھی مجھ پر نہ ہوتی.لیکن 
فَقَدۡ کَذَّبۡتُمۡ ’’پس تم جھٹلا چکے( تم تکذیب کر چکے)‘‘. عربی زبان میں فعل ماضی پر جب ’’قَد‘‘ کا اضافہ ہو جاتا ہے تو اس میں کسی کام کے ہو جانے میں قطعیت و حتمیت کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے. انگریزی میں Present Perfect Tense کا جو مفہوم ہوتا ہے‘ یعنی کام ہو چکا ہے‘ بات ہو چکی ہے‘ یہی مفہوم عربی میں فعل ماضی پر ’’قَد‘‘ کا اضافہ کرنے سے پیدا ہوتا ہے. چنانچہ فرمایا: فَقَدۡ کَذَّبۡتُمۡ فَسَوۡفَ یَکُوۡنُ لِزَامًا ﴿٪۷۷﴾ ’’سو لوگو! تم جھٹلا چکے ہو‘ پس اب عنقریب اس کی سزا تمہیں چمٹ کر رہے گی‘‘. لازم و ملزوم کے الفاظ ہم عام بول چال میں استعمال کرتے ہیں. ’’لِزَامًا ‘‘ کے معنی ہوں گے جسے کوئی چیز چمٹ کر رہ جائے‘ چپک کر رہ جائے. تو فرمایا: ’’سو تم نے (دعوتِ ربانی کو) جھٹلا دیا‘ پس عنقریب اس کا وبال تم پر لاگو ہو کر رہے گا‘‘. تمہیں اس تکذیب کی سزا مل کر رہے گی.

یہ آیتِ مبارکہ نہ صرف اُن لوگوں کے لیے بہت اہم ہے جو قرآن مجید کے اوّلین مخاطب تھے اور جن کے سامنے جناب محمد رسول اللہ بنفس نفیس خلق خدا کو دعوت پہنچا رہے تھے ‘بلکہ ہمارے لیے بھی بہت اہم ہے. اس لیے کہ جناب محمد رسول اللہ پر نبوت کا جو اختتام و اتمام ہوا ہے‘ رسالت کی جو تکمیل ہوئی ہے‘ اس کا ایک مظہر وہ ہے جو میں پیش کر چکاہوں کہ رسول اللہ کی بعثت پوری نوعِ انسانی کے لیے ہے. اور اسی کا دوسرا مظہر یہ ہے کہ آپ ہی کا دورِ رسالت تا قیامِ قیامت جاری ہے. یہ دور جس میں ہم سانس لے رہے ہیں‘ یہ بھی دورِ رسالتِ محمدی ہے (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام). ہر انسان جو آج دنیا میں پیدا ہو رہا ہے اور قیامت تک پیدا ہوگا وہ نبی ٔ آخر الزماںحضرت محمد کی اُمت دعوت میں شامل ہے.

ہاں اُمت اجابت میں وہی شامل ہوگا جو نبی اکرم کی دعوت پر لبیک کہے‘ حضور کی تصدیق کرے‘ حضور پر ایمان لائے. لیکن اُمت دعوت سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جن کی طرف کسی رسول کو بھیجا گیا ہو. جیسے حضرت ہود علیہ السلام کی اُمتِ دعوت قومِ عاد تھی‘ حضرت صالح علیہ السلام کی اُمتِ دعوت قومِ ثمود تھی‘ اسی طرح جناب محمدٌ رسول اللہ کی اُمتِ دعوت پوری نوعِ انسانی ہے. اور پیغامِ ربانی کو جس طرح نبی اکرم نے بنفس نفیس ان لوگوں کو پہنچایا جو آپ کے مخاطبین اوّلین تھے‘ اسی طرح یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم روئے ارضی پر بسنے والے ہر شخص تک اسے پہنچائیں. رسول اللہ نے تکلیفیں جھیل کر اور مصیبتیں اٹھا کر یہ فریضۂ دعوت انجام دیا. آپؐ کا تمسخر و استہزاء بھی ہوا‘ آپؐ پر پتھراؤ بھی ہوا‘ آپؐ کے راستہ میں کانٹے بھی بچھا ئے گئے‘ آپؐ کی گردن مبارک میں چادر ڈال کر اس طرح بل دیا گیا کہ چشم ہائے مبارک اُبل پڑنے کو ہوئیں. آپؐ پر کوڑا کرکٹ ڈالا گیا. آپؐ کے شانۂ مبارک پر‘ جبکہ آپؐ سربسجود تھے‘ اونٹ کی نجاست بھری اوجھڑی رکھی گئی. طائف کی گلیوں میں آپؐ پر پتھروں کی اس طورپر بارش ہوئی کہ جسد اطہر لہولہان ہوگیا اور جسم اَقدس سے خون بہہ بہہ کر نعلین شریفین میں جم گیا. یہ ساری تکلیفیں آپ نے جھیلیں‘ لیکن دین کا پیغام پہنچا کرحجت قائم کر دی.

اب یہ کام اُمتِ مسلمہ کے ذمہ ہے‘ میرے اور آپ کے ذمہ ہے‘ حضور کے ہر اُمتی کے ذمہ ہے کہ اللہ کا پیغام ایک ایک فردِ نوعِ بشر تک پہنچائیں. یہ ہر مسلمان کی 
دینی ذمہ داری ہے. اگر پہنچا دیں تو ہم بریٔ الذمہ ہوجائیں گے. جن تک بات پہنچا دی جائے اگر وہ دعوت کو ردّ کریں اور اس کو قبول کرنے سے انکار کریں تو پھر وہ خود ذمہ دارہوں گے ‘ سارا بوجھ اُن پر آئے گا. لیکن اگر معاملہ وہ ہو جو فی الواقع ہمارا ہے کہ ہم دوسروں تک کیا پہنچائیں آج خود ہم اس بات کے محتاج ہو گئے ہیں کہ قرآن ہمیں پہنچایا جائے ‘تو مجرم ہم ٹھہریں گے. سو معلوم ہوا کہ ہمارے شانوں پر دوہری ذمہ داری آ گئی. جن تک پیغام پہنچانا تھا اگر اُن تک پیغام نہیں پہنچ رہا‘ انذار نہیں ہو رہا‘ دعوتِ ربانی کا حق ادا نہیں ہو رہا‘ تو ان لوگوں کی غلط روی اور گمراہی کا وبال بھی ہم پر آئے گا. اور خود ہمارا اپنا حال یہ ہے کہ اگرچہ ہم قرآن کے ماننے والے ہیں اور جناب محمدٌ رسول اللہ کے نام لیوا ہیں‘ لیکناِلاَّ ما شاء اللہ‘ ہم عملاً تو تکذیب کر رہے ہیں. ایک تکذیب قولی ہوتی ہے کہ کسی نبی کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ نبوت کا غلط دعویٰ کر رہا ہے‘ جھوٹ گھڑ رہا ہے. جیسے ابوجہل اور ابولہب نے رسول اللہ کی تکذیب کی. جبکہ ایک تکذیب عملی ہوتی ہے کہ بظاہر زبان سے حضور کو نبی اور رسول مان لیا جائے‘ لیکن آپؐ کے احکام کو تسلیم نہ کیا جائے. تکذیب عملی کی ایک مثال قرآن مجید میں سورۃ الجمعہ میں آئی ہے:

مَثَلُ الَّذِیۡنَ حُمِّلُوا التَّوۡرٰىۃَ ثُمَّ لَمۡ یَحۡمِلُوۡہَا کَمَثَلِ الۡحِمَارِ یَحۡمِلُ اَسۡفَارًا ؕ بِئۡسَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۵﴾ 
’’مثال اُن کی جو حامل تورات بنائے گئے تھے‘ پھر انہوں نے اس کی ذمہ داری کو ادا نہ کیا‘ اس گدھے کی مانند ہے جس پر کتابوں کا بوجھ لدا ہوا ہو‘ اور بہت بُری ہے مثال اس قوم کی جس نے آیاتِ الٰہیہ کی تکذیب کی. اور اللہ ایسے ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘.

اب آپ اس آیت مبارکہ کے ان الفاظ پر غور فرمائیے : 
بِئۡسَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ؕ . ہم سب جانتے ہیں کہ یہود نے زبان سے کبھی تورات کی تکذیب نہیں کی. تو غور طلب بات یہ ہے کہ یہ تکذیب کون سی ہے! یہ تکذیب درحقیقت تکذیب ِ عملی ہے کہ تورات کے کتاب اللہ ہونے کا زبانی اقرار تو موجود ہے لیکن اُس پر عمل نہیں ہو رہا. اور ظاہر بات ہے کہ تورات پر ایمان کا دعویٰ کرنے والے اگر اُس کے احکام پر کاربند نہیں ہیں‘ اگر تورات کے نواہی سے اجتناب نہیں کیا جا رہا‘ جو ذمہ داریاں تورات نے عائد کی ہیں اگر انہیں ادا کرنے سے پہلو تہی کی جا رہی ہے‘ اُن سے اغماض برتا جا رہا ہے‘ تو چاہے زبان سے یہود اقرار کرتے ہوں کہ وہ تورات کو اللہ کی کتاب مانتے ہیں لیکن حقیقتاً اور عملاً یہ رویہ تورات کی تکذیب کے مترادف ہے. آج اگر ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو نظر آئے گا کہ بعینہٖ یہی معاملہ ہمارا ہے. نبی ٔ اکرم نے ہمیں پہلے ہی سے متنبہ فرما دیا تھا. بڑی پیاری حدیث ہے جس کا آغاز ’’یَا اَھْلَ الْقُرْآنِ‘‘ کے الفاظ سے ہو رہا ہے.

یعنی ’’اے قرآن والو!‘‘ جیسے قرآن مجید میں یہود و نصاریٰ سے ’’ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ ‘‘ کے الفاظ سے خطاب ہوتا ہے‘ محبوبِ ربّ العالمین ہم مسلمانوں سے خطاب فرما رہے ہیں ’’یَا اَھْلَ الْقُرْآنِ‘‘ کے الفاظ سے. ارشاد ہوتا ہے :یَا اَھْلَ الْقُرْآنِ لاَ تَتَوَسَّدُوا الْقُرْآنَ (۱’’اے قرآن والو! قرآن حکیم کو اپنا تکیہ نہ بنا لینا‘‘. اُسے ایک ذہنی سہارا نہ بنا لینا. قرآن کو پس پشت نہ ڈال دینا. تکیہ پیٹھ کے پیچھے ہوتا ہے‘ ایسا نہ ہو کہ تم قرآن کو پیٹھ کے پیچھے پھینک دو. بلکہ تمہارا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے: وَاتْلُوْہُ حَقَّ تِلاَوَتِہٖ مِنْ آنَا ءِ اللَّیْلِ وَالنَّھَارِ’’اُسے پڑھو جیسا کہ اس کے پڑھنے کا حق ہے‘ رات کے اوقات میں بھی اور دن کے اوقات میں بھی‘‘. وَاَفْشُوْہُ ’’اور اُسے پھیلاؤ‘‘. اُسے عام کرو‘ اس کی تبلیغ کرو‘ اس کے نور سے چہار دانگ ِ عالم کو منور کرو. وَتَغَنَّوْہُ ’’اور اُسے خوش الحانی سے پڑھو‘‘ کہ اس سے تمہاری روح کو غذا میسر آئے. وَتَدَبَّرُوْا فِیْہِ’’اور اُس میں تدبر کرو (غور وفکر کرو)‘‘. وہی بات جو ہم نے اس رکوع میں پڑھی کہ وَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِّرُوۡا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمۡ لَمۡ یَخِرُّوۡا عَلَیۡہَا صُمًّا وَّ عُمۡیَانًا ﴿۷۳﴾ چنانچہ قرآن پر تدبر ہو‘ غور و (۱) رواہ البیھقی فی شعب الایمان. و فکر ہو. آخر میں ارشاد فرمایا: لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ ’’تاکہ تم فلاح پاؤ‘‘.

پس اگر ہم قرآن مجید کے ساتھ یہ طرزِ عمل اختیار نہیں کرتے جس کا حکم نبی اکرم کی اس حدیث میں آیا ہے تو چاہے زبان سے ہم مانتے ہوں کہ یہ اللہ کا کلام ہے‘ لیکن حقیقتاً ہم تکذیب کا ارتکاب کر رہے ہوتے ہیں‘ اور یہی عملی تکذیب ہے. اس معنی میں اس آیت مبارکہ کے مخاطبین میں ہم بھی شامل ہیں : 
قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡ لَا دُعَآؤُکُمۡ ۚ کہ اے نبیؐ ! ان لوگوں کے کان کھول دیجیے‘ انہیں یہ بات سنا دیجیے کہ میرے ربّ کو تمہاری کوئی پروا نہیں ہے‘ بلکہ اُس نے اگر مجھے مبعوث فرمایا ہے ‘ مجھ پر یہ قرآن نازل فرمایا ہے تو صرف اس لیے کہ تم پر اتمامِ حجت کرنا مقصود ہے. لہٰذا میں نے تو تبلیغ کا حق ادا کر کے تم پر حجت قائم کر دی ہے. لیکن فَقَدۡ کَذَّبۡتُمۡ تم جھٹلا چکے ہو‘ تم نے کفر کی روش اختیار کی ہے‘ خواہ یہ جھٹلانا قولاً ہو یا عملاً ہو. فَسَوۡفَ یَکُوۡنُ لِزَامًا ﴿٪۷۷﴾ پس جان رکھو کہ جلد ہی اس کی سزا تم سے چمٹ کر رہے گی. اس کی پاداش تم کو بھگتنی پڑے گی. اللہ تعالیٰ اس انجامِ بد سے ہمیں بچائے!

بَارَکَ اللّٰہُ لِیْ وَلَکُمْ فِی الْقُرْآنِ الْعَظِیْمِ وَنَفَعَنِیْ وَاِیَّاکُمْ بِالآیَاتِ وَالذِّکْرِ الْحَکِیْمِ