یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد ایمان ہے‘ لیکن اس سے آگے یہ امور کہ ایمان کے لفظی معنی کیا ہیں؟ اس کا اصطلاحی مفہوم یا ’’تعریف‘‘ کیا ہے؟ پھر یہ کہ اسلام کن کن حقائق کے تسلیم کرنے کا نام ہے؟ اور یہ امور کس طرح ایک مکمل world view اور weltenschuong اور ideology یا عرف عام کے مطابق ’’فلسفہ‘‘ کی صورت اختیار کرتے ہیں؟ پھر یہ اہم اور پیچیدہ بحث کہ ایمان کا عمل کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اور اس کے ضمن میں امت کے مختلف مکاتب ِ فکر میں کیا کیا اختلافات واقع ہوئے ہیں؟ اور ان اختلافات کی تحلیل و تصفیے کی کیا صورت ہے؟ اور بالآخر یہ کہ ایمان کا حاصل کیا ہے؟ اور اس کے ضمن میں ذاتی سطح پر اعمالِ صالحہ اور قلبی و ذہنی اطمینان و سکون پر مستزاد اجتماعی طور پر جہاد فی سبیل اللہ کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟ ان امور پر نہ عوامی سطح پر کوئی توجہ ہی دی جاتی ہے‘ نہ کوئی آسان لیکن مربوط و مبسوط کتاب کم از کم اردو زبان میں میری محدود معلومات کی حد تک موجود ہے. جبکہ دوسری طرف اسی کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے اور گزشتہ صدی کی احیائی تحریکوں کی ناکامی کا اصل سبب یہی ہے کہ ان میں مسلمانوں کی حد تک ایمان کو تو taken for granted کے انداز میں موجود مان لیا گیا اور ساری بحث اسلام کے انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر عملی مظاہر پر مرکوز کر دی گئی!

راقم الحروف کو اس کا شدید احساس شروع سے تھا. چنانچہ یہ موضوع میرے دروسِ قرآن اور خطاباتِ عام میں تو بکثرت زیر بحث آیا‘ اور اس پر ۱۹۹۱ء کے سالانہ قرآنی محاضرات میں مَیں نے پانچ خطبات بھی دیے‘ لیکن تاحال اس موضوع پر کوئی تحریر سامنے نہیں آ سکی تھی‘ چنانچہ اس کے لیے میں نے اولاً ان خطبات کو کیسٹ کی 
ٹیپ سے صفحہ قرطاس پر منتقل کرایا اور پھر محترم مولانا ابو عبدالرحمن شبیر بن نور سے درخواست کی کہ انہیں مرتب کر لیں. موصوف ایک مستند عالم دین اور عربی لغت اور گرامر کے جید ماہر ہیں جو عرصہ سے سعودی عرب میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں. انہوں نے بڑی خوشی کے ساتھ میری اس درخواست کو قبول کر لیا اور کچھ عرصہ کے بعد اس کی اقساط بھجوانی شروع کر دیں جو ماہنامہ ’’حکمت قرآن‘‘ میں شائع بھی ہوتی رہیں. لیکن بعض وجوہ سے مجھے ان کے طرزِ ترتیب سے بتمام و کمال اتفاق نہ ہو سکا اور میں نے ارادہ کیا کہ اس پر خود نظرثانی کروں. لیکن جب بھی ایسا ہوتا کہ میں اسے لے کر بیٹھتا تو مجھے ایک پہاڑ سا سامنے نظر آتا اور میں فائل بند کر دیتا‘ تاہم چند روز قبل میں نے طے کیا کہ ایک مرتبہ اسے "as it is" شائع کر دیا جائے‘ پھر اگر واقعی ضرورت محسوس ہوئی تو دوسرے ایڈیشن میں حک و اضافہ کر لیا جائے گا! 

میں مولانا شبیر بن نور کی محنت و مشقت کا تہہ دل سے قدردان ہوں اور ان کا صمیمِ قلب کے ساتھ شکریہ ادا کرتا ہوں‘ خصوصاً اس بنا پر کہ انہوں نے یہ تمام محنت و مشقت خالصتاً لوجہ اللہ کی ہے اور کسی بھی طرح کا کوئی معاوضہ یا محنتانہ نہیں لیا. لہٰذا اگر اس کتاب سے خلق خدا کو کوئی فائدہ پہنچے تو اس کے اجر و ثواب میں وہ میرے ساتھ برابر کے شریک ہوں گے. 

خاکسار v عفی عنہ 
۵ فروری ۲۰۰۳ء
 

خطبۂ مسنونہ‘ آیاتِ قرآنی اور حدیث نبویؐ


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَ نَسْتَعِیْنُہٗ وَ نَسْتَغْفِرُہٗ وَ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَیِّئَاتِ اَعْمَالِنَا‘ مَنْ یَّھْدِہِ اللّٰہُ فَلا مُضِلَّ لَہٗ وَ مَنْ یُّضْلِلْ فَلَا ھَادِیَ لَہٗ‘ وَ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ اَمَّا بَعْدُ:

اعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 

فَاَیُّ الۡفَرِیۡقَیۡنِ اَحَقُّ بِالۡاَمۡنِ ۚ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۘ۸۱﴾اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمۡ یَلۡبِسُوۡۤا اِیۡمَانَہُمۡ بِظُلۡمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الۡاَمۡنُ وَ ہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ ﴿٪۸۲﴾ 
(الانعام) 

و قال تبارک و تعالٰی کما ورد فی اول سورۃ البقرۃ: 

الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ۙ﴿۳﴾وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ ؕ﴿۴﴾اُولٰٓئِکَ عَلٰی ہُدًی مِّنۡ رَّبِّہِمۡ ٭ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۵﴾ 
(البقرۃ) 

وقال جلَّ و علا کما ورد فی وسط السُّورۃ: 

لَیۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ الۡکِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ 
(البقرۃ) 

وقال تبارک و تعالٰی کما ورد فی آخر السورۃ: 

اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مِنۡ رَّبِّہٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ ۟ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡ رُّسُلِہٖ ۟ وَ قَالُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ٭۫ غُفۡرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیۡکَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۲۸۵﴾ 
(البقرۃ) 

وکان النبی یقول عند رویۃ الھلال: 

اَللّٰھُمَّ اَھِلَّہٗ عَلَیْنَا بِالْاَمْنِ وَ الْاِیْمَانِ وَ السَّلَامَۃِ وَ الْاِسْلَامِ‘ رَبِّیْ وَ رَبُّکَ اللّٰہُ 


ترجمہ آیاتِ قرآنی و حدیث ِ نبویؐ

’’دونوں فریقوں میں سے کون امن اور بے خوفی و اطمینان کا زیادہ مستحق ہے؟ بتاؤ! اگر تم کچھ علم رکھتے ہو. حقیقت میں تو امن انہی کے لیے ہے اور راہِ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا.‘‘

’’الف‘ لام‘ میم. یہ ’’الکتاب‘‘ ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں‘ ہدایت ہے ان پرہیزگار لوگوں کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں اور جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں. اور جو کچھ تم پر نازل کیا گیا ہے اور جو کچھ تم سے پہلے نازل کیا گیا تھا اس سب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں. ایسے لوگ ہی اپنے ربّ کی طرف سے راہِ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں‘‘. 

’’نیکی یہی نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لو یا مغرب کی طرف‘ بلکہ نیکی اس کی ہے جو اللہ کو یومِ آخر کو فرشتوں کو‘ اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب کو اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے.‘‘

’’رسول اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے ربّ کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اس رسول کو ماننے والے ہیں انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے. یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ ’’ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے‘ ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی‘ مالک! ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے.‘‘ 

’’اے اللہ! اس ہلال کو امن و ایمان اور سلامتی و اسلام کا موجب بنا کر ہمارے لیے طلوع فرما‘ (اور اے چاند!) میرا اور تمہارا ربّ اللہ ہے‘‘. (۱(۱) سنن الترمذی‘ کتاب الدعوات‘ باب ما یقول عنہ رویہ الھلال‘ حدیث ۳۴۵۱. المستدرک للحاکم ۴؍۲۸۵. مسند احمد ۱؍۱۶۲. سنن الدارمی ۲/۴ . علامہ العصر جناب محمد ناصر الدین الالبانی نے حدیث کو صحیح قرار دیا ہے. ملاحظہ ہو سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ۴؍۴۳۰‘ حدیث ۱۸۱۶.