خطبۂ مسنونہ‘ مندرجۃ الصدر آیاتِ قرآنی کی تلاوت اور ادعیۂ منسونہ کے بعد:
آج سے ہم اللہ کی نصرت و تائید کے بھروسے پر مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے زیر اہتمام اس سال کے پانچ روزہ محاضراتِ قرآنی کا آغاز کر رہے ہیں جن کا مرکزی عنوان ہے: ’’حقیقت ِ ایمان‘‘.
آج یہاں حاضر ہونے سے پہلے جب میں تمہیدی کلمات کے بارے میں سوچ رہا تھا تو سابقہ بیس پچیس سال پر محیط تاریخ کا نقشہ ایک فلم کی طرح پردۂ ذہن پر گھوم گیا. اللہ تعالیٰ نے اس عرصے میں دین کی خدمت کا جو بھی موقع میرے لیے میسر فرمایا اور جس ذہنی‘ فکری اور دعوتی تگ و دو کی توفیق میرے نصیب میں لکھی‘ خواہ یہ خدمت مرکزی انجمن خدام القرآن کے سٹیج سے ہوئی یا تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے‘ اس ساری محنت کے چار بنیادی موضوعات (main themes) رہے ہیں.
A فرائض دینی کا جامع تصور
B اسلام کا نظامِ عدلِ اجتماعی اور اس کے نمایاں خدوخال
C منہج انقلابِ اسلامی
D حقیقت ایمان
A فرائض دینی کا جامع تصور
ان میں سے اوّلین‘ اہم ترین اور ہر لحاظ سے بنیادی اور اساسی موضوع (theme) ’’فرائض دینی کا جامع تصور‘‘ ہے. اس حوالے سے میں دیکھتا ہوں کہ آج کل اخبارات میں ہمارا کچھ مذاق بھی اڑایا جا رہا ہے‘ تاہم میں اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ یہ ہماری پہچان بن گیا ہے.
اللہ تعالیٰ کی خصوصی توفیق کی بدولت میں نے اپنی توانائیوں کا بیشتر حصہ مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب پر مبنی ’’فرائض دینی کا جامع تصور‘‘ کی وضاحت پر ہی صَرف کیا ہے. بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ اسی جامع تصور کو ہی بنیاد بنا کر قرآن حکیم سے یہ منتخب نصاب مرتب کیا گیا ہے جس کے دروس کو ہماری اس تحریک کی اساس قرار دیا جاسکتا ہے. مسخ شدہ طبیعتوں کا معاملہ بالکل مختلف ہے‘ عام طور پر انسان کی فکر اور اس کے کردار کے مابین ایک لازمی تعلق ہوا کرتا ہے‘ چنانچہ نارمل حالات میں انسان کا عمل اس کی فکر اور سوچ کے تابع ہوتا ہے. اب اگر ’’فرائض‘‘ کے بارے میں ہمارا تصور صحیح ہو جائے‘ یعنی اسلام کی آفاقی تعلیمات کے مطابق جامع اور ہمہ گیر ہو جائے تو یقینا ہمارا عمل بھی درست‘ جامع اور ہمہ گیر ہو جائے گا. میں نے سب سے زیادہ محنت قرآن حکیم کے اسی منتخب نصاب کے بیان پر صَرف کی ہے. بار بار ان مقامات کے درس دیئے ہیں‘ فرائض دینی کے اس جامع تصور کو ذہنوں میں راسخ کرنے کے لیے چالیس چالیس روزہ قرآنی کیمپ منعقد کیے ہیں‘ اس کے علاوہ سات سات اور دس دس دن کی تربیت گاہیں بھی منعقد کی ہیں. اپنے ملک پاکستان سے نکل کر ٹورنٹو اور شکاگو میں جا کر بھی یہ ذمہ داری ادا کی ہے. اللہ کا شکر ہے کہ جہاں جہاں میں جا سکا اس فکر کو پہنچایا ہے‘ بلکہ دنیا کے اکثر و بیشتر حصوں میں یہ فکر آڈیو اور ویڈیو کیسٹس کے ذریعے پہنچ رہا ہے.
تصورِ فرائض دینی کے سلسلے میں سب سے زیادہ تاکیدی عنصر ’’فریضہ اقامت دین‘‘ کا ہے. یہ وہ فریضہ ہے جسے ہم بحیثیت اُمت فراموش کر چکے ہیں اور اسی کو سب سے زیادہ اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے. یہ تصور دراصل ایک دینی تحریک کا ورثہ ہے جس کے ساتھ میری گہری وابستگی رہی ہے. اسی تحریک نے مجھے یہ تصور دیا تھا. یہ الگ بات ہے کہ وہ دینی تحریک خود موجودہ بے دین‘ ملحد جمہوری سیاست کی دلدل میں پھنس چکی ہے اور نتیجتاً ’’فریضہ اقامت دین‘‘ کے اس بنیادی تصور ہی کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہو کر رہ گئی ہے. فریضہ اقامت دین پر یقین رکھنے والے جو لوگ اس تحریک سے علیحدہ ہوئے انہوں نے بھی کچھ وقت تو اس کوشش میں صَرف کیا کہ پھر اس تصور کے تحت کوئی اجتماعی جدوجہد شروع کریں‘ لیکن جب پے در پے ناکامیاں ہوئیں تو بالآخر ان میں سے بعض نے یہ سمجھتے ہوئے کہ انگور کھٹے ہیں‘ یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ کام فرائض دین میں شامل ہی نہیں ہے‘ نتیجتاً اس اُمت کی ایک بڑی قیمتی متاع ضائع ہو گئی.
اس صدی میں دین کا یہ تصور نہایت وضاحت کے ساتھ اور نکھر کر سامنے آیا کہ دین اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے اور یہ کہ دین اپنا غلبہ چاہتا ہے. یہ تصور اس اُمت کی بہت قیمتی متاع ہے. بعض اسباب کی بنا پر کچھ عرصے سے یہ تصور نگاہوں سے اوجھل ہو گیا تھا‘ کچھ حضرات کی مساعی اور گراں قدر خدمات کے نتیجے میں دوبارہ اُجاگر ہوا. لیکن اب میں پھر دیکھ رہا ہوں کہ وہ گم ہو رہا ہے‘ ابہام اور شکوک و شبہات کا شکار ہو رہا ہے‘ لہٰذا میں نے اپنا اوّلین فریضہ یہی سمجھا کہ اس کو پھر سے اُجاگر کیا جائے. اللہ تعالیٰ کے خاص فضل و کرم سے مَیں نے اپنا یہ فرض ادا کیا ہے اور اس توفیق پر میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اسی تصورِ فرائض دینی کے تحت اب ایک اجتماعیت وجود میں آ چکی ہے.
یہی نہیں‘ بلکہ ۱۹۸۵ء میں مَیں نے علماء کرام کو دعوت دے کر چھ دن متواتر اس موضوع پر ان کے خیالات سننے کا اہتمام کیا. ہوا یوں کہ میں نے قرآنِ حکیم اور سنت رسول اللہ ﷺ کے مطالعے سے جو کچھ سمجھا اسے تحریری شکل میں پیشگی طور پر اہل علم کی خدمت میں ارسال کر دیا اور ان سے درخواست کی کہ فرائض دینی کا یہ خاکہ میرے سامنے ہے‘ اگر اس میں کوئی غلطی یا خامی ہے تو محاضراتِ قرآنی میں تشریف لا کر میرے رفقاء و احباب کے سامنے مجھے اس غلطی پر متنبہ فرمائیں. میری اس دعوت پر ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے پچیس علماء تشریف لائے جن میں دیوبندی بھی تھے‘ بریلوی بھی اور اہلحدیث بھی اور جماعت اسلامی کے بعض اکابر بھی. اگرچہ بعض علماء نے طنز و استہزا کا معاملہ بھی کیا‘ تاہم تمام مکاتب فکر کے چوٹی کے علماء نے میرے فکر کی بحیثیت مجموعی تائید کی. اس کے علاوہ پچیس حضرات نے علمی تحریروں سے بھی نوازا. مجھے اس سے خاطرخواہ فائدہ ہوا. کہیں کہیں لفظی اصلاح بھی بعض علماء نے تجویز کی جس کا میں نے خیر مقدم کیا. اور میں ہمیشہ اس کے لیے ذہناً تیار رہتا ہوں کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو جائے تو واضح ہونے پر علی الاعلان اس کا اعتراف کروں اور اپنی اصلاح کر لوں. بہرکیف میں نے ۱۹۹۱ء کے سالانہ اجتماع میں ’’فرائض دینی کا جامع تصور‘‘ کے موضوع پر اپنے خیالات کو مرتب کر کے تین گھنٹے کے مفصل خطاب کی صورت میں ریکارڈ کرا دیا ہے. اور اس طرح گویا آج کی تاریخ تک فرائض دینی کے بارے میں میرا جو بھی حاصل مطالعہ ہے اسے نہایت جامعیت کے ساتھ میں اپنی اس تقریر کے ذریعے سے آپ حضرات کی خدمت میں پیش کر چکا ہوں.
B اسلام کا نظامِ عدلِ اجتماعی اور اس کے نمایاں خدوخال
دوسرا اہم موضوع یا Theme جس کی تفصیلی وضاحت مَیں اپنے دروس و تقاریر کے ذریعے کرتا رہا ہوں‘ اس کا تعلق اسلام کے نظامِ عدلِ اجتماعی سے ہے. ہمارا دعویٰ ہے کہ اسلام ایک مکمل دین ہے جو زندگی کے تمام گوشوں میں ہمیں رہنمائی دیتا ہے اور پورے نظامِ زندگی پر اپنا غلبہ چاہتا ہے. چنانچہ اقامت دین کا مطلب ہے پوری انسانی زندگی پر دین کا غلبہ انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی. دیکھنا یہ ہے کہ اجتماعی زندگی کے مختلف گوشوں یعنی سماجی و معاشرتی‘ معاشی و اقتصادی اور سیاسی و دستوری میدان میں اسلام کا وہ نظامِ عدلِ اجتماعی ہے کیا؟ اس کے خدوخال کیا ہیں؟ اس کے مابہ الامتیاز پہلو کون کون سے ہیں؟ ان تمام مسائل میں بہت سا ابہام موجود ہے‘ کیونکہ عرصہ دراز سے اسلام کا نظامِ عدلِ اجتماعی اپنی اصل صورت میں دنیا میں کہیں قائم نہیں رہا. وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے حسین و جمیل چہرے پر داغ دھبے پڑ چکے ہیں. بیگانے تو کیا خود اپنے بھی اسے پہچان نہیں رہے‘ اس لیے کہ خلافت ِ راشدہ کے بعد عرصہ دراز تک اس پر ملوکیت کی چھاپ پڑی رہی. اس طرح اسلام کا اصل چہرہ تاریخ کے پردوں میں گم ہو کر رہ گیا. اس کے بعد سرمایہ داری اور جاگیرداری کی سیاہ رات اس پر چھا گئی. یوں پوری انسانی زندگی کو شامل دین رفتہ رفتہ محض ایک مذہب بن کر رہ گیا‘ اس نے ایک مکمل نظامِ زندگی کی شکل میں دورِ خلافت راشدہ کے بعد آج تک پھر کبھی دنیا کو اپنی شکل نہیں دکھائی. آج روئے زمین پر مسلمانوں کی متعدد حکومتیں اور بادشاہتیں ضرور موجود ہیں لیکن زمین پر کوئی ایک انچ جگہ بھی ایسی نہیں جہاں اسلام کا نظامِ عدلِ اجتماعی اپنی اصل شکل میں موجود ہو‘ حالانکہ صحیح اور سچا نظام یہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بطورِ دین پسند کیا اور محمد رسول اللہﷺ کے ذریعے انسانوں تک پہنچایا.
تاہم دوسری جانب صورتِ حال یہ ہے کہ نوعِ انسانی کا قافلہ اس دوران فکری طورپر کہیں ٹھہر نہیں گیا بلکہ مسلسل چودہ صدیوں سے اپنے انداز میں ارتقائی مراحل طے کرتا رہا ہے. سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے ساتھ ساتھ عمرانی ارتقاء کا عمل بھی جاری رہا ہے. ذرا غور کریں‘ سیاسی میدان میں نوعِ انسانی نے ارتقائی سفر طے کرتے ہوئے بادشاہت کے نظام کا خاتمہ کیا جس کی جڑیں نہایت گہری تھیں‘ اس کے بعد جمہوریت کا تجربہ کیا. اسی طرح اقتصادی میدان میں سرمایہ داری کے خلاف شدید ردّعمل کا مظاہرہ کیا اور دوسری انتہا تک پہنچ کر کمیونزم کا تجربہ کیا‘ پھر ان دو انتہأوں کے مابینsynthesis یا تالیف کا معامہ ہوا جس کے نتیجے میں سکنڈے نیوین سوشلزم کا نظریہ سامنے آیا. قابل غور بات یہ ہے کہ یہ جمہوریت‘ یہ کمیونزم اور یہ سکنڈے نیوین سوشلزم‘ آیا یہ کل کے کل کفر ہیں یا ان میں خیر کا کوئی پہلو بھی موجود ہے؟ ’’فرائض دینی کا جامع تصور‘‘ کی طرح یہ موضوع بھی میرے نزدیک نہایت اہم ہے‘ اس لیے کہ دین کو صحیح بنیادوں پر قائم کرنے کے ضمن میں جتنی اہمیت اس بات کی ہے کہ ہمارے اندر جذبہ ہو‘ ایثار ہو‘ قربانی ہو‘ تاکہ ہم محنت کریں‘ جدوجہد کریں اور تن‘ من‘ دھن سب کچھ لگا دینے کے لیے تیار ہوں‘ اتنی ہی اہمیت اس بات کی ہے کہ دین کے بارے میں ہمارا تصور واضح ہو اور معلوم ہو کہ یہ نظام کیا ہے؟
سیاسی سطح پر اس کے خدوخال کیا ہیں؟ معاشی سطح پر اس کے خدوخال کیا ہیں؟ وغیرہ.
میں نے اس سے قبل بارہا اعلان و اعتراف کیا ہے‘ آج پھر یہی بات دہراؤں گا کہ اس ضمن میں مجھے سب سے زیادہ راہنمائی فکر ِاقبال سے ملی ہے. دورِ حاضر کی ذہنی اور فکری سطح کے اعتبار سے علامہ اقبال سے زیادہ کسی نے قرآنِ حکیم کو نہیں سمجھا. اس اعتبار سے ان کا مقام بہت عظیم ہے. ان کے مشاہدے‘ مطالعے اور تجزیئے کا حاصل مندرجہ ذیل اشعار میں بڑی عمدگی سے سمویا گیا ہے:
ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو آں کہ از خاکش بروید آرزو
یا ز نورِ مصطفیؐ او را بہاست یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفیؐ است
کہ نوعِ انسانی نے عمرانی ارتقاء کا جو طویل سفر طے کیا ہے اس میں اگر کوئی روشنی‘ کوئی خیر‘ کوئی بھلائی تمہیں نظر آتی ہے تو یہ نورِ مصطفی ﷺ سے مستعار ہے اور اگر کوئی کمی ہے تو اس کی تلافی کے لیے نوعِ انسانی چاروناچار اسی نظامِ مصطفی کی طرف کشاں کشاں کھنچی چلی جا رہی ہے. منزل تک پہنچنے سے پہلے ٹھوکریں کھائے گی‘ افراط و تفریط کے دھکے کھائے گی لیکن بالآخر یہ قافلہ انسانیت وہیں پہنچ کر رہے گا.
ٹھنڈے دل سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ آیا جمہوریت یا سوشلزم کُل کے کُل کفر ہیں یا ان میں کسی پہلو سے اسلام کے ساتھ کوئی مطابقت بھی موجود ہے؟ اور اگر ہے تو کتنی ہے کہ جسے ہم اپنا سکتے ہوں! رسول اللہﷺ کی مشہور حدیث ہے: اَلْکَلِمَۃُ الْحِکْمَۃُ ضَالَّۃُ الْمُؤْمِنِ فَحَیْثُ وَجَدَھَا فَھُوَ اَحَقُّ بِھَا (۱) یعنی (۱) سنن الترمذی‘ کتاب العلم‘ باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ. ’’حکمت کی بات مومن کی گمشدہ متاع ہے‘ جہاں سے بھی ملے وہ اس کا سب سے پہلے حقدار ہے‘‘. ہم ان چیزوں کو پورے کا پورا ردّ کر دیں گے تو اپنا ہی نقصان کریں گے‘ اس میں کسی اور کا نقصان نہیں ہے. البتہ جس جس پہلو سے اس میں کمی ہے اس کا واضح شعور ہونا چاہیے اور اس کا کھلے بندوں اظہار و اعتراف بھی ہونا چاہیے.
گزشتہ تین سال سے ہمارے ہاں محاضراتِ قرآنی کا main theme یہی موضوع یعنی ’’اسلام کا نظامِ عدلِ اجتماعی‘‘ یا ’’اسلام کا نظامِ حیات‘‘ رہا ہے. ۱۹۸۸ء میں اس عنوان کے تحت پہلے لاہور میں اور پھر کراچی میں ہم نے محاضرات منعقد کیے. اگلے سال پھر اسی موضوع کو ہم نے محاضراتِ قرآنی کا عنوان بنایا. اس اعتبار سے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ’’اسلام کا نظامِ عدل اجتماعی‘‘ یا ’’اسلام کا نظامِ حیات‘‘ وہ دوسرا اہم موضوع (main theme) ہے جو اب تک میری ساری ذہنی و فکری جدوجہد کا محور رہا ہے اور بحمداللہ اب بھی ہے. اللہ تعالیٰ نے مجھے جو قوتِ بیان عطا فرمائی ہے اس کے استعمال کا دوسرا بڑا اور بنیادی نکتہ یہی عنوان رہا ہے.
C منہج انقلابِ اسلامی
تیسرا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ یہ انقلاب برپا کیسے ہو؟ اس کا طریق کار (method) کیا ہے؟ اس کے مراحل کون کون سے ہیں؟
منہج انقلابِ اسلامی کو جاننے کا ہمارے پاس بنیادی طور پر ایک ہی ذریعہ (source) ہے‘ اور وہ ہے اسوۂ محمدیؐ . چنانچہ اس پہلو سے سیرت النبیﷺ کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے کہ معلوم کیا جائے کہ انقلابِ نبویؐ کا طریق کار کیا تھا؟ آپﷺ نے کن خطوط پر چل کر انقلاب برپا کیا؟ آپؐ کی جدوجہد کے مراحل کیا تھے؟ سیرتِ نبویؐ کی روشنی میں ہمارے لیے یہ معین کرنا آسان ہو گا کہ ہر ہر مرحلے کے اہم نکات کیا ہیں اور ان کی خصوصیات کیا ہیں؟ پھر یہ کہ ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے تک بڑھنے میں کیا چیز شرط کا درجہ رکھتی ہے‘ کہ وہ شرط اگر پوری ہو تب آگے بڑھا جا سکتا ہے‘ اور اگر وہ شرط پوری نہ ہو تو ظاہر ہے کہ اگلا قدم اُٹھانا بے کار ہو گا اور محنت و صلاحیت ضائع جائے گی. اس ضمن میں مَیں خاص طور پر جنرل ضیاء الحق مرحوم کا ممنونِ احسان ہوں کہ انہوں نے سیرت کانفرنسوں کا جو سلسلہ شروع کیا اور ان میں چونکہ تقاریر کے لیے بالعموم مجھے مدعو کیا جاتا تھا‘ تو یہ موقع میرے لیے سیرت النبیﷺ کے از سر نو بالاستیعاب مطالعے کے لیے ایک بڑا محرک بنا اور بہت سے اعتبارات سے نہایت مفید ثابت ہوا. جب مجھے پے در پے عوام و خواص کے اجتماعات میں سیرت کے موضوع پر تقاریر کرنا پڑیں تو مجھے غور و فکر کے لیے ایک تحریک ملی اور مطالعۂ سیرت کا ایک تازہ جذبہ بیدار ہوا‘ اس طرح سیرت نبویؐ کے مطالعے سے مجھ پر واضح ہوا کہ صحیح معنوں میں ’’منہج انقلابِ اسلامی‘‘ کیا ہے. اسی موضوع پر پھر میں نے گیارہ تقریریں مسجد دارالسلام میں کیں اور موضوع کے تمام گوشوں کو بالکل واضح کر دیا. والحمدللہ علٰی نعمتہ. میری یہ تقریریں کتابی شکل میں شائع ہو چکی ہیں. اب میرا ارادہ ہے کہ ان تقاریر کو باقاعدہ ایک تصنیف کی شکل میں پیش کروں‘ اللہ کرے یہ مرحلہ جلد طے ہو جائے. وما ذٰلک علی اللّٰہ بعزیز!
بہرحال ’’منہج انقلاب اسلامی‘‘ کے موضوع پر میرا جو بھی حاصل مطالعہ ہے اسے بھی اس سال (یعنی اپریل ۱۹۹۱ء میں) مَیں نے تنظیم اسلامی کے سالانہ اجلاس میں گیارہ تقاریر کی بجائے تین گھنٹے کی ایک تقریر میں سمو دیا ہے تاکہ عام لوگوں کو بات سمجھنے میں آسانی رہے.
D حقیقت ِ ایمان
اس سلسلے کا چوتھا بنیادی نکتہ جو میرے غور و فکر کا مرکز و محور اور دروس و تقاریر کا موضوع رہا‘ وہ ’’حقیقت ِ ایمان‘‘ ہے اور انگریزی محاورہ last but not the least کے مطابق اگرچہ ترتیب میں یہ آخری ہے لیکن کسی بھی اعتبار سے کمتر نہیں ہے‘ بس بیان میں چوتھے نمبر پر آ گیا ہے. اس کی اہمیت تو مجھ پر اوّل روز سے واضح ہے. جب میں نے اپنے طور پر دعوتی و تحریکی جدوجہد کا آغاز کیا تو ’’اسلام کی نشاۃِ ثانیہ: کرنے کا اصل کام‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون قلم بند کیا‘ جو جون ۱۹۶۷ء کے میثاق میں شائع ہوا. اس مضمون میں ’’قرآن اکیڈمی‘‘ کا تصور موجود تھا. اس وقت تعلیم و تعلّم قرآن کو تحریک کی شکل میں برپا کرنے کا خاکہ ذہن میں آیا تھا. ۱۹۶۷ء سے آج ۱۹۹۱ء تک چوبیس برس بیت گئے ہیں‘ اور اللہ کا شکر ہے کہ اس پر عمل جاری ہے. بہرحال اس کتابچے کا مرکزی مضمون یہی ہے کہ اگرچہ اس صدی کا یہ خاص معاملہ ہے کہ اس میں عالمی سطح پر احیائے اسلام کے لیے جدوجہد ہو رہی ہے‘ گزشتہ پچاس ساٹھ برس سے جماعت اسلامی‘ الاخوان المسلمون‘ مسجومی پارٹی‘ تبلیغی جماعت‘ عبادالرحمن گروپ اور سعید نورسی کی تحریک‘ سب ہی اپنے اپنے انداز میں اور اپنی فکر کے مطابق پوری محنت کے ساتھ کوشش کر رہے ہیں‘ لیکن یہ سوال ذہنوں میں آتا ہے کہ یہ سب تحریکیں دُنیوی نتائج کے اعتبار سے ناکام کیوں نظر آتی ہیں؟
تاحال کہیں پر بھی اسلامی انقلاب بالفعل برپا نہیں ہو سکا. اس کی کیا وجہ ہے؟ میری رائے میں ان تمام تحریکوں کے خلوص اور محنت کے باوجود ناکامی کی اصل وجہ یہ ہے کہ یہ تحریکیں ایمان کو taken for granted لے رہی ہیں‘ یعنی جب ہم مسلمان ہیں تو ایمان تو لازماً موجود ہے. جو زور ایمان کے حصول پر ہونا چاہیے تھا اس کی ان تحریکوں نے بالعموم ضرورت ہی محسوس نہیں کی‘ حالانکہ یہی وہ چیز ہے جہاں پانی مر رہا ہے. جسے ہم ایمان سمجھ رہے ہیں وہ محض ایک موروثی عقیدہ ہے جس کا ہماری عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں‘ لیکن حقیقی ایمان یعنی یقین قلبی اور personal conviction کے درجے تک پہنچنے والا ایمان سرے سے مفقود ہے. ہم اپنی زندگیوں کو دیکھیں‘ اپنے معمولات پر تنقیدی نگاہ ڈالیں‘ اپنی اقدار کا تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ خالص مادہ پرستانہ نقطۂ نظر ہمارے ذہن و قلب پر مسلط ہے. آخرت پر اگر فی الواقع ایمان موجود ہو تو انسان کی دنیاوی زندگی کچھ اور ہی قسم کا نقشہ پیش کرتی ہے. اللہ تعالیٰ پر ایمان اگر ذہن و قلب میں راسخ ہو تو کچھ اور ہی طرح کا کردار وجود میں آتا ہے. رسولِ اکرمﷺ سے حقیقی محبت اگر دل میں موجود ہو تو اس کا اظہار کسی اور طرح سے ہوتا ہے. یہ سب کچھ کہاں ہے؟ معلوم ہوا کہ اصل کمی یہاں ہے‘ پانی یہاں مررہا ہے !!
ان تحریکوں کی ناکامی میں کچھ حصہ عجلت پسندی اور جلد بازی کا بھی ہے کہ ایک متعدبہ افراد اور معاشرے کے ذہین عناصر کے ذہنوں کو بدلے بغیر قبل از وقت سیاسی میدان میں چھلانگ لگا دی گئی. مختلف تحریکوں نے اس نوع کی غلطیاں بھی کی ہیں‘ لیکن ان تمام غلطیوں میں سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ ایمان پر جو زور (emphasis) ہونا چاہیے تھا‘ وہ نہیں ہے. ۱۹۶۷ء سے میری یہی رائے ہے اور میں ہمیشہ اپنی رائے کسی لومۃ لائم کی پروا کیے بغیر بیان کر دیا کرتا ہوں. میری ذہنی و فکری تگ و دو اور دعوتی و تحریکی جدوجہد کے اعتبار سے چوتھا موضوع یا theme یہی ’’حقیقت ِ ایمان‘‘ ہے‘ مگر اہمیت کے اعتبار سے یہ پہلے نمبر پر ہے. بسط و اختصار کے ساتھ میں نے حقیقت ِ ایمان پر متعدد بار گفتگو کی ہے‘ لیکن ۱۹۸۷ء میں مسجد دارالسلام میں گیارہ خطباتِ جمعہ میں اس کا احاطہ کیا اور اس ضمن میں اعتراضات‘ تجاویز اور اصلاحات سامنے آئیں‘ ان پر غور و فکر کیا اور دلیل واضح ہونے پر بعض اصلاحات کو قبول بھی کیا. چنانچہ اس وقت میری یہ کوشش ہے کہ اپنی سوچ کو پانچ خطبات میں سمو کر پیش کر دوں.