عام طور پر لفظ ’’ایمان‘‘ جب ’’لِ‘‘ کے صلے کے ساتھ آئے تو اس میں زیادہ گہرائی اور وثوق والی بات نہیں ہوا کرتی‘ لیکن جب ’’بِ‘‘ کے صلے کے ساتھ آئے تو اس کے معنی میں بڑے وثوق اور بھرپور اعتماد کے ساتھ کسی بات کو مان لینا اور کسی کے دعوے کی تصدیق کرنا شامل ہوتا ہے. اسی لیے قرآن حکیم نے لفظ ایمان کو جب اصطلاحی معنوں میں بیان کیا ہے تو ’’بِ‘‘ کے صلے کے ساتھ ذکر کیا ہے‘ فرمایا: یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ … وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ… اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مِنۡ رَّبِّہٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ … وَ لٰٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ (یہ سب آیات سورۃ البقرۃ کی ہیں). ایمانِ مجمل کے الفاظ ہیں: آمَنْتُ بِاللّٰہِ کَمَا ھُوَ بِاَسْمَائِہٖ وَ صِفَاتِہٖ… اور ایمان مفصل کے الفاظ ہیں: آمَنْتُ بِاللّٰہِ وَ مَلٰئِکَتِہٖ… گویا جب لفظ ایمان ’’بِ‘‘ کے صلے کے ساتھ آتا ہے تو اس کے معنی ہوتے ہیں ’’تصدیق کرنا‘‘.
اصطلاحی اور شرعی تعریف
جب ایمان نام ہے تصدیق کا‘ تو تصدیق ہو گی نبی کی‘ اس کے دعوائے نبوت کی‘ اور اس دعوت کی بنیاد پر نبی جو کچھ پیش کرے اس کی. یعنی ’’تصدیقُ بما جاء بہ النبیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘. علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’الایمان لغۃُ التصدیق و شرعًا تصدیقُ الرسولِ فیما جاء بہٖ عن ربہٖ‘‘ (۱) یعنی لغوی اعتبار سے ایمان نام ہے صرف تصدیق کا اور شرعاً: رسول جو کچھ اپنے ربّ کی طرف سے لائے اس کی تصدیق کا.
نبی اور رسول کی لائی ہوئی تعلیمات مختلف امور پر مشتمل ہوتی ہیں. ان میں سے کچھ غیبی امور ہوتے ہیں مثلاً اللہ پر ایمان‘ فرشتوں پر ایمان‘ آخرت پر ایمان. اسی طرح ان تعلیمات میں سے بعض کی نوعیت احکام کی ہوتی ہے. یہ اوامر ہیں‘ یہ نواہی ہیں‘ یہ فرائض ہیں‘ یہ حلال ہیں اور یہ حرام ہیں. نبی و رسول سابقہ اُمتوں کے حالات اور قصص بھی بیان کرتے ہیں‘ ان کی تصدیق بھی شامل ایمان ہو گی. لیکن معروف معنی میں لفظ ایمان کا اطلاق صرف ان غیبی امور کی تصدیق پر ہوتا ہے جن کو جاننے کا ہمارے پاس خود اپنا کوئی ذاتی ذریعہ نہ ہو‘ مثلاً موت کے بعد کیا حالات پیش آنے والے ہیں؟ فرشتوں کو ہم نہیں دیکھ سکتے اور اسی طرح کے دوسرے غیبی امور ہماری دسترس سے باہر ہیں‘ اسی لیے سورۃ البقرۃ کے بالکل شروع میں ایمان کے لیے جو لفظ آیا ہے وہ ہے یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِیعنی ’’وہ (متقی لوگ) غیبی امور پر ایمان لاتے ہیں‘‘. تو معلوم ہوا کہ ایمان کا اصلاً اور اصطلاحاً مفہوم ’’غیبی امور کو تسلیم کرنا‘‘ ہے.
واضح رہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اللہ کے پہلے نبی تھے اور حضرت محمدﷺ آخری نبی. ان کے درمیان ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی اور تین سو پندرہ رسول تشریف لائے. ان رسولوں میں سے پانچ رسولوں کو ’’اولواالعزم‘‘ کا لقب ملا ہے. انبیاء و رسل علیہم السلامکی تعلیمات دو حصوں پر مشتمل ہوتی ہیں. ایک حصہ (۱) فتح الباری‘ شرح صحیح البخاری‘ کتاب الایمان‘ ج۱ ص۶۰‘ طبع دارالریان.احکامِ شریعت کہلاتا ہے جو ہر علاقے اور زمانے کے اعتبار سے بدلتا رہا ہے. مثلاً نماز کی صورتیں بدلتی رہی ہیں‘ روزے کے احکام بدلتے رہے ہیں. البتہ دین کا دوسرا حصہ ’’ایمانیات‘‘ کہلاتا ہے. ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی‘ بال برابر فرق نہیں آیا. حضرت آدم‘ حضرت نوح‘ حضرت ابراہیم‘ حضرت موسیٰ‘ حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد علیہم السلام سب کی ایمانیات کی تعلیم ایک ہی رہی ہے. یہ چونکہ انبیاء کی تعلیم کا وہ حصہ ہے جو امورِ غیبی سے متعلق ہے‘ لہٰذا اس میں کبھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی.