ایمان کا لغوی اور اصطلاحی مفہوم 

شرعی اصطلاحات کی بنیاد

قرآنِ حکیم عربی زبان میں ہے اور نبی اکرم کی زبان بھی عربی تھی. چنانچہ قرآنِ حکیم کی بنیادی اصطلاحات کو سمجھنے اور قرآن و حدیث سے براہِ راست استفادے یا بالفاظِ دیگر دین سیکھنے کے لیے عربی زبان جاننا اشد ضروری ہے.

عربی زبان میں ہر لفظ کا ایک مادہ 
(root) اور بنیادی مفہوم ہوتا ہے‘ لیکن جب کوئی لفظ اصطلاح کی صورت اختیار کر لیتا ہے تو پھر اصل حجت لغت نہیں بلکہ دینی اصطلاح ہوتی ہے اور اس کا مفہوم قرآن و حدیث سے متعین ہو گا. مثلاً لفظ ’’صلوٰۃ‘‘ کا لغوی مفہوم ہے آگ تاپنا اور اِقدام الی الشَّیئ. محض اس مفہوم کو سامنے رکھ کر صلوٰۃ کے معنی نکالنا ممکن نہیں ہے. لہٰذا صلوٰۃ کا شرعی مفہوم وہی ہو گا جو کتاب اللہ اور سنّت رسول سے ثابت ہو گا. اسی طرح لفظ ’’صوم‘‘ کے لغوی معنی ہیں ’’رُک جانا‘‘. لیکن سوال یہ ہے کہ کس چیز سے رُک جانا؟ کب رُک جانا؟ کس صورت میں رُک جانا؟ اور کس وقت سے لے کر کس وقت تک رُکے رہنا؟ یہ تمام مفاہیم و معانی قرآنِ حکیم اور سنّت رسول اللہ  کی راہنمائی میں معین ہوں گے. معلوم یہ ہوا کہ دینی اصطلاحات میں اصل بنیاد لغوی معنی نہیں بلکہ شریعت کے مقرر کردہ معانی و مفاہیم ہیں. 

لغوی معنی اور شرعی اصطلاح میں باہمی ربط

قرآنِ حکیم اور سنّت رسول  میں بیان ہونے والی اصطلاحات کا اپنے لغوی معنی کے ساتھ کسی نہ کسی درجے میں کوئی ربط اور کوئی نہ کوئی معنوی تعلق بھی برقرار رہتا ہے. اس ربط و تعلق پر غور کرنے سے ان اصطلاحات کی روح اور ان کے حقیقی مفہوم پر ایک باطنی بصیرت ضرور حاصل ہوتی ہے کہ اس کا اصل مفہوم کیا ہے.

لفظ صلوٰۃ کا ایک مفہوم ہے 
اِقدام الی الشَّیئ. تو یہ معنی اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙ (الانعام) (میں نے اپنا چہرہ اس ذات کی طرف کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا اور میں بالکل یکسو ہوں اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں.) والی دعا میں موجود ہے جو کہ ابتداءِ نماز میں پڑھنی مسنون و ماثور ہے. (۱اسی طرح آگ تاپنے کا مفہوم ذکر الٰہی کے ذریعے اپنی روح کو گرم کرنے میں موجود ہے. گویا یہ تمام معانی لفظ کی روح میں شامل ہیں. زکوٰۃ کی روح بھی یہی ہے کہ اپنے نفس کا تزکیہ کرنا‘ مال کی محبت سے دل کو پاک صاف کرنا. چنانچہ ایسا بھی نہیں ہے کہ کلمے کی لغوی اساس کا شرعی اصطلاح سے کوئی تعلق ہی نہ ہو‘ بلکہ ان اصطلاحات کی جو باطنی روح ہے وہ لغوی اصل سے اُجاگر ہوتی ہے اور مزید واضح ہو جاتی ہے. البتہ یہ بات طے ہے کہ لغوی معنی کو اصطلاحی معنی پر حاکم نہیں کیا جا سکتا. فیصلہ کن بات وہی ہو گی جو کتاب اللہ اور سنّت رسول اللہ  سے اصطلاح کا مفہوم معین کرنے کے لیے ثابت ہو. 

لفظ ایمان کی لغوی تحقیق

عربی زبان کے نناوے فیصد سے زائد الفاظ ایسے ہیں جن کا ایک سہ حرفی مادہ ہوتا ہے اور اسی مادے سے الفاظ بنتے چلے جاتے ہیں. سادہ ترین مثال ہے ’’علم‘‘. اس سے بنا ’’عالم‘‘ (یعنی علم رکھنے والا‘ جاننے والا) ’’معلوم‘‘ (وہ چیز جو کسی کے علم میں ہے) ’’علامہ‘‘ (بہت زیادہ علم رکھنے والا) ’’علامت‘‘ (پہچان) ’’استعلام‘‘ (معلومات حاصل کرنا) ’’متعلم‘‘ (علم سیکھنے والا) ’’معلم‘‘ (علم دینے والا). اس طرح (۱) صحیح مسلم: ۷۷۱‘ کتاب صلاۃ المسافرین‘ باب الدعاء فی صلاۃ اللیل و قیامہ. وسنن الترمذی: ۳۴۱۷‘ و ما بعدہ. و سنن ابی داوٗد: ۷۶۰’’ع ل م‘‘ سے الفاظ بنتے چلے جائیں گے اور اوزان کے مطابق مختلف سانچوں میں ڈھلتے جائیں گے‘ لیکن تمام الفاظ کا اپنے اصل مادے یعنی ’’علم‘‘ سے تعلق برقرار رہے گا. گویا اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ ﴿ۙ۲۴﴾ . اس اصول کو سامنے رکھ کر غور کریں تو ایمان کا مادہ ’’امن‘‘ (ا م ن) ہے. چنانچہ امن اور ایمان میں بڑا گہرا تعلق ہے . اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: 

وَ کَیۡفَ اَخَافُ مَاۤ اَشۡرَکۡتُمۡ وَ لَا تَخَافُوۡنَ اَنَّکُمۡ اَشۡرَکۡتُمۡ بِاللّٰہِ مَا لَمۡ یُنَزِّلۡ بِہٖ عَلَیۡکُمۡ سُلۡطٰنًا ؕ فَاَیُّ الۡفَرِیۡقَیۡنِ اَحَقُّ بِالۡاَمۡنِ ۚ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۘ۸۱﴾اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمۡ یَلۡبِسُوۡۤا اِیۡمَانَہُمۡ بِظُلۡمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الۡاَمۡنُ وَ ہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ ﴿٪۸۲﴾ 
(الانعام) 

’’اور آخر مَیں تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں سے کیسے ڈروں جب کہ تم اللہ کے ساتھ ان چیزوں کو خدائی میں شریک بناتے ہوئے نہیں ڈرتے جن کے لیے اس نے تم پر کوئی سند نازل نہیں کی. ہم دونوں فریقوں میں سے کون زیادہ امن و اطمینان کا مستحق ہے‘ بتائو اگر تم کچھ علم رکھتے ہو. حقیقت میں تو امن انہی کے لیے ہے اور راہِ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا.‘‘

ان آیات کا پس منظر یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا اپنی قوم کے ساتھ جھگڑا ہو رہا تھا اور لوگ انہیں ڈرا رہے تھے کہ تم نے تمام معبودوںکا انکار کر دیا ہے‘ تمہاری تو شامت آ کر رہے گی‘ تو انہوں نے جواب میں فرمایا: 
اَیُّ الۡفَرِیۡقَیۡنِ اَحَقُّ بِالۡاَمۡنِ ۚ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ کہ اس وقت میدان میں دو فریق ہیں‘ ایک موحدین کا اور دوسرا مشرکین کا‘ ان دونوں میں سے کون زیادہ امن کا مستحق ہے؟ تم خود غور کرو‘ سوچو‘ ایک ہزار معبودوں کو پوجنے والے یا ایک خدائے بزرگ و برتر کو ماننے والے. ساتھ ہی اس کا جواب بھی دے دیا گیا: 

اَلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَمۡ یَلۡبِسُوۡۤا اِیۡمَانَہُمۡ بِظُلۡمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الۡاَمۡنُ وَ ہُمۡ مُّہۡتَدُوۡنَ ﴿٪۸۲﴾ 
گویا کہ امن کی منزل ایمان کی شاہراہ پر چل کر ملتی ہے. ان آیاتِ مبارکہ میں امن اور ایمان کا تعلق بہت واضح ہو کر سامنے آ گیا ہے. 

قرآنِ حکیم میں لفظ 
’’اَ لْاَمْنُ‘‘ تین ہی بار استعمال ہوا ہے. دو مرتبہ تو ان ہی آیات میں آ گیا ہے اور ایک مرتبہ سورۃ النساء آیت ۸۳ میں آیا ہے‘ جہاں لفظ ’’خوف‘‘ کے مقابلے میں ’’امن‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے. فرمایا: 

وَ اِذَا جَآءَہُمۡ اَمۡرٌ مِّنَ الۡاَمۡنِ اَوِ الۡخَوۡفِ اَذَاعُوۡا بِہٖ ؕ 
(النسائ: ۸۳
’’یہ لوگ جہاں کوئی امن یا خوف کی خبر سن پاتے ہیں اسے لے کر پھیلا دیتے ہیں.‘‘ 

منافقین کی روِش پر تبصرہ کیا گیا ہے کہ ان کا حال یہ ہے کہ کہیں سے خوف یا امن کی خبر ان تک پہنچی تو ذمہ دار لوگوں تک پہنچانے کی بجائے اسے فوراً عام لوگوں میں نشر کر دیا. ظاہر ہے کہ خوفناک خبر سے سنسنی تو پیدا ہو گی. ایک ہی آیت میں امن اور خوف کے بالمقابل استعمال سے لفظ ’’امن‘‘ کا مفہوم واضح ہو گیا کہ یہ خوف کی ضد ہے‘ کیونکہ قانون ہے: 
’’تُعْرَفُ الْاَشْیَائُ بِاَضْدَادِھَا‘‘ (اشیاء کو ان کی اضداد کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے.)
ایمان کی گہرائی اور گیرائی جب اس درجے کو پہنچ جائے کہ انسان اس کیفیت کو پالے 
اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ (۱’’کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو‘ گویا اسے سامنے دیکھ رہے ہو‘ اور اگر تم اس مقام تک نہیں پہنچ سکتے تو یہ یقین ضرور رہے کہ وہ ذات تم کو دیکھ رہی ہے‘‘ تو یہ مقامِ احسان ہے‘ جہاں پہنچ کر یقین کی کیفیت اتنی گہری ہو جاتی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ ’’ولایت باہمی‘‘ کے رشتے میں جڑ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس انعام کا (۱) صحیح البخاری: ۵۰‘ کتاب الایمان‘ باب j سوال جبریل النبی عن الایمان. وصحیح مسلم: ۹‘ کتاب الایمان‘ باب بیان الایمان و الاسلام. مستحق ہو جاتا ہے جس کا ذکر سورۂ یونس کی آیات ۶۲ اور ۶۳ میں ہے:
 
اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿ۚۖ۶۲﴾الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ کَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ﴿ؕ۶۳﴾ 

’’سنو! جو اللہ کے دوست ہیں‘ جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا راستہ اختیار کیا ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے.‘‘

نیک اعمال کے حوالے سے یہ مضمون قرآن حکیم میں تیرہ دفعہ بیان ہوا ہے. تو معلوم ہوا کہ خوف و حزن سے نجات پانا ہی ’’امن‘‘ ہے اور یہی امن کا حقیقی اور اصلی مفہوم ہے. 

لفظ امن کی شاخیں اور ان کا مفہوم

’’اَمِنَ‘ یَاْمَنُ‘ اَمْنًا وَ اَمَنَۃً‘‘ کے معنی ہیں ’’امن میں ہونا‘‘. اس معنی میں یہ لفظ قرآن حکیم میں بار بار آیا ہے. (۱اَمِنَ سے اسم الفاعل بنتا ہے آمِنٌ (۲‘ جو کہ خود (۱) یہ لفظ صرف سورت الملک میں دو مرتبہ استعمال ہوا ہے‘ فرمایا : ءَاَمِنۡتُمۡ مَّنۡ فِی السَّمَآءِ اَنۡ یَّخۡسِفَ بِکُمُ الۡاَرۡضَ فَاِذَا ہِیَ تَمُوۡرُ ﴿ۙ۱۶﴾اَمۡ اَمِنۡتُمۡ مَّنۡ فِی السَّمَآءِ اَنۡ یُّرۡسِلَ عَلَیۡکُمۡ حَاصِبًا ؕ (الملک) ’’کیا تم اس سے بے خوف ہو کہ وہ جو آسمان میں ہے تمہیں زمین میں دھنسا دے اور یکایک یہ زمین جھکولے کھانے لگے‘ کیا تم اس سے بے خوف ہو کہ وہ جو آسمان میں ہے تم پر پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیج دے‘‘. اسی طرح کی پتھراؤ کرنے والی ہوا قومِ عاد پر آ چکی ہے. سورۃ الاعراف میں یہ لفظ بیان ہوا ہے: اَفَاَمِنُوۡا مَکۡرَ اللّٰہِ ۚ فَلَا یَاۡمَنُ مَکۡرَ اللّٰہِ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡخٰسِرُوۡنَ ﴿٪۹۹﴾ (آیت: ۹۹’’کیا اللہ کی چالوں سے وہ اپنے آپ کو مامون سمجھتے ہیں؟ (محفوظ سمجھتے ہیں؟ امن میں سمجھتے ہیں؟) تو جان لو کہ اللہ کی چال سے امن میں ہونے والا وہی ہو سکتا ہے جو کہ خسارہ پانے والا ہو‘‘. مذکورہ بالا آیات کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ اَمِنَ یَاْمَنُ کا معنی ہے ’’امن میں ہونا‘‘. 

(۲) قرآن حکیم میں یہ لفظ 
’’اٰمِنًا‘‘ کی شکل میں چھ مرتبہ آیا ہے ’’ اٰمِنَۃً‘‘ کی شکل میں ایک مرتبہ ’’اٰمِنُوْن‘‘ دو مرتبہ ’’اٰمِنِیْن‘‘ آٹھ مرتبہ استعمال ہوا ہے. سورۃ الفتح میں فرمایا گیا: اے مسلمانو! گھبراؤ نہیں‘ اس وقت صلح حدیبیہ ہو جانے کے باعث تمہیں عمرے کے بغیر ہی یہاں سے لوٹنا پڑ رہا ہے لیکن وہ وقت ضرور آئے گا جب لَتَدۡخُلُنَّ الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ اِنۡ شَآءَ اللّٰہُ اٰمِنِیۡنَ ۙ مُحَلِّقِیۡنَ رُءُوۡسَکُمۡ وَ مُقَصِّرِیۡنَ ۙ لَا تَخَافُوۡنَ ؕ (الفتح: ۲۷’’ان شاء اللہ تم ضرور مسجد حرام میں پورے امن کے ساتھ داخل ہو گے‘ اپنے سر منڈواؤ گے اور بال تراشواؤ گے‘‘. ’’اٰمِنِیْنَ‘‘ یعنی کوئی خوف‘ کھٹکا‘ بے چینی اور اندیشہ نہ ہو گا. (ماخوذ) امن میں ہو. اسی سے لفظ ’’ مَاْمُوْنٌ‘‘ بنتا ہے جو کہ اسم المفعول ہے‘ یعنی جس سے کوئی اندیشہ نہ ہو‘ جس سے امن لے لیا گیا ہو‘ جسے زیر کر لیا گیا ہو‘ جس سے کوئی اندیشہ نہ رہے کہ وہ آپ کو کوئی گزند پہنچا سکتا ہو. اس معنی میں یہ لفظ قرآنِ حکیم میں صرف ایک مرتبہ استعمال ہوا ہے. فرمایا: 

اِنَّ عَذَابَ رَبِّہِمۡ غَیۡرُ مَاۡمُوۡنٍ ﴿۲۸﴾ 
(المعارج) 
’’یقینا ان کے ربّ کا عذاب ایسی شے نہیں ہے جس سے بے خوف اور نڈر ہوا جاسکے.‘‘
لفظ امن سے اسم ظرف آتا ہے 
’’مَاْمَنٌ‘‘ (۱یعنی امن کی جگہ. 

اسی طرح امن سے صفت مُشبہ ہو گی: 
’’اَمِیْنٌ‘‘. واضح رہے کہ صفت مُشبہ اسم الفاعل اور اسم المفعول دونوں کا معنی دیتی ہے. چنانچہ جو خود امن میں ہو اسے بھی ’’امین‘‘ کہیں گے اور جس شخص سے دوسرے لوگ امن میں ہوں وہ بھی ’’امین‘‘ ہے. لفظ ’’امین‘‘ دونوں معنی کے اعتبار سے قرآنِ مجید میں چودہ مرتبہ (۱) سورۃ التوبہ میں فرمایا گیا: بس اب چار مہینے کی مہلت دی جاتی ہے: فَاِذَا انۡسَلَخَ الۡاَشۡہُرُ الۡحُرُمُ فَاقۡتُلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ (التوبہ: ۵’’جب یہ چار ماہ ختم ہو جائیں تو تم جہاں کہیں مشرکوں کو پاؤ قتل کر دو‘‘. آگے چل کر استثنائی صورت بیان کرتے ہوئے فرمایا: وَ اِنۡ اَحَدٌ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ اسۡتَجَارَکَ فَاَجِرۡہُ حَتّٰی یَسۡمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبۡلِغۡہُ مَاۡمَنَہٗ ؕ (التوبہ: ۶’’اگر مشرکین میں سے کوئی آپ سے امن کا طالب ہو تو آپ اسے پناہ دے دیجیے تاکہ وہ اللہ کا کلام سن لے‘ پھر اسے اس کی امن کی جگہ تک پہنچا دیں‘‘. معلوم ہوا کہ ’’مَاْمَنَ‘‘ کے معنی ہیں ’’امن کی جگہ‘‘. (ماخوذ) استعمال ہوا ہے. 

فعل کے معنی پر صلہ کے اثرات

ہر زبان میں فعل (verb) کے ساتھ صلہ (preposition) کی تبدیلی کے ساتھ معنی بدل جاتے ہیں. جیسے انگریزی زبان میں "to give" کا مفہوم کچھ اور ہے اور "to give in" کا مفہوم کچھ اور ہی بن جاتا ہے. یہاں یہ لفظ محاورے کے طور پر استعمال ہو رہا ہے. نیز "to give up" کے معنی کچھ اور ہی بن گئے. صرف صلہ (preposition) کے بدلنے سے معانی میں زمین و آسمان کا فرق واقع ہو رہا ہے. ایک درجے میں یہ بات عربی زبان کے ساتھ بھی ہے. صلہ بدلے گا تو مفہوم بھی بدلے گا‘ لیکن عربی بڑی حسابی یعنی mathematical زبان ہے. اس میں صلہ کی تبدیلی کے ساتھ بھی جڑ یعنی مادے سے تعلق ختم نہیں ہوتا. چنانچہ ’’اَمِنَ‘‘ کے بعد اگر ’’بِ‘‘ یا ’’علٰی‘‘ کا صلہ آ جائے تو معنی ہوں گے: ’’کسی چیز پر کسی دوسرے کو امین بنانا‘‘. آپ نے کسی کے پاس امانت رکھوائی تو کہیں گے ’’اَمِنَ بِہٖ‘‘ اور’’اَمِنَہُ بِشَیئٍ‘‘ یعنی ’’اس نے امین بنایا اس کو ایک چیز کے بارے میں‘‘. اب غور کریں کہ صلہ آنے کے بعد بھی معنی کا اپنی اصل سے تعلق برقرار رہا‘ کیونکہ امین اسی کو بنایا جاتا ہے جس کے بارے میں خیانت کا اندیشہ نہ ہو. چنانچہ ’’اَمِنَ فُلَانًا بِفُلَانٍ‘‘ یا ’’عَلٰی فُلَانٍ‘‘ کا مفہوم ہو گا: ’’کسی کو امین بنانا کسی پر‘ یا کسی کے بارے میں اعتماد کرنا‘‘. مثلاً اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 

وَ مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ مَنۡ اِنۡ تَاۡمَنۡہُ بِقِنۡطَارٍ یُّؤَدِّہٖۤ اِلَیۡکَ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ اِنۡ تَاۡمَنۡہُ بِدِیۡنَارٍ لَّا یُؤَدِّہٖۤ اِلَیۡکَ … 
(آل عمران: ۷۵

’’اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ ڈھیروں سونے پر بھی اگر انہیں امین بنا دو گے تو وہ تمہیں واپس کر دیں گے‘ لیکن ان میں ایسے بھی ہیں کہ ایک دینار بھی اگر امانت رکھوا دو گے تو واپس نہیں کریں گے…‘‘ تو معلوم ہوا کہ ’’اَمِنَ فُلَانًا بِفُلَانٍ‘‘ کا مفہوم ہے کسی کو کسی چیز پر امین بنانا. اسی معنی میں ’’علٰی‘‘ کا صلہ بھی آتا ہے. حضرت یعقوب علیہ السلام کی اپنے بیٹوں سے گفتگو کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں نقل کیا ہے‘ فرمایا: قَالَ ہَلۡ اٰمَنُکُمۡ عَلَیۡہِ اِلَّا کَمَاۤ اَمِنۡتُکُمۡ عَلٰۤی اَخِیۡہِ مِنۡ قَبۡلُ ؕ (یوسف: ۶۴’’کیا میں تمہیں امین سمجھوں اس (بن یامین) کے بارے میں بھی‘ اسی طرح جس طرح مَیں نے تمہیں امین بنایا تھا اس کے بھائی (یوسف) کے بارے میں؟‘‘

لفظ 
’’اَمِنَ‘‘ سے جب باب افتعال بنتا ہے تو اس کا معنی بھی ’’امین بنانا‘‘ ہی ہے. یعنی ’’اِئْتَمَنَ یَاْتَمِنُ‘‘ بمعنی امین بنانا اور بھروسہ کرنا. قرآن حکیم میں یہ لفظ صرف ایک دفعہ استعمال ہوا ہے‘ فرمایا:فَاِنۡ اَمِنَ بَعۡضُکُمۡ بَعۡضًا فَلۡیُؤَدِّ الَّذِی اؤۡتُمِنَ اَمَانَتَہٗ (البقرۃ: ۲۸۳’’اگر تم میں سے کوئی شخص دوسرے پر بھروسہ کر کے اس کے ساتھ کوئی معاملہ کرے تو پھر جس کو امین بنایا گیا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ امانت واپس کر دے.‘‘ 

لفظ ایمان کی لغوی اور شرعی تعریف

لفظ ’’اَمِنَ‘‘ کو باب افعال میں لے جائیں تو مصدر بنے گا: ’’ایمان‘‘ یعنی کسی کو امن دینا. تو لفظ ایمان کا ترجمہ ہوا ’’امن دینا‘‘. اسی سے اسم فاعل بنتا ہے: ’’مُؤْمِنٌ‘‘ یعنی امن دینے والا. اور اسی معنی میں اللہ تعالیٰ کا نام ہے ’’اَلْمؤْمِنُ‘‘. سورۃ الحشر میں فرمایا گیا ہے: الۡمُؤۡمِنُ الۡمُہَیۡمِنُ الۡعَزِیۡزُ الۡجَبَّارُ الۡمُتَکَبِّرُ ؕ (آیت:۲۳’’امن دینے والا‘ نگہبان‘ سب پر غالب‘ اپنا حکم بزور نافذ کرنے والا اور بڑا ہو کر رہنے والا‘‘. معلوم ہوا کہ اَمِنَ. یَاْمَنُ. اَمْنًا کا مفہوم ہے: خود امن میں ہونا‘ اور اٰمَنَ. یُؤْمِنُ. اِیْمَانًا کے معنی ہیں: دوسرے کو امن فراہم کرنا. 

لفظ ایمان کے بعد جب ’’بِ‘‘ یا ’’لِ‘‘ کا صلہ آئے گا تو معنی ہو گا ’’کسی کی تصدیق کرنا‘‘. مثلاً کسی نے آ کر کوئی خبر دی یا دعویٰ کیا تو جواب کی دو ہی شکلیں ہوں 
گی: تصدیق یا تردید. تصدیق کر دی تو امن رہا اور اگر تردید کر دی تو جھگڑا شروع‘ جھگڑا تھوڑا ہو یا زیادہ‘ زبانی کلامی ہو یا ہاتھاپائی ہو یا قتال اور خون ریزی‘ بہرحال جھگڑا شروع ہو گیا ہے. 

چنانچہ ’’آمَنَ بِہٖ‘‘ اور ’’آمَنَ لَہٗ‘‘ کے معنی ہیں کسی کی تصدیق کرنا. تصدیق کرنے میں امن کے ساتھ تعلق برقرار رہا اور تصدیق کرنے کا معنی دعویٰ کرنے والے کو امن دینا ہے. قرآن حکیم میں ’’لِ‘‘ کے صلے کے ساتھ ’’آمَنَ لَہٗ‘‘ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں سرسری طور پر کسی کی بات کو مان لینا. اگرچہ یہاں ایک استثناء موجود ہے: فَاٰمَنَ لَہٗ لُوْطٌ (العنکبوت: ۲۶یعنی حضرت لوط علیہ السلام بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لے آئے. یہاں ایمان لانا سرسری معنی میں نہیں ہے.
 
عام طور پر لفظ ’’ایمان‘‘ جب ’’لِ‘‘ کے صلے کے ساتھ آئے تو اس میں زیادہ گہرائی اور وثوق والی بات نہیں ہوا کرتی‘ لیکن جب ’’بِ‘‘ کے صلے کے ساتھ آئے تو اس کے معنی میں بڑے وثوق اور بھرپور اعتماد کے ساتھ کسی بات کو مان لینا اور کسی کے دعوے کی تصدیق کرنا شامل ہوتا ہے. اسی لیے قرآن حکیم نے لفظ ایمان کو جب اصطلاحی معنوں میں بیان کیا ہے تو ’’بِ‘‘ کے صلے کے ساتھ ذکر کیا ہے‘ فرمایا: 
یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ … وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ… اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مِنۡ رَّبِّہٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ … وَ لٰٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ (یہ سب آیات سورۃ البقرۃ کی ہیں). ایمانِ مجمل کے الفاظ ہیں: آمَنْتُ بِاللّٰہِ کَمَا ھُوَ بِاَسْمَائِہٖ وَ صِفَاتِہٖ… اور ایمان مفصل کے الفاظ ہیں: آمَنْتُ بِاللّٰہِ وَ مَلٰئِکَتِہٖ… گویا جب لفظ ایمان ’’بِ‘‘ کے صلے کے ساتھ آتا ہے تو اس کے معنی ہوتے ہیں ’’تصدیق کرنا‘‘. 

اصطلاحی اور شرعی تعریف

جب ایمان نام ہے تصدیق کا‘ تو تصدیق ہو گی نبی کی‘ اس کے دعوائے نبوت کی‘ اور اس دعوت کی بنیاد پر نبی جو کچھ پیش کرے اس کی. یعنی ’’تصدیقُ بما جاء بہ النبیُّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘. علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’الایمان لغۃُ التصدیق و شرعًا تصدیقُ الرسولِ فیما جاء بہٖ عن ربہٖ‘‘ (۱یعنی لغوی اعتبار سے ایمان نام ہے صرف تصدیق کا اور شرعاً: رسول جو کچھ اپنے ربّ کی طرف سے لائے اس کی تصدیق کا.

نبی اور رسول کی لائی ہوئی تعلیمات مختلف امور پر مشتمل ہوتی ہیں. ان میں سے کچھ غیبی امور ہوتے ہیں مثلاً اللہ پر ایمان‘ فرشتوں پر ایمان‘ آخرت پر ایمان. اسی طرح ان تعلیمات میں سے بعض کی نوعیت احکام کی ہوتی ہے. یہ اوامر ہیں‘ یہ نواہی ہیں‘ یہ فرائض ہیں‘ یہ حلال ہیں اور یہ حرام ہیں. نبی و رسول سابقہ اُمتوں کے حالات اور قصص بھی بیان کرتے ہیں‘ ان کی تصدیق بھی شامل ایمان ہو گی. لیکن معروف معنی میں لفظ ایمان کا اطلاق صرف ان غیبی امور کی تصدیق پر ہوتا ہے جن کو جاننے کا ہمارے پاس خود اپنا کوئی ذاتی ذریعہ نہ ہو‘ مثلاً موت کے بعد کیا حالات پیش آنے والے ہیں؟ فرشتوں کو ہم نہیں دیکھ سکتے اور اسی طرح کے دوسرے غیبی امور ہماری دسترس سے باہر ہیں‘ اسی لیے سورۃ البقرۃ کے بالکل شروع میں ایمان کے لیے جو لفظ آیا ہے وہ ہے 
یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِیعنی ’’وہ (متقی لوگ) غیبی امور پر ایمان لاتے ہیں‘‘. تو معلوم ہوا کہ ایمان کا اصلاً اور اصطلاحاً مفہوم ’’غیبی امور کو تسلیم کرنا‘‘ ہے. 

واضح رہے کہ حضرت آدم علیہ السلام اللہ کے پہلے نبی تھے اور حضرت محمد آخری نبی. ان کے درمیان ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی اور تین سو پندرہ رسول تشریف لائے. ان رسولوں میں سے پانچ رسولوں کو 
’’اولواالعزم‘‘ کا لقب ملا ہے. انبیاء و رسل علیہم السلامکی تعلیمات دو حصوں پر مشتمل ہوتی ہیں. ایک حصہ (۱) فتح الباری‘ شرح صحیح البخاری‘ کتاب الایمان‘ ج۱ ص۶۰‘ طبع دارالریان.احکامِ شریعت کہلاتا ہے جو ہر علاقے اور زمانے کے اعتبار سے بدلتا رہا ہے. مثلاً نماز کی صورتیں بدلتی رہی ہیں‘ روزے کے احکام بدلتے رہے ہیں. البتہ دین کا دوسرا حصہ ’’ایمانیات‘‘ کہلاتا ہے. ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی‘ بال برابر فرق نہیں آیا. حضرت آدم‘ حضرت نوح‘ حضرت ابراہیم‘ حضرت موسیٰ‘ حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد علیہم السلام سب کی ایمانیات کی تعلیم ایک ہی رہی ہے. یہ چونکہ انبیاء کی تعلیم کا وہ حصہ ہے جو امورِ غیبی سے متعلق ہے‘ لہٰذا اس میں کبھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی.