ایمان کا موضوع 

ہماری گفتگو کا پہلا حصہ جو ایمان کی لغوی اور اصطلاحی بحث پر مشتمل تھا‘ قدرے ثقیل تھا‘ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ان امور کے ساتھ بھی ہمارا ذہنی ربط ضروری ہے تاکہ ہم لفظ ایمان کو پوری گہرائی کے ساتھ سمجھ سکیں اور ہمیں معلوم ہو کہ یہ لفظ کہاں سے چل کر کہاں پہنچا ہے‘ اس کی جڑ اور اس کا اساسی مفہوم کیا ہے اور اب اصطلاحاً یہ کن معنوں میں استعمال ہوتا ہے.

ایمان کا موضوع کیا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے ذرا پیچھے بیان ہونے والی بحث پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ ایمان کا تعلق غیب کی خبروں سے ہے. اور ایسی خبریں کوئی نبی یا رسول ہی دے سکتا ہے. ایسے غیبی امور سے متعلق مباحث کو فلسفیانہ اصطلاح میں ’’مابعدالطبیعیات‘‘ کا علم کہتے ہیں جو فلسفہ کی ایک اہم شاخ ہے. ’’طبیعیات‘‘ اور ’’مابعدالطبیعیات‘‘ ہمارے علم کے دو دائرے
(domains) ہیں. ایک کا تعلق مادی دنیا یعنی physical world سے ہے اور یہ حواسِ خمسہ کا دائرہ ہے. ان کے ذریعے سے ہمیں مادی کائنات کا علم حاصل ہوتا ہے. جدید تحقیقات اور ایجادات کے ذریعے ان حواسِ خمسہ کا دائرہ ہم نے وسیع کر لیا ہے. مثلاً خوردبین ایجاد کر لی تو ہماری بینائی باریک سے باریک چیزوں کا مشاہدہ کرنے لگی اور دوربین ایجاد کر لی تو ہماری بینائی کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا. بہرکیف عالم ِمادی میں حصولِ علم کا اصل ذریعہ ہمارے حواسِ خمسہ ہیں. اس عالم محسوسات کے مختلف شعبوں میں ہم نے اپنی قوتِ ادراک کو بڑھایا اور نت نئی تحقیقات کے ذریعے اس میں ترقی ہوتی چلی جا رہی ہے. چنانچہ اس دَور میں مادی یا طبیعی دنیا سے متعلق معلومات ایک دھماکے (explosion) کے سے انداز میں وسعت پذیر ہوئی ہیں. یہ اس دَور کا طرۂ امتیاز ہے.

ہمارے علم کے دوسرے دائرے کا تعلق ’’مابعدالطبیعیات‘‘ 
(metaphysics) سے ہے‘ گویا اس کا تعلق عالمِ حواس یا عالم محسوسات سے نہیں بلکہ اس سے ماوراء کسی عالم سے ہے. اس دوسرے علم سے متعلق لامحالہ کچھ سوال ذہن میں اُٹھتے ہیں. جو آدمی کسی بھی درجے میں عقل و شعور رکھتا ہے وہ ان کے بارے میں ضرور سوچتا ہے‘ البتہ ان سوالوں کے تشفی بخش جواب پانے کے لیے جو وسائل ہمیں دستیاب ہیں وہ انتہائی ناکافی ہیں‘ کیونکہ ہمارے مادی وسائل کی وہاں تک رسائی ہی نہیں ہو سکتی. اور یہی مابعدالطبیعیاتی موضوعات ایمان کا اصل موضوع ہیں. 

چند قابل توجہ حقائق

آگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ چند انتہائی اہم اور ہماری گفتگو کے اعتبار سے نہایت ضروری حقائق کو سمجھ لیا جائے. 

پہلی حقیقت: 
علم و عمل کے اعتبار سے انسان دو قسم کے ہوتے ہیں: (i) تقلیدی مزاج کے حامل (ii) تحقیقی مزاج رکھنے والے!

انسانوں کی اکثریت تقلیدی مزاج کی حامل ہوتی ہے کہ جس ماحول اور معاشرے میں انہوں نے آنکھ کھولی‘ اس معاشرے میں جن نظریات اور اعتقادات کا تسلط تھا انہوں نے بھی ان نظریات کو اختیار کر لیا‘ جو طرزِ زندگی لوگوں نے اختیار کیا ہوا تھا انہوں نے بھی اسی طرزِ زندگی کو اپنا لیا‘ جو 
values (اقدار) وہاں رائج تھیں انہوں نے بھی بے چون و چرا انہیں قبول کر لیا اور جن اہداف کے لیے سب کوشاں اور سرگرداں نظر آئے یہ بھی اسی دوڑ میں شامل ہو گئے اور انہی راہوں پر چل کر زندگی گزار دی. انسانوں کی عظیم اکثریت اسی طرح کے تقلیدی ذہن اور مزاج کے لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے. البتہ ہزاروں اور لاکھوں افراد میں ایک دو افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس تقلیدی جم غفیر کے برعکس تحقیقی مزاج رکھتے ہیں.

ایسے تحقیقی مزاج اور ذہن کے حامل افراد کی تعداد ہمیشہ اقل قلیل ہوتی ہے. ایسے لوگ کسی چیز کو صرف اس لیے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ سب اس کو مان رہے ہیں اور کوئی کام صرف اس لیے کرنے کو تیار نہیں ہوتے کہ سب یہی کام کر رہے ہیں‘ بلکہ وہ حقیقت اور صداقت کو خود جاننا اور سمجھنا چاہتے ہیں. حق کو دلیل کے ساتھ معلوم کرنا اسی کا نام ہے. حقیقت کو جاننے کے لیے یہ لوگ اپنی عقل و فہم کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں. حق تک پہنچنے کے لیے شدید محنت اور جدوجہد کرتے ہیں. یہ لوگ ہمیشہ نادرالوجود ہوتے ہیں. گوتم بدھ اپنے زمانے میں ایک ہی تھا‘ لیکن آج اس کے نام لیوا کروڑوں میں ہیں. اس کے نظریات صحیح تھے یا غلط‘ یہ ہمارا موضوع نہیں. اسی طرح سقراط (۱بھی اپنے زمانے میں ایک ہی پیدا ہوا اور آج مغرب کے سارے فلسفے کا تانابانا اور سلسلہ اسی سقراط اور اس کے شاگردوں سے جڑتا ہے. یہاں یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ ایسے نابغۂ روزگار حضرات کا ان کی زندگی میں کوئی ساتھ دے یا نہ دے‘ لیکن بعد میں لوگ انہی کے نقش قدم پر چلتے ہیں. ابتدا میں چند ہی لوگ ایسے حضرات کی بات کو سمجھ پاتے ہیں‘ پھر آہستہ آہستہ عام لوگ بھی ان کی پیروی کرنے لگتے ہیں. بالآخر تقلیدی مزاج کے تحت نسلاً بعد نسلٍ ان حضرات کے پیش کیے ہوئے نظریات عام لوگوں کے لیے عقائد کا درجہ اختیار کر لیتے ہیں. 

دوسری حقیقت: 
اسی طرح علم کی بھی دو قسمیں ہیں: (i)علم الادیان (ii)علم (۱) سقراط اپنے نظریات پر کس قدر جازم تھا اور اپنی فکر کے پرچار کا کتنا مشتاق تھا‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے سامنے دو راستے رکھے گئے کہ یا تو زبان بند کر لے اور جن حقائق کا اس پر انکشاف ہوا ہے ان کا اعلان نہ کرے‘ ورنہ اس کی سزا یہ ہے کہ وہ زہر کا پیالہ پی کر موت کو گلے لگا لے. اس نے زبان بند کرنا پسند نہیں کیا بلکہ زہر کا پیالہ پی کر اپنے پیش کردہ حقائق پر اپنے پختہ یقین کا ثبوت فراہم کر دیا. (ماخوذ) الابدان. اس دوسرے علم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: 

وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمۡ عَلَی الۡمَلٰٓئِکَۃِ ۙ فَقَالَ اَنۡۢبِـُٔوۡنِیۡ بِاَسۡمَآءِ ہٰۤؤُلَآءِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۳۱﴾ 
(البقرۃ) 
’’(اس کے بعد) اللہ نے آدم ( علیہ السلام ) کو ساری چیزوں کے نام سکھا دیئے‘ پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: اگر تمہارا خیال صحیح ہے تو ذرا ان چیزوں کے نام بتاؤ.‘‘

یہ علم الاشیاء کی طرف اشارہ ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے وجود میں گویا بالقوۃ 
(potentially) ودیعت کر دیا گیا تھا. سمع‘ بصر اور فواد کی جو صلاحیتیں اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر رکھ دی تھیں انہی کی بدولت لوگوں کو مادی کائنات اور اس کے اصول و قواعد اور اس میں مضمر قوتوں کا علم حاصل ہوتا رہا اور مادی علوم (Physical sciences) کا دائرہ آگے بڑھتا رہا اور نہ معلوم کہاں تک بڑھتا چلا جائے گا. لیکن یہ علم الاشیاء ہے جسے علم الابدان کا نام بھی دیا گیا ہے. علامہ ابن خلدون نے علم کی دو قسمیں بیان کی ہیں. ان کی طرف یہ الفاظ منسوب ہیں: ’’العلم علمان‘ علم الابدان و علم الادیان‘‘ یعنی علم تو دو ہی ہیں: ایک علم الابدان‘ یعنی (Physical bodies) کا علم‘ جو فزکس یا Physical sciences کہلاتا ہے. یہ علم یا اس سے متعلق حقائق کی تحقیق ہماری آج کی گفتگو کا موضوع نہیں ہے‘ اس لیے اس کو ایک طرف رکھ دیں. اور دوسرا ہے علم الادیان‘ جو ان حقائق سے بحث کرتا ہے جو مادی علم کی رسائی سے باہر ہیں. حقیقت مطلقہ سے متعلق کچھ کُلی اور اصولی سوالات اس کا اصل موضوع ہیں‘ چنانچہ یہ علم ان کے جوابات سے بحث کرتا ہے.

اس کا دائرۂ بحث کلی حقائق ہیں‘ جزوی حقائق نہیں. اس علم میں اس جزوی حقیقت سے بحث نہیں ہو سکتی کہ پانی کی اصل کیا ہے؟ آیا وہ ہائیڈروجن اور آکسیجن سے مل کر بنا ہے یا کچھ اور ہے؟ پوری کائنات وسیع ترین حقیقت ہے‘ اس میں جزوی اور کلی دونوں قسم کے حقائق موجود ہیں. انسان چاہتا ہے کہ اسے جزوی حقائق کے ساتھ ساتھ کلی حقائق کی بھی خبر ہو اور یہ انسان کی اشد ضرورت ہے‘ کیونکہ انسانی رویے کا دارومدار انہی چیزوں سے متعلق نظریات اور عقائد کو ماننے اور نہ ماننے پر ہے. مثلاً انسان کو اپنی ذات کے متعلق خبر ہونی چاہیے کہ وہ کیا ہے اور کون ہے؟ جب تک یہ نہ معلوم ہو کہ میں کون ہوں‘ زندگی کا طرزِ عمل کیسے معین ہو گا. زندگی کا رُخ معین کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مجھے معلوم ہو کہ میری زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ آیا موت پر زندگی کا اختتام ہے یا موت کے بعد بھی زندگی کی کوئی دوسری شکل ہو گی؟ صرف اسی ایک سوال کے جواب میں فرق سے زمین و آسمان کا فرق واقع ہو جائے گا. اس سے ملتے جلتے اور بھی بہت سارے سوالات ہیں جن کا تذکرہ آگے آئے گا. یہ دوسرا علم جو کلی حقائق سے بحث کرتا ہے‘ فلسفہ کا موضوع ہے اور یہی درحقیقت ایمان کا موضوع ہے. 

فلسفہ کی حقیقت

انسان نے ایسے اصولی سوالوں کا جواب جاننے کے لیے عقل کے گھوڑے دوڑائے‘ منطق سے مدد لی. اس طرح حواسِ خمسہ کے ذریعے اسے جو معلومات حاصل تھیں ان کو جوڑا اور جمع کیا‘ نتائج اخذ کیے اور اس طرح اپنے علمی و عقلی سفر کو جاری رکھا. اس عمل کے ایک حصے کو استخراجی اور دوسرے حصے کو استقرائی طریق کار کا نام دیا گیا. فلسفہ جن اصولی سوالات سے بحث کرتا ہے ان کی تفصیل کچھ یوں ہے:

(۱) میں کون ہوں؟ یعنی انسان کی حقیقت کیا ہے؟
(۲)زندگی کس چیز کا نام ہے؟
(۳) خیر کسے کہتے ہیں اور شر کی حقیقت کیا ہے؟
(۴) علم کی حقیقت کیا ہے؟ 
(۵) وجود کی ماہیت کیا ہے؟
(۶) زندگی کا آغاز کیا ہے؟ اور اختتام کیا ہے؟ وغیرہ

عام آدمیوں اور تقلیدی مزاج کے لوگوں کے نزدیک تو ان سوالات کی کچھ زیادہ اہمیت نہیں ہوتی‘ لیکن تاریخ کی یہ گواہی موجود ہے کہ تحقیقی مزاج کے لوگوں کے ذہن میں جب یہ سوالات پیدا ہو گئے تو انہیں زندگی کی کسی اور چیز سے دلچسپی ہی نہیں رہی 
(۱. ان کا داعیۂ تلاشِ حق اتنا شدید ہوتا ہے کہ خود اپنی زندگی (۱) گوتم بدھ جو کہ کپل وستو کا شہزادہ تھا‘ تیس سال کی عمر میں جوان بیوی‘ شیرخوار بچے‘ راجدھانی اور محل کو چھوڑ کر جنگلوں میں نکل گیا. حالانکہ عام انسانوں کے لیے یہ سہولتیں اور عیش و عشرت کا سامان پائوں کی بیڑی بن جایا کرتی ہیں‘ لیکن گوتم بدھ کا معاملہ بالکل مختلف تھا. اس نے دیکھا کہ کوئی اندھا ہے اور لڑکھڑا رہا ہے‘ گر رہا ہے‘ کسی کا بچہ فوت ہو رہا ہے‘ رشتہ دار‘ والدین سرہانے کھڑے ہیں لیکن کوئی کچھ نہیں کر سکتا. اس نے سوچا یہ رنج اور الم کیوں ہے؟ اور اس سے نجات کا کوئی راستہ ہے یا نہیں؟ کوئی اگر پیدائشی اندھا ہے تو آخر اس کا قصور کیا تھا؟ حقیقت کیا ہے؟ ان تمام چیزوں سے نجات کی کوئی شکل ہے یا نہیں؟ ان سوالوں کا جواب پانے کے لیے اس نے کہاں کہاں کی خاک چھانی‘ کس کس کی خدمتیں کیں‘ کیسی کیسی ریاضتیں کیں! ہم نے صرف مثال سامنے رکھنی ہے‘ کسی کی تعلیمات پر تبصرہ ہمارے یہاں پیش نظر نہیں ہے. 

اسی طرح ذرا غور کیجیے‘ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ پر کیا بپتا پڑی تھی‘ کیوں گھر سے نکلے تھے؟ حالانکہ اپنے وطن ایران میں وہ پُر سکون زندگی گزار رہے تھے‘ وہ آتش پرست حلقے کے ایک صاحب حیثیت شخص کے بیٹے تھے‘ گدی ملی ہوئی تھی‘ ہمیشہ کے لیے عیش کرتے لیکن وہی تحقیقی مزاج آڑے آیا کہ یہ کیا معاملہ ہے کہ ہم خود آگ جلائیں‘ خود ایندھن ڈالیں اور خود اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر عبادت کے لیے کھڑے ہو جائیں. اس سے بڑی اور کیا حماقت ہوگی. پھر انہوں نے تلاشِ حق میں کہاں کہاں کی خاک چھانی! گھر چھوڑا‘ ہجرت کی‘ شام تک کا سفر کیا‘ عیسائیت اختیار کی‘ کبھی ایک راہب کے پاس‘ کبھی دوسرے عالم کے پاس اور آخری راہب کی جب موت کا وقت آیا تو کہا کہ میری تو اب تک تسکین نہیں ہوئی‘ اب تمہارے بعد مَیں کہاں جائوں؟ تو اس راہب نے بتایا کہ میرا علم بتاتا ہے کہ آخری نبی کے ظہور کا وقت آ چکا ہے اور جنوب کی طرف کھجوروں کی زمین میں اس کا ظہور ہو گا. جاؤ اور تلاش کرو. بالآخر حضرت سلمان الفاری رضی اللہ عنہ وہاں سے ایک قافلہ کے ہمراہ نکلے. راستے میں ڈاکوؤں کا حملہ ہوا‘ گرفتار ہوئے‘ غلام بنے. خریدار چونکہ مدینہ کا یہودی تھا لہٰذا اس طرح مدینہ طیبہ پہنچے اور آپ کے قدموں میں پہنچنے کی سبیل پیدا ہو گئی اور اس طرح تلاشِ حق کا یہ سفر مکمل ہوا. (واضح رہے کہ اس وقت تک آنحضور ابھی ہجرت کر کے یثرب تشریف نہیں لائے تھے.) 
کی کوئی اہمیت و حقیقت ان کے نزدیک باقی نہیں رہتی‘ بلکہ اصل اہمیت ان مسائل کی الجھی ہوئی ڈور کو سلجھانے اور ان کے جوابات کے حصول کی ہوتی ہے. 

پانچ اہم ترین سوال

ہر انسان سے خواہ وہ یہودی ہو یا عیسائی‘ مسلمان ہو یا کافر‘ تابع فرمان مؤمن ہو یا بے عمل مسلمان‘ بہرحال قیامت کے روز پانچ سوال ضرور پوچھے جائیں گے. شعوری یا غیر شعوری طور پر ہر شخص ان سوالوں کا ایک معین جواب اپنے ذہن میں رکھتا ہے جس کا کسی قدر اظہار اس کے رویے اور کردار سے ہو جاتا ہے. ایک حدیث مبارکہ میں ان سوالوں کی تفصیل ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے. حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم نے ارشاد فرمایا: 

لاَ تَزُوْلُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ عِنْدِ رَبِّہٖ حَتّٰی یُسْاَلَ عَنْ خَمْسٍ: عَنْ عُمُرِہٖ فِیْمَا اَفْنَاہُ‘ وَعَنْ شَبَابِہٖ فِیْمَا اَبْلَاہُ‘ وَعَنْ مَالِہٖ مِنْ اَیْنَ اکْتَسَبَہُ‘ وَفِیْمَا اَنْفَقَہُ‘ وَ مَاذَا عَمِلَ فِیْمَا عَلِمَ 
(۱(۱) سنن الترمذی: ۲۵۴۴‘ ابواب صفۃ القیامہ‘ باب شان الحساب والقصاص. و مسند ابی یعلی الموصلی: ۵۲۷۱‘ ۹؍۱۷۸. والمعجم الصغیر للطبرانی: ۷۴۷’ ۱؍۲۸۰ اور تاریخ بغداد للخطیب ۱۲/۴۴۰یہی حدیث حضرت ابو برزہ الاسلمی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بھی مروی ہے‘ ملاحظہ ہو سنن الترمذی: ۲۵۴۵و مسند ابی یعلی الموصلی: ۷۴۳۴‘ ۱۳/۴۲۸واقتضاء العلم العمل للخطیب‘ص۱۶-۱۷ وحلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصفھانی ۱۰/۲۳۲و سنن 
الدارمی: ۵۴۵‘ ۱/۱۳۵نیز حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے حوالے سے خطیب بغدادی نے 

تاریخ بغداد ۱۱/۴۴۱ میں اور اقتضاء العلم العمل ص۱۸-۱۹ میں بیان کیا ہے. اس حدیث کو پوری تفصیل سے اس لیے ذکر کیا گیا ہے تاکہ معلوم رہے کہ یہ حدیث انتہائی مستند ہے اور محدثین کرام نے اسے پورے اہتمام سے بیان کیا ہے (مرتب غفراللہ لہ) ’’قیامت کے روز کسی آدم زادے کے قدم اس وقت تک اپنے ربّ کے سامنے سے نہ ہٹ سکیں گے جب تک کہ اس سے 
مندرجہ ذیل پانچ سوال نہیں پوچھ لیے جاتے:

(۱) اس نے اپنی عمر کہاں خرچ کی؟
(۲) اپنی جوانی کہاں کھپائی؟
(۳) مال کہاں سے کمایا؟
(۴) اور کہاں خرچ کیا؟
(۵) علم کے مطابق کس قدر عمل کیا؟‘‘

مذکورہ بالا سوالات کی مانند پانچ ہی سوال مابعدالطبیعیاتی یا غیبی امور سے متلق ایسے ہیں کہ جن کے بارے میں ہر انسان نے شعوری یا غیر شعوری طور پر کوئی نہ کوئی جواب اختیار کیا ہوا ہے اور اس کے مطابق اپنے طرزِ زندگی کو استوار کیا ہوا ہے‘ چاہے متعین شکل میں یہ سوالات کبھی اس کے سامنے آئے ہوں یا نہ آئے ہوں.
 

سوال 1 کائنات کی حقیقت کیا ہے؟

پہلا اور بنیادی سوال کائنات کے بارے میں ہے کہ کیا یہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی؟ کیا یہ خودبخود بن گئی ہے اور خودبخود چل رہی ہے؟ کیا یہ کسی وقت معین پر تخلیق ہوئی ہے؟ اور کیا کسی وقت معین کے بعد ختم ہو جائے گی؟ اگر واقعتا یہ کائنات تخلیق ہوئی ہے تو اس کا خالق کون ہے؟ اگر کوئی خالق ہے تو اس کی صفات کیا ہیں؟ خالق اور کائنات (مخلوق) کا باہم ربط و تعلق کیا ہے؟ اور اس سے رابطے کی کوئی شکل ہے یا نہیں؟ یہ تفصیلی سوالات پہلے بنیادی سوال کی تشریح کا درجہ رکھتے ہیں. 

سوال2 خود میں کون ہوں؟

میری حقیقت کیا ہے؟ مشہور صوفی شاعر حضرت بلھے شاہ نے کہا: ’’بلھیا کی جاناں میں کون؟‘‘ (Who am I) کیا میں بھی دوسرے حیوانات کی طرح بس ایک حیوان ہوں؟ یا ان سے کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے مختلف ہوں؟ مجھ میں اور حیوانات میں اگر کوئی فرق ہے تو کیا ہے؟ اور اس کائنات میں میرا اصل مقام کیا ہے؟ 

سوال 3 میری زندگی کی حقیقت کیا ہے؟

کیا پیدائش سے موت تک کا عرصہ ہی میری کل زندگی ہے؟ کیا موت پر زندگی کا اختتام ہو جائے گا؟ یا موت کی سرحد کے پار بھی میرے وجود کا کوئی تسلسل ہے؟ اگر ہے تو اس کی کیا شکل ہے؟ اس کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے کہ اس کی کیفیات کیا ہوں گی! اس مرکزی سوال کے اندر ایک دوسرا سوال موجود ہے‘ اور وہ یہ کہ اس دنیا میں آنے یعنی پیدائش سے پہلے بھی میرا کوئی وجود تھا؟ اگر تھا تو اس کی نوعیت کیا تھی؟ میں کہاں سے آیا ہوں اور میری منزل کون سی ہے؟ 

سوال 4 علم کی حقیقت کیا ہے؟

ایک علم سے تو ہم سب واقف ہیں جو حواسِ خمسہ سے حاصل ہوتا ہے. آنکھ دیکھتی ہے‘ کان سنتے ہیں‘ اسی طرح چھو کر‘ چکھ کر اور سونگھ کر بھی کچھ معلومات حاصل ہوتی ہیں. [اضافی قوتِ حاسہ(extra sensory perceptions) کو بھی اس دَور میں اہمیت دی جانے لگی ہے تاہم اس کا معاملہ چونکہ کسی قدر متنازعہ ہے لہٰذا اسے سردست علیحدہ رکھیے.] بہرحال حواسِ خمسہ سب کے نزدیک متفق علیہ ہیں. اسی طرح انسان یہ بھی محسوس کرتا ہے کہ اس کے اندر کوئی کمپیوٹر ہے جو نتیجہ نکالنے میں معاون ہوتا ہے یعنی استنباط و استدلال کی قوت سے دو موجود حقیقتوں کے ذریعے تیسری حقیقت معلوم کرنے کی صلاحیت اس کے اندر موجود ہے. کچھ کلی معلومات بھی اس کے اندر ودیعت شدہ ہیں. ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ جہاں آگ جلتی ہے وہاں دھواں بھی ہوتا ہے‘ لہٰذا دھوئیں کو دیکھ کر ہم بآسانی یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ وہاں آگ لگی ہوئی ہے‘ حالانکہ اپنی آنکھوں سے آگ کو ہم نے نہیں دیکھا بلکہ دماغی کمپیوٹر نے دھواں دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے.

علم کے یہ دو دائرے یا دو ذرائع یعنی علم بالحواس اور علم بالعقل تو ہر باشعور انسان کے علم میں ہیں‘ البتہ شاہ اسمٰعیل شہید رحمہ اللہ علیہ کے قول کے مطابق علم انسانی کے تین دائرے ہیں: (۱) علم بالحواس (۲) علم بالعقل (۳) علم بالقلب. پہلے دو ذرائع علم کے بارے میں تو کسی کو اختلاف نہیں ہے‘ سوال یہ ہے کہ علم بالقلب کی بھی کوئی حقیقت ہے یا نہیں؟ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آیا علم بالحواس اور علم بالعقل سے پرے بھی کوئی 
source of knowledge ہے یا نہیں! 

سوالE خیر و شر کی حقیقت کیا ہے؟

کیا یہ کوئی مستقل اقدار (permanent values) ہیں؟ یہ اقدار حقیقی ہیں یا محض وہمی اور خیالی؟ انگریزی زبان کا ایک مشہور مقولہ ہے: 

"Nothing is good or bad, only thinking makes it so" 
’’کوئی چیز اپنی ذات میں نہ اچھی ہے نہ بری‘ بلکہ انسانی سوچ اسے اچھا یا برا بنا دیتی ہے.‘‘ 

کیا یہ مقولہ صحیح ہے؟ کیا ہم نے ایسے ہی کسی شے کو خیر اور کسی کو شر کا نام دے رکھا ہے یا واقعتا یہ مستقل اقدار 
(values) ہیں؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو خیر پر آمادہ کرنے والا جذبۂ محرکہ کون سا ہے‘ چاہے اس خیر کو اپنانے میں نقصان ہو رہا ہو؟ سچ بولنا اگر خیر ہے لیکن سچ بولنے میں اگر دنیاوی نقصان ہوتا ہو تو انسان پھر کیوں سچ بولے؟ جھوٹ بولنا اگر شر ہے لیکن جھوٹ بولنے میں اگر فائدہ نظر آتا ہو تو جھوٹ کیوں نہ بولے؟ 

اگر خیر و شر مستقل اخلاقی قدریں ہیں تو پھر ان اقدار پر عمل پیرا ہونے کے لیے مضبوط جذبۂ محرکہ بھی درکار ہے. یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ اگر دیانت خیر اور خیانت شر ہے تو انسان کو دیانت اور امانت پر قائم رکھنے اور خیانت سے روکنے والی قوت کون سی ہے؟
یہ پانچ سوال ہیں جو مابعدالطبیعیات اور فلسفہ کے مختلف شعبوں میں مرکزی اہمیت کے حامل ہیں. علم نفسیات 
(Psychology) انسان کی باطنی حقیقت سے بحث کرتا ہے. انسان کے محرکات عمل کیا ہیں؟ آیا وہ صرف حیوان ہی ہے یا اس سے مختلف ہے؟ اس کا behaviour کیا ہے؟ علم الاخلاق (Ethics) میں خیر و شر کی حقیقت زیر بحث آتی ہے‘ کہ اگر یہ آفاقی اقدار ہیں تو ان کے لیے جذبۂ محرکہ کیا ہے؟ اخلاقیات کا نظام کون سا ہو؟ وغیرہ. 

مابعدالطبیعیات (Metaphysics) کائنات کی حقیقت پر بحث کرتی ہے‘ کہ وجود کی حقیقت و ماہیت کیا ہے. اسی طرح علمیات (Epistemology) میں حقیقت علم اور ماہیت علم سے بحث کی جاتی ہے. الغرض یہ سب فلسفہ ہی کی شاخیں ہیں. اور یہی وہ پانچ بنیادی سوالات ہیں جن سے ایمان بحث کرتا ہے. معلوم ہوا کہ فلسفہ اور ایمان دونوں کا موضوع ایک ہی ہے. دونوں مابعدالطبیعیاتی حقائق سے بحث کرتے ہیں. 

ان سوالات کے جوابات تاریخ انسانی میں دو طریقوں سے پیش کیے گئے. ایک طریقہ وہ ہے جو حکماء اور فلاسفہ نے اختیار کیا. انہوں نے عقل و منطق کے گھوڑے دوڑائے‘ حواس کے ذریعے جو معلومات انہیں حاصل ہوئیں‘ عقل کی قوتوں کو بروئے کار لا کر ان کی مدد سے نظریات مدوّن کیے. چنانچہ حقیقت کے بارے میں مختلف نظریات‘ جن میں تصوریت 
(idealism) اور مادیت(materialism) نمایاں ہیں‘ وجود میں آئے. فلسفہ کے بارے میں یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اس میں یقین نام کی کوئی شے نہیں ہوتی. ہر بات کی بنیاد ظن‘ تخمین‘ گمان‘ اندازے اور قیاس پر ہوتیہے. فلسفی حضرات اپنے نظریات کو بالعموم اس قسم کے پیرائے میں بیان کرتے ہیں کہ ’’ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے‘‘ یا یہ کہ ’’ہمارا یہ خیال ہے‘‘ وغیرہ‘ اور جو کوئی جتنا بڑا فلسفی ہو گا اسی قدر وہ اپنے نظریات کو عاجزانہ انداز میں پیش کرے گا. 

اس کی ایک نمایاں مثال خود علامہ اقبال ہیں. انہوں نے اپنے خطبات (یعنی ’’تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘) کے مقدمہ میں تسلیم کیا ہے کہ ’’میں یہ نہیں کہتا کہ میں جو کچھ کہتا ہوں وہ حرفِ آخر ہے‘ ہمارا کام ہے کہ علمی رویے کو برقرار رکھتے ہوئے غور و فکر کو آگے بڑھائیں‘ ہو سکتا ہے کہ ان خطبات میں جو خیالات ظاہر کیے گئے ہیں ان سے بڑھ کر اور بہتر خیالات سامنے آ جائیں‘‘. حکیم الامت جیسا عظیم فلسفی بھی اپنے فلسفیانہ افکار و خیالات کو اس عاجزی اور انکساری کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ میرا ہرگز یہ دعویٰ نہیں ہے کہ جو کچھ میں نے کہا ہے وہ حرف آخر ہے. البتہ دنیا میں بڑے بڑے فلسفے موجود ہیں جنہوں نے ایک عالم کو مسخر کر رکھا ہے. ان کی تاثیر اور اثرپذیری سے انکار ممکن نہیں. یہاں تک کہ بعض مذاہب کو بھی فلسفیانہ مذاہب 
(Philosophical religions) کا نام دیا جاتا ہے. ان کی بنیاد وحی کے بجائے فلسفہ پر ہے. 

لیکن تاریخ انسانی میں ان سوالات کا دوسرا جواب کچھ لوگ اس دعوے سے دیتے ہیں کہ ہمیں ایک خاص ذریعے 
(source) سے علم حاصل ہوا‘ یعنی نہ تو یہ ہمارا اپنا ذاتی خیال ہے‘ اور نہ ہی منطقی صغریٰ کبریٰ ملا کر ہم نے کوئی نتیجہ نکالا ہے اور نہ ہی یہ ہمارے غورو فکر کا حاصل ہے‘ بلکہ یہ وحی آسمانی ہے: اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی ۙ﴿۴﴾ (۱ہے. وحی کی بنیاد پر علم کا دعویٰ کرنے والوں نے کہا: صرف یہی حق ہے اور اس کی حقانیت میں کسی شک و شبہ کی بھی گنجائش نہیں. فرمایا: ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ (۲یہ دعویٰ ہر کوئی نہیں کر سکتا. کسی بھی فلسفی نے یہ بات (۱) سورۃ النجم‘ آیت ۴: ’’یہ تو ایک وحی کی تعلیم ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے.‘‘

(۲) سورۃ البقرۃ‘ آیت ۲: ’’یہ الکتاب ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں.‘‘ 
کبھی نہیں کہی‘ اگر کہی تو صرف اللہ کے رسول اور نبی نے کہی اور وہ یہ بات اپنے اپنے وقت میں بڑے دعوے کے ساتھ کہتے رہے. مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد کو مخاطب کر کے فرمایا: 
یٰۤاَبَتِ اِنِّیۡ قَدۡ جَآءَنِیۡ مِنَ الۡعِلۡمِ مَا لَمۡ یَاۡتِکَ فَاتَّبِعۡنِیۡۤ اَہۡدِکَ صِرَاطًا سَوِیًّا ﴿۴۳﴾ 
(مریم) 
’’ابا جان! میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا تھا‘ پس آپ میری پیروی کیجیے‘ میں آپ کو سیدھا راستہ دکھاؤں گا!‘‘

تجرباتی علم باپ کے پاس زیادہ تھا‘ کیونکہ اس کی عمر زیادہ تھی‘ اس کا تجربہ بیٹے کے مقابلے میں بہت زیادہ تھا‘ وہ کہہ سکتا تھا کہ تم کل کے بچے ہو‘ میں نے اپنے بال دھوپ میں سفید نہیں کیے ہیں‘ تم مجھے کہہ رہے ہو کہ میری پیروی کرو! کس بنیاد پر؟ آخر کوئی بنیاد تو ہونی چاہیے. حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب میں جو دلیل پیش فرمائی وہ لائق توجہ ہے‘ فرمایا:
 
’’ابّا جان! میرے پاس وہ علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا.‘‘

اس علم تک تمام انسانوں کی رسائی ممکن نہیں. یہ ذریعہ علم کچھ اور ہی ہے. حواس یا عقل کو اس کا منبع یا سرچشمہ قرار نہیں دیا جا سکتا‘ بلکہ اس کا ذریعہ اور سرچشمہ 
(source) وحی ہے. اسی لیے اس کے بارے میں صاف فرما دیا گیا: اِنۡ ہُوَ اِلَّا وَحۡیٌ یُّوۡحٰی ۙ﴿۴﴾ . چنانچہ اس علم کی بنیاد پر انبیاء کرام علیہم السلام ہر دَور میں اپنی قوم سے یہ مطالبہ کرتے رہے کہ ہماری پیروی کرو‘ ہمارا اتباع کرو.

لوگوں کے عقل و شعور کی سطحیں 
(levels of consciousness) بھی مختلف ہوا کرتی ہیں. علم‘ فہم اور شعور کے اعتبار سے تمام انسان چونکہ ایک سطح پر نہیں ہیں لہٰذا وحی الٰہی کے ذریعے ملنے والے جوابات کی بھی چار سطحیں ہیں. 

پہلی سطح کو عام فہم سطح کا نام دیا جا سکتا ہے. قرآن حکیم اور حدیث رسولِ اکرم 
 نے بنیادی طور پر اسی سطح پر گفتگو کی ہے‘ کیونکہ قرآن ’’ھُدًی لِّلنَّاسِ‘‘ ہے. ظاہر بات ہے کہ ’’الناس‘‘ میں اَن پڑھ‘ کاشتکار اور مزدور قسم کے لوگ بھی شامل ہیں. اس سطح کو ایک عالم اور فلسفی سے لے کر عام آدمی تک ہر انسان سمجھتا ہے‘ حتیٰ کہ صحراء میں بسنے والے بدو اور چرواہے بھی. اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ قرآن حکیم میں اونچے فلسفیانہ حقائق زیر بحث آئے ہی نہیں‘ البتہ یہ ضرور ہے کہ اعلیٰ فلسفیانہ مضامین قرآن حکیم میں بالعموم ضمنی طور پر آئے اور مخفی انداز میں بیان ہوئے ہیں. ایک حکیم اور فلسفی اس مقام پر ڈیرہ ڈال لیتا ہے‘ جبکہ عام انسان ان سے سرسری طور پر گزر جاتا ہے. 

عافیت بھی اسی میں ہے کہ عام انسان سرسری ہی گزر جائے. واضح رہے کہ ان دقیق معانی کے بغیر بھی رشد و ہدایت کا مدعا پورا ہو رہا ہوتا ہے. میں نے ’’مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق‘‘ نامی کتابچے میں اس پر تفصیلی بحث کی ہے کہ ایک ہے ’’تذکرہ بالقرآن‘‘ اور ایک ہے ’’تدبر قرآن‘‘. دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے. مثلاً اگر تیل سمندر میں گر جائے تو وہ پانی کی سطح پر ایک باریک تہہ کی صورت میں پھیل جاتا ہے‘ نیچے نہیں جاتا. یوں سمجھئے کہ قرآن کی ہدایت کا لب لباب اس کی اوپر والی سطح پر موجود ہے. اس سے یہ غلط فہمی بھی نہ ہو کہ قرآن حکیم کی ساری تعلیم بس یہی کچھ ہے‘ بلکہ اس کی گہرائی تو ناپی ہی نہیں جا سکتی. اس کی عام تعلیمات اس تیل کی مانند ہیں جو سمندر کے اوپر نظر آ رہا ہے‘ جبکہ یہ خود سمندر سے زیادہ گہرا ہے. چنانچہ ان سوالات کا ایک جواب عام فہم سطح کا ہے. قرآن و حدیث نے بطرزِ جلی اسی کو اختیار کیا ہے.

دوسری سطح کو ہم متکلمانہ سطح کہہ سکتے ہیں. یعنی ذات و صفاتِ باری تعالیٰ کو عقل و منطق کے حوالے سے سمجھنا. اس متکلمانہ سطح کے ہمارے ہاں تین گروپ پیدا ہوئے ہیں. اشاعرہ‘ ماتریدیہ اور معتزلہ. اشاعرہ ایک انتہا پر ہیں تو معتزلہ دوسری پر. معتزلہ انتہائی عقلیت پسند 
(rationalist) ہی نہیں عقلیت پرست بھی ہیں. اشاعرہ اس کے برعکس اور ماتریدی درمیان درمیان میں ہیں. یہی لوگ ہیں جنہوں نے عقائد کو مرتب کیا ہے. عقائد کی جو کتابیں ہیں وہ درحقیقت ان ایمانی حقائق کی منطقی تعبیرات ہیں. یہی لوگ اپنے دَور میں علم و منطق کو جاننے والے تھے. انہوں نے اس کی تعبیر کی ہے. البتہ ان لوگوں کے بیان کردہ حقائق ہرگز حرفِ آخر نہیں ہیں. عقائد یا عقیدہ کا لفظ بھی قرآن یا حدیث کی اصطلاح نہیں ہے‘ یہ علم کلام کی اصطلاح ہے. اس اصطلاح کا آغاز بعد میں ہوا. 

ان سوالات کے جوابات کی تیسری سطح فلسفیانہ ہے. ہمارے ہاں ابن سینا‘ فارابی اور ابن رشد نے خالص فلسفہ کی بنیاد پر دینی حقائق کی تعبیریں کی ہیں جبکہ متکلمین اسلام نے فلسفہ کو کتاب و سنت کے ساتھ جوڑنے کی اپنی سی کوشش کی ہے.

اس سلسلے کی چوتھی سطح وہ ہے جسے ہم صوفیانہ سطح کا عنوان دے سکتے ہیں. گہرائی کے اعتبار سے صوفیاء کے تصورات سب سے گہری سطح پر ہیں. انہوں نے حقائق کی تعبیر وجدانی کیفیت کے ساتھ یعنی علم بالقلب کے ذریعے کی ہے. گویا صوفیاء نے علم کلام یا فلسفہ کی بجائے وجدانی قوتوں کو بروئے کار لا کر اپنی باطنی کیفیات کے حوالے سے ان حقائق کا ادراک کیا ہے.

یہ چار سطحیں ہیں‘ لیکن ہماری گفتگو بنیادی اور پہلی سطح یعنی عام فہم سطح کے حوالے سے ہو گی. البتہ کہیں کہیں تعبیرات کے ضمن میں متکلمانہ‘ فلسفیانہ اور صوفیانہ سطحوں کا حوالہ بھی آئے گا. 

ایمان قرآن و حدیث کی اصطلاح ہے‘ چنانچہ ان سوالات کے جوابات کے ضمن میں ہماری گفتگو بھی قرآن و حدیث کے اردگرد رہے گی. اور ہم ان ہی کے حوالے سے ان بنیادی سوالات کے‘ جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے‘ ان جوابات پر غور کریں گے جو وحی سے حاصل ہوئے ہیں اور جن کا مجموعی نام ’’ایمان‘‘ ہے. 

س1: کائنات کی حقیقت کیا ہے؟ 
ج: یہ کائنات نہ ہمیشہ سے ہے اور نہ ہمیشہ رہے گی. یہ ایک خاص وقت تک کے لیے پیدا کی گئی ہے. اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 
مَا خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَاۤ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَ اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ (الروم : ۸‘ اور اسی معنی میں الاحقاف: ۳’’اللہ نے زمین اور آسمانوں کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں برحق اور ایک مدتِ مقرر کے لیے ہی پیدا کیا ہے.‘‘
البتہ ایک ہستی ایسی ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی‘ ہمیشہ رہنے والی یہ ہستی خالق ہے اور فنا ہونے والی مخلوق ہے. اس ہستی نے ساری کائنات کو پیدا فرمایا. اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ وَ صَوَّرَکُمۡ فَاَحۡسَنَ صُوَرَکُمۡ ۚ وَ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ ﴿۳﴾ 
(التغابن) 
’’اس نے زمین اور آسمانوں کو برحق پیدا کیا ہے اور تمہاری صورت بنائی اور بڑی عمدہ صورت بنائی ہے اور اس کی طرف آخر کار تمہیں پلٹنا ہے.‘‘

اس خالق ذات کو تم اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر‘ بات ایک ہی ہے. اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 

قُلِ ادۡعُوا اللّٰہَ اَوِ ادۡعُوا الرَّحۡمٰنَ ؕ اَیًّامَّا تَدۡعُوۡا فَلَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی ۚ 
(بنی اسرآئیل: ۱۱۰
’’(اے نبیؐ ان سے) کہو! اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کہہ کر‘ جس نام سے بھی پکارو‘ پس اس کے لیے سب اچھے ہی نام ہیں.‘‘

اس کی ہستی یکتا ہے‘ از خود اور باخود ہے‘ نہ اس کے والدین ہیں نہ اولاد اور نہ بیوی‘ وہ بالکل تنہا ہے‘ نہ اس کا کوئی مثل ہے‘ نہ تمثیل ہے نہ مثال‘ نہ ضد ہے اور نہ ند (مقابلے کا فرد). اس کا کفو‘ ہمسر اور مدمقابل کوئی ہے ہی نہیں. اس ضمن میں آخری بات اس آیت کریمہ میں فرما دی گئی: 

لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَیۡءٌ ۚ 
(الشورٰی: ۱۱
’’نہیں ہے اس کی طرح کا سا کوئی.‘‘

دوسری جگہ فرمایا:

 قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ۚ﴿۱﴾اَللّٰہُ الصَّمَدُ ۚ﴿۲﴾لَمۡ یَلِدۡ ۬ۙ وَ لَمۡ یُوۡلَدۡ ۙ﴿۳﴾وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ٪﴿۴﴾ (الاخلاص) 
’’کہو: وہ اللہ یکتا ہے. اللہ سب سے بے نیاز ہے (اور سب اس کے محتاج ہیں). نہ اس کی کوئی اولاد ہے‘ اور نہ وہ کسی کی اولاد. اور کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے.‘‘

وہ ہستی ہر ضعف‘ عیب اور ہر احتیاج سے اعلیٰ و ارفع ہے‘ مبرا اور منزہ ہے. گویا ہر اعتبار سے کامل ہستی اور سبوح و قدوس ذات ہے جس اعلیٰ و اشرف صفت یا قدر کا بھی تصور کیا جا سکتا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس صفت سے بتمام و کمال متصف ہے. مثلاً زندگی ایک اعلیٰ قدر ہے تو اللہ تعالیٰ 
’’اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ‘‘ ہے. وہ زندہ ہے اور اس کی زندگی مستعار نہیں‘ بلکہ اس کی ذاتی ہے‘ وہ ساری کائنات کو اپنی کمالِ قدرت سے تھامے ہوئے ہے. اسی طرح علم ایک اعلیٰ قدر ہے اور اللہ تعالیٰ کی شان یہ ہے کہ وہ ’’بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ‘‘ ہے‘ ہر چیز کا پوری طرح اور ہمیشہ سے علم رکھنے والا ہے. 

قدرت ایک اعلیٰ قدر ہے اور اس کی ذات ’’عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ‘‘ ہے‘ یعنی اسے ہر شے کی قدرت حاصل ہے. اور 
’’وَ ہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ ؕ ‘‘ (الحدید:۴یعنی وہ اپنے علم اور قدرت کے ساتھ ہر جگہ اور ہر آن تمہارے ساتھ ہی موجود ہے.

اس کی ذات میں کوئی شریک نہیں‘ اس کی صفات میں کوئی شامل نہیں‘ اس کے حقوق میں کوئی ہمسر اور ساجھی نہیں. اس کے جملہ حقوق ایک لفظ ’’عبادت‘‘ میں آ جائیں گے.

وہی ذاتِ واحد عبادت کے لائق
زبان اور دل کی شہادت کے لائق

لہٰذا عبادت صرف اور صرف اسی کی کی جائے گی‘ خواہ وہ انفرادی عبادت ہو یا اجتماعی عبادت‘ یعنی ایک فرد کے ذاتی معاملات سے لیکر پوری قوم اور ملت کے اجتماعی معاملات اور نظامِ حکومت و حکمرانی تک اللہ تعالیٰ ہی کی مرضی اور اسی کا حکم 
چلنا چاہیے.
 
فرمایا: 
اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ ؕ (۱نیز فرمایا: اَلَا لَہُ الۡخَلۡقُ وَ الۡاَمۡرُ ؕ (الاعراف:۵۴خلق بھی اسی کی ہے اور امر بھی اسی کا ہے اور حکم بھی اسی کا چلے گا. اس میں کسی دوسرے کا کوئی دخل نہیں. فرمایا: وَّ لَا یُشۡرِکُ فِیۡ حُکۡمِہٖۤ اَحَدًا ﴿۲۶﴾ (الکہف) وہ اپنے اختیارِ حکم و حکمرانی میں کسی دوسرے کو شریک کرنے کے لیے تیار نہیں. ان سب چیزوں کو جمع کر کے ترتیب دے لیں تو اس کا نام ایمان باللہ یا توحید ہے. فلسفیانہ اور منطقی انداز میں کہیں گے کہ خالق کی ذات واجب الوجود ہے اور ساری مخلوق یعنی ساری کائنات ممکن الوجود. اور یہ کلیہ طے ہے کہ ممکن الوجود اپنی حقیقت اور اصل کے اعتبار سے معدوم کے درجے میں ہوتا ہے. ع ’’ہر چند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے!‘‘ 
اور بقول غالب ؎

ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسد
عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے!

مزید گہرائی میں جائیے تو صوفیاء تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ وجودِ حقیقی صرف اس کا ہے‘ باقی جو کچھ نظر آ رہا ہے وہمی ہے‘ خیالی ہے ؎

کلُّ ما فی الکونِ وھمٌ او خَیال
او عکوسٌ فِی المرایا او ظِلال

یعنی ساری کائنات سایہ یا عکس ہے‘ یا وہم و خیال کی بات ہے. گویا وجودِ حقیقی صرف اسی ذات کا ہے. آپ اسے وحدت الوجود کے اعتبار سے تعبیر کیجیے یا وحدت الشہود کے اعتبار سے‘ یہ ایک ہی ہستی کی تعبیر ہے. شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ کی رائے اس ضمن میں بالکل قولِ فیصل ہے‘ جس کا میں قائل ہوں‘ کہ ان دونوں میں تعبیر ہی کا بال برابر فرق ہے‘ کوئی حقیقی فرق نہیں ہے.
(۱) سورۃ الانعام‘ آیت ۵۷ و سورۂ یوسف‘ آیت ۴۰ اور ۶۷ہماری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ کی ذات خالق اور باقی ساری کائنات مخلوق ہے. اللہ کی ذات ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی. اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: 

کُلُّ شَیۡءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجۡہَہٗ ؕ 
(القصص: ۸۸
’’ہر شے ہلاک ہونے والی ہے سوائے اس کے روئے انور کے.‘‘

نیز فرمایا: 

وَّ یَبۡقٰی وَجۡہُ رَبِّکَ ذُو الۡجَلٰلِ وَ الۡاِکۡرَامِ ﴿ۚ۲۷﴾ 
(الرحمٰن) 
’’اور صرف تیرے ربّ کی جلیل و کریم ذات ہی باقی رہنے والی ہے.‘‘

گویا ہر شے فانی ہے‘ باقی صرف وہی ہے‘ ازلی و ابدی وجود صرف اسی کا ہے‘ وہ تنہا ہے اپنی ذات میں‘ اپنی صفات میں‘ اپنے حقوق میں‘ اپنے اختیارات میں اور وہ کسی کو اپنے اختیارات میں شریک نہیں کرتا 
وَّ لَا یُشۡرِکُ فِیۡ حُکۡمِہٖۤ اَحَدًا ﴿۲۶﴾ (الکھف) البتہ ساری کائنات حادث اور فانی ہے‘ ایک وقت پر پیدا ہوئی اور ایک خاص وقت کے لیے ہے‘ ہمیشہ کے لیے نہیں ہے. 

مَا خَلَقۡنَا السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَاۤ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَ اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ 
(الاحقاف: ۳
’’ہم نے زمین اور آسمانوں کو اور ان ساری چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں‘ برحق اور ایک مدتِ خاص کے تعین کے ساتھ پیدا کیا ہے.‘‘

دوسرا بنیادی سوال جو ہر ذی شعور انسان کو بے چین رکھتا ہے وہ اس کی اپنی حقیقت کے بارے میں ہے کہ انسان کی حقیقت کیا ہے؟ اور اس کا کائنات میں مقام کیا ہے؟
نبی  کی دعوت پر ایمان لانے کے نتیجے میں انسان کو اس اہم سوال کا اطمینان بخش جواب مل جاتا ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا اور اسے خلافت عطا فرمائی. یہ انسان جملہ کائنات پر برتر مقام رکھتا ہے. کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا 
climax (نقطۂ کمال) ہے. گویا اب تک جو کچھ اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا اس میں بلند ترین وجود انسان کا ہے‘ جس کے اسباب درج ذیل ہیں:

۱. قرآن حکیم میں سات مقامات 
(۱پر فرمایا گیا کہ ہمارے حکم سے تمام فرشتوں نے انسان کو سجدہ کیا. فرمایا: 

فَسَجَدَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ کُلُّہُمۡ اَجۡمَعُوۡنَ ﴿ۙ۳۰﴾ (الحجر) 
’’پھر سب کے سب فرشتوں نے اکٹھے ہو کر سجدہ کیا.‘‘

۲ . انسان کی عظمت و عزت کا اعلان ان الفاظ میں کیا گیا: 
وَ لَقَدۡ کَرَّمۡنَا بَنِیۡۤ اٰدَمَ وَ حَمَلۡنٰہُمۡ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ وَ رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلۡنٰہُمۡ عَلٰی کَثِیۡرٍ مِّمَّنۡ خَلَقۡنَا تَفۡضِیۡلًا ﴿٪۷۰﴾ (بنی اسرائیل) 
’’(یہ تو ہماری عنایت ہے کہ) ہم نے بنی آدم کو فضیلت عطا کی اور انہیں خشکی و تری میں سواریاں عطا کیں‘ اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی.‘‘

۳. اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا‘ فرمایا: 

قَالَ یٰۤاِبۡلِیۡسُ مَا مَنَعَکَ اَنۡ تَسۡجُدَ لِمَا خَلَقۡتُ بِیَدَیَّ ؕ 
(صٓ:۷۵
’’اے ابلیس! تجھے کیا چیز اس کو سجدہ کرنے سے مانع ہوئی جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا؟‘‘ 

’’خَلَقْتُ بِیَدَیَّ‘‘ 
سے مراد کیا ہے؟ دونوں ہاتھوں سے مراد دو عالم ہیں‘ ایک عالم خلق اور دوسرا عالم امر. جملہ مخلوقات یا عالم خلق سے متعلق ہیں یا عالم امر سے‘ البتہ انسان کے وجود میں یہ دونوں عالم آ کر جمع ہو گئے ہیں‘ اس کے وجود حیوانی کا تعلق ’’عالم خلق‘‘ سے ہے‘ اس اعتبار سے یہ مادی اور زمینی مخلوق ہے. اسی لیے (۱) سورۃ البقرۃ‘ آیت ۳۴‘ سورۃ الاعراف‘ آیت ۱۱‘ سورۃ الحجر‘ آیت ۳۰‘ سورۃ الاسراء آیت ۶۱‘ سورۃ الکہف‘ آیت ۵۰‘ سورۃ طٰہٰ آیت ۱۱۶‘ سورۃ ص آیت ۷۳تو فرمایا: 

مِنۡہَا خَلَقۡنٰکُمۡ وَ فِیۡہَا نُعِیۡدُکُمۡ وَ مِنۡہَا نُخۡرِجُکُمۡ تَارَۃً اُخۡرٰی ﴿۵۵﴾ 
(طٰہٰ) 
’’اس زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا‘ اسی میں تمہیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تم کو دوبارہ نکالیں گے.‘‘
اور اس کے وجودِ روحانی کا تعلق ’’عالم امر‘‘ سے ہے‘ فرمایا: 

قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ 
(بنی اسراء یل: ۸۵
’’کہہ دیجیے یہ روح میرے ربّ کا ’’امر‘‘ ہے.‘‘

واضح رہے کہ ملائکہ کا تعلق صرف عالم امر سے ہے اور جنات کا تعلق صرف عالم خلق سے ہے‘ ان میں روح نہیں ہوتی‘ جبکہ انسان زمینی مخلوق ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب روح بھی ہے‘ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: 

فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ ﴿۲۹﴾ 
(الحجر: ۲۹‘ صٓ: ۷۲
’’پھر جب میں اس کی نوک پلک سنوار کر تکمیل کر دوں اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونک دوں تو اس کے سامنے سجدے میں گر جانا.‘‘

چونکہ روحِ انسانی کا تعلق براہِ راست ذاتِ باری تعالیٰ سے ہے‘ اس لیے جس طرح ذاتِ باری تعالیٰ کے بارے میں کوئی تشبیہہ نہیں دی جا سکتی اسی طرح جو شے ذات با برکات سے متعلق ہے اس کے لیے بھی کوئی تشبیہہ نہیں ہو سکتی.

اتصالِ بے تکیُّف بے قیاس
ہست ربّ الناس را با جانِ ناس

کہ روح کے حوالے سے اللہ اور بندے کے درمیان ایک اتصال کی کیفیت موجود ہے‘ لیکن اس اتصال 
(contact) کو کسی اور اتصال پر قیاس نہیں کر سکتے‘ اس اتصال کی کیفیت کو نہیں جان سکتے. قرآن حکیم میں آیا ہے: 

وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ ﴿۱۶
(قٓ) ’’اور ہم اس کی رگِ گردن سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں.‘‘

۴. انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے روح پھونکی‘ اور یہی روح جملہ انسانوں اور حیوانوں کے درمیان وجہ امتیاز ہے. زندگی حیوانوں میں بھی ہوتی ہے اور انسانوں میں بھی‘ اس اعتبار سے حیوانی وجود دونوں کے پاس ہے لیکن اس پر مستزاد انسان کا ایک روحانی وجود بھی ہے اور یہی انسان کے لیے وجہ امتیاز ہے. اسی لیے وحی صرف اسی کو ہوتی ہے‘ کیونکہ وحی درحقیقت 
contact ہے روح کا روح کے ساتھ. فرمایا: 

فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلۡبِکَ 
(البقرۃ: ۹۷
’’بلاشبہ جبریل نے اس (قرآن) کو تمہارے دل پر نازل کیا ہے.‘‘

نیز فرمایا: 

نَزَلَ بِہِ الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ ﴿۱۹۳﴾ۙعَلٰی قَلۡبِکَ 
(الشعرائ) 
’’اس قرآن کو لے کر روح الامین تمہارے دل پر نازل ہوا ہے.‘‘
کسی نے خوب کہا ہے ؎

نغمہ وہی ہے نغمہ کہ جس کو
روح سنے اور روح سنائے

رُوح الامین نے نغمۂ سرمدی یعنی قرآن مجید سنایا ہے روح محمد کو.
۵. اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر تخلیق فرمایا ہے. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا: 

خَلَقَ اللّٰہُ اٰدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہٖ 
(۱
’’اللہ تعالیٰ نے آدم کی تخلیق اپنی صورت پر کی.‘‘

معاذ اللہ‘ اللہ تعالیٰ کی شکل سے مراد آنکھ کان وغیرہ کی مشابہت نہ لیجیے‘ بلکہ بطور استعارہ فرمایا گیا ہے‘ بہرحال خالق سے کوئی نہ کوئی مشابہت تو ضرور ہے. 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب الاستیذان‘ باب بدء السلام‘ ح ۵۸۷۳ و صحیح مسلم‘ کتاب الجنہ و صفہ نعیمھا‘ باب یدخل الجنہ اقوام… الخ‘ ح ۲۸۴۱۶. آخری اور نہایت اہم بات یہ ہے کہ انسان کو خلافت ارضی عطا کی گئی. یہی وجہ ہے کہ انسان اپنے ربّ کے سامنے جواب دہ ہے ؏ ’’جن کے رتبے ہیں سوا‘ ان کی سوا مشکل ہے‘‘. چنانچہ اسے جواب دہی کرنا ہے‘ محاسبہ ہو کر رہے گا. 
انسان کی کل زندگی محض پیدائش سے موت تک کے وقفے کا نام نہیں ہے بلکہ موت تو اصل زندگی کا ’’شاہدرہ‘‘ ہے ؎

موت اک زندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے بڑھیں گے دم لے کر!

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 

وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۴﴾ 
(العنکبوت) 
’’اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے‘ کاش انہیں معلوم ہوتا.‘‘

عام لوگ اس زندگی سے کہ جو ’’دھوکے کا سامان‘‘ اور ’’دار غرور‘‘ ہے‘ دھوکہ کھائے بیٹھے ہیں‘ اور اسی کو مقصد زندگی اور کامیابی و ناکامی کا معیار سمجھ رہے ہیں‘ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بہت واضح الفاظ میں فرما دیا تھا: 

وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ ﴿۱۸۵﴾ 
(آل عمران) 
’’دنیوی زندگی کی حقیقت ہی کیا ہے‘ یہ تو بس دھوکے کا سامان ہے.‘‘

ظاہر بینوں نے اسی دنیاوی زندگی کو سب کچھ سمجھ لیا ہے. ان کی ساری سوچ اور پلاننگ اسی دنیوی زندگی سے متعلق ہے‘ حالانکہ اسے تو کتابِ زندگی کا دیباچہ بھی نہیں قرار دیا جا سکتا‘ اصل زندگی کے مقابلے میں تو یہ نہ ہونے کے برابر ہے.

زندگی‘ موت اور بعث بعد الموت کی حقیقت حضور اکرم  نے بڑی جامعیت کے ساتھ اپنے ایک خطبے میں بنوہاشم کے سامنے ان الفاظ میں بیان فرمائی: 

انَّ الرَّائد لا یکذِبُ اھلَہ‘ واللّٰہِ لو کذبتُ جمیعَ النَّاسِ ما کذبتُکم ولو غررتُ جمیعَ النَّاسِ ما غررتُکم‘ وَاللّٰہِ الذِی لا اِلٰہَ 
الّا ھو وَاللّٰہِ لَتموتُنَّ کما تنامونِ‘ ثُمَّ لتُبْعَثُنَّ کما تَستیقظون‘ ثم لَتُحَاسَبُنَّ لِمَا تَعملون‘ ثم لَتُجْزَوُنَّ بِالاحسانِ احسانًا و بِالسُّوئِ سُوئً‘ و انَّھا لَجَنَّۃٌ اَبَدًا اَوْ لَنَارٌ اَبَدًا (نھج البلاغۃ) 
’’(اے میرے قبیلے کے لوگو!) قافلے کا رہبر قافلے والوں سے جھوٹ نہیں بولا کرتا‘ قسم بخدا اگر میں تمام انسانوں سے بھی جھوٹ بول سکتا تب بھی تم سے جھوٹ نہ بولتا اور اگر تمام انسانوں کو دھوکہ دے سکتا تب بھی تمہیں کبھی دھوکہ نہ دیتا. اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ کوئی حقیقی خدا نہیں ہے‘ قسم بخدا‘ تم سب پر موت وارد ہو گی جس طرح تم رات کو سو جاتے ہو‘ پھر تمہیں اٹھایا جائے گا جس طرح تم صبح کو بیدار ہوتے ہو‘ جو کچھ تم کر رہے ہو اس کا تم سے حساب لیا جائے گا‘ پھر تمہیں ضرور بدلہ مل کر رہے گا‘ بھلے کام کا اچھے بدلے کے ساتھ اور برے کام کا بُرے بدلے کی شکل میں‘ نتیجتاً یا تو ہمیشہ ہمیش کے لیے جنت ہو گی یا مستقل آگ کا ٹھکانہ ہو گا.‘‘

معلوم ہوا کہ اصل زندگی وہ نہیں جو ہم یہاں گزار رہے ہیں‘ بلکہ اصلی اور ابدی زندگی تو آخرت کی زندگی ہے. زندگی کی حقیقت اور تسلسل سمجھنے کے لیے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ: ایک وہ زندگی تھی جو ہم یہاں اس دنیا میں آنے سے پہلے گزار چکے ہیں‘ اس وقت ہم صرف عالم امر کی شے تھے‘ عالم خلق میں ہمارا کوئی وجود نہیں تھا‘ بس ارواح تھیں جنہیں پیدا کر کے سوال کیا گیا: 

اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚۛ 
(الاعراف: ۱۷۲
’’کیا میں تم سب کا ربّ (خالق+ مالک+ پروردگار) نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا: ضرور آپ ہی ہمارے ربّ ہیں.‘‘

پھر ارواح انسانیہ کو سلا دیا گیا یا یوں کہیے کولڈ سٹوریج میں رکھ دیا گیا. اور پھر جیسے جیسے عالم خلق میں رحم مادر کے اندر کوئی ہیولا تیار ہوتا ہے اس انسان کی روح لا کر اس جسم میں شامل کر دی جاتی ہے. یہ بہت اونچے اور نازک حقائق ہیں. بقول شاعر ؎

تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
جاوداں‘ پیہم دواں‘ ہر دم جواں ہے زندگی

اور

قلزمِ ہستی سے تو اُبھرا ہے مانند حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی!

اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: 

الَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ 
(الملک: ۲
’’اس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے.‘‘

اور یہی عرصہ یعنی دنیاوی زندگی ہمارا دارالامتحان ہے اور یہ گویا ہماری زندگی کی دوسری منزل ہے. اگلی منزل عالم برزخ ہے. اس کے بعد بعث و نشور کا مرحلہ ہے اور آخرت میں جنت یا دوزخ. یہ سب کے سب مراحل ہمارے ایمان کا جزو لازم ہیں. اور ان کا مجموعی نام ’’ایمان بالآخرت‘‘ ہے!

تیسرا اہم سوال یہ سامنے آتا ہے کہ انسان کی جوابدہی کی بنیاد کیا ہے؟
اسے اس وقفہ امتحان میں کیا کچھ دیا گیا ہے کہ جس کا حساب لیا جائے گا؟ کیا پڑھایا گیا ہے جس کا امتحان ہو گا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر انسان 
accountable (قابل محاسبہ) اور responsible (ذمہ دار) ہے‘ ان استعدادت اور صلاحیتوں کی وجہ سے جو فطری طور پر اس میں رکھی گئی ہیں: 

۱. سمع و بصر کی صلاحیت

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
اِنَّا خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ اَمۡشَاجٍ ٭ۖ نَّبۡتَلِیۡہِ فَجَعَلۡنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا ﴿۲﴾ 
(الدھر) ’’ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا.‘‘ 

۲. عقل و شعور

اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل عطا کی. یہ بھی محاسبہ کی ایک بنیاد ہے. فرمایا: 
اِنَّ السَّمۡعَ وَ الۡبَصَرَ وَ الۡفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنۡہُ مَسۡـُٔوۡلًا ﴿۳۶﴾ 
(بنی اسراء یل) 
’’یقینا آنکھ‘ کان اور دل سب ہی کے بارے میں بازپرس ہو گی.‘‘
متکلمین کے نزدیک اہم ترین شے عقل ہے اور اسی کی بنیاد پر انسان اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہ ہو گا. جب اس نے تمہیں عقل جیسی نعمت سے نوازا ہے تو اس منعم ذات کو اس سے پہچانو. جب دھوئیں کو دیکھ کر پہچان لیتے ہو کہ آگ لگی ہوئی ہے تو اتنی بڑی کائنات کو دیکھ کر خالق کو نہیں پہچان سکتے؟

برگِ درختانِ سبز در نظر ہوشیار
ہر ورقے دفتراست معرفت کردگار

انسان آنکھیں ہی بند کرنے پر مُصر ہو جائے تو دوسری بات ہے ورنہ: 

تُسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّبۡعُ وَ الۡاَرۡضُ وَ مَنۡ فِیۡہِنَّ ؕ وَ اِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمۡدِہٖ وَ لٰکِنۡ لَّا تَفۡقَہُوۡنَ تَسۡبِیۡحَہُمۡ ؕ 
(بنی اسراء یل: ۴۴

’’اس کی تسبیح تو ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں کر رہی ہیں جو آسمان و زمین میں ہیں‘ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو‘ مگر تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو.‘‘ 

۳. نیکی اور بدی کی پہچان

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 
وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ۪ۙ﴿۷﴾فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿۸﴾ 
(الشمس) ’’اور قسم ہے انسانی نفس کی اور اس ذات کی جس نے اسے بنایا‘ پھر اسے اس کی برائی اور نیکی دونوں الہام کر دیں.‘‘
معلوم ہوا کہ نیکی اور بدی‘ فجور اور تقویٰ دونوں مستقل اقدار ہیں‘ یہ بالجبر لاگو کی ہوئی 
(arbitrary) نہیں ہیں‘ یہ خیالی اور وہمی نہیں ہیں‘ اور یہ ہمارے ذہن کی تراشیدہ نہیں ہیں‘ خیر خیر ہے اور شر شر ہے. فطرتِ انسانی دونوں سے خوب واقف ہے. انسان اپنی فطرت سے پہچانا جاتا ہے کہ بُرا کیا ہے اور اچھا کیا ہے. اسی لیے قرآن حکیم نے نیکی کے لیے ’’معروف‘‘ (جانی پہچانی چیز) کا لفظ استعمال کیا ہے اور بدی کے لیے ’’منکر‘‘ (غیر معروف‘ غیر مانوس‘ اوپری) کی اصطلاح استعمال کی ہے. اسی لیے ایسے کام پر انسان کا نفس لوامہ اسے ملامت کرتا رہتا ہے. 

مذکورہ بالا تینوں صلاحیتوں سے ذرا قدم آگے بڑھائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ روحِ انسانی میں معرفت ربّ اور محبت خداوندی ودیعت شدہ صورت میں موجود ہیں. یہ ساری چیزیں دے کر انسان کو بھیجا گیا ہے اور یہ سب قرآن حکیم سے ثابت ہیں. انہی کی بنیاد پر ہر انسان جوابدہ اور مسئول 
(accountable) ہے‘ خواہ کوئی نبی آتا یا نہ آتا‘ کوئی رسول بھیجا جاتا یا نہ بھیجا جاتا‘ کوئی کتاب اترتی یا نہ اترتی‘ کوئی شریعت دی جاتی یا نہ دی جاتی. یہ صلاحیتیں انسان کے اندر ودیعت شدہ ہیں‘ اور یہی اس کے احتساب و محاسبہ کے لیے اصل حجت ہیں. 

اتمام حجت

ان سب کے باوصف اللہ تعالیٰ نے انسان کی آزمائش اور امتحان کو آسان کرنے کے لیے ارسالِ وحی‘ بعثت انبیاء و رُسل اور آسمانی کتابوں کا سلسلہ جاری فرمایا‘ وحی کے ذریعے حقائق کا علم ِیقینی عطا فرمایا. اسی لیے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد کو مخاطب کر کے کہا تھا: 

اِنِّیْ قَدْ جَآئَ نِیْ مِنَ الْعِلْمِ 
(مریم: ۴۳
’’یقینا میرے پاس علم حقیقی آ چکا ہے.‘‘ 
یہ علم وحی اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ اور چنے ہوئے بندوں پر نازل فرمایا‘ جو سیرت و کردار اور اخلاق کے اعلیٰ نمونے تھے‘ گویا نوعِ انسانی کا عطر تھے. اسی لیے فرمایا: 

اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰۤی اٰدَمَ وَ نُوۡحًا وَّ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اٰلَ عِمۡرٰنَ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۳۳﴾ 
(آل عمران) 
’’اللہ نے آدم اور نوح اور آل ابراہیم اور آل عمران کو تمام دنیا والوں پر ترجیح دے کر (اپنی رسالت کے لیے) منتخب کیا تھا.‘‘

اور اس وحی کے ذریعے ہدایت و شریعت سے متعلق ہر چیز کی تفصیلات بیان کر دیں کہ یہ کرو‘ یہ نہ کرو‘ یہ راستہ ہلاکت کو جانے والا ہے اور یہ راستہ جنت کی طرف جاتا ہے. واضح رہے کہ ہلاکت کا راستہ بظاہر بڑا خوشنما ہوتا ہے لیکن انجام کے اعتبار سے بڑا بھیانک‘ جبکہ دوسری طرف جنت کی راہ اپنانے میں مشکل ہی مشکل نظر آتی ہے لیکن یہی درحقیقت دنیا میں امن اور آخرت میں نجات کا راستہ ہے.

ان حقائق کو بیان کرنے بلکہ روزِ روشن کی طرح واضح کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انزالِ وحی‘ بعثت انبیاء و رُسل اور ارسالِ کتب و شریعت کا اہتمام کیا اور اس طرح انسان پر ’’اتمامِ حجت‘‘ کر دیا‘ اگرچہ حجت تو پہلے ہی عقل‘ سمع و بصر‘ نیکی و بدی کے شعور‘ معرفت ربّ اور محبت خداوندی کے ذریعے پوری کی جا چکی تھی. 

رسالت کی کڑیاں

اللہ تعالیٰ اور چنے ہوئے برگزیدہ بندوں یعنی انبیاء و رُسل کے درمیان رابطے کا ذریعہ (link) حضرت جبریل علیہ السلام رہے ہیں‘ جو فرشتوں کے سردار ہیں. انبیاء و رُسل علیہم السلام بھی اپنے اپنے وقت میں اپنی قوم کے سربراہ اور اللہ تعالیٰ کے منتخب بندے ہوتے ہیں. اس طرح ایمان بالملائکہ بھی ایمان بالرسالت کا ایک جزو بن جاتا ہے. اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 

اَللّٰہُ یَصۡطَفِیۡ مِنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ ؕ 
(الحج: ۷۵’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ (اپنے فرامین کی ترسیل کے لیے) ملائکہ میں سے بھی پیغام رساں منتخب کرتا ہے اور انسانوں میں سے بھی.‘‘
فرشتوں میں سے جبریل علیہ السلام نے وحی کو اللہ تعالیٰ سے وصول کیا اور اپنے اپنے وقت کے رسول تک پہنچایا‘ اور سب سے آخر میں انہوں نے وحی کو رسول اکرم تک پہنچایا. چونکہ جبریل فرشتے ہیں اور نوری الاصل ہیں‘ اس لیے وہ اللہ تعالیٰ سے قریب تر ہیں. اور سارے کے سارے انبیاء و رُسل علیہم السلام بشر ہیں‘ لہٰذا انہیں عالم انسانی سے قرب حاصل ہے. اس طرح اللہ تعالیٰ اور نوعِ انسانی کے مابین ایک فرستادہ فرشتہ (رسولِ ملک) اور ایک فرستادہ انسان (رسولِ بشر) رابطے کا ذریعہ بنتے ہیں. اس طرح یہ رابطہ 
(link) مکمل ہو گیا‘ اب یہ قوم کے پاس آنے والے نبی اور رسول کی ذمہ داری ہے کہ وہ زبان سے بھی تبلیغ کریں اور کردار سے بھی. یعنی جو تعلیم ان تک پہنچی ہے وہ اس کا عملی نمونہ بھی پیش کریں. ان کی طرف جو ہدایت ربّ العالمین کی طرف سے پہنچی ہے اس کا نمونہ انفرادی اور اجتماعی زندگی میں پیش کریں تاکہ انسانیت پر ’’اتمامِ حجت‘‘ ہو جائے.

واضح رہے کہ بنیادی حجت نبوت و رسالت نہیں ہے بلکہ بنیادی طور پر حجت تو وہ پانچ چیزیں ہیں جن کا تفصیلی ذکر ابھی گزرا ہے. البتہ یہ سلسلہ نبوت و رسالت ’’اتمام حجت‘‘ ضرور ہے. اور یہ سلسلہ وحی نبوت و رسالت اور آسمانی کتب پر مشتمل ہے جس کی تکمیل محمد رسول اللہ  پر ہو جاتی ہے. ان امور کو ایک لڑی میں پرو دیں تو یہ ’’ایمان بالرسالت‘‘ بن جاتا ہے. 

حاصل بحث

ایمان کا موضوع ہے: مابعد الطبیعیات کے مسائل. ان مسائل کے جو جوابات حکماء اور فلاسفہ نے پیش کیے اس کا نام فلسفہ ہے. اور جو حل انبیاء و رُسل نے بذریعہ وحی بیان کیا وہ ’’ایمان‘‘ ہے. انبیاء و رُسل نے جو کچھ بیان فرمایا ان کی ایک ظاہری سطح ہے جو قرآن و حدیث میں واضح الفاظ میں ملے گی‘ یعنی عام آدمی کے لیے موٹے موٹے مسائل‘ کہ یہ حلال ہے‘ یہ حرام ہے‘ یہ کرنا ہے اور اس سے باز رہنا ہے. ان کی مثال یوں سمجھ لیں کہ سمندر کے اندر تیرنے والے بہت بڑے برفانی تودے (iceberg) کی ہے کہ سطح سمندر پر سے اس کا صرف چوٹی کا سرا (tip) نظر آتا ہے. چنانچہ عام فہم چیزیں وہی ہیں جو سب کو نظر آ رہی ہیں‘ لیکن یہ ایمان کی tips ہیں. ’’اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ وَ مَلَائِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَ شَرِّہٖ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ‘‘ (۱یہ باتیں ہیں جنہیں ماننے کا نام ایمان ہے. لیکن یہ بات واضح رہے کہ آئس برگ کے tip کی مانند ہر ہر نقطے کے نیچے کیسے کیسے خزانے ہیں‘ اس کی حکمت‘ فلسفہ‘ دلائل‘ حقیقت اور گہرائیاں‘ ان تک پہنچنا نہ ہر کسی کے لیے ممکن ہے اور نہ ہی لازم‘ قرآن حکیم کی تمثیل کی زبان میں بس یوں سمجھ لیں: 

لَتَرۡکَبُنَّ طَبَقًا عَنۡ طَبَقٍ ﴿ؕ۱۹﴾ 
(الانشقاق) 
جیسے جیسے گہرائی میں اتریں گے حقیقت واضح ہوتی چلی جائے گی. وہاں ہر شخص کے ذہن کی رسائی حسب تناسب 
(proportionally) ہو گی.اگر کوئی اس میدان میں ایک قدم گیا تو کوئی دوسرا سو قدم بھی جا سکتا ہے اور کسی کی رسائی ہزار یا لاکھ قدم تک بھی ہو سکتی ہے. ویسے تو ایمان کی بحث کے بعض اہم گوشوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی بالکل ابتدا ہی میں بیان کر دیا ہے. فرمایا: 

الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾ذٰلِکَ الۡکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ۙ﴿۳﴾وَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ ۚ وَ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ ؕ﴿۴﴾ 
(البقرۃ) (۱) حدیث جبریل کے نام سے کتب حدیث میں جو الفاظ آتے ہیں ان سب کو ایک جامع عبارت کی شکل میں ترتیب دے دیا گیا ہے‘ ملاحظہ ہو: صحیح البخاری: ۵۰‘ کتاب الایمان‘ باب سوال جبریل ۱/۱۴۰‘ مع الفتح. و صحیح مسلم: ۱-۷‘ کتاب الایمان‘ باب ۱ تک مسلسل دیکھ لیں. ’’الف‘ لام‘ میم‘ یہ الکتاب ہے اس میں کوئی شک نہیں‘ ہدایت ہے ان پرہیزگار لوگوں کے لیے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں‘ نماز قائم کرتے ہیں‘ جو رزق ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں. جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے (یعنی قرآن) اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں.‘‘

نیز سورۃ البقرۃ کے آخر میں بھی ایمان کا ذکر بھرپور انداز میں آیا ہے: 

اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مِنۡ رَّبِّہٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ ۟ 
(البقرۃ: ۲۸۵
’’رسول اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے ربّ کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اس رسول کو ماننے والے ہیں انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے. یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں.‘‘

سورۃ البقرۃ کے شروع میں اور اختتام میں جو تعبیر ہے اس کا ایک خاص پس منظر ہے. سورۃ البقرۃ میں اہل کتاب سے خطاب ہو رہا ہے‘ اس حوالے سے جو باتیں اہم تر تھیں انہیں نمایاں کر دیا گیا. آیہ بِر سورۃ البقرۃ کے بالکل وسط میں ہے. اس میں ایمان کی اضافی تفصیل بالکل سادہ تعبیر کے ساتھ بیان کر دی گئی ہے. فرمایا: 

لَیۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ الۡکِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ 
(البقرۃ: ۱۷۷
’’نیکی یہی نہیں کہ تم اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لو یا مغرب کی طرف‘ بلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخرت کو اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب کو اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے.‘‘

اس آیت میں ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت کے علاوہ ملائکہ‘ کتب اور انبیاء و رُسل پر ایمان کا ذکر کیا گیا ہے. ان تینوں کو جمع کر لیں تو یہ ایمان بالرسالت بنتا ہے‘ کیونکہ 
اس کی بنیاد وحی ہے جسے لانے والے فرشتے ہیں. کتابیں اس وحی کا ریکارڈ ہیں اور جن پر وحی نازل ہوئی وہ نبی و رسول کہلاتے ہیں. یہ ایمان کا سادہ اور واضح خاکہ ہے‘ لیکن یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ گہرائی اور گیرائی کے ساتھ سارا ایمان اس میں جمع ہے‘ بلکہ قرآن حکیم میں حکمت و فلسفہ سے بھرپور سارے حقائق موجود ہیں‘ بس غور کرنے کی ضرورت ہے. ایمان باللہ کی مثال کو سامنے رکھیں. اس ضمن میں سورۃ الحدید میں یہ آیت موجود ہے: ہُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الۡبَاطِنُ ۚ (آیت:۳وہی اوّل یعنی جس سے پہلے کوئی ذات نہیں‘ وہی آخر جس کے بعد کوئی نہیں‘ وہی ظاہر جس سے زیادہ واضح اور نمایاں کوئی نہیں‘ وہی باطن جس سے زیادہ لطیف اور پوشیدہ کوئی نہیں. گویا وجود حقیقی صرف اسی ذات کا ہے. 

ایمانیاتِ ثلاثہ کا باہمی ربط

ایمانیاتِ ثلاثہ میں باہم ایک نسبت و تناسب موجود ہے جس کی تفصیل کچھ یوں ہے: 
ایمان باللّٰہ: اصولی‘ نظری‘ علمی اور فکری اعتبار سے اصل ایمان صرف ’’ایمان باللہ‘‘ ہے. یہی وجہ ہے کہ ایمان مجمل کے الفاظ ہیں: ’’آمَنْتُ بِاللّٰہِ کَمَا ھُوَ بِاَسْمَائِہٖ وَ صِفَاتِہٖ وَ قَبِلْتُ جَمِیْعَ اَحْکَامِہٖ اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ تَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ‘‘ تو معلوم ہوا کہ ایمان مجمل نام ہے ’’ایمان باللہ‘‘ کا‘ اسی کی گہرائی کو معرفت کہتے ہیں. یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات‘ اس کے اسماء اور صفات کو پہچان لینا اور مان لینا جیسا کہ پہچاننے اور ماننے کا حق ہے. 

ایمان بالآخرہ: یہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی صفت عدل و قسط کا عملی ظہور ہے. یعنی وہ عادل ہے‘ انصاف کرے گا‘ نیک لوگوں کو اجر اور بدکاروں کو سزا دے گا. اس طرح اللہ تعالیٰ کی صفت عدل کا عملی ظہور آخرت میں ہو گا.
 
ایمان بالرسالت: یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہدایت کی توسیع (extension) 
ہے. ہدایت کا ایک حصہ تو وہ ہے جو اس نے علوم طبیعیہ کی صورت میں دے کر ہمیں اس دنیا میں بھیجا اور ہدایت کا دوسرا حصہ وہ ہے جو اس نے بذریعہ وحی نازل فرمایا. کیونکہ وہی ’’ہادی‘‘ ہے. علوم طبیعیہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: 

وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الۡاَسۡمَآءَ کُلَّہَا 
(البقرۃ: ۳۱
’’اور اللہ نے آدم کو ساری چیزوں کے نام سکھائے.‘‘

اس کے بعد ہدایت رحمانی کا ثمرہ و فائدہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا: 

فَاِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ مِّنِّیۡ ہُدًی فَمَنۡ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۳۸﴾ 
(البقرۃ) 
’’پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہو گا.‘‘ 

خلاصۂ کلام

زوالِ خوف و حزن کا نام امن ہے اور امن کا ذریعہ ایمان ہے. اسی لیے نیا چاند نظر آنے پر حضور اکرم  بالالتزام یہ دعا مانگا کرتے تھے: اللّٰھُمَّ اَھِلَّہٗ عَلَیْنَا بِالْاَمْنِ وَالْاِیْمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْاِسْلَامِ (۱)’’اے اللہ تو اس نئے چاند کو ہم پر امن اور ایمان کے ساتھ اور سلامتی اور اسلام کے ساتھ طلوع فرما!‘‘ تو معلوم ہوا کہ امن کا تعلق ایمان سے ہے اور سلامتی کا تعلق اسلام سے ہے. نتیجہ یہ سامنے آیا کہ اصل ایمان ایمان باللہ ہے‘ بقیہ دونوں ایمان اس کی شاخیں اور فروع (corollaries) ہیں.ایمان بالاخرۃ اللہ تعالیٰ کی صفت عدل کا ظہور ہے اور (۱) المستدرک للحاکم ۴/۲۸۵و سنن الدارمی ۲/۴‘ کتاب الصوم‘ باب۳. و کتاب السنۃ لابن ابی عاصم‘ ح ۳۷۶البتہ باقی محدثین نے مذکورہ بالا الفاظ کی بجائے ’’بِالْیُمْنِ وَالْاِیْمَانِ‘‘ کے الفاظ بیان کیے ہیں‘ ملاحظہ ہو: سنن الترمذی: ۳۴۵۱‘ کتاب الدعوات. ومسند احمد‘ ۱/۱۴۲. و مسند ابی یعلی‘ ۲/۲۵‘ ح ۶۶۱و ۶۶۲ایمان بالرسالت صفت ہدایت کی توسیع. البتہ علمی اور اخلاقی اعتبار سے اصل ایمان، ایمان بالاخرۃ ہے‘ کیونکہ اگر آخرت اور اس میں پیش آنے والے مراحل پر یقین نہیں ہو گا تو ایمان باللہ محض ذات و صفات کی بحثیں بن کر رہ جائے گا. علامہ اقبال نے خوب کہا ہے ؎

اہل مشرق کے لیے موزوں یہی افیون تھی
ورنہ قوالی سے کچھ کم تر نہیں علم الکلام

مجرد علم الکلام تو ایک ذہنی ورزش اور فکری عیاشی بن کر رہ جاتا ہے. محض ذات و صفات کی بحثیں آپ کے کردار پر کوئی مثبت اثر مرتب نہیں کرتیں جب تک کہ آخرت میں پکڑ کا شدید احساس اور یقین نہ ہو. اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 

کَلَّاۤ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَیَطۡغٰۤی ۙ﴿۶﴾اَنۡ رَّاٰہُ اسۡتَغۡنٰی ﴿ؕ۷﴾اِنَّ اِلٰی رَبِّکَ الرُّجۡعٰی ؕ﴿۸﴾ 
(العلق) 
’’ہرگز نہیں‘ انسان سرکشی کرتا ہے. اس بنا پر کہ وہ اپنے آپ کو بے نیاز دیکھتا ہے. حالانکہ پلٹنا یقینا تیرے ربّ ہی کی طرف ہے.‘‘

اس لیے کہ دنیاوی زندگی میں فی الفور نتائجِ اعمال کا کوئی انتظام نہیں‘ مثلاً میں نے جھوٹ بولا تو زبان پر چھالا بھی نہیں نکلا‘ اس کے بالمقابل گرم چائے سے زبان پر فوراً چھالا ہو جاتا ہے‘ جبکہ حرام کھانے سے پیٹ میں کوئی تکلیف نہیں ہوتی. انسان دیکھ رہا ہے کہ اخلاقی قوانین اس عالم میں نافذ العمل 
(operative) نہیں ہیں جبکہ طبعی قوانین (Physical Laws) فوراً اثر دکھاتے ہیں. لہٰذا انسان بے دھڑک ظلم‘ سرکشی‘ تعدی اور حرام خوری کرتا ہے. اگر اسے کوئی چیز روک سکتی ہے تو وہ اِنَّ اِلٰی رَبِّکَ الرُّجۡعٰی ؕ﴿۸﴾ (العلق) کا یقین ہے. اگر یہ یقین دل میں سما گیا اور آخرت اور حساب و کتاب پر ایمان پختہ ہو گیا تو باہر سے کوئی دیکھنے والا ہو یا نہ ہو اندر سے ہی ایمان کا چوکیدار‘ خبردار کرنے والا اور روکنے والا پیدا ہو جائے گا. تو معلوم ہوا کہ اصلاح عمل کے لیے اصل مقام ایمان بالآخرت کا ہے. اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا ہے: 

اِنَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ یَہۡدِیۡ لِلَّتِیۡ ہِیَ اَقۡوَمُ وَ یُبَشِّرُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ اَجۡرًا کَبِیۡرًا ۙ﴿۹﴾وَّ اَنَّ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ اَعۡتَدۡنَا لَہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا ﴿٪۱۰﴾ 
(بنی اسراء یل) 
’’حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے‘ جو لوگ اسے مان کر بھلے کام کرنے لگیں انہیں یہ بشارت دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے اور جو لوگ آخرت کو نہ مانیں انہیں یہ خبر دیتا ہے کہ ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب مہیا کر رکھا ہے.‘‘

آیت کریمہ پر ذرا غور کریں کہ پہلے حصے میں ایمان اور عمل صالح کے بعد اجر کبیر کا ذکر کیا گیا اور دوسرے حصے میں آخرت کے انکار کے نتیجے میں عذاب الیم کا بیان ہو گیا‘ کیونکہ جب آخرت کا انکار ہو گیا تو بداعمالیاں از خود آ جائیں گی‘ ان کے بیان کی ضرورت ہی نہیں. نتیجہ یہ نکلا کہ عملی اعتبار سے اہم ترین ایمان‘ ایمان بالآخرۃ یا ایمان بالمعاد ہے.

البتہ شرعی اور فقہی اعتبار سے اصل ایمان ’’ایمان بالرسالت‘‘ ہے. مثلاً آدمی مکمل موحد ہے‘ بظاہر نیک ہے‘ لیکن رسول کا انکار کرتا ہے تو وہ کافر ہے‘ خواہ اس کا حسب و نسب اور معاشرتی مقام کیسا ہی کیوں نہ ہو. دنیا میں مسلمان اور کافر کی پہچان ایمان بالرسالت سے ہو گی. اسلامی ریاست کے قیام کے بعد سب سے بڑا دستوری مسئلہ یہ ہوگا کہ کون مسلمان ہے اور کسے کافر قرار دیں؟ یہاں کا مکمل شہری 
(citizen) کون ہے؟ مکمل شہریت کے حقوق کس کو حاصل ہیں؟ تو اس اعتبار سے اہم ترین ایمان‘ ایمان بالرسالت ہے.

معلوماتِ مذکورہ کو سامنے رکھیں گے تو تینوں ایمانیات کا باہم ربط اور تینوں کے درمیان نسبت و تناسب سمجھ میں آ جائے گا. 

ایمان بالرسالت کا خصوصی مقام

جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ شرعی اور فقہی اعتبار سے اصل ایمان‘ ایمان بالرسالت ہے. اگر کوئی شخص موحد کامل ہو‘ کردار کے اعتبار سے اونچے مقام پر ہو لیکن رسول کو نہ مانے تو وہ کافر ہے. اس کی ساری توحید اور اخلاق و کردار کی ایمان کے اعتبار سے کوئی قدر و قیمت نہیں جب تک کہ وہ رسول کو نہ مان لے. تو معلوم ہوا کہ ایمان بالرسالت کی شرعی‘ فقہی اور قانونی حیثیت اتنی زیادہ ہے کہ ایک اعتبار سے ایمان بالرسالت‘ ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ پر بھی حاکم ہے. کیونکہ ایمان باللہ بھی صرف وہی معتبر ہو گا جو ان اسماء و صفات کے ساتھ ہو جن کی خبر ہمیں رسول اللہ  سے ملی ہے. اپنے طور پر کسی وجودِ مطلق‘ universal spirit ‘ روحِ کائنات‘ یا واجب الوجود کو مان لینا اللہ تعالیٰ پر ایمان شمار نہیں ہو گا جب تک کہ یہ ایمان ’’آمَنْتُ بِاللّٰہِ کَمَا ھُوَ بِاَسْمَائِہٖ وَ صِفَاتِہٖ‘‘ (میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر اس کے اسماء و صفات سمیت ایمان لایا) کی کیفیت کا حامل نہ ہو. اور یہ اسماء و صفات ہمیں یا تو قرآن حکیم سے ملے ہیں جو ہمیں رسول اللہ کے ذریعے ملا ہے یا پھر سنّت مطہرہ سے معلوم ہوئے ہیں. بہرحال ہمیں ایمان باللہ کے باب میں جو بھی معلومات حاصل ہوئیں‘ ایمان بالرسالت کے حوالے سے ملیں. چنانچہ محض کسی کو خالق مان لینا ’’ایمان باللہ‘‘ شمار نہیں ہو گا. اسی طرح محض کسی کو رُوحِ کائنات مان لینا بھی ایمان باللہ شمار نہیں ہو گا جب تک کہ اس ہستی کے لیے وہ اسماء و صفات نہ تسلیم کیے جائیں جن کا علم ہمیں رسالت کے واسطے سے ہوا ہے.

اسی اصول کے مطابق ایمان بالآخرۃ بھی صرف وہی معتبر ہو گا جو ان تمام تفصیلات کے ساتھ ہو جن کی خبر ہمیں محمد رسول  نے فراہم کی ہے. محض مجازات‘ قانونِ مجازات اور انسانی وجود و حیات کا کوئی تسلسل مان لینا ایمان بالآخرت نہیں کہلا سکتا. موت‘ رُوح کی پرواز‘ قبر‘ حسابِ قبر‘ قبر کی نعمتیں یا سزائیں‘ بعث بعد الموت‘ حشر و نشر‘ حاضری محشر‘ شفاعت کبریٰ‘ وزنِ اعمال‘ جزاء و سزا‘ حساب کتاب‘ پُل صراط‘’ جنت اور دوزخ‘ جنت کی نعمتیں یا دوزخ کی سزائیں اور عقوبتیں‘ یہ تمام چیزیں جو پوری تفصیلات کے ساتھ ہمیں احادیث نبویہؐ 
(۱سے (۱) تفصیل اور دلیل کے ساتھ ان چیزوں کا مطالعہ کرنا ہو تو الاستاذ عبدالملک الکلیب کی عربی تالیف اھوال القیامۃ کا مطالعہ از حد مفید ہے جسے ابوعبدالرحمن شبیر بن نور نے اردو کا جامہ پہنایا ہے. ترجمہ نہایت آسان اور سلیس ہے. نیز احادیث کی محدثانہ انداز میں تحقیق و تخریج بھی کر دی گئی ہے. ملی ہیں ان کو دل کی گہرائی سے مانا جائے تب دینی اور شرعی اعتبار سے یہ ایمان بالآخرت کہلائے گا‘ ورنہ مجرد رُوح انسانی کے تسلسل یا وجودِ انسانی کی بقاء کو اگر کوئی مانتا بھی ہے تو یہ ایمان بالآخرۃ نہیں ہے.