ایمان کے مراتب بہت زیادہ ہیں‘ اس لیے کہ ایمان کی intensity یعنی ایمان کی قوت یا شدت جسے ہم علم الیقین‘ عین الیقین اور حق الیقین سے تعبیر کرتے ہیں‘ یہی ایمان کے مراتب ہیں. ایمان کی گہرائی اور گیرائی کے اعتبار سے بھی بے شمار مراتب ہیں‘ مثلاً ایک عام دیہاتی کے ایمان اور ایک عالم‘ دانا اور حکیم انسان کے ایمان میں زمین آسمان کا فرق ہو گا. اسی طرح کسی صحابی رسول کے مقابلے میں عام مسلمان بلکہ کسی کامل ولی کے ایمان میں بھی بہت نمایاں فرق ہو گا ع ’’گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی!‘‘ خود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ایک طرف حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایمان اور دوسری طرف کسی عام صحابی کے ایمان میں‘ ظاہر بات ہے‘ زمین آسمان کا فرق ہے. چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ میدان حشر میں اہل ایمان کو جو نور عطا ہو گا اس کے درجات مختلف ہوں گے. (۱یہ مضمون سورۃ الحدید‘ آیت ۱۲ اور سورۃ التحریم‘ آیت ۸ میں بیان ہوا ہے. اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (۱) علامہ جلال الدین السیوطی اپنی معروف تفسیر الدر المنثور ۷/۵۲ط دارالفکر بیروت میں سورۃ الحدید آیت ۱۲ کی تفسیر میں یہ حدیث لائے ہیں: 

عن قتادہ رضی اللّٰہ عنہ ان نبی اللّٰہ  قال: ان من المؤمنین یوم القیامۃ من یضیء لہ نورہ کما بین المدینۃ الی عدن ابین الی صنعاء فدون ذلک حتی ان من المومنین من لا یضیء لہ نورہ الا موضع قدمیہ والناس نازل باعمالھم (بحوالہ مصنف عبد الرزاق و عبد بن حمید و ابن المنذر) (و بروایت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما المستدرک ۲/۴۷۸

’’حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم  نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے روز اہل ایمان میں سے کسی کا نور تو مدینہ منورہ سے لے کر عدن تک ہو گا جو صنعاء سے بھی آگے تک روشنی کر رہا ہو گا اور کسی کا اس سے کم ہو گا‘ حتیٰ کہ بعض اہل ایمان کا نور ان کے قدموں کی جگہ تک ہی روشنی کرے گا اور لوگ اپنے اپنے اعمال کے اعتبار سے مختلف درجات پر ہوں گے.‘‘ (اضافہ از مرتب غفر لہ) 
نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَ بِاَیْمَانِھِمْ 
’’ان کا نور ان کے سامنے اور دائیں طرف دوڑ رہا ہو گا.‘‘

اسی آیت کی تشریح میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ اہل ایمان میں سے کسی کو اتنا نور عطا ہو گا کہ روشنی مدینہ منورہ سے صنعاء تک پہنچے گی (صنعاء یمن کا ایک شہر ہے‘ فی زمانہ بھی ہم کسی ایسی روشنی کا تصور نہیں کر سکتے کہ انسان کی بنائی ہوئی کوئی روشنی اتنی دُور تک پہنچ سکے‘ سورج یا چاند کی روشنی کی بات اور ہے) اور کسی کے پاس صرف اس قدر نور ہو گا کہ قدموں کے آگے روشنی ہو جائے جیسا کہ ٹارچ کی روشنی ہوتی ہے. جسے اتنی روشنی مل جائے وہ بھی بڑا خوش نصیب ہو گا. اس لیے کہ وہ پل صراط سے تو گزر جائے گا‘ ٹھوکریں کھا کر‘ گرے گا تو نہیں. بہرحال میدانِ حشر میں ملنے والے نور کی قوت و طاقت ایمان حقیقی کے اعتبار سے ہو گی‘ جیسا ایمان ہو گا ویسا ہی نور ہو گا اور ان کے درمیان مختلف درجات و مراتب ہوں گے. 

ایمان کے دو رُخ

ایمان کے ان دونوں رُخوں یا پہلوؤں کو سمجھنے کے لیے چند اصولی باتیں سمجھ لیجیے:
(۱) ظاہری ایمان بمقابلہ باطنی ایمان
(۲) قانونی ایمان بمقابلہ حقیقی ایمان
(۳) لسانی ایمان بمقابلہ قلبی ایمان 
(۴) دنیا میں معتبر ایمان بمقابلہآخرت میں معتبر ایمان
ایمان کو سمجھنے کے لیے ہمیں مذکورہ بالا امور پر مختلف زاویوں سے غور کرنا ہے. ایمان مجمل کے الفاظ پر ذرا غور کریں. فرمایا گیا: ’’آمَنْتُ بِاللّٰہِ کَمَا ھُوَ بِاَسْمَائِہٖ وَ صِفَاتِہٖ وَ قَبِلْتُ جَمِیْعَ اَحْکَامِہٖ اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ تَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ‘‘. معلوم ہوا کہ اقرار باللسان اور تصدیق بالقلب ایمان کے دو رُخ ہیں. ان دونوں میں سے سب سے اہم جس پر ساری بحث کا دارومدار ہے وہ ہے تصدیق بالقلب‘ یہ خفیہ اور باطنی چیز ہے اور دل کی کیفیت ہے. اس کی صحیح تحقیق دنیا میں نہیں ہو سکتی‘ ہمارے پاس اس کی verification‘ توثیق یا تردید اور اثبات یا نفی کا کوئی ذریعہ نہیں. ہم نہیں کہہ سکتے کہ فلاں شخص کے دل میں ایمان ہے یا نہیں ہے‘ اس لیے کہ ہماری رسائی وہاں تک ہو ہی نہیں سکتی. آخرت میں اس ذات سے سابقہ پیش آئے گا جو ’’عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ‘‘ ہے‘ یعنی جو دل کی اتھاہ گہرائیوں میں پلنے والی سوچ کو بھی جانتی ہے. اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 

یَعۡلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ یَعۡلَمُ مَا تُسِرُّوۡنَ وَ مَا تُعۡلِنُوۡنَ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ﴿۴﴾ (التغابن) 
’’وہ آسمان و زمین کی ہر ہر چیز کا علم رکھتا ہے اور جو کچھ تم چھپائو اور جو ظاہر کرو وہ سب کو جانتا ہے‘ اللہ تو دل کی باتوں تک کو جانتا ہے.‘‘

لہٰذا آخرت میں حساب کا سارا دارومدار تصدیق بالقلب پر ہو گا. فرض کریں ایک شخص دنیا میں مسلمانوں کا قائد بنا ہوا ہے‘ اگر وہ آخرت میں تصدیق بالقلب سے خالی پہنچا تو اس کا دعوائے ایمان کسی کام کا نہ ہو گا. البتہ دنیا میں تصدیق بالقلب تحقیق و تفتیش کا موضوع نہیں بن سکتا‘ اس لیے کہ اس کو ہم 
verify کر ہی نہیں سکتے‘ اس کے بارے میں اثبات یا نفی کا حکم لگا ہی نہیں سکتے. لہٰذا اس دنیا میں جس بنیاد پر کسی کے ایمان کا فیصلہ یا معرفت ہو گی وہ زبان کا قول و اقرار ہے. دنیا کے اندر یہی فیصلہ کن ہو گا.

حقیقت ایمان سمجھنے میں چند اشکال اور ان کی وضاحت

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوۡا وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ اَلۡقٰۤی اِلَیۡکُمُ السَّلٰمَ لَسۡتَ مُؤۡمِنًا ۚ تَبۡتَغُوۡنَ عَرَضَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۫ فَعِنۡدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیۡرَۃٌ ؕ 
(النسائ: ۹۴
’’اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں جا رہے ہو (جہاد کے لیے نکلو) تو تحقیق کر لیا کرو اور جو تم سے ’’السلام علیکم‘‘ 
(۱کہے تم اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو ایمان والا نہیں. تم دنیوی زندگی کے اسباب کی تلاش میں ہو تو اللہ کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں.‘‘

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں صرف سلام کرنے والے یا اطاعت پیش کرنے والے کو مومن تسلیم کر کے اسے پورے حقوق دے دیئے. دوسری طرف اہل ایمان کی پہچان ان الفاظ میں بیان کی‘ فرمایا:

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾ 
(الحجرات) (۱اَلْقٰی اِلَیْکُمُ السَّلٰمَ کے دو ترجمے کیے گئے ہیں‘ یعنی تمہیں سلام کرے یا تمہارے سامنے اطاعت پیش کرے اور لفظی معنی ہے سلام کرے یا السلام علیکم کہے. یہ بھی گویا اظہارِ اسلام کا ذریعہ تھا کہ میں بھی مسلمان ہوں. مولانا تھانویؒ نے ترجمہ کیا ہے: ’’جو اطاعت ظاہر کرے‘‘. حضرت شیخ الہند مولانا سید محمود حسن شاہ صاحبؒ نے ترجمہ کیا ہے: ’’جو سلام کرے‘‘ اور اسی ترجمہ کو مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ اور مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے اختیار کیا ہے. میرے خیال میں مولانا اشرف علی تھانویؒ کا اختیار کردہ ترجمہ ’’جو اطاعت ظاہر کرے‘‘ زیادہ بہتر ہے. ’’تم اسے مت کہو کہ تم مؤمن نہیں ہو‘‘. 

اصول یہ طے پایا کہ اگر اسے مسلمان مان لیا تو اس کی جان و مال دونوں محفوظ اور اگر سلام کرنے والے کو مسلمان تسلیم نہ کیا جائے تو اسے قتل کیا جا سکتا ہے اور اس کا مال مالِ غنیمت شمار کیا جا سکتا ہے. (ماخوذ) ’’مؤمن تو صرف وہ ہیں جو ایمان لائیں اللہ پر اور اس کے رسول پر‘ پھر ہرگز شک نہ کریں‘ اور جہاد کریں اللہ کی راہ میں اپنی جانوں کو کھپا کر اور مال لگا کر‘ صرف یہی لوگ (دعوائے ایمان میں) سچے ہیں.‘‘

سورۃ الحجرات کی اس آیت میں ایمان کے دو لازمی نتائج بیان کیے گئے ہیں‘ یعنی باطنی طور پر دل میں یقین کی کیفیت اور ظاہری طور عمل میں جہاد کا مظاہرہ‘ انہی دونوں نتائج کو مزید تفصیل سے سورۃ الانفال کی آیات ۲ تا ۴ میں ان الفاظ کے ساتھ بیان فرمایا: 
اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ اِذَا تُلِیَتۡ عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُہٗ زَادَتۡہُمۡ اِیۡمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ ۚ﴿ۖ۲﴾الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ؕ﴿۳﴾اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا ؕ لَہُمۡ دَرَجٰتٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ وَ مَغۡفِرَۃٌ وَّ رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ ۚ﴿۴﴾ 

’’مومن تو بس وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر ہو تو ان کے دل کانپ جائیں‘ جب اس کی آیات پڑھ کر سنائی جائیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہو اور وہ اپنے ربّ پر توکل کرتے ہوں. جو نماز قائم کرتے ہوں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہوں. یہ ہیں سچے مؤمن‘ ان کے لیے ان کے ربّ کے پاس درجات بھی ہیں اور بخشش بھی اور رزق کریم بھی ہے.‘‘

ان آیات کو سورۃ الانفال ہی کی آیت ۷۴ کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو بات مزید واضح ہو جاتی ہے. فرمایا: 

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ ہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ الَّذِیۡنَ اٰوَوۡا وَّ نَصَرُوۡۤا اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا ؕ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ ﴿۷۴﴾ 
(الانفال) 
’’وہ لوگ جو ایمان لائے‘ جنہوں نے ہجرت کی‘ جنہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا‘ اور وہ لوگ جنہوں نے انہیں پناہ دی اور ان کی مدد کی (مہاجرین اور انصار) یہی ہیں سچے مومن‘ ان کے لیے خطائوں سے درگزر و مغفرت ہے اور بہترین رزق.‘‘ 
اب غور کیجیے‘ ایک طرف قرآن کہہ رہا ہے کہ جو تمہیں سلام کرے یا صرف اطاعت ظاہر کرے تم اس سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم مومن نہیں ہو (النسائ: ۹۴) اور دوسری طرف قرآن مجید نے قبولیت ایمان کے لیے اتنی عظیم اور بھاری بھرکم تفصیلات جاری کر دی ہیں (سورۃ الحجرات آیت ۱۵ اور سورۃ الانفال آیات ۲‘ ۳‘ ۴‘ اور ۷۴). اس اشکال کو حل کرنے سے پہلے حدیث رسول اللہ  میں موجود ’’ظاہری تضاد‘‘ کو بھی سامنے رکھ لیں. ایک طرف آپ نے فرمایا: مَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُخْلِصًا دَخَلَ الْجَنَّۃَ (۱’’جس کسی نے اخلاص کے ساتھ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کہا وہ جنت میں داخل ہو گیا‘‘. اس حدیث میں تو پھر بھی امکان ہے کہ کچھ سزا جھیل کر یا کچھ وقت جہنم میں گزار کر پھر جنت میں چلا جائے‘ لیکن ایک دوسری حدیث جسے حضرت عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں‘ کے الفاظ ہیں: 

سَمِعْتُ رَسُوْلُ اللّٰہِ  یَقُوْلُ: 
مَنْ شَھِدَ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ النَّارَ (۲
’’میں نے رسول اللہ  کو یوں فرماتے سنا: جو آدمی لا الٰہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کی گواہی دے‘ اللہ نے اس پر آگ کو حرام کر دیا.‘‘

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس پر آگ حرام ہے‘ لہٰذا جہنم میں جانے کا سوال ہی نہیں. اس سے ایک قدم اور آگے جاتے ہیں. ایک حدیث میں بڑے بڑے گناہوں کا بھی تذکرہ ہے. حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : 
(۱) کشف الاستار ۱/۱۱‘ و مسند احمد ۵/۲۳۶. علامہ الالبانی نے حدیث کو صحیح کہا ہے‘ ملاحظہ ہو سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ‘ ح ۲۳۵۵.
(۲) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب الدلیل علی من مات علی التوحید دخل الجنۃ قطعًا‘ ح۲۹. و مسند احمد ۵/۳۱۸. و سنن الترمذی‘ کتاب الایمان‘ باب ما جاء فیمن یموت… ح۲۶۳۸ 
اور دیگر صحابہ کرامj سے بھی یہ روایت موجود ہے‘ ملاحظہ ہو مسند احمد ۳/۱۳۵ و ۴۵۱۴/۴۰۲۵/۲۳۶اَتَیْتُ اٰلنَّبِیَّ  وَ عَلَیْہِ ثَوْبٌ اَبْیَضُ وَ ھُوَ نَائِمٌ ثُمَّ اَتَیْتُہٗ وَ قَدِ اسْتَیْقَظَ فَقَالَ: مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ لَا اِلَہَ اِلاَّ اللّٰہُ ثُمَّ مَاتَ عَلٰی ذٰلِکَ اِلاَّ دَخَلَ الْجَنَّۃَ قُلْتُ: وَ اِنْ زَنٰی وَ اِنْ سَرَقَ؟ قال: وَ اِنْ زَنٰی وَ اِنْ سَرَقَ قُلْتُ: وَ اِنْ زَنٰی وَ اِنْ سَرَقَ؟ قال: وَ اِنْ زَنٰی وَ اِنْ سَرَقَ قُلْتُ: وَ اِنْ زَنٰی وَ اِنْ سَرَقَ؟ قال: وَ اِنْ زَنٰی وَ اِنْ سَرَقَ عَلٰی رَغْمِ اَنْفِ اَبِی ذَرٍّ (۱
’’میں نبی اکرم  کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؐ سفید کپڑا اوڑھے سو رہے تھے. دوبارہ حاضر ہوا تو آپ بیدار ہو چکے تھے. اس موقع پر آپؐ نے فرمایا: ’’جس بندے نے بھی لا الٰہ الا اللہ کہا پھر وہ اسی پر مر گیا وہ جنت میں داخل ہو گیا‘‘. میں نے دریافت کیا: خواہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو؟ آپؐ نے فرمایا: ’’خواہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو‘‘. میں نے دوسری دفعہ دریافت کیا: خواہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو؟ آپؐ نے فرمایا: ’’خواہ 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب اللباس‘ باب الثیاب البیض‘ ح ۵۴۸۹ . نیز متعدد مقامات پر. و صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب من مات لا یشرک باللہ شیئا دخل الجنۃ… ح۹۴ و سنن الترمذی‘ کتاب الایمان‘ باب ما جاء فی افتراق ھذہ الامۃ‘ ح۲۶۴۴. و مسند احمد ۵/۱۶۶. و صحیح ابن حبان ۱/۳۹۲ کتاب الایمان‘ باب فرض الایمان‘ح ۱۶۹ و ۱۷۰و ۲۱۳. و مسند ابو داؤد الطیالسی‘ ح ۴۴۴. و شرح السنۃ للبغوی ۱/۹۹‘ باب من مات لا یشرک باللہ شیئا‘ ح ۵۴. وکتاب الایمان لابن مندہ‘ ح۸۴ و ۸۵ و ۸۶. ومسند ابی عوانہ ۱/۱۹حدیث کی اہمیت کی وجہ سے سارے دستیاب حوالے ذکر کر دیے ہیں ورنہ صرف بخاری و مسلم کا حوالہ بھی کفایت کر جاتا (مرتب غفر لہ)
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ انتہائی درویش صفت اور عابد و زاہد صحابی تھے‘ آپؓ کے بارے میں رسول اللہ  نے فرمایا: 
مَنْ سَرَّہٗ اَن یَّنْظُرَ اِلٰی زُھْدِ عِیْسٰی فَلْیَنْظُرْ اِلٰی اَبِی ذَرٍ ’’جس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زہد دیکھنا ہو وہ ابو ذر کو دیکھ لے‘‘. سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ للالبانی‘ ح۲۳۴۳بعض روایات میں ’’تَوَاضُع ‘‘ کا لفظ بھی آیا ہے. (ماخوذ) اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو‘‘. میں نے تیسری دفعہ دریافت کیا: خواہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو؟ آپؐ نے فرمایا: ’’ابو ذر کے ناک کے علی الرغم خواہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو (وہ جنت میں داخل ہو گا).‘‘

اب ایک طرف اس معنی کی احادیث موجود ہیں (ہم نے صرف چند ایک کا تذکرہ کیا ہے) جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف کلمہ توحید کہنے سے انسان جنت میں داخل ہو جائے گا اور اس پر آگ حرام ہے خواہ اس نے برائیوں کا ارتکاب کیا ہو‘ دوسری طرف ایسی احادیث موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف کبائر بلکہ محض کج خلقی پر بھی ایمان کی نفی ہو جاتی ہے. حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ والی روایت میں گناہ کبیرہ کی بات آئی تھی‘ فوری تقابل کرتے ہوئے گناہ کبیرہ کے ضمن میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی روایت بھی دیکھ لیں: 

عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ  قَالَ: لَا یَزْنِی الزَّانِی حِیْنَ یَزْنِی وَھُوَ مُؤْمِنٌ‘ وَلاَ یُسْرِقُ السَّارِقُ حِیْنَ یَسْرِقُ وَھُوَ مُؤْمِنٌ‘ وَلاَ یَشْرَبُ الْخَمْرَ حِیْنَ یَشْرَبْھَا وَھُوَ مُؤْمِنٌ‘ وَلاَ یَنْتَھِبُ نُھْبَۃً ذَاتَ شَرْفٍ یَّرْفَعُ الْمُسْلِمُوْنَ اِلَیْھَا اَبْصَارَھُمْ حِیْنَ یَنْتَھِبُھَا وَھُوَ مُؤْمِنٌ 
(۱(۱) صحیح البخاری‘ کتاب المظالم‘ باب النھبی بغیر اذن صاحبہ‘ح۲۳۴۳. نیز ح۵۲۵۶ و ۶۳۹۰ و ۶۴۲۵. و صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان نقصان الایمان بالمعَاصی…الخ‘ ح۵۷ (سات سندوں کے ساتھ) و سنن ابی داؤد‘ کتاب السنۃ‘ باب الدلیل علی زیادۃ الایمان و نقصانہ‘ ح۴۶۸۹. و سنن الترمذی‘ کتاب الایمان‘ باب ما جاء لا یزنی الزانی وھو مؤمن‘ ح۲۶۲۵. و سنن النسائی‘ کتاب الاشربۃ‘ باب ذکر الروایات المغلظات فی شرب الخمر‘ ح۵۶۷۵ و ۵۶۷۶. و سنن ابن ماجہ‘ کتاب العتق‘ باب النھی عن النھبۃ‘ ح۳۹۳۶. و صحیح ابن حبان‘ ۱/۴۱۴ ح۱۸۶. و سنن البیھقی ۱۰/۱۸۶. و سنن الدارمی‘ ۲/۸۷‘ ح۱۹۸۳ و ۲/۱۱۵ ح۲۱۰۸. و مسند احمد ۲/۳۷۶. و کتاب الایمان لابن مندہ‘ ح۵۱۰ و ۵۱۱ و ۵۱۲. و مصنف ابن ابی شیبہ ۱۱/۳۲. و الشریعۃ للاجری‘ ص۱۱۳. و شرح السنۃ للبغوی ۱/۸۷ باب الکبائر‘ ح۴۶ و ۴۷یہاں بھی بخاری و مسلم کا حوالہ کافی تھا‘ لیکن حقیقت ایمان سمجھنے میں یہ حدیث اہم مقام رکھتی ہے اس لیے دستیاب حوالوں سے تخریج کر دی ہے. واضح رہے کہ یہ حدیث حضرت ابن عباس‘ ابن عمرو اور دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی مروی ہے. ’’کوئی زانی حالت ایمان میں زنا نہیں کرتا‘ کوئی چور حالت ایمان میں چوری نہیں کرتا‘ کوئی شرابی حالت ایمان میں شراب نہیں پیتا اور کوئی اچکا حالت ایمان میں ایسی چیز نہیں اٹھاتا جس کی کوئی قیمت ہو اور مسلمانوں کی نگاہیں اس کی طرف متوجہ ہوتی ہوں.‘‘

تو گویا ایسے کبائر کی وجہ سے ایمان کی نفی ہو گئی. اسی طرح اگر کسی مسلمان میں امانت داری کا وصف نہیں ہے تو اس کے بارے میں بھی ایمان کی نفی وارد ہوئی ہے. حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : 

قَلَّمَا خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ  اِلاَّ قَالَ: لاَ اِیْمَانَ لِمَنْ لاَّ اَمَانَۃَ لَہٗ وَلاَ دِیْنَ لِمَنْ لاَّ عَھْدَ لَہٗ 
(۱
’’شاذ ہی کبھی ایسا ہوا ہو گا کہ رسول اللہ  نے خطبہ ارشاد فرمایا ہو اور آپ نے اس میں یہ الفاظ نہ فرمائے ہوں: 
’’لاَ اِیْمَانَ لِمَنْ لاَّ اَمَانَۃَ لَہٗ وَلاَ دِیْنَ لِمَنْ لاَّ عَھْدَ لَہٗ‘‘ یعنی ’’جو امانت دار نہیں ہے اس کا کوئی ایمان نہیں اور جو عہد کو وفا نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں ہے.‘‘

ایک دوسری حدیث میں یہ موضوع اور زیادہ وضاحت اور شدت کے ساتھ آیا ہے. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم  نے ارشاد فرمایا: 

وَاللّٰہِ لاَ یؤْمِنُ‘ وَاللّٰہِ لاَ یؤْمِنُ‘ وَاللّٰہِ لاَ یؤْمِنُ قِیْلَ مَنْ یَّا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: اَلَّذِیْ لاَ یَاْمَنُ جَارُہٗ بِوَائِقَہٗ 
(۲(۱) مسند احمد ۳/۱۳۵ و ۱۵۴ و ۲۱۰. والبیھقی السنن الکبری ۶/۲۸۸ و ۹/۲۳۱. وصحیح ابن حبان۱/۴۲۲ کتاب الایمان‘ باب فرض الایمان‘ ح۱۹۴. و مصنف ابن ابی شیبہ ۶/۱۵۹‘ ح۳۰۳۱۱اور حدیث حسن ہے. 

(۲) صحیح البخاری‘ کتاب الادب‘ باب اثم من لا یامن جارہ بوائقہ ح۵۶۷۰. و صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘باب بیان تحریم ایذاء الجار‘ ح۴۶ (الفاظ مختلف ہیں) و مسند احمد ۲/۲۸۸ و ۳۳۶. والمستدرک للحاکم ۱/۱۰ و ۴/۱۶۵
یہی حدیث حضرت ابو الشریح سے بھی مروی ہے‘ ملاحظہ ہو صحیح البخاری حوالہ سابقہ و مسند احمد ۴/۳۱ و ۶/۳۸۵’’خدا کی قسم وہ شخص مؤمن نہیں ہو سکتا‘ خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہو سکتا‘ خدا کی قسم وہ شخص مؤمن نہیں ہو سکتا‘‘. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول‘ کون شخص؟ فرمایا: ’’وہ شخص کہ جس کی ایذا رسانی سے اس کا پڑوسی چین میں نہیں ہے.‘‘

ذرا غور کریں کہ اس حدیث میں نہ کسی گناہ کبیرہ کا تذکرہ ہے نہ عرف عام کے مطابق کسی بڑے جرم کی بات ہے. پھر بھی کسی قدر زور دے کر بلکہ تین مرتبہ قسم کھا کر فرمایا: ایسا آدمی مومن نہیں ہے.

آگے بڑھ کر ایک اور حدیث کو دیکھیں. مختلف کتب حدیث میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے جو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ 
(۱کے ساتھ یا بعض روایات کے مطابق حضرت اسامہ اور ایک دوسرے انصاری صحابی رضی اللہ عنہما کے ساتھ پیش آیا. ہوا یوں کہ ایک جنگ میں ان کا مقابلہ ایک کافر کے ساتھ ہو گیا اور اس پر قابو پا لیا گیا. جب کافر نے دیکھا کہ اب تو میرا کوئی بس نہیں چل سکتا تو اس نے جھٹ ’’اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ‘‘ کہہ دیا. اس موقع پر انصاری صحابیؓ نے تو اپنا نیزہ روک لیا البتہ حضرت اسامہؓ نے وار کر کے اس کافر کو ہلاک کر دیا. بعض روایات کے مطابق اس کے بعد حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو ذہنی خلش لاحق ہو گئی اور (۱) حضرت اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما حضور کو بہت پیارے تھے بالکل پوتوں کی طرح‘ کیونکہ حضرت زیدؓ کو آپ نے اپنا منہ بولا بیٹا بنایا ہوا تھا. ایک عرصے تک تو وہ زید بن محمد ہی کہلاتے رہے‘ پھر جب سورۃ الاحزاب میں یہ حکم نازل ہو گیا کہ اسلام میں متبنی کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ انہیں ان کے والد کے نام سے پکارا جائے تو اس کے بعد حضرت زید رضی اللہ عنہ کو زید بن حارثہ کہا جانے لگا. حضرت اسامہ ان کے بیٹے تھے. (ماخوذ) انہوں نے رسول اللہ  سے دریافت کیا اور دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات کسی طرح آپ کو معلوم ہو گئی تو آپؐ نے از خود حضرت اسامہؓ سے دریافت کیا اور معلوم ہو جانے پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا. فرمایا: 

مَنْ لَکَ بِلَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَقُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ اِنَّمَا قَالَھَا مَخَافَۃَ السَّلَاحِ. قَالَ: اَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِہٖ حَتّٰی تَعْلَمَ مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ قَالَھَا اَمْ لَا؟ مَنْ لَکَ بِلَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ؟ فَمَازَالَ یَقُوْلُھَا حَتّٰی وَدِدْتُ اَنِّی لَمْ اُسْلِمْ اِلاَّ یَوْمَئِذٍ 
(۱
’’قیامت کے روز لا الٰہ الا اللہ کے استغاثے سے تم کو کون بچائے گا؟‘‘ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ اس نے تو ہتھیار کے ڈر سے یہ کلمہ پڑھا تھا. آپؐ نے فرمایا: ’’تم نے اس کا دل چیر کے کیوں نہ دیکھ لیا تاکہ تمہیں معلوم ہو جاتا کہ اس نے ڈر سے کہا یا صدقِ دل سے کہا. سوچو قیامت کے روز 
’’لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ‘‘ کے استغاثے سے تم کو کون بچائے گا؟‘‘ آپؐ نے یہ جملہ اس تکرار کے ساتھ کہا کہ میں تمنا کرنے لگا کہ اے کاش میں آج ہی مسلمان ہوا ہوتا!‘‘

آپ  نے حضرت اسامہؓ کے پیش کردہ عذر کی نفی نہیں کی‘ بس اس بات پر زور دیا کہ کل قیامت کے روز جب ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کا کلمہ استغاثہ لے کر اللہ کے حضور پیش ہو جائے گا تو کیا جواب دو گے‘ کیا منہ دکھائو گے‘ کیونکہ یہ کلمہ سلامتی ہے‘ اسلام کا کلمہ ہے‘ جس نے یہ کلمہ ادا کر دیا اسے تو سلامتی مل گئی. 
(۲

مذکورہ بالا آیات اور احادیث کو سامنے رکھ کر غور کریں تو متعدد سوالات 
(۱) سنن ابی داوٗد‘ کتاب الجھاد‘ باب علی ما یقاتل المشرکون‘ ح۲۶۴۳یہی حدیث تھوڑے لفظی اختلاف کے ساتھ ملاحظہ کریں:صحیح البخاری‘ کتاب المغازی‘ باب۴۳‘ ح۴۰۲۱. و کتاب الدیات‘ باب ۱ ح۶۴۷۸. و صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب تحریم قتل الکافر بعد ان قال لا الٰہ الا اللّٰہ ح۹۶ 
(۲) محترم ڈاکٹر صاحب کے جملے کی بنیاد درج ذیل حدیث ہے: حضرت ابو ہریرہ h بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے فرمایا: ’’مجھے حکم ملا ہے کہ میں اس وقت تک لوگوں سے جنگ کرتا رہوں جب تک وہ لا الٰہ الا اللہ نہ کہہ دیں اور جس نے لا الٰہ الا اللہ کہہ دیا اس کو جان و مال کی سلامتی مل گئی مگر حق اسلام کے ساتھ اور اس کا حساب اللہ کے ذمے ہے‘‘. 
(بخاری‘ مسلم‘ ترمذی‘ ابو دائود اور نسائی) سامنے آتے ہیں. 

۱. آیا تصدیق و اقرار سے ہی نجاتِ اخروی مل جائے گی یا عمل صالح بھی مطلوب ہے؟
۲. عمل صالح ایمان کا جزو ہے یا اضافی چیز ہے؟
۳. ارتکاب کبائر سے ایمان ختم ہو جاتا ہے؟ یا وقتی طور پر اوپر اُٹھ جاتا ہے؟ یا علیٰ حالہ باقی رہتا ہے؟
۴. کیا ایمان اعمالِ صالحہ سے بڑھتا ہے؟ اور گناہوں سے کم ہوتا ہے؟ یا اس کی کیفیت و ماہیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا؟

یہ سوالات یقینا خاصے ثقیل ہیں اور ان کو سمجھے بغیر حقیقت ایمان کو پانا بھی ناممکن ہے‘ اس لیے ان کے جوابات جاننا اشد ضروری ہیں. ان جوابات کو جاننے اور اچھی طرح سمجھنے سے پہلے ’’حقیقت ایمان‘ اعمال صالحہ کا اس کے ساتھ تعلق اور گناہوں کے ایمان پر اثرات‘‘ کا سمجھنا انتہائی ضروری ہے. 


مختلف مکاتیب فکر کے ہاں ’’ایمان‘‘ کی تعبیر و توجیہہ

تاریخ اسلام کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اعتقادات کی تعبیر و توجیہہ کے سلسلہ میں متعدد گروہ پیدا ہوئے ہیں. ان گروہوں کے اعتقادات اور دلائل کا پہلے مطالعہ کر لیں تاکہ نتائج تک پہنچنے میں آسانی ہو. 

(۱) خوارج

(۱
عقیدہ: عمل صالح ایمان کا جزو لازم یا جزو لاینفک ہے. اگر اس جزو کو ساقط کر دیا (۱) خوارج سے منسوب فرقہ اس قت دنیا میں کہیں نہیں ہے بس عمان کے علاقے میں رماتیہ فرقے کے نام سے ایک گروہ پایا جاتا ہے جن کے اعتقادات خوارج سے قریب تر ہیں‘ لیکن اس قدر متشدد نہیں بلکہ معتدل قسم کے لوگ ہیں. دوسری بات یہ نوٹ کر لیں کہ خوارج ذاتی زندگیوں میں انتہائی پارسا تھے‘ فرائض کے پابند اور کبائر سے کوسوں دور رہنے والے‘ کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے انسان اسلام سے نکل کر کفر میں داخل ہو جاتا ہے. لہٰذا ان کی عمل میں پارسائی کسی کو غلط فہمی میں مبتلا نہ کر دے بلکہ حقائق کو دلائل کی روشنی میں سمجھنا چاہیے ظاہر پر نہیں جانا چاہیے. (ماخوذ) جائے تو کُل بھی ساقط ہو جاتا ہے اور اسلام کا دارومدار ایمان پر ہے‘ لہٰذا اگر عمل صالح نہیں ہے‘ بالخصوص اگر گناہ کبیرہ کا ارتکاب ہوا ہے تو نہ ایمان باقی بچا اور نہ اسلام کام آیا اور انسان کفر میں داخل ہو گیا. 

نتیجہ: گناہ کبیرہ کا مرتکب کافر قرار پایا‘ ملت اسلام سے باہر نکل گیا‘ مرتد قرار پایا‘ اس کی جان و مال سب کچھ مباح و حلال ہو گئے اور وہ واجب القتل ہو گیا. 

خوارج کے بارے میں اہل اسلام کا فیصلہ: عہد صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے لے کر آج تک اُمت کا اس بات پر اجماع ہے کہ خوارج اسلام سے باہر ہیں‘ کافر ہیں اور واجب القتل ہیں.اسی لیے خلیفہ برحق حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان کے خلاف قتال کیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اکثریت نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا. 

(۲) معتزلہ

عقیدہ: ان کا عقیدہ اور خوارج کا عقیدہ ایک ہے کہ عمل صالح ایمان کا جزو لازم ہے. اگر اس جزو کو ساقط کر دیا جائے تو کُل ساقط ہو جاتا ہے اور اسلام کا دارومدار ایمان پر ہے لہٰذا اگر عمل صالح نہیں ہے اور بالخصوص اگر گناہ کبیرہ کا ارتکاب ہوا ہے تو نہ ایمان باقی بچا اور نہ اسلام کام آیا. تاہم معتزلہ کے نزدیک وہ کافر نہیں ہوا صرف اسلام و ایمان سے نکلا ہے. 

نتیجہ: گناہ کبیرہ کا مرتکب اسلام سے تو نکل گیا البتہ کافر نہیں ہوا‘ مرتد اور کافر والے احکام اس پر لوگو نہیں ہوں گے. گویا ان کے نزدیک کفر و اسلام کے درمیان بھی کوئی منزل ہے اور وہ کفر و اسلام کے درمیان لٹکا ہوا ہے. معتزلہ کے موقف کو ذرا غور سے دیکھا جائے تو یہ خوارج والا موقف ہی ہے‘ بس اس پر کافروں والے احکام نافذ نہیں ہوتے یعنی وہ نہ مرتد ہے نہ واجب القتل‘ نہ اس کی ذات حلال الدم اور نہ اس کا مال حلال. البتہ یہ طے ہے کہ معتزلہ کے نزدیک بھی خوارج کی طرح کبیرہ گناہ کا مرتکب اسلام اور ایمان سے خارج ہو گیا. 

(۳) محدثین

عقیدہ: امام مالک‘ امام شافعی‘ امام احمد بن حنبل‘ امام بخاری اور دیگر محدثین رحمہم اللہ کا عقیدہ ہے کہ: ’’الایمانُ قولٌ و عملٌ یزید بالطاعۃِ و یُنْقَصُ بِالْمَعْصِیَۃِ‘‘ یعنی ’’ایمان قول و عمل کا نام ہے‘ جو اطاعت و نیکی سے بڑھتا ہے اور گناہ کرنے سے کم ہو جاتا ہے‘‘.

ان حضرات کے نزدیک بھی عمل ایمان کا لازمی جزو ہے لیکن گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے انسان نہ ایمان و اسلام سے نکلتا ہے اور نہ ہی کفر میں داخل ہوتا ہے. 
(۱

نتیجہ: گناہ کبیرہ سے انسان ایمان و اسلام سے نکلے گا تو نہیں‘ البتہ گناہ کی کمیت و کیفیت کی نسبت سے ایمان کم ہو جائے گا. (۱) محدثین کی عظیم اکثریت صرف ’’تارکِ نماز‘‘ کو اسلام سے خارج قرار دیتی ہے جبکہ وہ بالکلیہ ہی چھوڑ بیٹھے. اس کے علاوہ دس کام ایسے ہیں جو انسان کو اسلام سے خارج کر دیتے ہیں جو کہ ’’نواقض اسلام‘‘ کے نام سے مشہور ہیں. محدثین کے ساتھ ساتھ فقہائِ احناف بھی ان کے قائل ہیں: (۱) شرک اپنی جملہ اقسام کے ساتھ (۲) اللہ اور بندوں کے درمیان واسطے بنانا (۳) کافروں یا مشرکوں کو کافر نہ ماننا (۴) شریعت محمدی میں نقص نکالنا (۵) شرعی احکام سے بغض رکھنا (۶) شرعی احکام کا مذاق اڑانا (۷) جادو کرنا یا کروانا (۸) مسلمانوں کے مقابلے میں کافروں کی مدد کرنا (۹) کسی کو شرعی احکام سے مستثنیٰ قرار دینا (۱۰) اللہ کے دین سے بے رُخی اختیار کرنا. (اضافہ از مرتب ابو عبدالرحمن)

(۴) فقہاءِ احناف

عقیدہ: ایمان نام ہے تصدیق و اقرار کا‘ یعنی دل سے تصدیق اور عمل میں اقرار. چاہے کوئی آدمی گناہ کبیرہ بھی کرے اس کو کافر نہیں کہا جائے گا‘ البتہ اعمال سے ایمان کی کمیت میں کمی بیشی ہوتی ہے (نیک اعمال سے اضافہ اور گناہوں کی وجہ سے کمی) تاہم تصدیق جوں کی توں رہتی ہے. 

نتیجہ: کبیرہ گناہوں کے باعث کسی کی تکفیر نہیں کی جائے گی‘ البتہ جن احادیث میں کبیرہ گناہوں کی وجہ سے ایمان کی نفی کی گئی ہے اس کی توجیہہ فقہاء احناف کے نزدیک یہ ہے کہ ’’یہ کمال ایمان کی نفی ہے‘ نفس ایمان کی نفی نہیں ‘‘. اس طرح ’’وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ‘‘ کا ترجمہ ان کے نزدیک ہو گا ’’خدا کی قسم اس شخص کا ایمان کامل نہیں‘‘. احناف کے موقف میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کسی انسان کے دل میں ایمان ہے تو بالآخر وہ سزا پاکر جہنم سے نکل آئے گا اور جنت میں داخل ہو گا. 

نوٹ: محدثین کا موقف اور فقہاء احناف کا موقف اہل سنت و الجماعت ہی کا موقف سمجھا جاتا ہے. ان میں کہیں کہیں فرق تو ضرور ہے لیکن باہم قریب تر ہیں. 

(۵) مُرجئہ

عقیدہ: ایمان صرف اعتقاد و اقرار کا نام ہے‘ ایمان کے ہوتے ہوئے کوئی گناہ نقصان نہیں دیتا جس طرح کہ کفر کے ہمراہ کوئی نیکی فائدہ نہیں دیتی. مومن صرف ایمان کی بدولت جنت میں جائے گا اور کافر اپنے کفر کی پاداش میں جہنم میں جائے گا‘ اس سے اعمال کا کوئی تعلق نہیں. 

نتیجہ: مُرجئہ کے نزدیک دل میں ایمان رکھنے والا اور زبان سے اقرار کرنے والا مکمل مؤمن ہے اور چاہے فرائض کی پابندی کرے یا نہ کرے‘ جنت کا حقدار ہے. کبیرہ گناہ جتنے چاہے کرتا رہے‘ وہ کسی شکل میں جہنم میں نہیں جائے گا. مُرجئہ اور اہل سنت میں اصولی فرق: مُرجئہ کے نزدیک مومن جہنم میں داخل ہی نہیں ہو گا جبکہ اہل سنت یعنی احناف اور محدثین کے نزدیک ایمان کے بعد نجات کا دارومدار اعمال پر ہے. اگر نیکیوں کا پلڑا بھاری رہا تو بمشیۃ اللّٰہ وہ بغیر سزا کے ہی جنت میں چلا جائے گا اور اگر نیکیوں کے مقابلہ میں گناہوں کا پلڑا بھاری رہا تو اپنے گناہوں کی سزا پا کر وہ بالآخر جہنم سے نکل آئے گا اور جنت میں داخل ہو گا.
نصوصِ تبشیر (جن آیات و احادیث میں خوشخبریاں وارد ہوئی ہیں) اور نصوصِ وعید و نذیر (جن آیات و احادیث میں دھمکی و سخت گیری وارد ہوئی ہے) کو جمع کرنے کے بعد اہل سنت کا موقف ہی برحق ہے. 

(۶) کرامیہ

عقیدہ: کرامیہ کے نزدیک ایمان نام ہے بس لا الٰہ الا اللہ کہنے کا‘ یعنی صرف قول کا. دل میں تصدیق ہے یا نہیں‘ اعمالِ صالحہ کا اہتمام ہے یا نہیں اور کبائر سے پرہیز کیا ہے یا نہیں کیا‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا. لا الٰہ الا اللہ زبان سے پڑھ دیا بس کافی ہو گیا. 

نتیجہ: مذکورہ بالا ایمان کے بعد بس جنت پکی اور جہنم سے آزادی یقینی ہے‘ زندگی جس طرح چاہو گزارتے رہو. 

مُرجئہ اور کرامیہ میں فرق: عملاً مُرجئہ اور کرامیہ میں کوئی فرق نہیں‘ کیونکہ مُرجیۂ کے نزدیک تصدیق شرط ہے جس کا فیصلہ دنیا میں نہیں ہو سکتا. لہٰذا دونوں کا موقف یہی ہے کہ بس لا الٰہ الا اللہ کہو اور جنت کے ’’زبردستی حقدار‘‘ بن جاؤ. 

(۷) اشاعرہ

عقیدہ: ایمان صرف اعتقاد کا نام ہے اور اقرار شرط کا درجہ رکھتا ہے جزو نہیں‘ کیونکہ شرعی احکام اقرار سے منسلک ہیں لہٰذا اقرار شرط ہے. 

مُرجئہ اور اشاعرہ میں فرق: مُرجئہ کے نزدیک تصدیق قلبی اور زبانی اقرار ایمان کے اجزاء ہیں جبکہ اشاعرہ کے نزدیک صرف تصدیق کا نام ایمان ہے‘ اقرار تو اظہارِ ایمان کا ذریعہ ہے. 

اشاعرہ کے مسلک کی بنیاد

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : 

اَنَّ النَّبِیَّ  وَ مُعَاذٌ رَدِیْفَہٗ عَلَی الرَّحْلِ‘ قَالَ: یَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ قَالَ: لَبَّیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَ سَعْدَیْکَ‘ قَالَ: یَا مُعَاذُ قَالَ: لَبَّیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَ سَعْدَیْکَ‘ ثَلَاثًا‘ قَالَ: مَا مِنْ اَحَدٍ یَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللّٰہِ‘ صِدْقًا مِنْ قَلْبِہٖ‘ اِلاَّ حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَلَی النَّارِ قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘ اَفَلَا اُخْبِرُ بِہِ النَّاسَ فَیَسْتَبْشِرُوْا؟ قَالَ: اِذًا یَتَّکِلُوْا وَ اَخْبَرَ بِھَا مُعَاذُ عِنْدَ مَوْتِہٖ تَاثُّمًا 
(۱
’’ایک مرتبہ حضور اکرم سواری پر تھے اور حضرت معاذ رضی اللہ عنہ آپؐ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے‘ آپؐ نے فرمایا: ’’اے معاذ بن جبل!‘‘ انہوں نے جواب دیا: ’’اے اللہ کے رسول میں حاضر اور متوجہ ہوں‘‘. آپ نے دوبارہ کہا: ’’اے معاذ!‘‘ انہوں نے جواباً کہا: ’’میں حاضر اور متوجہ ہوں‘‘ اور پھر اسی طرح تیسری دفعہ کہا. پھر آپؐ نے فرمایا: ’’جو کوئی بھی دل کی سچائی کے ساتھ گواہی دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود حقیقی نہیں اور محمد ( ) اللہ کے رسول ہیں اللہ نے اس پر آگ کو حرام کر دیا ہے‘‘. حضرت معاذؓ نے دریافت کیا: کیا میں لوگوں کو خوشخبری نہ دے دوں تاکہ وہ بھی خوشیاں منائیں؟ آپؐ نے فرمایا: ’’تب تو وہ اسی بات پر سہارا کر کرے بیٹھ جائیں گے‘‘. حضرت معاذؓ نے یہ حدیث موت کے وقت بتلائی تاکہ علم چھپانے کے جرم میں گناہگار نہ ہو جائیں.‘‘ 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب العلم‘ باب من خص بالعلم قوما دون قوم‘ ح۱۲۸. وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب الدلیل علی ان من مات علی التوحید دخل الجنۃ قطعًا‘ ح۳۲و دیگر کتب حدیث.اس حدیث سے اشاعرہ اور مُرجیۂ کے موقف و مسلک کی تائید ہوتی ہے. 

وضاحت 

رسول اللہ  نے حضرت معاذؓ کو ایک علم دیا اور ساتھ ہی منع بھی کر دیا کہ اسے عام نہ کیا جائے‘ کیونکہ ہر آدمی تو دلائل شریعت کو پوری گہرائی سے نہیں سمجھ سکتا اور حضرت معاذؓ نے اس راز کو سینے میں دبائے رکھا تاکہ آپ  کے حکم کی نافرمانی نہ ہو جائے اور پھر زندگی کے آخری لمحات میں اسے بیان کر دیا کہ کہیںکتمانِ علم کا جرم ان کے ذمے نہ لکھ دیا جائے. یہاں سے یہ قاعدہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہر بات ہر انسان کو نہیں بتائی جاسکتی. چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا یَعْرِفُوْنَ اَتُحِبُّوْنَ اَنْ یُّکَذَّبَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ (۱’’لوگوں کو اتنی بات بیان کرو جو ان کی سمجھ میں آ سکے. کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلا دیا جائے.‘‘ 

(۸) اہل تشیع

عقیدہ: اہل تشیع کا عقیدہ معتزلہ والا ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب اسلام سے تو نکل جاتا ہے البتہ کفر میں داخل نہیں ہوتا. البتہ اہل تشیع نے ایک قدم آگے بڑھایا اور دنیا میں ہی فیصلے کرنے شروع کر دیے کہ فلاں مومن ہے‘ فلاں مسلمان ہے‘ فلاں منافق ہے اور فلاں کافر ہے. حالانکہ ان چیزوں کے صحیح فیصلے تو قیامت کے روز ہوں گے‘ دنیا میں تو ہم صرف ظاہر کے اعتبار سے فیصلہ کریں گے‘ کسی کا دل چیر کر تو نہیں دیکھ سکتے. اسی جرأت کا نتیجہ ہے کہ اہل تشیع کے نزدیک صرف چند صحابہ مومن تھے باقی کچھ مسلمان‘ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی غالب اکثریت ’’منافق‘‘ تھی. 

اس طویل بحث کے نتیجے میں گناہ کبیرہ سے متعلق آٹھ مسلکوں یا فرقوں کا عقیدہ 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب العلم‘ ح۱۲۷مذکورہ بالا وضاحت کا غالب حصہ تو ڈاکٹر صاحب کے بیان میں موجود تھا‘ البتہ حضرت علیؓ کا قول میری طرف سے تائیدی اضافہ ہے. ( مرتب) ہمارے سامنے آ گیا ہے. ان آٹھ گروہوں کو ایک دوسری ترتیب سے دیکھیں تو یہ کل چار نظر آئیں گے: 

(۱) صرف اقرار: یہ کرامیہ کا قول ہے. یہ لوگ صرف اقرار و نطق کو ہی کافی سمجھتے ہیں. وہ احادیث کو ان کے ظاہری معنی میں لیتے ہیں جن میں کہا گیا ہے : ’’مَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ‘‘. کلمہ پڑھ کر اعمال سے چھٹی ہو گئی‘ اب جو چاہو کرتے رہو. 
(۲) صرف تصدیق: یہ اشاعرہ کا مسلک ہے. ان کے خیال میں جب دل میں ایمان موجود ہے تو اقرار تو خودبخود ہو ہی جائے گا. اِلاَّ یہ کہ انسان مجبور ہو اور مجبور انسان پر عمومی احکام لاگو نہیں ہوتے. 
(۳) تصدیق اور اقرار: یہ مُرجئہ اور فقہائِ احناف کا قول ہے. مُرجئہ کا عقیدہ ہے کہ جب دل میں تصدیق اور زبان پر اقرار موجود ہے تو پھر چاہے گناہ پر گناہ کرتے جائو‘ کوہ ہمالیہ جتنے گناہ بھی کر لو‘ پھر بھی آگ میں داخل ہونے کا سوال ہی نہیں.
تاہم فقہاء احناف کے نزدیک تصدیق و اقرار تو شرط ایمان ہے‘ البتہ اعمالِ صالحہ ضروری ہیں‘ شرط نہیں. لہٰذا اگر نیکیوں کا پلڑا بھاری ہے تو باذن اللہ جنت میں جائے گا ورنہ سزا پا کر جنت میں جائے گا. 

(۴) تصدیق‘ اقرار اور عمل: یہ مسلک محدثین‘ معتزلہ اور خوارج کا ہے. محدثین اعمال کو ایمان حصہ شمار کرتے ہیں. البتہ گناہ کبیرہ کی وجہ سے کسی کو ایمان سے خارج نہیں کرتے. 
معتزلہ 
کے نزدیک گناہ کبیرہ کا مرتکب اسلام سے تو خارج ہو گیا البتہ کفر میں داخل نہیں ہوا کیونکہ ان کے نزدیک اعمال صالحہ ایمان کے لیے شرط کا درجہ رکھتے ہیں. 

خوارج کے نزدیک گناہ کبیرہ کا مرتکب اسلام سے خارج ہو کر کفر میں داخل ہو جاتا ہے اور مُرتد‘ واجب القتل مباح المال و الدم قرار پاتا ہے. 

سابقہ بحث کے لازمی نتائج

٭ خوارج اور کرامیہ گمراہی کی انتہاؤں پر ہیں‘ کیونکہ کرامیہ کے نزدیک صرف اقرار کافی ہے‘ نجات کے لیے نیک اعمال یا برے کردار کا کوئی دخل نہیں. دوسری انتہا پر خوارج ہیں. ان کے نزدیک جس سے گناہ کبیرہ سرزد ہوا وہ فوراً کافر‘ خارج از اسلام‘ واجب القتل اور حلال الدم و المال ہو گیا. یہ دونوں مسلک شدید گمراہی میں مبتلا ہیں.

٭ معتزلہ کا مسلک علمی اعتبار سے شدید مہمل اور بے بنیاد ہے. گناہ کبیرہ کا مرتکب ان کے نزدیک ایمان سے تو نکل گیا البتہ کفر میں داخل نہیں ہوا. گویا ان کے نزدیک اسلام اور کفر کے درمیان کوئی 
no man,s land موجود ہے. حالانکہ اسلام و کفر کے درمیان کوئی تیسری منزل نہیں ہے‘ یا اسلام یا کفر‘ اِدھر یا اُدھر. اس لیے میرے نزدیک علمی اعتبار سے معتزلہ کا موقف مہمل اور بے بنیاد ہے.

٭ فقہاء احناف اور محدثین بشمول امام مالک‘ امام احمد بن حنبل اور امام شافعی رحمہم اللہ کے نزدیک گناہ کبیرہ کا مرتکب دائرہ اسلام میں ہے‘ اس کا ایمان سلامت ہے. تاہم آخرت کا فیصلہ ایمان کے بعد اعمال صالحہ کے مطابق ہو گا. یہی رائے عادلانہ و منصفانہ اور ہر دو طرح کے دلائل کو حاوی و شامل ہے. 

میرا مسلک اور وضاحت

اب میں اپنا مسلک بیان کر رہا ہوں‘ لیکن اس وضاحت کے ساتھ کہ بعض حضرات نے (میرے شدید احتجاج کے علی الرغم) مجھے خوارج اور معتزلہ سے جوڑ دیا ہے. اور میں قسمیں کھا کھا کر کہتا ہوں کہ: 

میرا عقیدہ ہرگز نہیں ہے کہ: ’’گناہ کبیرہ کا مرتکب کافر ہو گیا ہے‘‘ اور نہ ہی میں یہ سمجھتا ہوں کہ: 

’’وہ ایمان اور اسلام دونوں سے نکل گیا ہے‘‘. 
البتہ یہ ضرور سمجھتا ہوں کہ: 

جب کوئی شخص گناہ کبیرہ کے ارتکاب میں عملاً مشغول ہوتا ہے تو اُس وقت اس کا دل ایمان سے قطعاً خالی ہوتا ہے‘ اور جیسے کہ امام ترمذیؒ نے ایک حدیث نبویؐ کے ضمن میں (جس کا ذکر آگے آ رہا ہے) حضرت محمد باقر رحمہ اللہ علیہ کا قول نقل کیا ہے: ’’وہ شخص ایمان سے نکل کر صرف اسلام میں رہ جاتا ہے!‘‘ (’’خَرَجَ مِنَ الْاِیْمَانِ اِلَی الْاِسْلَام!ِ‘‘). البتہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی محولہ بالا حدیث نبویؐ سے‘ جسے امام ترمذیؒ نے ابواب الایمان میں درج کیا ہے اور امام ابو دائودؒ نے کتاب السنۃ میں شامل کیا ہے‘ معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی بندۂ مومن گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے تو ایمان اس کے دل سے نکل کر اس کے سر پر سائبان کی طرح معلق ہو جاتا ہے. پھر جب وہ بندہ اپنے فعل قبیح سے فارغ اور خارج ہو جاتا ہے تو ایمان بھی واپس دل میں داخل ہو جاتا ہے !! تو اگرچہ سورۃ الفرقان کی آیات ۶۸ تا ۷۰ کی روسے بھی اور عقلی و منطقی اعتبار سے بھی‘ یہ محسوس ہوتا ہے کہ گناہ کبیرہ کے ارتکاب کے بعد ’’تجدید ایمان‘‘ توبہ سے مشروط ہونی چاہیے لیکن اسے بھی سورۃ الحجرات کی آیت ۱۴ کی طرح اللہ تعالیٰ کی شانِ رحیمی و غفاری کا مظہر اور صدقہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ باضابطہ توبہ کا انتظار نہیں کرتا بلکہ گناہ سے فراغت کے فوراً بعد ایمان لوٹا دیتا ہے. واللہ اعلم! 

ایک مشکل اور اس کا حل

جن آیاتِ قرآنی یا احادیث میں بدعملی یا گناہوں کی بنیاد پر ایمان کی نفی کی گئی ہے یا خلود فی النار (ہمیشہ آگ میں رہنا) کی وعید آئی ہے‘ جب آپ ان کی ترجمانی کریں گے تو ایک صورت تو یہ ہے کہ آپ کہیں کہ: ’’اس میں کمال ایمان کی نفی ہے‘ نفس ایمان کی نفی نہیں ہے‘‘.

اس ترجمے سے لوگوں کے لیے ترہیب‘ انذار‘ خوف اور دھمکی کا عنصر ختم ہو جاتا ہے. میرے نزدیک نصوص قرآنی و احادیث کو ان کے اصلی الفاظ کے ساتھ باقی رکھنا چاہیے. البتہ حاشیہ میں یہ وضاحت آ جائے کہ اس سے مراد ایسا کفر نہیں ہے جو انسان کو حدودِ اسلام سے نکال کر حدودِ کفر میں داخل کر دے! 

مثلاًحدیث کے الفاظ ملاحظہ کریں: وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ ’’ خدا کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہے‘ قسم بخدا وہ شخص مومن نہیں ہے‘ اللہ کی قسم وہ شخص مومن نہیں ہے‘‘. تصور کیجیے کہ سننے والا انسان کانپ اُٹھے گا.

دوسرا ترجمہ ملاحظہ کریں: ’’خدا کی قسم وہ شخص حقیقی مومن نہیں ہے‘ خدا کی قسم اس کا ایمان کامل نہیں ہے‘ اللہ کی قسم اس شخص کے پاس کمال ایمان نہیں ہے‘‘. ذرا غور کریں کہ سننے والے پر ذرا اثر بھی نہ ہو گا. وہ دل میں خیال کرے گا کہ کمال ایمان تو بڑی دُور کی چیز ہے‘ ہمیں تو ٹارچ والا ایمان مل جائے تو بہت غنیمت ہے. اس کے بعد کون آدمی دین کی خاطر قربانی دے گا اور کون عیش و عشرت چھوڑ کر کانٹوں بھری راہ کا انتخاب کرے گا. 
دوسری طرح ترجمہ کرنے سے ترہیب و تخویف کا سارا زور ختم ہو گیا. یہی بات مولانا محمد منظور نعمانی ( رحمہ اللہ علیہ) نے اپنی معرکۃ الآراء تالیف ’’معارف الحدیث‘‘ جلد اول میں لکھی ہے کہ ’’اس قسم کی احادیث کی نحوی ترکیب میںتامًّا یا کاملاً جیسے الفاظ مقدر 
(understood) ماننے کی بالکل ضرورت نہیں ہے‘ بلکہ ایسا کرنا ایک قسم کی بد ذوقی ہے.
میں تو ایک قدم آگے بڑھا کر یہ کہتا ہوں کہ میرے نزدیک یہ نبی  کی توہین ہے. کیا نبی اکرم  کو (معاذ اللہ) عربی نہیں آتی تھی؟ کیا آپؐ اپنے ما فی الضمیر کو بیان نہیں کر سکتے تھے؟ کیا آپؐ یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ میں کمال ایمان کی نفی کر رہا ہوں حقیقی ایمان کی نفی نہیں کر رہا‘ جبکہ آپؐ نے کمال ایمان کو مثبت انداز میں بیان فرمایا ہے: 

مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَ اَبْغَضَ لِلّٰہِ وَ اَعْطٰی لِلّٰہِ وَ مَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ 
(۱(۱) سنن ابی داوٗد‘ کتاب السنۃ‘ باب الدلیل علی زیادہ الایمان‘ ح۴۶۸۱. و مسند احمد ۳/۴۳۸ (بروایت ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ) . دوسری روایت حضرت معاذ بن انس الجہنیؓ سے ہے. سنن الترمذی‘ کتاب صفۃ القیامۃ‘ باب ۶۱‘ ح۲۵۲۳علامہ الالبانی نے تحقیق سنن ابی دائود میں حدیث کو صحیح کہا ہے. نیز ملاحظہ ہو سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ۱/۶۵۷‘ ح۳۸۵

’’جس نے محبت کی تو اللہ کے لیے کی‘ اور عداوت (دشمنی) رکھی تو اللہ کے لیے رکھی‘ کسی کو کچھ دیا تو اللہ کے لے دیا اور کسی سے کچھ روکا تو اللہ کے لیے روکا‘ اس شخص نے اپنے ایمان کو کامل کر دیا.‘‘

جب مثبت معنی میں 
’’اسْتَکْمَلَ‘‘ کا لفظ استعمال ہو سکتا ہے تو منفی معنی میں بھی اس لفظ کو استعمال کرنا آپ  کے لیے مشکل یا محال نہ تھا. آپؐ تو افصح العرب ہیں.
ذرا غور کریں کہ آپ  تو فرما رہے ہیں: 
وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ‘ تاکہ لوگ لرز اُٹھیں‘ کانپ جائیں ہوش میں آ جائیں. ہو سکتا ہے کہ بے شعوری میں کسی کا طرزِ عمل ایسا ہو‘ اس سے غلطی سرزد ہو رہی ہو اور یہ الفاظ سن کر وہ فوراً چونک جائے‘ اپنے گریباں میں جھانکے اور اپنا محاسبہ کرے کہ کہیں ان الفاظ کا مصداق میں تو نہیں بن رہا. لہٰذا اس قسم کی آیات و احادیث کا ترجمہ کرتے وقت ان کے الفاظ پر قائم رہنا چاہیے‘ البتہ حاشیہ میں یا کسی مناسب جگہ پر وضاحت کر دی جائے کہ یہاں ایمان کی نفی ہو رہی ہے‘ اسلام کی نفی نہیں ہو رہی. اس مضمون کو ہم آگے چل کر تفصیل سے بیان کریں گے‘ لیکن یہاں صرف ایک مثال دیکھ لیں. اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 

وَ مَنۡ یَّقۡتُلۡ مُؤۡمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیۡہَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَ لَعَنَہٗ وَ اَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیۡمًا ﴿۹۳﴾ 
(النسائ) 
’’اور جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے (۱) اس کا بدلہ جہنم ہے (۲) وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہے گا (۳) اللہ کا غضب اس پر ہے (۴) اور اللہ کی لعنت اس پر ہے (۵) اور اللہ نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے.‘‘

اس آیت کو پڑھ کر ہوش ٹھکانے آ جاتے ہیں جس طرح کہ مذکورۃ الصدر حدیث میں وارد الفاظ: 
وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ کو سن کر انسان کانپ اُٹھتا ہے. ذرا غور کریں کہ ڈرانے‘ دھمکانے‘ ترہیب اور لرزانے کے جس قدر اسلوب ممکن تھے سارے کے سارے اس آیت میں جمع ہو گئے ہیں. الفاظ پر دوبارہ غور فرمائیں: فَ جَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ (اس کا بدلہ جہنم ہے) خَالِدًا فِیْہَا (وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہے گا) وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ (اور اس پر اللہ کا عذب ہے) وَلَعَنَہٗ (اور اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے) وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا (اور اس کے لیے عذاب عظیم تیار کر رکھا ہے). حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ (۱نے آیت کی ترجمانی کرتے ہوئے بریکٹ میں اضافہ کر کے جو عبارت بنائی ہے وہ کچھ یوں ہے:

’’اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کر ڈالے تو اس کی (اصلی) سزا (تو) جہنم (میں اس طرح رہنا) ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہے گا. (لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ یہ اصلی سزا جاری نہ ہو گی‘ بلکہ ایمان کی برکت سے آخر نجات ہو جائے گی) اور اس پر (ایک میعاد معین تک کے واسطے) اللہ تعالیٰ غضبناک ہوں گے‘اور اس کو اپنی رحمت (خاصہ) سے دُور کریں گے اور اس کے لیے بڑی سزا (یعنی سزاءِ دوزخ) کا سامان کریں گے.‘‘

اب ذرا غور کریں کہ فقیہانہ احتیاط کی وجہ سے مذکورہ آیت میں جو اسلوبِ ترجمانی اختیار کیا گیا ہے اس کو پڑھ کر کسی کے دل میں ذرا خوف‘ گھبراہٹ یا چنتا پیدا ہو گی؟ اس پر لرزہ طاری ہو گا؟ میرا موقف یہ ہے کہ فتوے کے اعتبار سے حضرت مفتی صاحب کا موقف صد فی صد درست ہے. اگر دل میں ایمان ہے تو واقعتا جہنم میں خلود (ہمیشگی) نہیں ہو گا‘ وہ سزا پا کر بالآخر نکل آئے گا. اس مسئلے کو علیحدہ کتابچے کی شکل میں شائع کر کے لوگوں میں عام کر دیا جائے‘ البتہ اس آیت کی ترجمانی کرتے ہوئے یہ سارے اضافے کر کے اس کی تاثیر کو ختم نہ کیا جائے. 


بزرگوں کے اعتراضات اور میرا موقف

’’راہ نجات سورۃ العصر کی روشنی میں‘‘ میرا معروف کتابچہ ہے. ہمارے شہر (۱) جناب مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ علیہ کا میں بہت احترام کرتا ہوں. آپ کی فقاہت‘ تدین ‘ تقویٰ سب کچھ مسلّم ہے. میں ان کے قریب رہا ہوں‘ کچھ عرصہ تک کورنگی میں ان کے دارالعلوم کے قریب میری رہائش رہی ہے‘ گھریلو مراسم بھی تھے‘ بہت شفقت فرماتے تھے. (ماخوذ) کے معروف مفتی مولانا جمیل احمد تھانوی صاحب نے میری اس تحریر پر ستر کے قریب اعتراضات وارد کر دیے. ان کا فرمان تھا کہ میری اس تحریر سے تو ایمان ہی کی نفی ہو جاتی ہے. میں نے جناب کی بات کا زیادہ نوٹس نہ لیا. اس کے بعد میرا یہی کتابچہ‘ جو صدیقی ٹرسٹ کراچی نے شائع کیا تھا اور اس میں کتابت کی بھی بے شمار غلطیاں تھیں‘ کسی نے مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ علیہ کی خدمت میں ان کے اواخر عمر میں نشان زد کر کے پیش کر دیا. اسے دیکھ کر مولانا مرحوم نے فرمایا کہ یہ موقف صحیح نہیں ہے. چنانچہ اس وقت سے میں نے اس کتابچے کے کور پر درج ذیل تحریر کی اشاعت کا اہتمام کیا کہ:

’’اس کتابچے پر بعض بزرگوں نے گرفت فرمائی ہے کہ اس کی بعض عبارات سے عاصی اور گناہ گار اہل ایمان کے اپنے گناہوں کے بقدر سزا پانے کے بعد جہنم سے رہائی پانے کی نفی ہوتی ہے. میں اس سے براء ت کرتا ہوں. میری رائے بھی یہی ہے کہ جس مسلمان کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا وہ بالآخر جہنم سے نجات پا جائے گا. اس کتابچے میں جہاں جہاں لفظ نجات آیا ہے اس سے مراد ’’اول مرحلے میں نجات‘‘ ہے. یعنی یہ کہ انسان کو جہنم میں بالکل ڈالا ہی نہ جائے اور میدانِ حشر ہی میںرحمت و مغفرت خداوندی اس پر سایہ فگن ہو جائے. مزید برآں اس کتابچے کی زبان قانون اور فتوے کی نہیں بلکہ ترغیب و ترہیب کی ہے‘ ورنہ میرا موقف بھی وہی ہے جو امام اعظم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ کا‘ یعنی گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے بھی کوئی شخص کافر نہیں ہوتا بلکہ مسلمان ہی رہتا ہے!‘‘ 


اشکالات کا آسان حل

اہل سنت کے موقف کی عام فہم تعبیر کیا ہے؟ اس کے لیے چار نکات پر غور کر لیں تو بات واضح ہو جائے گی. 

۱. ایمانِ مطلوب

تصدیق بالقلب اور اقرار باللسان ایمان مطلوب کے دو اہم حصے ہیں.

۲. قانونی ایمان

ظاہری‘ خارجی اور قانونی ایمان کا دارومدار قول پر ہے اور یہی دنیا میں معتبر ہے. اس درجے میں عمل ایک جداگانہ وجود بن جاتا ہے. الاّ یہ کہ کوئی انسان ایسا عمل کرے جو کھلم کھلا کفر یا شرک کا درجہ رکھتا ہو (۱ورنہ عام کبائر کا معاملہ علیحدہ رہے گا. اس طرح عمل علیحدہ رہے گا اور ایمان علیحدہ رہے گا‘ اور اسی ظاہری و قانونی شکل کا نام اسلام (۲ہے جس کا سب سے بڑا رکن زبان سے شہادتین کا اقرار کرنا ہے. حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ  کا فرمان ہے: 

بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ: شَہَادَۃِ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِ‘ وَاِیْتَائِ الزَّکَاۃِ‘ وَ حَجِّ الْبَیْتِ وَ صُوْمِ رَمَضَانَ 
(۳
’’اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر رکھی گئی ہے: (۱) لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دینا (۲) نماز قائم کرنا (۳) زکوٰۃ ادا کرنا (۴) بیت اللہ کا حج کرنا (قرآن و حدیث میں استطاعت کی شرط کے ساتھ ہے). (۵) رمضان کے روزے رکھنا.‘‘
 

۳. حقیقی ایمان

حقیقی ایمان قلبی ایمان ہے. آخرت میں حساب کتاب اور فیصلوں کا دارومدار (۱) اس کی تفصیل گزشتہ صفحات میں گزر چکی ہے. 

(۲) ذرا غور کریں کہ اسلام صرف اقرار کا نام نہیں بلکہ حدیث میں موجود پانچ اعمال کے مجموعے کا نام ہے. پھر اسلام کے نام پر اعمال کو ایمان سے علیحدہ کرنے کا کیا ببر؟ اس فکر کا نتیجہ ہے کہ ہر کلمہ گو اپنے آپ کو مکمل مسلمان بلکہ کامل مومن سمجھ کر عمل سے بے نیاز ہو گیا ہے. (اضافہ از مرتب) 

(۳) صحیح البخاری‘ کتاب الایمان‘ باب۱‘ ح۸. و صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان ارکان الاسلام‘ ح۱۶
اسی حقیقی ایمان پر ہے. اس مرحلے پر اعمالِ صالحہ ایمان کا جزو بن جاتے ہیں کیونکہ یقین موجود ہو اور عمل موجود نہ ہو یہ کیسے ممکن ہے؟ اس موضوع کو مزید تفصیل اور دلیل سے دیکھنے کے لیے میرا معروف کتابچہ: ’’راہِ نجات سورۃ العصر کی روشنی میں‘‘ ضرور مطالعہ فرما لیں. 

۴. کمال ایمان

کمال ایمان کے لیے اسلام کے بعد ایمان اور پھر درجہ احسان مطلوب ہے. چنانچہ سورۃ النساء میں فرمایا: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا ﴿۱۳۶
(النسائ) 
’’اے ایمان والو! ایمان لاؤ اللہ پر‘ اور اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر نازل فرمائی اور اس کتاب پر جو اس نے پہلے نازل فرمائی‘ اور جو شخص کفر کرے اللہ کے ساتھ اور اس کے فرشتوں کے ساتھ اور اس کے کتابوں کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ اور آخرت کے دن کے ساتھ تو وہ شخص بہت دُور کی گمراہی میں نکل گیا.‘‘

آیت مذکورہ میں خطاب مومنوں سے ہے اور انہیں کہا جا رہا ہے کہ ایمان لائو. مثلاً ایک شخص ہندو‘ عیسائی یا پارسی تھا‘ اس نے جونہی کلمہ پڑھا وہ قانوناً مسلمان ہو گیا. ایسے شخص سے کہا جا رہا ہے اس پر اکتفا نہ کرو‘ اصل ایمان تو تب ہو گا جب یہ دل میں داخل ہوگا. اس اصل ایمان کو حاصل کرنے کی فکر کرو‘ یہی آخرت میں کام آئے گا. آگے چل کر سورۃ المائدہ میں فرمایا: 

لَیۡسَ عَلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیۡمَا طَعِمُوۡۤا اِذَا مَا اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا ثُمَّ اتَّقَوۡا 
وَّ اَحۡسَنُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿٪۹۳﴾ (المائدۃ) 
’’نہیں ہے ان لوگوں پر جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے کوئی گناہ یا حرج اس چیز میں جو انہوں نے کھایا یا پیا جبکہ انہوں نے تقویٰ اختیار کیا‘ پھر اور ایمان لے آئے پھر اور تقویٰ اختیار کیا‘ پھر اور ایمان لے آئے اور تقویٰ اختیار کیا‘ پھر وہ درجہ احسان پر فائز ہو گئے‘ اور اللہ تعالیٰ محسنین کو پسند فرماتا ہے.‘‘ 
(۱

سورۃ النساء آیت ۱۳۶ میں فرمایا گیا تھا: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ الۡکِتٰبِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنۡ قَبۡلُ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا ﴿۱۳۶
(النسائ) 
معلوم ہوا‘ ایمان کے دو درجے ہیں‘ پہلے درجے میں عمل صالح علیحدہ شے ہے. دوسرے درجے میں (یعنی قلبی ایمان والے درجے میں) عمل ایمان کا جزو بن گیا. لہٰذا آیت میں لفظ ’’عمل‘‘ کی تکرار نہیں کی گئی. 

نوٹ: یہاں یہ بات نوٹ کر لیں کہ عمل صالح جن لوگوں کے ایمان کا جزو بن چکا اور پھر انہوں نے مزید تقویٰ اختیار کیا تو اس طرح وہ لوگ درجہ احسان تک پہنچ گئے. 

حدیث جبریل ؑ میں اسلام‘ ایمان اور احسان کا فرق واضح کیا گیا ہے اور یہ حدیث اُم السُّنۃ کہلاتی ہے. یہ حدیث بخاری و مسلم میں ہے اور حضرات عمر‘ عبداللہ بن عمر‘ عبداللہ بن عباس اور ابو ہریرہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے. 
(۱) اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ جب شراب کی حرمت کا آخری حکم آیا تو بہت سارے صحابہ کرامj کو تشویش لاحق ہو گئی کہ ہم تو عرصے سے شراب پئے جا رہے ہیں‘ شراب تو ہمارے وجود میں رچ بس گئی ہے‘ تو اب ہمارا کیا بنے گا؟ اس تشویش کو ختم کرنے کے لیے یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تاکہ اہل ایمان کو اطمینان خاطر حاصل ہو جائے اور ساتھ ہی آیت کے دوسرے حصے میں ایمان‘ عمل صالح اور احسان کے باہمی ربط و تعلق کو واضح کر دیا. (ماخوذ)

اسلام

حضرت جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ  سے دریافت کیا (۱اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِسْلَامِ (مجھے اسلام کے متعلق بتلائیں) آپ نے ارشاد فرمایا: 

اَلْاِسْلَامُ اَنْ تَشْھَدَ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَ تُقِیْمَ الصَّلَاۃَ وَ تُوْتِیَ الزَّکَاۃَ وَ تَصُوْمَ رَمَضَانَ وَ تَحُجَّ الْبَیْتَ اِنِ اسْتَطَعْتَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً 

’’اسلام یہ ہے کہ تم لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی شہادت دو (یہاں شہادت کا لفظ ہے ایمان کا نہیں) نماز قائم کرو‘ زکوٰۃ ادا کرو‘ رمضان کے روزے رکھو اور اگر (جانی و مالی) استطاعت ہو تو بیت اللہ کا حج کرو.‘‘

نوٹ کر لیں کہ اس عبارت میں ایمان کا لفظ استعمال نہیں ہوا کیونکہ یہاں یقین والی بات نہیں ہے بلکہ ظاہری اطاعت والی بات ہے. 

ایمان

جبریل علیہ السلام نے دریافت کیا: اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِیْمَانِ (مجھے ایمان کے متعلق بتلائیں) 

آپ نے فرمایا: 

اَنْ تُوْمِنَ بِاللّٰہِ وَ مَلٰئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیُوْمِ الْاٰخِرِ وَ تُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَ شَرِّہٖ 
’’یہ کہ تم ایمان لاؤ اللہ پر‘ اس کے فرشتوں پر‘ اس کی کتابوں پر‘ اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر‘ اور یہ کہ تم ایمان لاؤ اچھی بری تقدیر پر.‘‘ 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب الایمان‘ باب ۳۶‘ ح۵۰. و صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب۱‘ ح۹مختلف سندوں کے ساتھ (بروایت ابو ہریرہ) و صحیح مسلم‘ ح۸ (بروایت عمرؓ ) باقی صحابہ کی روایات دیگر کتب حدیث میں موجود ہیں‘ ملاحظہ ہو جمع الفوائد‘ ج۱‘ ص۹ ‘ اور بعد

احسان

حضرت جبریل علیہ السلام نے دریافت کیا: اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِحْسَانِ (مجھے احسان کے بارے میں بتلائیں) آپ نے فرمایا: 

اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہٗ‘ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہٗ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ (۱
’’(احسان یہ ہے) کہ تم اللہ کی عبادیت اس کیفیت کے ساتھ کرو گویا کہ تم بچشم خود اسے دیکھ رہے ہو. اگر خود دیکھنے والی کیفیت پیدا نہیں ہوتی (تو کم از کم یہ کیفیت ضرور ہو کہ) اللہ تو تم کو دیکھ رہا ہے.‘‘

جب ایمان کی کیفیت اس شدت کو پہنچ جائے تو وہ احسان بن جاتا ہے. 
زیر نظر حدیث جبریل علیہ السلام کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ یہ تین درجے ہیں: اسلامایمان احسان. 

اور سورۃ المائدۃ کی آیت ۹۳ کے مطالعے سے ہم معلوم کر چکے ہیں کہ ایمان‘ پھر ایمان‘ پھر احسان. تو معلوم ہوا کہ پہلے ایمان سے مراد اسلام ہی ہے. یعنی قانونی ایمان‘ پھر حقیقی ایمان‘ پھر گہرا اور راسخ ایمان یعنی احسان. اس موضوع کو مزید تفصیل بلکہ گہرائی سے جاننے کے لیے سورۃ الحجرات کی آیت ۱۴ سے واضح راہنمائی حاصل ہوتی ہے. فرمایا: 

قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ وَ اِنۡ تُطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَا یَلِتۡکُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِکُمۡ شَیۡئًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴﴾ 
(الحجرات) (۱) اس حدیث کی مختلف روایات میں کچھ دوسرے الفاظ روایت ہوئے ہیں‘ انہیں بھی سمجھ لینا چاہیے. قَالَ: اَنْ تَخْشَی اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہٗ… الخ (صحیح مسلم‘ ح۱۰‘ عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ) ’’یہ کہ تم اللہ سے اس طرح ڈرو جیسے کہ خود اسے دیکھ رہے ہو‘‘. دوسری روایت میں ہے: ’’ اَنْ تَعْمَلَ لِلّٰہِ کَاَنَّکَ تَرَاہٗ‘‘ (مجمع الزوائد ۱/۱۹۱ ح۱۱۲‘ بروایت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما) ’’یہ کہ تم اللہ کی خاطر کام کرو تو اس طرح کرو جیسے کہ تم خود اسے دیکھ رہے ہو.‘‘ ’’یہ بدوی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے. (اے نبیؐ ان سے) کہہ دیجیے کہ تم ہرگز ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لے آئے (یا ہم نے اطاعت قبول کر لی ہے) ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا. البتہ اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو گے تو اللہ تمہارے اعمال میں کچھ کمی نہیں کرے گا‘ بے شک اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے.‘‘

انہی حقائق کی روشنی میں امام تیمیہ رحمہ اللہ علیہ نے اپنی معرکۃ الآرا کتاب ’’الایمان‘‘ میں ایک فصل کا نام ہی ان الفاظ میں تجویز کیا ہے: 
’’وقد اثبت اللّٰہ فی القرآن اسلامًا بلا ایمان‘‘ اور سورۃ الحجرات کی محولہ بالا آیت بطور دلیل پیش کی ہے. سابقہ دلائل کی روشنی میںنتیجہ یہ نکلا کہ ظاہری اور قانونی ایمان کا نام اسلام ہے‘ دل کی گہرائی اور تصدیق بلا ریب سے حاصل ہونے والا ایمان ’’حقیقی ایمان‘‘ ہے اور ایمان کی گہرائی اور شدت جو ہر آن انسان کے اعمال پر اثر انداز ہو کر خشیت الٰہی کا مظہر بنے وہ کامل و مکمل ایمان یا بالفاظ دیگر احسان ہے.

غلطی… اعتراف… اصلاح

ایمان کی تعریف کے ضمن میں مجھ سے کئی موقعوں پر ایک غلطی سرزد ہوئی ہے جس کا میں برملا اعتراف کرنا چاہتا ہوں تاکہ میرے حوالے سے غلط بات نقل نہ کی جائے. ہوا یوں کہ میں نے امام ابو حنیفہ اور امام بخاری رحمہ اللہ علیہ کے موقف کا آپس میں تقابل کرتے ہوئے کہا کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک: ’’الایمان قولٌ‘‘ ہے اور امام بخاری کے نزدیک: ’’الایمان قولٌ و عملٌ‘‘ ہے. اس پر ماہنامہ ’’بیّنات‘‘ کراچی میں گرفت کی گئی کہ میں نے امام ابو حنیفہؒ کے موقف کو صحیح بیان نہیں کیا‘ کیونکہ امام موصوف کے نزدیک ایمان کی صحیح اور مکمل تعریف یہ ہے: ’’الایمان تصدیقٌ و اقرارٌ‘‘ . میں اس غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی اصلاح کرتا ہوں اور جن حضرات نے میری تقریر یا تحریر میں یہ غلطی پائی ہو وہ بھی اصلاح فرما لیں. 

ایک وضاحت

اپنی غلطی کا برملا اعتراف اور اعلانِ اصلاح کے بعد ایک بات کی طرف توجہ مبذول کروانا ضروری سمجھتا ہوں کہ:

(۱) تصدیق قلبی دنیا میں ہماری تفتیش کا موضوع بن ہی نہیں سکتی کیونکہ اس کا فیصلہ تو آخرت میں ہو گا. چنانچہ دنیا کے اعتبار سے تو زیر غور قول یا اقرار ہی باقی رہ گیا.
(۲) جب امام ابو حنیفہ اور امام بخار ی رحمہ اللہ علیہ کی آراء کے درمیان تقابل ہو رہا ہو تو گفتگو باعث اختلاف نکتے پر ہو گی. اور اختلاف تصدیق پر نہیں ہے‘ بلکہ امام ابو حنیفہ صرف قول کو کافی قرار دیتے ہیں جبکہ امام بخاری و دیگر محدثین قول پر عمل کا اضافہ بھی کرتے ہیں.

اس اعتبار سے برائے تقابل ہماری بات غلط نہ تھی‘ اس کے باوجود میں نے اپنی لفظی غلطی کا اعتراف کر کے اصلاح کا اعلان کیا ہے.