یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ (المائدۃ: ۶۷)
’’اے پیغمبر! جو کچھ تمہارے ربّ کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو. اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا.‘‘
اور رسول اکرمﷺ نے یہی حکم اپنی اُمت کو دیا. فرمایا:
بَلِّغُوْا عَنِّی وَلَوْ آیَۃً (۱)
’’میری طرف سے دوسروں کو پہنچا دو‘ خواہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو.‘‘
کیونکہ یہ قرآن ہی تبشیر و انذار کا صحیح ذریعہ ہے. متعدد آیاتِ قرآنیہ اس مضمون کو بیان کر رہی ہیں. بس ذرا توجہ سے قرآن حکیم کو پڑھنے کی ضرورت ہے.
البتہ جب مرحلۂ دعوت و تبلیغ اور انذار و تبشیر سے آگے قدم بڑھا کر میدانِ کارزار میں اتریں گے تو طاقت کا طاقت سے ٹکراؤ ہو گا. اس موقع پر جسمانی طاقت اور اسلحہ کی طاقت آپس میں ٹکرائے گی. ایسے ہی موقع کی مناسبت سے آپﷺ نے طاقتور مومن کو دوسرے کے مقابلے میں ’’خیر‘‘ قرار دیا ہے. فرمایا:
المُؤْمِنُ الْقَوِیُّ خَیْرٌ وَاَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ مِنَ الْمُؤْمِنُ الضَّعِیْف (۲)
’’طاقتور مومن کمزور مومن کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے اور اللہ کو زیادہ محبوب ہے.‘‘ (۱)
صحیح البخاری‘ کتاب الانبیائ‘ باب ما ذکر عن بنی اسرائیل ح۳۲۷۴. وسنن الترمذی‘ کتاب العلم‘ باب ما جاء فی الحدیث عن بنی اسرائیل ح۲۶۷۱.
(۲) صحیح مسلم‘ کتاب القدر‘ باب فی الامر بالقوۃ… الخ‘ ح۲۶۶۴. و سنن ابن ماجہ‘ المقدمہ‘ باب فی القدر‘ ح۷۹. و مسند احمد ۲/۳۷۰. استاذ احمد شاکر نے حدیث کو صحیح قرار دیا ہے‘ شرح احمد شاکر‘ ح۸۸۱۵. علامہ اقبال نے جہاد کے لیے جینے اور اس راہ میں مرنے کے لیے مضبوط جسم و جان کی اہمیت ان الفاظ میں بیان کی ہے:
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے!
ہماری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان حقیقی کا لازمی نتیجہ (inevitable result) جہاد فی سبیل اللہ ہے. اگر دعوائے ایمان کے ساتھ جہاد شامل ہے تو ایمان حقیقی ہے ورنہ بس قانونی اسلام ہے‘ کیونکہ جہاد ارکانِ اسلام میں تو شامل نہیں‘ البتہ حقیقی ایمان کا رکن رکین ہے. سورۃ الحجرات آیت۱۵ میں ایمانِ حقیقی کے دو رُکن بیان ہوئے ہیں:
(۱) دل میں غیر متزلزل ایمان‘ جس میں شک کا شائبہ تک نہ ہو.
(۲) عمل میں جہاد‘ جو اصلاحِ نفس سے شروع ہو کر قتال تک جاتا ہو.