ایمان اور عمل کا باہمی تعلق کیا ہے؟ کیا ایمان و عمل کے درمیان لازم و ملزوم کا رشتہ ہے؟ آیا عمل ایمان کا جزو ہے یا اضافی چیز ہے؟ آیا گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے انسان صرف ایمان سے نکلتا ہے یا ایمان و اسلام دونوں سے نکل کر کفر میں داخل ہو جاتا ہے؟ آیا گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے انسان کے ایمان و اسلام پر کوئی اثر نہیں پڑتا یا کم و بیش کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے؟ ان سوالات کا جواب ہم بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کر چکے ہیں. اس ضمن میں آٹھ مسلکوں کے موقف اور دلائل کو ایک نظر دوبارہ دیکھ لیں. 

ایک اصولی قاعدہ

قرآن حکیم کا شروع سے آخر تک اہتمام سے بغور مطالعہ کر لیں تو شاذ (۱ہی کوئی مقام نظر آئے گا کہ جہاں ایمان کے ساتھ عمل صالح (۲کا تذکرہ نہ ہو. اکثر و بیشتر ’’اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ‘‘ کے الفاظ وارد ہوئے ہیں. سورۃ العصر غالباً سب سے چھوٹی سورۃ ہے‘ اس میں بھی نہ صرف ایمان کے بعد عمل صالح کا ذکر ہے بلکہ اس کی مزید دو شاخوں کا بھی تذکرہ ہے. درحقیقت ’’توصی بالحق و تواصی بالصبر‘‘ عمل صالح ہی کی دو شاخیں ہیں. (۱) استثناء ات تو ضرور موجود ہیں اور جہاں بھی استثناء ہے اس کے لیے کوئی نہ کوئی قرینہ بھی موجود ہے. (ماخوذ)

(۲) قرآن حکیم میں ایمان کے ساتھ اجمالاً یا تفصیلاً عمل صالح کا ذکر ۷۸ بار آیا ہے. (اضافہ از مرتب ابو عبدالرحمن) 
عربی زبان میں ’’واؤ‘‘کے مختلف استعمالات ہیں‘ کہیں ’’واؤ‘‘ عطف کے لیے استعمال ہوتی ہے اور کہیں تفسیر و بیان کے لیے لائی جاتی ہے. اس کے علاوہ بھی ’’واؤ‘‘ کے متعدد استعمال ہیں. ’’اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ‘‘ میں ’’واؤ‘‘ کو اگر عطف کے لیے مان لیا جائے تو مغائرت کے معنی دے گی‘ یعنی ایمان اور چیز ہے اور عمل دوسری چیز‘ اور یہ دو علیحدہ حقائق (entities) ہیں‘ لیکن اگر ’’واؤ‘‘ کو تفسیری قرا دے دیا جائے (’’واو‘‘ کے مابعد والی عبارت ماقبل کی تفسیر بیان کر رہی ہے) تو پھر ان دونوں میں باہمی تلازم ثابت ہو جائے گا‘ جیسا کہ علامہ شبیر بخاری صاحب نے اپنے خطاب میں فرمایا تھا کہ علامہ فارابی اور دورِ حاضر کے مفکرین میں سے سید قطب شہیدؒ کی رائے یہ ہے کہ:

’’ایمان و عمل صالح کا باہمی تعلق یوں سمجھ لیں کہ ایک ایمان غیر مرئی ہے جو دل میں ہوتا ہے اور کسی کو نظر نہیں آتا اور ایک ایمان مرئی ہوتا ہے جو اعمال و کردار کی شکل میں نظر آتا ہے اور وہ ہے عمل صالح.‘‘

یہ تعبیر کا ایک انداز ہے. ایمان اور عمل صالح کے حوالے سے جو آٹھ مسلک بیان ہوئے تھے‘ ان کا خلاصہ ایک نظر دیکھ لیں تاکہ اگلی بات سمجھنی آسان ہو جائے: 

خوارج: 
گناہ کبیرہ کا مرتکب ایمان و اسلام دونوں سے خارج ہو کر کافر ہو گیا‘ لہٰذا مرتد‘ واجب القتل‘ مباح الدم اور مباح المال ہے. 

معتزلہ: 
ایمان و اسلام سے خارج‘ البتہ کفر میں داخل نہیں ہوا‘ لہٰذا نہ مرتد‘ نہ واجب القتل اور نہ ہی مباح المال ہے. 

اہل تشیع: 
گناہ کبیرہ کا مرتکب ایمان سے خارج‘ البتہ مسلمان یا منافق. (۱(۱) اہل تشیع نے ایک زیادتی اور کی ہے کہ یہ فیصلے اسی دنیا میں کرنے شروع کر دیے کہ فلاں مومن ہے‘ فلاں مسلمان ہے اور فلاں منافق ہے‘ حالانکہ ایمان اور نفاق کا صحیح فیصلہ تو قیامت کے روز ہی ہو سکتا ہے‘ اس دنیا میں ممکن ہی نہیں. اس سے بڑی جسارت انہوں نے صحابہ کرامj کے بارے میں کی ہے کہ چند ایک کو مومن قرار دے کر باقی غالب اکثریت کو یا مسلمان مانا یا پھر منافق قرار دے دیا ہے والعیاذ باللّٰہ (ماخوذ) محدثین: یعنی امام مالک‘ امام شافعی‘ امام احمد بن حنبل‘ امام بخاری اور عموم محدثین ( رحمہم اللہ) کا موقف یہ ہے کہ عمل ایمان کا جزو لازم ہے‘ البتہ گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے انسان اسلام سے خارج نہیں ہوتا (۱بلکہ کیفیت ایمان میں کمی آ جاتی ہے. 

احناف: 
سید الفقہاء امام ابو حنیفہ و دیگر احناف( رحمہم اللہ) کے نزدیک عمل ایمان کا جزو نہیں ہے بلکہ یہ ایک علیحدہ حقیقت (entity) ہے. اور اس دنیا میں ایمان کا پیمانہ دعوائے تصدیق اور اقرار باللسان ہو گا. 

اشاعرہ: ان کے نزدیک ایمان صرف تصدیق کا نام ہے‘ اقرار بھی شرط نہیں‘ صرف اجراء احکام کے لیے ’’اقرار باللسان‘‘ ایک قانونی ضرورت ہے. 

مُرجئہ: صرف اعتقاد کافی ہے اور مجرد اعتقاد ہی ’’نجات من النار‘‘ کا ضامن ہے. 

کرامیہ: 
اگر صرف زبانی کلمہ توحید کا اقرار کر لیا تو بھی نجات کے لیے کافی ہے‘ دل میں تصدیق نام کی کوئی شے ہے ہی نہیں‘ لہٰذا اس سے کوئی بحث نہیں اور عمل بھی کسی درجے میں شرط نہیں. 

ہمارے معاشرے میں بے عملی و بدعملی کی بنیادی وجہ

ہمارے ہاں علماء کرام‘ فقہاء عظام اور مفتیانِ دین پر جب فقیہانہ اور مفتیانہ انداز غالب آ جاتا ہے تو قرآن حکیم اور احادیث رسول اللہ میں جہاں جہاں انذار و ترہیب کا بیان آیا ہے جن میں بے عملی یا بدعملی کی وجہ سے ایمان کی نفی وارد ہوئی ہے یا جن مقامات پر ’’خلود فی النار‘‘ (آگ میں ہمیشہ رہنا) کی وعید آئی ہے‘ ان کی توجیہہ یا تشریح کرتے ہوئے ایسی ایسی شرطیں عائد کر دیتے ہیں جس کے (۱) نماز کو چونکہ ایک خصوصی مقام حاصل ہے لہٰذا محدثین کی اکثریت کے نزدیک تارکِ نماز کافر ہے‘ دیگر گناہوں سے کفر لازم نہیں آتا‘ ملاحظہ ہو: ’’نماز کی اہمیت‘‘ تالیف فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین‘ ترجمہ ابو عبدالرحمن (اضافہ از مرتب) نتیجے میں ترہیب و انذار کا اثر بالکل ختم ہو جاتا ہے‘ بلکہ پڑھنے والا بے عملی و بدعملی میں مزید جری و بے باک ہو جاتا ہے. اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام کی عظیم اکثریت عملاً کرامیہ کے موقف پر کھڑی ہے کہ چونکہ ہم نے لا الٰہ الا اللہ زبان سے پڑھ لیا ہے اور کلمۂ توحید کا اقرار نجات کے لیے بہت کافی ہے اور حدیث مبارک کے یہ آسان سے الفاظ سب کو ازبر ہیں ’’مَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃَ‘‘ (۱لہٰذا عمل کی ضرورت نہیں. اس پر اضافی رنگ ’’تصورِ شفاعت‘‘ نے چڑھایا ہے کہ ؏ ’’کچھ بھی ہیں لیکن ترے محبوب کی امت میں ہیں!‘‘ لہٰذا شفاعت محمدیؐ سے بیڑا پار ہو ہی جائے گا.

ان دو عقیدوں میں غلو کا نتیجہ ہے کہ اُمت بے عمل بلکہ بدعمل ہو کر رہ گئی. اس طرح ہمارے ہاں کے عوام کی عظیم اکثریت عملاً کرامیہ کے موقف پر پہنچ گئی ہے کہ بس لا الٰہ الا اللہ پڑھ لیا اور باقی سارے دین سے آزادی‘ نہ فرائض و واجبات کی خبر اور نہ حرام کی پروا. اس مقام سے جو لوگ ذرا آگے قدم بڑھاتے ہیں وہ بھی مُرجیۂ کے موقف پر کھڑے ہو جاتے ہیں کہ بس اعتقاد کی حد تک تو ہر چیز مانتے ہیں لیکن عمل میں وہ بھی کورے ہیں. چنانچہ اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کے صحیح موقف کو عوام کے سامنے پیش کریں‘ اس کے لوازمات و متضمنات و مضمرات کو سامنے لائیں تاکہ عوام صحیح العقیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ دینی احکام و اقدار کی پابندی کرنے والے بھی بن جائیں‘ ورنہ اگر صرف فقیہانہ و مفتیانہ انداز سے دین کو پیش کیا گیا تو انذار و ترہیب سے متعلق ساری وعیدیں بے معنی اور بے وزن ہو کر رہ جائیں گی.

سورۃ النساء آیت ۹۳ کے ضمن میں‘ جو وعید شدید پر مشتمل آیت ہے‘ تفصیلی گفتگو گزر چکی ہے. البتہ یہ بات تکرار کی مستحق ہے کہ اس آیت میں ترہیب و انذار کے پانچ اسلوب بیان کیے گئے ہیں جن سے آدمی لرز اُٹھے گا. لیکن جب اس کی 
(۱) کشف الاستار ۱/۱۱‘ ح۷. و مسند احمد ۵/۲۳۶علامہ الالبانی نے حدیث کو صحیح قرار دیا ہے‘ ملاحظہ ہو سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ‘ ح۲۳۵’’جس نے لا الٰہ الا اللہ کہہ دیا جنت میں داخل ہو گیا‘‘. ترجمانی کرتے ہوئے اس کے اندر ایسے الفاظ ذکر کیے جائیں جو کہ خالصتاً مفتیانہ ضرورت ہوا کرتے ہیں تو آیت کا سارا اثر ختم ہو کر رہ جائے گا‘ پڑھنے والے پر نہ کوئی اثر ہو گا اور نہ وہ کیفیت طاری ہو گی جسے قرآن یوں بیان کرتا ہے: 

وَ اَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی ﴿ۙ۴۰﴾ 
(النّٰزِعٰت) 
’’اور جس نے اپنے ربّ کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا تھا اور نفس کو بری خواہشات سے باز رکھا تھا.‘‘

اس کے برعکس رجاء و امید کا پہلو غالب ہو جائے گا اور یہی بے عملی بلکہ بدعملی کی بنیاد ہے.

اس بات کو سمجھنے کے لیے قرآن حکیم کے ایک اور مقام پر غور فرمائیں. اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے. 

وَ قَالُوۡا لَنۡ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدَۃً ؕ قُلۡ اَتَّخَذۡتُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ عَہۡدًا فَلَنۡ یُّخۡلِفَ اللّٰہُ عَہۡدَہٗۤ اَمۡ تَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۸۰﴾بَلٰی مَنۡ کَسَبَ سَیِّئَۃً وَّ اَحَاطَتۡ بِہٖ خَطِیۡٓــَٔتُہٗ فَاُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۸۱﴾ 
(البقرۃ) 
’’اور وہ کہتے ہیں کہ ہمیں آگ چھو ہی نہیں سکتی مگر گنتی کے چند دن. (اے نبیؐ !) ان سے پوچھو: کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے رکھا ہے؟ جس کی وہ خلاف ورزی نہیں کرے گا یا تم اللہ کی طرف وہ بات منسوب کر رہے ہو جس کے لیے تمہارے پاس کوئی علم نہیں. کیوں نہیں‘ جو کوئی بھی بدی کمائے اور اس کا گناہ اس کا احاطہ کر لے گا تو وہ دوزخی ہے اور ہمیشہ ہی وہ دوزخ میں رہے گا.‘‘

پہلی آیت میں یہود کے غلط نظریے کا تذکرہ کرنے اور اس کی پُرزور تردید کرنے کے بعد دوسری آیت میں ایک اصولی قاعدہ بیان کر دیا کہ بات حسب نسب کی نہیں بلکہ اعمال و کردار کی ہے‘ جو کوئی ایسا کرے گا ایسے انجام سے دوچار ہو گا. مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ علیہ نے آیت مذکورہ کو سیاق و سباق کے پس منظر میں صرف 
یہود سے متعلق قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس آیت میں کفارِ یہود کا تذکرہ ہے اور الفاظ میں موجود اس کے عموم کو باقی نہیں رکھا. چنانچہ جب کوئی مسلمان اسے پڑھے گا تو انہیں یہودیوں سے متعلق باتیں سمجھتے ہوئے خود لرزہ براندام نہیں ہو گا. 

البتہ حضرت شیخ الہند مولانا سید محمود حسن شاہ صاحب رحمہ اللہ علیہ 
(۱نے ترجمے میں عموم کو برقرار رکھا ہے‘ البتہ حاشیے میں ’’گناہ کسی کا احاطہ کر لے‘‘ کی تعبیر و تشریح میں لکھا ہے کہ:

’’گناہ کسی کا احاطہ کر لے‘ اس کا یہ مطلب ہے کہ گناہ اس پر ایسا غلبہ کر لے کہ کوئی جانب ایسی نہ ہو کہ گناہ کا غلبہ نہ ہو‘ حتیٰ کہ دل میں ایمان و تسلیم باقی ہو گی تو بھی احاطہ مذکور محقق نہ ہو گا. تو اب کافر ہی پر یہ صورت صادق آ سکتی ہے.‘‘
ذرا غور کریں کہ اس طرح کی تفسیر و تشریح پڑھنے کے بعد کون مسلمان چونکے گا؟ اس آیت میں جو تاثیر اور لرزا دینے والا انذار ہے وہ سب تاویلات میںلپیٹ کر بے اثر کر دیا گیا. مولانا تھانوی رحمہ اللہ علیہ نے تو ترجمے کے اندر بھی بریکٹ میں کچھ اضافے کیے ہیں جس سے اس کی نوعیت بدل جاتی ہے لیکن حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ علیہ نے ترجمے میں الفاظِ قرآنی کے اندر موجود عموم کو اپنی اصل حالت پر رکھا ہے‘ البتہ حاشیے میں یہ رائے دی ہے کہ یہ مرحلہ حالت کفر کے اندر ہی ہو سکتا ہے ورنہ ممکن نہیں ہے. 

ایک رائے ایک مشورہ

علیٰ وجہ البصیرۃ میری پختہ رائے یہ ہے کہ اس قسم کی آیات و احادیث کا ترجمہ لفظی مفہوم کے مطابق کر دیا جائے تاکہ ان آیات و احادیث کے اندر موجود انذار اور ترہیب و وعید کی جو کیفیت ہے وہ اعصاب پر اپنے اثرات دکھائے اور پڑھنے (۱) میری رائے میں حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ علیہ چودھویںصدی ہجری کے مجدد اعظم ہیں. اس صدی میں بہت سے لوگوں نے تجدید کی کوشش کی ہے‘ لیکن ان سب میں عظیم ترین درجہ حضرت شیخ الہند کو حاصل ہے. اس قدر عظیم قدر و احترام کے باوجود میں اس مقام پر حضرت صاحب سے اختلاف کی جسارت کر رہا ہوں. (ماخوذ) والا کانپ کانپ اُٹھے. اُمت کی اصلاح احوال کا صرف یہی ذریعہ ہے وَ اَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی ﴿ۙ۴۰﴾ کی مطلوبہ و محمودہ کیفیت تب ہی پیدا ہو سکتی ہے. 

فتویٰ اور قانونی زبان کی ایک اپنی اہمیت ہوتی ہے‘ لہٰذا علیحدہ ایک فتویٰ کی شکل میں وضاحت کر دی جائے کہ اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ کافر ہو گیا ہے اور اسلام سے نکل کر مرتد ہو گیا ہے‘ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: 
وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ یہاں مراد حقیقی ایمان کی نفی ہے جس کا فیصلہ صرف اور صرف آخرت میں جا کر ہو گا‘ البتہ اس قانونی ایمان کی نفی نہیں ہے جس پر دنیا میں احکام لاگو ہوتے ہیں. یہ خالصتاً فتویٰ کی ضرورت ہے‘ اس کی وضاحت ہو جانی چاہیے. اس وضاحت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ ’’بَیْنَ الْخَوْفِ وَالرَّجَائ‘‘ کی کیفیت پیدا ہو گی جو کہ شرعاً مطلوب و محمود ہے. ایک طرف دل کانپ رہا ہے‘ خبر نہیں کہ حقیقی ایمان کی کیفیت کیا ہے؟ پتہ نہیں اللہ کے ہاں میرا ایمان قبول ہے بھی یا نہیں؟ میں تمام ارکانِ ایمان کو تسلیم کرتا ہوں‘ اعمال کے لیے بھی مقدور بھر کوشش کر رہا ہوں‘ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ کبیرہ گناہوں کے ارتکاب سے کوئی مومن کافر نہیں ہو جاتا‘ بہرحال اللہ تعالیٰ کے حضور بہتر انجام کی امید ہے. ان دو کیفیات کی وجہ سے انسان میں ایک اعتدال پیدا ہو گا اور وہ خوف و امید کے درمیان رہے گا. ایک طرف سے ڈر بھی رہا ہو گا اور دوسری طرف سے پُرامید بھی رہے گا. 

شرعی اصطلاحات کی اہمیت

قرآن حکیم اور حدیث پاک میں کئی جگہ کبیرہ گناہ کے ارتکاب پر ایمان کی نفی وارد ہوئی ہے‘ تو کیا اس سے مراد حقیقی ایمان کی نفی ہے یا ظاہری و قانونی ایمان کی نفی مراد ہے؟ اس مسئلے کے حل کی آسان اور عام فہم صورت یہ ہے کہ ایمان کے دونوں پہلوؤں کو علیحدہ علیحدہ سمجھ لیا جائے.

٭ حقیقی‘ قلبی اور باطنی ایمان: جو اصل ایمان ہے‘ آخرت میں نجات کا دارومدار اسی پر ہو گا. احادیث میں اور بالخصوص حدیث جبریل میں اسی کو ’’الایمان‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے. 
٭ قانونی‘ زبانی اور ظاہری ایمان: دنیا میں اسی ایمان کا اعتبار ہے. احکام کا اجراء اسی ایمان کی بنیاد پر ہوتا ہے. حدیث جبریل میں اس کو ’’الاسلام‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے. حدیث جبریل جو کہ ام السنہ بھی کہلاتی ہے‘ مکمل الفاظ‘ ترجمے اور تخریج کے ساتھ گزر چکی ہے اور اس سے پہلے سورۃ النساء آیت ۱۳۶ میں ایمان ظاہری و ایمان حقیقی اور ان کے درمیان باہمی ربط و تلازم کا تذکرہ بھی ہو چکا ہے.

حدیث جبریل کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ جبریل امین علیہ السلام مجمع عام میں انسانی شکل میں تشریف لائے اور یہ واقعہ رسول اللہ کی عمر مبارک کے آخری دنوں میں پیش آیا. حضرت جبریل علیہ السلام کی آمد پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: 
’’فَاِنَّہٗ جِبْرِیْلُ اَتَاکُمْ یُعَلِّمُکُمْ دِیْنَکُمْ‘‘. دوسری روایت میں ہے: ’’ھٰذٰا جِبْرِیْلُ جَائَ لِیُعَلِّمَ النَّاسَ دِیْنَھُمْ‘‘. ایک اور روایت میں ہے: ’’ھٰذٰا جِبْرِیْلُ اَرَادَ اَنْ تُعَلِّمُوْا اِذْ لَمْ تَسْئَلُوْا‘‘. (۱اس انداز و اہتمام سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی انتہائی اہم اور خاص بات تھی جو اُمت کو اس شان سے بتانی مقصود تھی. اصل میں یہ ایمان کا مسئلہ تھا جو کہ انتہائی اہم اور بنیادی مسئلہ ہے. اس بنیادی مسئلہ کا دوسرا اہم جزو یہ ہے کہ دنیا میں مسلمان یا مومن کس کو مانا اور سمجھا جائے؟ کیونکہ ظاہری اسلام کی بنیاد تو داخلی ایمان ہے اور وہ دل میں ہوتا ہے اور وہ دنیا میں جانچ پڑتال کے قابل (verifiable) نہیں ہے‘ اسے ہم دیکھ نہیں (۱) حدیث کے تینوں طرح کے الفاظ صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب۱‘ ح۸۹‘ ۱۰ میں وارد ہیں.سکتے‘ اس کے بارے میں نفیاً یا اثباتاً حکم نہیں لگا سکتے‘ کوئی مفتی یا قاضی اس کے بارے میں فیصلہ نہیںدے سکتا. اصولاً یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ فلاں فلاں کام ایمان کے منافی ہیں‘ اس کے بعد کون صحیح و سچا مومن ہے اور کون نہیں ہے اس کا فیصلہ اس دنیا میں نہیں ہو سکتا‘ یہ سارے بھید آخرت میں جا کر کھلیں گے. تو گویا ہم کسی کے اسلام کا فیصلہ تو کر سکتے ہیں ایمان کا نہیں‘ کیونکہ ’’اسلام‘‘ ظاہری کیفیت کا نام ہے اور ’’ایمان‘‘ حقیقی و باطنی کی کیفیت کا نام ہے. لہٰذا گفتگو‘ تحریر و تقریر اور فتویٰ و قانونی فیصلے میں ان اصطلاحات کا خیال رکھنا اشد ضروری ہے. 

شرعی اصطلاحات کا استعمال

قرآنِ حکیم میں لفظ ’’اسلام‘‘ کا استعمال بھی اس شان اور آن بان سے ہوا ہے کہ رشک آتا ہے. مثلاً حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام ‘ دونوں مل کر دعا کر رہے ہیں: 

رَبَّنَا وَ اجۡعَلۡنَا مُسۡلِمَیۡنِ لَکَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسۡلِمَۃً لَّکَ ۪ 
(البقرۃ: ۱۲۸
’’اے ربّ! ہم دونوں کو اپنا مطیع فرمان بنا اور ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اُٹھا جو تیری مسلم (مطیع و فرمانبردار) ہو.‘‘

دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مخاطب کر کے فرمایا: 

اِذۡ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗۤ اَسۡلِمۡ ۙ قَالَ اَسۡلَمۡتُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۳۱﴾ 
(البقرۃ) 
’’جب اس کے ربّ نے اس سے کہا ’’مسلم ہو جا‘‘ تو اس نے فوراً کہا ’’میں مالک کائنات کا مسلم ہو گیا.‘‘

یہاں یہ قاعدہ ذہن میں رہے کہ قرآن حکیم اور حدیث رسول میں ’’ایمان‘‘ اور ’’اسلام‘‘ کے الفاظ ایک دوسرے کے متراد ف کے طور پر آئے ہیں. دینی اصطلاحات کے کئی جوڑے ہیں جن کے بارے میں اہل علم نے ایک اصول وضع 
کیا ہے: ’’اِذَا اجْتَمَعَا تَفَرَّقَا وَ اِذَا تَفَرَّقَا اجْتَمَعَا‘‘ یعنی ان کا اگر علیحدہ علیحدہ تذکرہ ہو گا تو ایک ہی معنی میں لیے جائیں گے اور اگر ایک ہی جگہ پر ذکر آئے گا تو ان کے معنی میں فرق ہوگا. نوٹ کیجیے کہ اسلام کی داخلی کیفیت کا نام ’’ایمان‘‘ ہے اور ایمان کے خارج مظہر کا نام ’’اسلام‘‘ ہے. درحقیقت دونوں لازم و ملزوم ہیں. انگریزی محاورے کے مطابق: 

Call the rose by any name it will smell as sweet. 

آپ گلاب کے پھول کو کوئی نام دے دیں اس کی خوشبو وہی رہے گی. جس شخص کے دل میں ایمان ہے‘ عمل میں اسلام ہے‘ اسے آپ مومن کہہ لیں‘ مسلم کہہ لیں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا. البتہ اس قسم کے الفاظ جہاں ایک جگہ آ رہے ہوں اور ایک دوسرے کے تقابل میں آ رہے ہوں وہاں مفہوم معین کرنا پڑتا ہے. سورۃ الحجرات آیت ۱۴ اس فرق کو خوب خوب واضح کر رہی ہے‘ فرمایا: 

قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ وَ اِنۡ تُطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَا یَلِتۡکُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِکُمۡ شَیۡئًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴﴾ 
(الحجرات) 
’’یہ بدوی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے. (اے نبیؐ ) فرما دیجیے تم ایمان نہیں لائے ہو بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لے آئے (یا ہم نے اطاعت قبول کر لی ہے) ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا. اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو گے تو اللہ تمہارے اعمال میں کچھ کمی نہیں کرے گا‘ یقینا اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے.‘‘

٭ یہ بدو کون تھے؟ امام بخاری رحمہ اللہ علیہ اور دیگر متعدد مفسرین کا قول ہے کہ ان بدوئوں سے مراد منافقین ہیں. کیونکہ قرآن کہہ رہا ہے کہ ان کے پاس اسلام تو ہے‘ البتہ دلوں میں ایمان نہیں اور یہ تو نفاق ہی کی شکل ہے. بظاہر یہ رائے اور دلیل خاصی مضبوط ہے. 

دوسری رائے یہ ہے کہ یہ لوگ نہ مومن تھے اور نہ منافق تھے بلکہ خلا میں 
تھے. یہ رائے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ کی ہے اور ان کے شاگرد علامہ ابن کثیر نے پیش کی ہے. میں بھی اسی رائے کو صحیح سمجھتا ہوں. (۱

اس خلا کی حقیقت سمجھنے کے لیے یوں سمجھئے کہ مسلمان کی تین حالتیں ممکن ہیں:
٭ مثبت طور پر ایمان اور اس میں درجات کا اضافہ ۱+‘۲+‘۳+‘۴+ اور بالآخر 
infinity یعنی لا محدود ہو جائے گا. حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایمان infinity کے مقام پر چلا جائے گا. 

٭ منفی طور پر ایمان اور اس میں درکات (پستی کا اضافہ) ۱-‘۲-‘۳-‘۴- اور بالآخر 
infinity یعنی لا محدود ہو جائے. یہ نفاق کی کیفیت ہے‘ عبداللہ بن اُبی کانفاق infinity تک چلا جائے گا. (۱) اس حوالے سے ایک واقعہ دلچسپی کا موجب ہو گا. ۱۹۶۲ء کا واقعہ ہے‘ ساہیوال کی ایک مسجد میں‘ مَیں اور مولانا عبدالغفار حسن صاحب معتکف تھے. صبح کے وقت سورۃ الحجرات کی آیت ۱۴ پر بات ہوئی. مَیں نے کہا اس آیت سے مراد منافق نہیں ہو سکتے‘ مولانا کے خیال میں اس سے مراد منافق ہی تھے‘ مَیں نے دلیل پیش کی کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اِنْ تُطِیْعُوْا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَا یَلِتْکُمْ مِّنْ اَعْمَالُکُمْ شَیْئًا جبکہ منافق کا کوئی عمل اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوتا. پھر یہ کیسے منافق ہو سکتے ہیں؟ یہ ہرگز منافق نہیں تھے. ابھی یہ بحث و تمحیص جاری تھی کہ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ مولانا عبدالجلیل صاحب امام و خطیب جامع مسجد اہل حدیث نے امام ابن تیمیہؒ کی کتاب ’’الایمان‘‘ ہمیںاس پیغام کے ساتھ بھجوا دی کہ آپ لوگ حالت اعتکاف میں ہیں ذرا اس کو بھی دیکھ لیں. جونہی میں نے کتاب کھولی تو عین وہی صفحہ نکل آیا جس میں امام ابن تیمیہؒ نے یہ فصل قائم کی ہے: وقد اثبت اللّٰہ فی القرآن اسلاما بلا ایمان لقولہ تعالٰی: قَالَتِ اَ لْاَعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰٰکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا…. ’’اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ایسا اسلام ثابت کیا ہے جس کے ساتھ ایمان نہ ہو اور مذکورۃ الصدر آیت بطور دلیل پیش کی ہے‘‘. اس پر مولانا عبدالغفار حسن صاحب نے مجھے دعائیں دیں اور فرمایا کہ تم اگر باضابطہ دینی علوم حاصل کر لو تو بہت اچھا ہے‘ تمہارے ذہن کو اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کے ساتھ بڑی مناسبت دی ہے. میں نے عرض کیا پڑھا دیجیے میں تیار ہوں. (ماخوذ) ٭ ترقی ایمان اور پستی ایمان کے درمیان لامحالہ ایک ایسا مقام آئے گا جسے میں zero لیول سے تعبیر کرتا ہوں. ریاضی میں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے. بس یہی zero لیول خلا کی کیفیت ہے‘ نہ مثبت طور پر ایمان موجود ہے اور نہ منفی طور پر نفاق ہے‘ بلکہ ایک خلا ہے. 

فتح مکہ کے بعد اسلام لانے والوں کی دلی کیفیت

حضورِ اکرم  کی حیاتِ طیبہ کے آخری دَور میں جبکہ اسلام کو جزیرہ نمائے عرب میں غلبہ حاصل ہو گیا تھا اور پورے عرب میں ایک رو چل نکلی تھی کہ اب اسلام لے آؤ‘ اب مقابلے کا کوئی فائدہ نہیں‘ اب مزاحمت کی صورت میں کامیابی کی کوئی امید نہیں‘ اب محمد کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور محمد ( ) کا راستہ نہیں روک سکتے. اس لہر کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ النصر میں ان الفاظ میں بیان فرمایا:اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَ الۡفَتۡحُ ۙ﴿۱﴾وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا ۙ﴿۲﴾ ’’(اے نبیؐ !) جب اللہ کی مدد آ پہنچی اور (مکہ) فتح ہو گیا اور آپ نے (لوگوں کو) دیکھ لیا کہ اللہ تعالیٰ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں‘‘. کہاں حضور اکرم مکی دَور میں ایک ایک فرد کے لیے جھولی پھیلا کر دعائیں مانگتے تھے: اے اللہ! عمر بن الخطاب یا عمرو بن ہشام (ابو جہل) میں سے کسی ایک کو میری جھولی میں ڈال دے تاکہ اسلام کو تقویت حاصل ہو. کہاں یہ صورتِ حال ہے کہ فوج در فوج اور قبیلے کے قبیلے اسلام میں داخل ہونے لگے ہیں. اس وقت اسلام لانے والوں کی دلی کیفیت کو مندرجہ ذیل ممکنہ صورتوں میںرکھا جا سکتا ہے.

٭ ان میں ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو پہلے ہی دل میں ایمان لا چکے ہوں‘ لیکن قبیلے کے خوف سے ابھی تک اسلام ظاہر نہ کیا ہو.

٭ ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو اس وقت صدقِ دل سے ایمان لائے ہوں‘ فی الواقع ایمان ان کے دل میں داخل ہو گیا ہو. بہرحال سب بدو ایک جیسے نہیں تھے‘ اسی 
لیے ہم نے ترجمہ ’’یہ بدو کہتے ہیں‘‘ کیا ہے‘ کیونکہ سورۃ الاعراف میں فرمایا گیا ہے کہ ان میں مومنین صادقین بھی ہیں. 

٭ یہ صورت بھی ممکن ہے کہ ان اسلام لانے والوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہوں جو کہتے ہوں کہ ٹھیک ہے اب تو اور کوئی چارہ کار نہیں ہے‘ اس وقت گردن جھکا دو‘ بعد میں کسی اور طریقے سے نمٹ لیں گے. یعنی بظاہر اسلام کا روپ‘ اندر نفاق کا کھوٹ.

٭ نہ تو مثبت طور پر ایمان موجود ہے اور نہ منفی طور پر نفاق پر مبنی بد نیتی‘ اور نہ ہی دھوکہ دینے کا ارادہ ہے‘ بلکہ زمانے کی چال کے ساتھ چل رہے ہیں. یہ ہے وہ خلا کی کیفیت‘ یعنی زیرو لیول کہ ابھی تک دل میں ایمان بھی داخل نہیں ہوا لیکن ارادے میں کوئی بدنیتی بھی نہیں ہے‘ اس لیے اسے نفاق بھی قرار نہیں دیا جا سکتا. 

ایک رعایت اور بشارت

سورۃ الحجرات آیت۱۴ میں فرمایا گیا ہے کہ: ’’اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو گے تو وہ تمہارے اعمال میں کوئی کمی نہیں کرے گا.‘‘

یہ جملہ ہمارے لیے بہت بڑی بشارت اور خوشخبری ہے. اس لیے کہ اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو ہم میں سے اکثریت کی حالت ایسی ہی ہے. اس وقت ایمان کی ہوا چلی تھی اور لوگ رواروی میں ایمان لے آئے. اب ایمان نسل در نسل وراثتاً منتقل ہو رہا ہے یہ ہمارا کوئی ارادی انتخاب 
(Choice) تو نہیں ہے‘ ہم نے اپنے فیصلے سے تو ایمان قبول نہیں کیا‘ بلکہ ایمان وراثتاً چلا آ رہا ہے اور ہم حادثاتِ زمانہ کے تحت اس کے دعویدار ہیں. البتہ خدانخواستہ نفاق بھی دلوں میں نہیں ہے (الاّ یہ کہ کسی کے دل میں یہ مرض موجود ہو تو اور بات ہے). اکثر و بیشتر لوگ منافق نہیں اور بالارادہ وہ مومن بھی نہیں ہیں. آیت مذکورہ پر غور سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حال میں بھی لوگ اطاعت کرتے رہیں گے تو اللہ تعالیٰ اس اطاعت کو قبول فرما لیں گے. اس پہلو سے یہ بہت بڑی بشارت ہے.

قانون تو یہ ہونا چاہیے کہ ایمان کے بغیر کوئی اطاعت قبول نہ ہو لیکن یہاں اللہ تعالیٰ نے رعایت برتی ہے اور اس آیت کو 
’’اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ‘‘ پر ختم کیا ہے. گویا یہ اس کی شانِ غفاری کا صدقہ ہے یا اس کی شانِ رحیمی کا مظہر ہے کہ تمہارے ساتھ یہ رعایت کی جا رہی ہے کہ اگرچہ ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا اس کے باوجود اگر تم اطاعت کرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری اطاعت قبول فرما لے گا. 

دو اصولی باتیں

یہاں دو اصولی باتیں نوٹ کر لیں. سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ خلا کی کیفیت (زیرو لیول والی کیفیت) یعنی نہ مثبت سمت میں ایمان اور نہ منفی سمت میں نفاق‘ یہ حالت مستقل نہیں رہ سکتی ؎

ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں

لہٰذا آدمی یا تو ایمان کی طرف پیش قدمی کرے گا یا نفاق کی طرف لڑھکے گا اور دونوں طرف جانے کے اپنے اپنے اسباب و عوامل ہوا کرتے ہیں.

دوسرے یہ کہ سورۃ الحجرات آیت۱۴ میں جہاں عظیم خوشخبری موجود ہے اس کے ساتھ ایک انذار و وعید بھی جمع کر لیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اطاعت سے مراد اطاعت کلی ہے‘ جزوی یا اختیاری اطاعت‘ اطاعت شمار نہیں ہوتی بلکہ الٹا دنیا و آخرت میں قابل سزا جرم بن جاتی ہے. اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 

اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸۵﴾ 
(البقرۃ) ’’تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو؟ پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں؟ اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں جو تم کر رہے ہو.‘‘

البتہ بھول چوک‘ غلطی‘ نسیان‘ گناہ صغیرہ‘ گناہ کبیرہ یا اکبر الکبائر میں سے کسی گناہ کا کسی وقت سرزد ہو جانا اور بات ہے. وہ اصول زندگی نہیں ہوا کرتا بلکہ فریب نفس یا وسوسہ شیطان کا نتیجہ ہوا کرتا ہے. اس صورت میں توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہے‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 

اِنَّمَا التَّوۡبَۃُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ السُّوۡٓءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوۡبُوۡنَ مِنۡ قَرِیۡبٍ فَاُولٰٓئِکَ یَتُوۡبُ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا ﴿۱۷﴾ 
(النسآئ) 
’’ہاں یہ جان لو کہ اللہ پر توبہ کی قبولیت کا حق انہی لوگوں کے لیے ہے جو نادانی کی وجہ سے کوئی برا فعل کر گزرتے ہیں اور اس کے بعد جلدی ہی توبہ کر لیتے ہیں. ایسے لوگوں پر اللہ اپنی نظر عنایت سے پھر متوجہ ہو جاتا ہے اور اللہ ساری باتوں کی خبر رکھنے والا اور حکیم و دانا ہے.‘‘

لہٰذا غلط اصولِ زندگی اور اتفاقی غلطی کے درمیان واضح فرق رہنا چاہیے اور معاملات کا تجزیہ کرتے ہوئے یا مستقبل کے بارے میں غور کرتے ہوئے اس فرق کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے. کیونکہ غلط اصولِ زندگی ضلالت ہے اور ہر قسم کی غلطی‘ چھوٹا یا بڑا گناہ بشری کمزوری ہے اور ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے. 

ایمان میں کمی بیشی یا جمود؟

رئیس المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اَلْاِیْمَانُ قَوْلٌ وَّ عَمَلٌ‘ یَزِیْدُ بِالطَّاعَۃِ وَ یَنْقُصُ بِالْمَعْصِیَۃِ‘‘ یعنی ایمان قول و عمل کا نام ہے جو کہ اطاعت سے بڑھتا ہے اور گناہ کرنے سے کم ہوتا ہے.سید الفقہاء امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’اَلْاِیْمَانُ تَصْدِیْقٌ بِالْجَنَانِ وَ اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ‘ لَا یَزِیْدُ وَلَا یَنْقُصُ‘‘ یعنی دل سے تصدیق کرنے اور زبان سے اقرار کرنے کا نام ایمان ہے‘ جو نہ بڑھتا ہے اور نہ کم ہوتا ہے.

امام بخاری رحمہ اللہ علیہ کے موقف کی مندرجہ ذیل آیات تائید کرتی ہے: 

فَزَادَہُمۡ اِیۡمَانًا ٭ۖ وَّ قَالُوۡا حَسۡبُنَا اللّٰہُ وَ نِعۡمَ الۡوَکِیۡلُ ﴿۱۷۳
 (آل عمران) 
’’جن سے لوگوں نے کہا: تمہارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہو گئی ہیں ان سے ڈرو) تو (یہ سن کر) ان کا ایمان اور بڑھ گیا‘ اور انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے.‘‘ 

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ اِذَا تُلِیَتۡ عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُہٗ زَادَتۡہُمۡ اِیۡمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ ۚ﴿ۖ۲﴾ 
(الانفال) 
’’سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے ربّ پر اعتماد رکھتے ہیں.‘‘ 

وَ لَمَّا رَاَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡاَحۡزَابَ ۙ قَالُوۡا ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ وَ صَدَقَ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ ۫ وَ مَا زَادَہُمۡ اِلَّاۤ اِیۡمَانًا وَّ تَسۡلِیۡمًا ﴿ؕ۲۲﴾ 
(الاحزاب) 
’’اور سچے مومنوں (کا حال اس وقت یہ تھا کہ انہوں) نے جب حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ یہی وہ چیز ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول کی بات بالکل سچی تھی. اس واقعہ نے ان کے ایمان اور سپردگی کو اور زیادہ بڑھا دیا.‘‘ 

وَ اِذَا مَاۤ اُنۡزِلَتۡ سُوۡرَۃٌ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّقُوۡلُ اَیُّکُمۡ زَادَتۡہُ ہٰذِہٖۤ اِیۡمَانًا ۚ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فَزَادَتۡہُمۡ اِیۡمَانًا وَّ ہُمۡ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ ﴿۱۲۴﴾ 
وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ فَزَادَتۡہُمۡ رِجۡسًا اِلٰی رِجۡسِہِمۡ وَ مَا تُوۡا وَ ہُمۡ کٰفِرُوۡنَ ﴿۱۲۵﴾ (التوبۃ) 
’’جب کوئی نئی سورۃ نازل ہوتی ہے تو ان میں سے بعض لوگ (مذاق کے طور پر مسلمانوں سے) پوچھتے ہیں کہ ’’کہو تم میں سے کس کے ایمان میں اس سے اضافہ ہوا؟‘‘ جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کے ایمان میں تو فی الواقع (ہر نازل ہونے والی سورۃ نے)اضافہ ہی کیا ہے اور وہ اس سے دلشاد ہیں‘ البتہ جن لوگوں کے دلوں کو (نفاق کا) روگ لگا ہوا ہے ان کی سابق نجاست پر(ہر نئی سورۃ نے) ایک اور نجاست کا اضافہ کر دیا. اور وہ مرتے دم تک کفر ہی میں مبتلا رہے.‘‘

مذکورہ بالا آیات میں بصراحت اضافۂ ایمان کا تذکرہ آیا ہے. نیز کچھ احادیث میں ایمان میں کمی کا ذکر بھی وارد ہوا ہے. آپ نے فرمایا: 

اِنَّ الْمُؤْمِنَ اِذَا اَذْنَبَ ذَنْبًا کَانَتْ نُکْتَۃٌ سَوْدَائُ فِیْ قَلْبِہٖ‘ فَاِنْ تَابَ وَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ صُقِلَ قَلْبُہٗ فَاِنْ زَادَ زَادَتْ حَتّٰی یَعْلُوَ قَلْبَہٗٗ فَذٰلِکَ الرَانُ الَّذِیْ قَالَ جَلَّ ثَنَاء ہٗ:کَلَّا بَلۡ ٜ رَانَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ مَّا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿۱۴
(۱
’’جب مومن کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ دھبہ پڑتا ہے‘ اگر توبہ استغفار کر لے اور گناہ سے باز آ جائے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے‘ لیکن اگر گناہوں میں آگے بڑھتا چلا جائے تو یہ سیاہ دھبہ بھی بڑھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے سارے دل کو کالا کر دیتا ہے اور یہی وہ ’’ران‘‘ (زنگ اور میل کچیل) ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے 
(سورۃ المطففین‘آیت۱۴ میں) تذکرہ کیا ہے: ’’ہرگز نہیں بلکہ ان لوگوں کے دلوں پر ان کے برے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے.‘‘ (۱) مسند احمد ۲/۲۹۷‘ ح۷۹۳۹. احمد شاکر نے حدیث کو صحیح کہا ہے. سنن الترمذی‘ کتاب التفسیر‘ باب من تفسیر سورۃ ویل للمطففین. 

المستدرک للحاکم ۲/۵۱۷. امام حاکم‘ امام الذہبی‘ امام ترمذی نے حدیث کو صحیح قرار دیا ہے. غلط اعمال کا انسانی کردار پر اثر سمجھنے کے لیے ’’کبیرہ گناہوں کی حقیقت‘‘ ص۳۵ تا ص۹۴ کا مطالعہ ازحد مفید ثابت ہو گا. چونکہ گناہ دل پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ایمان کو کمزور کرتے ہیں اس لیے علماء نے کہا ہے ’’المعاصی برید الکفر‘‘ کہ گناہ کفر کی ڈاک ہے‘ یعنی معصیت سے کفر کے پیغامات اور ہوائیں آنی شروع ہو جاتی ہیں. اگر یہ سلسلہ چلتا رہے گا تو پہلے ایمان کمزور ہو گا اور بالآخر ختم ہو جائے گا. ظاہر ہے جب ایمان نہیں رہے گا تو کفر ڈیرے ڈال لے گا. اور یہی امام بخاری رحمہ اللہ علیہ کا مسلک ہے.

البتہ سید الفقہاء 
(۱امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک ایمان بمعنی ایمان ظاہری یعنی اسلام جامد ہے‘نہ گھٹتا ہے نہ بڑھتا ہے اور اسی ایمان کے ذریعے انسان کو اسلامی معاشرے یا اسلامی ریاست میں قانونی (legal) اور دستوری (Constitutional) مقام (status) حاصل ہوتا ہے. مسلمان کی حیثیت سے معاشرے میں اس کے حقوق متعین ہوتے ہیں. اسلامی ریاست میں اس کے حقوق سب مسلمانوں کے لیے برابر ہیں. قانونی طور پر سب مسلمان برابر ہیں لہٰذا قانونی سطح پر اسلام بالکل مساوی ہے. 

مثال: بالفرض اگر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسا کامل الایمان اور عبداللہ بن اُبی جیسا آخری درجے کا منافق ایک ہی والد کے بیٹے ہوتے تو ان کو وراثت میں حصہ برابر ملتا‘ ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ایمان کی وجہ سے زیادہ نہ ملتا اور عبد اللہ بن اُبی کو نفاق کی وجہ سے کم نہ ملتا. یہ محض ایمان کا قانونی پہلو ہے‘ حقیقی نہیں. عصر حاضر کی اصطلاحات کے مطابق ہم کہہ سکتے ہیں کہ ریاست میں تمام مسلمان شہریوں کے حقوق برابر ہیں‘ (۱) مجھ پر امام ابو حنیفہؒ کی عظمت یہاں منکشف ہوئی ہے. یہی وجہ ہے کہ میں انہیں باربار سید الفقہاء کہہ رہا ہوں اور دل کی گہرائی سے ان کی عظمت کا معترف ہوں. میرا یہ اذعان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ کو قانون و دستور کا جس قدر فہم دیا تھا میرے علم کی حد تک کسی کو نہیں دیا گیا‘ قانون اور اور دستور کا ایک خاص sense ہوتا ہے جسے حاصل کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی. چونکہ آپ فقیہہ تھے اس لیے آپ کی نگاہ معاملات کے قانونی پہلو پر رہتی تھی. (ماخوذ) کیونکہ فقہ کا قاعدہ ہے: الْمُسْلِمُ کُفْوٌ لِکُلِّ مُسْلِمٍ (۱’’ہر مسلمان دوسرے کے برابر ہے‘‘. تمام مسلمانوں کے قانونی و دستوری حقوق (Legal and Constitutional Rights ب رابر ہیں.یعنی ایمان کا قانونی پہلو جسے ہم اسلام سے تعبیر کرتے ہیں‘ اس سطح پر سب مسلمان برابر ہیں. البتہ حقیقی ایمان جو باطن میں ہے اس کے بارے میں کون کہہ سکتا ہے کہ وہ نہ گھٹتا ہے نہ بڑھتا ہے‘ جبکہ قرآن حکیم میں متعدد صریح آیات پکار پکار کر اس کی شہادت دے رہے ہیں. ہر شخص کا ذاتی تجربہ شاہد ہے کہ ایمان گھٹتا بھی ہے اور بڑھتا بھی ہے. قرآن حکیم کو سوچ سمجھ کر پڑھیے‘ ذکر کیجیے‘ اہل یقین کی صحبت میں بیٹھیے‘ خودبخود محسوس ہو گا کہ اندر کوئی احساس ترقی کر رہا ہے. اس کے بالمقابل غافلوں کی محفل میں بیٹھیے‘ ٹھٹھے لگایئے‘ فحش گوئی کیجیے‘ حرام خوری کیجیے‘ خودبخود محسوس ہو گا کہ اندر سے کوئی چیز برف کی طرف پگھل پگھل کر کم ہو رہی ہے.

اس بحث سے معلوم ہوا کہ ایمان کا قانونی پہلو (جو کہ اسلام کہلاتا ہے) کم و بیش نہیںہوتا. اس کے بالمقابل حقیقی ایمان‘ جو یقین قلبی سے عبارت ہے‘ کم و بیش ہوتا رہتا ہے اور ہر انسان پر دن میں کئی مرتبہ یہ کمی بیشی وارد ہوتی ہے. تو معلوم ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے حقیقی ایمان کو سامنے رکھا اور فرمایا: 
’’اَلْاِیْمَانُ قَوْلٌ وَّ عَمَلٌ‘ یَزِیْدُ وَ یَنْقُصُ‘‘ ا ور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ نے قانونی ایمان کو سامنے رکھا اور فرمایا: ’’اَلْاِیْمَانُ تَصْدِیْقٌ وَّ قَوْلٌ لَا یَزِیْدُ وَلَا یَنْقُصُُ‘‘. اس ظاہری تضاد اور بُعدالمشرقین کے باوجود دونوں حضرات سو فیصد صحیح بات کہہ رہے ہیں. ایک حقیقی ایمان اور دوسرا قانونی ایمان کی بات کر رہا ہے. اس لیے کہ دونوں کے میدان‘ اصول اور نتائج جدا جدا ہیں. 

(۱) اور اس قاعدے کی بنیاد آپ کا یہ فرمان ہے: المسلمون یدٌ علٰی مَن سواھم تکافا دمائھم [مسند احمد ۲/۱۸۰. احمد شاکر نے حدیث کو صحیح کہا ہے‘ ملاحظہ ہو شرح احمد شاکر‘ ح۶۶۹۲] ’’تمام مسلمان کافروں کے مقابلے میں ایک طاقت ہیں اور ان کے آپس میں خون برابر ہیں‘‘. (اضافہ از مرتب) 

ایمان اور جہاد

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: 

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾ 
(الحجرات) 
’’حقیقت میں مومن تو صرف وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا‘ وہی سچے لوگ ہیں.‘‘

سورۃ الحجرات آیت۱۴ میں ایمان اور اسلام کو علیحدہ کر دینے کے بعد آیت۱۵ میں ایمان کو واضح اور معین طور پر 
define کر دیا گیا. ذرا غور کریں کہ ابتداء میں ’’اِنَّمَا‘‘ (صرف وہ آدمی جس میں مطلوبہ خوبیاں پائی جائیں) اور آخر میں ’’اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ‘‘ (صرف یہی لوگ سچے ہیں) کا اسلوبِ حصر لگا کر تعریف کو جامع و مانع کر دیا گیا.

حصر کیا ہے؟ عام زبان میں ہم کہیں گے ’’زید عالم ہے‘‘ اس کا معنی یہ ہوا کہ زید ضرور عالم ہے لیکن دوسرے لوگ بھی عالم ہو سکتے ہیں. البتہ جب ہم کہیں: ’’صرف زید ہی عالم ہے‘‘ تو معلوم ہوا کہ زید عالم ہے اور دوسرا کوئی عالم نہیں ہے. اس طرح علم کی صفت صرف زید کے لیے ثابت ہوئی اور دوسروں سے اس کی نفی ہو گئی. یہاں فرمایا جارہا ہے کہ مومن تو صرف وہ ہیں جو اللہ اور رسول پر ایمان کا دعویٰ کرنے کے بعد یہ شرائط بھی پوری کریں:

(۱
ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا (دعوائے ایمان کے بعد کسی شک میں مبتلا نہ ہوں) یقین کی تعبیر کے لیے اس سے زیادہ خوبصورت اور کوئی لفظ ممکن نہ تھا‘ بلکہ اگر صرف مثبت یقین کا لفظ آتا تو یہ زور پیدا نہ ہوتا جو’’ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا‘‘ کے الفاظ سے پیدا ہوا ہے. (۲وَجَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (اور اپنے مالوں اور جانوں کو کھپا کر اللہ کی راہ میں جہاد کریں).

اس طرح ایمان حقیقی کے لیے دو شرطیں لازم قرار دے دی گئیں (دل میں غیر متزلزل یقین اور عمل میں مالی و جانی جہاد). شروع کی طرح آخر میں پھر اسلوبِ حصر لایا گیا‘ فرمایا: 
’’اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْن‘‘ صرف یہ شرطیں پوری کرنے والے افراد ہی اپنے دعوائے ایمان میں سچے ہیں.
جس طرح پرکار کے دو سرے بند ہو کر ایک نقطہ پر اکٹھے ہو جاتے ہیں اسی طرح اس آیت کریمہ میں دو چیزیں اکٹھی بیان کر دی گئیں. جبکہ سورۃ الانفال میں پرکار کے دونوں بازو کھول دیے گئے. چنانچہ اس سورۂ مبارکہ کے آغاز میں فرمایا: 

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتۡ قُلُوۡبُہُمۡ وَ اِذَا تُلِیَتۡ عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُہٗ زَادَتۡہُمۡ اِیۡمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ ۚ﴿ۖ۲﴾الَّذِیۡنَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ؕ﴿۳﴾اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا ؕ لَہُمۡ دَرَجٰتٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ وَ مَغۡفِرَۃٌ وَّ رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ ۚ﴿۴﴾ 
(الانفال) 
’’سچے اہل ایمان تو بس وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں. جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے ربّ پر اعتماد رکھتے ہیں. جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہوں. ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں‘ ان کے لیے ان کے ربّ کے پاس بڑے درجے ہیں‘ خطائوں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے.‘‘

سورۃ الانفال کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: 

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ ہَاجَرُوۡا وَ جٰہَدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ الَّذِیۡنَ اٰوَوۡا وَّ نَصَرُوۡۤا اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ حَقًّا ؕ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ ﴿۷۴﴾ 
(الانفال) ’’جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں گھربار چھوڑے اور جہاد کیا اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں‘ ان کے لیے خطاؤں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے.‘‘

سورۃ الحجرات میں جو پرکار بند تھی اس کو جب کھولا گیا تو ایک بازو سورۃ الانفال کے شروع میں آیا اور دوسرا آخر میں. اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ جہاد ایمانِ حقیقی کا رُکن لازم ہے. اور اسے یوں بھی تعبیر کر سکتے ہیں کہ جہاد ایمان کا لازمی نتیجہ ہے‘ اگر ایمانِ حقیقی موجود ہے تو جہاد لازماً ہو گا‘ کیونکہ سورۃ الحجرات کی آیت۱۵ اسلام کی تعریف کے فوراً بعد آئی ہے اور پھر اوّل و آخر الفاظِ حصر کو لا کر واضح کر دیا گیا ہے کہ ایمان کی جامع و مانع تعریف یہی ہے کہ دل میں غیر متزلزل یقین اور عمل میں جان و مال سے جہاد.

چونکہ ایمان حقیقی کے اثرات آخرت میں ظاہر ہوں گے لہٰذا اُخروی نجات کے لیے جو بات بطور شرط اور لازمی اصول کے بیان کرنی تھی وہ سورۃ الصف کی ان آیات میں بیان کر دی گئی‘ فرمایا: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾ 
(الصف) 
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذابِ الیم سے بچا دے؟ ایمان لائو اللہ اور اس کے رسول پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے‘ یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو.‘‘

ذرا غور کریں کہ جنت کا وعدہ یا داخلہ تو بعد کی چیز ہے پہلے عذاب سے چھٹکارا پانا ضروری ہے جس کے لیے دو لازمی شرطیں بیان کی گئی ہیں: 

الف: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان
ب: جان و مال سے اللہ کی راہ میں جہاد 

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اسلام عام ہے اور ایمان خاص ہے. اسلام کے 
پانچ ارکان ہیں:ـ شہادتِ توحید و رسالت‘ نماز‘ زکوٰۃ‘ روزہ اور حج. اب شہادتِ توحیدورسالت سے پہلے یقین قلبی اور حج کے بعد جہاد کا اضافہ کر لیں تو ایمان بن جاتا ہے.

جوشِ جذبات کے ہاتھوں مجبور ہو کر بعض لوگوں نے جہاد فی سبیل اللہ کو اسلام کا رکن قرار دے دیا ہے. میرے نزدیک یہ بہت بڑی غلطی بلکہ جسارت ہے‘ کیونکہ حدیث جبریل علیہ السلام میں اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی معروف روایت 
’’بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ… الخ‘‘ میں اسلام کے پانچ ہی ارکان بیان ہوئے ہیں. اتنی واضح نصوص کے ہوتے ہوئے ارکانِ اسلام میں جہاد یا کسی اور کام کا اضافہ کرنا اپنے آپ کو حکمت نبویؐ سے بالاتر ثابت کرنا ہے والعیاذ باللّٰہ 

جہاد کے بارے میں مغالطے اور وضاحتیں

جہاد کے بارے میں مسلمانوں کو چند در چند مغالطے لاحق ہیں. گویا ظُلُمَاتٌ بَعْضُھَا فَوْقَ بَعْضٍ کے مصداق گمراہی پر گمراہی یا کم از کم غلطی پر غلطی کا معاملہ ضرور ہے. 
پہلا مغالطہ: 
پہلا مغالطہ بالعموم یہ ہے کہ جہاد کا معنی جنگ اور قتال ہے. 

وضاحت: 
اس مغالطے کی بنیاد ہی غلط ہے‘ اس لیے کہ جہاد اور قتال قرآن حکیم کی دو الگ اصطلاحیں ہیں. اگرچہ ان کا معاملہ بھی اسلام و ایمان کی طرح ہے کہ اگر ایک بیان ہو تو دوسرے کے معنی لیے جا سکتے ہیں اور اگر دونوں اکٹھے بیان ہوں تو ان کے علیحدہ علیحدہ معنی معین کرنے پڑتے ہیں‘ جیسا کہ قاعدہ گزرا ہے: ’’اِذَا اجْتَمَعَا تَفَرَّقَا وَ اِذَا تَفَرَّقَا اجْتَمَعَا‘‘ یعنی جب وہ دونوں اکٹھے ہوں تو مفہوم علیحدہ علیحدہ ہوتا ہے اور جب علیحدہ علیحدہ بیان ہوں تو معنی ایک ہی ہوتا ہے. البتہ جہاد کے معنی لازماً جنگ کے نہیں ہوتے. اسی غلطی اور مغالطے کی وجہ سے بہت ساری چیزیں ذہنوں میں الجھی ہوئی ہیں. 
دوسرا مغالطہ: 
جنگ تو ہر وقت نہیں ہوتی لہٰذا ہم کس طرح ہر وقت جہاد میں شریک ہو سکتے ہیں. 

وضاحت: 
یہ مغالطہ بھی سابقہ مغالطے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا ہے‘ ورنہ جنگ تو واقعتا کبھی کبھی ہوتی ہے اور سلسلۂ جہاد ہمیشہ جاری رہتا ہے. 

تیسرا مغالطہ: 
خاص حالات کے علاوہ تو جنگ فرض کفایہ ہے‘ لہٰذا اگر مجاہدین کی اتنی تعداد میسر آ جائے کہ مطلوبہ ضرورت پوری ہو جائے تو باقی لوگوں پر کوئی ذمہ داری باقی نہیں رہتی. 

وضاحت: 
یہ مغالطہ بھی اسی لیے پیدا ہوا کہ جنگ اور جہاد کو ایک ہی کام سمجھ لیا گیا. حالانکہ دونوں میں وسیع وعریض فرق ہے. 

چوتھا مغالطہ: 
مسلمان جب بھی جنگ کرتا ہے تو وہ جہاد فی سبیل اللہ شمار ہوتا ہے. 
وضاحت: 
ایک مسلمان‘ مسلمان ہونے کے باوجود ظالم و فاسق بھی ہو سکتا ہے. مسلمان اپنے غلبے اور اپنے ملک کی توسیع کے لیے بھی جنگ کر لیتا ہے. اس کا معنی یہ نہیں کہ یہ سارے غلط کام ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ شمار ہوں. بلکہ یہ سارے کام فساد فی الارض کے زمرے میں آتے ہیں. صحیح اسلامی جہاد کی وضاحت حدیث میں اس طرح بیان ہوئی ہے. حضرت ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: 

جَائَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ  فَقَالَ: الرَّجُلُ یُقَاتِلُ لِلْمَغْنَمِ وَالرَّجُلُ یُقَاتِلُ لِلذِّکْرِ وَالرَّجُلُ یُقَاتِلُ لِیُرِیَ مَکَانُہٗ فَمَنْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ؟ قَالَ: مَنْ قَاتَلَ لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا فَھُوَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ 
(۱(۱) صحیح البخاری‘ کتاب الجھاد‘ باب من قاتل لتکون کلمۃ اللّٰہ ھی العلیا‘ ح۲۶۵۵. و صحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب من قاتل لتکون کلمۃ اللّہ ھی العلیا‘ ح۱۹۰۴ و کتب السنن. دیگر کتب حدیث میں یہ روایت تھوڑے لفظی اختلاف و اضافے کے ساتھ موجود ہے‘ ملاحظہ ہو‘ جامع الاصول ۲/۵۸۱‘ ح۱۰۶۳’’ایک آدمی نبی اکرم  کی خدمت میں حاضر ہوا‘ اس نے دریافت کیا: ایک آدمی مالِ غنیمت کی نیت سے جنگ میں شریک ہوتا ہے‘ دوسرا آدمی اپنا نام پیدا کرنے کے لیے آتا ہے‘ تیسرا آدمی اپنی بہادری کا مظاہرہ کرنے کے لیے پہنچتا ہے‘ ان میں سے کون اللہ کی راہ میں شمار ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ’’جو آدمی اس لیے لڑے کہ اللہ کے دین کا بول بالا ہو جائے بس وہی اللہ کے راستے میں شمار ہو گا.‘‘ 

پانچواں مغالطہ: 
ایک زمانے تک تو مرنے مارنے اور قتل کی ضرورت تھی‘ فی زمانہ اس کی ضرورت نہیں‘ بس دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تزکیہ ہی کافی ہے. اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسی باتیں بعض نادان علماء سے منسوب ہو کر پہنچ رہی ہیں. 

وضاحت: 
یہ مغالطہ کس قدر بے بنیاد ہے‘ اس کا اندازہ مندرجہ ذیل حدیث سے ہو جاتا ہے. حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ  نے فرمایا: 

ثَلاثَۃٌ مِنْ اَصْلِ الایْمَانِ: اَلْکَفُّ عَمَّنْ قَالَ: لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَلَا نُکَّفِرُہُ بِذَنْبٍ وَلَا نُخْرِجُہُ مِنَ الْاِسْلَامِ بِعَمَلٍ‘ وَالْجِھَادُ مَاضٍ مُنْذُ بَعَثَنِیَ اللّٰہُ اِلٰی اَنْ یُّقَاتِلَ آخِرُ ھٰذِہٖ الامَّۃِ الدَّجَّالَ‘ لَا یُبْطِلُہُ جَورُ جَائرٍ وَلَا عَدْلُ عَادِلٍ‘ وَالْاِیْمَانُ بِالْاَقْدَارِ 
(۱
’’تین چیزیں ایمان کی جڑ اور بنیاد ہیں: (۱) جو کوئی لا الٰہ الا اللہ کہتا ہو اس سے (زبان اور ہاتھ کو) روک لینا‘ کسی گناہ کی وجہ سے ہم اس کو کافر نہیں کہیں گے‘ اور نہ ہی کسی کام کی وجہ سے اسے اسلام سے خارج کریں گے. (۲) جب سے اللہ تعالیٰ نے مجھے نبی بنا کر مبعوث کیا ہے جہاد اس وقت سے جاری ہے اور اس 
(۱) سنن ابی داوٗد‘ کتاب الجھاد‘ باب فی الغزو مع ائمۃ الجور‘ ح۲۵۳۲. والسنن الکبریٰ للبیھقی ۹/۱۵۶‘ کتاب السیر‘ باب الغزو مع ائمۃ الجور. اس روایت میں یزید بن ابی نشبہ راوی غیر معروف ہے لہٰذا علماء نے حدیث کو ضعیف کہا ہے‘ ملاحظہ ہو‘ جامع الاصول ۱/۲۴۲‘ ح۳۲وقت تک (جاری رہے گا) جب اس اُمت کا آخری فرد دجال سے جنگ کر لے‘ نہ کسی ظالم کا ظلم اس کو ختم کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی عادل کا عدل(۳) اور ہر قسم کی تقدیر پر ایمان لانا.‘‘ 


جہاد کا مفہوم اور اس کے مراحل

جہاد کا لغوی معنی

لفظ ’’جہاد‘‘ جہد سے نکلا ہے اور ’’ج ہ د‘‘ کے معنی ہوتے ہیں کوشش کرنا‘ محنت کرنا‘ تھکنا اور جب یہ لفظ ’’جہد‘‘ بابِ مفاعلہ میں چلا جاتا ہے تو معنی ہوتے ہیں مقابلے میں سخت کوشش کرنا. بابِ مفاعلہ کا مصدر فِعال اور مُفاعَلہ دونوں اوزان پر آتا ہے‘ مثلاً: 

قَتَلَ 
سے مصدرِ مفاعلہ قِتَال اور مُقَاتَلَۃ 
نَفَقَ 
سے مصدرِ مفاعلہ= نِفَاق اور مُنَافَقَۃ 
اسی طرح 
جھد سے مصدرِ مفاعلہ جِھَاد اور مُجَاھدۃ 

بابِ مفاعلہ کی دو خوبیاں یا خواص معروف ہیں: مبالغہ (شدت و کثرت) اور مقابلہ (فریق ثانی سے ٹکراؤ). یوں کہہ سکتے ہیں کہ ’’جُھد‘‘ آپ کی یک طرفہ کوشش ہے لیکن جب آپ کی کوشش کے مقابلے میں دوسروں کی کوشش آڑے آ گئی تو دونوں طرف سے کوششوں کا ٹکراؤ ہو گا اور ٹکراؤ کی صورت میں ہر فریق بازی لے جانے کے لیے اپنا پورا زور صَرف کر دے گا. اب یہ جہاد اور مجاہدہ بن جائے گا. گویا مقابلے میں آپ نے پوری کوشش صَرف کر دی.
انگریزی زبان میں جہد کے معنی ہیں: 

To exert oneself one,s utmost for something. 

جبکہ جہاد کا ترجمہ ہو گا: 

To struggle for some cause against something or to struggle against heavy odds 

ان الفاظ سے انگریزی زبان میں لفظ ’’جہد‘‘ اور ’’جہاد‘‘ کا فرق واضح ہو گا. 


مراحل جہاد

جہاد کے تین جلی اور نمایاں مراحل ہیں اور ہر مرحلے کے اندر پھر کچھ خفی اور پوشیدہ مراحل بھی ہیں. 

جلی مراحل

(۱) اپنے نفس کے خلاف جہاد کرنا.
(۲) معاشرے کے خلاف جہاد کرنا.
(۳) حکومت اور نظام کے خلاف جہاد کرنا. 

۱. نفس کے خلاف جہاد 
ہمارا دل ہمارے جسم کے اندر ہے اور اس جسم کے کچھ حیوانی تقاضے (animal instincts) ہیں. نفس امارہ بھی ہمارے ساتھ لگا ہوا ہے. خواہشات بھی ہیں‘ شہوات بھی ہیں. اب جونہی ایمان دل میں داخل ہوا تو کشاکش شروع ہو گئی. ایمان کا تقاضا اور مطالبہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی بات مانو. دوسری طرف نفس کہہ رہا ہے کہ نہیں بلکہ میری مانو‘ میری خواہشات و شہوات پوری کرو. چنانچہ اب یہ کشاکش اور رسہ کشی شروع ہو گئی ؎

ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے‘ کلیسا مرے آگے!

یہی سب سے اہم‘ مرکزی اور بنیادی جہاد ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ اندر ایمان تو داخل ہو لیکن اس طرح کی جنگ اور کشاکش شروع نہ ہو. یا پھر وہ ایمان‘ حقیقی ایمان نہیں بلکہ مجرد دعوائے ایمان ہے‘ بالفاظِ دیگر ایمان کا خلا ہے. کیونکہ جونہی دل میں حقیقی ایمان آئے گا نفس امارہ‘ خواہشات اور شہوات کے خلاف جنگ شروع ہو جائے گی‘ ان کے ساتھ تصادم ہو گا. نتیجتاً یا ایمان کامیاب ہو گا یا پھر حیوانی داعیات 
(animal instincts) کامیاب ہوں گے. یہ جہاد کی اولین منزل ہے. اسی لیے اس کو اصل جہاد کہا گیا ہے. رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا: 

وَالْمُجَاھِدُ مَنْ جَاھَدَ نَفْسَہٗ فِیْ طَاعَۃِ اللّٰہِ 
(۱
’’اور سچا مجاہد وہ ہے جس نے اللہ کی رضا کی خاطر اپنے نفس کے خلاف جہاد کیا.‘‘ 

۲. معاشرے کے خلاف جہاد 

اگر آپ نے اپنے دل پر کنٹرول حاصل کر لیا‘ اپنے نفس کو زیر کر لیا اور یہ بازی جیت گئے تو اب جہاد آپ کے وجود سے باہر آئے گا. باہر ایک ماحول بنا ہوا ہے. ایک معاشرہ اپنی اقدار و روایات کے ساتھ قائم ہے‘ جس میں غلط نظریات موجود ہیں‘ شرک‘ الحاد‘ مادہ پرستی‘ مفاد پرستی‘ شیطان کی دعوت وغیرہ سب کچھ موجود ہے. اگر فی الواقع دل میں ایمان جم چکا ہے تو لازماً کشاکش اور نظریاتی جنگ شروع ہو گی. یہ ممکن ہی نہیں کہ اندر ایمان ہو اور انسان ابطالِ باطل اور احقاقِ حق سے غافل ہو جائے. یہی نظریاتی جہاد ہے جس میں دعوت و تبلیغ کی خاطر جان و مال کو کھپانا شامل ہے. 

۳. نظام اور حکوم کے خلاف جہاد 

معاشرہ چاہے سرمایہ دارانہ ہو یا جاگیردارانہ‘ کمیونزم کو مانتا ہو یا سوشلزم کو‘ ظالمانہ ہو یا آمرانہ‘ یعنی اللہ کے سوا کسی اور کا قانون چل رہا ہو‘ تو اگر ایمان موجود ہے تو اس کا لازمی تقاضا ہو گا کہ ایسے فاسد نظام سے ٹکرا جاؤ. اب بات نظریاتی نہیں رہے گی‘ کیونکہ اس نظام کے ساتھ مراعات یافتہ طبقات کے مفادات اور 
vested interests وابستہ ہیں.وہ ٹھنڈے پیٹوں آپ کی بات نہیں چلنے دیں گے‘ بلکہ وہ اس نظام کا ہر قیمت پر تحفظ و دفاع کریں گے‘ اور آپ کو ان سے ٹکرانا ہو گا. یہ طاقت کا طاقت سے بالفعل ٹکرائو ہو گا. یہی جہاد کی تیسری اور بلند ترین منزل ہے‘ جہاں پہنچ کر جہاد قتال کی شکل اختیار کر لیتا ہے. (۱) مسند احمد ۶/۲۱. والمستدرک للحاکم ۱/۱۱. والمعجم الکبیر للطبرانی ۱۸/۷۹۶ وکشف الاستار‘ ح۱۱۴۳علامہ شعیب الارناووط نے حدیث کو صحیح قرار دیا ہے. صحیح ابن حبان ۱۱/۲۰۳‘ ح۴۸۶۲ طبع الرسالۃ.

جہاد کے تفصیلی مراحل

اوپر ہم نے جہاد کی تین منزلیں بیان کی ہیں. ان کو تین سے ضرب دیں گے تو یہ نو بن جائیں گی‘ جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:

۱. نفس امارہ کے خلاف جہاد‘ کیونکہ نفس امارہ ہمیشہ بدی پر اُکساتا ہے‘ لہٰذا یہاں سے ہی جہاد کی ابتدا ہو گی. اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 

وَ مَاۤ اُبَرِّیُٔ نَفۡسِیۡ ۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵۳﴾ 
(یوسف) 
’’میں اپنے نفس کی پاکیزگی بیان نہیں کرتا‘ بے شک نفس تو برائی پر ابھارنے والا ہی ہے‘ مگر یہ کہ میرا پروردگار ہی رحم کر دے‘ یقینا میرا پالنے والا بڑی بخشش کرنے والا اور بہت مہربانی فرمانے والا ہے.‘‘ 

۲. شیطان کے خلاف جہاد‘ جس کے بارے میں فرمایا گیا کہ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِ وہ لوگوں کے دلوں میں پھونکیں مارتا ہے‘ وسوسہ ڈالتا ہے‘ مختلف حربوں سے مغالطہ انگیزی کرتا ہے‘ حیلہ سازی و بہانہ سازی سکھاتا ہے. اسی لیے اللہ تعالیٰ نے خبردار کرتے ہوئے فرمایا: 

اِنَّ الشَّیۡطٰنَ لَکُمۡ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوۡہُ عَدُوًّا ؕ 
(فاطر: ۶
’’شیطان یقینا تمہارا دشمن ہے اور تم بھی اس کو دشمن بنا کر رکھو.‘‘

۳. بگڑے ہوئے اور کافر و ملحد معاشرے کے خلاف جہاد. یہ معاشرہ تم کو اپنی اقداروروایات کے مطابق چلانا چاہتا ہے. دوسری طرف تم کو ایمان کے تقاضے کے مطابق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐکی اطاعت کرنی ہے. چنانچہ یا تو تم معاشرے کو بدل دو ورنہ وہ تم کو بدل دے گا. ظاہر بات ہے معاشرے کو بدلنے کے لیے تمہیں معاشرے کے تینوں طبقات کے خلاف جہاد کرنا ہو گا. اور ابتدائی مرحلے میں جہاد باللسان سے آغاز کرنا ہو گا.

۴. معاشرے پر اتمامِ حجت کے لیے تعلیم یافتہ طبقے 
(intellectuals) کو دعوت دی جائے گی ’’بالحکمۃِ‘‘ کہ بات ان کے دل کو لگے اور سمجھ میں آ جائے.
۵. عوام کو دعوتِ ایمان و اصلاح دی جائے گی 
’’بِالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ‘‘ کیونکہ ان کی سمجھ بوجھ کا معیار اسی سطح پر بات سمجھ سکتا ہے.

۶. بگڑے ہوئے لوگوں کو‘ جن کی سلیم الفطرت روحیں مسخ ہو چکی ہوں‘ دعوت دی جائے گی مجادلے اور مناظرے کے ذریعے.

ان تینوں سطحوں پر دعوت کے لیے مختلف صلاحیتوں کے افراد درکار ہوں گے. اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی  کو مخاطب کر کے فرمایا: 

اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ 
(النحل: ۱۲۵
’’اے نبی! اپنے ربّ کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو.‘‘

اور یہیں سے یہ اصول اخذ کیا گیا ہے: 
’’کَلِّمِ النَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِھِمْ‘‘ یعنی لوگوں کی عقل کے مطابق ان سے گفتگو کی جائے. اور ہر طبقے کے افراد پر اتمامِ حجت بھی اسی طرح ہو سکتا ہے‘ جس کی خاطر انبیاء و رُسل f کو مبعوث فرمایا گیا. اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: 

رُسُلًا مُّبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌۢ بَعۡدَ الرُّسُلِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا ﴿۱۶۵﴾ 
(النسائ) 
’’یہ سارے رسول خوشخبری دینے والے اور متنبہ کرنے والے بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان کو مبعوث کر دینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلے میں کوئی حجت نہ رہے‘ اور اللہ بہرحال غالب رہنے والا اور حکیم و دانا ہے.‘‘ 

۷. اتمامِ حجت کے بعد لازماً اظہارِ دین یا غلبۂ دین کا مرحلہ درپیش ہو گا. اس میں سب سے پہلے یک طرفہ تصادم ہو گا‘ لوگ ماریں گے‘ پیٹیں گے‘ قتل کریں گے‘ لیکن تم کو صرف صبر کرنا ہے. مکہ مکرمہ میں کم سے کم آٹھ سال تک رسول اللہ  
اور آپؐ کے ساتھیوں کا طرزِ عمل یہی رہا کہ جبر و تشدد برداشت کرنا ہے‘ سزا جھیلنا ہے‘ مگر جوابی کارروائی نہیں کرنی‘ اپنی مدافعت میں بھی ہاتھ نہیں اٹھانا.

۸. مصائب جھیلنے کے ساتھ ساتھ اپنی قوت مجتمع کرتے رہو اور جب مناسب قوت حاصل ہو جائے تو صبر محض والا جہاد اقدام اور چیلنج کی شکل اختیار کر جائے گا. پھر ایک ایک برائی کو چیلنج کرتے ہوئے اس کا گھیرا تنگ کر دیا جائے گا. گھیراؤ اور پکٹنگ کی اصطلاحات اسی ضمن میں استعمال ہوتی ہیں. اور یہی وہ مقام ہے جب منکر کو ہاتھ کی طاقت سے روکا جائے گا‘ جیسا کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 

مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ… الحدیث 
(۱
’’تم میں سے جو کوئی کسی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ کی طاقت سے بدل دے‘ اگر یہ نہ کر سکتا ہو تو زبان سے روکے … الخ

۹. جب نظامِ باطل کو ہاتھ کی طاقت سے روکا جائے گا تو ظاہر ہے کہ وہ پلیٹ میں رکھ کر اختیارات آپ کے حوالے تو نہیں کر دے گا‘ بلکہ بھرپور مقابلہ کرے گا اور اپنے وجود کی بقا کے لیے سارے جتن کر ڈالے گا اور یہیں سے مسلح ٹکرائو شروع ہو گا. یہ جہاد کی آخری اور نویں منزل ہے‘ جہاں جہاد قتال کی شکل اختیار کر چکا ہو گا. اس کے بعد یا باطل نظام ختم ہو جائے یا جہاد کرنے والے شہید ہو کر اللہ کے حضور سرخ رُو ہو جائیں گے. 

جہاد کی مختلف صورتیں

جہاد زندگانی: انسان کو اپنی بقا کے لیے بھی ایک قسم کا جہاد کرنا پڑتا ہے. یعنی بقائے ذات (preservation of the self) کی خاطر جہاد. بقائے ذات کی (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ ح۴۹. و سنن الترمذی‘ کتاب الفتن‘ ح۲۱۷۳. وسنن ابی داوٗد‘ کتاب العیدین‘ ح۱۱۴۵و دیگر کتب حدیث. خاطر انسان کو رزق‘ سر چھپانے کو جگہ اور لباس چاہیے‘ نیز دیگر لوازمات درکار ہوں گے. ان کے حصول میں مقابلہ بازی (competition) ہو گی جسے struggle for existence کہا گیا ہے. اسی طریقے سے بقاء نوع (preservation of the species کی خاطر جہاد ہے. اس کے لیے شادی کی ذمہ داریاں اٹھانی ہوں گی اور یہ وہ جہاد ہے جو ہر مسلمان اور مومن کر رہا ہے. چونکہ وہ اس میں ناجائز ذرائع استعمال نہیں کرتا بلکہ رزق حلال کماتا ہے‘ شرعی اصولوں کے مطابق نکاح کرتا ہے‘ جائز تعلق زن و شو قائم کرتا ہے لہٰذا یہ بھی جہاد میں شمار ہو گا. 

حقوق کی خاطر جہاد: 
اگر کسی خاص طبقے پر ظلم ہو رہا ہو یا عمومی سطح پر ظلم ہو رہا ہو تو اس ظلم سے نجات پانے کی خاطر جنگ کرنا یا جدوجہد کرنا بھی جہاد کا حصہ ہے. اسی طرح اپنے معاشی یا سیاسی حقوق حاصل کرنے کی خاطر محنت و جدوجہد کرنا‘ بالخصوص اگر سیاسی حقوق غصب کر لیے گئے ہوں تو ان کو حاصل کرنا شیر کے منہ سے نوالہ نکالنے والی بات ہوتی ہے. اگر معاشی استحصال(Exploitation) ہو تو ایسے ظالموں کا ہاتھ روکنا‘ یہ سب جہادِ زندگانی کے حصے اور اجزاء ہیں. اسی طرح اگر کسی فرد نے فرد کو یا قوم نے قوم کو محکوم بنا رکھا ہو‘ ان کی آزادی سلب کر لی ہو تو آزادی حاصل کرنے کی خاطر محنت و جدوجہد کرنا بھی فی الواقع جہاد ہے اور یقینا اگر کسی فرد یا قوم کے اندر حمیت نام کی کوئی چیز زندہ ہو گی تو وہ مر جانا گوارا کر لیں گے غلامی قبول نہیں کریں گے. چونکہ ایک مسلمان حصولِ مقاصد کے لیے جائز ذرائع استعمال کرتا ہے اس لیے اس کی ساری کوشش و محنت جہاد کے زمرے میں آتی ہے. اسی لیے رسول اللہ  نے تحفظ دین‘ تحفظ مال‘ تحفظ جان اور تحفظ عزت کی خاطر جان قربان کر دینے والوں کو شہید کا درجہ دیا ہے‘ فرمایا: 
مَنْ قُتِلَ دُوْنَ مَالِہٖ فَھُوَ شَہِیْدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُوْنَ دَمِہٖ فَھُوَ شَہِیْدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُوْنَ دِیْنِہٖ فَھُوَ شَہِیْدٌ وَ مَنْ قُتِلَ دُوْنَ اَھْلِہٖ فَھُو 
شَہِیْدٌ (۱

’’جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا گیا وہ شہید ہے اور جو شخص اپنی ذات کی حفاظت میںمارا گیا وہ بھی شہید ہے اور جو شخص دین کی حفاظت میں مارا گیا وہ بھی شہید ہے اور جو شخص اپنے اہل خانہ کی حفاظت (جان و عزت) میںمارا گیا وہ بھی شہید ہے.‘‘

البتہ مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ناجائز ذرائع اور ہتھکنڈے استعمال کرے. مسلمان کو تو یہاں تک حکم ہے کہ دورانِ جہاد و قتال غیر ضروری نقصان نہ کرے‘ مثلاً دشمن کے علاقے سے درخت بھی نہ کاٹے. البتہ ایک خاص موقع پر حکم قرآنی کے بعد درخت کاٹے گئے اور گھر برباد کیے گئے. ورنہ عموماً حکم یہی ہے کہ نہ تو دشمن کے گھر برباد کیے جائیں یعنی سول آبادی کو نقصان نہ پہنچایا جائے اور نہ بچوں‘ بوڑھوں‘ عورتوں‘ عبادت گاہوں میں موجود بے ضرر افراد کو نقصان پہنچایا جائے‘ نہ فصلوں کو برباد کیا جائے. چنانچہ معلوم ہوا کہ ہر مسلمان کا جہادِ حریت شرعی جہاد ہے بشرطیکہ اللہ اور اس کے رسول کے بنائے ہوئے قواعد و ضوابط کی پابندی کی جائے. 

جہاد برائے تلاشِ حقیقت: 
تاریخ دعوت و عزیمت پر نظر ڈالیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی جہاد برائے تلاشِ حقیقت سے بھرپور نظر آتی ہے. یقینا اور لوگ بھی اسی راہ کے مسافر رہ چکے ہیں لیکن حضرت ابراہم علیہ السلام کے واقعات مصدقہ ذرائع سے ہمارے پاس پہنچے ہیں اور تااَبد محفوظ ہیں. اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد حضرت سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ کی زندگی جہاد برائے تلاشِ حقیقت سے عبارت ہے. (۱) سنن الترمذی‘ کتاب الدیات‘ باب ماجاء فیمن قتل دون مالہٖ فھو شہید‘ ح۱۴۱۸ و۱۴۲۱. وسنن ابی داؤد‘ کتاب السنۃ‘ باب فی قتال اللصوص‘ ح۴۷۷۲. و سنن النسائی‘ کتاب تحریم الدم‘ باب من قاتل دون مالہ. و مسند احمد ۱/۱۹۰محدثین نے حدیث کو صحیح قرار دیا ہے. آپ ایران سے شام اور شام سے یثرب (مدینہ منورہ) پہنچے اور مقصود صرف حقیقت کی تلاش تھا. یہ بھی بہت بڑا جہاد ہے. 

جہاد برائے ترقی ایمان: 
ایمان کو پانے اور حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرنا یقینا بہت بڑا جہاد ہے. اگلے مرحلے میں ایمان پر قائم رہنے اور اس کو ترقی دینے کے لیے محنت کرنا بھی ایک جہاد ہے. ہم سب عالم اسباب میں رہتے ہیں اور یہ اسباب ہم پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں. جذبہ ایمان پر بشری تقاضوں کی اَوس پڑتی رہتی ہے. مسکن ایمان یعنی دل پر گناہوں اور لغزشوں کی گرد آتی رہتی ہے. اس لیے مسلسل ذکر اور استحضار اللہ فی القلب کا حکم ایمان کو صاف اور صیقل کرنے کے لیے دیا گیا ہے. ایمان کو محض قائم رکھنا اور برقرار رکھنا ہی مطلوب نہیں بلکہ آگے بڑھ کر اس کی گہرائی اور گیرائی میں اضافہ بھی مقصود ہے. اگر ترقی کرنے کی بجائے ایک جگہ ہی پڑاؤ کر لیا گیا تو عین ممکن ہے کہ کسی دن پستی کی طرف سفر شروع ہو جائے جو بہت بڑا خسارہ ہے.

ایمان اور اسلام کا معاملہ ایک درخت کی مانند ہے. جوں جوں درخت کی شاخیں اور ٹہنیاں بڑھتی چلی جائیں گی اسی اعتبار سے اس کی جڑیں زمین میں گہری ہوتی چلی جائیں گی‘ یعنی جس نسبت سے اسلام کے ظاہری احکام پر عمل ہو گا اسی تناسب سے ایمان کی جڑیں دل میں مضبوط ہوتی چلی جائیں گی اور وہ دل میں گہری ہوتی چلی جائیں گی. چنانچہ ایمان کو قائم اور زندہ رکھنے بلکہ پروان چڑھانے کے لیے بھی ایک مسلسل کوشش و محنت کرنا پڑتی ہے‘ جسے جہاد برائے ترقی ایمان سے تعبیر کیا جا سکتا ہے. تو معلوم ہوا کہ مومن کا ہر لمحہ جہاد سے عبارت ہے اور وہ ہر وقت حالت جہاد میں ہے. 

جہاد فی اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کا فرق

مکی سورتوں میں ’’جہاد فی اللّٰہ‘‘ کی اصطلاح وارد ہوئی ہے. فرمایا: وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ (الحج: ۷۸
’’اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے.‘‘

نیز فرمایا: 

وَ الَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا ؕ 
(العنکبوت: ۶۹
’’جو لوگ ہماری خاطر مجاہدہ کریں گے انہیں ہم اپنے راستے دکھائیں گے.‘‘

دوسری طرف مدنی سورتوں میں ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ اور ’’قتال فی سبیل اللہ‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے. بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حصولِ ایمان کی کوشش اور ایمان کی گیرائی اور گہرائی میں محنت کو جہاد فی اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور دعوت و تبلیغ اور اقامت دین کی محنت کو ’’جھاد فی سبیل اللّٰہ‘‘ کہا جائے گا… 
واللہ اعلم بالصواب. 

وسائل جہاد

وقت اور ضرورت کی مناسبت سے جہاد کا انداز اور اسلوب مختلف ہو گا. اس لیے کبھی ہاتھ سے جہاد ہو گا‘ کبھی زبان سے اور کبھی دل سے. رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 

فَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِیَدِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِلِسَانِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِقَلْبِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ وَلَیْسَ وَرَائَ ذٰلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍ 
(۱)
 ’’جو ان کے خلاف ہاتھ سے جہاد کرے وہ مومن ہے اور جو زبان سے جہاد کرے وہ بھی مومن ہے اور جو دل سے ان کے خلاف جہاد کرے وہ بھی مومن ہے. اس کے بعد رائی کے دانے جتنا بھی ایمان نہیں ہے.‘‘

اور اس جہاد کے لیے جو ہتھیار استعمال ہو گا وہ قرآن کا ہے. اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا: 
(۱) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب کون النھی عن المنکر من الایمان‘ ح۵۰فَلَا 

تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ جَاہِدۡہُمۡ بِہٖ جِہَادًا کَبِیۡرًا ﴿۵۲﴾ (الفرقان) 
’’پس (اے نبی!) کافروں کی بات ہرگز نہ مانو اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ زبردست جہاد کرو.‘‘

خارج میں جہاد سے پہلے داخل میں جو نفس سے جہاد ہو گا اس کا ہتھیار بھی قرآن حکیم ہی ہے‘ فرمایا: 

وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا ؕ﴿۴﴾ 
(المزمل) 
’’اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو.‘‘

کیونکہ اندر کو شیطانی وسوسوں سے پاک صاف کرنے والی شے قرآن حکیم ہی ہے. علامہ اقبال نے اس حقیقت کی عکاسی اپنے اشعار میں اس طرح کی ہے.

کشتن ابلیس کارے مشکل است
زانکہ او گم اندر اعماقِ دل است
خوش تر آں باشد مسلمانش کنی
کشتہ شمشیر قرآنش کنی!

’’ابلیس کو مارنا ایک مشکل کام ہے کہ وہ دل کی گہرائیوں میں جا کر ڈیرا لگا لیتا ہے. بہتر یہ ہے کہ اسے مسلمان بنا دو اور قرآن کی تلوار سے اس کا قلع قمع کر دو.‘‘ 

حقیقت میں علامہ اقبال نے ان دو شعروں میں دو حدیثوں کے مدعا کو جمع کر دیا ہے. 
پہلی حدیث میں رسول اللہ نے ارشاد فرمایا ہے: 

اِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِیْ مِنَ الْاِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ 
(۱(۱) مسند احمد‘ ج۳‘ ص۱۵۶ و ۲۸۵و۳۰۹‘ ج۶‘ ص۳۳۷. و صحیح البخاری‘ کتاب الاعتکاف‘ باب ھل یخرج المعتکف لحوائجہ الی باب المسجد‘ ح۱۹۳۰. وصحیح مسلم‘ کتاب الاسلام‘ باب۹‘ ح۲۱۷۵. و سنن ابی داؤد‘ کتاب السنۃ‘ باب فی ذراری المشرکین‘ ح۴۷۱۹’’یقینا شیطان انسان کے اندر خون کی طرح دوڑتا ہے.‘‘

صحیح بخاری میں یہ حدیث سات جگہ بیان ہوئی ہے‘ ایک جگہ الفاظ کچھ یوں ہیں: 

اِنَّ الشَّیْطَانَ یَبْلُغُ مِنَ الْاِنْسَانِ مَبْلَغَ الدَّمِ 

’’شیطان انسان کے ہر اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جہاں جہاں تک خون پہنچتا ہے.‘‘

ظاہر بات ہے ایسے زہر کا تریاق بھی کوئی ایسا ہی عدیم النظیر ہونا چاہیے جو جسم انسانی کے ہر رگ و ریشے تک پہنچے اور زہر کا مداوا کرے. اور یہ صرف قرآن حکیم ہی ہو سکتا ہے.
دوسری حدیث میں آپ نے ارشاد فرمایا: 

مَا مِنْکُمْ مِنْ اَحَدٍ اِلاَّ وَقَدْ وُکِّلَ بِہٖ قَرِیْنُہٗ مِنَ الشَّیَاطِیْنِ قَالُوْا: وَاَنْتَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: نَعَمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ اَعانَنِی عَلَیْہِ فَاَسْلَمَ 
(۱
’’تم میں سے ہر ایک کے ساتھ شیاطین میں سے ایک ساتھی ہے‘‘. صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ کے ساتھ بھی؟ فرمایا: ’’ہاں‘ البتہ اللہ تعالیٰ نے میری مدد فرمائی ہے اور وہ تابع فرمان ہو گیا ہے.‘‘

(ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ: وہ مجھے صرف بھلائی کی بات کہتا ہے)
قرآن حکیم ہی دعوت و تبلیغ اور انذار و تبشیر کا ذریعہ اور مرکز ہے. اللہ تعالیٰ کے مندرجہ فرمودات پر ذرا غور کریں گے تو بات واضح ہو جائے گی. فرمایا:

فَذَکِّرۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مَنۡ یَّخَافُ وَعِیۡدِ ﴿٪۴۵﴾ (قٓ) (۱) مسند احمد ۱/۲۵۷. شرح احمد شاکر‘ ح۲۳۲۳. والمعجم الکبیر للطبرانی ۱۲/۸۶‘ ح۱۲۶۲۰ (بروایۃ عبداللّٰہ بن عباس رضی اللہ عنہما) معمولی لفظی اختلاف کے ساتھ. صحیح مسلم‘ کتاب المنافقین‘ باب تحریش الشیطان‘ ح۲۸۱۴(بروایۃ عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللہ عنہ). و مسند احمد ۱/۳۸۵. شرح احمد شاکر ۳۶۴۸نیز متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے یہ حدیث مروی ہے‘ ملاحظہ ہو مجمع الزوائد للھیثمی ۸/۲۲۵‘ ح۱۳۸۵۶ وما بعد. ’’پس تم اس قرآن کے ذریعے اسے یاددہانی کراؤ جو میری تنبیہہ سے ڈرے.‘‘
اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو بڑے زوردار الفاظ میں تبلیغ قرآن کا حکم دیا ہے‘ فرمایا: 

یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ ؕ وَ اِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسَالَتَہٗ ؕ 
(المائدۃ: ۶۷
’’اے پیغمبر! جو کچھ تمہارے ربّ کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو. اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا.‘‘

اور رسول اکرم نے یہی حکم اپنی اُمت کو دیا. فرمایا: 

بَلِّغُوْا عَنِّی وَلَوْ آیَۃً 
(۱
’’میری طرف سے دوسروں کو پہنچا دو‘ خواہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو.‘‘

کیونکہ یہ قرآن ہی تبشیر و انذار کا صحیح ذریعہ ہے. متعدد آیاتِ قرآنیہ اس مضمون کو بیان کر رہی ہیں. بس ذرا توجہ سے قرآن حکیم کو پڑھنے کی ضرورت ہے. 

البتہ جب مرحلۂ دعوت و تبلیغ اور انذار و تبشیر سے آگے قدم بڑھا کر میدانِ کارزار میں اتریں گے تو طاقت کا طاقت سے ٹکراؤ ہو گا. اس موقع پر جسمانی طاقت اور اسلحہ کی طاقت آپس میں ٹکرائے گی. ایسے ہی موقع کی مناسبت سے آپ نے طاقتور مومن کو دوسرے کے مقابلے میں ’’خیر‘‘ قرار دیا ہے. فرمایا: 

المُؤْمِنُ الْقَوِیُّ خَیْرٌ وَاَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ مِنَ الْمُؤْمِنُ الضَّعِیْف 
(۲
’’طاقتور مومن کمزور مومن کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے اور اللہ کو زیادہ محبوب ہے.‘‘ 
(۱

صحیح البخاری‘ کتاب الانبیائ‘ باب ما ذکر عن بنی اسرائیل ح۳۲۷۴. وسنن الترمذی‘ کتاب العلم‘ باب ما جاء فی الحدیث عن بنی اسرائیل ح۲۶۷۱.

(۲) صحیح مسلم‘ کتاب القدر‘ باب فی الامر بالقوۃ… الخ‘ ح۲۶۶۴. و سنن ابن ماجہ‘ المقدمہ‘ باب فی القدر‘ ح۷۹. و مسند احمد ۲/۳۷۰
استاذ احمد شاکر نے حدیث کو صحیح قرار دیا ہے‘ شرح احمد شاکر‘ ح۸۸۱۵علامہ اقبال نے جہاد کے لیے جینے اور اس راہ میں مرنے کے لیے مضبوط جسم و جان کی اہمیت ان الفاظ میں بیان کی ہے:

ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے!

ہماری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان حقیقی کا لازمی نتیجہ 
(inevitable result) جہاد فی سبیل اللہ ہے. اگر دعوائے ایمان کے ساتھ جہاد شامل ہے تو ایمان حقیقی ہے ورنہ بس قانونی اسلام ہے‘ کیونکہ جہاد ارکانِ اسلام میں تو شامل نہیں‘ البتہ حقیقی ایمان کا رکن رکین ہے. سورۃ الحجرات آیت۱۵ میں ایمانِ حقیقی کے دو رُکن بیان ہوئے ہیں:

(۱) دل میں غیر متزلزل ایمان‘ جس میں شک کا شائبہ تک نہ ہو.
(۲) عمل میں جہاد‘ جو اصلاحِ نفس سے شروع ہو کر قتال تک جاتا ہو.