حقیقت ایمان. متفرق مباحث 

ایمان کے ثمراتِ ظاہری

ایمان سے مراد یہاں حقیقی ایمان ہے. ایمان کے ثمراتِ ظاہری کو درخت کی مثال سامنے رکھ کر سمجھا جا سکتا ہے. اس میں پہلے دو پتیاں ہی پھولتی ہیں‘ پھر تنا بنتا ہے‘ اس تنے میں سے شاخیں نکلتی ہیں اور پھر پتے‘ پھول اور پھل نکلتے ہیں. جس قدر درخت اوپر کو اٹھے گا اسی اعتبار سے اس کی جڑ مضبوط ہوتی جائے گی. اسی طرح جتنا ایمان مضبوط ہو گا اسی اعتبار سے عمل صالح‘ تواصی بالحق‘ تواصی بالصبر‘ جہاد فی سبیل اللہ‘ ارکانِ اسلام‘ اطاعت‘ عبادت اور وفا و فداکاری میں نکھار آتا چلا جائے گا. گویا یہ سارے اعمال ایمان کے ظاہری برگ و بار ہیں. حدیث جبریل میں جو لفظ ’’احسان‘‘ استعمال ہوا ہے اس سے مراد ایمان کے ثمراتِ ظاہری کا نقطۂ عروج ہے. ان اعمال میں جس قدر شدت‘ اخلاص اور عمدگی ہو گی اسی اعتبار سے درجۂ احسان میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا. کیونکہ احسان کے معنی کسی کام کو عمدگی اور خوبصورتی سے ادا کرنے کے ہوتے ہیں. حدیث میں آیا ہے: 

وَاِذَا ذَبَحْتُمْ فَاَحْسِنُوا الذِّبْحَ 
(۱(۱) پوری حدیث اس طرح ہے: 

اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ الْاِحْسَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ‘ فَاِذَا قَتَلْتُمْ فَاَحْسِنُوا الْقِتْلَۃَ وَاِذَا ذَبَحْتُمْ فَاَحْسِنُوا الذَّبْحَ‘ وَلْیُحِدَّ اَحَدُکُمْ شَفْرَتَہٗ فَلْیُرِحْ ذَبِیْحَتَہٗ 

’’اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں عمدگی اور خوبصورتی کو فرض کیا ہے. چنانچہ جب کسی کو قتل کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو اور جب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو اور اپنی چھری کی دھار کو تیز کر لو تاکہ جانور کو آرام سے ذبح کیا جا سکے‘‘. (صحیح مسلم‘ کتاب الصید‘ باب ۱۱‘ و دیگر کتب حدیث) 

’’جب جانور کو ذبح کرنا ہو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو.‘‘
یعنی ہر کام بحسن و خوبی کرو‘ نماز پڑھو تو اچھی پڑھو. دین کے جو بھی کام ہیں ان میں خوبصورتی‘ حسن اور رعنائی ہونی چاہیے. حسن و خوبی کے ساتھ ساتھ ہر کام میں شدت اور گہرائی ہو. جہاد و مجاہدہ میں بھی اتنی ہی شدت ہو. ایثار و قربانی میںبھی شدت ہو. نماز میں بھی وہ کیفیت ہو کہ معراج المومن بن جائے. اسی کو شریعت میں احسان کا نام دیا گیا ہے اور حدیث جبریل (جس کا تذکرہ گزر چکا ہے) میں بھی احسان سے یہی کیفیت مراد ہے. 

ایمان اور فطرت

ایمان کا اصل حاصل اور لب لباب امن ہے‘ اور امن سے مراد ذہنی و قلبی سکون و اطمینان ہے. یہ دو اعلیٰ ترین استعدادات (faculties) ہیں جو ہر انسان میں موجود ہیں جنہیں ہم دل و دماغ سے تعبیر کرتے ہیں. جو بھی الجھن ہوتی ہے‘ قلب کو صدمہ ہو‘ ذہن کو فکر ہو‘ اندیشے ہوں‘ سب کا تعلق انہی دو چیزوں سے ہے. اور واقعہ یہ ہے کہ وہ لوگ بڑے خوش نصیب ہیں جن کے یہ دونوں اعضاء(faculties) متحد ہوں اور ان کی شخصیت منقسم (split) نہ ہو کہ دل کچھ کہہ رہا ہو اور دماغ کچھ اور کہہ رہا ہو‘ بلکہ دل و دماغ کے اتحاد کے ساتھ علیٰ وجہ البصیرۃ انہوں نے جو بھی راستہ اختیار کیا ہو وہ اسی پر گامزن ہوں.

ایمان کے ذریعے ان تمام سوالات کا جواب مل جاتا ہے جن سے فلسفہ بحث کرتا ہے مثلاً: 

(۱) اس کائنات کی حقیقت کیا ہے؟
(۲) کیا یہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی؟
(۳) کیا یہ خودبخود بن گئی ہے اور خودبخود چل رہی ہے؟ یا اسے کوئی بنانے اور چلانے والا ہے؟ 
(۴) اس سے ہمارا کوئی ربط و تعلق ہے یا ربط الحادث بالقدیم کا سا معاملہ ہے؟
(۵) اگر یہ کائنات حادث ہے اور اس کا خالق قدیم‘ تو ان کے مابین ربط و تعلق کیا ہے؟
(۶) ہماری زندگی کی حقیقت کیا ہے؟ اور مبدأ و معاد کیا ہے؟ 
(۱
(۷) خیر کیا ہے؟ شر کیا ہے؟ یہ کوئی مستقل اقدار 
(values) ہیں یا ہمارا خیال ہی ہے؟ 
(Nothing is good or bad; only thinking makes it so) 

(۸) علم کیا ہے؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟ علم بالحواس اور علم بالعقل کو تو ہم جانتے ہیں‘ لیکن کیا اس سے وراء بھی کوئی ذریعہ علم 
(source of knowledge) ہے؟
(۹) انسان کے محرکاتِ عمل کیا ہیں؟ آیا صرف حیوانی جبلتیں ہی ہیں یا اس سے بالاتر بھی انسانی وجود کی کوئی حقیقت ہے؟

یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن سے فلسفے کی مختلف شاخیں مثلاً مابعد الطبیعیات 
(Metaphysics) ‘ اخلاقیات (Ethics) اور نفسیات (Psychology) بحث کرتی ہیں.
جب سے انسان نے سوچنا شروع کیا ہے تب سے اہل دانش ان سوالات پر غور کرتے رہے ہیں. ہر دانشور نے اس کا 
world-view پیش کیا ہے. ایمان بھی (۱) جیسے حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ علیہ کی کتاب ہے ’’مبدا و معاد‘‘. یعنی جب تک یہ نہ معلوم ہو کہ ہماری زندگی کے سفر کا آغاز کیا ہے اور اس کی آخری منزل کون سی ہے؟ 

سنی حکایت ہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم!
تو اس کا منطقی نتیجہ نکلتا ہے کہ:
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
رہا یہ وہم کہ ہم ہیں سو یہ بھی کیا معلوم؟

اس کا نتیجہ 
Skepticism یا Agnosticism یعنی ارتیابیت یا لاادریت ہے. درحقیقت ایک مکمل تصورِ کائنات (wold-view) یا فلسفے کی جرمن اصطلاح میں "Weltenschuong" ہے. حقیقت یہ ہے کہ صرف ایمان ہی وہ تصورِ کائنات ہے جو فطرتِ انسانی کے ساتھ کامل مطابقت رکھتا ہے. ایمان ہی کے ذریعے سکون‘ انبساط اور معرفت ملتی ہے‘ جس سے سارے مسائل کا حل سامنے آ جاتا ہے.

یہاں یہ بات بھی جان لیں کہ نور سے انسان کو سکون ملتا ہے اور اندھیرے سے بے چینی ملتی ہے. کمرے میں اندھیرا ہو جائے تو آدمی بے چین ہو جاتا ہے‘ کچھ پتہ نہیں چلے گا کہ آگے کون ہے اور پیچھے کون؟ اس کے برعکس روشنی میںسب معلوم ہو جاتا ہے کہ آگے کیا ہے؟ پیچھے کیا ہے؟ دائیں اور بائیں کیا ہے؟

حقیقی مومن ہونے کی صورت میں ذہنی و قلبی اطمینان حاصل ہوتا ہے. قلب کو دو قسم کے احساسات درپیش ہوتے ہیں‘ ایک کیفیت خوشی‘ اطمینان‘ انبساط اور مسرت کی ہوتی ہے جبکہ دوسری کیفیت غم‘ رنج‘ صدمہ‘ کرب اور دُکھ کی ہوتی ہے. آج کی نوجوان نسل میں ’’وجود کا کرب‘‘ نامی فلسفہ بہت مشہور ہو رہا ہے. 

دل میں اگر رنج و الم ہو تو دماغ میں اندیشے اور تشویش پیدا ہوتی ہے‘ جس کی مختلف شکلیں ممکن ہیں‘ مثلاً فلاں جانور نقصان نہ پہنچا دے‘ سانپ نہ کاٹ لے‘ فلاں افسر یا باس ناراض نہ ہو جائے. دل کے رنج و غم اور دماغ کے اندیشے اور تشویش کو قرآن نے حزن و خوف کا نام دیا ہے. جب امن ہو گا تو ’’خوف و حزن‘‘ نہیں ہو گا. اور ایمان کا لازمی نتیجہ ’’امن‘‘ ہے‘ یعنی زوالِ حزن و خوف. لہٰذا اگر کوئی انسان خوف و حزن سے نجات پا لے اور اسے سکون و اطمینان مل جائے تو یہ اس کے قلبی ایمان کی نشانی ہے.
 

ایمان اور تصوف

’’تصوف‘‘ ایک مجہول النسب لفظ ہے. بہرحال مسلمانوں میں یہ اصطلاح مشہور ہو چکی ہے اور ایک بڑے طبقے کے ہاں مقبول و معروف ہے. تصوف کا لفظ نہ تو قرآن حکیم میں ہے اور نہ ہی غالباً حدیث رسول اللہ میںموجود ہے.

لفظ تصوف کا وزن 
’’تَفَعُّل‘‘ ہے‘ لیکن اس کا ثلاثی اصل کیا ہے؟ معلوم نہیں. کچھ لوگوں نے ’’تصوف‘‘ کا اصل ’’صوف‘‘ مانا ہے‘ یعنی اونی لباس‘ کیونکہ ابتداء ً صوفیاء اپنے جسم کو تکلیف دینے اور نزاکت سے بچانے کے لیے ادنیٰ کپڑے استعمال کرتے تھے‘ غالباً یہی بات صحیح ہے. کچھ دوسرے حضرات نے ’’تصوف‘‘ کا اصل ’’صفا‘‘ قرار دیا ہے‘ لیکن ہماری معلومات کی حد تک ’’صفا‘‘ سے لفظ تصوف کسی شکل میں نہیں بنتا.

قرآنی اصطلاح کے مطابق تصوف کا موضوع ولایت یا موالاتِ باہمی ہے. اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا مولیٰ اور ولی ہے‘ فرمایا: 

اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ۬ؕ 
(البقرۃ: ۲۵۷
’’جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کا حامی و مددگار اللہ ہے‘ وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے.‘‘

اسی طرح اہل ایمان بھی اللہ کے ولی ہیں. فرمایا: 

اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿ۚۖ۶۲﴾ 
(یونس) 
’’سن لو! جو اللہ کے دوست ہیں ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے.‘‘ 

تصوف کا مقصد

تصوف کا مقصد یہ ہے کہ ایمان انسان کے قال سے آگے بڑھ کر حال کی شکل اختیار کر لے. کسی کا زبان سے ایمان کا اقرار کرنا اور چیز ہے‘ لیکن ایمان انسان کے جسم پر ایک کیفیت کے ساتھ نظر آئے یہ دوسری چیز ہے اور یہی تصوف کا مقصد و منشا ہے.

تصوف کا فلسفہ

مسلمانوں میں تصوف کے حوالے سے کچھ لوگ معروف ہوئے ہیں جیسے کندی‘ فارابی‘ ابن سینا‘ ابن رشد وغیرھم‘ لیکن یہ تمام حضرات ارسطو کے متبعین ہیں‘ انہوں نے ارسطو کی منطق کے حوالے سے دین کو سمجھنے کی کوشش کی اور بڑی سخت ٹھوکریں کھائی ہیں. فی زمانہ ان کے متبعین میں ڈاکٹر فضل الرحمن (۱کا نام بھی آتا ہے. ’’اصل میں مسلمانوں کے صحیح فلسفی صوفیاء ہیں‘‘ (۲یہ جملہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کا ہے (اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے اور ان کی کوتاہیوں کو معاف فرما دے) اگرچہ وہ صوفیاء کے کٹر دشمن تھے اور ان کے خیال میں تصوف کل کا کل ضلالت ہے. اتنے شدید اختلاف کے باوجود مولانا کو تسلیم تھا کہ اسلام کے اصل فلسفی صوفیاء ہی تھے. جہاں تک تصوف کا فلسفیانہ پہلو ہے تو وہ بہت کم لوگوںکو معلوم ہے‘ البتہ تصوف کا عملی پہلو ’’تزکیۂ نفس‘‘ اکثر لوگوں کو معلوم ہے.

میرے نزدیک تاریخ انسانیت کے سب سے بڑے ماہرین نفسیات صوفیاء کرام تھے. جس طرح انہوں نے نفس انسانی کی گہرائیوں میں اُتر کر مشاہدہ کیا ہے کہ حقائق کیا ہیں؟ انسان کے اندر کیا کچھ موجزن ہے؟ انسان کے نفس کے اندر کیسے کیسے 
(۱) ڈاکٹر فضل الرحمن پاکستان میں بہت بدنام ہوئے. ان کے خلاف ۱۹۶۸ء میں ایجی ٹیشن بھی ہوا‘ جو کہ ایوب کے زوال کا سبب بن گیا. ڈاکٹر فضل الرحمن نے وحی اور نبوت کا وہی تصور پیش کیا جو سابقہ فلاسفہ کا تصور تھا‘ بلکہ ان کی ڈاکٹریٹ کا تحقیقی مقالہ بھی اسی موضوع پر Concept of Prophethood in Islam تھا. اہل سنت اور متکلمین اسلام کے نزدیک یہ کفر کا نیا ایڈیشن تھا‘ اس لیے ان کے خلاف بہت شدت سے تحریک چلی. (ماخوذ)

(۱) صوفیاء سے مراد آج کے بھنگی‘ چرسی‘ قبروں کے مجاور یا بازاروں میں ننگ دھڑنگ پھرنے والے فاترالعقل لوگ قطعاً نہیں‘ بلکہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خدمت اسلام کی خاطر ہر طرح کی مشقتیں برداشت کیں اور تمام ممکنہ وسائل کے ذریعے کلمۃ الاسلام لوگوں تک پہنچایا. (ابو عبدالرحمن) 
طوفان برپا ہیں؟ جدید مادہ پرست ماہرین نفسیات کی تو وہاں تک رسائی ہی نہیں. 

بے خدا فلسفہ

فلسفہ اور محض فلسفہ جس میں سارا دارومدار منطق پر ہوتا ہے اور منطق جو ہمارے حواس اور معلومات پر مبنی ہے اس کی منطقی انتہا (logical climax or end) ارتیابت یا لااَدریت ہے. لہٰذا اگر کسی نے دلیلوں کے ذریعے اللہ کو ماننا ہے تو قطعاً اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا.

علامہ اقبال مرحوم نے اپنے پہلے خطبے میں کہا تھا کہ وجودِ باری تعالیٰ کے لیے جتنے بھی دلائل 
(arguments) دیے گئے ہیں وہ سب ایک دوسرے کو کاٹ دیتے ہیں. دلیل‘ دلیل کو کاٹ دیتی ہے. منطق‘ منطق سے کٹ جاتی ہے. چنانچہ منطق اور دلائل سے آپ اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتے. اس کے لیے کچھ اور کام کرنے پڑتے ہیں جن کے ذریعے انسان کو نعمت یقین حاصل ہوتی ہے. 

تصوف کا میدان

تصوف میں جو چیزیں زیر بحث آتی ہیں وہ سلوک ہے‘ تقرب الی اللہ کی منزلیں طے کرنا ہے‘ وصول الی اللہ کے لیے آگے بڑھنا ہے‘ جس میں کئی مقامات اور منزلیں آتی ہیں: مقامِ صبر‘ مقامِ شکر‘ مقامِ محبت‘ مقامِ تسلیم و رضا اور مقامِ توکل و تفویض. بہرحال تصوف کا حاصل مرتبہ ولایت ہے جس کو قرآن حکیم نے رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً اور رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ کہا ہے. یعنی بندہ اللہ سے راضی‘ اور اللہ بندے سے راضی‘ بندہ اللہ کا دوست اور اللہ بندے کا دوست‘ اور دوسری بھی ایسی مثالی جس کا نقشہ حدیث قدسی میں اس طرح بیان ہوا ہے. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے ارشاد فرمایا:
 
اِنَّ اللّٰہَ قَالَ: مَنْ عَادٰی لِی وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ‘ وَمَا تَقَرَّبَ اِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْئٍ اَحَبَّ اِلَیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَیْہِ‘ وَمَا یَزَالُ عَبْدِیْ 
یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی اُحِبَّہٗ‘ فَاِذَا اَحْبَبْتُہٗ: کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ‘ وَ بَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِہٖ‘ وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِھَا‘ وَرِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا‘ وَاِنْ سَاَلَنِیْ لَاُعْطِیَنَّہٗ‘ وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِیْ لَاُعِیذَنَّہٗ‘ وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَیْئٍ اَنَا فَاعِلُہٗ تَرَدُّدِی عَنْ نَفْسِ الْمُؤْمِنِ‘ یَکْرَہُ الْمَوْتَ وَاَنَا اَکْرَہُ مَسَائَ تَہُ (۱
’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’جس نے میرے کسی ولی (دوست) کے ساتھ دشمنی کی میں اس کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیتا ہوں. جو کام میں نے اپنے بندے پر فرض کر رکھے ہیں ان سے زیادہ کسی دوسرے ذریعے سے میرا بندہ میرا قرب حاصل نہیں کر سکتا. تاہم بندہ نوافل کے ذریعے مسلسل میرے قریب ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں. اور جب میں اس کو اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کی ٹانگ بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے. اگر وہ مجھ سے کچھ مانگتا ہے تو میں اسے ضرور دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ کا طالب ہو تو اسے پناہ دیتا ہوں. اور میں کسی کام میں بھی اتنے تردّد سے کام نہیں لیتا جتنا تردّد مجھے مؤمن کی جان نکالنے کے بارے میں ہوتا ہے. مومن کو موت ناپسند ہوتی ہے اور میں بھی اسے تکلیف دینا نہیں چاہتا.‘‘
یہ مرتبۂ ولایت ہے‘ جس کے نتیجے میں انسان اسلام اور اس کے بعد ایمان کی منزلیں طے کر کے مرتبہ احسان پر فائز ہو جاتا ہے. کیونکہ مرتبہ ولایت ایمان میں گہرائی کا نتیجہ ہے. ایمان کی گہرائی‘ گیرائی‘ شدت اور قوت کی وجہ سے وہ انسان کا حال بن جاتا ہے. جب یہ کیفیت پیدا ہو گی تو بندے کی اطاعت‘ دلی کیفیت‘ فطرت‘ اللہ کے لیے فدائیت و فدویت آسمان کو چھونے لگے گی. گویا وہ 
اَصۡلُہَا ثَابِتٌ (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الرقاق‘ باب التواضع‘ ح۶۱۳۷وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ کا عملی نمونہ پیش کرے گا. اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ایمان کی مثال درخت سے اس لیے دی ہے کہ درخت جس قدر اونچا ہوتا جاتا ہے اسی اعتبار سے اس کی جڑ زمین میں گہری اور مستحکم ہوتی جاتی ہے. یہ مقابلے میں دو طرفہ عمل ہے. جس قدر جڑ نیچے گہری ہو گی اساسی اعتبار سے برگ و بار اوپر نظر آئیں گے اور جس قدر درخت کا ظاہری پھیلائو زیادہ ہو گا اسی اعتبار سے اس کی جڑ زمین میں گہری ہو گی. اگر ایمان جڑ کا حکم رکھتا ہے تو برگ و بار اور شاخیں نیک اعمال کا مقام رکھتی ہیں. اس اعتبار سے مرتبۂ ولایت اور احسان میں کوئی فرق نہیں‘ لیکن پوشیدہ جڑ اور ظاہری شاخوں اور پتوںکا اپنا علیحدہ علیحدہ مقام ہے. 

تقدیر پر ایمان

اللہ تعالیٰ پر ایمان کا لازمی خاصہ تقدیر پر ایمان ہے. انسان تسلیم و رضا کا خوگر بن جائے‘ یعنی راضی برضائے ربّ رہے. وہ اس بات پر یقین کر لے کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے‘ چاہے اس میں مادی اسباب و علل کتنے ہی کیوں نہ ہوں‘ لیکن مسبب الاسباب اللہ تعالیٰ کی ذات ہے. جو کچھ ہو رہا ہے وہ باذنِ ربی ہو رہا ہے‘ لہٰذا جو کچھ میرے ربّ کی طرف سے آئے اس پر کیا شکوہ و شکایت؟ کیا رنج؟ کیا غم؟ یقینا اسی میں میری خیر ہے. میں تو کوتاہ نظر ہوں‘ میں تو اتنا بھی نہیں جانتا کہ میری بھلائی کس میں ہے. اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: 
وَ عَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ۚ وَ عَسٰۤی اَنۡ تُحِبُّوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ شَرٌّ لَّکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۲۱۶﴾٪ 
(البقرۃ) 
’’ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو‘ اور ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بُری ہو. اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے.‘‘ 
تو معلوم ہوا کہ راضی برضائے ربّ رہنا درحقیقت تسلیم و رضا کا نام ہے ؎

ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے
بے نیازی تری عادت ہی سہی!

اسی کا منطقی نتیجہ یا تصویر کا دوسرا رُخ ’’توکل اور تفویض‘‘ ہے. 

رضا و توکل میں فرق

رضا کا تعلق اس نتیجے پر ہے جو ہم پر وارد ہو رہا ہے‘ یعنی جو بھی حالات آ رہے ہیں. ارشاد باری تعالیٰ ہے:
 
مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِط 
(التغابن: ۱۱
’’کوئی مصیبت کبھی نہیں آتی مگر اللہ کے اذن سے ہی آتی ہے.‘‘

اس کے بالمقابل جو اعمال‘ بھاگ دوڑ‘ سعی‘ جدوجہد اور تگ و دو ہم سے صادر ہو رہے ہیں ان کے نتائج پر اطمینان توکل کہلاتا ہے. سارے اسباب و وسائل موجود ہوں لیکن جب تک اللہ نہ چاہے کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا. مثلاً آپ کو کل کہیں جانا ہے‘ گاڑی اے ون حالت میں ہے‘ پٹرول وغیرہ بھی ٹھیک ہے‘ اگر آپ نے کہہ دیا کہ میں کل ضرور وہاں جائوں گا تو آپ اللہ کو بھول گئے. اللہ تعالیٰ کی مشیت و اذن درمیان میں یاد نہیں رہا. 

معرفت ِ ربّ کے مقامات

امام رازیؒ نے معرفت ربّ کے تین مقام بیان کیے ہیں:

A معرفت ربّ کا بلند ترین مقام تو یہ ہے کہ ہر شے سے پہلے اللہ نظر آئے.
B درمیانی مقام یہ ہے کہ ہر شے کے ساتھ اللہ نظر آئے. 
C اس کا ادنیٰ مقام یہ ہے کہ واقعے کے بعد اللہ یاد آ جائے.
 
ذرا غور کریں کہ ہمیں تو نہ اللہ نظر آتا ہے نہ یاد آتا ہے‘ بس ظاہری عوامل پر غور کیا جاتا ہے. لہٰذا واقعات و حادثات کے نتیجے میں ایمان بیدار ہوتا ہے نہ توکل 
پیدا ہوتا ہے.
 

توکل کا صحیح مفہوم

عام طور پر توکل کے یہ معنی لیے جاتے ہیں کہ ہاتھ پائوں چھوڑ کر بیٹھ جائو. یہ توکل نہیں ہے. بلکہ پوری طرح محنت کرنا ضروری ہے‘ جیسا کہ قرآن حکیم دشمن کے خلاف وسائل حرب تیار رکھنے کا حکم دیتا ہے. فرمایا: 

وَ اَعِدُّوۡا لَہُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّۃٍ وَّ مِنۡ رِّبَاطِ الۡخَیۡلِ… 
(الانفال: ۶۰
’’اور تم لوگ جہاں تک تمہارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لیے تیار رکھو…‘‘

کسی شاعر نے اس شعر میں توکل کا سارا مفہوم و مدعا بیان کر دیا ہے ؎

توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا
نتیجہ اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر

مگر تمام اسباب و ذرائع کے ہوتے ہوئے کبھی یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ان وسائل کی وجہ سے نتیجہ برآمد ہو جائے گا‘ بلکہ وہی ہو گا جو اللہ چاہے گا‘ 
’’مَاشَآئَ اللّٰہُ کَانَ وَمَا لَمْ یَشَاْلَمْ یَکُنْ‘‘ یعنی جو اللہ تعالیٰ نے چاہا وہ ہو گیا اور جو نہ چاہا وہ نہیں ہو سکا. مثلاً آپ نے کسی کام کے لیے بڑی محنت و کوشش کی‘ عرصہ دراز تک تگ و دو کرتے رہے مگر وہ نہ ہو پایا‘ اور کسی وجہ سے موقع ہاتھ سے نکل گیا تو جس آدمی کے دل میں توکل نہ ہو گا اس کا حال یہ ہو گا کہ رنج و غم اور صدمہ لیے بیٹھا ہے کہ اتنی محنت کی‘ پیسہ خرچ کیا‘ سفارشیں لڑوائیں‘ لوگوں کی خوشامد کر کے اپنی عزت کو برباد کیا‘ سب کچھ کر کے دیکھ لیا مگر کام نہیں بنا. لیکن اگر ایمان بالقدر موجود ہو اور بالخصوص توکل دل میں سمایا ہوا ہو تو ایسی صورت میں نہ کوئی پریشانی ہو گی اور نہ خلافِ توقع نتائج پر رنج و الم ہو گا. ایک حدیث سے اس ضمن میں واضح راہنمائی ملتی ہے.

حضرت عبداللہ بن عباسi بیان کرتے ہیں کہ: کُنْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ  یَوْمًا‘ فَقَالَ لِی: یَا غُلَامُ‘ اِنِّی اُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ‘ اِحْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ‘ اِحْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہُ تُجَاھَکَ‘ اِذَا سَاَلْتَ فَاسْاَلِ اللّٰہَ‘ وَاِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللّٰہِ‘ وَاعْلَمْ اَنَّ الْاُمَّۃَ لَوِ اجْتَمَعَتْ عَلٰی اَنْ یَّنْفَعُوْکَ بِشَیْئٍ لَمْ یَنْفَعُوْکَ اِلاَّ بِشَیْئٍ قَدْ َکَتَبَہُ اللّٰہُ لَکَ‘ وَاِنِ اجْتَمَعُوْا عَلٰی اَنْ یَّضُرُّوکَ بِشَیْئٍ لَمْ یَضُرُّوْکَ اِلاَّ بِشَیْئٍ قَدْ کَتَبَہُ اللّٰہُ عَلَیْکَ‘ رُفِعَتِ الْاَقْلَامُ وَجَفَّتِ الصُّحُفُ (۱
’’میں ایک روز رسول اللہ کے پیچھے سوار تھا. آپؐ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا: ’’اے نوجوان! میں تمہیں کچھ باتیں سکھانا چاہتا ہوں‘ اللہ کو یاد رکھو اللہ تمہاری حفاظت فرمائے گا‘ اللہ کو یاد رکھو تم اسے اپنے پاس پاؤ گے‘ جب مانگو تو اللہ سے مانگو‘ جب مدد طلب کرو تو اللہ سے مدد طلب کرو‘ اور یہ بات اچھی طرح جان لو کہ اگر تمام لوگ مل کر تمہیں کوئی نفع دینا چاہیں تو صرف اتنا ہی نفع دے پائیں گے جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور اگر سارے انسان مل کر تمہیں کچھ نقصان پہنچانا چاہیں تو صرف اتنا ہی نقصان دے سکیں گے جتنا اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے. قلم اٹھائے جا چکے ہیں اور رجسٹر خشک ہو چکے ہیں.‘‘
اسی حدیث میں آیا ہے کہ: 

وَاعْلَمْ اَنَّ مَا اَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ وَاِنَّ مَا اَخْطَاَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیْبَکَ 
(۲(۱) سنن الترمذی‘ کتاب صفۃ القیامۃ‘ باب ۵۹‘ ح۲۵۱۶امام ترمذی نے حدیث کو ’’حسن صحیح‘‘ قرار دیا ہے. و مسند احمد‘۱/۲۹۳‘ ح۲۶۶۹‘ و ح۲۷۶۳. (مسند عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما) استاذ احمد شاکر نے حدیث کو صحیح کہا ہے. 

(۲) مسند عبد بن حمید‘ ص۲۱۴‘ ح۶۳۶
اور یہ روایت المشنی بن الصباح راوی کی وجہ سے ضعیف ہے‘ ملاحظ ہو مختصر الکامل لابن عدی‘ ص ۷۴۰. حالات زندگی نمبر۱۹۰۲’’اور یہ بات اچھی طرح جان لو کہ جو چیز تمہیں مل چکی ہے وہ کبھی تم سے خطا نہیں ہو سکتی تھی اور جو تمہیں نہیں ملی ہے وہ کبھی تمہیں مل نہیں سکتی تھی.‘‘

انسان کو مایوسی اور 
frustration سے بچانے والی شے تسلیم و رضا کی خو ہے. سارے نفسیاتی امراض جنہیں ہم دماغی امراض بھی کہتے ہیں frustration کا نتیجہ ہیں اور ان سب کا ازالہ یقین محکم اور ایمان بالقدر کے ذریعے ہی ممکن ہے. حدیث میں تو یہاں تک آیا ہے کہ:
 
اَنَّ کَلِمَۃَ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّیْطَانِ 
(۱
’’لفظ 
’’لَوْ‘‘ (اگر) سے شیطان کا کام شروع ہو جاتا ہے.‘‘

یعنی یہ کہنا کہ اگر میں یوں کرتا تو یہ ہو جاتا اور اگر اس طرح کرتا تو یہ نتیجہ نکل آتا‘ اس سے شیطان کا کام شروع ہو جاتا ہے. ذرا غور کریں کہ تمہاری مرضی کے مطابق نتیجہ کیسے نکل آتا؟ جو اللہ کا فیصلہ تھا وہی نتیجہ نکلنا تھا‘ لہٰذا تمہاری یہ سوچ ایمان کے منافی ہے.
اس مقام پر پہنچ کر ذرا غور کریں کہ اگر انسان پر ایمان کے حقائق منکشف ہو جائیں‘ اس کے دل میں راسخ ہو جائیں‘ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس کا حال بن جائیں تو اس کے بعد کیسا رنج اور کیسا خوف؟ خوف اسی وقت ہوتا ہے جب غیر مطلوبہ نتائج کا خطرہ ہو‘ لیکن جب یقین ہو جائے کہ جو اللہ چاہے گا وہی ہو گا‘ کسی کے ہاتھ میں نہ میری برائی ہے اور نہ اچھائی ہے تو پھر انسان کیونکر کسی کے سامنے ذلیل ہو گا؟ کیونکر کسی کی خوشامد کرے گا؟
اب تسلیم و رضا اور تفویض و توکل کو ایک جگہ جمع کر لیں تو نتیجہ نکلے گا ’’ایمان بالقدر‘‘ جو ہمارے ایمانیات کا اہم اور لازمی جزو ہے. حدیث جبریل میں آیا ہے: 
اَنْ تُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرَّہٖ ’’اور یہ کہ تم اچھی اور بُری تقدیر پر ایمان لاؤ.‘‘ (۱) صحیح مسلم‘ کتاب القدر‘ باب فی الامر بالقوۃ و ترک العجز‘ ح۲۶۶۴.

ایک مغالطہ اور اس کی وضاحت

مغالطہ: تقدیر کے ضمن میں آج کل ایک خاص قسم کا عقلیت پسندانہ (rationalistic) اندازِ فکر اختیار کیا جاتا ہے کہ تقدیر کے موضوع کو بند ہی رکھو‘ یہ ذرا مشکل موضوع ہے اور یہ ایک معمہ ہے. کیونکہ جونہی تقدیر کا لفظ ہمارے سامنے آتا ہے جبریت (predeterminism) کا تصور آ جاتا ہے اور اگر جبریت کو صحیح مان لیا جائے تو پھر حساب کیسا؟ جزا و سزا کس چیز کی؟ اگر کوئی نیکی یا بدی مجبوراً کر رہا ہے تو بدلہ کیوں؟ 

وضاحت: 
دراصل ایمان بالقدر اللہ تعالیٰ کی دو صفات پر پختہ ایمان و یقین کا لازمی نتیجہ ہے:

(۱) اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے. یعنی اس کی قدرت ہر چیز پر غالب ہے.
(۲) اللہ تعالیٰ کا علم تمام اشیاء کا احاطہ کیے ہوئے ہے کہ ماضی و مستقبل کا کوئی کام اس کے علم سے باہر نہیں.

اس ضمن میں درج ذیل آیات پر ایک نگاہ ڈال لیں:

(۱اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ (۱
’’اللہ تعالیٰ ہر چیز پر کامل قدرت رکھنے والا ہے.‘‘
(۲
اَلَاۤ اِنَّہٗ بِکُلِّ شَیۡءٍ مُّحِیۡطٌ ﴿٪۵۴﴾ (حٰمٓ السجدۃ) 
’’آگاہ رہو اس کی ذات ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے.‘‘
(۳
وَ کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ مُّحِیۡطًا ﴿۱۲۶﴾٪ (النسائ) 
’’اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے.‘‘
(۴
وَّ اَنَّ اللّٰہَ قَدۡ اَحَاطَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عِلۡمًا ﴿٪۱۲﴾ (الطلاق) (۱) قرآن حکیم میں یہ حقیقت ۳۹ مرتبہ بیان ہوئی ہے. ’’اللہ تعالیٰ نے علم کے اعتبار سے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے.‘‘
(۵
اِنَّ اللّٰہَ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ مُحِیۡطٌ ﴿۱۲۰﴾٪ (آل عمران) 
’’جو کچھ یہ کر رہے ہیں یقینا اللہ نے اس کا بھی احاطہ کیا ہوا ہے.‘‘

احاطۂ قدرت اور احاطۂ علم کو سمجھ لینے سے تقدیر کا عقدہ حل ہو جاتا ہے. واضح رہے کہ پیشگی علم 
(fore-knowledge) ‘ جبریت (predetermination) کو مستلزم نہیں ہے. اگر کسی چیز کا آپ کو علم ہو گیا تو اس کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ اگر وہ شے ہو رہی ہے تو آپ کے جبر کی وجہ سے ہو رہی ہے. ان دونوں کو علیحدہ کر لیں تو بات سمجھ میں آ جائے گی.

سادہ ترین مثال ہے کہ آپ کسی بچے کے سامنے خوشنما اور خوبصورت کھلونا رکھ کر اندازہ کر سکتے ہیں کہ بچہ لامحالہ اس کی طرف متوجہ ہو گا اور آپ کا اندازہ صحیح ثابت ہو گیا. لیکن کیا بچے نے آپ کے جبر کے تحت اس کھلونے کی طرف توجہ کی؟ یا صرف آپ کا اندازہ تھا جو عملاً صحیح ثابت ہوا؟ اور ہمارا اندازہ صحیح بھی ثابت ہو سکتا ہے اور غلط بھی‘ لیکن اللہ کا علم کبھی غلط نہیں ہو سکتا‘ کیونکہ اس کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے. کون کس وقت کیا کرے گا یہ اللہ کو پیشگی معلوم ہے. اللہ تعالیٰ نے بندوں کو کفر و ایمان دونوں کے اختیار میں آزادی دے رکھی ہے. فرمایا: 

فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ 
(الکھف: ۲۹
’’اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کرے.‘‘

معلوم ہوا کہ انسانوں کو اختیار تو ہے البتہ اللہ تعالیٰ کو بخوبی علم ہے اور اللہ کا علم غلط نہیں ہوسکتا. اور ہو گا وہی جو اللہ کے علم میں ہے. اگر آپ 
fore-knowledge کو predetermination سے علیحدہ کر دیں تو مسئلہ حل ہو جائے گا. لیکن یہ جان لیجیے کہ بہرحال تقدیر پر ایمان‘ ایمانیاتِ اسلام کا لازمی جزو ہے. اس لیے کسی بھی جدید فکر یا رجحان کی وجہ سے آنکھیں بند کرنے کی کوشش نہ کی جائے.

توکل و تفویض اور اس کے نفسیاتی ثمرات

ہر مسلم و مومن کا ایمان اس کیفیت کا ہونا چاہیے کہ محنت ضرور کرے لیکن نتائج کے بارے میں کہے: 

وَ اُفَوِّضُ اَمۡرِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بَصِیۡرٌۢ بِالۡعِبَادِ ﴿۴۴﴾ 
(المومن) 
’’اور اپنا معاملہ میں اللہ کے سپرد کرتا ہوں‘ یقینا وہ اپنے بندوں کا نگہبان ہے.‘‘
اور اللہ کا جو فیصلہ ہوگا میں اس پر راضی ہوں. ٹھیک ہے میں محنت کر رہا ہوں‘ اپنے فرائض ادا کر رہا ہوں‘ بھاگ دوڑ کر رہا ہوں. جو کچھ آپ کر سکتے ہیں وہ تو آپ کو کرنا ہی پڑے گا‘ لیکن اس کے بعد نتائج کے بارے میں توکل اللہ کی ذات پر ہو نہ کہ وسائل و اسباب پر. چنانچہ فرمایا: 

اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِیۡ وَکِیۡلًا ؕ﴿۲﴾ 
(بنی اسرائیل) 
’’کہ میرے سوا کسی کو اپنا وکیل (کارساز) نہ بنانا.‘‘

تفویض میں اس قدر سکون و اطمینان ہے کہ نہ کوئی تشویش نہ کوئی چنتا. معاملہ اللہ کے سپرد کیا اور مطمئن ہو گئے. کسی فارسی شاعر نے اس مفہوم کو بہت خوبصورتی کے ساتھ ایک شعر میں سمو دیا ہے. ؎

کارسازِ ما بہ فکر کارِ ما
فکر ما در کارِ ما آزارِ ما

اس شعر کی تہہ تک پہنچنے کے لیے اس حدیث پر غور کر لیں تو بات بن جائے گی. حضرت عبداللہ بن عمرi بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے ارشاد فرمایا: 

مَنْ کَانَ فِیْ حَاجَۃِ اَخِیْہِ کَانَ اللّٰہُ فِیْ حَاجَتِہٖ 
(۱(۱) صحیح البخاری‘ کتاب المظالم‘ باب لا یظلم المسلم المسلم ولا یسلمہ‘ ح۲۳۱۰. وصحیح مسلم‘ کتاب البر و الصلۃ‘ باب تحریم الظلم‘ حدیث ۲۵۸۰. وسنن الترمذی‘ کتاب الحدود‘ باب ما جاء فی الستر علی المسلم‘ حدیث۱۴۲۶. وسنن ابی داؤد‘ کتاب الادب‘ باب المواخاۃ‘ ح۴۸۹۳’’جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کر رہا ہو تو اللہ اس شخص کی ضرورت پوری کرنے میں لگ جاتا ہے.‘‘

یہ تو انسانوں کا آپس میں معاملہ ہوا. اگر آپ اللہ کے کام میں لگ جائیں تو کیا اللہ بے مروّت ہے؟ کیا خیال ہے اگر آپ اللہ کے کام میں لگ جائیں تو وہ آپ کے کاموں کو درست نہ کرے گا؟ چنانچہ نصرتِ خداوندی کے حصول کا لازمی ذریعہ کون سا ہے؟ فرمایا: 

اِنۡ تَنۡصُرُوا اللّٰہَ یَنۡصُرۡکُمۡ … 
(محمد: ۷
’’اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا.‘‘

تم اللہ کے دین کی نصرت میں لگ جاؤ‘ اس کا جھنڈا اٹھاؤ‘ وہ لازماً آپ کا بھلا ہی چاہے گا. اس کے بعد اگر مَیں واقعتا اللہ کا بندہ بن جاؤں‘ اس کے لیے اپنے آپ کو کھپا دوں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے میرے سارے کام سیدھے نہ کر دے گا. جب میرا کارساز ہی میری فکر میں ہے تو پھر پریشانی کیسی‘ اور چنتا کس چیز کا؟ اور اگر میں اپنے کام خود کروں گا تو لازماً کچھ نہ کچھ بگاڑ بیٹھوں گا. میرا علم کامل نہیں لہٰذا میں ٹھوکر کھائوں گا اور نتیجتاً ’’فکر ما در کارِ ما آزارِ ما‘‘ بن جائے گا. لہٰذا سارے کام اللہ کے سپرد کر کے پُرسکون ہونا ہی خیریت کا موجب ہے. اسی لیے فرمایا: 

وَ اُفَوِّضُ اَمۡرِیۡۤ اِلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بَصِیۡرٌۢ بِالۡعِبَادِ ﴿۴۴﴾ 
(المومن) 

قرآن حکیم کے ذریعے علاج غم و حزن

ہمارا مقام ہے عبدیت اور عبدیت کی شدت و گہرائی ہے مرتبہ ولایت‘ جس کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے: 

اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿ۚۖ۶۲﴾ 
(یونس) 
’’آگاہ ہو جاؤ‘ جو اللہ کے دوست ہیں ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے.‘‘ 
اولیاء اللہ کوئی خارجی مخلوق نہیں‘ بلکہ انسانوں میں سے ہیں. ان کے ایمان کی گہرائی بہت اتھاہ ہوتی ہے‘ لہٰذا نتیجہ نکلتا ہے: 

الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ کَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ﴿ؕ۶۳﴾لَہُمُ الۡبُشۡرٰی فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ ؕ 
(یونس) 
’’جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا دنیا و آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لیے بشارتیں ہی بشارتیں ہیں.‘‘

لہٰذا ان کے لیے دنیا و آخرت میں بشارتیں ہی بشارتیں ہیں‘ ان کے لیے کسی رنج و غم اور افسوس کا سوال ہی نہیں‘ بلکہ 
رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً اور رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ کے مقام پر فائز ہیں.

ایک دعا پر غور کریں جس میں مقامِ عبدیت‘ سپردگی‘ تفویض‘ راضی برضائِ ربّ ہونے کی کیفیت اور قرآن کے ذریعے اپنے رنج و غم کے ازالے کی درخواست یکجا جمع ہے. حضرت عبداللہ بن مسعودh بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے ارشاد فرمایا: جس کسی کو کبھی بھی کوئی تکلیف ہو تو وہ اگر یہ دعا پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے غم کا ازالہ کر کے اس کی جگہ خوشی بھر دیتا ہے. دعا یوں ہے: 

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ عَبْدُکَ‘ وَابْنُ عَبْدِکَ‘ وَابْنُ اَمَتِکَ‘ نَاصِیَتِیْ بِیَدِکَ‘ مَاضٍ فِیَّ حُکْمُکَ‘ عَدْلٌ فِیَّ قَضَآؤُکَ‘ اَسْاَلُکَ بِکُلِّ اسْمٍ ھُوَ لَکَ‘ سَمَّیْتَ بِہٖ نَفْسَکَ‘ اَوْ اَنْزَلْتَہٗ فِیْ کِتَابِکَ‘ اَوْ عَلَّمْتَہٗ اَحَدًا مِّنْ خَلْقِکَ اَوِ اسْتَاْثَرْتَ بِہٖ فِی عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ‘ اَنْ تَجْعَلَ الْقُرْاٰنَ رَبِیْعَ قَلْبِیْ وَنُوْرَ صَدْرِیْ وجَلَائَ حُزْنِی‘ وَذَھَابَ ھَمِّی 
(۱(۱) مسند احمد ۱/۳۹۱‘ ح۳۷۱۲ و ۱/۴۵۲. والاحسان ترتیب صحیح ابن حبان ۳/۲۵۳‘ ح۹۷۲. و مسند ابی یعلی الموصلی ۹/۱۹۸‘ ح۵۲۹۷. والمعجم الکبیر للطبرانی ۱۰/۱۶۹‘ ح۱۰۳۵۲. وکشف الاستار عن زوائد البزار ۴/۳۱‘ ح۳۱۲۲. والمستدرک للحاکم‘۱/۵۰۹ علامہ الالبانی استاذ احمد شاکر‘ استاذ الارناووط اور استاذ حسین سلیم اسد سب نے حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور معترضین کا مسکت جواب دیا ہے. ’’اے اللہ! میں تیرا بندہ ہوں‘ میرا باپ بھی تیرا ادنیٰ غلام تھا‘ میری ماں بھی تیری کنیز تھی‘ میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے. میرے وجود پر تیرا ہی حکم جاری و ساری ہے. میرے بارے میں تیرا جو فیصلہ ہو وہ انصاف ہی انصاف ہے. ہر اس اسم مبارک کے واسطے سے جو تیرا ہے‘ جس سے تو نے اپنے آپ کو خود موسوم کیا یا اسے اپنی کتاب میں نازل فرمایا یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو تو نے وہ نام سکھایا یا خزانہ غیب میں اپنے پاس محفوظ فرمایا‘ ان سب ناموں کا واسطہ دے کر میں درخواست کرتا ہوں کہ قرآن حکیم کو میرے دل کی بہار بنا دے‘ میرے سینے کا نور بنا دے اور میری پریشانی کو دُور کرنے والا نسخہ بنا دے اور میرے غم و تفکر کے ازالے کا ذریعہ بنا دے.‘‘ 

عظمت قرآن پر اس سے بڑی کوئی شے نہیں ہو سکتی. قرآن کا مقام بتمام و کمال اللہ جانتا ہے‘ پھر محمد رسول اللہ جانتے ہیں 

؏ ’’قدرِ گوہر شاہ داند یا بداند گوہری!‘‘ 


شعوری و غیر شعوری ایمان

شعوری ایمان
شعوری ایمان وہ ہے جس کے ساتھ intellectual element موجود ہو‘ یعنی ذہنی و فکری صلاحیتوں کا اتحاد ہو.

ایمان و یقین کا محل و مقام تو قلب ہے اور سوچ بچار کا مرکز دماغ ہوتا ہے. جب دل و دماغ کی سوچ ایک ہو تو وہ شعوری ایمان ہوتا ہے. اسی کیفیت کو قرآن حکیم نے ’’علیٰ وجہ البصیرۃ‘‘ کا نام دیا ہے. چنانچہ رسول اللہ کی زبانی اعلان کروایا گیا: 

قُلۡ ہٰذِہٖ سَبِیۡلِیۡۤ اَدۡعُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ ۟ؔ عَلٰی بَصِیۡرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیۡ ؕ 
(یوسف: ۱۰۸
’’تم ان سے صاف کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے‘ میں اللہ کی طرف بلا رہا ہوں‘ 
علی وجہ البصیرۃ میں اور میری پیروی کرنے والے.‘‘

گویا نہ میں خود ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہوں اور نہ فلسفیوں کی طرح ظن و تخمین کے تیر چلا رہا ہوں اور نہ ہی میرا ساتھ دینے والے اندھیرے میں تیر چلا رہے ہیں‘ بلکہ ہم سب ایک واضح اور روشن راستے پر چل رہے ہیں اور ہم سب کا دل و دماغ پوری طرح مطمئن اور یکسو ہے. 

غیر شعوری ایمان

غیر شعوری ایمان سے مراد یہ ہے کہ حقائق پر یقین تو ہے لیکن اس کے ساتھ کوئی intellectual element نہیں. یا تو انسان کا مزاج ہی intellectual نہیں ہے‘ اس کی استعداد ہی نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو اس نے معاملے کو علیحدہ علیحدہ رکھا ہوا ہے. مثلاً اگر دل مطمئن ہے تو اس پر دماغ ساتھ نہیں دے پا رہا‘ یا دماغ بات کو پا رہا ہے تو اس پر دل نہیں ٹھک رہا.

دل و دماغ کی علیحدہ کیفیت کو ایک مثال سے سمجھ لیں. میں نے ایک مرتبہ ڈاکٹر کمال الدین عثمانی صاحب (ایم ایس سی باٹنی) سے دریافت کیا کہ ڈارون کے نظریے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا کہ ڈارون کے فلسفے کے دلائل تو بڑے متاثر کرنے والے 
(convincing) ہیں‘ دماغ اس پر convinced ہے لیکن دل کہتا ہے کہ کفر ہے. چنانچہ شعوری ایمان وہ ہے جس میں دل و دماغ دونوں متحد ہوں اور حقیقت میں یہی ایمان مطلوب ہے. 

اہم حقائق

(۱) اصل چیز یقین ہے‘ چاہے وہ شعوری (دلائل و شواہد کی بنیاد پر) ہو یا غیر شعوری ہو. مثلاً ایک شخص کو شدید پیاس لگی ہے اور فرض کر لیجیے کہ اس نے کبھی پانی نہیں پیا اور نہ اسے پانی کا پتا ہے. اب اس کی جان پر جو بیت رہی ہے اس کا تو اسے علم ہے. اس کیفیت میں کوئی اسے پانی کا گلاس دے دیتا ہے تو اس کو پی کر اسے یقین کامل ہو جاتا ہے کہ مجھے اسی چیز کی ضرورت تھی اور میرے اندر جو قیامت برپا تھی اس کا علاج یہی تھا‘ کیونکہ اس نے میری پیاس بجھا دی ہے. اس کو یقین تو حاصل ہو گیا لیکن دلائل و شواہد کی بنیاد پر نہیں بلکہ تجربے کی بنیاد پر. البتہ اسے یہ معلوم نہیں کہ پانی کی کمی سے انسان کے جسم میں کیا فتور آتا ہے اور کس کس عضو پر کیا کیا قیامت بیت جاتی ہے.
 
اس کے بالمقابل ایک ڈاکٹر کو معلوم ہے کہ پانی انسانی زندگی کے لیے کیوں ضروری ہے‘ اس کی کمی سے کیا کیا نقصانات ہو سکتے ہیں‘ کس کس عضو میں کیا خرابی پیدا ہوگی‘ کیونکہ ڈاکٹر 
intellectual element رکھتا ہے‘ اس کا علم علیٰ وجہ البصیرۃ ہے. تو معلوم ہوا کہ عام آدمی کو تجربے سے یقین حاصل ہوا کہ پانی پیاس بجھاتا ہے اور ڈاکٹر کو علم حقائق کے ذریعے معلوم ہوا کہ پانی پیاس بجھاتا ہے. چنانچہ دونوں کا یقین ایک ہی ہے کہ ’’پانی پیاس بجھاتا ہے‘‘. 

(۲) آخرت میں نجات کی اصل بنیاد قلبی یقین ہے اور یہی قلبی یقین انسانی کردار پر اثر انداز ہوتا ہے‘ چاہے یہ قلبی یقین شعوری 
intellectual ہو یا غیر شعوری (non intellectual) . اس اعتبار سے یہ دونوں یقین بالکل برابر ہیں‘ چاہے آپ اس کے دلائل جانتے ہیں یا نہیں جانتے. فلسفہ معلوم ہو یا نہیں‘ کوئی فرق نہیں پڑے گا‘ یقین ہونا چاہیے اور بس.

غالباً امام رازی کا یہ قول ہے:اَمُوْتُ عَلٰی عَقِیْدَۃِ عَجَائِزِ نیشابور ’’ میں نیشاپور کی بوڑھی عورتوں کے عقیدے پر جان دے رہا ہوں‘‘. چنانچہ اصل مطلوب یقین ہے چاہے وہ شعوری ہو یا غیر شعوری‘ اور یقین بہرحال انسانی کردار پر اثر انداز ہوتا ہے.
 
نوٹ: 
یہ صحیح ہے کہ شعوری اور غیر شعوری ایمان دنیا میں اصلاحِ کردار اور آخرت میں نجات کے لیے یکساں ہیں‘ لیکن ذہین لوگوں کی مجبوری ہے کہ ان کے سامنے علیٰ وجہ البصیرۃ والا ایمان پیش کیا جائے جو وہ قبول کر سکیں. یہ دورِ حاضر کی ناگزیر ضرورت ہے. کیونکہ ذہین لوگ اپنی ذہنی اور طبعی ساخت کے ہاتھوں مجبور ہیں کہ پہلے کوئی بات ان کے ذہن و شعور کو اپیل کرے گی تو وہ دل تک جائے گی‘ تب وہ مانیں گے‘ ورنہ ان کے دلوں پر غلاف پڑے رہیں گے.

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام دورِ حاضر کی ضرورت کیوں ہے؟ اس کے دو اسباب ہیں: 

پہلا سبب: 
دورِ حاضر میں سائنسی معلومات (Scientific Information) کا اتنا بڑا ظہور (explosion) ہوا ہے کہ بیان سے باہر ہے. اب ظاہر بات ہے کہ عوام بھی بند گلیوں میں تو نہیں رہتے‘ اسی فضا میں سانس لے رہے ہیں. لہٰذا ان کی معلومات میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے. 

دوسرا سبب: 
سمعی و بصری ذرائع ابلاغ نے جدید فلسفوں کو grass root level تک پہنچا دیا ہے. اب تو ایک ریڑھی بان یا ہل چلانے والا بھی استحصال جیسا ثقیل لفظ استعمال کرتا ہے. پہلے صرف الیکڑک ریڈیو تھا‘ جہاں تک بجلی تھی وہیں تک کام کرتا تھا‘ پھر ٹرانزسٹر آگیا‘ چنانچہ ایک کمہار بھی گدھے پر جا رہا ہے تو ٹرانزسٹر ساتھ بج رہا ہے‘ گائوں میں ایک آدمی ہل چلا رہا ہے اور ٹرانزسٹر ساتھ لٹکا ہوا ہے. اس کے بعد ٹیلی ویژن ہر گاؤں میں پہنچ چکا ہے. لوگ چاہے ڈرامے دیکھیں یا گانے سنیں فکر تو بہرحال منتقل ہو رہی ہے.

ان دو اسباب کے بعد اب آپ صرف عوام الناس کو بھی اس وقت تک قائل نہیں کر سکیں گے جب تک ذہین طبقے 
(intellectual) کی فکر پر اثر انداز نہیں ہوں گے. چنانچہ آج کے دَور میں اس کی اشد ضرورت ہے. علامہ اقبال کا شعر ہے ؎

عذابِ دانش حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ مَیں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل!

واقعتا آگ کی حدت کا صحیح ادراک اسے ہی ہو سکتا ہے جو آگ میں ڈالا جائے. جدید فلسفوں کا مطالعہ کرنے والوں کو ہی خبر ہے کہ برٹنڈرسل اس دنیا میں کیا کچھ کر گیا ہے‘ 
کتنے کروڑ افراد اس کے فلسفہ حیات سے متاثر ہوئے ہیں. ہمارے قدیم علماء کو کیا پتا؟ انہوں نے تو فلسفہ پڑھا ہی نہیں. اگر پڑھتے بھی ہیں تو ارسطو کی منطق پڑھتے ہیں‘ حالانکہ جب تک اس دانش حاضر کا توڑ نہیں ہو گا‘ ایمان کی کوئی تحریک عوامی سطح پر بھی بار آور نہیں ہو گی. 

معرفت ِ ربّ

ایمان مجمل: ’’آمَنْتُ بِاللّٰہِ کَمَا ھُوَ بِاَسْمَائِہٖ وَ صِفَاتِہٖ وَقَبِلْتُ جَمِیْعَ اَحْکَامِہٖ اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ تَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ‘‘ ایمان مجمل کی معراج ہے معرفت ربّ‘ اور بلا شبہ اس عالی مقام پر محمد رسول اللہ فائز ہیں. یہ الگ بات ہے کہ آپ تعلّی کی بجائے کسر نفسی سے کام لے کر کہیں: مَا عَرَفْنَاکَ حَقَّ مَعْرِفَتِکَ وَمَا عَبَدْنَاکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ (۱’’اے اللہ! ہم تجھے نہ پہچان پائے جیسا کہ تجھے پہچاننے کا حق تھا اور نہ تیری عبادت کر پائے جیسا کہ تیری عبادت ہونی چاہیے تھی‘‘. کسر نفسی کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک آدمی کوہ ہمالیہ پر بیٹھا ہے‘ ہمیں تو یہی نظر آ رہا ہے کہ اس سے اونچی بلندی کوئی نہیں‘ لیکن اسے معلوم کہ میرے اوپر اونچا آسمان بھی موجود ہے ؎

تو جس کو سمجھتا ہے فلک اپنے جہاں کا
شاید وہ زمیں ہو کسی اور جہاں کی!

دوسری وجہ یہ بھی ممکن ہے کہ آپؐ نے یہ جملے جمع کے صیغے کے ساتھ اس لیے بیان کیے ہوں کہ اُمت کی طرف سے ترجمانی ہو جائے. اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: 


وَ مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدۡرِہٖۤ (الانعام: ۹۱‘ الحج:۷۴‘ الزمر: ۶۷
’’اور انہوں نے اللہ کے مقام کو نہیں پہچانا جس قدر اس کے مقام کو پہچاننے کا 
(۱) تلاش بسیار کے باوجود صرف اتنا جملہ ملا ہے: ’’مَا عَبَدْنَاکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ‘‘ ملاحظہ ہو المعجم الاوسط للطبرانی ۴/۳۴۵‘ ح۳۵۹۲ تحقیق الدکتور محمود الطحان. (مرتب) حق تھا.‘‘
دراصل روحِ انسانی میں معرفت ربّ بتمام و کمال موجود ہے اور یہی تصوف کا میدان ہے. اور اس روح کا تعلق باری تعالیٰ سے ہے. ؎

اتصالِ بے تکیُّف بے قیاس
ہست ربّ الناس را با جانِ ناس

روحِ انسانی کا تعلق و اتصال ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ ہے‘ لیکن ہم اس اتصال کو کسی شے پر قیاس نہیں کر سکتے‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات 
لا مثل لہ لا مثال لہ لا مثیل لہ اور ’’لیس کمثلہ شیئ‘‘ ہے.

بے تکیُّف اور بے قیاس ہونے کے باوجود بہرحال اتصال موجود ہے. مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ علیہ نے اپنے حواشی میں بہت پیارا شعر نقل کیا ہے ؎

جاں نہاں در جسم‘ او در جاں نہاں
اے نہاں اندر نہاں اے جانِ جاں!

ہماری جان کا تعلق روح سے ہے اور روح کا تعلق باری تعالیٰ سے ہے. جان انسان کے اندر ہے اور کسی نے نہیں دیکھی‘ بلکہ یہ بھی معلوم نہیں کہ کہاں ہے‘ اس کا کیا رنگ ہے‘ اور اس کا کتنا وزن ہے؟ دو من کی لاش میں کتنے اونس جان کا وزن ہے؟ روسی سائنس دانوں نے بڑے حساس ترازو تیار کیے اور مرنے والے مریض کو اس کے اوپر رکھ دیا. جان نکلنے سے عین پہلے اور بعد کا وزن کرنے کے بعد انہوں نے دعویٰ کیا کہ جان کا وزن چند اونس ہوتا ہے. حالانکہ مرنے کے بعد جسم کے وزن میں کمی کی کئی دوسری وجوہات بھی ہو سکتی ہیں.
بہرحال معرفت ربّ بلکہ محبت ربّ روحِ انسانی کے اندر ودیعت شدہ ہے. یہ بات ابتدا میں گزر چکی ہے کہ آخر انسان کیوں جوابدہ ہے؟ چاہے کوئی نبی آتا یا نہ آتا. اس لیے کہ انسان کو مندرجہ ذیل صلاحیتیں دی گئی ہیں.

(۱) سمع و بصر (۲) فواد و عقل (۳) نیکی اور بدی کی فطری تمیز (۴) روح 
میں اللہ کی معرفت اور محبت اور اسی کا نام نورِ فطرت ہے. 

ایمان اور فطرتِ انسانی

ہم اپنی بول چال میں دو لفظ استعمال کرتے ہیں: (۱) جبلت و طبیعت (۲) فطرت.
جبلت و طبیعت کا تعلق حیوانی تقاضوں 
(animal instincts) سے ہوتا ہے‘ جبکہ فطرت کا تعلق روح کے ساتھ ہوتا ہے. اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 

فِطۡرَتَ اللّٰہِ الَّتِیۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیۡہَا ؕ 
(الروم: ۳۰
’’اللہ کی بنائی ہوئی وہ فطرت جس پر اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے.‘‘

چنانچہ نسل آدم کا ہر بچہ فطرت پر ہی پیدا ہوتا ہے اور اس کے دل میں معرفت ربّ موجود ہوتی ہے. یہ الگ بات ہے کہ جب وہ غیر اسلامی ماحول میں پرورش پاتا ہے تو اس کی یہ فطرت مسخ ہو جاتی ہے. حضرت ابو ہریرہh بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے ارشاد فرمایا: 

مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ اِلاَّ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ‘ فَاَبَوَاہٗ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ 
(۱
’’ہر بچہ فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے‘ پھر اس کے والدین اسے یہودی بنا دیتے ہیں یا نصرانی بنا دیتے ہیں یا مجوسی بنا دیتے ہیں.‘‘

صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے: 
اَوْ یُشْرِکَانِہٖ ’’یا اسے مشرک بنا دیتے ہیں‘‘. (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الجنائز‘ باب اذا اسلم الصبیی فمات‘ ح۱۲۹۲ و ۱۲۹۳. و صحیح مسلم‘ کتاب القدر‘ باب کل مولود یولد علی الفطرۃ‘ ح۲۶۵۸و دیگر کتب حدیث.