باب ہشتم

ایمانِ حقیقی کے سرچشمے 

(۱) قرآن حکیم

ایمان کا سب سے بڑا منبع و سرچشمہ خود قرآن حکیم ہے. سورۃ الانفال میں سچے اہل ایمان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا: … وَ اِذَا تُلِیَتۡ عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُہٗ زَادَتۡہُمۡ اِیۡمَانًا… ’’اور جب ان کے سامنے اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ ان کے ایمان میں اضافہ کر دیتی ہیں.‘‘

ان نشستوں میں یہ بات چیت وضاحت سے سامنے آ چکی ہے کہ معرفت ربّ ہر انسان کے دل میں ودیعت شدہ ہے اور ضرورت صرف اسے جلا دینے یعنی 
activate کرنے کی ہے اور یہ صرف نورِ وحی سے ہی ممکن ہے. چنانچہ جب فطرتِ سلیمہ پر نورِ وحی کا نزول ہو گا تو نورِ ایمان وجود میں آ جائے گا. 

ہمارا انسانی وجود ایک مرکب وجود ہے جو جسد اور روح پر مشتمل ہے. ہمارے جسد خاکی کی تمام ضروریات اس زمین سے پوری ہوتی ہیں‘ لیکن ہمارا روحانی وجود عالم امر کی شے ہے اور اس کے تغذیہ و تقویت کے لیے اللہ تعالیٰ نے عالم بالا سے قرآن حکیم نازل کیا ہے. ہماری زمینی حیات کا مبدا پانی ہے اور یہی ہماری زندگی کا سرچشمہ ہے. عالم حیاتیات میں جو کام پانی سرانجام دیتا ہے وہی کام عالم امر میں قرآن کرتا ہے.

ہماری پوری تحریک‘ جدوجہد اور جستجو کا یہی فلسفہ ہے کہ قرآن حکیم ایمان و یقین کا منبع و سرچشمہ ہے اور ضرورت صرف تعلیم و تعلّم کے ذریعے اسے عام کرنے کی ہے اور اسی ذریعے سے شعوری ایمان پیدا ہو گا.

صحبت صاحب یقین

صاحب یقین کی محفل اور صحبت اختیار کرنے سے غیر شعوری یا تقلیدی ایمان پیدا ہوگا‘ کیونکہ یہ خالص طبعی عمل ہے. مثلاً آپ آگ کے سامنے بیٹھے ہیں تو آپ کو حرارت لازماً پہنچے گی‘ آپ کی کوئی محنت ہے یا نہیں‘ نہ آپ نے دماغ لڑایا نہ آپ کا ہاتھ ہلا نہ آگ جلائی‘ لیکن کیونکہ آپ آگ کے پاس ہیں لہٰذا حرارت ملے گی. اسی طرح آپ برف کی سل کے قریب بیٹھیں تو ٹھنڈک پہنچے گی چاہے آپ خود اس کے لیے کوئی محنت کریں یا نہ کریں. اسی لیے قرآن حکیم مسلمانوں کو حکم دیتا ہے: کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ ﴿۱۱۹﴾ (التوبہ) ’’سچوں کے ساتھ رہو‘‘. نتیجتاً تم خود بھی سچے بن جاؤ گے. 

اور قرآن حکیم کی اصطلاح میں سچے کون ہیں؟ فرمایا: 

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾ 
(الحجرات) 
’’مومن تو صرف وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے‘ پھر انہوں نے کوئی شک نہیں کیا اور انہوں نے اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ کے راستے میں جہاد کیا‘ صرف یہی لوگ (دعوائے ایمان میں) سچے ہیں.‘‘

اور وہ لوگ سچے نہیں ہو سکتے جو ساری عمر تنہائی میں بیٹھ کر ضربیں ہی لگاتے رہے اور جہاد فی سبیل اللہ کے لیے نہیں نکلے. ان کا تصورِ دین ہی محدود ہے یا پھر فرائض دین کا تصور ناقص ہے. علامہ اقبال کہتے ہیں:

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری
کہ رسم خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری

مَیں تو اس ایمان کا قائل ہوں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ایمان ہے یا گزشتہ صدی میں تحریک شہیدین کے لوگوں کا ایمان یعنی سید احمد بریلوی شہید اور شاہ اسماعیل شہید 
اور ان کے ساتھی ( رحمہم اللہ تعالیٰ رحمۃَ واسعۃَ ). یہ لوگ ذکر و فکر کی حد تک تصوف کے بھی قائل تھے اور انہوں نے اس کا نام ’’سلسلۂ محمدیہ‘‘ تجویز کیا ہوا تھا. جس کا لازمی جزو تھا جہاد فی سبیل اللہ. اور یہ جذبہ یقین کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا. چنانچہ ایک عام آدمی کے لیے یقین کے مقام تک پہنچنے کے لیے ’’صاحب یقین‘‘ کی صحبت ازحد ضروری ہے اور آسان ترین راستہ ہے. اس کے لیے نہ کوئی شعوری اورintellectual محنت کی ضرورت ہے‘ بس physical قرب کی ضرورت ہے. 

(۳) عمل صالح

تقلیدی یا غیر شعوری ایمان کا دوسرا ذریعہ عمل صالح ہے. مثلاً ایک شخص اسلام میں داخل ہو گیا‘ نہ اس کے دل میں مثبت طور پر ایمان موجود ہے اور نہ ہی منفی انداز میں نفاق موجود ہے‘ گویا کہ وہ زیرو لیول پر کھڑا ہے. چونکہ اس کا دھوکہ دینے یا بے ایمانی کا کوئی ارادہ نہیں ہے لہٰذا عمل صالح کے ذریعے ایمان پیدا ہو گا. (۱

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 
قَالَتِ الۡاَعۡرَابُ اٰمَنَّا ؕ قُلۡ لَّمۡ تُؤۡمِنُوۡا وَ لٰکِنۡ قُوۡلُوۡۤا اَسۡلَمۡنَا وَ لَمَّا یَدۡخُلِ الۡاِیۡمَانُ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ وَ اِنۡ تُطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَا یَلِتۡکُمۡ مِّنۡ اَعۡمَالِکُمۡ شَیۡئًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴﴾ (الحجرات) 
’’یہ بدوی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے. (اے نبیؐ !) کہہ دو تم ہرگز ایمان نہیں لائے‘ بس یہ کہو کہ ہم اسلام (یا اطاعت) میں داخل ہو گئے ہیں‘ اور ابھی تک 
(۱) شعوری ایمان کے نتیجے میں اعمالِ صالحہ پیدا ہوں گے جس طرح بیج سے درخت پیدا ہوتا ہے اور اعمالِ صالحہ کے ذریعے ایمان کی جڑ پیدا ہو گی جس طرح کسی درخت کی قلم لگانے سے چند دن کے بعد جڑ بن جاتی ہے اور پھر یہی جڑ اس قلم کو پروان چڑھاتی اور خوراک مہیا کرتی ہے. (اضافہ از مرتب) ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا. اور ہاں اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے رہو گے تو وہ تمہارے اعمال میں کچھ بھی کمی نہیں کرے گا‘ یقینا اللہ تعالیٰ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے.‘‘

تو معلوم ہوا کہ اگر دل ایمان سے خالی ہو اور ظاہری اطاعت ہو تب بھی اللہ کے ہاں اعمال ضائع نہیں ہوتے کیونکہ اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے. 

اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور نیک اعمال کوئی بانجھ عمل نہیں ہے‘ بلکہ بڑا 
productive اور profound عمل ہے. صحیح نماز پڑھی جائے اور دل میں ایمان پیدا نہ ہو‘ یہ کیسے ممکن ہے؟ متعدد بار (۱ایسا ہوا کہ کوئی دیہاتی‘ کوئی بکریاں چرانے والا‘ کوئی دُور دراز مقام پر رہنے والا آنحضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا: یارسول اللہ! دین مجھ سے کیا چاہتا ہے؟ یا پوچھا: میری کم سے کم ذمہ داریاں کیا ہیں؟ میں جنت میں جانا چاہتا ہوں‘ بس مختصر سا راستہ بتلا دیں. اس قسم کے سوالات کے جواب میں نبی اکرم نے فرمایا: ’’اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو‘ نماز قائم کرو‘ زکوٰۃ دیا کرو‘ رمضان کے روزے رکھو‘ طاقت ہو تو حج کر لو‘‘. طالب حقیقت نے اقرار کیا کہ میں یہ سب کچھ کروں گا. تو جب وہ شخص محفل سے ذرا دُور ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’جس کسی نے جنتی دیکھنا ہو اسے دیکھ لے وہ جا رہا ہے‘‘. جس طرح شعوری ایمان کے نتیجے میں عمل صالح پیدا ہوتا ہے اسی طرح عمل صالح کے نتیجے میں ایمان پیدا ہوتا ہے. یہ الگ بات ہے کہ عمل صالح کے ذریعے جو ایمان پیدا ہو گا وہ غیر شعوری (non intellectual) اور تقلیدی ہو گا.

دورِ حاضر کے مسلمانوں کی اکثریت اس لیے مسلمان ہے کہ ان کے والدین مسلمان تھے. لیکن اگر انہوں نے نماز پڑھی‘ روزے رکھے اور دیگر نیک اعمال کیے تو ان اعمال کے ذریعے کچھ نہ کچھ ایمان پیدا ہو گا‘ چاہے انہیں اس کا (۱) صحیح ابن حبان (الاحسان)‘ ح۳۴۳۸. و مسند البزار‘ ح۲۵. وابوداؤد‘ ح۲۴۱۵. ومسند احمد ۵/۳۹ و۴۰ و۴۱ و۴۸و۵۲. وسنن النسائی ۴/۱۳۰و دیگر کتب حدیث. شعور نہ ہو‘ اس کے دلائل اور تفصیلات معلوم نہ ہوں‘ انہوں نے ذہنی محنت نہ کی ہو اور نہ ہی ایمان کی خاطر قربانی دی ہو‘ لیکن بہرحال عمل کے ذریعے بھی ایمان پیدا ہو گا اور ہوتا ہے. 

منزلِ ایمان کا راستہ‘ اسلام

سورۃ الحجرات کی آیت۱۴ ذہن میں رکھیں اور یہ بھی یاد رہے کہ یہ ان لوگوں کے بارے میں ہے جو نہ مخلص مومن تھے اور نہ ہی دھوکہ باز منافق. بس کسی وجہ سے اسلام میں داخل ہو گئے. انہی لوگوں میں سے کچھ حضرات نے رسول اللہ پر اس طرح کی دھونس جمانی چاہی کہ ہم بغیر کسی لڑائی جھگڑے کے مسلمان ہوئے ہیں. ان حالات میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: 

یَمُنُّوۡنَ عَلَیۡکَ اَنۡ اَسۡلَمُوۡا ؕ قُلۡ لَّا تَمُنُّوۡا عَلَیَّ اِسۡلَامَکُمۡ ۚ بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیۡکُمۡ اَنۡ ہَدٰىکُمۡ لِلۡاِیۡمَانِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۷﴾ 
(الحجرات) 
’’(اے نبی !) یہ لوگ آپ پر احسان دھر رہے ہیں کہ اسلام لے آئے. فرما دیں: مجھ پر اپنے اسلام کا احسان نہ دھرو‘ بلکہ اللہ تم پر احسان دھرتا ہے کہ اس نے تم کو ایمان کا راستہ دکھایا اگر تم (اپنے دعوائے اسلام میں) سچے ہو.‘‘

تو آیت سے معلوم ہوا کہ ظاہری اسلام ’’منزلِ ایمان‘‘ کا راستہ ہے لیکن اگر معاملہ برعکس ہو اور انسان ظاہری اسلام میں بھی دغاباز اور جھوٹا ہو تو پھر یہ راستہ نفاق کی طرف جاتا ہے. اور نفاق کی جملہ پستیاں ہم بیان کر چکے ہیں.

عمل صالح اور صحبت صاحب یقین سے جو ایمان پیدا ہو گا اس کا نتیجہ غیر شعوری اور تقلیدی 
(non intellectual) ایمان ہے. عوام کی عظیم اکثریت اسی ایمان کو مانتی اور جانتی ہے اور ان کے لیے یہی کفایت کرتا ہے.

صوفیاء کا طرزِ دعوت و تزکیہ

ہمارے ہاں کے صوفیاء انہی دونوں طریقوں پر عمل کرتے تھے: (۱) صحبت جو بیعت ارشاد (۱کی پہلی کڑی ہے. (۲) بھاری مشقتیں اور عملی ریاضتیں یعنی مراقبے‘ اشغال‘ تپسیائیں اور چلے وغیرہ. یہ سب کیا ہے؟ عمل کی شدت ہی تو ہے.
آج کے دَور میں اس طریق کار 
(methodology) کو تبلیغی جماعت نے بڑے پیمانے پر اختیار کیا ہے. ’’اسلام کی نشاۃ ثانیہ‘ کرنے کا اصل کام‘‘ نامی کتابچے میں تجزیہ کر کے مَیں نے بتایا ہے کہ دورِ جدید یا عصر حاضر کی دینی تحریکوں میں کیا کمی ہے. میرے خیال میں ان جماعتوں کو ایمان پر جس قدر زور دینا چاہیے تھا انہوں نے نہیں دیا‘ بلکہ اسلام کی جدوجہد اور تحریک پر زیادہ زور دیا ہے.

تبلیغی جماعت اور اس کا کام

دورِ حاضر کی دینی تحریکوں میں صرف ’’تبلیغی جماعت‘‘ نے ایمان کو موضوع بنایا ہے اور انہوں نے ایک اصطلاح ہی ’’ایمان کی محنت‘‘ وضع کر ڈالی ہے. یعنی چالیس دن کے لیے نکلو‘ ہمارے ساتھ رہو. مسجد کے ماحول میں رہنے کی برکت سے کم سے کم چالیس دن تک تو کوئی نماز قضا نہیں ہو گی‘ بلکہ تکبیر اولیٰ بھی نہیں چھوٹے گی. معاشرتی برائیوں سے بچے رہو گے‘ مثلاً جھوٹ‘ گالی گلوچ‘ غیبت وغیرہ وغیرہ. ریڈیو‘ ٹی وی‘ ٹیپ ریکارڈ وغیرہ سے نشر ہونے والی بالجبر موسیقی کی آواز سے محفوظ (۱) سائیں عبدالرزاق صاحب دیپال پور میں رہتے تھے جو پڑھے لکھے نہ تھے. سلسلۂ نقشبندیہ سے متعلق تھے لیکن عمل میں خالص اہل حدیث. نصف النہار کے ساتھ ہی ظہر کی نماز پڑھتے تھے. وہ جہری ذکر کرتے تھے جس کی لذت میں اب بھی محسوس کرتا ہوں. چونکہ وہ روہتک ضلع حصار سے متعلق تھے لہٰذا اسی زبان میں وہ کہتے تھے: ’’جو دم غافل سو دم کافر‘‘. گویا کہ ایمان و کفر کی یہ بھی ایک تعریف (definition) ہے.دوسرا جملہ وہ یہ کہتے تھے ’’صحبت فرائض راکھی‘‘ یعنی صاحب یقین کی صحبت و قرب فرض رکھی گئی ہے. (ماخوذ) رہو گے. گویا یہ چلتی پھرتی خانقاہیں اور تربیت گاہیں ہیں. فرائض کی پابندی کے ساتھ ساتھ نفلی کام ہیں‘ اذکار ہیں‘ دعائیں ہیں‘ ہر موقع کی مناسبت سے مسنون دعائیں ہیں. عملی محنت کے طریق کار کو تبلیغی جماعت نے اس دَور میں بڑے پیمانے پر اپنایا ہے. البتہ اس میں فکر‘ ذہن‘ سوچ کا کوئی دخل نہیں. آپ کیوں اور کیسے کا سوال بھی نہیں کر سکتے. قرآن حکیم کا صرف متن پڑھو‘ تلاوت کرو اور ثواب حاصل کرو. ترجمہ بھی مت پڑھو اور یہی سے میرا تبلیغی جماعت سے نقطۂ اختلاف (point of departure) شروع ہو جاتا ہے.

بہرحال جو کام پہلے صوفیائے کرام ڈیرہ زن قسم کی اپنی خانقاہوں اور تربیت گاہوں کے ذریعے کیا کرتے تھے وہی کام اب تبلیغی جماعت گھوم پھر کر کر رہی ہے. حفیظ جالندھری کا شعر ہے ؎

کیا پابند نے نالے کو مَیں نے
یہ طرزِ خاص ہے ایجاد میری

یہ طریق کار ایجاد ضرور ہے لیکن 
intellectual سطح پر نہیں ہے. بہرحال اس ذریعے سے بھی تقلیدی ایمان حاصل کیا جا سکتا ہے.

اس راہ میں آنے والی ریاضتوں اور مشقتوں کو آپ نفسیاتی ریاضتیں بھی کہہ سکتے ہیں. ذکر کی کثرت ایک 
auto suggestion کے درجے میں بھی آ سکتی ہے. یہ سارے طریق کار آج بھی جدید نفسیات میں استعمال ہو رہے ہیں. 

علامہ اقبال کا موقف اور ریاضتیں

علامہ اقبال نے کہا ہے: ’’آج کا انسان اتنی شدید مشقتوں کا متحمل نہیں ہو سکتا جس قدر پچھلے زمانے کا انسان تھا‘‘. ان کی یہ بات بڑی pragmatic اور بڑی حقیقت پسندانہ ہے. ہم لوگ آسانیوں اور آسائشوں کے عادی ہو گئے ہیں. زندگیوں میں وہ مشقت نہیں رہی. ایک زمانہ تھا کہ سال ہا سال تک جنگلوں کی سیر ہو رہی ہے. ہمارے صوفیاء کے تذکرے چھپے ہوئے ہیں کہ چالیس چالیس‘ پچاس پچاس سال تک گزر گئے اور ریاضتیں جاری رہیں.

آگے چل کر علامہ اقبال کہتے ہیں کہ: ’’آج کے لیے کوئی اور 
techniques ایجاد کرنا ہو گی‘‘. میرے نزدیک علامہ کی بات صد فی صد درست ہے‘ کیونکہ جو بوجھ اور مشقتیں صوفیاء کرواتے تھے انہیں تو پڑھ کر ہی آدمی کانپ جاتا ہے. اگر ایمان کا حصول ان مشکلات و مصائب پر منحصر ہے تو ایمان بڑی نادر چیز کا نام ہے اور اس کا حصول انتہائی دشوار ہے.
 

نورِ ایمان حاصل کرنے والوں کے مراتب

ذرا گہرائی سے دیکھیں تو جس قدر انسان اس دنیا میں آباد ہیں اتنے ہی راستے اللہ کی طرف جانے والے ہیں. ہر ایک کی اپنی طبیعت اور اپنا مزاج ہے. اور ہر آدمی اپنی طبیعت اور مزاج کے اعتبار سے راستے کا انتخاب کرے گا. لیکن بغرضِ تفہیم ہم ان انسانوں کو تین درجوں میں تقسیم کر لیتے ہیں. 

(۱) صدیقین: 
جس شخص کی فطرتِ صالحہ ہے یا فطرتِ سلیمہ ہے‘ آئینۂ قلب صاف و شفاف ہے‘ دل زندہ و بیدار ہے‘ روح بے تاب ہے‘ وہ جب دعوتِ ایمان قبول کرتا ہے تو اس کا شمار صدیقین میں ہوتا ہے. حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: اِذۡ جَآءَ رَبَّہٗ بِقَلۡبٍ سَلِیۡمٍ ﴿۸۴﴾ (الصّٰفّٰت) ’’جب وہ قلب سلیم لیے اپنے ربّ کے حضور پیش ہوا‘‘. اس کا دل یعنی فطرت سلیم ہے اور مسخ شدہ (perverted) نہیں ہے‘ یا یوں کہہ لیں کہ اس پر پردے یا زنگ نہیں ہے. دل زندہ و بیدار ہے ؎

مجھے یہ ڈر ہے دلِ زندہ تو نہ مر جائے
کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے

ایسے ہی افراد کے بارے میں قرآن حکیم کہتا ہے: 
لِمَنۡ کَانَ لَہٗ قَلۡبٌ (قٓ: ۳۷یہ بات اس شخص کو سمجھ آئے گی جس کے پاس دل ہو. قلب تو سب کے پاس ہوتا ہے‘ مراد ہے ’’قلب بیدار‘‘. ہاں‘ واقعتا کچھ لوگ ہوتے ہیں جن کو اندر ہی سے محسوس ہو رہا ہوتا ہے کہ حقیقت وہ نہیں جو نظر آ رہی ہے‘ بلکہ کچھ اور ہے. کنفیوشس ایک حکیم انسان تھے‘ ان کا جملہ ہے: 

There is nothing more real than what cannot be seen and there is nothing more certain than what cannot be heard. 
’’جو ان آنکھوں سے دیکھی نہ جا سکے اس سے بڑی حقیقت کوئی نہیں ہے اور جو ان کانوں سے سنی نہ جا سکے اس سے زیادہ یقینی بات کوئی نہیں ہے.‘‘

مولانا روم رحمہ اللہ علیہ کی مثنوی کے اس شعر کے مصداق :

بشنو از نے چوں حکایت می کند
وز جدائی ہا شکایت می کند

روحِ انسانی اس زنداں خانے میں آ کر اللہ سے حجابات کی شکایت کرتی ہے. فطرتِ سلیمہ کے مالک‘ آئینۂ قلب صاف و شفاف‘ دل زندہ و بیدار اور روح بے تاب‘ یہ صدیقین کی صفات ہیں. ایسے لوگوں کے سامنے جونہی نورِ وحی آتا ہے قبول کر لیتے ہیں جیسے اسی کے لیے بے تاب بیٹھے تھے. اس زمرے میں سید الصدیقین حضرت ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ہیں‘ جن کے بارے میں آپفرماتے ہیں: 

مَا عَرَضْتُ الْاِسْلَامَ عَلٰی اَحَدٍ اِلاَّ کَانَتْ لَہٗ کَبْوَۃٌ اِلاَّ اَبُوْبَکْرٍ فَاِنَّہٗ لَمْ یَتَلَعْثَمْ فِیْ قَوْلِہٖ 
(۱
’’میں نے جس شخص کے سامنے بھی اسلام کی دعوت رکھی اس نے کچھ نہ کچھ توقف ضرور کیا سوائے ابوبکر کے‘ انہوں نے ایک لحظہ کا بھی توقف نہیں کیا.‘‘

یہ توقف نہ ہونے کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ سب کچھ اندر نورِ فطرت کی صورت میں موجود تھا. بس آپ نے اسے نورِ وحی کی چمک دکھائی اور وہ جاگ اٹھا.

نورِ وحی کی خوبصورت ترین مثال قرآن حکیم میں ان الفاظ کے ساتھ بیان 
(۱) جامع الاصول لابن اثیر ۸/۵۸۵‘ ح۶۴۰۵ بحوالہ رزین والفردوس بماثور الخطاب المعروف مسند الدیلمی ۴/۹۲‘ ح۶۲۸۶. وکنز العمال‘ ح۳۲۶۱۲ہوئی ہے: 

اَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ مَثَلُ نُوۡرِہٖ کَمِشۡکٰوۃٍ فِیۡہَا مِصۡبَاحٌ ؕ اَلۡمِصۡبَاحُ فِیۡ زُجَاجَۃٍ ؕ اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوۡکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوۡقَدُ مِنۡ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیۡتُوۡنَۃٍ لَّا شَرۡقِیَّۃٍ وَّ لَا غَرۡبِیَّۃٍ ۙ یَّکَادُ زَیۡتُہَا یُضِیۡٓءُ وَ لَوۡ لَمۡ تَمۡسَسۡہُ نَارٌ ؕ نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ ؕ یَہۡدِی اللّٰہُ لِنُوۡرِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿ۙ۳۵﴾ 
(النور) 
’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے. 
(۲(کائنات میں) اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہوا ہو‘ چراغ ایک فانوس میں ہو‘ فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا‘ اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہو نہ غربی‘ جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو چاہے آگ اس کو نہ لگے‘ (اس طرح) روشنی پر روشنی (بڑھنے کے تمام اسباب جمع ہو گئے ہوں). اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے راہنمائی کرتا ہے‘ وہ لوگوں کو مثالوں سے بات سمجھاتا ہے‘ اور اللہ ہر چیز سے خوب واقف ہے.‘‘

صدیقین کے ایمان کی یہی کیفیت ہوتی ہے. ذاتی طور پر فطرت سلیم‘ آئینۂ قلب شفاف‘ روح بیدار و بے تاب‘ قلب زندہ‘ جیسے ہی نورِ وحی آیا جگمگا اُٹھا. تو معلوم ہوا کہ نورِ ایمان کے دو جزو ہوئے: نورِ فطرت+ نورِ وحی. دونوں مل گئے تو 
’’نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ‘‘ بن گئے‘ اسی کے بارے میں کہا گیا ہے. ؎ (۲) ’’آسمانوں اور زمینوں کا نور اللہ ہے‘‘ کیا معنی؟ یعنی زمین و آسمان کی کل حقیقتیں اگر کھلیں گی تو اللہ کی طرف سے آنے والے نور کے ذریعے. گویا حقائق تک پہنچنے کی یہ کلید ہے. یہ بات پہلے بیان ہو چکی ہے کہ اندھیرا بے چینی و اضطراب کا سبب بنتا ہے کیونکہ آپ قرب وجوار کی اشیاء کو پہچان نہیں رہے ہوتے اور روشنی سکون کا ذریعہ ہے کیونکہ آپ اشیاء کی حقیقت کو پہچان رہے ہیں. اسی طرح ایمان باللہ حقائق تک رسائی کا کلید اعظم ہے. (ماخوذ)

نغمے بے تاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے
اک ذرا چھیڑ تو دے زخمۂ مضرابِ حیات

سورۂ ق کی آیت ۳۷ ہے: 

اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَذِکۡرٰی لِمَنۡ کَانَ لَہٗ قَلۡبٌ اَوۡ اَلۡقَی السَّمۡعَ وَ ہُوَ شَہِیۡدٌ ﴿۳۷﴾ 
(سورۃ قٓ) 
’’اس میں نصیحت ہے ہر اس شخص کے لیے جو دل رکھتا ہو یا جو توجہ سے بات کو سنے.‘‘
یہاں حرف 
’’اَوْ‘‘ (بمعنی ’’یا‘‘) آیا ہے‘ وائو (بمعنی ’’اور‘‘) نہیں آیا. اس کے معنی یہ ہوئے کہ ایمان کی تحصیل کی دو صورتیں ممکن ہیں. یا دل بیدار ہو یا کم سے کم انسان بات کو کان لگا کر اور دھیان سے سنے.

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ امام ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ علیہ کے شاگرد ہیں. ان کی ایک کتاب ’’الفوائد‘‘ ہے. یہ تفسیر نہیں‘ بلکہ مقالات کا مجموعہ ہے. امام ابن قیم رحمہ اللہ علیہ ’’الفوائد‘‘ میں اس آیت کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب وہ قرآن پڑھتے ہیں تو محسوس کرتے ہیں کہ قرآن مصحف میں لکھا ہوا نہیں ہے بلکہ ان کے لوحِ قلب پر لکھا ہوا ہے‘ گویا اپنی فطرت اور قرآن میں اتنی کامل مطابقت محسوس کرتے ہیں.‘‘ 

(۲) محجوبین: دوسرے اور درمیانی درجے میں ’’محجوبین‘‘ آتے ہیں جن کے دل پر کچھ حجابات اور پردے ہیں‘ کچھ زنگ آ گیا ہے‘ آئینۂ دل پر گرد پڑ گئی ہے‘ گویا ’’محجوب‘‘ ہو گئے ہیں‘ اور یہ حجابات چار قسم کے ہوتے ہیں: 

(۱) عدمِ توحید. (۲) دنیاداری میں انہماک. 
(۱(۱) یعنی مشغولیت فی الدنیا. اور یہ ان لوگوں میں سے ہوتا ہے جو خارج کی دنیا میں دلچسپی رکھنے والے‘ ادھر اُدھر جانے والے‘ کھیل کود اور تماشوں میں زندگی گزار دینے والے ہیں. ان لوگوں کے پاس حقائق پر غور کرنے کا وقت ہی نہیں ہوتا. (۳) اعمالِ بد کا زنگ. (۱

(۴) خواہشات سفلیہ (حب دنیا+ حب مال+ حب شہرت+ حب جاہ) 
(۲
ایسے لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ افہام و تفہیم کے انداز میں انہیں کچھ سکھایا اور پڑھایا جائے اور ان کے عقلی حجابات دُور کرنے کی کوشش کی جائے. ایسے لوگوں کے لیے قرآن کا ایک اپنا طریق کار ہے. ایسے ہی لوگوں کو توجہ دلانے کے لیے قرآن کہتا ہے: 

اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ ﴿۱۹۰﴾ۚۙ 
(آل عمران) 
’’یقینا زمین و آسمان کی پیدائش میں اور رات اور دن کو باری باری لانے میں اہل دانش کے لیے نشانیاں ہیں.‘‘

اسی لیے شاعر نے کہا ہے ؎

برگِ درختانِ سبز در نظر ہوشیار
ہر ورقے دفتریست معرفت کردگار

اور اس قسم کی نشانیاں ہر انسان کے اندر بھی موجود ہیں. اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 

وَ فِی الۡاَرۡضِ اٰیٰتٌ لِّلۡمُوۡقِنِیۡنَ ﴿ۙ۲۰﴾وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ اَفَلَا تُبۡصِرُوۡنَ ﴿۲۱﴾ 
(الذّٰریٰت) (۱) اور یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن حکیم نے کہا ہے: کَلَّا بَلۡ ٜ رَانَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ مَّا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿۱۴﴾ (المطففین) ’’بلکہ ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ آ گیا ہے‘‘. 

(۲) جب زمین میں محنت سے بامقصد زراعت نہ کی جائے تو بے ڈھنگے جھاڑ بوٹے از خود اُگ آتے ہیں. یہی کیفیت ہوتی ہے ان لوگوں کی جنہوں نے دین کو سنجیدگی سے نہ پڑھا ہو اور اِدھر اُدھر کے فلسفے پڑھ لیے ہوں. یہی وجہ ہے کہ حقیقی علم سے کورے ڈگری یافتہ جب غیر اسلامی فلسفہ پڑھتے ہیں تو نہ مسلمان رہتے ہیں اور نہ کافرانہ فلسفہ ہضم کرنا ان کے لیے آسان ہوتا ہے. (ماخوذ) 
’’اور زمین میں بہت سی نشانیاں ہیں یقین کرنے والوں کے لیے‘ اور خود تمہارے اپنے وجود میں ہیں‘ کیا تم کو سوجھتا نہیں؟‘‘

دوسری جگہ فرمانِ ربّانی ہے: 

سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ ؕ 
(فصلت/ حٰمٓ السجدۃ: ۵۳
’’عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی‘ یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے.‘‘

اگر حجابات بہت گہرے نہیں ہیں تو آفاقی و اَنفسی آیات پر غور کرنے سے اللہ یاد آ ہی جائے گا اور پردے دُور ہو جائیں گے ؎

کھول آنکھ‘ زمیں دیکھ‘ فلک دیکھ‘ فضا دیکھ!
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ!

یا ؏ 
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی!
مختلف آفاقی نشانیوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: 

اَفَلَا یَنۡظُرُوۡنَ اِلَی الۡاِبِلِ کَیۡفَ خُلِقَتۡ ﴿ٝ۱۷﴾وَ اِلَی السَّمَآءِ کَیۡفَ رُفِعَتۡ ﴿ٝ۱۸﴾وَ اِلَی الۡجِبَالِ کَیۡفَ نُصِبَتۡ ﴿ٝ۱۹﴾وَ اِلَی الۡاَرۡضِ کَیۡفَ سُطِحَتۡ ﴿ٝ۲۰﴾فَذَکِّرۡ ۟ؕ اِنَّمَاۤ اَنۡتَ مُذَکِّرٌ ﴿ؕ۲۱﴾لَسۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِمُصَۜیۡطِرٍ ﴿ۙ۲۲﴾ 
(الغاشیۃ) 
’’کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ وہ کس طرح پیدا کیے گئے‘ اور آسمان کی طرف کہ کس طرح اونچا کیا گیا‘ اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح گاڑ دیے گئے اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھا دی گئی. پس آپ مسلسل نصیحت کرتے رہیں‘ یقینا آپ کی ذمہ داری تو نصیحت کرنے والے کی ہے‘ آپ ان کے خلاف داروغہ نہیں ہیں.‘‘ 
سب سے اہم اور پہلا قدم اللہ تعالیٰ کو پہچاننا ہے‘ لہٰذا اب اسے یاد بھی رکھو. یہ ڈور کا ایک سرا ہے‘ اسے تھامے رکھو. اگر ڈور الجھ گئی تو سلجھے گی نہیں. اسی کا نام ذکر ہے. اللہ تعالیٰ نے سچے طالبانِ حق کی نشانیاں اور اوصاف ان الفاظ میں بیان کیے ہیں‘ فرمایا:
 
الَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴿۱۹۱﴾ (آل عمران) 
’’یہ وہ لوگ ہیں جو (ہر دم) اللہ کا ذکر کرتے ہیں چاہے کھڑے ہوں‘ چاہے بیٹھے ہوں اور چاہے اپنے پہلوؤں کے بل لیٹے ہوں‘ اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش پر غور کرتے ہیں اور (دعا کرتے ہیں) اے ہمارے پروردگار تو نے اسے بے فائدہ پیدا نہیں فرمایا. تیری ذات سبحان ہے (ہر نقص و عیب سے پاک)‘ پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے.‘‘

اس منزل پر پہنچ کر مزید تدبر و غور و فکر جاری رہے تو طالب حق کا دل اس بات پر ٹھک جائے گا کہ یہ کائنات بغیر مقصد کے جاری نہیں ہے‘ اس کا نتیجہ نکلنا چاہیے. یہ باطل نہیں ہے‘ بلکہ تخلیق بالحق ہے. ہر کام نتیجہ خیز ہے. اور اگر یہ ساری باتیں برحق ہیں تو ہمارے اندر جو نیکی اور بدی کا شعور اور ادراک ہے اس کا نتیجہ کہاں ہے؟ اگر یہاں گندم سے گندم اور جَو سے جَو پیدا نہیں ہو رہا‘ بلکہ نیکی کا الٹا نتیجہ نکل رہا ہے‘ تو لازماً کوئی اور عالم ہونا چاہے جس میں ہر کام کا صحیح حق مل سکے. مشہور فلاسفی کانٹ نے بہت صحیح جملہ لکھا ہے کہ خدا کی ہستی کے دو دلائل ہیں: 

The stary heavens above and the moral law within. 

جب ایک انسان یہاں تک پہنچ گیا‘ اس نے آفاقی و اَنفسی آیات کے ذریعے اللہ تعالیٰ کو پہچان لیا اور یہ بھی جان لیا کہ یہاں ہر چیز کا نتیجہ ظاہر نہیں ہو گا‘ یہ دنیا نامکمل ہے‘ اس لیے کہ یہاں اخلاقی نتائج برآمد نہیں ہو رہے تو بے اختیار کہنے لگا کہ لازماً ایک اور جہان ہونا چاہیے. جو شخص اپنی عقل سے یہاں پہنچ گیا اب اگر وہ قرآن پڑھ 
لے تو لپک کر مانے گا کہ ہاں‘ یہی بات صحیح ہے.

اس طرح کے دانشور تو اپنی فکر کے ذریعے منزلِ ایمان کے کنارے پہنچ جاتے ہیں‘ نور کی ایک جھلک ان کو اپنا گرویدہ بنا لیتی ہے‘ البتہ کچھ لوگ دلائل سننے کے بعد مانتے ہیں. اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا حال ان الفاظ میں بیان کیا ہے‘ فرمایا: 

رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعۡنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیۡ لِلۡاِیۡمَانِ اَنۡ اٰمِنُوۡا بِرَبِّکُمۡ فَاٰمَنَّا ٭ۖ 
(آل عمران: ۱۹۳
’اے ہمارے ربّ! ہم نے بآوازِ بلند ایمان کی پکار لگانے والے کو سنا‘ وہ کہہ رہا تھا کہ اپنے ربّ پر ایمان لے آؤ! چنانچہ ہم ایمان لے آئے.‘‘

حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ علیہ نے اس آیت کی بڑی خوبصورت تعبیر کی ہے‘ فرمایا:
’ایک عقلی ایمان ہے جس میں سب سے پہلے اللہ کی معرفت‘ پھر آخرت کی معرفت ہے. دوسرا سمعی ایمان ہے.‘‘

ان دونوں طریقوں سے ایمان مکمل ہو جاتا ہے لیکن درجہ بدرجہ مکمل ہوتا ہے. جن کی فطرت صاف و شفاف ہو ان کو تو اتنا وقت نہیں لگتا‘ البتہ جن لوگوں کے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہوں ان پر محنت کرنا ہوتی ہے‘ انہیں سمجھانا ہوتا ہے‘ سکھانا اور پڑھانا ہوتا ہے‘ بلکہ کچھ وقت تک انگلی پکڑ کر چلانا ہوتا ہے. 

ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ آج کے دَور میں انسان اتنی مشقت کا متحمل نہیں ہو سکتا جتنی کہ سابقہ دَور میں خانقاہی ریاضتیں کروائی جاتی تھیں. ہمیں کوئی اور ہلکا اور نسبتاً آسان طریق کار اختیار کرنا ہو گا. علامہ اقبال نے متبادل راستہ تجویز نہیں کیا‘ البتہ میرے خیال میں اس کا آسان حل’’ذکر و فکر‘‘ ہے. 

ذکر و فکر

اس موضوع پر خود علامہ کے دو شعر بہت بلند مقام کے ہیں ؎

جز بقرآں ضیغمی روباہی است
فقر قرآں اصل شاہنشاہی است
فقر قرآں اختلاطِ ذکر و فکر
فکر را کامل نہ دیدم جز بہ ذکر!

یہ ’’ذکر و فکر‘‘ ایک مجموعہ 
(complex) ہے. ان دو عناصر میں سے اگر کسی ایک کی مقدار کم ہو تو دوسرے عنصر کی مقدار بڑھانا ہو گی. چنانچہ اگر فکر کی کمی ہے تو ذکر زیادہ کرنا ہو گا اور اگر ذکر مشقت ہے تو فکر کو آگے بڑھائو. دونوں ضرب کھائیں گی تو نتیجہ ایک ہی نکلے گا. ذہین طبقہ اگر فکر پر زیادہ زور دے گا تو ذکر کی کم مقدار بھی کفایت کر جائے گی. واللہ اعلم 

(۳) مختومین: 
تیسرا اور آخری درجہ ان لوگوں کا ہے جن کی کج روی راسخ ہو چکی ہے‘ حجابات نہایت گہرے اور دبیز ہو چکے ہیں‘ دل سیاہ ہو چکے ہیں‘ جیسا کہ آپ کا فرمان ہے: 

اِنَّ الْعَبْدَ اِذَا اَخْطَاَ خَطِیْئَۃً نُکِتَتْ فِیْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃً سَوْدَائَ‘ فَاِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَ تَابَ صُقِلَ قَلْبُہٗ وَاِن عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَا قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِی ذَکَرَ اللّٰہُ: 
کَلَّا بَلۡ ٜ رَانَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ مَّا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿۱۴﴾ (۱
’’جب بندہ ایک گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نکتہ لگ جاتا ہے‘ پھر جب وہ گناہ سے باز آ جائے اور توبہ و استغفار کرے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے‘ اور اگر وہ (توبہ کے بغیر) دوبارہ گناہ کرتا ہے تو اس سیاہی میں اضافہ کر دیا جاتا ہے. بالآخر گناہ سارے دل کو کالا کر دیتے ہیں. اسی کا نام ’’ران‘‘ (زنگ) ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے‘ فرمایا: [ہرگز نہیں‘ بلکہ ان کے کرتوتوں کی وجہ
(۱) سنن الترمذی‘ کتاب التفسیر‘ باب ۷۴‘ ح۳۳۳۴. وسنن ابن ماجہ‘ کتاب الزہد‘ باب ذکر الذنوب‘ ح۴۲۴۴. والسنن الکبریٰ للنسائی ۶/۵۰۹‘ کتاب التفسیر سورۃ المطففین‘ ح۱۱۶۵۸امام الترمذی نے حدیث کو ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے. علامہ الالبانی نے سنن الترمذی و سنن ابن ماجہ کی تحقیق میں حدیث کو ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے. سے ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے.‘‘

اللہ تعالیٰ نے انہی لوگوں کے بارے میں مختلف مقامات پر مختلف انداز سے تبصرہ کیا ہے. فرمایا: 

خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ ۫ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ٪﴿۷﴾ 
(البقرۃ) 
’’اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر کر دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے.‘‘
سمع و بصر اور فواد سے صلاحیتیں چھن چکی ہیں. ایسے لوگ روحانی طور پر مرے ہوتے ہیں. انذار‘ تبلیغ‘ تبشیر‘ وعظ اور نصیحت‘ کچھ بھی کارگر ثابت نہیں ہوتا‘ چاہے تبلیغ کرنے والے حضرت محمدہی کیوں نہ ہوں اور بذریعہ قرآن تبلیغ کر رہے ہوں اور سننے والا خالص عربی ہو اور قرآن کو خوب سمجھ رہا ہوں‘ لیکن وہ دل تک اثر نہیں کرے گا. اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا سَوَآءٌ عَلَیۡہِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَہُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡہُمۡ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۶﴾ 
(البقرۃ) 
’’یقینا جن لوگوں نے (جاننے اور سمجھنے کے بعد) کفر کیا نتیجہ برابر ہے خواہ آپ انہیںآگاہ کریں یا نہ کریں‘ وہ ایمان نہیں لائیں گے.‘‘

یہی مضمون سورۂ یٰسین آیت ۱۰ میں بھی بیان ہوا ہے. اس کیفیت کی تعبیر قرآن یوں بھی کرتا ہے: یہ زندہ ہیں ہی نہیں‘ ان کی انسانیت مر چکی ہے‘ روح دفن ہو چکی ہے. یہ چلتے پھرتے مقبرے اور تعزیے ہیں. فرمایا: 

لِّیُنۡذِرَ مَنۡ کَانَ حَیًّا وَّ یَحِقَّ الۡقَوۡلُ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۷۰﴾ 
(یٰسٓ) 
’’تاکہ وہ (ہمارا نبی !) اسے خبردار کر دے جو زندہ ہو. البتہ کافروں پر تو حق کا قول یا حجت مکمل ہو جائے گی.‘‘

نیز فرمایا: 
اِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی وَ لَا تُسۡمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوۡا مُدۡبِرِیۡنَ ﴿۸۰﴾وَ مَاۤ اَنۡتَ بِہٰدِی الۡعُمۡیِ عَنۡ ضَلٰلَتِہِمۡ ؕ اِنۡ تُسۡمِعُ اِلَّا مَنۡ یُّؤۡمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَہُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۸۱﴾ (النمل: ۸۰۸۱. والرُّوم: ۵۲۵۳
’’یقینا (اے نبیؐ !) آپ ان مُردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ ہی بہروں کو سنا سکتے ہیں جب وہ خود ہی مُنہ پھیر کر چل دیں. اور نہ ہی آپ اندھوں کو ان کی گمراہی میں ہدایت دے سکتے ہیں. آپ صرف ان لوگوں کو سنا سکتے ہیں جو ہماری آیات پر ایمان لائیں‘ پھر وہ تابع فرمان بن کر زندگی گزاریں.‘‘ 
(۱

خلاصہ بحث

(۱) شعوری ایمان جو بالقوۃ ہر روحِ انسانی کے اندر موجود ہے اس کو صرف قرآن کے (۱) سنت مہجورہ: اس میں کوئی شک نہیں کہ تیسرے درجے پر پہنچنے والے لوگ شدید گمراہی کا شکار ہوتے ہیں. ان کے دل مردہ اور دیگر صلاحیتیں حق کے لیے بند بلکہ مہر زدہ ہوتی ہیں.لیکن مبلغین‘ دعاۃ اور علماء کا فرض ہے کہ وہ حتی الوسع ان تک دین کی آواز پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں. یہ کہہ کر جان چھڑا لینا تو بڑا آسان ہے کہ یہ گمراہ قوم ہے ان پر محنت کا کیا فائدہ؟ یہ جملہ کسی کو بھی آخرت کی جواب دہی سے نجات نہ دلا سکے گا. 

بلکہ سیرت طیبہ کا مطالعہ کر کے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ رسول اللہ نے آخری لمحہ حیات تک اُمت کو خیر پہنچانے کی بھرپور کوشش کی. اس ضمن میں دوسری اہم سنت جس کو ہم سب بھلائے بیٹھے ہیں وہ یہ ہے کہ کافروں کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا کہ اے اللہ! ہمارے ان انسانی بھائیوں کو تُو اپنے فضل و کرم سے ہدایت عطا فرما. اس کے لیے خلوت کا وقت اور بالخصوص رات کا آخری پہر بہت مبارک وقت ہے. ذرا غور کریں کہ نبی کس طرح عاجزی و انکساری کے ساتھ عام کافروں کے حق میں اور بالخصوص صاحب حیثیت حضرات کے حق میں دعا کیا کرتے تھے. اور ہمیں بھی اس سنت کو زندہ کرنا چاہیے. (اضافہ مرتب) کے ذریعے منور(activate) کیا جائے گا. ذہین لوگوں تک ایمان پہنچانے کا صرف یہی راستہ ہے جس پر مَیں خود (ڈاکٹر اسرار احمد) اور پوری انجمن خدام القرآن عرصۂ دراز سے کوشش و جستجو کر رہی ہے. 

(۲) جن لوگوں کے دل صاف و شفاف ہیں وہ آدھی بات سن کر ہی مکمل ایمان لے آتے ہیں.
 
(۳) جن کے دلوں پر ہلکے پردے ہیں ان کو وعظ و نصیحت اور تبلیغ و تذکیر کے ذریعے ایمان تک لایا جائے.

(۴) البتہ جن لوگوں
 کے دل گمراہی پر مہر زدہ ہیں ان کے بارے میں ظاہری مایوسی کے باوجود ان پر محنت جاری رکھی جائے گی اور ساتھ ساتھ اللہ کے حضور ان کی ہدایت کی خاطر دعا بھی کی جائے گی. 

آخر میں ہم سب اپنے لیے اور پوری انسانیت کے حق میں دعا کرتے ہیں: 
رَبَّنَا فَاغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَ کَفِّرۡ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الۡاَبۡرَارِ ﴿۱۹۳﴾ۚرَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدۡتَّنَا عَلٰی رُسُلِکَ وَ لَا تُخۡزِنَا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اِنَّکَ لَا تُخۡلِفُ الۡمِیۡعَادَ ﴿۱۹۴﴾رَبَّنَا لَا تُزِغۡ قُلُوۡبَنَا بَعۡدَ اِذۡ ہَدَیۡتَنَا وَ ہَبۡ لَنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ رَحۡمَۃً ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡوَہَّابُ ﴿۸