تقسیم ہند : برطانوی منصوبہ یا الٰہی تدبیر ؟

پاک بھارت کشیدگی : انگریز کی گھناؤنی سازش

روزنامہ جنگ لاہور کی 23 /مارچ 1994 ء کی اشاعت میں صفحہ اول پر تین کالمی سرخی کے ساتھ ایک بھارتی مسلمان دانشور دانیال لطیفی صاحب کی بعض آرا ء پر مشتمل خبرشائع ہوئی تھی جس کی جلی سرخی یہ تھی کہ : قائد اور گاندھی متحد ہ ہندوستان چاہتے تھے انگریز نے تقسیم پر مجبور کر دیا! اس کے بعد ذیلی سرخی یہ تھی کہ : کہ کشید گی ختم کرنے کےلئے وہ زہر نکالا جائے جو انگریزوں نے دو سو سال پہلے انجیکٹ کیا تھا!قائد اعظم کے قریبی ساتھی اور 1940ءکے منشور کے مصنف سے خصوصی انٹرویو .اس کے بعد نیوز رپورٹر کے حوالے سے خبر کا پورا متن حسب ذیل تھا:
ْ
مسلم لیگ کے 1940 ء کے منشور کے قریبی ساتھی دانیال لطیفی نے کہا ہے بر صغیر کے وائسر ائے لارڈماؤنٹ بیٹن نے ہندوستان کی تقسیم میں بندر بانٹ کی تاکہ دونوں ملک آپس میں لڑتے مرتے رہیں اور اس وقت کی سپر پاور برطانیہ دوبارہ ہندوستان پر قابض ہوجائے . برطانیہ کے زوال کے باعث اگر چہ ماؤنٹ بیٹن کاخواب پورا نہ ہوسکا لیکن دونوں ممالک کے سیاسی لیڈر اپنے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے عوام کوگمراہ کرتے رہے . حقیقت کچھ اور تھی اور بتایا کچھ اور جا تا رہا.وہ مسلم لیگی رہنما عمر قصوری کی صاحبزادی اور سابق وفاقی وزیر خورشیدقصوری کی بھتیجی کی رسمِ حنا کے موقع 

پرجنگ کے انجم رشید رمان احسان اور امین حفیظ پر مشتمل خصوصی پینل کو انٹر ویو دے رہے تھے . 77 سالہ بیر سٹر دانیال لطیفی نے کہا کہ ہندوستان کی تقسیم سے قائد اعظم اور گاندھی دونوں خوش نہ تھے مگر دونوں بےبس تھے اور یہ تقسیم قبول کرنے پر مجبور تھے . دونوں لیڈر متحد ہ آزاد ہندوستان چاہتے تھے لیکن انگریزوں نے حالات ہی ایسے بنادیئے . ایک سوال پر انہوں نے کہا قائد اعظم اسلامی سیکولر پاکستا ن چاہتے تھے جس میں مکمل جمہوریت ہو اور تمام مذاہب کے لوگوں کو مکمل آزادی ہو . انہوں نے کہا سیکولر کاآئیڈیا اسلام سے لیا گیا ہے اور قائد اعظم اس سلسلہ میں حدیث پر یقین رکھتے تھے .ترجمہ: مظلوم کی پکار سے ڈرو چاہے وہ کافر کیوں نہ ہو .انہوں نے کہا انڈیا اور پاکستان میں کشیدگی ختم کرنے کےلئے ضروری ہے کہ اس زہر کو نکالا جائے جو انگریزوں نے دو سو سال کے دوران دونوں قوموں کی رگوں میں انجیکٹ کیا ہے .دونوں ملک متحد ہوں یا نہ ہوں نفرتوں کی دیوار ختم ہونی چاہیئے . انہوں کہا میں قیام پاکستان کے وقت ہجرت کے حق میں نہ تھا . اس موقع پر ہونے والے لاکھوں افراد کی قتل و غارت کا ذمہ دار ماؤنٹ بیٹن تھا . اس نے بد معاشی کی ہجرت کے بارے میں لارڈ ویول کے پلان کو تبدیل کر دیا . 

اگر چہ نبی اکرم کا قول مبارک تو یہ ہے کہ :یہ نہ دیکھا کرو بات کہنےوالا کون ہے بلکہ یہ دیکھا کرو کہ اس نے کہا کیا ہے ! تا ہم اس کی قسم کی آراء کو جیسی کہ اس انٹر ویو میں سامنے آئی ہیں اس مسلمہ قانون کے ذیل میں شمار کیا جانا چاہئے کہ بعض حالات میں استثنائی مثالوں سے قاعدہ کلیہ مزید ثابت اور محکم ہوجاتا ہے لہٰذا ا ن حالات سے تبصرہ کرنے سے قبل صاحب رائے کی شخصیت کا کس قدر تعارف حاصل کرنا ضروری ہے. خاص طور پر اس لئے کہ پاکستان کے عوام کی عظیم اکثریت نے یہ نام پہلی بار سنا ہے . چنانچہ خود میرا اپناحال یہ ہے کہ اگر چہ میں 47.1946 ء کے دوران کے اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا رکن تھا یہاں تک کہ 1946 ء میں فیڈریشن کاجو اہم اجلاس حبیبیہ حال اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں منعقد ہواتھا جس سے قائد اعظم نے بھی خطاب فرمایا تھا:اس میں ضلع حصار سے شر کت کرنے والے دو مندوبین میں سے ایک میں تھا اس کے باوجود مجھے اعتراف ہے کہ دانیال لطیفی صاحب سے بالکل واقف نہ تھا .تاہم چونکہ ان کی باتیں کم از کم قابل غور ضرور نظر آئیں لہٰذامیں نے ان کے بارے میں معلومات کچھ تو سینئر صحافی عبدلکریم عابد صاحب سے حاصل کیں اور مزید لطیفی صاحب کے میزبان جناب عمر قصوری صاحب سے .چنانچہ ان کی آراء پر تبصرے سے قبل انکی شخصیت کے بارے میں ان معلومات میں سے بعض کو قارئین کے علم میں لانا مناسب سمجھتا ہوں.

میرا گمان تھا کہ جب لطیفی صاحب قصوری خاندان کی ایک شادی میں بھارت سے پاکستان تشریف لائے تو یقیناًٍٍ اس خاندان کے ساتھ ان کا عزیز داری کا تعلق ہوگا لیکن معلوم ہوا کہ میرا یہ اندازاہ غلط ہے .اور معاملہ صرف اتنا ہے کہ ان کی نہایت گہری دوستی میا ں محمود علی قصوری مرحوم کے ساتھ تھی جو انہیں ان کی پوتی کی شادی کے لئے کھینچ لائی . ان کی والدہ ڈاکٹر عالما لطیفی برٹش انڈیا کے اوّلین ہندوستانی (اور وہ بھی مسلم!) فنانشل کمشنر تھے جو کچھ دیر پنجاب کےایکٹنگ گور نر بھی رہے تھے . خود دانیال صاحب پکے اور سچے مارکسسٹ تھے. اور نہایت اعلیٰ تعلیم کے حصول حتیٰ کہ انگلستان سے بیرسٹری کی تکمیل کےبعد انہوں کل تیس روپے ماہانہ مشاہرے پر کمیو نسٹ پارٹی آف انڈیا میں ایک ہمہ تن کارکن کی حیثیت سے کام کیا . پھر جب عالمی کمیونزم کی سطح پر فیصلہ ہواکہ ہندوستان کہ مسلمان کمیونسٹ مسلم لیگ میں اور تحریک پاکستان میں شامل ہو جائیں تو پاڑٹی ڈسپلن کی پابندی کرتے ہوئے وہ مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اس وضاحت کے ساتھ جب آپ ہمیں بھیج رہےہیں تو ا ب ہم وہاں پوری تندہی اور مسلم لیگ کے نظم کی پابندی کےساتھ کام کریں گے . چنانچہ اپنی خداد صلاحیت و ذہانت اور ایثارومحنت کی بنا پر دانیال صاحب قائد اعظم کے قریبی رفقائے کار کے حلقے میں شمار کئے جانے لگے جس کانمایاں مظہر یہ ہے کہ 1946 ء میں عام خطاب سےقبل مسلم لیگ کا منشور تیا ر ہوا اس کے ضمن میں جیسا کہ اخباری خبر میں بھی وضاحت ہے (اگر چہ وہاں 1946 ءکی بجائے غلطی سے 1940 ءچھپ گیا !)انہوں نے میا ں ممتازمحمد خان دولتانہ وغیرہ کے ساتھ مل کر اہم خدمت سر انجام دی.

تقسیم ہند سے قبل بمبئی میں ہندو مسلم فسادات ہوئے تو انہیں وہاں فسادات کی روک تھام اور با لخصوص ریلوے کے مسلمان ملازمین کی حفاظت اور امداد کے لئے بھیجا گیا تھا .قیام پاکستان کے بعد جب انہوں نے واپس لاہور آنے کا ارادہ کیا تو ممبئی کے مسلمانوں نے ان سے وہیں قیام کرنے کی درخواست کی جو انہوں منظور کر لی . بنا بریں وہ مستقل طور پر بھارتی شہری بن گئے بعد ازاں وہ دہلی منتقل ہو گئے اور اب وہ نئی دہلی میں سپریم کورٹ آف انڈیا میں وکالت کرتے ہیں . اور نہ صرف یہ کہ بر عظیم پاک وہند کےبگڑتے ہوئے حالات پر سخت مضطرب رہتے ہیں . بلکہ آر ایس ایس بی جے پی اور ایچ ایس قسم کی ہندو فنڈ امنٹلسٹ تحریکوں سےبھارت میں اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل کو جو شدید خطرات لاحق ہیں ان کے بارے میں بہت پریشان اور مفکر ہیں .کمیونزم کے ضمن میں ان کا رجحان اس کے چینی برانڈ کی جانب رہا .اور بھارتی بنگال کے موجودہ کمیونسٹ وزیر اعلیٰ جیوتی باسو ان ہی کے رفیق اور تربیت دادہ ہیں . تاہم اب جبکہ عالمی کمیونزم اور سوشلزم کی عمومی موت واقع ہو چکی ہے ان کے نظریات میں بھی اعتدال پیدا ہو چکا ہے.واللہ اعلم!

صاحب رائے کے بارے میں اس وضاحت کے بعد آئیے ان کی آراء کے حسن و قبح اور صواب و خطا کی جانب .اس سلسلے میں پہلی با ت یہ ہے کہ دنیا میں صد فی صد حق اور درست بات یا تو صرف اللہ کے اپنے کلام یعنی قرآن کی ہو سکتی ہے یا اللہ کے رسول کے فرمان کی بشرطیکہ اس کی نسبت آنجناب کی جانب درست ہو .باقی ہر بات میں نہ صرف یہ کہ خطاو صواب اور صحیح یا غلط کا امکان بہر حال موجود ہوتا ہے بلکہ اکثر وبیشتر معاملات میں بیک وقت دونوں ہی پہلو موجود ہوتے ہیں صرف اس فرق کے ساتھ کہ کہیں تو خطاب اور صواب اور درستی کا عنصر غالب ہوتا ہے اور خطایا غلطی کا پہلو انداز کئے جانے کے قابل ہونے کی حد تک 
کم اور کہیں باطل کا عنصر غالب رہتا ہے اور حق کا حصہ صرف اس قد ر کہ باطل اس کا سہارا لے کر کھڑا ہو سکے .اس اصول کو سامنے رکھتے ہوئے جناب دانیال لطیفی کی جو آراء محولہ بالاخبر میں رپورٹ ہوئی ہیں ان پر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے اور ان کا گہرا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اگر چہ ان میں بحیثیت مجموعی تو حق و باطل تقریباً برابر شامل ہیں تاہم ایک گفتگو کا اصل حاصل اور مقصود بالکل درست ہے یعنی یہ کہ بھارت اور پاکستان اور ہندؤں اور مسلمانوں کے درمیان منافرت کے کم از کم اس اضافی حصے کو تو زائل کرنے کی کوشش کی جائے جو انگریز نے اپنی سیاسی مصلحت کے تحت پیدا کیا تھا .اور دوسرے تقسیم ہند کے اسباب کے ضمن میں بھی اس کے باوجود کہ ان کی بعض آراء پاکستان کے عوام ہی نہیں اچھے بھلے پڑھے لکھے بلکہ دانشور شمار ہونے والے لوگ یقیناً نا مانوس اور عجیب لگی ہونگی لیکن ہیں بہت حد تک صحیح!صرف اس صراحت کے ساتھ کہ ان میں کچھ واقعاتی خلا بھی موجود ہے اور دوسرے ایک ماورائی حقیقت سے کلی طور پر صرف نظر کر لیاگیا ہے اور یہ دوسری بات ایک ایسے شخص کے لئے بالکل قرین قیاس ہے جس کے ذہن پر مار کس کی جدلی مادیت کا غلبہ رہا ہو .

چنانچہ جہاں تک گاندھی جی سمیت تمام ہندو لیڈر وں یہاں تک کہ جملہ ہندو عوام کا تعلق ہے یہ بات اظہر من الشّمس ہے کہ ہندوستان کی تقسیم انہوں نے بادل نخواستہ بلکہ مجبوراً ہی تسلیم کی تھی .بلکہ ان کے اذہان اور قلوب نے اسے تاحال بھی قبول نہیں کیا ہے.خاص طو ر گاندھی جی کا یہ قول تو تقسیم ہند سے چند ہفتے قبل کا ہے کہ پاکستان میری لاش پر بن سکتا ہے ! لہٰذا اس ضمن میں نہ کسی اختلاف کی گنجائش ہے نہ بحث کی ضرورت .
 
خود قائد اعظم کے بارے میں دو باتیں تو قطعی مسلّم ہیں یعنی ایک یہ کہ وہ طویل عرصےتک کانگریس میں شامل رہے تھے اور ایک زمانے میں ہندو مسلم اتحاد کے سب سے بڑے سفیر اور پیغامبر قرار دئیے جاتے تھے اوردوسرے یہ کہ 1996 ء میں انہوں نے کینبٹ مشن پلان کو قبول کر لیا تھا جس کی رو سے ایک علیحدہ اور آزاد پاکستان 
کے قیام کامعاملہ کم از کم دس سال کے لئے مؤخرہو گیا تھا.

ان دو نا قابل تردید حقائق کے مابین 1941ءمیں قرار دادپاکستان کی منظوری اور پھر اس کے مظابق تقسیم ہند اور قیام پاکستان کی عظیم جدّ جہد میں جو ذاتی اور فیصلہ کن حصہ قائداعظم کا رہا اس کےضمن میں یہ بات تو کم از کم مسلما نانِ پاکستان مین مشہور و معروف ہی نہیں بلکہ تقریباً متفق علیہ ہے کہ اس کا اصل سبب قائد اعظم کی ہندو ذہنیت سے مایوسی بیزاری تھی ان سے کسی انصاف کی توقع نہیں رکھی جا سکتی اور یہ رائے انہوں نے اپنے ذاتی تجربات کی بنیاد پر قائم کی تھی اور اس بناء پر وہ ہر صورت میں تقسیم ہند ہی پُر مصر اور جازم تھے لیکن ایک دوسری رائے بھی پیش کی جاتی رہی ہے کہ قیام پاکستان اور تقسیم ہند کامطالبہ اصل میں ہندو قیادت کے ساتھ سیا سی سودے بازی کا مظہر تھا . اورقائد اعظم ذہناً اور قلباً کسی بھی ایسی صور ت کو قبو ل کرنے کے لئے تیار ہو سکتے تھے جس میں ہندوستان کی وحدت برقرار رہتی اور مسلمانان ہند کے حقوق کا مناسب تحفظ بھی ہو جاتا . اس مؤخر الذکررائے کی تائید میں ایک بات جو گزشتہ سال اتفاقاً میرے علم میں آئی یہ ہے کہ جنوری ۱۹۹۳ء میں جب میں امریکہ جارہا تھا تو ہوائی جہاز میں میری ملاقات پروفیسر اقبال احمد صاحب سے ہوئی جو امریکہ کی کولمبیایونیورسٹی میں پولٹیکل سائنس کے استاد ہیں امریکہ کی دوسری یونیورسٹیوں ہی نہیں دور دراز کے ممالک میں بھی سیاسی و علمی موضوعات پر خطبات کے لئے مدعو کئے جاتے ہیں . (ان کا تعلق اچھرہ لاہور کےذیلدار خاندان سے ہے !) انہوں نے بتایا کہ ان کے علم میں ایسے دستاویزی ثبوت موجود ہیں کہ ۱۹۴۶ءہی میں قائد اعظم نے ریاست کلو (جو اب بھارت کے ہما چل پردیش میں شامل ہے) میں خاصاوسیع رقبہ خرید فرمایاتھا تاکہ اسے ایک سیاحت کے مقا م کی حیثیت سے بھی ترقی دیں اور وہیں اپنے لئے ایک رہائش گاہ بھی تعمیر فرمائیں .گویا اس وقت تک قائد اعظم تقسیم ہند کو کوئی حتمی اور شدنی بات نہیں سمجھتے تھے.

تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے ضمن میں بیرسٹر دانیال لطیفی صاحب کا نظریہ دو حصوں پر مشتمل ہے یعنی : ایک یہ کہ نہ گاندھی جی اسے پسند کرتے تھے اور نہ قائد اعظم اور چونکہ یہی دو شخصیتیں انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ میں فیصلہ کن حیثیت کی حامل منصب پر فائز تھیں لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہندوستا ن کی تقسیم کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کی نا پسند یدگی کے علی الرغم جبراً مسلط کی گئی .لطیفی صاحب کے نظرئیے کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ جبرا نگریزوں کی جانب سے ہوا اور ہندوستان کی یہ جبری تقسیم ہمارے سابق حکمرانوں نے اپنے مذموم مقصد یعنی ہندوستان پر دوبارہ قابض ہونے کےلئے کی تھی !

ان میں سے پہلی بات کو تھوڑی دیر کے لئے تسلیم کرتے ہوئے دوسرے حصے پر غور کیا جائے تو ہر گز کوئی شک نہیں کہ برعظیم کی تقسیم اورر اس کے نتیجے میں پاکستان کے قیام میں ایک جزوی اور بالواسطہ عامل کی حیثیت سے انگریزوں کی لڑاؤ اور حکومت کرو! (Divide and rule) کی حکمت عملی کا کسی نہ کسی حد تک عمل دخل موجود تھا لیکن اسے کلی حقیقت یا واحد سبب قرار دینے کےلئے ایک جانب تو مثبت شواہد ہونے کی ضرورت ہے وہ موجود نہیں ہیں . اور دوسری جانب جیسے کہ پہلے عرض کیا گیا تھا ایک اہم واقعاتی خلا بھی اس کی راہ میں حائل ہے . یہ بات تو یقیناً اظہر من الشمس ہے کہ ہندوستان کی تقسیم کا اصل سبب ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین بڑھتی ہوئی بد اعتمادی اور نفرت تھی . البتہ اس باہمی منافرت اور بد اعتما دی کے بارے میں جہاں یہ کہنا غلط ہے کہ یہ کل کی کل انگریزوں کی پیدا کردہ تھی وہاں یہ کہنا بھی حقائق سے گریز کے مترادف ہے کہ اس کی شدت اور گہرائی و گیرائی میں کوئی اضافہ انگریزوں کی مذکو رہ بالا حکمت عملی سے نہیں ہو ا.
جہاں تک اس لڑاؤ اور حکومت کرو کی حکمت عملی کا تعلق ہے وہ اولاً تو بجائے خود حاکم و قابض اقوام کے مسلّمہ ہتھکنڈوں میں سے ہے جو علامہ اقبال نے سورۃ النمل کی آیت 34 کےحوالے سے بیان کئے ہیں یعنی ؎ 

آ بتاؤں تجھ کو رمزِ آیۂ اِنَّ الملوکَ
سلطنت اقوام کی اک جادوگری
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم ا گر
پھر سلا دیتی ہے اس حکمراں کی ساحری
جادوئے محمود کی تاثیر سے چشمِ ایاز
دیکھتی ہے حلقۂ گردن میں ساز دلبری

ثانیاً اس کے ضمن میں حقائق و شواہد کاکافی مواد بھی خان عبد الولی خان صاحب انڈیا آفس کے ریکارڈ کی چھان بین اور تحقیق و تفتیش کے ذریعے وقتاً فوقتاً فراہم کرتے رہے ہیں .

بد قسمتی سے ہمارے ملک کے بعض دانشور وں نے ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین نفرت کے چلتے ہوئے جھگڑے اور بد اعتمادی کی اٹھتی ہوئی آندھی کے ایک سبب کو اس درجے اچھالا ہے اور اس شدت کے ساتھ تحریر و تقریر کاموضوع بنایا ہے کہ دوسرے جملہ عوامل نگاہوں سے اوجھل ہو کر رہ گئے . چنانچہ عوام کے اذہان میں اس پوری صور ت حال کے واحد سبب کی حیثیت صرف ہندوؤں کی عمومی چھوت چھات برہمنوں کے سامراجی مزاج اور بنیوں کی چاپلوسانہ عیاری کی ذہنیت کو حاصل ہو گئی ہے . چنانچہ ایک جانب یہ پہاڑ جیسی عظیم حقیقت نگاہوں سے اوجھل ہوگئی ہے کہ ہندو معاشرہ صرف برہمنوں اور بنیوں ہی پر مشتمل نہیں ہے بلکہ اس میں راجپوت اور شودر بھی موجود ہیں جو اپنا اپنا جداگانہ مزاج رکھتے ہیں مزید برآں خود برہمنوں اور بنیوں میں بھی ؎ نہ ہر زن زن است و نہ نہ ہر مرد مرد ..... خدا پنج انگشت یکساں نہ کرو ! کے مصداق ہر مزاج اور کردار کے لوگ موجود ہیں اور دوسری جانب ان دو اہم عوامل سے تو کامل ذ ہول ہوگیا جن میں سے ایک کا تعلق ماضی بعید اور خود مسلمانوں کے اپنے کردار سے ہے اور دوسرے کاماضی قریب اور انگریز وں کے کردار سے! 

ان مقدم الذکر سے ِ صرف ِ نظر اور غض ِ بصر کا معاملہ تو؎
وابستہ میری یاد سے کچھ تلخیان بھی تھیں
اچھا کیا جو فرا موش کر دیا !

کے عین مطابق ہے ا س لئے کہ اس تلخ حقیقت کا اعتراف بہت مشکل ہے کہ ہم مسلمانوں نے ہندوستان میں اپنی ہزار سالہ حکومت کے دوران اکثر و بیشتر وہی اقوام غالب والا کر دار اختیار کیا تھا جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے .اور نہ صرف یہ کہ اپنے ان فرئض کو تو سرے سے ادا ہی نہیں کیا تھا جو امت مسلمہ اور امت محمد( علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام ) ہونے کی حیثیت سے ہم پر عائد ہوتے تھے یعنی اللہ کے پیغام کی دعوت اور اسلام کے عادلانہ نظام ِ زندگی ااور دین حق کے نظام عدل و قسط کے قیام کے ذریعے خلق خدا پر اللہ کی رحمانیت و رحیمیت اور محمد رسول  کی رحمۃ اللعالمینی کا عملی مظاہرہ اور اس طرح اللہ کے رسول کی جانب سے ہندوستان میں بسنے والوں پر اتمام حجت ! بلکہ بہت سے حکمرانوں نے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ قائم رکھنے کے علاوہ ذاتی عیاشی اور ابو الہوسی کے وہ جملہ انداز اختیار کئے جو ہمیشہ سے ملو کیت اور بادشاہی کے لوازم میں سے رہے ہیں اور ان سب کی بناء پر ہندؤں میں عمومی طور پر وہ انتقامی جذبہ موجود تھا جو سقوط ڈھاکہ کے حادثہ فاجعہ کے موقع پر"ع" نکل جاتی ہے جس کے منہ سے سچی بات مستی میں ! کے مطابق فتح مندی کی سرمستی میں پنڈت موتی لال نہرو جیسے المشرب انسان کی پوتی اور جواہر لال نہرو جیسے سیکولر اور سوشلسٹ مزاج کے حامل شخص کی بیٹی مسز اندرا گاندھی کے منہ سے نکلنے والے ان الفاظ سے ظاہر ہو گیا کہ : 

ہم نے اپنی ہزار سالہ شکست کابدلہ چکا لیا ہے ! 

بہر حال وہ آگ جو ان دو عوامل یعنی برہمن اور بنیا ذہنیت اور مسلمانوں کی ہزار سالہ حکومت کے رد ِ عمل نے بھرکائی تھی اس پر تیل کاکام یقیناً اس تیسرے عوامل یعنی انگریزوں کی حکمت عملی نے سر انجام دیا. چنانچہ انہوں نے پہلے تو ٹھیک وہی کام کیا جو سورۃ النمل لی آیت 34 میں بیان ہوا ہے یعنی مفتوح قوم کے اعلیٰ طبقات کو ادنیٰ (ا ور ادنیٰ کو اعلیٰ )بنا دیا جائے چنانچہ ہمارے سابق حکمرانوں نے سوائے پنجاب اور سر حد کے باقی پورے ہندوستا ن میں مسلمانوں کو دبایا اور ہندوؤں کو ابھارا . اور پھر ان دونوں کے مابین چپقلش کو مسلسل ہوادی اور نفرت اور بے اعتمادی کے جراثیم کو پروان چڑھایا جسے دانیال لطیفی صاحب نفرت کو انجیکٹ کرنے سے تعبیر کر رہے ہیں ! 

بہر حال اس عامل کی حدتک تو تقسیم ہند کے ضمن میں انگریزوں کاحصہ لازماً تسلیم کیا جانا چاہیے لیکن اسے واحد یا سب سے فیصلہ کن عامل قرار دینا ہر گز صحیح نہیں ہے جیسا کہ دانیال صاحب کے خیالات سے ظاہر ہوتا ہے . اور اس کی راہ میں جو سب سے بڑا واقعاتی خلاحائل ہے وہ یہ کہ انگلستان میں دو جماعتی پارلیمانی جمہوریت قائم تھی جس میں عام طورپر مخالف سیاسی جماعتوں کے بنیادی مزاج اور عمومی طرزِ عمل میں اختلاف موجود ہوتاہے.چنانچہ کنز رو یٹو پارٹی اور لیبر پارٹی کے مزاج اور پالیسیوں میں فرق اور تفاوت تھا . اور لڑاؤ حکومت کرو ! کی حکمت عملی مقدم الذکر کی حد تک تو ایک حقیقت موضوعہ کی حیثیت رکھتی تھی لیکن مؤخر الذکر کے ضمن میں کم از کم اس حد تک نہیں . اور یہ بات کہ جب ہندوستان آزاد ہوا اس وقت انگلستان میں لیبر پارٹی بر سر اقتدار تھی جہاں اس اعتبار سے اہم ہے کہ بصورت دیگر شاید ابھی آزدی کے حصول میں تاخیر ہو جاتی وہاں مسئلہ زیر بحث کے اعتبار سے تو نہایت فیصلہ کن ہے . اس لئے کہ پہلے بھی یہ راز کچھ ایسا خفیہ نہ تھا اور اب تو وہ طشت از بام بھی ہو چکا ہے کہ انگلستان کہ وزیر اعظم لارڈ ایٹلی اور ہندوستان کے وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن دونوں کوقائد اعظم اور مسلم لیگ سے شدید نفرت تھی . چنانچہ یہی وہ معروضی صورت حال تھی جس کے پیش نظر قائد اعظم کو کیبنٹ مشن پلان قبول کرنا پڑا تھا جس کے نتیجے میں کم از کم فوری طور پر ہندوستا ن کی تقسیم اور پاکستان قیام کا مسئلہ ختم ہو گیا تھا . اب اس کے بعد بھی ملک تقسیم ہوا اور ایک آزاد اور خود مختار پاکستان وجود میں آیا تو جبر لازماً تھا لیکن انگریز کا نہیں بلکہ اس سے بھی کہیں بالا تر اور مقتدر ہستی یعنی اللہ کا!
چنانچہ یہی وہ ماورائی حقیقت ہے جس کی جانب مارکس کی جدلی مادیت کے پھندے میں گرفتا ر شخص کاذہن منتقل ہو ہی نہیں سکتا.

اللہ کا یہ جبر اورقانون الٰہی کی یہ کار فرمائی اس سنت اللہ کہ مطابق ہے جب کوئی قوم اللہ کی بندگی اختیار کرنے کے لئے آزادی کی طالب ہوتی ہے تو اللہ اسکی خواہش پوری فرما کر اسے ایک لازمی آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہے کہ آزادی و خود اختیاری کے حصول کے بعد وہ اپنا وعدہ پورا کرتی ہے یا نہیں . چنانچہ قرآن کے اس عمومی اسلوب کے مطابق کہ اہم مضامین اس میں کم از کم دو بار ضرور بیان ہوتے ہیں یہ قانون الٰہی بھی سورۃ الاعراف کی آیت ۱۲۹ (۱میں تو خاص طور پربنی اسرئیل کی سر گزشت کے ضمن میں واردہوا ہے . اور سورۃیونس کی آیت ۱۴ (۲میں عمومی انداز میں مذکور ہے .اور وقعہ یہ ہے کہ پاکستان کاقیام جس کے لئے تقسیم ہند نا گریز تھی سیاست و عمرانیات کے جملہ اصولوں کی رو سے ایک معجزہ کی سی حیثیت رکھتا ہے جس کی واحد تو جیہہ صرف مذکورہ سنت الٰہی ہی ہوسکتی . یعنی یہ کہ جب راس کماری سے درہ خیبر اور چاٹگام سے کوئٹہ تک پورا بر عظیم پاکستان کامطلب کیا؟ لا الٰہ الاللہ! کے نعروں سے گونج اٹھا اورجمعوں اور عیدوں میں گڑ گڑا گڑ گڑا کر دعائیں کی گئیں کہ اے اللہ ! ہمیں انگریز اور ہندوؤں کی دوہری غلامی سے نجات عطا فرما تاکہ ہم تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ دین پر عمل پیر ا ہوسکیں ! چنانچہ حکمت خداوندی نے عین لیلۃ القدر کو تقسیم ہند اور قیام پاکستان کا فیصلہ صادر فرمادیا تاکہ ہم دیکھیں کہ اب تم کیا عمل کرتے ہو (یونس۱۴

اب ظاہر ہے کہ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کا یہ ماورائی عمل کسی ایسی شخصیت ہی کو نظر آسکتا تھا جو یہ دعویٰ کر سکے کہ ؏ . گاہ مری نگاہِ تیز چیرگئی دلِ وجود !" چنانچہ یہ علامہ اقبال تھے جنہوں نے ۱۹۳۰ء ہی میں جب قائد اعظم تو صرف چودہ نکات تک ہی پہنچے تھے اس تقدیر مبرم کا مشاہدہ کر لیا تھا کہ ہندوستان کے شمال 
(۱) قَالُوۡۤا اُوۡذِیۡنَا مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ تَاۡتِیَنَا وَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جِئۡتَنَا ؕ قَالَ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّہۡلِکَ عَدُوَّکُمۡ وَ یَسۡتَخۡلِفَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ فَیَنۡظُرَ کَیۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۲۹
(۲) ثُمَّ جَعَلۡنٰکُمۡ خَلٰٓئِفَ فِی الۡاَرۡضِ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ لِنَنۡظُرَ کَیۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۴﴾ 
مغربی حصے میں ایک آزد ریاست قائم ہوگی ! یہ دوسری بات ہے کہ اس مردِ درویش نے اس کا کوئی اصل مقصد معین کیا تھا اس کی جانب تا حال کوئی پیش قدمی نہیں ہو سکی . تاہم اس سے بھی کوئی حرف حضرت علامہ پر نہیں آتا . اس لئے کہ یہ بات انہوں نے ایک امکان اورموقع کی حیثیت سے کہی تھی پیشین گوئی کے انداز میں نہیں کہ : اگر ایسا ہوگیا تو موقع مل جائے گا کہ اسلام کی اصل تعلیمات پر جو پردے عرب ملوکیت کے دورمیں پڑ گئے تھے انہیں ہٹا کر اس کے اصل روئے روشن کو دنیا کے سامنے پیش کر سکیں ! ....ان سطور کے عاجز و نا چیز راقم کو بعض احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنیاد پر یہ یقین حاصل ہے کہ ان شااللہ علامہ اقبال کی یہ توقع بھی پوری ہوگی اور خلافت اسلامی کا احیا ء اسی ارض ِ پاکستان اور اس سے ملحق افغانستان سے ہوگا . اگر چہ سورۃ الانبیا ء کی آیت۱۰۹میں وارد شدہ الفاظ(وان ادری اقریب ماتوعدون) اور اس طرح سورۃ الجن کی آیت ۲۵میں وارد شدہ الفاظ مبارکہ : (قُلۡ اِنۡ اَدۡرِیۡۤ اَقَرِیۡبٌ مَّا تُوۡعَدُوۡنَ اَمۡ یَجۡعَلُ لَہٗ رَبِّیۡۤ اَمَدًا ﴿۲۵﴾) یعنی ( اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !) کہہ دیجئے کہ میں نہیں جانتا کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ قریب آچکی ہے یا ابھی میرا ربّ اس میں کچھ دیر فرما ئے گا ! کے مطابق نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مرحلہ ابھی کتنی دور ہے نہ یہ کہ اس سے قبل اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اب تک کی وعدہ خلافی کی مزید سزا دے گا یا نہیں اور دے گا تو کیا!

بہرحال جہاں تک دانیال لطیفی صاحب کی اس رائے کا تعلق ہے کہ بھارت اور پاکستان کے مابین نفرت کا خاتمہ کیا جائے تو اس کے ضمن میں عرض ہے کہ اگر فوری طور پر اس کا کلی خاتمہ ممکن نہ ہو تو بھی آزادی کے چھیالیس سال 
(۱بعد ہمیں اس امر پر تو سنجیدگی کےساتھ لازماً غور کرنا چاہیے کہ اس کے کم از کم اس اضافی حصے کو تو ختم کرنے کی بہر صورت کوشش کریں جو ہمارے سابق غیر ملکی حکمرانوں نے اپنی وقتی حکمت عملی کے تحت پیدا کیا تھا کاش کہ دونوں ملکوں کے دانشور اس جانب توجہ کر سکیں . واضح رہے کہ یہ تحریر1994 کی ہے.