پروفیسر سید عرفانی کے جواب میں

روزنامہ جنگ لا ہور کی اشاعت ۱۶ اور ۱۷ مئی ۱۹۹۴ء میں میرے اس کالم پر ایک تنقیدی تحریر سید محمد یوسف عرفانی صاحب کے قلم سے شائع ہوئی ہے جو ۲۲اپریل کو ”قیام پاکستان : برطانوی سازش یا الٰہی تدبیر ؟ ” کے عنوان سے شائع ہو اتھا. میں شخصی اعتبار سے پروفیسر صاحب سے بالکل واقف نہیں ہوں . بنا بریں ان کے استفسار کے جواب میں اگر کوئی لفظ نا دانستہ طور پر مییرے قلم سے ایسا نکل جائے جس میں سِوء ادب کا احتمال ہو تو پیشگی معذرت خواہ ہوں . مجھے سخت حیرت اور تعجب ہے کہ دو اقساط پر پھیلی ہوئی اس تحریر میں میری گزارشات کے اس حصے کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے جو نہ صرف میرے اصل مدّ عا اور مقصود کی حیثٖیت رکھتا ہے بلکہ اس کا لم کے عنوان میں جلی طور پر شامل ہے یعنی ”الٰہی تدبیر ! ” مزید برآں پروفیسر صاحب نے جناب دانیال لطیفی صاحب کے پورے موقف کو میری جانب منسوب کر دیا یعنی یہ کہ تقسیم ہند اور قیام پاکستان اصلاً برطانوی سازش کا نتیجہ ہے . حالانکہ میں نے اس کے صرف ایک جز و کے مبنی بر صداقت ہونے کے احتمال کو تسلیم کر کے کلی اور مجموعی طور پر اس کی پر زور تردید اور نفی کی ہے اس تردید اور نفی کے ضمن میں بعینہٖ وہی دلیل دی ہے جو خود پرو فیسر صاحب نے اپنی تحریر کے آخر میں بیان 

فرمائی ہے . اس پر اگر چہ صحیح طرزِ عمل تویہ ہونا چاہئے کہ ؎ ناطقہ سر بگر بیان ہے اسے کیا کہئے اور خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھئے ! کہہ کر خاموشی اختیار کر لی جائے لیکن چونکہ ہوسکتا ہے کہ پروفیسر صاحب کی اس تحریر سے بہت سے قارئین کے ذہنوں میں شکوک و شہبات پیدا ہو گئے ہوں لہٰذامیں اپنا موقف دوبا رہ اختصار کے ساتھ لیکن ریاضی کے اندازمیں سلسلہ وار درج کر رہا ہوں : 

۱). میرے نزدیک پاکستان کا قیام کسی بر طانوی سازش کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ اللہ کی حکمت و مشیت کا مظہر اور احیاءِ اسلام اور غلبہ دینِ حق یا با الفاظ ِ دیگر نظام ِ خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے عالمی سطح پر قیام کے ضمن میں اللہ کے طویل المیعاد منصوبے کی اہم کڑی ہے .

۲). تقسیم ہند کے سلسلے میں”برطانوی سازش” کے عمل دخل کا احتمال جزوی اور بالواسطہ طور پر اس اعتبا ر سے تویقیناً ہے کہ عالم اسباب میں اس کا اصل سبب یہی بنا کہ مسلمانان ہند کو ہندوؤں کی جانب سے نا انصافی اور استیصال ہی نہیں اپنے جداگانہ ملی وقومی تشخیص کے بالکلیہ خاتمے کا شدید خوف لاحق ہو گیا تھا اور اس صورت حال کے پیدا ہونے میں جہاں بنیادی طور پر ہندوؤں ( بالخصوص برہمنوں اور بنیوں) کے عمومی مزاج اور مسلمانوں کی طویل غلامی سے پیداشدہ ردعمل کو بھی دخل حاصل تھا وہاں یقیناً انگریزوں کی ”لڑاؤ اورحکومت کرو!” کی حکمت عملی نے بھی اس جلتی آگ پر تیل کا کام کر کے اس کی شدت اور اشتعال کو بڑھانے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا . اوراگر تقسیم ہند اور قیامِ پاکستان کے بوقت برطانیہ میں کنز رویٹو پارٹی کی حکومت ہوتی جس کی پالیسی میں اس”لڑاؤ اور حکومت کرو! ” کی حکمتِ عملی کو اصول موضوعہ کی حیثیت حاصل تھی اور جس کے دستاویزی شواہد عبد الولی خان و قتاً فوقتاً پیش فرماتے رہے ہیں توشاید اس مفروضے کی تردید مشکل ہوجاتی کہ قیام پاکستان برطانوی سازش ہی کا نتیجہ ہے لیکن اللہ تعالٰی نے اپنی قدرت ِ کاملہ اور اختیار ِ مطلق سے اپنی تدبیر کے ضمن میں اس مغالطے کا کلی سدباب اس طور سے کر دیا کہ تقسیم ہند کا فیصلہ برطانیہ میں لیبر پارٹی کی حکومت کے ہاتھوں کروایا جس کے لیڈروں کی مسلمان ہند سے بلعموم اور مسلم لیگ اور اس کے قائد محمد علی جناح سے بالخصوص عدوات اور دشمنی اظہر من الشّمس تھی ! (چنانچہ یہی دلیل میں نے اپنے کالم میں بھی دی تھی اور اسی پر پروفیسر عرفانی صاحب کے استدلال کی تان بھی ٹوٹی ہے !)

اوپر احیا ءِ اسلام غلبہ دین حق اور عالمی نظام خلافت کے قیام کے جس طویل المیعاد خدائی منصوبے کا ذکر ہے راقم کے نزدیک اس کا آغاز الف ثانی یعنی اُ مت مسلمہ کی تاریخ کے دوسرے ہزار سال کے آغاز کے ساتھ ہی ہو گیا تھا .( اگر چہ یہ صرف اللہ ہی کو علم ہے کہ اس کی آخری اور حتمی تکمیل میں ابھی مزید کتنی مدت باقی ہے !) چنانچہ عالم ِ واقعہ میں اس منصوبے کی تعمیل کے ضمن میں جن اعاظم رجال کی محنتوں اور کاوشوں نے اہم ترین اور فیصلہ کن کردار ادا کیا ان میں سر فہرست تو گیارہویں صدی ہجری کے مجدد اعظم حضرت شیخ احمد سر ہندی المعروف بہ مجدد الف ثانی رحمہ اللہ تعالی ہیں جن کے بارے میں علامہ اقبال نے بجا طور پر فرمایا ہے کہ ؎

وہ ہند میں سرما یہ ملت کا نگہبان
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبر دار!

البتہ بعد کی دو صدیوں کے دوران اس خاکے میں ہمارے بہت سےبزرگوں نے اپنے خون پسینے سے رنگ بھرا اور اس منصوبے کو درجہ بدرجہ آگے بڑھانے میں اپناحصہ ادا کیا لیکن چودہویں صدی ہجری میں اس منصوبے کی اہم کڑی یعنی قیام پاکستان جن دو عظیم اشخاص کی مساعی کا مرہون ِ منت ہے وہ علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح . جن کے مابین مثالی اتحاد و اتفاق اور عمومی ہم آہنگی اور باہمی تعاون کے باوصف سوچ اور اپروچ کا لطیف فرق بھی موجود ہے. 

4) چنانچہ علامہ اقبال اصلاً ایک مفکر اور فلسفی اور اس سے بھی آگے بڑھ کر ایک وژنری تھے اور ان کی اصل دلچسپی فکر اسلامی کی تجدید اور اس کے نتیجے میں نظامِ اسلام اور ملتِ اسلامی کے احیا ء سے تھی .یہی وجہ ہے کہ 1930 ء کے خطبہ الٰہ آباد میں 
انہوں نے تقسیم ہند یا مسلمانوں کی علیحدہ مملکت کے قیام کی کوئی تجویز پیش نہیں تھی بلکہ صرف یہ پیشین گوئی فرمائی تھی کہ ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک آزاد مسلم ریاست کا قیام تقدیرِ مبرم ہے اور اپنی اس دلی آرزو کا اظہار کیا تھا کہ اگر ایسا ہو گیا تو ہمیں ایک موقع مل جائے گا کہ اسلام کی اصل تعلیمات پر جو بد نما پردے عرب ملوکیت ( ان کے اپنے الفاظ میں امپیر یلزم ) کے دور میں پڑگئے تھے انہیں ہٹا کر اسلام کا اصل رخِ روشن دنیا کے سامنے پیش کر سکیں یعنی اسلام کے اصل نظام ِ عدل اجتماعی یا با لفاظِ دیگر نظام خلافت علیٰ منہاج ا لنبوت کودوبارہ دنیا میں قائم کریں . جبکہ قائد اعظم کواصل فکر مسلمانانِ ہند کے قومی تشخص کے بقاء اور ان کے سیاسی اور معاشی حقوق کی حفاظت کی تھی جس کے لئے وہ کسی قابل ِ عمل منصوبے اور دستوری منصوبے و آئینی تجویز پر غور کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتے تھے . 

چنانچہ یہ نا قابل تردید حقیقت ہے کہ ان کےضمن میں وہ ہند و قوم کے عمومی مزاج اور انڈین نیشنل کانگریس کی قیادت کے طرزِ عمل سے رفتہ رفتہ تدریجاً ہی مایوس ہوئے . چنانچہ 1946 ء میں کیبنٹ مشن پلان کو جو اصلاً مولانا ابوالکلام آزاد کے ذہن کی پیدوار تھا قائد اعظم نے قبول کیا تو جہاں یہ اس اعتبار سے ان کے فہم و تد بر کا شکار تھا کہ انہوں نے بھانپ لیا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد کی تبدیل شدہ عالمی حالات کے پیش نظر برطانوی حکومت ہندوستان سے رخصت ہونے کا فیصلہ کر چکی ہے اور اس موقع پر ہم نے نامناسب ضد یاہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا تو عین ممکن ہے کہ انگریز ہندوستان کی حکومت یک طرفہ طور پر کانگریس کے حوالے کر کے چلتے بنیں اور پھر یہ عقدہ لا ینحل بن جائے( اس پر مفصل بحث میں نے اپنی تا لیف استحکام پاکستان میں کی ہے !) وہاں اس احتمال کی بھی کلی نفی نہیں کی جاسکتی کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک تقسیم ِ ہند ہی ہندو مسلم مسئلے کا واحد ممکن حل نہیں تھا بلکہ وہ ایسی کسی بھی تجویز پر غور کرنے کے لئے دل اور ذہن کے ساتھ تیار تھے جس کے ذریعے مسلمانانِ ہند کے قومی تشخیص کے بقاء اور ان کے سیاسی اور معاشی حقوق کی ضمانت حاصل ہو سکے ! چنانچہ اس اعتبا ر سے جناب دانیال لطیفی کا خیال اور پرفیسر اقبال احمد کی بتائی ہوئی بات قابلِ غور تو ہے ہی جزوی طور پر درست بھی ہو سکتی ہے . واللہ اعلم ! بہر حال میری جانب سے ان کاحوالہ صرف اس قدر اس حد تک تھا . جناب دانیال لطیفی کے تمام خیالات کو میرے سر مڑھ دینا بڑی زیادتی ہی نہیں علمی خیانت ہے! 

تا ہم میرے نزدیک اب ہمارے لئے اصل قابل غور چیز یہ تاریخی مباحث نہیں بلکہ یہ نہایت تلخ حقیقت ِ واقعی ہے قیام پاکستان کی صورت میں علامہ اقبال کی پیشین گوئی کے پورے ہو جانے پر لگ بھگ پونے سینتالیس سال (اور قمری حساب سے سوا اڑتالیس سال) گزر جانے کے بعد بھی اپنی کوتاہیوں اور بے عملی ہی نہیں بد عملی کے باعث ہم نہ ان کی اس آرزو کی طرف کوئی پیش قدمی کر سکے ہیں کہ پاکستان میں اسلام کے عادلانہ نظام ِ عدل اجتماعی کو بالفعل قائم کر کے ( اور قائد اعظم کے الفاظ میں : اسلام کے اصول حریت و اخوت و مساوات کاایک عملی نمونہ پیش کر کے ) نوع انسانی پر اللہ کے دینِ حق اور مصطفیٰ  کی عالمی نبوت و رسالت کی جانب سے اتمام حجت کر سکیں اور نہ ہی قائد اعظم کے اس خواب کی تعبیر دنیا کے سامنے لانے میں کامیاب ہو سکے ہیں کہ تقسیم ِ ہند کی صورت میں پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات اسی نوعیت کے ہو نگے جیسے ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا کے مابین ہیں بلکہ اس کے برعکس ہم نے اپنے طرزِ عمل سے تاحال تو یہی ثابت کیا ہے کہ تقسیم ہند کے ضمن میں جو اندیشے نیشنلسٹ مسلمانوں کو بالعموم اور مولانا ابو الکلام آزاد مرحوم کو بالخصوص لاحق تھے وہ درست ثابت ہوئے . اب اگر حکیم سعید صاحب 
(۱نے پاکستان کے موجودہ عمومی حالات کا آئینہ نہایت دلسوزی اور دردمندی کے ساتھ قوم کے سامنے رکھ دیا ہے تو اس پر آئینہ کو توڑ دینے اورآئینہ دکھانے والے پر ٹوٹ پڑنے کی بجائے بہتر روش یہ ہے کہ حالات کو سنوارنے اور اس ملک کے قیام سے جو اصل مقاصد اس کے مصور و مفکر و مجوز (علامہ اقبال) اور بانی و معمار و مؤسس (قائد اعظم) کے پیش نظر حکیم سعید مرحوم و مغفور بانئ ہمدرد دواخانہ پاکستان تھے ان کے حصول کی جانب پیش قدمی کی جائے !

اسی طرح اگر حکیم صاحب موصوف کی تحریر کو جو اولاًنظریہ پا کستان کے سب سے بڑے دعوے دار روزنامے میں شائع ہوئی تھی میں نے بھی تحریک ِ خلافت پاکستان کے نقیب جریدے ندائے خلافت میں اس لئے شا ئع کر دیا کہ چونکہ حکیم صاحب ایک غیر سیاسی اور غیر متنازعہ شخصیت ہیں لہٰذا شاید ملک و قوم کے نا گفتہ بہ حالات پر ان کا درد مندانہ مرثیہ کچھ لوگوں کو اصلاح حالِ کےلئے کمر بستہ کر نے میں مؤثر ثابت ہو سکے تو اس کی بنا پر مجھے ابو الکلام آزادمرحوم یا مولانا مدنی رحمہ اللہ تعالی کا معتقد اور مرید بلکہ ایجنٹ قرار دے دینا بھی کسی طرح مبنی بر عدل و انصاف نہیں ہے ! جبکہ میں نے ہزار بار اعلان کیا ہے کہ مجھ۱۹۱۲ء سے ۱۹۲۰ء تک والے ابو الکلام آزاد سے بے حد دلچسپی ہے جس نے پہلےالہلال اور البلاغ ایسے جرائد اور پھر حزب اللہ کے قیام کے ذریعہ اسلامیان ہند کے اس ملی و دینی جذبے کو جو اصلاً علامہ اقبال کی ملی شاعری سے پیدا ہو اتھا ایک دعوت، تحریک اور تنظیم کی اوّ لین صورت عطا کی اور اس اعتبار سے میں انہیں بر ملا اپنا دادا پیر تسلیم کرتا ہوں لیکن ۱۹۲۰ء کے بعد والے نیشنلسٹ ابوالکلام سے مجھے کوئی دلچسپی تو کیا سرے سے بحث ہی نہیں ہے.

اس طرح مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ تعالی کے بارے میں بھی میں نے بار بار وضاحت کی ہے کہ میں اُ ن کے دینی علم و فضل اور تقویٰ و تدوین پر مستزاد انگریز کے خلاف ان کے سر فروشانہ جہاد ِ حریت کا تو یقیناً قا ئل بھی ہوں اور اس کی بناپر اس سے ایک گونہ محبت اور عقیدت بھی رکھتا ہوں لیکن ان کی سیاسی حکمت عملی سے نہ صرف یہ کہ شدید اختلاف رکھتا ہوں بلکہ اسے ان کے استاذ اور مربی اور میرے نزدیک چودہویں صد ی ہجری کے مجدد اعظم حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ تعالی کی مجتہدانہ بصیرت کے بھی خلاف سمجھتا ہوں جو اُن کے ۱۹۲۰ء کے بعض خطبات سے ظاہر ہوتی ہے ( اس موضوع پر مفصل بحث میری تالیف جماعت شیخ الہند اور تنظیم اسلامی میں موجود ہے) ...... تا ہم اس اختلاف کے با وجود ہر گز نہ انہیں ہندوؤں کا زر خرید سمجھتا ہوں نہ مولانا ابو الکلام آزاد کو بلکہ دونوں کو اپنی رائے اور موقف میں مخلص سمجھتا ہوں اور اس پر اگر کوئی مجھے گردن زدنی قرار دے تو مجھے ہر گز کوئی اعتراض نہیں ہے ! 

پروفیسر عرفانی صاحب نے سورۃ المائدہ کی آیت ۵۱اور سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۱۹کے حوالے سے جو باتیں تحریر فرمائی ہیں وہ تو گستاخی معاف ان کی سخن فہمی کے بارے میں کوئی اچھا تاثر پیدا نہیں کر تیں اس لئے کہ ان دونوں آیات میں صراحت کے ساتھ تذکرہ صرف یہود اور نصاری کا ہے گو یا ان کی آیات کا مدلول اور مدّعا یہودیوں اور عیسائیوں کے حق میں تو نصِ قطعی کی حیثیت رکھتا ہے جبکہ ہندوؤں اور دوسری غیر مسلم اقوام کے ضمن میں ان کا اطلاق فرمان ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ( الکفرُ مِلۃٌ واحد) سے استنباط کے ذریعے ثانوی درجہ میں ہو گا . لہٰذا ا ن آیات مبارکہ سے تو میرے موقف کی تائید ہو تی ہے کہ اب عالمی صہیونیت کے آلہ کا ر امریکہ اور اس کے خانہ ساز ادارے بلکہ خانہ زاد کنیزاقوام ِ متحدہ سے صرف نظر کر کے مشرقی ایشیا کے مسلم ممالک یعنی ایران افغانستان ترکستان اور ان کے علاوہ بھارت اور چین کے ساتھ مفاہمت اور مصالحت کی کوشش کرنی چاہئے . رہا ان کا یہ فرمانا کہ :”امریکہ پاکستان اور برصغیر سے کوسوں دور ہے لہٰذا وہ برصغیر پر مادی تسلط قائم نہیں کر سکتا! ” تو یہ ان کے موجو دہ عالمی مالیاتی نظام اور اس کے اثر و نفوذ سے نا واقفیت نہیں تو ان تلخ حقائق کی جانب سے صرف نظر کا ضرور مظہر ہے . اس لئے کہ آج دنیا میں اگر چہ فاصلے بھی بے معنی ہو گئے ہیں تا ہم کسی مادی تسلط یا عسکری قبضہ اور براہ راست حکومت کے کھکھیڑ مول لینے کی ضرورت ہی کیا رہ گئی ہے جبکہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف ایسے ادروں کے ذریعے پوری دنیا پر ریموٹ کنٹرول کی صورت میں بالواسطہ حکومت بھی کی جاسکتی ہے اور سودی معیشت اور قرضوں کے جال میں پھنسا کر دور بیٹھے اور عوامی غیظ و غظب سے کلی طور پر محفوظ رہتے ہوئے قوموں اور ملکوں کی خون پسینوں کی کمائی کی بالائی بھی بآ سانی حاصل کی جا سکتی ہے . 

’’ آخری لیکن کمترین نہیں” کی مصداق وضاحت یہ ہے کہ مجھ پر بہت بڑا 
بہتان ہے کہ میں پاکستان اور بھارت کے مابین سر حدوں کی دیوار کو گرانا چاہتا ہوں . میری تو پوری زندگی کی سعی و جہد کاحاصل یہ ہے کہ پاکستان میں اسلامی انقلاب برپا کر کے اوّلاً خود اسے مستحکم کیا جائے اور پھر اس انقلاب کی مشرق و مغرب میں توسیع کے ذریعے خدا کی مخلوق کو انسانی ذہن کے تراشیدہ ظالمانہ اور استحصالی نظاموں سے نجات دلا کر ربّ الناس اور ملک الناس کے عادلانہ اور منصفانہ نظامِ اجتماعی کی نعمت سے بہر ورکیا جائے . البتہ بھارت اور پاکستان کے مابین مخاصمت اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین منافرت میں کمی کی ہر کوشش میرے نزدیک نہ صرف اصولی اور اخلاقی اعتبار سے مستحسن ہے بلکہ مفکر و مصورِ پاکستان اور بانی و مؤسس پاکستان دونوں کے نظریات کے بھی عین مطابق ہے!