انگریز وں نے بر عظیم پاک ہند کے بعض حصوں پر ایک سو برس سے کچھ زائد اور بعض پر لگ بھگ دو سوبرس تک حکومت کی اور عجیب اتفاق ہے کہ مقدم الذکر علاقہ کا جز و اعظم موجودہ پاکستان ہے اور مؤخر الذکر کاا ہم ترین حصہ مشرقی پاکستان تھا جواَب بنگلہ دیش کی صورت میں موجود ہے. بہر حال اس عرصے کے دوران ہندوستان میں بسنے والوں کی چار پانچ سے لے کر آٹھ دس نسلوں تک انگریز وں کی غلامی میں گزریں . اب عمرانیات اور اجتماعی نفسیات کا عام قاعدہ تو یہ ہے کہ اگر کسی ملک پر کوئی بیرونی قوم اس طرح اور اتنے عرصے تک قابض و حاکم رہے تو طبعی طور پر محکوم قوم میں اس کے خلاف نفرت اور انتقام کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے جو حصول آزادی اور تقسیم ہند کے وقت تو لازمی طور پر شدید ترین ہوتا خواہ بعد میں امتدا د ِ زمانہ کے ساتھ اس میں کمی واقع ہو جائے . لیکن یہ ایک عجیب اشتنائی معاملہ ہے ،کہ عین حصول آزادی اور تقسیم ِ ہند کے وقت بھی انگریزوں کے خلاف نفرت نہ ہندوستان میں تھی نہ ہندوؤں نہ مسلمانوں میں . بلکہ بڑے ملک یعنی بھارت نے تو انگریزی وائسرائے لاؤڈ بیٹن ہی کو اپنا پہلا گورنر جنرل بھی بنا لیا تھا اور یہی معاملہ پاکستان کا بھی ہو جاتا اگر قائد اعظم ماؤنٹ بیٹن کی اس خوہش کو بلا جھجک رد نہ کر دیتے اور یہ بھی میرے نزدیک یقیناً اس خدائے بزرگ و بر تر کی خصوصی مشیت ہی کے تحت ہوا جس کی شان یہ ہے کہ : (وَ اللّٰہُ لَا یَسۡتَحۡیٖ مِنَ الۡحَقِّ ؕ ) ( الاحزاب : 53 ) یعنی اللہ کو حق بات کے کہنے میں کوئی جھجک 

نہیں ہوتی ! ورنہ کون نہیں جانتا کہ اس میں صورت میں پاکستان کا بستر" ؏ ”اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتا ر ہم ہوئے ” کہ مصداق دراز ہوتے ہی تہہ ہو جاتا . مزید بر آں یہ واقعہ بھی اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ بعد میں بھی دونوں ملک طویل عرصے تک برطانیہ عظمیٰ کے زیر سر پرستی دولت مشترکہ میں شامل رہے اور کافی عرصہ کے بعد ایک جذباتی مرحلے پر پاکستان نے اسے خیر باد کہا بھی تو بہت جلد اس کی جانب سے پچھتاوے کا اظہار ہوا. 

لہٰذا غور کرنا چاہئے کہ ؏ " ہوئی تاخیر تو باعثِ تاخیر بھی تھا !" کے مصداق اس کا سبب کیا ہے ؟
اس ضمن میں جہاں تک عین آزادئ ہند اور تقسیم ِ ملک کے وقت تعلق ہے اس میں تو ہر گز کسی شک اور شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ اس کا اہم ترین سبب یہ تھا کہ؏ ”یاد تھی جتنی دعائیں صرفِ درباں ہو گئیں ! ” کے مصداق دونوں قوموں میں نفرت و انتقام کے جملہ جذبات ہندوؤں اور مسلمانوں کے باہمی کشت وخون کی صورت میں ڈھل کر تحلیل ہو گئے اور سابق حاکم یعنی انگریز محکوم ہندوستانیوں کے اس طبعی ردّ عمل سے صاف سے بچ کر نکل گئے . البتہ اس ہندو مسلم منافرت اور بد اعتمادی کے آغاز اور ارتقاء کے مختلف اسباب وعوامل اوران کے مابین باہمی نسبت وتناسب کے بارے میں آراء مختلف ہو سکتی ہیں . اس سلسلے میں مجموعی اعتبار سے تو جملہ اسباب و عوامل غالباً متفق علیہ ہی ہو ں گے تاہم ان کے تجزئیے کے ذریعے یہ تعین کرنا کہ ان میں سے کون سا عامل سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہو ا بہت گہری تحقیق و تفتیش کا محتاج ہے. ہندو مسلم منافرت کے وہ ممکنہ متفق علیہ عوامل حسب ذیل ہیں:

۱). ہندوؤں کی عمومی تنگ نظری اور الگ تھلگ رہنے کا انداز خصوصاً ان کا چھوت چھات کا نظام . 
۲). بر ہمن کا سامراجی مزاج اور ویش اور کھتریوں کی چاپلوسانہ عیاری اور سود خوری کی وہ عادت جس کی بناء پر بنجمن فرینکلین نے یہودیوں کو خون چوسنے والی چمگادڑوں 
(vampires) سےتعبیر کیا تھا
۳). مسلمانوں کی ہزار سالہ غلامی کا طبعی ردِ عمل . اور ”آخری لیکن کم ترین نہیں ”کے مصداق 
۴). انگریزوںکی لڑاؤ حکومت کرو کی حکمت عملی جو کنزرو یٹو پارٹی کی تو یقیناً عادت ثانیہ تھی البتہ لیبر پارٹی میں اتنی راسخ نہ تھی !...

بہر حال ان میں سے کون سا عامل اہم ترین اور مؤثر ترین تھا اور ان میں سے ہر ایک کا جدا جدا حصہ کتنا تھا اگر چہ اس سوال کے واضح اور حتمی جواب کو فی الحال مستقبل کے محققین اور مؤرخین کے حوالے کیا جاسکتا ہے تاہم اس میں ہر گز کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ کم از کم برٹش راج کے آخری دور میں تویقیناً آخری عامل ہی سب سے زیادہ مؤثر اور فیصلہ کن تھا.

البتہ جہاں تک اس امر کاتعلق ہے آزادی کے بعد بھی پاکستان اور بھارت کے مابین مسلسل دشمنی کی فضا اور ایک ایسی سرد جنگ کی کیفیت کیوں جاری رہی جس نے متعدد بار تو بالفعل آگ اور خون کی گرم بازاری کی صورت اختیار کی اور ان کے علاوہ بہت سے مواقع ایسے بھی آئے کہ دونوں ملک سورہ آل عمران کی آیت ۱۰۳کے ان الفاظ کے مطابق 
( اِخۡوَانًا ۚ وَ کُنۡتُمۡ عَلٰی شَفَا حُفۡرَۃٍ مِّنَ النَّارِ ) یعنی تم تو آگ کے گڑھے کے بالکل کنارے پر پہنچ گئے تھے ! ”با ضابطہ جنگ کے بالکل قریب پہنچ گئے تھے ! ” یہ دوسری بات ہے کہ رحمت خدا وندی نے اسی آیت کے اگلے الفاط کہ : (فَاَنۡقَذَکُمۡ مِّنۡہَا ؕ ) یعنیْ تو اللہ نے تمہیں اس سے نجات دی ! کی سی شان کے ساتھ بچا لیا چنانچہ آج کل پھر اس سرد جنگ کے گرم بھٹی کی صورت اختیار کر نے کا امکان بہت قریب آگیا ہے اور بھارتی مقبوضہ کشمیر کے حالات کے پیش نظرپاکستان کے بعض نیم مذہبی اور نیم سیاسی رہنماؤں سمیت بعض صحافی اور دانشور بھی باربار افواجِ پاکستان کو للکار رہے ہیں کہ”وہ اپنا فرض ادا کریں !” تو اس سوال کا جواب اگر چہ بالکل نوشتہ دیوار کے مانند واضح ہے تاہم سر حد کے دونوں جانب طالع آزما سیاست دانوں نے عوام کی جس نفسیاتی کیفیت کو پختہ کر دیا ہے اس کے باعث سب نے اس کی جانب سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں.

ضرورت اس امر کی ہے کہ جبکہ دونوں قدموں کی وہ نسل جو حصول ِ آزادی کے بعد پیدا ہوئی انسان کے ذہنی و نفسیاتی بلوغ کے سخت ترین قرآنی معیار یعنی چالیس سال کی عمر سے بھی آگے نکل چکی ہے ( سورۃ الاحقاف : آیت ۱۵) دونوں جانب کے اصحابِ علم و فہم اور اربابِ دانش و بینش اس امر پر سنجیدگی سے غور کریں کہ پاک بھارت تعلقات کے بہتے دریا میں دونوں ملکوں کے عوام کے نصیب کی سیاہی ہی نہیں ان کے خون کی سر خی بھی کون گھول رہا ہے ؟ اور آیا اس کے ازالے کی کوئی صورت ممکن ہے یا نہیں ؟ .بھارت کے عوام اور ہمارے مابین تو یقیناً گونا گوں نوعیت کے نفسیاتی حجابات پر مستزاد بہت سی مادی فصلیں بھی حائل ہیں جن کی بناپر ہماری بات کا ان تک پہنچنا بہت مشکل ہے لہٰذا کیوں نہ اس سنجیدہ سوچ بچار کااغاز ہم پاکستانی مسلمان کریں ؟ اس لئے کہ ہمارے لئے تو یہ مسئلہ اس اعتبار سے بھی بہت اہم ہے کہ تقسیمِ ہند اور قیام ِ پاکستان کے دونوں سب سے بڑے علمبردار وں یعنی مصور ومفکرِ پاکستان علامہ اقبال اور معمارو مؤسس پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے تقسیم کے بعد کے حالات کےضمن میں قائد اعظم نے تو صرف یہ کہنے پر اکتفا کی تھی کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات ایسے ہی ہوں گے جیسے ریا ست ہائے متحدہ امریکہ اور کیینڈا کے مابین ہیں . لیکن علامہ اقبال نے تو اس سے بھی آگے بڑھ کر اپنے خطبہ آلٰہ اباد ( دسمبر 1930ء میں یہاں تک فرمادیا تھا کہ ہندوستان کے شمال مغرب میں واقع مسلم ریاست ہر نوع کی جارحیت کے مقابلے میں ہندوستان کے دفاع کا فریضہ بہترین طور پر سر انجام دے گی خواہ وہ جارحیت نظریات کی ہو خواہ ہتھیاروں کی ! چنانچہ غور طلب بات ہے کہ کیا ہمارے یہ دونوں مسلّمہ قائد خاکم بد ہن بالکل بے بصیرت اور کو دن تھے ؟ کہ انہوں نے ہندوستان مسلم مفاہمت اور پاک بھارت تعاون کی جس سحر کی نوید سنائی تھی وہ نہ صرف یہ کہ فیض کے ان اشعار کے مصداق ابھی تک طلوع نہیں ہوئی بلکہ مستقبل میں بھی دور دور تک اس کے کوئی آثارنظر نہیں آرہے ؎

یہ دا غ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
کہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے دوست کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں!

اس گھمبیر سوال کا صاف و صریح اورر حتمی و قطعی جواب صرف یہ ہے کہ نہ ہمارے قائد بے بصیرت تھے نہ موجودہ صورت ِ حال تقسیم کے فارمولے کامنطقی نتیجہ ہے بلکہ اس پوری صورت حال کا واحد سبب مسئلہ کشمیر ہے جو انگریزوں کی عیاری بد نیتی خیانت اور بے ایمانی کا عظیم ترین شاہکار ہے . یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ انگریز وں کو مسلمانانِ کشمیر کی قومِ نجیب و چرب دست وتر دماغ کے ساتھ کیا ازلی بغض اور خدائی بیر تھا کہ لگ بھگ سو سال پہلے تو انہوں نے اس پوری قوم کوع ”قومے فر وختندو چہ ارزان فروختند ”کے مطابق چند لاکھ ٹکوں کے عوض ہند و ڈوگروں کے ہاتھ بیچ دیا . اور پھر عین تقسیم کے وقت او لاً ایک انگریز یعنی ریڈ کلف نے اپنے بدنام زمانہ ایوارڈ کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ الحاق کی راہ ہموار کر دی جو نہ صرف یہ کہ تاریخی و جغرافیائی اور مذہبی اور ثقافتتی جملہ اعتبارات سے پاکستان کا جز وِ لا ینفک اور خاص طورپر آبی و سائل کے نقطہ نظر سے پاکستان کی شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے اور جو اس بنیادی اصول کے مطابق جو تقسیم ہند کے لئے طے ہوا تھا یعنی یہ کہ مسلم اکثریت والے تمام ملحق علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے قطعی طور پر پاکستان کاحصہ بنتی تھی اور بعد میں جب ریا ست کے مسلمانوں نے بغاوت کی اور ا س صریح بے انصافی اور بد دیانتی کے خلاف علم ِ جہاد بلند کیا اور پاکستان کے عوام اور بالخصوص قبائلی پٹھانوں نے مدد کی اور مسئلے کے آخری حل کے لئے پاکستانی فوج کی بس ذرا سی امداد کی کسر رہ گئی تھی تو ایک دوسرے انگریز یعنی افواجِ پاکستان کے کمانڈر 
انچیف جنرل گریسی نے قائد اعظم کی خواہش بلکہ حکم کےعلی الر غم آڑے آکر اس حق تلفی کے فوری ازالے کا راستہ مسدود کر دیا . چنانچہ معاملہ یو این اوکے سپرد ہوا اور پینتالیس برس سے اس کی فائلوں میں دفن پڑا ہے . 

وہ دن اور آج کا دن بھارت اور پاکستان کی حکومتیں اور عوام اپنے سابقہ غیر ملکی حکمرانوں کے اس کردار کا مزہ چکھ رہے ہیں جو سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۰۴اور ۲۰۵کے ان الفاظ میں بیان ہوا ہے کہ

( وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یُّعۡجِبُکَ قَوۡلُہٗ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ یُشۡہِدُ اللّٰہَ عَلٰی مَا فِیۡ قَلۡبِہٖ ۙ وَ ہُوَ اَلَدُّ الۡخِصَامِ ﴿۲۰۴﴾وَ اِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الۡاَرۡضِ لِیُفۡسِدَ فِیۡہَا وَ یُہۡلِکَ الۡحَرۡثَ وَ النَّسۡلَ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الۡفَسَادَ ﴿۲۰۵﴾) 

” بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ حیات ومعاملات دنیوی میں ان کی (چکنی چپڑی ) باتیں تمہیں بہت اچھی لگتی ہیں اور وہ اپنی نیتوں پر خدا کو گواہ بھی بناتے رہتے ہیں حالانکہ وہ بد ترین دشمن ہوتے ہیں . چنانچہ جب وہ پیٹھ پھیرتے ہیں ( ذرا نوٹ فرمائیں یہ الفاظ ِ مبارکہ انگریزوں کی ہندوستان سے واپسی پر کس قدر عمدگی کے ساتھ چسیاں ہو رہے ہیں ) تو زمیں میں فساد برپا کرنے کی سعی کرتے ہیں تاکہ (اس کےذریعے ) زمین کھیتی اور انسانوں کی نسل کو ہلاک کر دیں !

چنانچہ اس عرصے کے دوران بھارت اور پاکستان کے مابین کئی خونریزجنگیں بھی ہو چکی ہیں جن میں ہزاروں انسان ہلاک اور معذور ہوئے لا تعداد عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہوئے اور ارب ہا ارب روپے کے مالی نقصان دونوں ملکوں کو ہوئے . مزید برآں عوام کے خون پسینے کی کمائی کا بڑا حصہ بجائے عوامی بہبود اور تعلیم و ترقی کے مسلسل بڑی بڑی فوجوں کو ”کھڑی ”رکھنے اور مہلک اسلحہ کی خرید میں صرف ہوتا رہا . پھر ان کی باہمی چپقلش سے وقت کی دونوں سپر پاور ز نے بھر پور فائدہ اٹھایا . چنانچہ اگر پاکستان نے اپنے بچاؤ کے لئے امریکہ کی پناہ حاصل کی تو بھارت نے روس کا دامن تھاما اور اس طرح دونوں ملک ان کی سرد جنگ میں ملوث ہو گئے اور طرفہ تماشایہ ہے کہ سرد 
جنگ کے اصل فریقوں یعنی روس امریکہ کے مابین تو یہ جنگ ہمیشہ سرد ہی رہی جبکہ بھارت اور پاکستان کے مابین اس کی بھٹی باربار دہکتی رہی . اور اس سے بڑھ کر جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے کامظہر ِ اتم یہ ہے کہ اس پورے عرصے کے دوران بھی انگریز دونوں ملکوں کے نہ صرف مشترکہ دوست بلکہ مربی و سر پرست اور نا صح و ثالث بالخیر رہے اور آج بھی میر تقی میر کے اس بدنام زمانہ شعر کے مصداق کہ ؎

میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطّار کے”لڑکے”سے دوا لیتے ہیں !

کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے ہمارے یہاں اکثر و بیشتر دہائی دی جاتی ہے انگریز کے سر پرست امریکہ کی اور حوالہ دیا جاتا ہے اس کے خانہ ساز ادارے یو این او کی قرار داوں کا. 

بہر حال اس ذہنیت اور طرزِ فکرِ پر تو ”بایں عقل و دانش بباید گریست !” کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے لیکن اصل ضرورت اس کی ہے کہ ہم سنجید گی کے ساتھ فیصلہ کریں کہ آیا ہمیں واقعات و حوادث کے اس دریا میں جس کا رخ ہماری سادہ لوح مبنی خوش اعتقادی اور حسن ظن اوراغیار کی دشمنی اور اعیاری کے باعث ایک خاص سمت میں موڑ دیا گیا تھا چار رونا چار بہتے ہی چلے جانا ہے خواہ اس کے نتائج کتنے ہی مضر اور ہولناک ہوں یا ہمت سے کام لے کر اس کے رخ کے بدلنے کی کوشش کرنی ہے !