پاک بھارت مفاہمت اور مسئلہ کشمیر کا حل

ہندو مسلم منافرت پاک بھارت مخاصمت کے قدیم اور تاریخی اسباب کو بالکل ختم کر دینا تو ظاہر ہے کہ اب ممکن نہیں . اس لئے کہ گیا وقت تو منفی اور مثبت دونوں کہاوتوں کے اعتبار سے ہماری دسترس سے باہر ہے یعنی گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں !"اور میں گیاوقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں!" لہٰذا پاک بھارت مفاہمت کی کسی بھی کوشش میں ہراعتبار سے اوّلیت اور اہمیت موجود ہ مسائل ہی کو دینی ہو گی جن میں سر فہرست مسئلہ کشمیر ہے . 

تاہم اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ماضی سے متعلق بعض مز عومہ مسلمات پر بھی کسی قدر تنقیدی نگاہ ڈال لی جائے کہ ان میں حقیقت کتنی ہے اور افسانہ آمیز ی کتنی . اس لئے کہ اس سے مفاہمت کے لئے ذہنی تیاری میں مدد مل سکتی ہے .

بر ہمن اور بنئے کے بارے میں ہمارے یہاں جوتصورات پتھر کی لکیر کی مانند پختہ ہو گئے ہیں انہیں ”زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھو” کے مصداق اگر کسی درجہ میں تسلیم کر بھی لیا جائے یعنی یہ کہ برہمن کا عمومی مزاج سامراجی ہے اور وہ یہودیوں کی مانند اپنے آپ کو ایک بالا تر اور بر تر مخلوق گر دانتا ہے اور بنئے کی ذہنیت بھی بالمعموم یہودیوں ہی کی ایک دوسری صفت یعنی سود خوری اور اس سے پیدا شدہ چاپلوسانہ عیاری کے کردار کا 
عکس ہے جس کی بہترین تعبیر ”منہ میں رام رام بغل میں چھری ”کے الفاظ سے ہوتی ہے تب بھی ایک جانب تو یہ اٹل اصول نا قابل تردید ہے کہ ؎

نہ ہر زن زن است و نہ ہر مرد مرد
خدا پنج انگشت یکساں نہ کرد

گویا نہ سب بر ہمن ایک مزاج کے حامل ہیں نہ تمام بنئے ایک ہی سی سر شت رکھتے ہیں . (خاص طور پر ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے علامہ اقبال کی صورت میں جو ”بر ہمن زادۂ رمز آشنائے روم و تبریز” عطافرمایا اس کی مثال بہت ہی نمایاں ہے !) اور دوسری جانب ہندو معاشرے میں کھشتری اور راجپوت بھی تو ہیں جن کی غیرت و حمیت شرافت و مروت اور وسیع القلبی اور فراخ حوصلگی ضرب المثل ہے اور پھر سب سے بڑھ کر وہ پسماندہ قومیں بھی تو ہیں جو خود اعلیٰ ذات کے ہندؤں کی ستم رسیدہ ہیں اور اگر چہ ماضی میں تو وہ” با بند گی خو گرفتہ ” اور ع”ہم بھی تسلیم کی خود ڈالیں گے !”کی مصداق کا مل بنی ہوئی تھیں لیکن اب ہندستانی معاشرے میں پوری قوت کے ساتھ ابھر رہی ہیں .یہاں تک کہ شمالی ہند کی یوپی اور بہار جیسی کٹر ہندو ریاستوں میں ان ہی میں سے بعض یعنی ”یادیو” وزارتِ علیا پر بھی فائز ہو گئے .پھر تعداد میں بھی وہ بقیہ تینوں طبقات سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ! 

اس ضمن میں لکھنؤ ( یوپی بھارت ) سے شائع ہو نے والے قدیم اور مؤ قر دینی و علمی ماہنامے”الفرقان”کی ایک حالیہ اشاعت کے ادار یہ کے حسب ذیل اقتباسات اہم ہیں: 

ایک غلطی بہت مدت سے ہم ہندوستانی مسلمانوں سے ہو رہی ہے اور اس کے بہت سخت نقصانات ہم اٹھاتے چلے آرہے ہیں ..... وہ غلطی یہ ہے کہ ہم ہندوستان میں بسنے والے اکثریتی فرقہ کو ایک قوم سمجھتے ہیں حالانکہ فی الواقع ایسا نہیں ہے .....اس غلطی کاسب سےبڑا نقصان یہ رہا کہ اسی کی وجہ سے ہم اس مر عوبیت اور احساسِ کمتری سے نکل نہیں پا رہے ہیں جو ایمانی کمزوری کے علاوہ اپنی اور اس قوم کی تعداد اور سیاسی اور معاشی پوزیشن 
کے مابین زبر دست فرق کو دیکھ کرہمارے اوپر چھایا ہوا ہے .....واقعہ یہ ہے کہ ہندوستانی سماج و حدت کی کوئی بنیاد نہیں رکھتا...... اس کو متحدہ مذہبی تشخیص عطا کرنے اور ان سب کو ایک گروہ بنا دینے اور اسے اکثریت کی خلعت فاخرہ پہنا دینے کی سازش اصل میں انگریزوں اور برہمنوں کے اشتراک عمل کے نتیجے میں اور ہماری سادہ لوحی اور یہاں کے سماجی و مذہبی نظام سے براہِ راست نا واقفیت کی وجہ سے کامیاب ہوئی ہے.

لیکن اب صاف طور پر نظر آرہا ہے کہ اس ملک کے مظلوم طبقات ذِ لت و غلامی کے طوق سے اپنی گردن آزاد کرانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں . ایسا نہیں ہے کہ ہندوستان کے سماجی ڈھانچے کو بدلنے اور برہمنی جبرو استبداد سے نکلنے کی آواز پہلی بار لگی ہے پہلے بھی یہ کوشش ہوتی رہی ہے . لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ معاملہ اب جہاں تک پہنچ گیاہے وہاں تک کبھی نہیں پہنچاتھا اور شاید اب یہ بات آگے بڑھتی جائے گی . پھر ہمارے لئے سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ بھارت میں صرف ہندو ہی آباد نہیں مسلمان بھی ہیں اور اگر بھارتی مسلمانوں کی عام رائے کو تسلیم کر لیا جائے تو وہ اتنی بڑی تعداد میں ہیں کہ بھارت کو دنیا میں سب سے زیادہ آبادی والا مسلمان ملک قرار دیا جاسکتا ہے . ( عام سرکاری اعداد و شمار کی رو سے بھی دنیا بھر میں صرف ایک انڈو نیشیا ایسا ملک ہے جو بھارت سے زیادہ تعداد مسلمان آبادی کا دعویٰ کر سکتا ہے ) اور انگریزوں کی آمد سے قبل مسلم انڈیا کی پوری تاریخ کے دوران بعض حکمرانوں اور مقتدر اشخاص کی ذاتی حرص و آزیا ابوالہوسی کی بنا پر ہونے والی زیادتیوں اور مظالم کے انفرادی واقعات اور ان کے ضمن میں بھی حقیقت اور افسانہ کے تناسب کی تحقیق سے قطع نظر واقعہ یہ ہے کہ کبھی کسی بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فساد یا تصادم کی تاریخ موجود نہیں ہے بلکہ صورت حال وہ رہی ہے جس کانقشہ اسی برہمن زادہ نے ان الفاظ میں کھینچا تھا جس کاذکر اوپر آچکاہے کہ ؎

اے شیخ و برہمن سنتے ہو کیا ابل ِ بصیرت کہتے ہیں
گردوں ِ نے کتنی بلندی سے ان قوموں کو دے پٹکا ہے

یا باہم پیار کے جلسے تھے دستور محبت قائم تھا
یا بحث میں اردو ہندی ہے یا قربانی یا جھٹکا ہے

تو کیا یہ مسئلہ واقعتاً غور طلب نہیں ہے کہ . کون معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں؟ اس مقام پر اس بات کاحوالہ بھی یقیناً دلچسپی کاموجب ہو گا کہ بھارت کے ایک ہریجن لیڈر پالانی بابا نے اپنے ایک کتابچے میں جو۱۴. عزیز ملک اسٹریٹ نمبر ۵ مدراس تامل ناڈو سے شائع ہوا ہے ہندوؤں کے سر کردہ رہنما پوری شنکر آچاریہ کے اس قول کے حوالے سے کہ ”اچھوت ہندو نہیں ہیں!” یہ دعویٰ کیا ہے کہ بھارت میں ”ہندو” اکثریت میں نہیں بلکہ اقلیت میں ہیں، اس لیے کہ بقول ان کے ”بھارت کی کل آبادی کے ۲۵ فیصد اچھوت ہیں ۲۰فیصد مسلمان ہیں ۳فیصد عیسائی ہیں ۲ فیصد سکھ ہیں اعشاریہ سات فیصد بدھ مت کے پیرو کار ہیں اور اس طرح بھارت کی غیر ہندوآبادی کل آبادی کا لگ بھگ ۵۱فیصد بن جاتی ہے . مزید برآں اس ضمن میں بھی بعض حقائق ایسے بھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ماضی کی تاریخ کے حوالے سے ان دونوں قوم کے مابین تلخی کازہر گھولنے کا سب سے مؤثر کام بھی بعض انگریز محققین اور مؤر خین ہی نے سر انجام دیا . جس کی سب سے نمایا ں مثال ایودھیا کی بابری مسجد کامعاملہ ہے اس لئے کہ اس کے بارے میں یہ تحقیق کہ یہ مسجد رام جنم استھان پر بنی ہوئی ہے ایک انگریز ہی کی جانب منسوب ہے. اور پھر ایک دوسرے انگریز یعنی سول جج نے بجائے مسئلے کو حل کرنے کے مسجد پر تالا ڈال کر اور مقدمے کو طول دے کر پورے معاملے کو ایک ٹائم بم بنا کر رکھ دیا جو لگ بھگ سو برس بعد شدید ترین دھماکے کے ساتھ پھٹ گیا .اور ہندو مسلم کشیدگی میں ایک نئے باب کے اضافے کا ذریعہ بن گیا . 
فاعتبروایااولی الابصار. 

بہر حال ان جملہ حقائق کے علی الر غم یہ بات اپنی جگہ بالکل کوہِ ہمالیہ کے مانند اٹل ہے کہ مسئلہ کشیر کے منصفانہ حل کے بغیر پاک بھارت تعلقات میں مستقل اور پائیدار بہتری کی کوئی صورت پیدانہیں ہو سکتی . لیکن اصل گو طلب بات یہ ہے کہ خود مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ہمارے پاس کون کون سے آپشن مو جود ہیں اور وہ کس کس حد تک قابلِ عمل بھی ہیں اور متوقع طور پر نتیجہ خیزبھی ؟ سب سے پہلے جنگ کو لیجئے جس کی آج کل بار بار دہائی دی جا رہی ہے . سوال یہ ہے کہ کیا یہ فی الواقع اور خصوصاً بحالاتِ موجودہ کوئی قابلَ عمل حل ہے ؟ کیا ہم جنگی صلاحیت کے اعتبار سے بھارت کے مقابلے میں آج کی نسبت ۱۹۶۵ء میں کہیں زیادہ بہتر حالت میں نہیں تھے ؟ پھر اگر اس وقت کامیابی حاصل نہیں ہو سکی تھی تو آج اس کی کتنی امید کی جاسکتی ہے؟ 

مسلمانانِ کشمیر پر بھارت کی ننگی جارحیت اور بے پناہ ظلم و بربریت کے خلاف پاکستان کی جانب کھلم کھلا اعلان ِ جنگ صرف اس صورت میں ہوسکتا تھا کہ ہمیں اپنے موقف کےمبنی برحق و انصاف ہونے کے ساتھ ساتھ سورۂ آل عمران کی آیت ۱۶۰کے ان الفاظِ مبارکہ کے مطابق کہ: 
( اِنۡ یَّنۡصُرۡکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمۡ ۚ) یعنی اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا ! اللہ تعالیٰ کی نصرت و تائید کایقین بھی حاصل ہوتا . جبکہ ہمارا حل یہ کہ ہم سودی معشیت کے نطام کو جاری رکھنے کے باعث خود ہی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بر سرِ جنگ ہیں لہٰذا فرمان ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : ( ( فانّیٰ یستجاب لذالک؟ یعنی ایسے شخص کی دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے ؟ کےمطابق ہمیں اللہ کی نصرت و تائید کی امید کیسے ہو سکتی ہے ! بنا بریں لےدے کر سارا معاملہ صرف مادی اسباب ووسائل کی کمیت اور کیفیت کا رہ جاتا ہے جس کا تقابلی جائزہ اور موازنہ آئے دن اخبارات کی زینت بنتا رہتا ہے . واقعہ یہ ہے کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی اس مستقل سنت کامظہر ہے کہ : (کُلًّا نُّمِدُّ ہٰۤؤُلَآءِ وَ ہٰۤؤُلَآءِ مِنۡ عَطَآءِ رَبِّکَ ؕ ) ( بنی اسرائیل : ۲۰ ) یعنی ہم یہ اور وہ ( یعنی طالبان ِ دنیا اور طالبانِ آخرت ) سب کی آپ کے رب کے فضل و عطا سے مدد کرتے رہتے ہیں ! کہ اس نے ہمیں اوّلاً ۱۹۷۱ء میں سابق صدر امریکہ آنجہانی رچرڈ نکسن کے دل میں وہ بات ڈال کر جسے اس وقت اندرا گاندھی نے ’’پرو پاکستان ٹلٹ‘‘ سے تعبیر کیا تھا اس سے روسی وزیر اعظم کو سی جن کو ہاٹ لائن پر الٹی میٹم دلوایا جس کے حکم کے تحت اندرا گاندھی نے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا جس کے نتیجے میں ہمیں بارگاہِ خداوندی سے ( مَتَاعٌ اِلٰی حِیۡنٍ ) یعنی مزید مہلت عمل مل گئی.

پھر یہ بھی اللہ تعالیٰ کی اسی سنت کا مظہر ہے کہ بعد میں ہمیں اپنے خصوصی فضل وکرم سے خالص معجزانہ طور پر ایٹمی صلاحیت کے ذریعے ایک مؤثر ڈیٹرنٹ عطا فرما دیا اور یہ بھی صرف اسلئے کہ اس کی حکمت و مشیت میں ابھی ہمارے ( فَیَنۡظُرَ کَیۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ ) ( پھر وہ دیکھے گا کہ تم کیا کرتے ہو ! الاعراف : 129 ) والے امتحان کی مہلت اور مد ت ختم نہیں ہوئی ہے . جس پر ہمیں سورۃ الانفطار کے ان الفاظ ِ مبارکہ کے مطابق کہ ( یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الۡکَرِیۡمِ ۙ﴿۶﴾) یعنی اے انسان تجھے کس چیز نے اپنے مہربان رب ( کی جانب سے مہلت کی طوالت کے باعث اس کے مکافات ، عمل کے قانون) کے بارے میں دھوکہ میں مبتلا کر دیا ؟ کے مصداق ہر گز دھوکا نہیں کھانا چاہئے . اس لئے کہ سورۂ اعراف کی آیت ۱۳۴اور سورۂ یونس کی آیت۴۹ میں وارد شدہ الفاظ کے مطابق یہ مہلت کسی بھی لمحہ ختم ہو سکتی ہے . اور جب یہ اچانک ختم ہو جائے گی تو اس میں مزید توسیع وتا خیر کسی طرح ممکن نہیں بفجوائے : ( فَاِذَا جَآءَ اَجَلُہُمۡ لَا یَسۡتَاۡخِرُوۡنَ سَاعَۃً وَّ لَا یَسۡتَقۡدِمُوۡنَ ﴿۳۴﴾) ( الا عراف : 34 ) یعنی پھر جب ان کی وہ معین گھڑی آجائے گی تو نہ یہ لوگ ایک ساعت آگے بڑھ سکیں گے نہ پیچھے کھسک سکیں گے ! مزید برآں سب جانتے ہیں کہ یہ ایٹمی صلاحیت بھی صرف ”ڈٹرنٹ” ہی ہے یعنی صرف بھاری جارحیت کے خلاف ڈھال کاکام دے سکتی ہے. اسے خود بھارت پر حملہ کرنے کے لئے استعمال کرنے کا خیال جنت الحقماء میں رہنے کے مترادف ہے. گویا نتیجے کے اعتبار سے یہ جنگ کے آپشن کی نفی کے مترادف ہے ! 

رہا مسلمان ِ کشمیر کا سرفروشانہ اور بے مثال جہاد ِ حریت تو اس کے ضمن میں بھی جذبات سے ہٹ کر عقل سے کام لینے کی ضرورت ہے کہ کسی کھلم کھلا اور ٹھوس بیرونی 
امداد کے بغیر آکر وہ اسے حکومت پاکستان کی صرف اخلاقی اور سفارتی مدد اور بعض نجی اداروں کی جانب سے چوری چھپے او وہ بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ کے بقدر امداد کے بل پر کب تک جاری رکھ سکیں گے ؟ واقعہ یہ ہے کہ عوام کہ اس معاملہ میں بھی بہت حلقوں بالخصوص مذہبی گروہوں کی جانب سے عوام کو بہت بڑے بڑے مغالطے دئیے جارہے ہیں . چنانچہ اولاً جہاد افغانستان کا حوالہ دیا جاتا ہے حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ اس معاملے میں ایک سپر پاور کی کھلم کھلا اعلانیہ اور فیصلہ کن مالی اور جنگی مدد حاصل تھی ( جس کی بہتی گنگا م میں خود پاکستان کے بہت سے مقتدر افراد اور مذہبی جماعتوں نے خوب خوب ہاتھ دھؤے ! ) لہٰذا کشمیر کے معاملے میں افغانستان کا حلقہ قیاس مع الفاروق کی حیثیت رکھتا ہے . ثانیاً اس کے ضمن میں سورۂ نساء کی آیت ۷۵کاحوالہ بھی بہت شدّومد کے ساتھ دیا جاتا ہے یعنی 

(وَ مَا لَکُمۡ لَا تُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ الۡمُسۡتَضۡعَفِیۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الۡوِلۡدَانِ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا مِنۡ ہٰذِہِ الۡقَرۡیَۃِ الظَّالِمِ اَہۡلُہَا ۚ وَ اجۡعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۚۙ وَّ اجۡعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ نَصِیۡرًا ﴿ؕ۷۵﴾) 

ْ (اے مسلمانوں !) تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان کمزور و مجبور مردوں عورتوں اور بچوں ( کی مدد ) کے لئے جنگ نہیں کرتے جو دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال لے جس کے لوگ ظالم ہیں اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس حمایتی اور مدد گار پیدا فرما! 

لیکن اس حقیقت کو جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ اس آیت کے مخاطب مدینہ منورہ کے مسلمان تھے جنہوں نے خود اپنے پورے معاشرے میں اللہ کے دین ِ حق کے عادلانہ نظام کو بالفعل قائم اور اس کی شریعت کے احکام کو بہ تمام وکمال نافذ کر دیا تھا . جبکہ ہماراحال یہ ہے کہ ایک جانب تاحال ہم کتاب و سنت کی کامل بالادستی کا قول ِ ثقیل زبانی کلامی طور پر بھی اس دور میں ادا نہیں کرسکے جبکہ ہمارے ملک میں نام نہاد اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت قائم تھی جس میں ملک کی تقریباً قابلِ لحاظ مذہبی جماعتیں شامل تھیں 
اور اس حکومت کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت بھی حاصل تھی جس کے ذریعے دستور میں بآسانی مطلوبہ ترمیم کی جاسکتی تھی . دوسری جانب خود ہمارے عوام کی عظیم اکثریت ایک طرف جاگیر داروں اور وڈیروں کے ظلم وستم کی چکی میں پس رہی ہے تو دوسری طرف سودی معیشت کی پیدا کردہ شدید مہنگائی افراط ِ زراوربے کاری کی آگ میں جل رہی ہے اور تیسری جانب سیاسی عدم استحکام نے ملک کی سلامتی اور سالمیت کو مخدوش اور مہیب و ہولناک کر پشن اور کروڑوں اور اربوں کے غبن اور خرد برد نے ملک کو دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچادیا ہے.

ان حالات میں سورۂ النساء کی متذکرہ بالا آیت کے حوالے سے جہاد ِ کشمیر کا غلغلہ بلند کرنے والوں کو یا تو عوامی چندوں میں سے اپنے کمیشن کے حصول کا لالچ ہو سکتا ہے یا اوّلاً اپنی ذات اور اپنے دائرۂ اختیار میں شریعت کے بالفعل نفاذ اور پھر اپنے پور ے ملک اور معاشرے میں اسلام کے نظام ، عدل و قسط کو قائم کرنے کے لئے تن من دھن قربان کرنے کا کھکھیڑ مول لئے بغیر ""؏ " کتنا حسین فریب ہے جو کھا رہے ہیں ہم ! کے مصدق جہاد و قتال فی سبیل اللہ کے بلند و بالا مرتبہ و مقام پر فائز ہونے کا حسین فریب کھانے کا شوق ہوسکتا ہے…………. ورنہ . ؏ . ”پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی !” کے مصداق کہاں سورۂ نساء کی اس آیت مبارکہ کے مخاطب اصحاب رسول( و رضی اللہ تعالیٰ عنہم ) اور کہاں ہم پاکستان مسلمان ! چہ نسبت خاک راباعالم ِ پاک! 

پاکستان اوربھارت کی کھلی جنگ یا مسلمانِ کشمیر کے مسلح جہادِ حریت کے بعد مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے دوسرا آپشن یا متبادل راستہ یہ ہے کہ یو این او کے ذریعے اور اس کی پینتالیس سال پرانی قراردادوں کے مطابق کشمیر پر استصواب کرانے کی کوشش کی جائے اور اس کے لئے خود بھی ایک جانب براہ راست دوبار یو این او کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے اور دوسری جانب اس کے ذیلی اداروں جیسے حقوق ِ انسانی کے کمیشن وغیرہ کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو ہموار کر کے بھارت پر دباؤ بڑھایا جائے . 

یہ راستہ نظری ا عتبار سے تو سب سے سیدھا اور اس قضیے کے حل کے لئے بظاہر بالکل صراط مستقیم اور سواء السبیل کے مصداق نظر آتا ہے لیکن اب سے سے تین چار سال قبل تک تو اس کی راہ میں یو ایس ایس آر کاویٹو بھی حائل اور امریکہ کی عدم دلچسپی بھی سدِراہ تھی لیکن لیکن اب چونکہ ایک جانب خلیج کی جنگ اور یو ایس ایس آر کی تحلیل بلکہ تجہیز و تکیفین کے بعد ظاہر ویٹو کا خطرہ بھی ٹل گیا ہے اورر دوسری جانب امریکہ نے گہری دلچسپی لینی شروع کر دی ہے لہٰذا اس کامنطقی نتیجہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ ہم ساری امیدیں اسی آپشن سے وابستہ کر دیں لیکن نئی عالمی صورت ِ حال میں یہ آپشن ہمارے لئے نہایت مہلک اورخطرناک بن گیا ہے .

اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے کہ.؏ . ” جانتا ہے جس روشن باطن ِ ایام ہے !” کے مصداق عالمی حالات سے تھوڑی بہت واقفیت رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے اب امریکہ کو ”سول سپریم پاور آن ارتھ” یعنی روئے ارضی کی واحد عظیم ترین قوت کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے اور وہ اپنی اس حیثیت کو پوری طرح برئے کار لانے کے لئے نیو ورلڈ آرڈر کے قیام کے لئے سر توڑ کوشش کر رہا ہے جس کے لئے یو این او اس کے خانہ ساز بلکہ خانہ زاد ادارے کی حیثیت سے الۂ کار کا کام کر رہا ہے. اور چونکہ اب اس نیو ورلڈ آرڈر کے کلی تسلط کی راہ میں واحد عظیم طاقت جو کسی حد تک بالفعل سد راہ بنی ہوئی ہے وہ تو صرف چین ہے البتہ ایک غیر اہم درجہ میں شمالی کو ریا بھی ہے اور سودے بازی اور بلیک میلنگ کی حد تک بھارت بھی پھر عوامی جذبات کے اعتبار سے پاکستان بھی کسی حد تک سد راہ ہے اور حکومت کی سطح پر فنڈ امنٹلسٹ ہونے کے ناتے ایران بھی . مزید بر آں مستقبل کے اندیشوں کے اعتبار سے افغانستان بھی امریکہ کے لئے توجہ طلب ہے تو روسی ترکستان کی حال ہی میں آازاد ہونے والی مسلم ریاستیں بھی لہٰذا امریکہ کو اس پورے علاقے میں پولیس مین کا کردار ادا کرنے کے لئے ایک دوسرے اسرائیل کی اشد ضرورت ہے ! (۱دوبارہ ذہن میں تازہ کر لیں کہ یہ تحریر ۱۹۹۲ ء کی ہے . اس تناظر میں اندھے کو بھی نظر آسکتا ہے کہ ؎

الٰہی خیر میرے آشیاں کی
زمین پر نگاہیں ہیں آسمان کی

کے مصداق چچا سام کی نظریں کشمیر پر مر کوز ہیں کہ اسے بھارت اور پاکستان دونوں سے وا گزار کرا کے یا تو ایسی آزادی عطا کردی جا ئے جو ؎

اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری ہے کیا رہا ئی ہے !

کی مصداق ِ کامل ہو . یا انتداب کے نام سے کشمیر کے ”میر" یو این او ”کی زلفوں کا اسیر بنا دیا جائے . اور اس طرح مشرقی ایشیاءکے عین قلب میں ایک دوسرا ”اسرائیل” قائم کر دیا جائے . جہاں سے بیک وقت چین بھارت پاکستان افغانستان ایران اور ترکستان سب کو کنٹرول کیا جاسکے. 

کشمیر کے بارے میں امریکہ یہ عزائم اگرچہ چند ماہ قبل امریکہ کی نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا مسزرابن رافیل کے بیان دہی سے طشت از بام ہو گئے تھے تاہم اس سلسلے میں تفصیلی حقائق حال ہی میں بھارت کی دفاعی ریسرچ ٹیم کے سر براہ میجر جنرل ( ریٹارڈ)افسر کریم کی مرتب کردہ رپورٹ کے ذریعے منظر عام پر آئے ہیں جس کے مطابق امریکہ کے خود مختار کشمیر کے اس منصوبے میں مقبوضہ کشمیر اوراور آزاد کشمیر کے علاوہ لداخ کے کچھ علاقے بھی شامل ہیں اور یہ کہ اس سلسلے میں امریکہ نے بھارتی رائے بھجوا دی ہے ! چنانچہ فوری طور پر امریکہ کے ان ماہرین کا یہ کارنامہ بھی منصۂ شہود پر آچکا ہے کہ ”آل پارٹیز حریت کانفرنس” کے نام سے مسلمانوں کی تمام سیاسی جماعتوں اور گوریلا گروپوں کا جو مشترکہ پلیٹ فارم وجود میں آیا ہے اس کے دستور میں آزاد و خود مختار کشمیر کو بھی ایک متبادل آپشن کی حیثیت سے شامل کر لیا ہے ! مزید برآں ہوا کے نئے رخ کا انداز ہ درگاہ حضرت بال سرینگر میں۳۲ دن 
محصور رہنے والے کشمیر لیڈر اور حریت پسند تنظیم آپریشن بالاکوٹ کے کمانڈر انچیف عمر خالد کے اس انٹر ویو کے تیکھے انداز سے بھی بخوبی ہو سکتا ہے جو روزنامہ جنگ لاہور کی ۱۱ مئی کی اشاعت میں شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ کشمیری پاکستان سے مایوس ہو گئے ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں خو د مختار ی کا نظریہ فروغ پانے لگا ہے اور پاکستان اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل نہیں کرا سکتا تواس سے الحاق کے لئے قربانیاں دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہے! وقس علی ذلک ! جس پر حزب المجاہدین کے سپریم کمانڈر غلام محمد صفی صاحب کو بھی کچھ بے بسی کے انداز سے کہنا پڑا ! بہر حال؏ ’’قیاس کن ز گلستان ِ من بہار مرا !‘‘ کے مطابق اس سے حالات کی سنگینی کا پورا اندازہ کیا جاسکتا ہے.

اس سے صورتِ حال میں عافیت اسی میں ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل اس دوسرے اور بظاہر ے سیدھے آپشن کا خیال قطعی طور پر ذہن سے نکال دیاجائے.

ورنہ استصواب رائے کے لئے بھارت اور پاکستان دونوں کی افواج کے دونوں کشمیروں سے انخلاء کے بعد ظاہر ہے کہ کشمیر کا مستقبل کلی طور پر یو ین او کے رحم و کرم پر ہو گا جس کے پردے میں امریکہ اس بندر کا روایتی کردار بآسانی کر سکے گا جس نےبلیوں کے مابین روٹی کی منصفانہ تقسیم کے بہانے پوری روٹی خود ہضم کر لی تھی جبکہ دونوں بلیاں منہ دیکھتی رہ گئیں تھیں ! گویا مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ہمیں تھرڈ آپشن کو اختیار کرناہوگا پاکستان میں سے کسی کے ساتھ الحاق کے ساتھ آزاد و خود مختار کشمیر کا تھرڈ آپشن نہیں بلکہ پاک بھارت جنگ یا یو این او کی ثالثی کی بجائے پاکستان اور بھارت براہ راست مذاکرات کے ذریعے مفاہمت کی کوشش کا تھرڈ آپشن ہو! جس کے لئے دونوں ملکوں کے اصحابِ دانش و بینش کی حد تک تو زمین بہت کچھ ہموار ہو چکی ہے لیکن دونوں ملکوں میں قائم انگریز کامورثی پارلیمانی نظام سب سے بڑی سد راہ ہے . اس لئے کہ حکومتیں اگر مفاہمت اور اصلاح ِ حال پر آمادہ ہوتی ہیں تو دونوں ملکوں کی اپو زیشن پار ٹیاں سینتالیس سال کے دوران سرحد کے دونوں جانب عوام کی راسخ ہوجانے والی اجتماعی نفسیات کو مشتعل کر کے کسی اقدام کو ناممکن بنادیتی ہے ہیں ! جس کا سب سے نمایاں مظہر یہ ہے کہ متعدد دو طرفہ مسائل کےضمن میں معاہدات کی جملہ تقاصیل طے ہو جانے اور ان پر جانبین کے پوری طرح متفق ہو جانے کے باوجود ان پر دستخطوں کی نوبت نہیں آپاتی ! 

کاش کہ پاکستان اور بھارت دونوں کے عوام و خواص سب کو اس صورتِ حال کاصحیح صحیح اندازہ ہ ہو جائے اور یہ دونوں ملک سو سالہ ہندو مسلم منافرت اور سینتالیس سالہ پاک بھارت مخاصمت کی دیوار برلن میں کوئی فیصلہ کن شگاف ڈالنے کا انقلابی قدم اٹھا سکیں.