مسئلہ کشمیر ……………….. ایک قابل عمل فارمولا

اقتباس از پریس کانفرنس ۲۵اکتوبر ۱۹۹۵ء


کشمیر کے خوفناک ترین مسئلے کے حل کے ضمن میں میری رائے یہ ہے کہ : 
(۱). اسے امریکہ یا 
uno کے ذریعے حل کرانے کی کوشش تر ک کر دی جائے اور چچا سام کو کم از کم اس مسئلے میں سلام کہہ دیا جائے اور یو این او سے بھی اپنا پاندان اٹھالے جانے کی درخواست کی جائے.
). اس حل کا شملہ معاہدے کے مطابق بھارت کے ساتھ براہ راست دو طرفہ گفتگو کے ذریعے جلد از کچھ دو اور کچھ لو کے اصول پر کر لیا جائے . اور اس ضمن میں ایران اور چین کی خیر سگالی کو برؤے کا ر لایا جائے .
(۳). اسے۱۹۴۷ء کی تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا قرار دیتے ہوئے اور پنجاب اور بنگال کی تقسیم کو مد نظر رکھتے ہوئے اس طرح حل کیا جائے کہ:
(ا) آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کو پاکستان میں ضم کر لیا جائے اور صوبوں کی حیثیت دے دی جائے .
(ب) اس طرح جموں اور لداخ کے غیر مسلم اکثریت والے علا قوں کو بھارت اپنی ریاستیں بنا لے اور 
(ج) وادی کی حد تک بھارت اور پاکستان اپنے ہی اہتمام میں ریفرنڈم کرلیں اور صرف واد ی کی حد تک بھارت اورپاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کے ساتھ ساتھ آزادی کا تھرڈ آپشن بھی دے دیا جائے . اس شرط کے ساتھ کہ داخلی خود مختار تو پوری حاصل ہو لیکن خارجہ پالیسی اور دفاع کے معاملات پر بھارت اور پاکستان کی مشترکہ نگرانی ہو.

اگر ایسا نہ کیا گیا عنقریب بھارت اور پاکستان دونوں روایتی بلیوں کے مانند دیکھتے رہ جائیں گے اور عظیم تر کشمیر کی پوری روٹی کو عالمی یہودی استعمار کابندر ہڑپ کر جائے گا . 
اعاذنا من اللہ من ذالک ! 

اقتباس از خطاب جمعہ مورخہ 4 فروری 2000 ء

حال ہی میں امریکہ کہ ہارورڈ یو نیورسٹی کے ایک تھنک ٹینک نے جس میں یہودیوں کی اکثریت شامل ہے مسئلہ کشمیر کے حل کے ضمن میں ایک تجویز دی جس میں کہا گیا ہے کہ جموں اورلداخ کا علاقہ ہندوستان کو دے دیا جائے جبکہ آزاد کشمیر کو پاکستان کے پاس رہنے دیا جائے اور وادی کشمیر کوآزاد ریاست کا درجہ دے دیا جائے .ہمیں اس رائے سے محض اس لئے اختلاف نہیں کرنا چاہئے کہ یہ یہودیوں کے ذہن کی اختراع ہے البتہ میری رائے میں اس تجویز کا آدھا حصہ قابل عمل ہے اورآدھا حصہ یعنی غلط ہے .اس فارمولے میں خامی یہ ہے کہ وادی کواگر امریکہ یا یو این او کے رحم کرم پر آزادی دے دی گئی تو اندیشہ ہے کہ ہارٹ آف ایشیا میں ایک نیااسرائیل قائم ہو جائے گا. 

اگر چہ اس سے پہلے امریکہ کی سکیم یہ تھی کہ پاکستان ہندوستان اور چین سے کشمیر کے سارے علاقے واپس لے کر یہاں ایک آزاد ریاست کی صورت میں امریکی اڈہ قائم کیاجائے لیکن اللہ کاکرم ہوا اور بعض اطلاعات کے مطابق آئی ایس آئی نے امریکہ کی یہ سکیم ناکام بنادی ہے .موجودہ صورتِ حال میں اس کادرست حل یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو تقسیم ہند کے نامکمل ایجنڈے کے طور پر حل کرتے ہوئے بھارت سے ملحقہ ہندو اکثریتی علاقوں یعنی جموں اور لداخ کو بھارت میں ضم کر دیا جائے اور اسی فارمولے کے تحت موجودہ آزاد کشمیر کو وادی سمیت پاکستان کاحصہ قرار دیا جائے . تاہم مناسب ہو گا اس سارے عمل میں یو این او یا امریکہ کی ثالثی قبول نہ کی جائے بلکہ بھارت اور پاکستان دونوں باہمی مفاہمت سے یاپھر چین اور ایران کوثالث مان کر اس مسئلے کوحل کریں تاکہ کوئی بیرونی طاقت اس صورت ِ حال سے فائدہ اٹھا کر کشمیر میں قدم نہ جمانے پائے دار اصل بھارت کی کسی بھی حکومت کے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ عوام کے جذبات کے برعکس کوئی فیصلہ کر سکے گا لہٰذا یہ معاملہ تبھی حل ہو سکتا ہے جب بھارت اور پاکستان میں موجود تناؤ ختم ہو اور افہام و تفہیم کی فضا پیدا ہو . ویسے بھی بھارت نے گزشتہ دس سال کے عرصہ میں پانچ لاکھ سے زیادہ فوج کشمیر میں رکھ کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے وسائل و ذرائع میں رہتے ہوئے اس مسئلے سے لمبے عرصے تک نبرد آزما رہنےکی صلاحیت رکھتا ہے . جبکہ ہماری اقتصادی بد حالی کی ایک اہم وجہ کشمیر بھی ہے جس کے باعث ہم بھارت کے ساتھ کم و بیش ہر وقت ایک سرد جنگ کی کیفیت میں ہوتے ہیں. لہٰذا یہ مسئلہ جتنی جلدی حل ہو سکے اتنا ہی بہتر ہو گا . چنانچہ اس مسئلے کے حل کی ایک کم تر صورت یہ بھی ہو سکتی ہے جسے بھارتی عوام حکومت افہام و تفہیم کے بعد قبول کرنے پر تیار ہو سکتے ہیں . یعنی جموں اور لداخ بھارت میں ضم ہو جائیں اور موجودہ آزاد کشمیر مستقلاً پاکستان کاحصہ بن جائے اورصرف وادی کی حد تک استصواب کرا لیا جائے کہ و ہ بھارت کے ساتھ ضم ہونا چاہتے ہیں یا پا کستان کے ساتھ . اور اگر وادی کے لوگ تھرڈ آپشن کے حق میں فیصلہ دیں تو صرف وادی کو اس شرط پر آزاد ریاست کادرجہ دیا جائے کہ اس علاقے کو کسی بیرونی طاقت کا اڈہ نہیں بننے دیا جائے گا . 


اقتباس از بیان پریس کانفرنس 10 جولائی 2001ء

میری عرصہ دراز سے یہ پختہ رائے ہے کہ ……….
(۱)کشمیر کے مسئلے کو تقسیم ہند کے متفق علیہ فارمولے کی روح کے مطابق اسی کے ایجنڈے کی ایک بقیہ شق کی حیثیت سے حل کیا جائے ....!
(۲) یعنی یہ کہ اصولی اعتبار سے تو مسلم اور غیر مسلم آبادی کی اکثریت کی بنیاد پر جس طرح نہ صرف یہ کہ پورا ہندوستان تقسیم ہوا بلکہ صوبے بھی تقسیم ہوئے یہاں تک بعض اضلاع بھی تقسیم ہوئے اسی طرح کشمیر کے اس پورے مسلم اکثریت کے ان علاقوں کو جو بھارت کے ساتھ ملحق ہوں بھارت میں ضم کردیا جائے . گویا صرف لداخ اور جموں کے وہ اضلاع جن میں غیر مسلموں کی اکثریت ہو بھارت میں مد غم ہو جائیں اور بقیہ پورا بھارتی کشمیر پاکستان کے حوالے کر دیا جائے ……….

(۳) تا ہم چونکہ بھارت کی رائے عامہ کے لئے اتنی بڑی قربانی کو ہضم 
(Reconcile) کرنا تقریباً ناممکن ہے لہٰذا قابل قبول عمل حل یہ ہے کہ (۱) آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان حسب سابق پاکستان کے پاس رہیں اور انہیں با ضابطہ صوبوں کی حیثیت دے کر پاکستان میں شامل کر لیا جائے . (۲) اسی طرح لداخ اور جموں کے صرف بھارت سے ملحق غیر مسلم اکثریت کے علاقے بھارت میں ضم کر دئیے جائیں اور (۳) صرف وادی کشمیر اور اس سے ملحق لداخ اور جموں کے مسلم اکثریت کے اضلاع میں بھارت اورپاکستان اپنے مشترکہ اہتمام میں رائے شماری کرا لیں اور اس میں یا بھارت یاپاکستان کے ساتھ ساتھ خود مختاری کا آپشن بھی شامل کر دیا جائے. اس لئے کہ چونکہ نصف صدی کے دوران وقت کے دریا میں بہت سا پانی بہہ چکا ہے اور نہ صرف بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں بلکہ آزد کشمیر میں بھی ایک مضبوط لابی بھارت اور پاکستان دونوں سے علیحدہ کے قیام کے حق میں پیدا ہو چکی ہے جن کو نظر اندازنہیں کیا جانا چاہئے . لیکن یہ آپشن اس شرط کے ساتھ مشروط ہونا چاہئے کہ داخلی طور پر پاکستان کا مشترکہ کنٹرول ہوگا تاکہ دنیا کی کوئی اور تیسری طاقت وہاں قدم نہ جما سکے ! …….. مزید بر آں یہ کہ بھارت اور پاکستان دونوں ممالک کے شہریوں کو اس آزاد وادی میں آمد رفت کا بغیر ویزا حق حاصل ہو.اور وادی کے لوگ بھی دونوں ملکوں میں آزادانہ آمدروفت رکھ سکیں . 

میری تجویز کے اس حصے کے ضمن میں بھارت کے ساتھ سید شہاب الدین صاحب نے انڈورا کی مثال پیش کی ہے جو سپین اور فرانس کے درمیان سلسلہ کوہ پائر ینیز کے دامن میں ایک چھوٹا سا ملک ہے جہاں صد ہا برس سےفرانس اور سپین کے نمائندگان کی مشترکہ نگرانی میں آزاد حکومت قائم ہے . 

امیر تنظیم اسلامی کے نام بھارت کے معروف سیاسی رہنما سید شہاب الدین کے تائیدی مراسلے کا عکس