خطاب کا پس منظر

بانی ٔ تنظیم اسلامی محترم رحمہ اللہ علیہ نے ’’اسلام کا نظامِ حیات‘‘ کے موضوع پر اگرچہ متعدد بار اظہارِ خیال فرمایا ہے‘ مگر آج سے لگ بھگ بیس برس قبل اس ضمن میں ایک نہایت مربوط سلسلہ ٔ خطابات ارشاد فرمایا تھا. اس سلسلے کا ایک خطاب ’’اسلام کا اخلاقی و روحانی نظام‘‘ پیشِ خدمت ہے. جو ’’قرآن اکیڈمی یٰسین آباد‘‘ کراچی کے مدیر استاذ اویس پاشا قرنی کی ترتیب و تخریج کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے.(ادارہ)


خطبہ مسنونہ کے بعد تلاوتِ آیات: 

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجیْمِ . بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ۪ۙ﴿۷﴾ فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿۸﴾قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَکّٰىہَا ۪ۙ﴿۹﴾وَ قَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰىہَا ﴿ؕ۱۰﴾ 
(الشّمس) 
وقال اﷲ تعالیٰ: 

وَ لَقَدۡ ذَرَاۡنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ ۫ۖ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ ﴿۱۷۹﴾ 
(الاعراف) 
وقال عزوجل: 

وَ اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ 
حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ ﴿۲۸﴾فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ ﴿۲۹﴾ (الحجر) 
وقال تبارک وتعالیٰ: 
وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الرُّوۡحِ ؕ قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّیۡ وَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿۸۵﴾ (بنی اسراء یل) 
وفی الحدیث: 

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  : اِنَّ اللّٰہَ تَـعَالٰی قَالَ : مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِــیًّا فَـقَـدْ آذَنْـتُـہٗ بِالْحَرْبِ‘ وَمَا تَقَرَّبَ اِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْئٍ اَحَبَّ اِلَیَّ مِمَّا افْـتَـرَضْتُ عَلَـیْہِ ‘ وَمَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَـیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی اُحِبَّـہٗ ‘ فَاِذَا اَحْبَبْتُہٗ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ‘ وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِہٖ‘ وَیَدَہُ الَّـتِیْ یَبْطِشُ بِھَا‘ وَرِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا‘ وَلَئِنْ سَأَلَنِیْ لَاُعْطِیَنَّہٗ‘ وَلَئِنِ اسْتَعَاذَنِیْ لَأُعِیْذَنَّہٗ 
(۱

معزز حاضرین ومحترم خواتین! 
جیسا کہ عنوان سے ہی ظاہر ہے ‘ دو موضوعات کویہاں پر جمع کیاگیا ہے:’’ اسلام کا اخلاقی نظام ‘‘اور’’ اسلام کا روحانی نظام‘‘. اس لیے کہ یہ دونوں انتہائی مربوط ہیں اور یہ بھی کہا جاسکتاہے کہ ایک ہی موضوع کی دوسطحیں 
(levels) ہیں. مؤخر الذکر کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ مقدم الذکر سے بلند تر ہے‘ یا بالفاظِ دیگر وہ اسی مضمون کا عمیق تر پہلو ہے. 

مئی۱۹۸۸ء کے’’ حکمت ِقرآن‘‘ میں میری چند تحریریں شائع ہوئی تھیں جو ان دونوں موضوعات سے متعلق ہیں. ’’حقیقت ِزندگی‘‘‘’’حقیقت ِانسان‘‘اور’’عظمت ِصوم‘‘. (۲میرے ان مضامین میں بہت سے مسائل جو عرفِ عام میں تصوف سے متعلق ہیں‘ زیر بحث (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الرقاق‘ باب التواضع. 
(۲) اب یہ تحریریں دو کتابچوں کی صورت میں دستیاب ہیں. (۱) زندگی‘ موت اور انسان
(۲)عظمت صوم. شائع کردہ مکتبہ خدام القرآن لاہور (مرتب) 
آئے ہیں. میں نے ’’عرف ِعام‘‘ کا لفظ جان بوجھ کراستعمال کیا ہے.میں بعد میں عرض کروں گا کہ تصو ّف کی اصطلاح دراصل بہت سے مغالطوں کا موجب بنی ہے. اگرچہ اس کا موضوع قرآن وسنت کے اہم موضوعات میں سے ہے ‘لیکن چوں کہ ہمارے ہاں اس موضوع پر بہت ردّوقدح اوربحث تمحیص ہے‘ پھر ایک جانب غلو ہے تو دوسری جانب انتہا پسندی‘ لہٰذا میرے پاس بہت سے خطوط آئے اور بہت سے حضرات نے گفتگو کی‘ بعض جرائد نے اس پر تبصرے کیے . پھر رفقائے تنظیم اسلامی اور انجمن خدام القرآن کے احباب بھی مطالبہ کرتے رہے کہ اب میں اس موضوع پر اپنے خیالات کو زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کروں. تحریر کا تومجھے اب تک موقع نہیں مل سکا‘ تاہم میں کوشش کروں گا کہ آج اپنی بات وضاحت سے آپ حضرات کے سامنے رکھوں.ان چند تمہیدی گزارشات کے بعد میں اس موضوع کے پہلے حصے کی جانب بڑھتا ہوں.