قرآن حکیم کی روشنی میں اخلاقیات کی فلسفیانہ اساس

علم اخلاق یا اخلاقیات کے ذیل میں قرآن حکیم کی اہم ترین تعلیم جو اخلاقیات کی فلسفیانہ اساس بنتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کے نفس میں اللہ تعالیٰ نے نیکی و بدی کا شعور الہامی طور پر ودیعت کیا ہے. یہی وجہ ہے کہ میں نے آج اپنی گفتگو کا آغاز سورۃ الشمس کی اِن آیات سے کیا ہے: وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ۪ۙ﴿۷﴾ اور نفس ِانسانی کی قسم اور جیسا کچھ اللہ نے اس کو بنایا‘ سنوارا ‘اس کی نوک پلک درست کی. فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿۸﴾ اور الہامی طور پر اس میں ودیعت کردیا فجور اور تقویٰ کا علم‘ نیکی اور بدی کا شعور ‘ خیر اور شر کا امتیاز ‘ اِثم وبرّکے مابین تمیز. اور یہی وجہ ہے کہ قرآنِ حکیم میں نیکی اور بدی کے لیے خیر اور شر کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں‘ اِثم وبر ّکے الفاظ بھی آئے ہیں ‘لیکن جامع ترین اصطلاح ہے’’ معروف ‘‘ اور ’’منکر‘‘. معروف کے لفظی معنی ہیں جو شے جانی پہچانی ہے‘جبکہ منکر کہتے ہیں اُس شے کو جس کے بارے میں اجنبیت محسوس کی جائے‘ جس کو پہچانا نہ جارہا ہو.

اس اعتبار سے قرآن مجید نیکی (۱) صحیح البخاری ‘ کِتَاب الْأَدَبِ ‘ باب اِثْمِ مَنْ لَا یَأْمَنُ جَارُہُ بَوَایِقَہُ یُوبِقْہُنّ... اور بدی کے بارے میں یہ بنیادی تصور سامنے لاتا ہے . میں یہاں نفس ِانسانی کی اصطلاح استعمال کررہا ہوں‘کیوں کہ آیاتِ مبارکہ میں وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ۪ۙ﴿۷﴾ آیا ہے. نفس ِانسانی میں جو بھی ارتقائی عمل ہوا ہے اس کے نتیجے میں حیوانات کے مقابلے میں ایک بالکل نئی استعداد اور صلاحیت پیدا ہوئی ہے اور وہ ہے خیر اور شر میں امتیاز کی صلاحیت. انسان اپنی اس فطرت کے اعتبار سے جانتا ہے کہ کیا خیر ہے اور کیا شر ہے؟ کیا نیکی ہے اور کیا بدی ؟ ’’خیر‘‘ اس کے لیے معروف کے درجے میں ہے ‘جبکہ شر‘ برائی ‘بدی اور اِثم کو وہ منکر سمجھتا ہے. یہ درحقیقت خیر اور شر (good and evil) کے بنیادی تصورات ہیں،جو پوری نوعِ انسانی کا مشترک اثاثہ ہیں‘ ان میں آپ کو کہیں کوئی فرق معلوم نہیں ہوگا . سچ بولنا ہر معاشرے میں ‘ ہر دور میں خیر قرار دیا گیا اور جھوٹ بولنا ہر معاشرے میں ‘ ہر دور میں بدی قرار پایا. ایفائے عہد ہر دور میں ‘ہر معاشرے میں نیکی قرار پائی اور وعدہ خلافی ہر دور میں ‘ہر معاشرے میں ایک برائی سمجھی گئی.

اس کا ذرا تقابل کریں دوسرے الفاظ کے ساتھ. ایک ہے شریعت کے احکام اور اوامرونواہی کہ یہ فرض ہے‘ یہ واجب ہے اور یہ حرام ہے ‘ اس کے قریب نہ پھٹکو. واضح رہے کہ یہ دوسری منزل ہے. یہ وہ چیزیں ہیں جن کے لیے انسان کو وحی اور نبوت کی تعلیم کی ضرورت ہے. مثلاً شراب حرام ہے‘ اس کا معاملہ ایسا نہیں ہے کہ انسان طبعاً اس کا فیصلہ کرسکے‘ سؤر کا گوشت حرام ہے‘ اس کے بارے میں آج بھی لوگوں کو اشکال ہے کہ کیوں حرام ہے؟ یہ وہ چیزیں ہیں جو درحقیقت شریعت کے نقل پر مبنی ہیں. جو اللہ نے فرمایا اور جو اللہ کے رسول ؐ نے ہم تک پہنچایا ہے ان احکام کی اطاعت ہمارے ذمے ہے‘ ان کی خلاف ورزی کو ہم معصیت قرار دیتے ہیں.جبکہ منکر کی اصطلاح اس سے وسیع تر مفہوم کی حامل ہے. یہ وہ پہلی منزل ہے جواخلاقی اقدار 
(ethical values) پر مشتمل ہے. یہ اخلاقی اقدار پوری نوعِ انسانی کی مشترک متاع ہیں. ہر دور میں ‘تمام اقوام میں اور ہر علاقے میں ان کو مانا گیا ہے کہ یہ اچھائیاں ہیں‘ بھلائیاں ہیں‘ نیکیاں ہیں اور یہ برائیاں ہیں‘ یہ شر ہے اور یہ خیر ہے. 

اس اعتبار سے میں چاہتا ہوں چند احادیث مبارکہ آپ کے سامنے رکھوں. بڑی پیاری حدیث ہے.حضورؐ فرماتے ہیں: 
اِذَا سَرَّتْکَ حَسَنَتُکَ وَسَائَتْکَ سَیِّئَتُکَ فَاَنْتَ مُؤْمِنٌ (۱’’اگرتمہیں کوئی اچھا کام کر کے خوشی ہو اور کوئی برا کام کر کے تمہیں خود ملال (۱) مسند احمد بن حنبل‘ مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ‘ مسند الانصار‘ حدیث ابی اُمامۃ الباھلّی الصدّی…

(۸) جامع الترمذی‘ کتاب الزھد‘ باب ما جاء فی البر والاثم. 
ہو‘ تو تم مؤمن ہو‘‘. یہ احساس گویا ایمان کی علامت ہے. معلوم ہوا کہ فطرت مسخ نہیں ہوئی‘ اس فطرت کے اندر خیر وشر کا امتیاز برقرار ہے. تبھی تو نیکی کر کے تمہیں مسرت ہوئی ہے‘ خوشی ہوئی ہے‘ اور کوئی کام اگر غلط ہوگیا ہے‘ کسی بدی کا ارتکاب ہوگیا ہے تو اس پر تمہیں خود گھٹن محسوس ہوئی ہے‘ تمہیں خود ضیق اور تنگی کا احساس ہوا ہے.یہ علامت ہے اس بات کی کہ فطرت اپنی صورت پربرقرار ہے‘ فطرت مسخ) (pervert نہیں ہوئی. 

اس سے بھی زیادہ حکیمانہ قول ہے محمد رسول اللہ ؐ کا جوبہت ہی اہم فلسفیانہ حقیقت پر مشتمل ہے : 
وَالْاِثْمُ مَا حَاکَ فِی نَفْسِکَ وَکَرِہْتَ أَنْ یَطَّلِعَ عَلَیْہِ النَّاسُ (۱’’گناہ وہ ہے جوتمہارے سینے میں کھٹکے اور تم اسے ناپسند کرو کہ وہ کام لوگوں کے علم میں آئے‘‘. جیسا کہ سورۃ القیامۃمیں ’’نفس ِلوامہ‘‘کی قسم کھائی گئی ہے: 

لَاۤ اُقۡسِمُ بِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۙ﴿۱﴾وَ لَاۤ اُقۡسِمُ بِالنَّفۡسِ اللَّوَّامَۃِ ؕ﴿۲﴾ 

’’نہیں! میں قسم کھاتا ہوں روزِ قیامت کی. اور نہیں! میں قسم کھاتاہوں نفس ِملامت گر کی.‘‘ 

یہ وہ ضمیر ِملامت گرہے کہ اگر ہم سے کسی برائی کا صدور ہوجاتا ہے تو ہمیں اس کی بنا پراندر ہی اندر کوئی شے ملامت کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے . انگریزی میں اسے یوں تعبیر کرتے ہیں: 

’’My conscious is biting me ‘‘ 
یعنی’’میرا ضمیر مجھے کچوکے دے رہا ہے‘‘ . درحقیقت یہ اسی آیت مبارکہ کی ترجمانی ہے.

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھ لیجیے کہ ایک ہے انسان کا انفرادی ضمیر 
(individual conscious) جس پر مذکورہ بالا حدیث میں آں جناب ؐ کی جانب سے گویا اظہارِ اعتماد کیا گیا ہے. یہ ضمیر ایک زندہ حقیقت ہے اور یہ علامت ہے اس بات کی کہ فطرتِ انسانی اپنی صحت پر برقرار ہے. آپ کے اندر یہ احساس پیدا ہوا کہ میں یہ کام کر تو بیٹھا ہوں لیکن کسی کے علم میں نہیں آنا چاہیے. اس لیے کہ لوگ ملامت کریں گے ‘ میرے بارے میں بری رائے قائم کریں گے. اسی طرح نوعِ انسانی کا ایک اجتماعی ضمیر (collective conscious) بھی ہے جس کا اثبات کیا جارہا ہے. بہرحال احکامِ شریعت کے معاملے کو‘ جو ایک بلند تر منزل ہے‘ آج کی بحث سے خارج سمجھیے. لیکن جہاں تک انسانی اخلاقیات کا تعلق ہے تو ان چیزوں کے لیے انسان کسی تلقین یا تعلیم کا حاجت مند نہیں ہے .یہ تو اللہ کی عطا ہے‘ یہ دولت اس کے پاس ہے. (۱) جامع الترمذی‘ کتاب الزھد‘ باب ما جاء فی البر والاثم. یہ پہچان ‘ یہ فہم‘ یہ شعور ‘ یہ امتیاز اس کے اندر ودیعت شدہ ہیں. لہٰذا صداقت وامانت ہو‘ ایفائے عہد ہو‘ صلہ رحمی ہو‘ خدمتِ خلق ہو‘ یہ وہ بنیادی اوصاف ہیں جو مجمع علیہ ہیں.

ایک حدیث ملاحظہ کیجیے ‘ حضرت اَنس رضی اللہ عنہ جو نو برس تک حضورؐ کے ذاتی خادم کی حیثیت سے آپؐ کے ساتھ رہے ہیں‘ ان کی گواہی ہے کہ: 
قَلَّمَا خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ؐ اِلاَّ قَالَ : لَا اِیْمَانَ لِمَنْ لَا اَمَانَۃَ لَـہٗ ‘ وَلَا دِیْنَ لِمَنْ لَا عَھْدَ لَـہٗ (۱’’شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہوگا کہ ہمیں اللہ کے رسول ؐ نے خطبہ ارشاد فرمایا ہو اور اس میں یہ الفاظ نہ وارد ہوئے ہوں:’’ جس شخص کے اندر امانت داری کا وصف نہیں ہے اس کاکوئی ایمان نہیں اور جس میں ایفائے عہد کا مادہ نہیں اس کاکوئی دین نہیں‘‘. امن ‘ امانت اور ایمان کا قریبی رشتہ ہے اور لفظی طور پر بھی ان کا ایک ہی مادہ ہے. ایفائے عہد کا دین سے جومعنوی ربط ہے اس کو سمجھ لیجیے‘ کہ درحقیقت دین بھی تو بندے اور رب کے درمیان ایک عہد ہے. نماز میں ہم عہد کرتے ہیں: اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾ (سورۃ الفاتحہ) ’’پروردگار! ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کریں گے اورتجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور مانگیں گے‘‘. یہ ایک بڑا عہد ہے‘ جو شخص چھوٹے چھوٹے وعدے پورے نہ کرتا ہو وہ اتنا بڑا عہد‘ پوری زندگی کا عہد کیسے نبھائے گا؟ چناںچہ جس شخص میں امانت کا وصف نہیں اس میں ایمان نہیں‘ اور جس میں پاسِ عہد نہیں اس کا کوئی دین نہیں!!

اسی طرح خدمت ِخلق کے بارے میں نبی اکرم ؐ کا یہ قول یاد کیجیے : 
خَیْرُ النَّاسِ مَنْ یَنْفَعُ النَّاسَ (۲’’لوگوں میں بہترین وہی ہیں جو لوگوں کو فائدہ پہنچائیں.‘‘ 

یہ جو بنیادی اخلاقیات ہیں‘ مثلاًصداقت ‘ امانت‘ ایفائے عہد ‘ صلہ رحمی‘ خدمت ِخلق ‘ کمزوروں پر رحم‘ غریبوں کی امداد ‘ یتیموں اور مسکینوں کی سرپرستی ‘ یہ بڑی اہمیت کے حامل ہیں. ان کے بارے میں قرآن فرماتا ہے: 

اَرَءَیۡتَ الَّذِیۡ یُکَذِّبُ بِالدِّیۡنِ ؕ﴿۱﴾فَذٰلِکَ الَّذِیۡ یَدُعُّ الۡیَتِیۡمَ ۙ﴿۲﴾وَ لَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ ؕ﴿۳﴾ 
(الماعون) 
’’کیا دیکھا آپ نے اُس شخص کو جو جھٹلاتا ہے بدلے کو؟ پس وہی ہے جو دھکے دیتا ہے یتیم کو‘ اور نہیں ترغیب دیتا مسکین کو کھانا کھلانے کی. 
‘‘ (۱) رواہ البیھقی فی شعب الایمان. مشکوٰۃ المصابیح‘ کتاب الایمان‘ الفصل الثانی. ومسند احمد بن حنبل‘ باقی مسند المکثرین من الصحابۃ‘ مسند انس بن مالک. 
(۲) شعب الایمان للبیھقی‘ فصل فی ذکر ما ورد من التشدید… 

یہ وہ چیزیں ہیں جو فطرتِ انسانی کی جانی پہچانی ہیں‘ معروفات ہیں. ہر انسان جانتا ہے یہ نیکی ہے اور اس کی ضد شر ہے.