یہاں تک تو سب جانتے ہیں ‘مگر عملاً جو مسئلہ درپیش ہے اس کا اظہار غالبؔ نے اس شعر میں کیا ہے ؎

جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زُہد 
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی!

اسی طرح فارسی کا ایک بہت تلخ شعر ہے‘ جوگزشتہ خطاب میں بھی بیان ہو چکا ہے ؎

اے دیانت بر تو لعنت از تو رنجے یافتم 
اے خیانت بر تو رحمت از تو گنجے یافتم
(۱
ایک شخص جانتا ہے کہ سچ بولنا خیر ہے‘ مگر سچ بولنے سے نقصان ہورہا ہے. وہ جانتا ہے کہ جھوٹ بولنا شر ہے‘ لیکن جھوٹ بول کر لاکھوں کا نفع حاصل ہورہا ہے. اب وہ کون سی قوتِ محرکہ 
(motivating force) ہو گی اور وہ کون سا جذبہ محرکہ ہو گا جو اسے آمادہ کرے گا کہ سچ بولناہے‘چاہے جان بھی جانے کا اندیشہ ہو‘ چاہے اس کی وجہ سے نقصان ہوجائے. یہ ہے اصل مسئلہ علم الاخلاق کا‘ ورنہ جہاں تک بنیادی نیکی کا تصور ہے‘ انسان اندھا بہرا نہیں ہے. بلکہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح انسان کو خارجی سماعت وبصارت عطا فرمائی ہے اسی طرح نفس انسانی کو باطنی بصیرت عطا فرمائی ہے کہ کیا خیر ہے‘ کیا شر ہے ‘ کیا نیکی ہے ‘ کیا بدی ہے! یہ جو جذبہ محرکہ ہے اس کے بارے میں بعض نظریات دنیا میں رائج ہیں .خاص طور پر جدید مغربی دنیا میں فلاسفیوں نے اخلاقیات کی جو اساسات فراہم کرنے کی کوشش کی ہے‘ واقعہ یہ ہے کہ یہ اساسات بالکل ریت کی دیوار کی مانند ہیں ‘جن کے لیے کوئی استحکام نہیں. ہم یہاں ان کا مختصر تعارف پیش کررہے ہیں.

(ا) نظریۂ مسرت

یعنی نیکی سے خوشی ہوتی ہے ‘اچھے اخلاق سے انشراح ہوتا ہے. اس کی جزوی صداقت میں خود نبی اکرم  کی احادیث کی روشنی میں بیان کرچکا ہوں.لیکن سوال یہ (۱) اے دیانت تجھ پر لعنت ہو‘ تجھ سے میں نے سوائے رنج کے کچھ نہ پایا. اے خیانت تجھ پر رحمت ہو‘ تیری وجہ سے میں نے خزانہ حاصل کیا!! ہےکہ کیا یہ مسرت اخلاقیات کی مستقل اور مستحکم اساس بن سکتی ہے؟ جب کہ سوال ہوگا مسرت کس کی ؟ ہوسکتا ہے ایک آدمی کی مسرت دوسرے آدمی کی مسرت سے ٹکرا رہی ہو. اسی طرح مسرت اورتلذذ (sensual gratification) میں بڑا باریک سا پردہ رہ جاتا ہے.وہ جو کہا گیا ہے؏ ’’مردی و نامردی قدمے فاصلہ دارد‘‘ (ہمت اور بے ہمتی میں ایک قدم کا فاصلہ ہے). جس طرح فکر‘ سوچ اور روحانی مسرت کا یقینا اخلاق کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے اسی طرح دنیا جانتی ہے کہ بہت سے لوگ ہیں جن کی شخصیتیں مسخ ہوجاتی ہیں ‘انہیں دوسروں کو اذیت پہنچا کر مسرت حاصل ہوتی ہے. اذیت پسند لوگ (sadist) دنیا میں پائے جاتے ہیں. معلوم ہوا کہ مسرت اعلیٰ اخلاق کی کوئی بنیاد نہیں بن سکتی‘ کیوں کہ یہ کوئی پائے دارقوتِ محرکہ نہیں ہے.

(ب) نظریۂ منفعت

ایک دوسرا فلسفہ ہے’’ منفعت ‘‘. انگریزی کی مشہور کہاوت ہے: Honesty is the best Policy یقینا جزوی اعتبار سے یہ بات درست بھی ہے. کاروبار میں اگر ایک شخص دیانت اور صداقت کا معاملہ کر رہا ہے تو اس کی ساکھ بن جائے گی‘ لوگ اس پر اعتماد کرنے لگیں گے‘ وہ ایک کامیاب تاجر ثابت ہوگا ‘اس کی صداقت وامانت دنیا میں بھی اس کے لیے نافع ہوجائے گی. جزوی اعتبار سے یہ بات صحیح ہے ‘لیکن اسی کو آگے بڑھائیے تو ایک کی منفعت دوسرے کی مضرت بھی بن جاتی ہے. ایک کا نفع دوسرے کے لیے نقصان بنتا ہے. لہٰذا معلوم ہوا کہ یہ کوئی مستقل اصول نہیں ہے.

(ج) نظریۂ اجتماعی منفعت

ایک اور تصور دنیا میں دیا گیا ہے’’ اجتماعی منفعت‘‘ کا اگر کسی شخص کا تعلق کسی اجتماعیت سے ہے اور اس کے دل میں اس اجتماعیت کے لیے‘ مثلاًاپنی برادری (community)‘ اپنی قوم یا اپنے وطن کے لیے اگر سچی محبت کا جذبہ ہے تو یہ بھی اخلاق کی بنیاد بنتی ہے .میں یہاں بھی تسلیم کروں گا کہ جزوی طور پر یہ بات صحیح ہے کہ قوم پرست اور وطن پرست انسان اپنی قوم اور وطن کے لیے ایک اچھا انسان ہوگا‘ ان کو دھوکا نہیں دے گا‘ ان سے فریب نہیں کرے گا. یہاں پر میرا ذہن منتقل ہوا ہے نبی اکرم ؐ کے خطبات میں سے ایک بہت ہی ابتدائی دور کے خطبے کی جانب جسے ’’نہج البلاغہ‘‘ کے مرتبین نے بھی شامل کیا ہے. اس میں نبی اکرم نے اسی بنیاد کو ایک دلیل کے طور پر پیش فرمایاہے. 
اِنَّ الرَّائِدَ لَا یَکْذِبُ أَہْلَہُ ‘ وَاللَّہِ لَوْ کَذَبْتُ النَّاسَ جَمِیعًا مَا کَذَبْتُکُمْ ‘ وَلَوْ غَرَرْتُ النَّاسَ مَا غَرَرْتُکُمْ‘ وَاللَّہِ الَّذِی لَا اِلٰـــہَ اِلاَّ ہُوَ‘ اِنِّی لَـرَسُولُ ؐ 
َّاللَّہِ اِلَـیْـکُمْ خَاصَّۃً وَاِلَی النَّاسِ کَافَّۃً ‘ وَاللَّہِ لَتَمُوتُنَّ کَمَا تَنَامُوْنَ ‘ وَلَتُبْعَثُنَّ کَمَا تَسْتَیْقِظُوْنَ ‘ وَلَتُحَاسَبُنَّ بِمَا تَعْمَلُوْنَ ‘ وَلَتُجْزَوُنَّ بِالْاِحْسَانِ اِحْسَانًا وَبِالسُّوئِ سُوئً ا‘ وَاِنَّہَا لَلْجَنَّۃُ أَبَدًا أَوِالنَّارُ أَبَدًا (۱۲

’’بے شک راستہ دکھانے والا اپنے قافلے والوں کو دھوکا نہیں دیتا. اور خدا کی قسم! اگر میں بالفرض تمام لوگوں سے جھوٹ بول سکتا تو بھی تم سے جھوٹ نہ بولتا‘ اور اگر بالفرض تمام نوعِ انسانی کو دھوکا دے سکتا تو بھی تمہیں دھوکانہ دیتا.پس اللہ کی قسم ‘ جس کے سواکوئی معبود نہیں ‘ بلاشبہ میں تمہاری جانب رسول بنا کر بھیجا گیاہوں خصوصیت کے ساتھ اور تمام نوعِ انسانی کی جانب عمومیت کے ساتھ. اللہ کی قسم‘ بلاشبہ تم سب مرجائو گے جیسے سوجاتے ہو‘ اور بلاشبہ تم سب اٹھائے جاؤ گے جیسے نیند سے بیدار ہوتے ہو. اور ضرور بالضرور تم سب سے حساب ہوکر رہے گا، اُس کے بارے میں جو تم عمل کرتے رہے ‘اور ضرور تمہیں بدلہ دیا جائے گا نیکی کا اچھا بدلہ اور برائی کا برا بدلہ. وہ یا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت ہے یا ہمیشہ ہمیشہ کی آگ.‘‘

یہ ایک چھوٹا سا خطبہ ہے ‘ لیکن بہت جامع ہے. میں اس کا حوالہ اس لیے دے رہا ہوں کہ آج دنیا میں ہمارے سامنے یہ بات ایک حقیقت کے طور پر موجود ہے. آپ انگلستان یا امریکا جاتے ہیں وہاں وقت کی پابندی ہوتی ہے. کوئی شخص چین کا دورہ کر کے آتا ہے ‘وہ کہتا ہے کہ اصل اسلام تو وہاں ہے‘ لوگوں کے اخلاق وکردار ‘ وہاں کا نظم وضبط ‘ لوگوں کا صاف معاملہ کرنا‘ دھوکا نہ دینا‘ فریب سے کام نہ لینا. واقعہ یہ ہے کہ قوم پرستی‘ وطن پرستی 
(Nationalism) اور اس سے آگے بڑھ کر انسان دوستی (Humanism) ایک نظریے کے ساتھ وابستہ رہنا (Idealism)‘ یہ چیزیں یقینا انسان کے اندر اخلاقِ حسنہ کی ترویج اور خارج میں تنفیذ کے لیے مفید ثابت ہوتی ہیں. لیکن یہاں بھی یہ بات سامنے آئے گی کہ اس کی وسعت (scope) تو بہت محدود (limited) ہے. اس لیے کہ ہمارا مشاہدہ ہے اور پوری دنیا جانتی ہے کہ جو لوگ اپنی قوم کے لیے نہایت رحم دل‘ نہایت سچے‘ دھوکا نہ دینے والے‘ کاروبار میں راست باز ہوتے ہیں یہی لوگ دوسری قوموںکا خون چوسنا روا سمجھتے ہیں.

یہی ّمہذب قومیں جب بین الاقوامی سطح پر آتی ہیں تو ان سے بڑا جھوٹا ‘ ان سے بڑا دھوکے باز‘ ان سے بڑا ظالم اور کوئی نہیں ہوتا. یہ لوگ پوری پوری قوموں کو بیچ کھائیں گے ؏ ’’قومے فروختند وچہ ارزاںفروختند‘‘ (پوری قوم کو بیچ (۱) انساب الاشراف للبلاذری‘ دعاء رسول اللّٰہ .فقہ السیرۃ للالبانی:۹۷دیا اور کس قدر سستا بیچ دیا!)ہندوستان میں ایک ایک شخص کے بدلے پوری پوری آبادیاں تہس نہس کر دی گئیں. ایک انگریز کے قتل کا انتقام لینے کے لیے پوری پوری بستیاں تباہ وبرباد کردی گئیں. نہ انہیں معاہدوں کی پروا ہوتی ہے نہ بین الاقوامی قراردادوں کی‘ وہ صرف اپنے مفادات دیکھتے ہیں. خاص طور پر انگریزوں نے عرب قوم سے جو وعدے کیے تھے اور انہیں جو فریب دیا تھا‘ جس کی وجہ سے عربوں نے ترکوں کے خلاف بغاوت کی تھی‘ پہلی جنگ ِعظیم کے دوران ان وعدوں کا کیا ہوا؟ وہ سارے وعدے ہوا میں تحلیل ہوکر رہ گئے. تو یہ نظریہ بھی اخلاقیات کی ایک بنیاد تو ہے لیکن اس کی محدودیت (limitation) ظاہر و باہر ہے.