اصل جذبۂ محرکہ ’’ایمان‘‘

ایک ایسا جذبہ محرکہ ‘ ایک ایسی motivation جو کہیں ناکام نہ ہو‘ ہر سطح پر انسان کو خیر اور بھلائی کے لیے کھڑا رکھے اور اس میں استقامت پیدا کرے‘ کہیں بھی جا کر اس کی صداقت اور امانت میں ضعف پیدا نہ ہو‘ اس کی مثال ہمارے سامنے آتی ہے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے شام کا ایک شہر فتح کیا تو وہاں کے لوگوں سے جزیہ وصول کرلیا‘ لیکن جنگی صورتحال ایسی ہوئی کہ انہیں پسپائی اختیار کرنی پڑی‘ محسوس ہورہا تھا کہ دشمن ہمیں گھیرے میں لے رہا ہے. اس صورت حال میں انہوں نے شہر کے لوگوں کو بلا کر ان کی جزیے کی رقم واپس کردی. یہ جو اخلاق کا مرتبہ ہے جس میں کسی سطح پر جا کر بھی پستی دکھائی نہیں دیتی‘ یہ درحقیقت صرف اور صرف ایمان کے ذریعے ممکن ہے. ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ اصل میں وہ جذبہ محرکہ ہے جو قرآن ہمیں عطا فرماتاہے.

ایمان باللہ اورایمان بالآخرۃ ‘ دونوں میں مثبت اور منفی پہلو موجود ہیں. ایک طرف اللہ کی محبت‘ اللہ کی رضا جوئی اور دوسری طرف اللہ کا خوف ‘ تقویٰ ‘ یہ احساس کہ اللہ ہم سے ناراض نہ ہوجائے ‘ درحقیقت ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں. ہم تقویٰ کا ترجمہ صرف خوف سے کردیتے ہیں تو اس میں ایک محدودیت آجاتی ہے. اصل مثبت جذبہ محبت کا ہے. جیسے ایک سعادت مند بیٹا یہ محسوس کرتا ہے کہ میرے والد ناراض نہ ہوجائیں‘ کہیں میں اپنے والد کے احساسات کو ٹھیس نہ پہنچا دوں‘ ایسا نہ ہو کہ میری وجہ سے ان کی دل شکنی ہو‘ اس وجہ سے اگر وہ اپنے والد کی اطاعت کررہا ہے اور جو چیزیں انہیں پسند ہیں ان کا اہتمام کررہا ہے‘ تویہ تقویٰ کی اصل حقیقت ہے. 
ایمان باللہ کی حقیقت یوں سمجھیے کہ انسان نے عُروۃُ الوُثقٰی (مضبوط کنڈا) تھام لیا. اب بڑے سے بڑے امتحان میں اس کے پائے استقامت میں لغزش نہیں آئے گی. دوسرا ایمان بالآخرۃ ہے.میں صرف وضاحت کے لیے عرض کررہا ہوں کہ اس میں سلبی پہلو زیادہ نمایاں ہے. یعنی آخرت کا خوف ‘ آخرت کی جواب دہی کا احساس کہ ہر سانس کے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہے. اس کے لیے انسان اگر شعور تازہ رکھے تو یقینا وہ ہر قدم پر اپنا محاسبہ کرے گا کہ کہیں مجھ سے کوئی غلط حرکت تو نہیں سرزد ہوگئی اور ہوشیار رہے گا کہ کہیں مجھ سے کوئی غلط فعل نہ سرزد ہوجائے. 

ایمان بالآخرۂ کے ضمن میں سورۃ العلق کی تین آیات کا حوالہ دینا چاہتا ہوںجس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انبیاء کرام fبھی غوروفکر کے مراحل سے گزرتے ہیں. جیسے وحی کے آغاز سے قبل نبی اکرمؐ کا غارِ حرا کا دور ہے. اس کے بارے میں شارحین نے وضاحت کی ہے کہ 
کان صفۃ تعبّدہ فی غار حراء التفکّر والاعتبار (۱(غار ِحرا میں نبی اکرمؐ کی عبادت کی کیفیت تفکر واعتبار پر مبنی تھی).غور و فکراور سوچ بچار ایک تو فلسفیانہ مسائل پر ہے اور ایک اپنے گرد وپیش کے حالات پر ہے . سورۃ العلق کی پہلی پانچ آیات کی حیثیت تو سب سے پہلی وحی کی ہے‘لیکن اس کے بعد جو تین آیات آئی ہیں ان کے پس منظر میں نبی اکرمؐ کے غور وفکرکا جواب ملتا نظر آتا ہے کہ ایک حساس انسان جس کی اپنی اخلاقی حس انتہائی بیدار ہے‘ وہ معاشرے میں دیکھتا ہے کہ ظلم وتعدی ہے‘ حق تلفیاں ہورہی ہیں‘ لوگوں پر جبر ہورہا ہے‘ جھوٹ بولا جارہا ہے‘ عزتیں اور حرمتیں پامال ہورہی ہیں . خاص طور پر عرب کے اُس معاشرے کا تصور کریں کہ اخلاقی اعتبار سے وہ معاشرہ کس سطح پرپہنچا ہوا تھا‘ اس میں نبی اکرمؐ غوروفکر فرمارہے ہیں کہ اس ظلم کا ازالہ کیسے ہو؟ انسان طرح طرح کے دکھوں‘ مصائب اوررنج وآلام میں مبتلا ہے. اس سے نجات (salvation) کا کوئی راستہ ہے یا نہیں؟اس طرح ان آیات کے پس منظر میں ایک گہرا فکر معلوم ہوتا ہے جس میں رہنمائی دی جارہی ہے. جیسا کہ حضرت عزیر d نے بیت المقدس کو اس حالت میں دیکھ کر فرمایا تھاکہ ایک اینٹ سلامت نہیں (۱) تلاش کے باوجوداس قول کا کوئی حوالہ دستیاب نہ ہو سکا. انبیاء علیہم السلام کے غور و فکر کے مراحل سے گزرنے کے حوالے سے مختلف آراء رہی ہیں. البتہ یہ بات سب کے ہاں مسلّم ہے کہ منصب ِنبوت وہبی تھا نہ کہ کسبی! (مرتب) 
رہی‘ کوئی متنفّس موجود نہیں‘بستی اُجڑی ہوئی ہے. 

اَنّٰی یُحۡیٖ ہٰذِہِ اللّٰہُ بَعۡدَ مَوۡتِہَا 
( البقرۃ:۲۵۹
’’اللہ اس بستی کو اس تباہی کے بعد کیسے زندہ کرے گا؟ ‘‘

ایسے ہی اس معاشرے کا معاملہ تھاجو اخلاق کی انتہائی پستی تک پہنچ گیا تھا. اب یہ اس قعرمذلت سے کیسے نکلے گا؟ یہ فکر ہے‘ یہ سوچ ہے!

اس پس منظر میں ان تین آیات پر غور کیجیے‘ فرمایا: 
کَلَّاۤ اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَیَطۡغٰۤی ۙ﴿۶﴾ ’’نہیں !انسان سرکشی پر اتر آتا ہے‘‘. دست درازی پر آمادہ ہوجاتا ہے‘ اپنے حدود سے متجاوز ہوجاتا ہے. آپ کا یہ مشاہدہ صحیح ہے‘ معاشرے میں ظلم ہے‘ حق تلفی ہے‘ ناانصافی ہے‘ جبر ہے‘ discrimination ہے‘ اعلیٰ اور ادنیٰ کی تقسیم ہے. جھوٹ بولا جارہا ہے‘حق‘داروں کی حق تلفی کی جارہی ہے. مشاہدہ تو یقینا درست ہے. آگے فرمایا: اَنۡ رَّاٰہُ اسۡتَغۡنٰی ﴿ؕ۷﴾ ’’سبب یہ ہے کہ انسان دیکھتا ہے اپنے تئیں کہ مستغنی ہے‘‘. کہیں پکڑ نہیں ہورہی. اگر کوئی انگارا ہاتھ میں لیا جائے تو ہاتھ جل جاتا ہے‘مگر جھوٹ بولا جائے تو کچھ نہیںہوتا‘ زبان پر چھالا تک نہیں پڑتا. اگر زہر کھالیا جائے تو موت واقع ہوجاتی ہے‘ لیکن یتیم کا مال ہڑپ کرلیا جاتا ہے ‘ حقداروں کا حق ہڑپ کرلیا جاتا ہے مگرکچھ نہیں ہوتا‘ پیٹ درد تک نہیں ہوتا. معلوم ہوا ایک اعتبار سے تو یہ دنیا مکمل ہے کہ مادی قانون اپنے نتائج پیدا کررہا ہے‘ لیکن اخلاقی قانون یہاں نتائج پیدا نہیں کررہا بلکہ بسا اوقات غلط نتیجہ نکلتا ہے. حرام خوری کرنے والے عیش کررہے ہیں‘ ظلم کرنے والے اقتدار کی مسندوں پر بیٹھے ہیں‘ جن لوگوں نے حقوق سے دوسروں کو محروم کیا وہی ہیں جن کی چودھراہٹیں ہیں‘ انہیں معاشرے میں عزت مل رہی ہے. پھر فرمایا: اِنَّ اِلٰی رَبِّکَ الرُّجۡعٰی ؕ﴿۸﴾ ‘ ’’یقینا تیرے رب ہی کی طرف لوٹنا ہے‘‘.

اس کا علاج ایک ہی ہے کہ انسان کے سامنے یہ حقیقت موجود اور مستحضر رہے کہ اسے اس زندگی میں فوری پکڑا نہیں جارہا ‘ فوری سزا نہیں مل رہی ‘لیکن یہ جو اللہ کی طرف رجوع ہے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَـیْہِ رَاجِعُوْنَ تو وہاں اصل آخرت کا محاسبہ ہے‘ جواب طلبی ہے. یہ ہے اصل شے کہ اگر یہ یقین دل میں قائم ہوجائے تو پھر کیسا ظلم؟ کیسی تعدّی؟ کیسی ناانصافی؟ کیسے کوئی جھوٹ بولے گا‘ کیسے کوئی فریب دے گا‘ اگر یہ احساس ہو کہ ایک ایک عمل‘ ایک ایک قول کی جواب دہی کرنی ہے! واقعہ یہ ہے کہ اسلام نے اخلاق و اعمال کی درستی کے لیے ایک تو آخرت کی فکرکو‘ آخرت کے یقین کو‘ جواب دہی کے احساس (The Grand Accountibility) کواور دوسرے اللہ تعالیٰ کی محبت کو بنیاد بنایا ہے. اور یہ محبت دو طرفہ ہے. اللہ بندوں سے محبت کرتا ہے اور بندوں سے چاہا گیا ہے کہ اللہ سے محبت کریں. یہ دوسرا پہلو میں بعد میں بیان کروں گا‘ پہلے یہ دیکھیے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جابجااپنی محبت کا کس قدر ترغیب وتشویق کے انداز میں مثبت اور منفی پہلوؤں سے ذکر فرمایا ہے.چنانچہ ارشاد ہوتا ہے اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۹۵﴾ (البقرۃ) ’’بے شک اللہ احسان کی روش اختیار کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے ‘‘. احسان کا تذکرہ دونوں معنوں میں ہوتا ہے‘ ایک یہ کہ لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنا اور دوسرے یہ کہ ’’احسان‘‘ مراتب ِدینیہ میں سے ایک اعلیٰ مرتبہ بھی ہے جو ہماری گفتگو کے دوسرے حصے یعنی ’’اسلام کے روحانی نظام‘‘ سے متعلق ہے. اسی طرح دیگر مقامات پر ہے: اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَّقِیۡنَ ﴿۴﴾ (التوبۃ) اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ ﴿۲۲۲﴾ (البقرۃ)وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۴۶﴾ (آل عمران) اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَوَکِّلِیۡنَ ﴿۱۵۹﴾ (آل عمران) اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ ﴿۹﴾ (الحجرات) یعنی اللہ کو محبوب ہیں جو تقویٰ کی روش اختیار کرنے والے ہیں‘ توبہ کرنے والے اور ہر طرح کی طہارت و پاکیزگی کا اہتمام کرنے والے ہیں‘ صبر کرنے والے ہیں‘ توکل کرنے والے ہیں ‘ عدل وانصاف پر کاربند ہیں اور اس کی سب سے اونچی چوٹی یہ ہے: 

اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ﴿۴﴾ 
(الصف) 
’’اللہ محبت کرتا ہے ان بندوں سے جو جنگ کرتے ہیں اس کی راہ میں ایسے کہ جیسے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں.‘‘

اس میں درحقیقت سب سے بڑی تحریض اور 
motivation ہے کہ یہ وہ چیز ہے جو کہیں بھی جاکر ختم نہیں ہوگی‘ کبھی بھی انسان کا ساتھ نہیں چھوڑے گی‘ ہر لحظہ ‘ ہرلمحہ‘ ہر منزل ‘ہر مرحلے پر یہ انسان کے ساتھ رہے گی. یہ ہے اللہ کی محبت اور اللہ کی رضاجوئی کا جذبہ اور محاسبہ ٔاخروی کا احساس. ارشادفرمایا:

وَ اَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی ﴿ۙ۴۰﴾فَاِنَّ الۡجَنَّۃَ ہِیَ الۡمَاۡوٰی ﴿ؕ۴۱﴾ (النّٰزِعٰت) 
’’اور جو شخص (دنیا میں ) اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا ہوگا اور نفس کو حرام خواہش سے روکا ہوگا‘تو یقینا جنت اُس کا ٹھکانا ہو گی.‘‘

یہ ہے وہ ایمان کا جذبۂ محرکہ جو قرآن اورسنت ِرسول ہمیں فراہم کرتے ہیں. باقی جہاں تک بنیادی انسانی اخلاقیات کا تعلق ہے ان کے ضمن میں قرآن مجید نے خود ہمیں یہ ہدایات دی ہیں کہ وہ سب انسانوں کے نزدیک جانی پہچانی حقیقتیں ہیں اور ان کے لیے انسان کسی تعلیم کا محتاج نہیں. ان دو باتوں کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارے لیے سیرت وکردار کی تعمیر اور تہذیب اخلاق کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ ایمان کی گہرائی اور گیرائی کے لیے زیادہ سے زیادہ کوشش کی جائے‘ قلب میں ان کے تخم کی آبیاری ہواور اس کی افزائش کا اہتمام کیا جائے‘ اس میں اضافے کی کوشش کی جائے. اسی کا نام درحقیقت معرفت ہے. سورۃ الذاریات میں فرمایا: 

وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ 

’’اور نہیں پیدا کیا میں نے جنوں اور انسانوں کو مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں. ‘‘ 

بہت سے حضرات نے اس کی جو تعبیر کی ہے وہ یہ ہے کہ 
اِلاَّ لِیَعْرِفُوْنِ (۱(مگراس لیے کہ وہ میری معرفت حاصل کریں)اگر اللہ کی معرفت حاصل ہوگی‘ اللہ کی ہستی کا یقین ہوگا‘ اللہ سے ملاقات کا یقین اور امید ہو گی تو انسان کے اخلاق میں عظیم تبدیلی رونما ہوجائے گی. قرآن مجید اس حقیقت کی طرف بار بار توجہ دلاتا ہے. سورۃ الفرقان میں ارشاد ہوا ہے: 

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡنَا الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَوۡ نَرٰی رَبَّنَا ؕ لَقَدِ اسۡتَکۡبَرُوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ وَ عَتَوۡ عُتُوًّا کَبِیۡرًا ﴿۲۱﴾ 

’’اور کہتے ہیں وہ لوگ جو ہم سے ملاقات کی امید نہیں رکھتے ‘کیوں نہیں آتے ہمارے پاس فرشتے یا ہم اپنے رب کو دیکھ لیں؟ تحقیق یہ لوگ اپنے آپ کو بہت بڑاسمجھ رہے ہیں اور یہ لوگ حد (انسانیت) سے بہت دُور نکل گئے ہیں. ‘‘

جب اللہ سے ملاقات کی امید نہیں رہی تو اب نیکی کی اساس کہاں رہی؟ نیکی کا اگر شعور بھی ہے تو اس پر کاربند ہونے کا جذبہ کہاں سے لائیں گے؟ ہاں اللہ کی معرفت ‘ اللہ کی محبت‘ اللہ کا شوقِ لِقاء ‘ اللہ کے حضور میں حاضری اور اس کے سامنے جواب دہی کا خوف اور اللہ کی محبت سے سرشار ہوکر اس سے ملاقات کا اشتیاق اگر موجود ہے تو یہ ہے وہ چیز کہ بڑے سے بڑا نقصان ہوجائے 
(۱) امام تفسیر‘ حضرت مجاہدؒ سے یہ تفسیر منقول ہے. تفسیر بحر المحیط لابی حیان‘سورۃ الذاریات. لیکن انسان سچ پر‘ صداقت پر ‘امانت پر کاربندرہے گا. بڑی سے بڑی تکلیف آجائے‘ انسان اس سے کسی جھوٹ کے ذریعے بچنے کی کوشش نہیں کرے گا.

اس ضمن میں آخری بات یہ عرض کروں گا کہ ایمان کو تروتازہ رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے نماز جیسی عظیم ترین عبادت عطا فرمائی ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی: 
وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکۡرِیۡ ﴿۱۴﴾ (طٰہٰ) ’’اورقائم رکھو نماز کو میری یاد کے لیے‘‘.اور یہ بھی نوٹ کیجیے‘ سورۂ طٰہٰ میں یہ بات پہلے تو مثبت انداز میں آئی . اسی سلسلہ ٔخطاب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے گفتگو چل رہی ہے‘ انہوں نے عرض کیا :’’پروردگار! میرا سینہ کھول دے‘ اور میرے کام کو میرے لیے آسان کر دے‘ اور میری زبان کی گرہ بھی کھول دے‘ تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں. نیز میرے گھر والوں میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا ساتھی بنا دے…‘‘جب یہ درخواست منظور ہو گئی تو پھر دوبارہ حکم دیا گیا : وَ لَا تَنِیَا فِیۡ ذِکۡرِیۡ ﴿ۚ۴۲﴾ ( طٰہٰ) ’’دیکھنا میری یاد میں تساہل سے کام نہ لینا ‘‘. اِذۡہَبَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ اِنَّہٗ طَغٰی ﴿ۚۖ۴۳﴾ ( طٰہٰ) ’’جاؤ تم دونوں فرعون کی طرف‘ وہ سرکشی پر اُتر آیا ہے.‘‘ اقامت ِ صلوٰۃ کا حکم اسی لیے دیا گیا ہے تاکہ ایمان کا شعور بیدار ہوتا رہے. اس پر جو ماحول کے اثرات پڑتے رہتے ہیں وہ صاف ہوتے رہیں. جیسے اگر کہیں برفباری ہورہی ہو تو بار بار ضرورت پڑتی ہے کہ جو بھی برف کے گالے پڑے ہیں ان کو صاف کیا جائے. اسی طرح سے انسان پر جو ماحول کے اثرات مرتب ہوتے ہیں‘ جو حجابات طاری ہوتے ہیں‘ ان کو دور کرنے کے لیے نماز کا حکم دیاگیا. اس کے ساتھ جو دوسری عبادات ہیں ان کا تذکرہ دوسرے نمبرپر کروں گا‘ لیکن یہاں پر نماز کا تذکرہ اس اعتبار سے ہو گیا کہ ایمان ہی ہماری اصل قوتِ محرکہ (motivating force) ہے اور اس کی آبیاری کو مستحکم رکھنے کا بہترین طریقہ نماز ہے. اس حوالے سے مجھے حفیظ جالندھری کا یہ شعربہت پسند ہے : ؎

سرکشی نے کر دیے دھندلے نقوشِ بندگی
آؤ سجدے میں گریں لوحِ جبیں تازہ کریں!

ہمارا جو نفس عبدیت ہے یہ ماحول کے اثرات سے کچھ غبار آلود ہو جاتا ہے‘ اس کے اندر استکبار اور سرکشی کے جذبات سراٹھاتے ہیں‘ جن کی اصلاح کے لیے نماز بہترین عمل ہے. یہ گویا تجدید ِایمان کا ایک ذریعہ ہے. 

اب میں اپنے موضوع کے دوسرے حصے کی طرف آرہا ہوں اور وہ ہے ’’ اسلام کا روحانی‘نظام‘‘