حدیث ِجبریل ؑ میں درحقیقت ہماری مذہبی زندگی کے تین درجات (levels) کو معین کیاگیا ہے. پہلا درجہ اسلام ہے‘ اس سے اونچا درجہ ایمان اور اس سے اونچا درجہ احسان ہے. حدیث ِ جبریل کو ’’اُمّ السنۃ‘‘ قرار دیا گیا ہے اور یہ حدیث کی مختلف کتابوں میں مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منقول ہے. یہ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہاور صحیح مسلم میں حضرت‘عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے الفاظ کے فرق کے ساتھ وارد ہوئی ہے. صحیح بخاری کی روایت ملاحظہ فرمایئے: 

عَنْ اَبِی ہُرَیْرَۃَ ص قَالَ : کَانَ النَّبِیُّ  بَارِزًا یَوْمًا لِلنَّاسِ‘ فَاَتَاہُ جِبْرِیْلُ‘ فَقَالَ: مَا الاِْیْمَانُ؟ قَالَ: اَلْاِیْمَانُ اَنْ تُـؤْمِنَ بِاللّٰہِ وَمَلاَئِکَتِہٖ وَبِلِقَائِہٖ وَرُسُلِہٖ وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ‘ قَالَ : مَا الْاِسْلَامُ ؟ قَالَ : اَلْاِسْلَامُ أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکَ بِہِ شَیْئًا ‘ وَتُقِیمَ الصَّلَاۃَ ‘ وَتُؤَدِّیَ الزَّکَاۃَ الْمَفْرُوضَۃَ‘ وَتَصُومَ رَمَضَانَ ‘ قَالَ : مَا الْاِحْسَانُ؟ قَالَ : أَنْ تَعْـبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ‘ فَاِنْ لَمْ تَـکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّــہٗ یَرَاکَ… (۱
’’ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘فرماتے ہیں کہ ایک دن نبی مکرم ؐ لوگوں میں بیٹھے ہوئے تھے ‘اتنے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اورپوچھنے لگے : ایمان کسے کہتے ہیں؟آپؐ نے فرمایا: ’’ ایمان یہ ہے کہ تو اللہ اور اس کے فرشتوں کا اور اس سے ملنے کا اور اس کے پیغمبروں کا یقین کرے اور مر کر جی اٹھنے کو مانے‘‘ . انہوں نے پوچھا کہ اسلام کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا : ’’اسلام یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے کہ اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے ‘اور نماز کو قائم کرے‘ اور زکوٰۃ ادا کرے ا ور رمضان کے روزے رکھے‘‘. اُس نے پوچھا کہ احسان کیا ہے ؟آپ ؐ نے فرمایا: ’’احسان یہ ہے کہ تواللہ کی ایسی عبادت کرے جیسے کہ تو اُسے دیکھ رہا ہے ‘اور اگر یہ نہ ہوسکے تو وہ تو تجھے دیکھ ہی رہا ہے…‘‘

قرآن حکیم میں سورۃالمائدۃ کی آیت ۹۳ بعض اعتبارسے مشکل بھی ہے اور بہت کم حضرات نے اس کے مضمرات پر توجہ کی ہے. شراب کی حرمت کی جب آخری آیت نازل ہوگئی تو پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دلوں میں تشویش پیدا ہوئی کہ اب تک ہم پیتے رہے ‘ یہ چیز اگر نجس ہے ‘ مضر ہے‘ تو اس کے اثرات تو ہمارے وجود میں شامل ہوچکے ہیں. اسی طرح جو حضرات حرمت کے آخری یا حتمی حکم کے آنے سے پہلے فوت ہوچکے ان کا کیا ہوگا؟ اور جو اس دوران فوت ہوگئے ان کو توبہ کا موقع نہیں ملا ‘ان کا کیا ہوگا؟(یہی تشویش تحویل قبلہ کے موقع پر ہوئی تھی کہ 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب الایمان‘ باب سؤَال جبریل النبی ہماری سولہ مہینے کی نمازیں کس حساب میں درج ہوں گی؟ وہ تو قبلہ نہیں تھا‘ قبلہ تو اصل یہ بیت اللہ تھا‘تو ہماری سولہ مہینے کی نمازیں کیا ضائع ہو جائیں گی؟) جس طرح وہاں تسلی کرائی گئی تھی اسی طرح اس معاملے میں قرآن حکیم میں اہل ایمان کی تسلی کرائی گی: 

لَیۡسَ عَلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیۡمَا طَعِمُوۡۤا اِذَا مَا اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اَحۡسَنُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿٪۹۳﴾ 
(المائدۃ) 
’’جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے اُن پر کچھ گناہ نہیں اُس میں جو وہ پہلے کھاپی چکے‘ جب کہ انہوں نے تقویٰ کی روش اختیار کی اور ایمان لائے اور نیک اعمال کیے‘ پھر تقویٰ اختیار کیا اور ایمان لائے‘ پھر تقویٰ اختیار کیا اور درجۂ احسان پر عمل کیا.اللہ دوست رکھتا ہے ایسے محسنین کو.‘‘
تحویل قبلہ کے حوالہ سے فرمایا گیاتھا: 

وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیۡعَ اِیۡمَانَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴۳﴾ 
(البقرۃ) 
’’ اور اللہ ایسا نہیں کہ ضائع کردے تمہارا ایمان (نماز) ‘بے شک اللہ لوگوں پر بڑی شفقت رکھنے والا اور مہربان ہے.‘‘

جب اُس جانب رُخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم تھا تو رخ اُس طرف کرلیا ‘اور اب اِس جانب کا حکم ہے ‘چنانچہ اِدھر رُخ کر کے نمازیں ادا کی جائیں گی. اسی طرح جب شراب کی حرمت کا آخری حکم آگیا تو اس تشویش کو رفع کرنے کے لیے یہ آیت ِمبارکہ نازل ہوئی. اس میں واضح کر دیا گیا کہ وہ لوگ جو ایمان کے عملی تقاضوں کو پورا کرتے رہے‘ نیک کام کرتے رہے‘ ان پر کوئی حرج نہیں ہے جو کچھ بھی وہ پہلے کھا پی گئے. کسی شے کے آخری حکم کے نزول سے پہلے جو بھی ان کا عمل رہا ہے ‘ جو چیزیں استعمال کی ہیں ‘ان پر کوئی الزام نہیں. اس آیت میں تقویٰ کے تین درجے بیان ہوئے ہیں. تقویٰ گویا اس میں 
moving force یعنی آگے بڑھانے والی قوت ہے‘ جو انسان کو نیکی پر ابھارتی ہے. تقویٰ نے ان کے ایمان اور عمل صالح میں ایک خاص رنگ پیدا کر دیا . پھر ان میں مزید تقویٰ پیدا ہوا تو ان کا ایمان اس قانونی ایمان سے بڑھ کر یقین قلبی پر مبنی حقیقی ایمان بن گیا. پھر ان کے تقویٰ نے ان کو اگلے مرحلہ تک پہنچایا جو مرحلہ ٔ احسان ہے. وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ … اوراحسان کا درجہ تو محبوبیت ِخداوندی کا مقام ہے. تصوف کے لفظ نے ’’احسان ‘‘ کی اصطلاح کو ہمارے دینی لٹریچر سے بالکل خارج کردیا. مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ کی کتاب کا عنوان ہے ’’مقالاتِ احسانی‘‘ . لیکن عام آدمی احسان کے اصل معنی جانتا ہی نہیں. اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگوں کو معلوم نہیں کہ احسان کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ لوگوں کے ساتھ نیکی کا معاملہ کرنا چاہیے. بس یہ تصور سامنے ہے. جیسے ایک قاعدہ ہے کہ جہاں کوئی بدعت آئے گی سنت وہاں سے رخصت ہوجائے گی‘بدعت کسی نہ کسی جگہ سے سنت کو displace کر کے اپنی جگہ بناتی ہے‘ اسی طرح تصوف کی اصطلاح اس طرح چھاگئی کہ اس نے ہمارے شعور ‘ ہماری فکر اور ہماری زبانوں سے لفظ احسان کو خارج کردیا.

مزید برآں بعض چوٹی کے فلسفیانہ مباحث‘ جیسے ماہیت ِوجود‘ ماہیت ِزمان وغیرہ‘ جو مابعد الطبیعیات 
(Mataphysics) کے مشکل مسائل ہیں‘ صوفیہ کے ہاں زیر بحث رہے ہیں. اس لیے کہ ہمارے جو بڑے صوفیہ گزرے ہیں جو تصوف کے امام تھے‘ وہی بہت بڑے فلسفی بھی تھے. اس دور کے ایک بہت بڑے مصنف اور مؤلف جوکہ تصوف کے شدید مخالف ہیں‘ ایک مرتبہ میری ان سے گفتگو ہورہی تھی تو انہوں نے تسلیم کیا کہ اسلام کے اصل فلسفی صوفیہ ہی ہیں. واقعہ یہ ہے کہ فلسفہ بلند ترین منزل پر انہی صوفیہ کرام کے ہاں نظر آتا ہے. چنانچہ بدقسمتی سے بعض فلسفیانہ مباحث بھی تصوف کا جزوِ لازم بن گئے ہیں. جیسے وحدت الوجود اور وحدت الشہود درحقیقت ایک فلسفہ ہے اور اس کا اصل میں ’’احسان‘‘ سے کوئی تعلق نہیں‘ لیکن چونکہ فلاسفہ اورحکماء وہی صوفیہ ہیں لہٰذا یہ خلط مبحث پیداہوا. چنانچہ جن لوگوں کو فلسفہ کے پیچیدہ اور عمیق مباحث سے ذہنی مناسبت نہیں ہے انہوں نے فلسفہ اور تصوف کو گڈمڈ کر کے دونوں کا انکار کردیا. یہ مختلف اسباب ہیں جن کی بنا پر اسلام کی روحانی تعلیمات کا ایک عرض (dimension) ہمارے ذہنوں سے اوجھل ہو چکا ہے. چوںکہ اس دور میں فضا سائنسی عقلیت پسندی کی ہے کہ جو شے دیکھی جا سکتی ہو‘ محسوس کی جا سکتی ہو‘ چھوئی جاسکتی ہو‘ جو ہمارے حواس کی گرفت میں آسکتی ہو‘ جس کی ہم توثیق کرسکتے ہوں کہ ایسا ہوا ہے یا نہیں‘ جو ہمارے تجرباتی دائرے کے اندر آرہی ہو‘ بس توجہ اور دل چسپی اور بحث وتمحیص اسی کے بارے میں ہوتی ہے‘ لہٰذا ان تمام اسباب نے مل جل کر یہ نتیجہ نکالا کہ دین کی تعلیم کا یہ اہم ترین شعبہ جو بعض اعتبارات سے اصل لب ِلباب اور اصل مقصود قرار دیا جاسکتا ہے‘ اس دور میں ہماری نظروں سے اوجھل ہورہا ہے.