سلوکِ قرآنی کے تین مراحل

اگر شعور‘ ہوش‘ توجہ اور تنبہ ہوجائے تو اب تین مراحل ہیں جن سے گزرنا ہوگا. 

(۱) مجاہدہ مع النفس: 
سلوکِ قرآنی کا سب سے پہلا مرحلہ مجاہدہ مع النفس کا ہے. ہم یہ جان چکے ہیں کہ اصل شے ہماری باطنی کشمکش اور ہمارے نفس کی امّارۃ بالسُّوء ہونے کی کیفیت ہے. یہی ہے جو لوگوں کی اس ہلاکت کاباعث ہے کہ وہ زندہ ہوتے ہوئے حقیقت کے اعتبار سے مردہ ہیں‘اس لیے کہ ان کی باطنی صلاحیت سلب ہوچکی ہے اور وہ اب حیوانوں کا سا دیکھنا دیکھ رہے ہیں اور حیوانوں کا سا سننا سن رہے ہیں. انسانی دیدن اور انسانی شنیدن انہیں حاصل نہیں. اسی لیے اقبالؔ نے کہا ہے ؎

دم چیست؟ پیام است! شنیدی نہ شنیدی؟
در خاکِ تویک جلوۂ عام است! ندیدی؟
دیدن دگر آموز! شنیدن دگر آموز!

اقبالؔ ہی نے کہاتھا ؎

ہے ذوقِ تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں
غافل تو نرا صاحبِ ادراک نہیں ہے!

چنانچہ پہلا مرحلہ ہے مجاہدہ مع النفس. اس کے لیے تین اصلاحات ذہن میں ٹانک لیجیے:

۱.ضبط ِ نفس‘ ۲.تہذیب ِ نفس‘۳.تزکیۂ نفس. اس روح کو اگر پروان چڑھانا ہے‘ اگر اس کی ترقی پیش ِنظر ہے‘ اگر چاہتے ہیں کہ یہ بیدار ہو‘ اسے تقویت پہنچے ‘ ہمارے وجود پر غالب آئے تو اس کو اتنا قوی اور توانا کرنا ہوگا کہ یہ نفس پر قابو یافتہ ہوجائے. اس کی بہترین مثال ہمارے بزرگ دیتے چلے آئے ہیں کہ جسم درحقیقت مرکب(سواری) ہے‘ جبکہ ہمارا روحانی وجود‘ 
ہماری انا‘ یا علامہ اقبال کے فلسفے کے مطابق ہماری خودی راکب ہے‘ یہ گھوڑے کے اوپر سوار ہے اور یہ گھوڑا بہت منہ زور ہے. اگر راکب کمزور ہو تو وہ گھوڑے کے رحم وکرم پر ہے‘ وہ جدھر چاہے اسے لے جائے اور جس کھائی میں چاہے پٹخ دے. لیکن اگر راکب (سوار) تقویت پاگیا ہے‘ مضبوط ہے‘ توانا ہے‘ جما بیٹھا ہے تو پھر گھوڑا اس کے لیے سرمایہ (asset) ہے. وہ اسے استعمال کرے گا‘ خیرات وحسنات اسی کے ذریعے سے کمائے گا‘ اسی کے ذریعہ ِاکتساب اعمال کرے گا‘ اور یہی استعداد ہے جو اس کے بروئے کار آئے گی. یہ اُس گھوڑے کی مانند ہے جس پر آپ سوار ہوکر منزلِ مقصود کی طرف چلے جارہے ہیں‘ بشرطیکہ اس پر آپ کا کنٹرول ہو. اور اگر صورت برعکس ہوجائے اور گھوڑا آپ پر قابو پا لے ‘ چوںکہ آپ کمزور ہیں تو پھر آپ کا جوحشر ہوگا وہ سب کو معلوم ہے.یہ ضبط ِنفس ‘ تہذیب ِنفس اور تزکیۂ نفس اسی لیے ہیں کہ روح کا جسم پر کنٹرول رہے. قرآن حکیم میں آتا ہے: 

وَ اَمَّا مَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَہَی النَّفۡسَ عَنِ الۡہَوٰی ﴿ۙ۴۰﴾فَاِنَّ الۡجَنَّۃَ ہِیَ الۡمَاۡوٰی ﴿ؕ۴۱﴾ 
(النزعت) 
’’ اور جو کوئی ڈرتا رہا اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے اور روکتا رہا اپنے نفس کو خواہشات سے ‘تو جنت ہی اُس کا ٹھکانا ہے.‘‘

اور حدیث رسول  میں وضاحت ہے کہ : 

اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ (۱
’’اصل ہوش مند اور باشعور وہ لوگ ہیں جو اپنے نفس کو قابو میں رکھیں. (اسے اپنا محکوم اور مطیع بنائیں) اور عمل کریں موت کے بعد والی زندگی کے لیے.‘‘ 

اس حوالے سے عبادات کی پابندی بہت ضروری ہے. پہلی عبادت نماز ہے جواسلام کا رکن ہے اور ایمان کی تجدید وآبیاری کا اور غفلت سے بچانے کا بہترین ذریعہ ہے. پانچ وقت ماحول سے نکل کر عہد کو تازہ کرو. اپنے پروردگار کے حضور سجدے میں گرو ‘لوحِ جبیں تازہ کرو‘ اپنا عہد ِبندگی استوار کرو:
اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾ ’’ ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کریں گے اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور مانگیں گے. ‘‘ (۱) جامع الترمذی‘ کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع … باب ماجاء فی صفۃ اوانی الحوض… وکتاب الزھد لاحمد بن حنبل. تزکیہ ٔ نفس کے حوالے سے دوسری اہم عبادت روزہ کی ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ باقی تمام نیکیوں کا بدلہ تو دس سے ستر گنا تک ملے گا‘ لیکن اَلصَّوْمُ لِیْ وَاَنَا اََجْزِیْ بِہٖ (۱’’ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا‘‘. عبادات میں اس کی امتیازی شان یہ ہے کہ یہ نفس کو لگام دینے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے. یہ ضبطِ نفس اور تہذیب ِنفس کا بہترین طریقہ ہے. اسی لیے فرمایا گیا: الصَّوْمُ جُنَّۃ ٌ ’’روزہ ڈھال ہے‘‘ .نفس کے حملوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے تو روزے کی ڈھال اپنے ہاتھ میں لو. 

مزید برآں تزکیہ ٔ نفس کے لیے مؤثر ترین شے انفاقِ مال ہے. میں اس بارے میں اپنا احساس آپ کے سامنے لانا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص دوسری عبادات کے ڈھیر کے ڈھیر لگادے لیکن بخل اس کے اندر رہ گیا‘ مال کی محبت رہ گئی تو یہ بات قرآن وسنت کے واضح نصوص سے معلوم ہوتی ہے کہ تزکیہ نہیں ہوا. محض دھوکا اور فریب ہے جسے تزکیہ سمجھا جارہا ہے. کسی کو مشکل میں دیکھ کر اگر دل سے مدد کرنے کا جذبہ نہیں ابھرتا تو ابھی تزکیۂ نفس کی منزل بہت دور ہے. چنانچہ نبی اکرم نے فرمایا: 
مَنْ یُحْرَمُ الرِّفْقَ یُحْرَمُ الْخَیْرَ کُلَّہُ (۲’’جو شخص دل کی نرمی سے محروم کردیا گیا وہ کل ُکے کل ُخیر سے محروم کردیا گیا‘‘. اس لیے کہ نفس کی اصل بیماری ُ’’حب ِدُنیا‘‘ اور اس کی علامتّ ’’حب ِمال‘‘ہے. چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَ اَمَّا مَنۡۢ بَخِلَ وَ اسۡتَغۡنٰی ۙ﴿۸﴾وَ کَذَّبَ بِالۡحُسۡنٰی ۙ﴿۹﴾فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلۡعُسۡرٰی ﴿ؕ۱۰﴾ (الیل) ’’اور جس نے بُخل کیا اور بے پروا رہا‘ اور جھوٹ جانا اورجھٹلایا نیکی کو ‘سو اُس کو ہم سہج سہج پہنچا دیں گے سختی میں‘‘. قرآن نے یوںہی نہیں کہہ دیا: لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ۬ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ ﴿۹۲﴾ (آل عمران) ’’ تم نیکی کی حقیقت کو اُس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک خرچ نہ کرو اُس میں سے جسے محبوب رکھتے ہو‘ اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اللہ تبارک وتعالیٰ اُسے جاننے والا ہے‘‘. علاوہ ازیں آیت البِرّ میں فرمایا گیا:
 
لَیۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ الۡکِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ وَ اٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ ۙ 
(۱) صحیح البخاری . وصحیح مسلم . وجامع الترمذی‘ کتاب الصوم‘ باب ما جاء فی فصل الصوم.
(۲)سنن ابی داوٗد‘ کتاب الادب‘ باب فی الرفق. 
وَ السَّآئِلِیۡنَ وَ فِی الرِّقَابِ ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ ۚ وَ الۡمُوۡفُوۡنَ بِعَہۡدِہِمۡ اِذَا عٰہَدُوۡا ۚ وَ الصّٰبِرِیۡنَ فِی الۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیۡنَ الۡبَاۡسِ ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ ﴿۱۷۷﴾ (البقرۃ) 
’’بلکہ اصل نیکی اُس کی ہے جو ایمان لایا اللہ پر‘ یومِ آخر پر‘ فرشتوں پر‘ کتابوں پر اور انبیاء پر. اور دیا اُس نے مال اس کی محبت کے علی الرغم رشتے داروں کو‘ یتیموں کو‘ محتاجوں کو‘ مسافروں کو‘ سائلوں کو اور گردنوں کے چھڑانے میں. اور قائم کی اس نے نماز اور ادا کی زکوٰۃ. اور پورا کرنے والے اپنے عہد کے جبکہ کوئی باہم معاہدہ کرلیں. اور بالخصوص صبر کرنے والے فقر وفاقہ میں‘ تکالیف ومصائب پر اور جنگ کے وقت. یہی ہیں وہ لوگ کہ جو واقعۃً راست باز ہیں‘ اور یہی ہیں وہ لوگ جو حقیقۃً متقی ہیں.‘‘

یہاں نماز اور زکوٰۃ کوعلا حدہ اور ایتائے مال کو علا حدہ ذکر کیا گیا. ’’خرچ کرو اللہ کی راہ میں!‘‘یہ ہے اصل میں تزکیۂ نفس کا مؤثر ترین ذریعہ‘ اور اگرخدانخواستہ اس سے صرفِ نظر کیا گیا تو مطلوب حاصل نہیں ہوگا. ہر عبادت کی اپنی تاثیر ہے. ان عبادات میں اپنی اپنی نورانیت ہے‘ ہر ایک کی اپنی افادیت ہے. لہٰذا اگر ایتائے مال کو 
By pass کردیاگیا ‘ اگرحب ِمال کی کیفیت جوں کی توں رہی‘ اگر بخل باقی رہا‘ الَّذِیۡ جَمَعَ مَالًا وَّ عَدَّدَہٗ ۙ﴿۲﴾ (الہمزۃ) ’’ جس نے سمیٹا مال اور گن گن کر رکھا‘‘ کی کیفیت برقرار رہی تویہ وہ bottle neck ہے جو انسانی شخصیت کے ارتقاء میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے. اس رکاوٹ کو قرآن مشکل گھاٹی سے تعبیر کرتا ہے: 

فَلَا اقۡتَحَمَ الۡعَقَبَۃَ ﴿۫ۖ۱۱﴾وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡعَقَبَۃُ ﴿ؕ۱۲﴾فَکُّ رَقَبَۃٍ ﴿ۙ۱۳﴾اَوۡ اِطۡعٰمٌ فِیۡ یَوۡمٍ ذِیۡ مَسۡغَبَۃٍ ﴿ۙ۱۴﴾یَّتِیۡمًا ذَا مَقۡرَبَۃٍ ﴿ۙ۱۵﴾اَوۡ مِسۡکِیۡنًا ذَا مَتۡرَبَۃٍ ﴿ؕ۱۶﴾ 
(البلد) 
’’پھر بھی وہ اس گھاٹی کو عبور نہ کر سکا ‘اور تمہیں کیا پتا کہ وہ گھاٹی کیا ہے. کسی کی گردن چھڑا دینا‘ یا پھر کسی بھوک والے دن میں کھانا کھلادینا‘ کسی رشتہ دار یتیم کو یا کسی مسکین کو جو مٹی میں رُل رہا ہو .‘‘

اگر یہ کام نہیں کرسکے تو دوسری عبادات کے ڈھیر کے ڈھیر بھی تلافی نہیں کرسکتے. ہر عبادت کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے. جیسے آپ کو معلوم ہے‘ نمازیں آپ لاکھوں کروڑوں پڑھ لیں‘فرض روزے کا قائم مقام کوئی نماز نہیں بن سکتی. اسی طرح نماز اور روزہ آپ کتنا ہی کرلیں زکوٰۃ کے وہ قائم مقام نہیں بن سکتے. زکوٰۃ فرض ہے اورزکوٰۃ ہی دی جائے گی تو فرض ادا ہوگا. ہر شے کا 
اپنا مقام ہے. جہاں تک نماز کا تعلق ہے‘ وہ اصل میں تجدید ایمان کا مؤثر ترین ذریعہ ہے‘ ذکر اور یاددہانی ہے. اس کے بعد روزہ نفس کے تقاضوں کو لگام دینے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہے. ساتھ ہی نفس کا سب سے بڑا رذیلہ مال کی محبت ہے اور اس کا علاج ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ ہے. یہ ہے وہ جامع پروگرام جس سے یہ مجاہدہ مع النفس ہوگا. اس سے آپ نفس کے منہ زور گھوڑے کو لگام دیں گے. اس سے گویا آپ کاپہلا مرحلہ طے ہوگیا. 

(۲) حُبِّ ربّ : 
دوسرا مرحلہ ’’ حب ِربّ ‘‘یعنی پروردگار کی محبت ہے. جب آپ نے اپنے نفس ِامارہ کو لگام دے دی‘ اس کے جو رذائل ہیں ان سے اپنے آپ کو محفوظ کرلیا تواب آپ کے روحانی وجود کو جو ریلیف (relief) میسر آیا ہے‘ وہ اپنے رب کی جانب متوجہ ہوگا. چنانچہ‘غور کیجیے سورۃ البقرۃ کے تیئیسویں رکوع میں احکامِ صوم والی آیات کے فوراً بعد یہ آیت آرہی ہے: 

وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ ﴿۱۸۶﴾ 

’’اور جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو آپ کہہ دیجیے کہ میں تو قریب ہی ہوں. جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے میں اُس کی پکار کو سنتا ہوں‘ تو چاہیے کہ وہ میرا کہا مانیں اور مجھ پر ایمان رکھیں ‘ تاکہ وہ راہِ راست پر آجائیں.‘‘ 

اب یہ روح کو ریلیف ملا ہے‘ نفس کا بوجھ اس پر سے کم ہوا ہے‘ وہ دباؤ جس کے نیچے وہ سسک رہی تھی اس سے رستگاری ملی ہے تو وہ اپنے ربّ کی طرف متوجہ ہوگی. اب وہ جذبہ جو اس کے اندر متوارث 
(inherent) موجود ہے‘ وہ بروئے کار آئے گا. یعنی ؏ ’’اپنے مرکز کی طرف مائل ِپرواز تھاحسن ‘‘ اور جو کہا گیا ہے : کُلُّ شَیْئٍ یَرْجِعُ اِلیٰ اَصْلِہٖ (ہر شے اپنے اصل کی طرف لوٹتی ہے). اس روح کا اصل تعلق ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ ہے . (۱اس کے اندر (۱) اس موضوع پر محترم ڈاکٹر صاحبؒ علامہ اقبال کی یہ رُباعی سنایا کرتے تھے:

مرا دل سوخت بر تنہائی او ’’میرا دل جلتا ہے اُس کی تنہائی پر
کنم سامانِ بزم آرائی او اُس کی بزم آرائی کے لیے سامان کر رہا ہوں
مثالِ دانہ می کارم خودی را بیج کی طرح خودی کو پال رہا ہوں
برائے اُو نگہ دارم خودی را اُس کے لیے خودی کی نگہبانی کر رہا ہوں‘‘.
اور 
Plotinus کا قول ہے : ’’Flight of alone to the alone‘‘. 

تفصیل کے لیے دیکھیے محترم ڈاکٹر صاحبؒ کی سورۃ الحدید کی تفسیر پر مبنی کتاب ’’اُمّ المسبحات‘‘ (مرتب) 
ایک شوقِ لقاء بھی ہے‘ ایک محبت کا جذبہ بھی ہے‘ لیکن نفس کے تقاضوںکے تحت دبا ہوا ہے‘ جو اب تک ظاہر نہیں ہوا‘ اب وہ ابھر کر سامنے آئے گا. اس کو قرآن مجید کہتا ہے: وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ( البقرۃ:۱۶۵’’اور اہل ایمان اللہ کی محبت میں سب سے بڑھ کر ہیں‘‘.

واضح رہے کہ قرآن مجیدمیں جہاں بھی اللہ کی محبت کا ذکر آئے تو سمجھ لیجیے کہ اس کے اندر رسول کی محبت کا ذکر بھی موجود ہے. یہ وہاں مضمر ہے‘ اس کو ظاہر کیا جائے یا نہ کیا جائے. دو اعتبارات سے اللہ اور اس کا رسول ایک وحدت بن جاتے ہیں. اطاعت کے اعتبار سے اور محبت کے اعتبار سے. چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : 

قُلۡ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۳۲﴾ 
(آل عمران) 
’’کہہ دیجیے اطاعت کرو اللہ کی اور رسول ( ) کی‘ پس اگرتم رُو گردانی کرو گے تو اللہ ایسے کافروں کو پسند نہیں کرتا.‘‘

جبکہ سورۃ التوبۃ میں ارشاد ہوتا ہے : 

قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ وَ اِخۡوَانُکُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ وَ عَشِیۡرَتُکُمۡ وَ اَمۡوَالُۨ اقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۲۴﴾ 

’’کہہ دیجیے (اے نبی !) اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور بیویاں اور خاندان اور وہ مال جو تم نے بڑی محنت سے کمائے ہیں اور وہ تجارت جس میں تمہیں مندے کا خدشہ رہتا ہے اوروہ گھر جو تمہیں بڑے پسند ہیں‘ تم کو زیادہ محبوب ہیں اللہ سے‘ اُس کے رسول سے اور اُس کے راستے میں جہاد کرنے سے تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ لے آئے‘ اور اللہ ہدایت نہیں دیتا نافرمانوں کو.‘‘

معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول سے شدید ترین محبت اور اللہ سے ملاقات کا شوق واشتیاق مطالباتِ دین میں سے ہے. اس کے لیے نبی اکرم کے انتقال کے وقت کی کیفیت ذہن میں رکھیے. آپ کو معلوم ہے انبیاء ورسل کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اختیار ملتا ہے. چناںچہ حضورنے اپنے انتقال سے متصل قبل فرمایا:

لَنْ یُقْبَضَ نَبِیٌّ قَطُّ حَتّٰی یَرٰی مَقْعَدَہُ مِنَ الْجَنَّۃِ ثُمَّ یُخَیَّرُ (۱
’’کوئی پیغمبر اُس وقت تک وفات نہیں پاتا جب تک بہشت میں اپنا ٹھکانا نہیں دیکھ لیتا‘پھر اس کو اختیار دیا جاتا ہے (اگر چاہے تودنیا میں مزید رہے یا مراجعت اختیار کرے.) ‘‘

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس پر روپڑے . صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین حیران ہوگئے تھے کہ کیا معاملہ ہے؟ دراصل بندۂ مومن کے لیے یہ ایک بڑی لطیف حقیقت ہے کہ وہ اس دنیا کی زندگی میں رہنے پر کبھی راضی نہیں ہوتا. یہ 
’’سِجْنُ الْمُؤْمِن‘‘ ہے. یہ اس کے لیے liability ہے. یہ ایسے ہے جیسے کسی CSP آفیسر کو بلوچستان کے دور دراز کونے میں کہیں پر لگادیا جائے. چلا تو وہ جائے گا کہ ملازمت کا تقاضا ہے مگر مستقلاً رہنے پر راضی نہیں ہوگا. دنیا میں رہنا اللہ کے حکم سے ہے. یہ ہمارے لیے place of duty ہے. جب تک بھی اللہ ہمیں یہاں رکھے یہاں رہنے پر راضی رہنا ہے‘ مگریہاں زندگی کی طوالت کی آرزو یا تمنا نہیں ہونی چاہیے. قرآن میں یہودیوں کا وصف بیا ن ہوا ہے: یَوَدُّ اَحَدُہُمۡ لَوۡ یُعَمَّرُ اَلۡفَ سَنَۃٍ ۚ (البقرہ:۹۶’’اُن میں سے ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ کاش اُسے ہزار سال کی عمر دے دی جائے‘‘.اس کے برعکس بندۂ مؤمن کی شان تو وہ ہے جو اقبال نے بیان کی کہ ؎

نشانِ مردِ مؤمن با تو گویم
چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست
(۲
آخری کلمات جو حضور کی زبانِ مبارک سے ادا ہوئے وہ یہ تھے: 
اَللّٰہُمَّ الرَّفِیْقَ الْاَعْلٰی (۳’’اے اللہ ! اے بلند ترین رفیق!‘‘
گویا جو وقت بھی یہاں گزرا ہے وہ ایک فرضِ منصبی ادا کرنے کے لیے تھا. ورنہ حضور کا جو روحانی اور قلبی تعلق ذات باری تعالیٰ کے ساتھ تھا‘ ہمارے لیے تووہ تصور سے ماورا ہے. لیکن دنیا میں رہتے ہوئے کوئی لطیف حجاب تو تھا‘ کوئی پردہ تو تھانا. وہ بھی اتنا شاق گزر رہا ہے! یہ ہے محبت‘ یہ ہے شوقِ لقاء! اللہ سے ملاقات‘ اس کے حضور حاضری کا شوق 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب الدعوات‘ باب دعا؍ءِ النبی . 
(۲) ’’مردِ مؤمن کی نشانی میں تمہیں بتاؤں؟… جب موت آتی ہے تو اُس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہوتی ہے.‘‘ 

(۳) صحیح البخاری‘ کتاب الدعوات‘ باب دعاء النبی اَللّٰھُمَّ الرَّفِیْقَ الْاَعْلٰی. 
واشتیاق. اگر یہ نہیں ہے تو ایمان کی اصل لذت اور روح کی حیاتِ باطنی کا ا بھی کوئی احساس تک نہیں ہے. ان روحانی کیفیات کا تو مزا ابھی چکھا ہی نہیں اُس شخص نے جس میں یہ محبت خداوندی ایک زندہ حقیقت قرار نہیں پائی. یہ حرارت اگر اس کے باطن کے اندر نہیں ہے تو وہ باطنی کیفیات سے عاری ہے. 

لاالٰہ اِلا اﷲ کا مفہوم: 
صوفیہ کرام نے ’’لاالٰہ اِلا اللہ ‘‘کا جو مفہوم بیان کیا ہے صد فیصد درست ہے. توحید کی ایک سطح وہ ہے جس پر عوام ہوتے ہیں‘ وہ اس سے اُوپر نہیں جاسکتے. ان کے لیے ’’ لاالٰہ الا اللہ‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ ’’لا معبود اِلااللہ… لارازق اِلا اللہ‘‘… یعنی کوئی معبود نہیں‘ کوئی رازق نہیں‘ کوئی مشکل کشا نہیں‘ کوئی حاجت روا نہیں سوائے اللہ کے ‘‘. یہ توحید کا پہلا درجہ ہے. لیکن اس سے اگلی منزل جہاں سے روح کی حیاتِ باطنی کا آغاز ہوتا ہے وہ ہے ’’لا محبوب اِلااللہ… لامطلوب اِلا اللہ… لامقصود اِلا اللہ‘‘… یعنی مقصود ‘ مطلوب اور محبوبِ حقیقی کے درجے میں اللہ کے سوا کوئی نہ رہے. کوئی بھی اس مقام پر موجود ہے تویہ شرک کی ایک قسم ہے.اگر کوئی بھی محبت اس محبت کے برابر براجمان ہوگئی تویہی تو ہے جو اقبال نے کہا ہے ؎

بتوں سے تجھ کو اُمیدیں خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟

یہ ہیں درجہ ٔ احسان کے ثمرات. یہی وہ ثمرات ہیں جن کو ہمارے دین کی اصطلاح میں ’’ولایت باہمی‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے. یہ اللہ اور اُس کے بندے کی باہمی دوستی ہے. اللہ بھی ولی ہے اہل ایمان کا‘ازروئے الفاظِ قرآنی: 
اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ۬ؕ (البقرۃ:۲۵۷’’اللہ دوست ہے اہل ایمان کا‘ نکالتا ہے اُنہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف‘‘. اوریہ جو واقعی حقیقی ایمان رکھنے والے ہیں‘ جن کے قلوب میں اور جن کی شخصیتوں میں ایمان رچ بس گیا ہے تووہ اللہ کے دوست ہیں. اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿ۚۖ۶۲﴾الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ کَانُوۡا یَتَّقُوۡنَ ﴿ؕ۶۳(یونس) ’’آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ کے دوستوں کو نہ کوئی خوف لاحق ہوتا ہے نہ حزن. وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے تقویٰ اختیار کیا‘‘.انہیں خوف وحزن اس لیے نہیں ہے کہ وہ راضی برضائے رب ہیں ع ’’ہر چہ ساقی ٔماریخت عین الطاف است‘‘ (جو کچھ میرے ساقی نے میرے پیالے میں ڈال دیا وہی عین لطف وکرم ہے.) وہ اس کشمکش اور پیچ وتاب میں مبتلا نہیں ہوتے کہ یوں ہونا چاہیے تھا‘ یوں کیوں ہوگیا؟ یہ کس نے کردیا اور یہ مجھ پر کس نے ظلم ڈھادیا؟ بلکہ ’’ماشاء اللّٰہُ کان وما لم یشأ لم یکن‘‘ (جو اللہ نے چاہا وہ ہوگیا اور جو نہ چاہا وہ نہیں ہوا.) حدیث میں آیا ہے کہ تمام انسان مل کر اگر تمہیں کوئی نفع پہنچانا چاہیں تو نہیں پہنچا سکتے جب تک کہ اللہ کا اذن نہ ہو‘ اور تمام انسان مل کر تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہیں تو نہیں پہنچا سکتے جب تک کہ اللہ کا اذن نہ ہو. تو کس کا خوف ‘ کس سے امید‘ کس کا ڈر‘ کس بات کا حزن؟ جو ہوا اللہ کا فیصلہ اسی میں تھا : ؎

بروں کشید زپیچاکِ ہست وبود مرا
چہ عقدہ ہا کہ مقامِ رضا کشود مرا
(۱
یہ مقامِ رضا ہے. یعنی دوست کی رضا پر راضی رہنا ہے‘ جو اُس کا فیصلہ ہو قابل ِقبول ہے. اپنے فرائض اداکرنے کے لیے تن من دھن لگادینا اپنی جگہ ضروری ہے‘ لیکن اس میں بھی توکل صرف اللہ پر ہوکہ ہمارے کیے کچھ نہیں ہوگا‘ محنت کرنا ہماری ذمہ داری ہے‘ نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے. علاج کرنا سنت ہے ‘کریں گے ‘لیکن شفا دوا میں نہیں‘ اللہ کے اذن میں ہے. ہماری بھوک غذا سے نہیں مٹتی‘ اللہ کے اذن سے مٹتی ہے. پیاس پانی سے نہیں بجھتی‘ اللہ کے حکم سے بجھتی ہے. شیخ عبد القادر جیلانی ؒ نے اس کیفیت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے : 
’’لَا فَاعِلَ فِی الْحَقِیْقَۃِ وَلَا مُؤَثـِّرَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ ( اللہ کے سوا کوئی فاعل ِحقیقی‘ کوئی مؤثر ِحقیقی نہیں.) تو یہ حقیقت جان لینی چاہیے کہ ہر فعل کے اندر دو اجزاء (components) ہیں. انسان ’’کاسب ِاعمال‘‘ ہے‘جبکہ ’’خالق ِاعمال‘‘ اللہ ہے. چناںچہ انسان کے لیے ہر فعل پر اپنی نیت کے اعتبار سے اجروثواب یا عذاب وسزا ہے. لیکن ہو گا وہی جس میں اذنِ رب ہوگا. 

اسی طرح ’’باہمی مذاکرہ‘‘ ہے‘ تم اللہ کو یاد رکھو‘ اللہ تمہیں یاد رکھے گا: 
فَاذۡکُرُوۡنِیۡۤ اَذۡکُرۡکُمۡ ( البقرۃ:۱۵۲’’تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھوں گا‘‘. حدیث قدسی ہے میرا بندہ اگر مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تومیں بھی اسے اپنے جی میں یاد کرتا ہوں. میرا بندہ اگر مجھے محفل میں یاد کرتا ہے تومیں اُس کا اس سے اعلیٰ محفل میں ذکر کرتا ہوں یعنی ملائکہ مقربین کی (۱) ہست و بود کی الجھنوں سے مجھے باہر نکال دیا … کتنے ہی عقدے تھے جو مقامِ رضا کے حاصل ہوجانے سے حل ہو گئے. محفل میں . میرا بندہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں. میرا بندہ میری طرف بالشت بھر آتا ہے تو میں اس کی طرف ہاتھ بھر آتا ہوں. یہ ہے باہمی تعلق. اسی طرح نصرتِ باہمی کا معاملہ ہے : اِنۡ تَنۡصُرُوا اللّٰہَ یَنۡصُرۡکُمۡ ( محمد:۷’’اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا ‘‘.تم اس کے دین کا جھنڈا تھامو‘ اقامت دین کی جدوجہد میں تن من دھن لگائو ‘اللہ تمہاری مدد کرے گا. تویہ ہے درحقیقت محبت باہمی اور ولایت باہمی کا ایک ایسا تعلق جو ایمان کالُب ِ لباب اور حاصل ہے. ایمان جب اس درجے کو پہنچ جائے کہ آپ کے احساسات میں‘ آپ کے نقطہ ٔ‘ نظر میں ‘آپ کی باطنی کیفیات میں یہ تبدیلی واقع ہوجائے تو یہ ہے ایمان کا حاصل!