اسی بات کو ایک بہت عظیم‘ مضبوط اور مدلل فلسفے کی حیثیت سے ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم نے اپنی کتاب ’’Manifesto of Islam‘‘ میں پیش کیا ہے. (۱ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم نے علامہ اقبال کے فلسفہ ٔخودی کی قرآن کی نصوص کی روشنی میں تشریح وتوضیح کی ہے. معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اندر سب سے بڑا جذبہ محبت کا جذبہ ہے. وہ کسی شے سے‘کسی ہستی سے یا کسی نظریے اور خیال سے محبت کرتا ہے اور اس کے لیے بھوکا رہنا گوارا کرتا ہے. اس کی جبلت میں تو یہ ہے کہ وہ اپنے پیٹ کو بھرے‘ اپنی ذات کی بقاء (preservation of the self) کے تقاضے پورے کرے. لیکن اگر مقصد ِ زندگی کی لگن چھاجائے تو انسان فاقے برداشت کرتا ہے. یہ جذبہ کسی بھی مقصد کے لیے بروئے کار آسکتا ہے‘ وطن کے لیے‘ قوم کے لیے‘ کسی نظریے کے لیے‘ جیسے ماضی میں کمیونزم وغیرہ کے لیے استعمال ہوا ہے.

حیوانی جبلت 
(animal instinct) تو یہ ہے کہ اپنی جان کو بچایا جائے‘لیکن انسان کو ہم دیکھتے ہیں کہ کسی محبوب شے کے لیے جان قربان کر دیا کرتا ہے. اس کی کئی مثالیں موجود ہیں‘ جیسے جاپانیوں نے جنگ عظیم میں کیاکہ چھاتہ بردار بم باندھ کر ہوائی جہاز سے کودے اور بحری جہاز کی چمنی میں اتر گئے. انہیں معلوم ہے کہ خود ان کے پرخچے اڑ جانے ہیں مگر ان پر وطن کی محبت چھائی ہوئی ہے. انسان کا کوئی نہ کوئی مطلوب ہو‘ کوئی آدرش ہو‘ کوئی نصب العین ہو‘ (۱) اس کا ترجمہ ڈاکٹر ابصار احمد صاحب نے ’’منشورِ اسلام‘‘ کے نام سے کیا ہے‘ جو ’’حکمت قرآن‘‘ میں بالاقساط شائع ہوتا رہا ہے اور اب کتابی صورت میں دستیاب ہے. (مرتب) کوئی آئیڈیل ہو‘ کوئی اس کا محبوب ہو‘ کوئی اس کا مقصود ہو‘ اس کے لیے وہ محنت کرے‘ ایثار کرے‘ اس کے لیے وہ بھوکا رہے‘ اس کے لیے وہ راتوں کو جاگے‘ اس کے لیے وہ جان کا رسک لے‘ جان قربان کردے‘ اس کے لیے وہ پھانسی کے پھندے کو چوم کر گلے میں ڈالے‘ یہ انسان کا بلند ترین اور سب سے زیادہ قوی جذبہ ہے. یہ جذبہ اصل میں اللہ کی محبت کے لیے پیدا کیا گیا ہے‘ لیکن فکری پستی کی وجہ سے انسان معرفت ِرب تک نہیں پہنچ پاتا. تو جیسے شدید بھوک میں آپ کسی گھٹیا غذا کو بھی قبول کر لیںگے جسے عام حالات میں دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے ‘آپ اس کو اضطرار کی حالت میںکھالیں گے‘ اسی طرح جب انسان کی نگاہ اُس بلند ترین مطلوب و مقصود تک ‘ اُس highest ideal تک‘ اُس اصل محبوبِ حقیقی تک نہیں پہنچ سکتی تو وہ کسی اور شے کو اُس کی جگہ رکھ کر اس سے وہی محبت کرنے لگتا ہے جو دراصل اللہ سے ہونی چاہیے . اس لیے کہ اندر کے جذبہ کو تسکین (satisfaction) درکار ہے. اُسے تو کوئی نہ کوئی محبوب چاہیے.اگر خدا تک نہیں پہنچے گا تو کسی اور شے کو پوجے گا‘ وطن کو پوجے گا‘ قوم کو پوجے گا‘ اپنے ہی نفس کو پوجے گا‘ اپنے ہی ’’حریم ذات‘‘ کے گرد طوف کرتا رہے گا. ؎

می تراشد فکر ما ہردم خداوندے دگر
رُست ازیک بندتا افتاد دربندے دگر
(۱
اور ؎

اک تصور کے حسنِ مبہم پر ساری ہستی لٹائی جاتی ہے 
زندگی ترکِ آرزو کے بعد کیسے سانسوں میں ڈھالی جاتی ہے!

اگر وہ آرزو نہیں رہی‘ وہ امنگ نہیں رہی‘ کوئی نصب العین نہیں‘ کوئی آدرش نہیں‘ کوئی مطلوب و مقصود نہیں تو پھر یہ انسان محض ایک 
’’human vegetable‘‘ ہے. یہ اصطلاح (human vegetable) آج کل بہت استعمال ہوتی ہے. یعنی وہ لوگ جو طبعی طور پر مر چکے ہوں لیکن ان کو مشینوں سے زندہ رکھا گیا ہو کہ دل بھی چل رہا ہے‘ خون بھی گردش میں ہے اور گردوں کے لیے بھی مشین کام کر رہی ہے‘ وغیرہ. یہ لوگ سالہا سال تک اسی طرح پڑے رہتے ہیں.

الغرض یہ ہے وہ فلسفہ جو قرآن مجید میں سورۃ الحج کے آخری رکوع میں بایں الفاظ آیا ہے: 
ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الۡمَطۡلُوۡبُ ﴿۷۳﴾ ’’بہت ہی کمزور ہے طالب بھی اور مطلوب بھی!‘‘ طالب و مطلوب کا ایک باہمی تعلق (relation) ہوتاہے. انسان کسی بلندشے کو مطلوب (۱) ہمارا فکر ہر دم نیا خدا تراشتا رہتا ہے … ایک الجھن سے نکلتا ہے تو دوسری الجھن کا شکارہو جاتا ہے. ومقصود بناتا ہے تو اُس کی اپنی شخصیت بھی بلند ہوتی ہے‘ لیکن جب اس کی نگاہ پستی پر اٹک جاتی ہے تو پھر اس کی اپنی شخصیت بھی انتہائی پست رہ جاتی ہے. بلند آئیڈیل ہوگا تو اس کی شخصیت کو ترفع حاصل ہوگا. میں اس کی مثال دیا کرتا ہوں کہ اگر آپ کو ایک اونچی دیوار پر چڑھنا ہے‘ کمند آپ کے پاس ہے تو آپ کو اپنے زورِ بازو کے ذریعے پہلے کمند کو اونچا پھینکنا ہوگا. جتنی اونچی کمند اٹک جائے گی‘ اتنا ہی اونچا آپ جاسکیں گے. جتنا آپ کا آئیڈیل بلند ہوگا‘ اتنی ہی آپ کی شخصیت میں بلندی ہوگی. قرآن مجید میں جہاں فرمایا گیا کہ اہل ایمان کی شان تو یہ ہے کہ شدید ترین محبت اللہ سے کرتے ہیں‘ وہاں انسان کی مجبوری اور پستی کے اندر مبتلا ہونے کا ذکر بھی کیا گیا ہے: 

وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّتَّخِذُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَنۡدَادًا یُّحِبُّوۡنَہُمۡ کَحُبِّ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ؕوَ 
(البقرۃ:۱۶۵
’’انسانوں میں ایسے بھی ہیں جو اللہ کے سوا کسی اور کو مدمقابل بنالیتے ہیں ‘ پھر اس سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی اللہ سے کرنی چاہیے‘ اور وہ لوگ جو اہل ایمان ہیں وہ شدید ترین ہیں اللہ کی محبت میں.‘‘

محبوبِ حقیقی اللہ کو ہونا چاہیے تھا ‘لیکن وہاں تک رسائی نہیں ہوئی تو اس مقام پر کسی اور کو رکھ کر اس کو پوجنا شروع کردیا‘ اس سے محبت شروع کردی. یہ انسان کا فطری تقاضا ہے‘ جس کو وہ ہر صورت پورا کرتا ہے‘ کسی نہ کسی شے کو اپنا مطلوب ومقصود بنا کر . اقبالؔ نے کیا خوب کہا ہے ؏’’یزداں بہ کمند آور اے ہمت ِمردانہ!‘‘ (کمند کی تشبیہ میں نے یہیں سے لی ہے.) تمہاری کمند نیچے نہ کہیں اٹک کر رہ جائے‘ اپنی کمند ِآرزو‘ اپنی کمند ِطلب کو اتنا اونچا پھینکو کہ وہ ذات باری تعالیٰ تک تمہیں پہنچا سکے. ؏ ’’منزلِ ماکبریا است! ‘‘ہمارا مطلوب ومقصود ذات باری تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں. 

ایک غلطی کی اصلاح: 
یہاں ایک چھوٹا سا نکتہ مزید واضح کر دوں. بعض دینی جماعتوں کے ہاں لفظ ’’نصب العین‘‘ غلط طور پر استعمال ہوتا ہے. واضح رہے کہ اقامت ِ دین کی جدوجہد ہے‘ اللہ کے دین کی سربلندی کی کوشش ہمارا نصب العین نہیں ہے. دراصل نصب العین صرف اور صرف اللہ اور اس کی رضا ہے. البتہ اللہ نے جو حکم دیا ہے اس کو بجا لانا ہے. نماز پڑھنا فرض ہے‘ پڑھنی ہے. روزہ رکھنا فرض ہے‘ اس کو رکھنا ہے. روزہ نصب العین نہیں ہے‘ نصب العی ن اللہ کی رضا ہے. سوائے اللہ کی رضا کے کسی شے کو نصب العین کے درجے میں لانا درست نہیں. اگر کسی درجے میں لانا بھی چاہیں تو ’’فلاحِ اُخروی‘‘ کا لفظ استعمال کرلیں. لیکن کسی شے کو فرائض کی فہرست میں سے بلند کر کے نصب العین بنا دینا فکری غلطی ہے‘ اور پھر اس فکر کے نتائج بہت دور رس نکلتے ہیں. اقامت ِدین کی جدوجہد فرض ہے‘ اس کی کوشش ہمارے ذمہ ہے‘ تمام شرائط ولوازم کے ساتھ‘ لیکن اقامت دین ہمارا نصب العین نہیں ہے. یہ من جملہ دوسرے فرائض ِدینیہ کے ایک اہم ذمہ داری ہے. 

(۳)تقرب الی اللّٰہ: 
اس سلوکِ قرآنی کا تیسرا مرحلہ تقرب الی اللہ ہے . یہ تقرب الی اللہ کوئی زمانی یامکانی سفر نہیں ہے. صرف یہی ہے کہ جو حجابات طاری ہیں وہ اُٹھتے چلے جائیں اور قربِ معنوی اللہ سے حاصل ہوجائے. یہ فاصلہ زمین پر طے نہیں کرناہے‘ یا خلا میں کروڑوں میل جا کر اللہ سے قرب حاصل کرنا اس کا مفہوم نہیں ہے ‘بلکہ یہ ہے کہ انسان کا اللہ کے ساتھ ربط ِمعنوی مزید پختہ اور گہرا ہوجائے.