اب اس کے دو راستے ہیں. ایک راستہ دنیا میں یہ رہا ہے کہ مجاہدہ مع النفس ہی کے اندر شدید غلو کیا جائے. اس کے ذریعہ انسان ضبط نفس (self control) تک نہیں بلکہ نفس کشی (self annihilation) تک پہنچ جاتا ہے . اسے رہبانیت کہتے ہیں ‘ جس میں تجرد کی زندگی ہے‘جس میں دنیا سے انقطاع ہے‘ جس میں ترکِ دنیا ہے .اس میں ذکر کی انتہائی کثرت کے ساتھ مسلسل روزے اور شدید سے شدید تر چلّے ہیں. کئی کئی دن کے روزے چل رہے ہیں . روزہ نہ بھی ہو تو پابندی ہے کہ نہ کچھ کھانا ہے اور نہ کچھ پینا ہے. یہ دنیا کی تاریخ میں ایک بڑا طویل باب ہے ‘ جو آپ کو ہر دور میں ہر جگہ روحانیت کے نام پر نظر آجائے گا ‘جس کا جامع عنوان ہے’’ رہبانیت‘‘. جان لیجیے یہ راستہ اسلام کا نہیں ہے. بدقسمتی سے ہمارے ہاں بھی اس کا ایک عکس در آیاہے. الحمد للہ! ہمارے ہاں خانقاہی نظام میں بالکلیہ وہ نظام تو نہیں آیا لیکن اس کا ایک عکس ضرور پیدا ہوا ہے. قرآن نے تو رہبانیت کی پرزور نفی کی ہے. سورۃ الحدید میں فرمایا: 

وَ رَہۡبَانِیَّۃَۨ ابۡتَدَعُوۡہَا مَا کَتَبۡنٰہَا عَلَیۡہِمۡ اِلَّا ابۡتِغَآءَ رِضۡوَانِ اللّٰہِ فَمَا رَعَوۡہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا ۚ 
(الحدید:۲۷’’اور انہوں(عیسائیوں) نے رہبانیت کا طریقہ خود ایجاد کرلیا تھا ‘ہم نے تو اُن پر یہ بات لازم نہ کی تھی‘ مگر وہ اس سے اللہ کی رضا چاہتے تھے‘ پھر نہ نبھایا اُس کو جیسا کہ اُس کا حق تھا.‘‘

رسول اللہ نے دو ٹوک انداز میں فرمایا: 
لَا رَہْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلَامِ (۱’’اسلام میں کوئی رہبانیت نہیں ہے‘‘.نیزفرمایا: اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ (۲’’نکاح میری سنت ہے‘‘. آپؐ نے ان رحجانات کی اول روز ہی سے اصلاح فرمائی ہے. چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ عبد اللہ ابن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کے بارے میں حضور کو خبر دی گئی کہ ساری رات نماز میں کھڑے رہتے ہیں‘ کمر بستر سے لگاتے ہی نہیں‘ بیوی سے کوئی سروکار نہیں‘ تمام دن روزہ رکھتے ہیں. اس پر حضور نے انہیں بلا کر استفسار فرمایا: 

اَلَـمْ اُخْبَرْ اَنَّکَ تَقُوْمُ اللَّـیْلَ وَتَصُوْمُ النَّھَارَ؟ 
قُلْتُ : اِنِّیْ اَفْعَلُ ذٰلِکَ‘ قال: فَاِنَّکَ اِذَا فَعَلْتَ ذٰلِکَ ھَجَمَتْ عَیْنُکَ‘ وَنَفِھَتْ نَفْسُکَ‘ وَاِنَّ لِنَفْسِکَ حَقًّا‘ وَلِاَہْلِکَ حَقًّا ‘ فَصُمْ وَاَفْطِرْ ‘ وَقُمْ وَنَمْ (۳
’’ (اے عبداللہ!) یہ میں کیا سنتا ہوں‘ تم رات بھر قیام کرتے ہو اور دن بھر روزہ رکھتے ہو؟(حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں) میں نے عرض کیا: جی ہاں‘ ایسا ہی کرتا ہوں. اس پر آپ  نے فرمایا: ’’(ایسا مت کرو! اس لیے کہ) جب تم یہ طرزِعمل اختیار کرو گے تو تمہاری آنکھیں بوجھل ہوجائیں گی اور تم تھک جاؤ گے. یقینا تمہاری جان کا بھی حق ہے اور تمہارے گھر والوں کا بھی تم پر حق ہے ‘چنانچہ روزہ رکھو بھی اور نہ بھی رکھو اور رات کوقیام بھی کرو اور سوؤ بھی.‘‘

یہ تشدد‘ یہ غلو‘ اس کے اندر ریاضت کی شدت‘ جو دنیا میں رہبانی نظام کا جزو رہاہے‘ حضور نے سختی کے ساتھ اس رجحان 
(tendency) کو کم کیا ہے. 
اسی طرح مشہور واقعہ ہے کہ تین صحابہؓ ‘ میں یہی جذبہ اُبھرا‘ انہوں نے آکر نبی اکرم کی ازواجِ مطہراتl سے آپ کی نفلی عبادات سے متعلق معلوم کیاکہ حضور ہر 
(۱۷) فتح الباری لابن حجر ۹/۱۳‘ وفتح الباری لابن رجب ۱/۱۰۲
(۱۸) سنن ابن ماجہ‘کتاب النکاح‘ باب ما جاء فی فضل النکاح.
(۱۹) صحیح البخاری‘ کتاب الجمعۃ‘ باب ما یکرہ من ترک قیام اللیل لمن کان یقومہ. وصحیح مسلم‘ کتاب الصیام‘ باب النھی عن صوم الدھر . 
روز روزے رکھتے ہیں؟ رات کو کتنی عبادت کرتے ہیں؟ اب جو خبر دی گئی تو انہوں نے اسے اپنے اندازے سے کم پایا. خیر دل کو تسلی دی کہ حضور تو معصوم ہیں ‘ آپؐ سے کوئی غلطی نہیں ہوئی اور اگر بالفرضِ محال کوئی غلطی ہوبھی گئی ہوتو اللہ تعالیٰ معاف فرماچکا ہے: لِّیَغۡفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِکَ وَ مَا تَاَخَّرََ (الفتح:۲ہمارے لیے یہ کافی نہیں ہے. چناںچہ ایک نے طے کیا کہ میں ساری رات قیام کیا کروں گا اور کمر بستر سے نہیں لگائوں گا. دوسرے نے کہا میں تو ہر روز روزہ رکھوں گا اور کبھی ناغہ نہیں کروں گا .تیسرے نے کہا میں کبھی شادی نہیں کروں گا‘ تجرد کی زندگی بسر کروں گا‘ شادی بیاہ کا کھکیڑ مول نہیں لوں گا. حضور تشریف لائے تو آپ کو اس کی خبر دی گئی. آپ نے ان تینوں حضرات کو بلا کر دریافت فرمایا: کیا تم وہ لوگ ہوجنہوں نے ایسی ایسی باتیں کیں ہیں؟ اس کے بعد حضور کی زبان مبارک سے غیر معمولی الفاظ ادا ہوئے: ’’خدا کی قسم ‘میں تم سب سے بڑھ کر متقی ہوں‘ سب سے بڑھ کر اللہ کی خشیت رکھنے والا ہوں ‘ لیکن میرا طریقہ یہ ہے کہ میں رات کو سوتا بھی ہوں اور عبادت بھی کرتا ہوں‘ میں روزے بھی رکھتاہوں اور ناغہ بھی کرتا ہوں‘ اور میں نے عورتوں سے شادیاں بھی کی ہیں. پھر فرمایا: مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ (۱کان کھول کر سن لو ’’جس کو میری سنت پسند نہیں ہے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘. دراصل یہ طریقہ تو بدھ مت کے بھکشوؤں ‘ جین مت کے سادھوؤں اور عیسائی راہبوں کا ہے اور محمد ٌرسول اللہ نے بطور ادارہ (institution) اس راستے کو بندکر دیا ہے. 

دوسرا راستہ کیا ہے؟ اس تعبیر پر توجہ کی ضرورت ہے. یہ ہے فرائض کا التزام اور نوافل میں اعتدال.مجاہدہ مع النفس کے لیے یہ دونوں کام ضروری ہیں. اسلام میں اس مجاہدے کی کیفیت ‘ بھوک اور محنت برداشت کرنے‘ مشقتیں جھیلنے‘ لذائذ ِدنیا سے کنارہ کشی کرنے اور مصائب برداشت کرنے کو جدوجہد اور کوشش یعنی جہاد فی سبیل اللہ کی طرف منتقل کیا گیا ہے‘ تاکہ اس پوری قوت اور پوری توانائی 
(energy) کو کام میں لایا جائے. اسے معاشرے کی اصلاح‘ استحصال (exploitation) کے خاتمے‘ ظلم کے استیصال‘ عدل کے قیام‘ حق کا بول بالا کرنے اور نظامِ عدل و قسط کے قائم کرنے میں استعمال کیا جائے‘ تاکہ بہت سارے انسانوں کو اس بات کا موقع ملے کہ وہ اپنے ربّ سے لو لگاسکیں.جیسا کہ شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے (۱) سنن ابن ماجہ‘کتاب النکاح‘ باب ما جاء فی فضل النکاح. فرمایا ہے کہ جس معاشرے میں تقسیم دولت کا نظام غلط ہوجاتا ہے وہاں خرابیاں پیداہوتی ہیں. جہاں دولت کا ارتکاز ہو گا ‘ وہاں عیاشیاں ہوں گی‘ وہاںگلچھریاڑائے جائیں گے‘ اورجہاں فقر واحتیاج ہوگا وہاں انسان حیوان بن کر رہ جائے گا. اعلیٰ خیالات ‘ اللہ کی طرف توجہ و انابت اور اللہ کے ساتھ لو لگانے کا تصور‘ اس کے حاشیہ ٔخیال ہی سے باہر نکل جائیں گے اور انسان حیوان بن کر رہ جائے گا‘ لدو اونٹ یا کولہو کا بیل بن کر رہ جائے گا. حضور نے فرمایا ہے: کَادَ الْفَقْرُ اَنْ یَّـکُوْنَ کُفْرًا (۱’’قریب ہے کہ فقر کفر تک لے جائے‘‘ .عہد حاضر کے شاعر نے اس کی خوب ترجمانی کی ہے ؎

دنیانے تیری یاد سے بے گانہ کردیا
تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے!

بہرکیف قرآن مجید اس قوت کو جو مجاہدہ مع النفس سے حاصل ہوتی ہے‘ ظلم کے استیصال کے لیے استعمال میں لاتا ہے. قرآن کا فلسفہ جو میری سمجھ میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ عبادات جو فرض ہیں ان کا التزام اور نوافل کے اندر اعتدال - اوراس توازن کے ساتھ اصل قوت جو اس سے پیدا
(generate) ہوتی ہے اس کا رُخ ظلم کے استیصال کے لیے موڑ دیا جائے. لیکن لفظ ظلم کو سمجھ لیں کہ اس کا مفہوم کیا ہے. ظلم کے معنی حق تلفی کے ہیں اور سب سے بڑا ظلم شرک ہے ‘ازروئے الفاظِ قرآنی: اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۳﴾ ( لقمٰن) ’’بے شک شرک ظلم عظیم ہے‘‘ .اور پھر دوسرا ظلم ہے جو معاشرے میں تین سطحوں پر ہورہا ہے .یعنی سماجی سطح پر یہ اعلیٰ ہے‘یہ ادنیٰ ہے‘ یہ گھٹیا ہے‘ یہ َبڑھیا ہے‘ کوئی بے چارا پیدائشی نیچ پیدا ہوا ہے اور کوئی اونچا پیدا ہوا ہے.یہ تفریق (discrimination) ظلم ہے. پھر معاشی سطح پر کچھ لوگ استحصال کرنے والے (exploiters) ہیں اور کچھ لوگ وہ ہیں جو استحصال زدہ (exploited) ہیں. کہیں دولت کے انبار لگ رہے ہیں اور دولت مندوں کے کتوں کے لیے جو کچھ ہے وہ غریب کی اولاد کے لیے نہیں ہے. اسی طرح سیاسی سطح پر جبر ہے‘ حاکم اور محکوم کی تقسیم ہوگئی ہے‘ کچھ حکومت کررہے ہیں اور کچھ محکوم بن کر رہ گئے ہیں. علامہ اقبال نے کہا تھا ؏ ’’تمیز بندہ وآقا فسادِ آدمیت ہے‘‘. بندہ وآقا کی یہ تقسیم درحقیقت بہت بڑا ظلم ہے.

جان لیجیے‘ ظلم چاہے اللہ کے ساتھ ہورہا ہو بشکل شرک ‘یا ظلم سیاسی سطح پر ‘ سماجی سطح پر یا 
(۱) رواہ البیھقی فی شعب الایمان. بحوالہ مشکاۃ المصابیح‘ کتاب الآداب‘ .وضعیف 
الجامع الصغیر وزیادتہ للالبانی‘ ح:۴۱۴۸
جان لیجیے‘ ظلم چاہے اللہ کے ساتھ ہورہا ہو بشکل شرک ‘یا ظلم سیاسی سطح پر ‘ سماجی سطح پر یا معاشی سطح پر ہورہا ہو‘ قرآن چاہتا ہے کہ اہل ایمان میں وہ روحانی قوت پیدا ہو جو اس کی اصلاح کرسکے. چنانچہ فرمایا گیا: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ 
(النسائ:۱۳۵
’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ قائم رہو انصاف پر‘ گواہی دو اللہ کے لیے.‘‘
اور 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ 
(المائدۃ:۸
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ کھڑے ہو جائواللہ کے واسطے انصاف کی گواہی دینے کے لیے.‘‘

اسی طرح سورۃ الحدید میں ارسالِ رُسل اور ان کے ساتھ انزالِ کتاب و میزان کا مقصد یہ بیان فرمایا گیا : 
لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ (آیت ۲۵’’تاکہ لوگ عدل و قسط پر قائم ہوجائیں‘‘. ہاں! اگر نظامِ عدل وقسط قائم ہوگیاہے تو اب موقع ہے‘ اب آپ تقرب بالنوافل کے اندر جتنی کثرت چاہے کرلیں. اس لیے کہ عدل کا ماحول قائم ہوچکا ہے‘ حق دار کو حق مل رہا ہے‘ ہمارے ہاں بھی جن حضرات کا ابتداء ًاس بات کی طرف رحجان ہوا ‘وہ اسی لیے تھا کہ انہوں نے دیکھا کہ سیاسی نظام میں جو بگاڑ آگیا ہے اس کی اصلاح اب ناممکن ہے .بار بار کوشش کی گئی‘ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا اقدام ‘پھر حضرت نفس زکیہؒ کی کوشش‘ اس طرح کی مختلف کوششیں کی گئیں‘ لیکن پھر تو اس کے ساتھ ایک طرح سے مصالحت و مفاہمت کر لی گئی اور توجہ کو دوسرے کاموں کی طرف مرتکز کیا گیا. اس طرح سے ہمارے ہاں خانقاہی نظام وجود میں آیا . لیکن اس میں اصلاح ہوتی رہی. انیسویں صدی میں سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل شہیدرحمہما اللہ نے ایک عظیم الشان تحریک اٹھائی جو ’’تحریک شہیدین‘‘ کے نام سے معروف ہے. آپ کے علم میں ہوگا سید صاحبؒ سلوک کے تمام سلاسل یعنی نقشبندیہ‘ سہروردیہ‘ چشتیہ اور قادریہ میں بیعت کرنے کے بعد اپنے مسترشدین سے ’’سلسلہ محمدیہ ‘‘ میں بیعت لیتے تھے. سلسلہ محمدیہ جہاد وقتال والا سلسلہ ہے. اس میں اعلاء کلمہ اللہ کی جدوجہد کے دوران فقر بھی آئے گا‘ فاقہ بھی آئے گا‘ تکلیفیں بھی آئیں گی‘ یہاں روزے کی سی کیفیات بھی آئیں گی‘ یہاں نفس کے مرغوبات سے محروم ہونا پڑے گا ‘اورجو نفس کے لیے ناگوار چیزیں ہے‘ انہیں جھیلنا پڑے گا.

یہ مجاہدہ مع النفس کا اصل طریقہ ہے. ابتدا کی حد تک اس میںوہی عبادات‘ صلوٰۃو صوم وزکوٰۃ کااہتمام ہے ‘لیکن اس کے بعد اس کے رخ کو تبدیل کیا گیا ہے. میرے نزدیک یہی 
سلوکِ محمدی کی امتیازی شان ہے. ہمیں رجوع کرنا چاہیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف. ہم ان کو اپنا آئیڈیل سمجھیں گے ‘وہ سلوکِ محمدی کا اصل مرقع تھے. نبی اکرم  کی تربیت وتزکیہ کا اصل product اور نتیجہ تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شخصیات ہیں.