حقیقتِ زندگی

زندگی محض ’’عناصر میں ظہورِ ترتیب‘‘ (۱ہی کا نام ہے یا اِس ’’پردۂ زنگاری‘‘ میں کوئی حقیقتِ کُبریٰ ’’معشوق‘‘ بنی چُھپی بیٹھی (۲ہے؟ اِسی طرح موت زندگی کے خاتمے کا نام ہے یا یہ بجائے خود زندگی ہی کا ایک ’’وقفہ‘‘ ہے! ؏ : ’’یعنی آگے بڑھیں گے دم لے کر!‘‘ (۳
ہم اپنی زندگی کو ’’امروز .و.فردا‘‘ کے پیمانوں سے ناپیں اور ضسرت سے پکار اُٹھیں کہ:

؎ ’’عمرِدراز مانگ کے لائے تھے چار دن دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں‘‘

یا اسے ؏ : ’’جاوداں،پیہم دواں، ہر دم جواں‘‘ مانیں اور اپنی ابدیّت کے سرور انگیز تصوّر سے شاد کام ہوں؟ 
(۴
اس مسئلے کے حل کا سارا دارومدار اس پر ہے کہ آیا ہم محض ’’عالم محسوسات‘‘ تک محدود رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور صرف ’حواس خمسہ‘ کی محدود دریافتوں پر اکتفا کرتے ہیں یا عقل و وجدان کی قوتوں کو بھی کام میں لاتے ہیں اور ’’ اپنے من میں ڈوب کر .‘‘ ’’سراغِ زندگی‘‘ کو پانے کی سعی کرتے ہیں.
’عالمِ محسوسات‘ اور ’حواسِ خمسہ‘ تک محدود رہیے تو زندگی بس پیدائش سے موت تک کے وقفے کا نام ہے. قرآنِ مجید ان ’مومنین تجربہ و شہود‘ کے تصّورِ حیات کو ان الفاظ 

(۱) ’’زندگی کیا ہے، عناصر میں ظہور ترتیب موت کیا ہے، انہی اجزا کا پریشاں ہونا‘‘
(۲) ’’چرخ کو کب یہ سلیقہ ہے ستم گاری میں یعنی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں‘‘
(۳) ’’موت اِک زندگی کا وقفہ ہے یعنی آگے بڑھیں گے دَم لے کر‘‘
(۴) ’’تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ جاوداں، پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی‘‘ 
میں بیان فرماتا ہے: اِنۡ ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنۡیَا وَ مَا نَحۡنُ بِمَبۡعُوۡثِیۡنَ ﴿۲۹﴾ (الانعام) 
’’ہمارے لیے زندگی نہیں مگر یہی دنیا کی اور ہم کو پھر نہیں زندہ ہونا.‘‘

اور 
مَا ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنۡیَا نَمُوۡتُ وَ نَحۡیَا وَ مَا یُہۡلِکُنَاۤ اِلَّا الدَّہۡرُ ۚ (الجاثیہ) 
’’کچھ نہیں بس یہی ہمارا جینا ہے دنیا کا. ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور نہیں ہلاک ہوتے مگر صرف (گردش) زمانہ سے!‘‘
اور اُن کے ذہن کی پستی اور علم کی کوتاہی پر ان الفاظ میں تبصرہ فرماتا ہے: 

یَعۡلَمُوۡنَ ظَاہِرًا مِّنَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚۖ 
(الروم) ’’یہ لوگ صرف دنیوی زندگی کے ظاہر کو جانتے ہیں.‘‘
اور 
ذٰلِکَ مَبۡلَغُہُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ ؕ (النجم) ’’بس یہیں تک پہنچ ہے اُن کی علم میں!‘‘

کیا واقعی زندگی بس اِسی مختصر وقفے کا نام ہے؟ ہمارے حواسِ خمسہ یقیناً ولادت کے ما قبل اور موت کے ما بعد کے بارے میں بالکل لاچار و بے بس ہیں لیکن کیا عقلِ انسانی اسے باور کرتی ہے؟ اور وجدان اسے قبول کرتا ہے؟؟ ذرا آنکھیں بند کرکے اس وسیع و عریض کائنات کی عظمت و وسعت کا تصّور کرو! پھر سوچو کہ اِس کائنات کا مرکزی وجود، انسان ہے. سلسلۂ تخلیق کا کمال! ارتقائے حیات کی آخری منزل!
تو کیا اس کی حقیقت بس یہی کچھ ہے کہ بچپن کے لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ (۱اور بڑھاپے کے لِکَیۡلَا یَعۡلَمَ مِنۡۢ بَعۡدِ عِلۡمٍ شَیۡئًا ؕ (۲
کے مابین ایک تھوڑے سے وقفے کے 
(۱) اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ…الایہ(سورۃ الحدید) ’’جان لو کہ دنیا کی زندگی لعب و لہو ہے …… الخ‘‘ 
(۲) وَ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّرَدُّ اِلٰۤی اَرۡذَلِ الۡعُمُرِ لِکَیۡلَا یَعۡلَمَ مِنۡۢ بَعۡدِ عِلۡمٍ شَیۡئًا ؕ(سورۃ الحج) 

’’اور تم میں سے کچھ لوٹائے جاتے ہیں نکمّی عمر کو تاکہ نہ جانیں جاننے کے بعد کوئی چیز.‘‘ 
ہوش و شعور کا نام حیاتِ انسانی ہے گویا. ؏ : ’’اِک ذرا ہوش میں آنے کے خطاوار ہیں ہم!‘‘

جو کوئی ’’حیاتِ انسانی‘‘ کے اِس تصّور پر مطمئن ہو سکتا ہو، 
(۱وہ ہو. آخر سطحِ ارض پر انسان ہی تو نہیں بستے. لاتعداد حیوانات، چرند پرند بھی یہیں بس رہے ہیں، تو کون سے تعجّب کی بات ہے کہ خود انسانوں میں ایک گروہِ کثیر انسان نما حیوانوں ہی کا ہو! 

لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ 
(سورۃ الاعراف) 
’’وہ دِل رکھتے ہیں لیکن غور نہیں کرتے، آنکھیں رکھتے ہیں، پر دیکھتے نہیں، کان رکھتے ہیں، پر سُنتے نہیں. وہ حیوانوں کی مانند ہیں بلکہ اُن سے بھی گئے گزرے.‘‘

اپنی حقیقت سے بے خبر اور اپنی عظمت سے غافل یہ انسان نما حیوان در حقیقت ’’ اِک ذرا ہوش میں آنے کے‘‘ بھی بس مغالطے ہی میں مبتلا ہیں. وحیٔ الٰہی تو انہیں زندہ ہی تسلیم نہیں کرتی. 

فَاِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی وَ لَا تُسۡمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ 
(سوررۃ الرّوم) 
’’کیونکہ تم مُردوں کو نہیں سُنا سکتے اور نہ ہی بہروں کو اپنی پکار سُنا سکتے ہو.‘‘

جن کا حال یہ ہو کہ ؏ : ’’ رُوح سے تھا زندگی میں بھی تہی جن کا جسد‘‘. وہ کب ’حیاتِ انسانی‘ کے لطیف حقائق کا ادراک کر سکتے ہیں! قفسِ حواس کے اِن زندانیوں کو کون باور کرا سکتا ہے کہ ؎

’’ایسے کچھ تار بھی ہیں سازِ حقیقت میں نہاں چھو سکے گا نہ جنہیں زخمۂ مضرابِ حواس‘‘

ہاں! جن کا ذہن اس ’’چار دن‘‘ کی’’عمرِدراز‘‘ 
(۲پر مطمئن نہ ہوتا ہو، جن کے جسدِ خاکی میں (۱) وَ رَضُوۡا بِالۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ اطۡمَاَنُّوۡا بِہَا (سورۃ یونس) ’’اور راضی ہو گئے حیاتِ دنیوی سے اور اسی پر مطمئن ہو گئے.‘‘

(۲) عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں (ظفرؔ) 

حقیقی کروٹیں لے رہی ہو اور جنہیں خود اپنے اندر ہی کی کوئی چیز اپنی عظمت کی جانب اشارے کرتی محسوس ہو اُن کے ’’ضمیر‘‘ پر جب ’’نُزولِ قرآن‘‘ ہوتا ہے تو حقیقتِ حیات کی ’’ گرہ‘‘ (۱کُھلتی ہے اور وحیٔ الٰہی کی بدلی سے حقائق کی بارش ہوتی ہے تو اُن کی عقل و وجدان کی پیاسی زمین کو ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے اُسے بعینہ وہی چیز مل گئی جس کی اُسے پیاس تھی. اور تب وہ حیاتِ انسانی جو حواسِ خمسہ کی ’’بندگی‘‘ میں گُھٹ کر جوُئے کم آب نظر آتی تھی ذہنِ انسانی کے اُن کے چُنگل سے ’’آزاد‘‘ ہوتے ہی ایک ’’بحرِ بیکراں‘‘ (۲کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور یہ ’حیاتِ دنیوی‘ جو لا علمی اور بے خبری میں ’’ اصلِ حیات‘‘ قرار پا گئی تھی، سُکڑ اور سمٹ کر اصل کتابِ حیات کے محض ایک دیباچے اور مقدمے کی شکل اختیار کر لیتی ہے. صاعقۂ حق کو ند کر اعلان کرتا ہے: 

وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ ۘ 
’’اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے.‘‘
اور انسانوں کے اس عظیم ہجوم پر نظر ڈالتے ہوئے جو حیاتِ دنیوی کے لہو و لعب ہی کو اصلِ حیات قرار دیئے بیٹھا ہے، حسرت کے ساتھ پکارتا ہے. 

لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۴﴾ 
’’کاش کہ یہ جانتے!‘‘

پھر کبھی ڈانتا جاتا ہے: 

کَلَّا بَلۡ تُحِبُّوۡنَ الۡعَاجِلَۃَ ﴿ۙ۲۰﴾وَ تَذَرُوۡنَ الۡاٰخِرَۃَ ﴿ؕ۲۱﴾ 
(سورۃ القیامہ) 
’’کچھ نہیں بس تم دُنیا سے محبت کرتے ہو اور آخرت کو تج دیتے ہو.‘‘

اور کبھی شکوہ کیا جاتا ہے: 

بَلۡ تُؤۡثِرُوۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا ﴿۫ۖ۱۶﴾وَ الۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی ﴿ؕ۱۷﴾ 
(سورۃ الاعلی) (۱) تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کُشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشّاف (اقبال)
(۲) بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب اور آزادی میں بحرِ بیکراں ہے زندگی (اقبال) 

’’تم حیاتِ دنیوی کو ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہتر بھی ہے اور باقی رہنے والی بھی.‘‘

اللہ!اللہ! کیا انقلا ب ہے، کہاں یہ ذہین کی تنگی کہ بس یہی زندگی ہے اور کہاں یہ وسعتِ نظر کہ حیاتِ انسانی ابدی اور سرمدی ہے جس کی کوئی انتہا نہیں!(۱) کُجا یہ مایوس کن تصور کہ موت سلسلۂ حیات کا اختتام ہے اور کجا اِس حقیقت کا ادراک کہ موت تو اصل ’’شہرِ زندگی‘‘ کا ’’شاہ درہ‘‘ ہے.

بد قسمتی سے اُخروی زندگی کے ’ماننے والوں‘ میں بھی بہت کم بلکہ شاذ ہی ایسے ہیں جو اُس کے ’جاننے والے ‘ ہوں. اُس کا ’ماننا‘ جس قدر آسان ہے ’جاننا‘ اُسی قدر دشوار ہے. ’ماننا‘ تو محض توارث سے بھی مل جاتا ہے لیکن ’جاننے‘ کے لئے اپنے ظرفِ ذہنی کو وسیع و عمیق کرنے کی ضرورت ہے. اور اس کا موقع آج کی مادہ پرست دنیا میں کسے نصیب ہے!

ماننے والوں کی ایک غالب اکثریت نے ’حیاتِ دُنیوی‘ کو اصل کتاب ’جان‘ کر ’حیاتِ ا‘خروی‘ کو بس اس کے تتمّے کی حیثیت سے ’مانا‘ ہے. حالانکہ ’جانناُ یہ چاہیے کہ اصل کتابِ حیات تو موت کے بعد کھلنے والی ہے. یہ حیاتِ دُنیوی تو بس اُس کا ایک دیباچہ ہے یا مقدمہ! وہ حقیقت ہے اور یہ محض اُس کا ایک عکس. وہ ابدی ہے اور لامتناہی اور یہ عارضی ہے اور مختتم، وہ حقیقی اور واقعی ہے اور یہ اُس کے مقابلے میں محض کھیل تماشا بلکہ ’’متاعِ غرور‘‘ ..... آیاتِ بیّنات! 

وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا مَتَاعٌ ﴿٪۲۶﴾ 
(سورۃ الرعد) 
’’اور دنیا کی زندگی کچھ نہیں آخرت کے آگے مگر متاعِ حقیر.‘‘ 

فَمَا مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِیۡلٌ ﴿۳۸﴾ 
(سورۃ التوبہ) (۱؏ ’’تیری جو ابتدا نہیں، میری بھی انتہا نہیں!‘‘ ’’سو کچھ نہیں نفع اٹھانا دنیا کی زندگی کا آخرت کے مقابلے میں مگر تھوڑا.‘‘ 

وَ مَا ہٰذِہِ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا لَہۡوٌ وَّ لَعِبٌ ؕ 
(سورۃ العنکبوت) 
’’ اور یہ دنیا کا جینا تو بس جی بہلانا اور کھیلنا ہے.‘‘ 

وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ ﴿۱۸۵﴾ 
(سورۃ الحدید و آلِ عمران) 
’’اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے.‘‘

اِ سی حقیقت پر شاہد ہیں.
_______________________________
لیکن ’حیاتِ دُنیوی‘ کی یہ ساری بے بضاعتی اور کم مائگی ’حیاتِ اُخروی‘ کے مقابلے ہی میں ہے. ورنہ بجائے خود یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے. ذرا غور کرو جو کتابِ حکمت ’’موت‘‘ کو بھی ایک مثبت حقیقت قرار دے، جو ’حیات‘ ہی کی طرح تخلیق کے مراحل سے گزری ہے 
(۱، وہ حیاتِ دنیوی کو کب بے حقیقت ٹھرا سکتی ہے. یہ بے حقیقت صرف اُس وقت بنتی ہے جب اس کا تقابل حیاتِ اُخروی سے کیا جائے اور متاعِ غرور اُس وقت قرار پائی ہے جب نگاہیں اُس پر اِس طور سے مرکوز ہو جائیں کہ دل و دماغ حیاتِ اُخروی سے محبوب ہو جائیں. یہی رمز ہے قرآن حکیم کے اِس تبصرے میں کہ: یَعۡلَمُوۡنَ ظَاہِرًا مِّنَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚۖ یہ مومنینِ حیاتِ دُنیوی، خود حیاتِ دُنیوی کی حقیقت سے کب واقف ہیں. اِس کا بھی بس ’’ظاہر‘‘ ہی اُن کی نگاہوں کے سامنے ہے خود اس کی حقیقت آشکارا ہو جائے تو حیاتِ انسانی کے جملہ حقائق تک رسائی کی راہیں روشن ہو جائیں.
قرآن حکیم نے ’’حیاتِ دنیوی‘‘ کو ’حیاتِ انسانی‘ کا ایک امتحانی وقفہ قرار دیا ہے: 

خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ 
(سورۃ الملک) (۱) خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ (سورۃ الملک) 
’’بنایا جینا اور مرنا تاکہ تم کو جانچے کون تم میں اچھا کرتا ہے کام. ‘‘(ترجمہ شیخ الہندؒ ) 
بنایا جینا اور مرنا تاکہ تم کو جانچے کون تم میں اچھا کرتا ہے کام.
یعنی یہ امتحان گاہ ہے، نتائج آخرت میں برآمد ہوں گے. ؎

قلزمِ ہستی سے تو ا‘بھرا ہے مانندِ حباب اِس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی
یہ گھڑی محشر کی ہے، تو عرصۂ محشر میں ہے پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے

اور نبی اکرم  نے دنیا کو آخرت کی کھیتی سے تعبیر فرمایا ہے 
اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْاٰخِرَۃِ ..... غرض یہ کہ آخرت سے ملا کر دیکھو تو حیاتِ دُنیوی بھی ایک ٹھوس حقیقت ہے، بصورتِ دیگر اس کا کوئی حقیقی وجود ہی نہیں رہ جاتا.
آخرت سے قطعِ نظر، حیاتِ دنیوی کی حقیقت اس کے سوا اور کیا ہے کہ: 

اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ وَّ زِیۡنَۃٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیۡنَکُمۡ وَ تَکَاثُرٌ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ ؕ 
(سورۃ الحدید) 
’’جان رکھو کہ دنیا کی زندگی یہی ہے کھیل اور تماشا اور بناؤ اور بڑائیاں کرنی آپس میں اور بہتات ڈھونڈنی مال کی اور اولاد کی.!!‘‘
لیکن بچپن کے کھیل کود، نوجوانی کی آرائش و زیبائش اور بناؤ سنگھار، شباب کے فخر و مباہات اور کہو لت کے تکاثُرِ اموال و اولاد کے ان ہی ادوار سے گزرتے ہوئے ’’ اک ذرا ہوش میں آنے‘‘ سے حیاتِ دنیوی ایک حقیقتِ کُبریٰ اور نعمتِ غیر مترقبہ کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے. اور اگر یہ ہو جائے تو بس یہی حاصلِ حیات ہے. اگرچہ ایک درد ناک حقیقت ہے کہ یہ ’’ہوش‘‘ کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے. 
ۚ وَ مَا یُلَقّٰہَاۤ اِلَّا ذُوۡحَظٍّ عَظِیۡمٍ ﴿۳۵﴾ (۱
ہوش میں آکر اگر حقیقت کی کوئی جھلک دیکھ پاؤ اور پھر اُسی کے رُخِ زیبا کے پرستار اور اُسی کی زُلفِ گیرہ کے اسیر ہو جاؤ تو بس یہی سرمایۂ حیات ہے، پھر جب تک یہاں رہو گے چین اور سکون سے رہو گے اور 
اَحَقُّ بِالۡاَمۡنِ (۲قرار پاؤ گے، موت حجلۂ عروسی (۱) ’’اور یہ بات ملتی ہے اُسی کو جس کی بڑی قسمت ہو.‘‘ (سورۃ حم السجدہ) (ترجمہ شیخ الہندؒ ) 
(۲) فَاَیُّ الۡفَرِیۡقَیۡنِ اَحَقُّ بِالۡاَمۡنِ ۚ (سورۃ الانعام) 
میں داخلے سے زیادہ خوش آئند نظر آئے گی اور اُس کا استقبال مسکراتے ہوئے کرو گے ؎

نشانِ مردِ مومن باتو گویم چوں مرگ آید تبسُّم برلبِ اوست
(۱
اور وہاں اُٹھو گے تو اِس حال میں کہ: 

نُوۡرُہُمۡ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ 
(سورۃ الحدید و سورۃ التحریم) 
’’اُن کی روشنی دوڑتی ہو گی اُن کے آگے اور اُن کے داہنے.‘‘

اور پھر ابدلآباد تک امن اور سکون ہی میں نہیں رہو گے بلکہ تمھاری مشاہدۂ حق کی لحظ بہ لحظ بڑھتی ہوئی پیاس کو آسودگی عطا کی جائے گی. یہاں تک کہ تم ’’حقیقت الحقائق‘‘ اور ’’جانِ جاناں‘‘ کا مشاہدہ کرو گے! 

وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ ﴿ۙ۲۲﴾اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ ﴿ۚ۲۳﴾ 
(سورۃ القیامہ) 
’’کتنے منہ اُس دن تازہ ہیں اپنے رَب کی طرف دیکھنے والے.‘‘

اور اگر ہوش میں نہ آئے، زمینی خواہشات (۲) ہی میں غلطاں و پیچاں رہے اور اوندھے (۳) منہ پڑ کر پستی ہی پر نگاہوں کو جمائے رکھا اور یہاں کی جھوٹی مسرتوں اور آسودگیوں ہی کی تلاش میں سرگرداں رہے تو یہ زندگی تمناؤں اور آرزؤں کے 
بَحۡرٍ لُّجِّیٍّ میں دیوانہ وار ہاتھ، پاؤں مارتے ہی بیت جائے گی، جہاں ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ ؕ کے سوا کچھ نہیں. 

اَوۡ کَظُلُمٰتٍ فِیۡ بَحۡرٍ لُّجِّیٍّ یَّغۡشٰہُ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ سَحَابٌ ؕ ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ ؕ 
(سورۃ النور) (۱) تمہیں بتاؤں کہ مردِ مومن کی نشانی کیا ہے؟ جب موت کا وقت آتا ہے تو اس کے ہونٹوں پر مسکڑاہٹ ہوتی ہے. اقبالؔ 

(۲) وَ لٰکِنَّہٗۤ اَخۡلَدَ اِلَی الۡاَرۡضِ وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ ۚ (سورۃ الاعراف) 

’’مگر وہ تو ہو رہا زمین کا اور پیچھے ہو لیا اپنی خواہشوں کے.‘‘ (ترجمہ شیخ الہند) 

(۳) اَفَمَنۡ یَّمۡشِیۡ مُکِبًّا عَلٰی وَجۡہِہٖۤ اَہۡدٰۤی اَمَّنۡ یَّمۡشِیۡ سَوِیًّا عَلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ ﴿۲۲﴾(سورۃ الملک) 

’’بھلا ایک جو چلے اُوندھا اپنے منہ کے بل وہ سیدھی راہ پائے یا جو چلے سیدھا ایک راہ پر‘‘ 
’’یا جیسے اندھیرے گہرے دریا میں چڑھی آتی ہے اس پر ایک لہر، اس پر ایک اور لہر اور اس پر بادل، اندھیرے ہیں ایک پر ایک.‘‘

پھر مرو گے اُس پیاسے کی موت جو سَراب کو پانی سمجھ کر دیوانہ وار دَوڑتا رہا. حتّٰی کہ انتہائی حسرت ویاس کی حالت میں جان دے دی. 

وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَعۡمَالُہُمۡ کَسَرَابٍۭ بِقِیۡعَۃٍ یَّحۡسَبُہُ الظَّمۡاٰنُ مَآءً ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَہٗ لَمۡ یَجِدۡہُ شَیۡئًا وَّ وَجَدَ اللّٰہَ عِنۡدَہٗ فَوَفّٰىہُ حِسَابَہٗ ؕ 
(سورۃ النور) 
’’اور جو لوگ منکر ہیں اُن کے کام جیسے ریت جنگل میں ، پیاسا جانے اُس کو پانی یہاں تک کہ جب پہنچا اس پر اس کو کچھ نہ پایا اور اللہ کو پایا اپنے پاس تو اس نے پورا چکا دیا اس کا حساب.‘‘

اور وہاں اٹھو گے اِس حال میں کہ زبان پر 
لِمَ حَشَرۡتَنِیۡۤ اَعۡمٰی (۱کا شکوہ ہو گا. اور پھر رہو گے ابدالآباد تک اِس حال میں کہ نہ زندوں میں ہو گے نہ مُردوں میں. 

ثُمَّ لَا یَمُوۡتُ فِیۡہَا وَ لَا یَحۡیٰی ﴿ؕ۱۳﴾ 
’’ پھر نہ مرے گا اُس میں نہ جئے گا.‘‘

نہ عذاب کی سختی جینے دے گی اور نہ موت ہی آئے گی کہ اُس سے چھٹکارا دلادے. 

لَا یَذُوۡقُوۡنَ فِیۡہَا الۡمَوۡتَ 
’’نہ چکھیں وہ اُس میں موت.‘‘

گویا دنیا اور آخرت میں تضاد نہیں توافق ہے! غلط سمجھا جنہوں نے انہیں ایک دوسرے سے مختلف سمجھا. یہ دونوں باہم دگر پیوست وہم آغوش ہیں، ایک ہی ’حیاتِ انسانی‘ کا تسلسل ان میں جاری ہے. جس نے یہاں دیکھا وہی وہاں بھی دیکھے گا، جو یہاں 
’’اعمیٰ‘‘ رہا وہ وہاں ’’اعمیٰ‘‘ ہی نہیں بلکہ اَضَلُّ سَبِیۡلًا ہو گا. 

وَ مَنۡ کَانَ فِیۡ ہٰذِہٖۤ اَعۡمٰی فَہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ اَعۡمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیۡلًا ﴿۷۲﴾ 
(سورۂ بنی اسرائیل) (۱) اے رب کیوں اٹھایا تو نے مجھے اندھا؟ (سورۂ ظٰہٰ)
(۲) سورۃ الاعلیٰ (۳) (سورۃ الدخان) 
’’اور جو کوئی رہا اس جہاں میں اندھا سو وہ پچھلے جہان میں بھی اندھا ہو گا اور بہت دُور پڑا ہوا راہ سے.‘‘
اور حقائق سے جیسے یہاں محبوب رہا ویسے ہی ’حقیقتِ کُبریٰ‘ کے مشاہدے سے وہاں محروم رہے گا: 

کَلَّاۤ اِنَّہُمۡ عَنۡ رَّبِّہِمۡ یَوۡمَئِذٍ لَّمَحۡجُوۡبُوۡنَ ﴿ؕ۱۵﴾ 
(سورۃ المطففین) 
’’کوئی نہیں! وہ اُس دن اپنے رب سے روک پائیں گے.‘‘

دیکھی اس حیاتِ مُستعار کی عظمت! اور اس ’’اک ذرا ہوش میں آنے‘‘ کی اہمیت تبھی تو وحیٔ الٰہی بار بار پکارتی ہے: 
لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿﴾ 
________________________
قرآن حکیم بار بار پوچھتا ہے: 

ہَلۡ یَسۡتَوِی الۡاَعۡمٰی وَ الۡبَصِیۡرُ ؕ 
(سورۃ الانعام) ’’کب برابر ہو سکتا ہے اندھا اور دیکھنے والا.‘‘ 
ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ ؕ 
(سورۃ الزمر) ’’کوئی برابر ہوتے ہیں سمجھ والے، اور بے سمجھ.!!‘‘

حقیقت یہ ہے کہ اصل فرق ’علم ‘ اور ’جہل‘ ہی کا تو ہے. بالکل صحیح کہا تھا جس نے کہا تھا: ’’علم نیکی ہے اور جہالت بدی‘‘ انسانوں کے اِس جمِّ غفیر پر نگاہ ڈالو جو زمین میں بس رہا ہے اور دیدۂ بینا کو وا کرو. یہ ساری جہل ہی کی تو بساط پھیلی ہوئی ہے! 

کون سے تعجّب کی بات ہے اگر پیدائش سے موت تک کے وقفے ہی کو ’زندگی‘ سمجھنے والے انسان نما حیوانوں کا یہ ہجوم چھوٹی چھوٹی چیزوں پر لڑے اور کٹ مرے، ایک دوسرے پر جھپٹے اور غرّائے. بالکل ٹھیک دیکھا تھا اُس صاحبِ چشمِ حقیقت بین نے جس نے انسانوں کی بستی میں بجائے انسانوں کے کُتّوں، بھیڑیوں اور 
سُؤروں کو چلتے پھرتے دیکھا تھا (۱اِنۡ ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنۡیَا کے جہلِ مرکب کے بطن سے حرص و لالچ، حسد وبغض، غیظ و غضب، دشمنی و عداوت کے سوا اور کیا جنم پا سکتا ہے؟ یہ جھوٹی مسّرتوں اور آسودگیوں کی تلاش میں سر گرداں، حقیر سی آرزؤں اور تمنّاؤں کے پھندوں میں گرفتار اور طولِ امل کے سراب پر دم توڑتے ہوئے انسان اسی تصورِ حیات کا شاہکار تو ہیں! ذرا سوچو اس جہل نے ’’ احسنِ تقویم‘‘ میں تخلیق پائے ہوئے انسان کو کیسے ’’ اَسۡفَلَ سٰفِلِیۡنَ‘‘ بنا کر رکھ دیا ہے. 

لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫﴿۴﴾ثُمَّ رَدَدۡنٰہُ اَسۡفَلَ سٰفِلِیۡنَ ۙ﴿۵﴾ 
(سورۃ التین) ’’ہم نے بنایا آدمی بہترین اندازے پر، پھر پھینک دیا اُس کو نیچوں سے نیچے.‘‘

یہ کیسی چھوٹی چھوٹی اور حقیر سی چیزوں کو پا کر خوش ہی نہیں ہو جاتا اترانے لگتا ہے اور اکڑ کر چلنا شروع کر دیتا ہے اور کتنی چھوٹی تکالیف اور محرومیوں پرحسرت ویاس کی تصویر بن کر رہ جاتا ہے. 

وَ اِذَاۤ اَنۡعَمۡنَا عَلَی الۡاِنۡسَانِ اَعۡرَضَ وَ نَاٰ بِجَانِبِہٖ ۚ وَ اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ کَانَ یَــُٔوۡسًا ﴿۸۳﴾ 
(سورۂ بنی اسرائیل) 
’’اور جب ہم آرام بھیجیں انسان پر تو ٹال جائے اور بچائے پہلو اور جب پہنچے اُس کو بُرائی تو رہ جائے مایوس ہو کر.‘‘

’جہل‘ کے یہ سارے شاہکار، تمھاری نگاہوں کے سامنے ہیں اور اُن کا مشاہدہ تم 
مولانا احمد علی لاہوریؒ کا مشہور واقعہ ہے کہ جوانی کے دور میں ایک روز کشمیری بازار میں گھوم رہے تھے کہ ایک مجذوب نے ان سے کہاکہ ’’میں کسی انسان سے ملنا چاہتا ہوں. کیا تم پتہ بتا سکتے ہو؟‘‘ مولانا فرماتے ہیں کہ اس پر میں نے کہا کہ ’’کیا تمہیں اس بھرے بازار میں کوئی انسان نظر نہیں آتا؟‘‘ جواباََ اس مجذوب نے چاروں طرف نگاہ گھما کر کہا: ’’کہاں ہیں انسان؟‘‘ مولانا فرماتے ہیں کہ اس پر دفعتہََ خود میری کیفیت یہ ہو گئی کہ بازار میں چاروں طرف انسانوں کے بجائے کُتّے ، اور بھیڑیئے، بندر اور خنزیر ہی نظر آنے لگے. یہ کیفیت بس ٹھوڑی ہی دیر قائم رہی. اس کے بعد پھر بازار انسانوں سے بھرا نظر آنے لگا، اور وہ مجذوب بھی نظروں سے غائب ہو گیا! بچشمِ سَر کر سکتے ہو لیکن ’علم‘ کے ’پیکر‘ کو دیکھنے کے لیے تمھیں اپنی چشمِ تصور کو وا کرنا ہو گا. ذرا اندازہ تو کرو اس ذہن کی وسعت کا جو حیاتِ دنیوی کو بس ایک سفر کا درجہ دے، جس کی منزل موت کی سرحد سے آگے، بہت آگے ہو،؏ ’’ پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی!‘‘ 

کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِہْلِِ 
(۱
جو یہاں کی جھوٹی مسرتوں اور حقیر سی لذتوں پر 
مَالِیْ وَلَی الدّنْیَا (۲کی نگاہِ غلط انداز ڈالتا ہوا حیاتِ اُخروی کی اِن معنوی اور حقیقی نعمتوں پر نگاہ جمائے بڑھا چلا جائے. مالا عینٌ رأت و لا اُذنٌ سمعت و ما خطر علیٰ قلب بشر (۳یہی تو ہیں حقیقت کے شناسا، قلبِ زندہ اور دیدۂ بینا کے مالک، روحِ حیات سے ہم آغوش اور حقیقت کے جمالِ جہاں تاب کے پرستار، یہ جیتے ہیں تو ’’حق‘‘ کا نشان بن کر اور مرتے ہیں تو حقیقت کی نشان دہی کرتے ہوئے؏ :

جب وقتِ شہادت آتا ہے دل سینوں میں رقصاں ہوتے ہیں 
(۴
دُنیا میں انہیں 
’’احدی الحسنیین‘‘ (۵کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور موت ان کے لیے حیاتِ جاوید کا پیغام لے کر آتی ہے: بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ ﴿۱۶۹﴾ۙ (۶(۱) حدیثِ نبوی  : ’’رہو دنیا میں ایسے کہ گویا تم اجنبی ہو یا راہ چلتے مسافر!‘‘

(۲) حدیثِ نبوی : ’’مالی وللدنیا؟ ما انا فی الدنیا اِلّا کراکب استظل تحت شجرۃِِ ثُمّ راح و ترکھا.‘‘ (مجھے دنیا سے کیا سروکار! دنیا میں میرا حال تو اس سوار سے زیادہ نہیں ہے جو ایک درخت کے سائے ذرا دم لے، پھر اُسے چھوڑ کر چل دے)

(۳) حدیثِ نبوی : جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سُنا اور نہ اُن کا ادراک کسی انسان کے قلب کو حاصل ہوا.
(۴) جگرؔ کا شعر پہلا مصرع ہے: جو حق کی خاطر جیتے ہیں مرنے سے کہیں ڈرتے ہیں جگر 

(۵) قُلۡ ہَلۡ تَرَبَّصُوۡنَ بِنَاۤ اِلَّاۤ اِحۡدَی الۡحُسۡنَیَیۡنِ ؕ (سورۃ التوبہ) 
’’کہہ دو تم کیا اُمید کرو گے ہمارے حق میں مگر دو خوبیوں میں سے ایک کی)‘‘
(۶) ’’بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس کھاتے پیتے‘‘ 
(سورۂ آلِ عمران) یہ ہے کہ کرشمہ اس حقیقت کے علم کا کہ حیاتِ انسانی ابدی ہے. درختوں کو پھلوں سے پہچاننے والو! کوئی اندازہ کر سکتے ہو اس شجرِ حیات کی عظمت کاجس کا تصور ذہن کی اس ’وسعت‘ نگاہ کی اُس بلندی‘ اور کردار کی اُس پختگی کے برگ و بار لاتا ہے: اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ (۱

اور ابھی یہ تو ایک ہی رُخ ہے. ’’عظمتِ حیات‘‘ کی تصویر کا دوسرا رُخ ابھی باقی ہے. ابدیت کے رُخ کے ’’جاننے‘‘ والے چاہے کم ہوں. ا‘س کے ’’ماننے‘‘ والے بہت ذیادہ ہیں لیکن تصویر کے اس دوسرے رُخ کو تو شاذ ہی کسی نے دیکھا ہو.

وحئ الٰہی نے جہاں 
’’حیات بعد الممات‘‘ کے حقائق کو اُجاگر کیا ہے، وہاں ’’حیات قبل الولادت‘‘ کی حقیقت کو بھی بالکل مخفی نہیں رکھا. اگر چہ یہ واقعہ ہے کہ اس کا اظہار ’’بطررِخفی‘‘ کیا ہے! لیکن اس کا سبب بالکل معقول اور بادنیٰ تأمل معلوم ہو جانے والا ہے. کتابِ الٰہی ’’ھدی للنّاس‘‘ (۲ہے اور اس نے انسانوں کے مختلف طبقات اور گروہوں کی ضرورت کو گہری حکمت کے ساتھ پیشِ نظر رکھا ہے. ’’حیات بعد الممات‘‘ کا علم انسانوں کی ایک عظیم اکثریت کی ’’حیاتِ دُنیوی‘‘ کی عملی اصلاح کے لیے ناگزیر تھا. لہٰذ اس کے حقائق انتہائی جلی انداز میں روزِ روشن کی طرح کتاب کے ہر ورق پر نمایاں کر دیئے گئے. جبکہ حیات قبل الولادت کا علم صرف علم کی گہری پیاس رکھنے والے ذہنوں کی آسودگی کے لیے ضروری ہے. اور ظاہر ہے کہ ’’ذہنِ رسا‘‘ کے لیے ’’حقیقتِ خفہی‘‘ کا ادراک کیا مشکل ہے!

یہی وجہ ہے کہ تصویرِ حیات کے اس رُخ کی بس کوئی جھلک ہی کہیں کہیں دکھا دی گئی ہے! وحئ الٰہی نے حیاتِ دنیوی سے قبل کی ہماری کیفیت کو 
’’اَمْوَاتاََ‘‘ کے لفظ سے (۱) ’’اُس کی جڑ مضبوط ہے اور ٹہنے ہیں آسمان میں‘‘ (سورۂ ابراہم) 
(۲) ’’ہدایت ہے واسطے لوگوں کے‘‘ 
(سورۂ بقرہ) تعبیر کیا ہے. کیسا صاحبِ عظمت اور کتنا حاملِ حکمت کلام ہے. 

کَیۡفَ تَکۡفُرُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ کُنۡتُمۡ اَمۡوَاتًا فَاَحۡیَاکُمۡ ۚ ثُمَّ یُمِیۡتُکُمۡ ثُمَّ یُحۡیِیۡکُمۡ ثُمَّ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۲۸﴾ 
(سورۃ البقرہ) 
کس طرح کافر ہوتے ہو اللہ تعالٰی سے حالانکہ کہ تم بے جان تھے، پھر زندہ کیا تم کو اور پھر اسی کی طرف لو ٹائے جاؤ گے. 

’’اَمْوَاتاََ ‘‘ 
کے لفظ کی تفسیر جس کسی نے نُظْفاََ فِی الْاَصْلَاب (۱کے الفاظ بڑھا کر کی اس نےتو خیر پھر بھی کم از کم ایک خالص حیاتیاتی حقیقت کی طرف اشارہ کر دیا. لیکن واقعہ یہ ہے کہ جس نے اُسے ’’معدوم‘‘ کے ہم معنی قرار دیا اس نے وحئ الٰہی پر طبع آزمائی کرنے کی جرأت کی ہے.
ذرا غور کرو، حیاتِ انسانی کا یہ دَور جسے ہم ’حیاتِ دنیوی‘ کہتے ہیں، دو موتوں کے درمیان واقع ہوا ہے. ایک اس سے پہلے اور دوسری اس کے بعد. تو ہے کوئی جو بعد والی موت کو عدم سے تعبیر کرے؟ پھر کیسا ستم ہے کہ پہلی موت کو عدم کہنے والے چاہے کم ہوں سمجھنے والے اکثر و بیشتر ہیں! واقعہ یہ ہے کہ نہ موت معدوم ہونے کا نام ہے نہ یہ کیفیتِ عدم کا اظہار، نہ اِس پر زندگی ختم ہو گی نہ اُس سے اس کی ابتدا ہوئی تھی بلکہ جیسے بعد والی موت بجائے خود زندگی ہی کا ایک وقفہ ہو گی. اِسی طرح قبل والی موت بھی زندگی ہی کا ایک دَور تھی.

اور جس طرح آنے والی موت کے بعد حیاتِ اُخروی کو شروع ہونا ہے بالکل اسی طرح گزشتہ موت سے قبل بھی ایک زندگی تھی جس کا سب سے بڑا واقعہ وہ عہدِ الست ہے جس کی خبر وحئ الٰہی نے دی اور جس کی یاد فطرتِ انسانی کی گہرائیوں میں محفوظ ہے. 

وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُہُوۡرِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ اَشۡہَدَہُمۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ ۚ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚۛ شَہِدۡنَا ۚۛ 
(سورۃ الاعراف) (۱) آباؤ اجداد کی پیٹھوں میں بشکل نطفہ (تفسیر جلالین) ’’اور جب نکالا تیرے رب نے بنی آدم کی پیٹھوں سے اُن کی اولاد کو اور اقرار کرایا ان سے ان کی جانوں پر. کیا مَیں نہیں تمہارا رب؟ بولے ہاں ہے، ہم اقرار کرتے ہیں.‘‘

تو کون کہہ سکتا ہے کہ جب یہ میثاق لیا گیا اس وقت عہد کرنے والوں کو اپنی ہستی کا شعور نہ تھا. اگر ایسا ہوتا تو کیا اس عہد و میثاق کی کوئی حیثیت اور اہمیت ہو سکتی تھی جو کلامِ الٰہی کے سلسلۂ استدلال کی ایک اہم کڑی ہے! یقیناََ وہاں ہر انسان نے اپنی ہستی اور تشخص کے شعور کے ساتھ عہد باندھا تھا. تو پھر ’’حیات‘‘ کیا کسی اور چیز کا نام ہے؟

اِس حیاتِ اولیں کے اثبات پر قرآن حکیم کی وہ آیۂ کریمہ دلیلِ قطعی ہے جس میں اہلِ جہنم کی فریاد ان الفاظ میں نقل کی گئی ہے کہ: 

رَبَّنَاۤ اَمَتَّنَا اثۡنَتَیۡنِ وَ اَحۡیَیۡتَنَا اثۡنَتَیۡنِ فَاعۡتَرَفۡنَا بِذُنُوۡبِنَا فَہَلۡ اِلٰی خُرُوۡجٍ مِّنۡ سَبِیۡلٍ ﴿۱۱﴾ 
(سورۃ الغافر) 
اے رب ہمارے تو موت دے چکا ہم کو دوبار اور زندگی دے چکا ہم کو دو بار. اب ہم قائل ہوئے اپنے گناہوں کے پھر اب بھی ہے نکلنے کو کوئی راہ؟
ذرا ’وجود‘ اور ’ہستی‘ کے اس تسلسل پر غور کرو، جو اس آیۂ مبارکہ کے جامِ حقیقت نما سے چھلکا پڑ رہا ہے ؎

نغمے بیتاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لئے اِک ذرا چھیڑ تو دے زخمۂ مضرابِ حیات

ہم پورے شعورِ حیات کے ساتھ موجود تھے، پھر ہم پر ’’اماتہ اولیٰ‘‘ کا عمل ہوا. اور ہم ایک طویل عرصے کے لیے ’پہلی موت‘ کی گود میں سو گئے. پھر ’’احیائے اولیٰ‘‘ ہوا اور ہم حیاتِ دنیوی کی ’’بساطِ ہوائے دل‘‘ پر ’وارد‘ ہو گئے. پھر ’’اماتۂ ثانیہ‘‘ ہو گی اور ہم پھر اک بار موت کی نیند سو جائیں گے اور پھر ’’اِحیاءِ ثانی‘‘ کا صُور پُھونکا جائے گا اور ہم ’زندہ جاوید‘ ہو جائیں گے.