ذرا ٹھہرو! حیات کی عظمت کے ساتھ ساتھ موت کی حقیقت بھی دیکھ لو. یہ زندگی کا ایک ’وقفہ‘ ہی نہیں، سلسلۂ حیات کی ایک کڑی اور زندگی ہی کی ایک شکل ہے، بالکل نیند سے مشابہ، اب ذرا تلاوت کرو آیۂ کریمہ: 

اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الۡاَنۡفُسَ حِیۡنَ مَوۡتِہَا وَ الَّتِیۡ لَمۡ تَمُتۡ فِیۡ مَنَامِہَا ۚ 
(سورۃ الزمر) 
اللہ کھینچ لیتا ہے جانیں جب وقت ہو اُن کے مرنے کا اور جو نہیں مرے اُن کو کھینچ لیتا ہے اُن کی نیند میں.

اور گوشِ حقیقت نیوش سے سنو بنی اکرم کے الفاظ: 

وَاللہِ لَتَمُوْتُنَّ کَمَا تَنَامُوْنَ ثُمَّ لَتُبْعَثُنَّ کَمَا تَسْتَیْقِظُوْنَ (حدیث) 
خدا کی قسم تم لازماََ مر جاؤ گے جیسے تم سو جاتے ہو. پھر یقیناََ اٹھا لیے جاؤ گے جیسے تم نیند سے بیدار ہوتے ہو.

اور یاد کرو آپؐ کی وہ دعا جو آپؐ کی ہر صبح کا معمول تھی: 

اَلْحَمْدُ لِلہِ الَذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنِیْ وَاِلَیْہِ النُشُوْرُ. 
(حدیث) 
تعریف ہے اللہ کی جس نے مجھے زندگی عطا فرمائی، اس کے بعد مجھ پر موت طاری فرما دی تھی.

شاید حقیقت کی کوئی جھلک دیکھ لو!

اللہ اکبر! کیا ’’ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ ؕ‘‘ کا گُھپ اندھیرا طاری ہے ان ذہنوں پر جو موت اور زندگی کو عدم کے ہم معنی سمجھ بیٹھے ہیں!

حقائق کے اس طرح درجہ بدرجہ اور 
’’طَبَقاََ عَنْ طَبَقْ‘‘ انکشاف کے بعد اب ذرا محسوسات کی دنیا سے ’’لب بہ بندو چشم بندو گوش بند!‘‘ ہو کر وجدان کی لامتناہی فضا میں چشمِ تخیل کو وا کرو اور ’’تسلسلِ حیاتِ انسانی‘‘ کا مشاہدہ کرنے کی کوشش کرو. اگر کر پائے تو ایک عجیب سا کیف محسوس کرو گے اور سُرور و مستی سے ہم کنار ہو گے اور کیا عجب کہ تمہارے منہ سے نکل جائے: سُبْحَانِیْ مَا اَعْظَمَ شَانِیْ! (۱تو یہی حقیقت کا ادراک ہے!؏ 

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا!