حقیقتِ انسان

منصور کا یہ کہنا کہ: ’’خدا ہوں میں !‘‘ ایک انتہا پر .....اور ڈارون کا یہ ’’ بولنا‘‘ کہ: بوزنا ہوں میں!‘‘ دوسری انتہا پر..... لیکن کیا یہ معاملہ ایسا ہی غیر اہم ہے کہ کوئی ’’دوست‘‘ اسے ہنستے ہوئے یہ کہہ کر ٹال دیں کہ: ......’’فکر ہر کس بقدرِ ہمتِ اوست!‘‘ (۲)
سوال یہ ہے کہ حقیقت یہ ہے یا وہ؟ ...... اور اگر ان دونوں کے مابین واقع ہوئی ہے تو کہاں؟ ..... اور اگر یہ دونوں ہی باتیں درست ہیں تو کیسے؟

’’ایاز قدر خود بشناس!‘‘ کو نمعلوم کیوں ایک تحقیر آمیز تنبیہہ ہی کے مفہوم میں لے لیا گیا ہے! کیا یہ ممکن نہیں کہ یہ بحثییتِ انسان اپنے حقیقی مرتبہ و مقام کو پہچاننے کی مشفقانہ نصیحت 
(۱) حضرت با یزید بسطامیؒ کا مشہور قول.
(۲) حضرت اکبر الٰہ آبادی کا مشہور قطعہ ہے:

کہا منصور نے خدا ہوں میں ڈارون بولا بوزنا ہوں میں
ہنس کے کہنے لگے مِرے اک دوست فکر ہرکس بقدر ہمتِ اوست! 
ہو؟ یعنی بقول اقبالؔ ؏ : ’’اپنی خودی پہچان او غافل انسان !‘‘ (۱یا بقول بیدل ؏ ’’اے بہارِ نیستی از خود ہشیار باش!‘‘ .....

اس لیے کہ یا تو یہ مانا جائے کہ محمود اور ایاز کی روائتی محبت بس ایک قصّہ ہی ہے ...... یا پھر اس دوسرے امکان ہی کو مانتے بنے گی، ؎

نہ دربازی باوُدل داد محمود دل محمود را بازی مپندار!

سب جانتے ہیں کہ ’خدا نا شناسی‘ تمام برائیوں کی جڑ اور جملہ گناہوں اور جرائم کی ماں ہے، لیکن بہت کم ہیں جو یہ جانتے ہوں کہ اس سب سے بڑے گناہ کی نقد سزا جو اس دنیا ہی میں انسان کو ملتی ہے کیا ہے! ’خود فراموشی‘! بفحوائے الفاظِ قرآنی: 

وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنۡسٰہُمۡ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۱۹﴾ 
(سورۃ الحشر:۱۹
اور ان لوگوں کی مانند نہ ہو جانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں اپنے آپ سے غافل کر دیا یہی لوگ بدکار ہیں.
ہندسہ میں ہر دعوٰی 
(THEOREM) کا ایک عکس (CONVERSE) ہوتا ہے چنانچہ اس ’دعوٰی حق‘ کا عکس بھی کسی عکاسِ حقیقت کی زبانی یوں ادا ہوا کہ: 
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہ فَقَدْ عَرَفَ رَبّہ. 
جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا. 
تو کیا واقعی عرفانِ خویش اور معرفتِ رب لازم و ملزوم ہیں اور ’حقیقت انسان‘ اور ذاتِ ربانی میں اتنا گہرا اور قریبی تعلق ہے؟

ان مسائل کے حل کے ضمن میں اگر انسان صرف حواسِ ظاہری سے حاصل شدہ معلومات اور محض ان ہی پر مبنی استدلال پر دارو مدار رکھے تو جواب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ انسان بھی بس ایک حیوان ہے ..... دوسرے حیوانات کے مقابلے 
(۱) اقبالؔ کا مصرعہ ہے ؏ ’’اپنی خودی پہچان او غافل افغان!‘‘ میں ذرا ترقی یافتہ حیوان!..... البتہ وجدان کی واسیوں میں پرواز کی جائے جیسے عظیم شعراء نے کی تو حقیقت کچھ اور نظر آتی ہے..... اور مسئلے کا پور ا تشفی بخش حل تو وحئ آسمانی کی دستگیری کے بغیر ممکن ہی نہیں!

ایک ’واقف‘ و عارف بزرگ کے سامنے شکوہ کیا گیا: ’’حضرت! اب تو ’’انانیت‘‘ کا دور دورہ ہے اور ہر شخص اس مہلک مرض میں گرفتار ہو چکا ہے!‘‘ ....... اس پر انہوں نے فرمایا: ’’ بھائی! واقعہ تو یہ ہے کہ ’انانیت‘ کا دور بھی گزر چکا ، اب تو نری ’’نانیت‘ ہی ’نانیت‘ رہ گئی ہے!‘‘ 
(۱

اس میں ہرگز کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ دور حاضر کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ آج کا انسان اپنے آپ کو محض ایک حیوان تصور کرتا ہے. انسانوں کی عظیم اکثریت تو اپنی عظمت سے بالکلیہ بے خبر اور اپنی حقیقت سے قطعی طور پر لاعلم، محض اپنی مادی ضرورتوں اور حیوانی تقاضوں کی تسکین و تکمیل کے لیے دوڑ دھوپ میں مصروف و مشغول ہے ہی ..... اصحابِ دانش و بینش کی واضح اکثریت بھی کائنات کی اصل مادی مان کر ..... اور مادہ کو حقیقی قرار دے کر ’واقعیت پسندی‘ 
(REALISM) کی جانب رُخ کیے ہوئے ہے...... حتیٰ کہ جنہیں اس سطح سے ذرا بلند ہونے کی توفیق ملی ہے وہ بھی ذہن (MIND) اور رُوح (SOUL) کی ’’عینیت‘‘ یا ’’ثنویت‘‘ کی بحث میں اُلجھ کر رہ گئے ہیں!
اور آج کا انسان جس ذہنی و فکری ژولیدگی اور اخلاقی و عملی پستی کا شکار ہو چکا ہے اس سے نجات کی واحد راہ اپنی عظمت کی ’بازیافت‘ اور اپنے مقام و مرتبہ سے دوبارہ کماحقہ آگاہی کے سوا اور کچھ نہیں! ..... گویا ؏ ’’علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی!‘‘ 
(۱) ’نانیت‘ْ نان سے یعنی روٹی. یا بالفاظ دیگر روٹی، کپڑا، اور مکان!. یہ الفاظ ہیں مولانا سید سلیمان ندویؒ کے. بروایت ڈاکڑ سید اسلم زیدی (قومی ادارہ امراضِ قلب. کراچی) یعنی بقول اقبالؔ ..... ’’اپنی خودی پہچان او غافل انسان!‘‘ اور بالفاظِ بیدلؔ: ؏ ’’اے بہارِ نیستی از قدرِ خود ہشیار باش!‘‘

حقیقت یہ ہے کہ انسان ایک ’مرکب‘ وجود کا حامل ہے.... بقول سعدیؒ :
’’آدمی زادہ طُرفہ معجون است از فرشتہ سر شتہ و زحیواں!‘‘
اس کا ایک جزو ’’ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ‘‘ کا مظہر اتّم ہے تو دوسرا 
’’ اَسۡفَلَ سٰفِلِیۡنَ ‘‘ کا مصداقِ کامل! (۱
ایک کا تعلق ’عالم امر‘ سے ہے تو دوسرے کا ’عالمِ خالق‘ سے! 
(۲
ایک خاکی ہے تو دوسرا نوری! 
(۳

ایک ...... ’دنی الطبع‘ ہے اور ہمہ وقت پستی کی جانب مائل تو دوسرا ’’قُدسی الاصل‘‘ اور ہمیشہ ’’رفعت پہ نظر‘‘ رکھنے والا! 
(۴
ایک حیوانات کی صف میں ہے..... اور اُن میں سے بھی بہت سوں کے مقابلے میں مختلف اعتبارات سے ہیچ و کمتر اور ضعیف و ناتواں تو دوسرا ملائکہ کا ہم پلہ ہے بلکہ مقام اور مرتبہ میں اُن سے بھی کہیں اعلیٰ و افضل ...... حتیٰ کہ اُن کا مسجود و مخدوم!!

ایک عبارت ہے اُس کے ’وجودِ حیوانی‘ سے ..... تو دوسرا مظہر ہے اُس رُوحِ ربانی‘ کا جواُس میں پھونکی گئی اور جس کی بنیاد پر وہ مسجودِ ملائک قرار پایا. بفحوائے 
(۱) سورۃ التین آیات ۴،۵ (ترجمہ) ’’یقیناََ ہم نے پیدا کیا انسان کو بہترین ساخت پر پھر لوٹا دیا اُسے نیچے والوں میں سب سے نیچے.‘‘ 

(۲) اَلَا لَہُ الۡخَلۡقُ وَ الۡاَمۡرُ ؕ (سورۃ الاعراف: ۵۴

(۳) خاکی و نوری نہاد، بندۂ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی اُس کا دِل بے نیاز (اقبالؔ)
(۴؏ ’’قدسی الاصل ہے رفعت پہ نظر رکھتی ہے.‘‘ 
الفاظِ قرآنی: 

فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ ﴿﴾ 
(سورۃ الحجر: ۲۹، صٓ: ۷۲
اور جب میں اسے پوری طرح بناؤں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں تب گر پڑنا اس کے سامنے سجدے میں.:

اب...... اصحابِ دانش و بینش میں سے جن کی نظر اپنے وجود کے ’عُلوی‘ جز و پر جم کر رہ گئی اور وہ اُس کی عظمت و رفعت کے مشاہدے میں محو ہو کر رہ گئے ان میں سے کوئی حیران ہو کر پکار اٹھا 
’’سبحانی! مااعظم شانی!‘‘ کسی نے جذب و مستی کے عالم میں نعرہ لگا دیا ’’انا الحق!!‘‘ اور کوئی کیف و سرور سے سرشار ہو کر کہہ بیٹھا ’’لَیْسَ فِی جُبَّتی الا اللہ!‘‘ (۱......اور جن کی نگاہِ حق تحقیق و تفتیش انسان کے وجودِ حیوانی ہی پر مرتکز رہی اور وہ اسی کے بارے میں بحث و تمحیص اور اسی کے متعلق تفحص و تعمق میں گم ہو کر رہ گئے انہیں اس کا تعلق لا محالہ بندروں، بن مانسوں اور گوریلوں ہی سے جوڑتے بنی!!

گویا ’حقیقتِ انسان‘ کے ضمن میں متذکرۂ صدر متضاد آراء جزوی طور پر اپنی اپنی جگہ صحیح بھی ہیں اور کلی اعتبار سے غلظ بھی! اور مسئلہ زیر بحث کا کوئی حل اس کے بغیر ممکن نہیں کہ انسان کو دو ’متضاد‘ اجزاء سے ’مرکب‘ تسلیم کیا جائے!

واضح رہے کہ وجودِ انسانی کے یہ دونوں اجزائے ترکیبی ایک دوسرے سے بالکل آزاد اور اپنی اپنی جگہ کامل اور ہر اعتبار سے خود متکفی ہونے کے باوصف غایت درجہ متصل ہی نہیں باہم دگر پیوست ہیں ..... فہم انسانی کے عظیم ترین مغالطوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ روحِ انسانی کو ’جان‘ کے ہم معنی سمجھ لیا گیا ہے. حالانکہ’جان‘ یا ’زندگی‘ یا 
(۱) منصور علاج اور اکابر صوفیاء کی شطحیات. یعنی وہ جملے جو جذب و مستی کے عالم یعنی حالتِ سُکر میں ان کے منہ سے نکل گئے. ان میں سے منصور کو اس لیے دار پر چڑھنا پڑا کہ وہ حالت صحو میں بھی اسی مؤقف پر قائم رہا.! (LIFE) تو انسان کے وجودِ حیوانی کا جزو لاینفک ہے..... اور روحِ انسانی اپنا جداگانہ اور مستقل بالذات وجود رکھتے ہوئے اس وجودِ حیوانی کے ساتھ ’’اتّصالے بے تکیف بے قیاس‘‘ (۱کے رشتے میں منسلک ہے ...... روح کے وجودِ حیوانی کے ساتھ اس اتصال کے ضمن میں ’’کہاں‘‘ اور ’’کیسے‘‘ کے سوالات ویسے ہی لایخل ہیں جیسے خود یہ سوال کہ جان اور جسم کا تعلق کس نوعیت کا ہے اور کس عضو سے متعلق ہے. اگر چہ بہت خوب کہا ہے کسی کہنے والے نے کہ:

جاں نہاں در جسم اُودر جاں نہاں اے نہاں اندر نہاں اے جانِ جاں !!

مزید برآں ......انسان کے یہ وجود ’دانا‘ و ’بینا‘ ہیں. اس کی آنکھیں صرف ظاہری یا حیوانی دیکھنا دیکھتی ہیں .....اور کان صرف ظاہری یا حیوانی سننا سنتےہیں اور یہ دونوں حواس ظاہری اپنی حاصل کردہ معلومات 
(SENSE DATA) کو عقلِ حیوانی یعنی دماغ (BRAIN) کے حوالے کر دیتے ہیں جو ان سے نتائج اخذ کرتا ہے......جبکہ روحِ انسانی بھی نہ صرف دیکھتی اور سنتی ہے.....اور اس کا یہ دیکھنا اور سننا ظاہری آنکھوں اور کانوں سے بالکل آزاد ہے (۲...... بلکہ تعطل اور تفقہ بھی کرتی ہے جس کا کوئی تعلق عقلِ حیوانی یا دماغ سے نہیں ہے ..... روح کے آلہ بصارت و سماعت اور تعقل و تفقہ کا نام اصطلاحِ قرآنی میں ’قلب‘ ہے بفحوائے آیاتِ قرآنی: 

لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ 
(سورۃ الاعراف:۱۷۹(۱) ’’اتصالے بے تکیف بے قیاس ہست رب الناس را باجانِ ناس‘‘ رومیؔ

(۲) دم چیست؟ پیام است!شنیدی نشنیدی! 
در خاکِ تو یک جلوۂ عام است! ندیدی!!
دیدن دگر آموز! شنیدن دگر آموز!! اقبالؔ 
ان کے دل ہیں لیکن ان سے سوچتے نہیں، اور ان کی آنکھیں ہیں پر ان سے دیکھتے نہیں ، اور ان کے کان ہیں مگر ان سے سنتے نہیں! یہ چو پایوں کے مانند ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے! 

اَفَلَمۡ یَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَتَکُوۡنَ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ یَّعۡقِلُوۡنَ بِہَاۤ اَوۡ اٰذَانٌ یَّسۡمَعُوۡنَ بِہَا ۚ فَاِنَّہَا لَا تَعۡمَی الۡاَبۡصَارُ وَ لٰکِنۡ تَعۡمَی الۡقُلُوۡبُ الَّتِیۡ فِی الصُّدُوۡرِ ﴿۴۶﴾ 
(سورۃ الحج:۴۶
تو کیا انہوں نے زمین میں سفر نہیں کیا. پھر اگر ان کے دل (بیدار) ہوتے تو ان سے سوچ بچار کرتے یا ان کے کان ہوتے جن سے سنتے، اس لیے کہ (اصل میں ) نہ آنکھیں اندھی ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں!

یہی نہیں ..... بلکہ وحئ جلی او ر وحئ خفی کے اشارات سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ’قلب‘..... روحِ انسانی کے لیے صرف ذریعۂ سماعت و بصارت اور آلۂ تعقل و تفقہ ہی نہیں، اس کا ’مسکن‘ بھی ہے اور اس کی مثال قندیل کے اس شیشے کی سی ہے جس کے اندر کوئی شمع روشن ہو..... چنانچہ اگر روحِ انسانی کو اس چراغ سے تشبیہہ دی جائے جس میں نورِ خداوندی جلوہ فگن ہے تو قلبِ مصفّٰی ومجلّٰی کی مثال اس صاف و شفاف شیشے کی ہے جو روح کے انوار سے اس طرح جگمگا اٹھتا ہے کہ انسان کا پورا وجودِ حیوانی بھی انوارِ الٰہیہ سے منور ہو جاتا ہے....... چنانچہ یہی مفہوم ہے اس عظیم تمثیل کا جو سورۂ نور میں وارد ہوئی ہے: 
اَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ مَثَلُ نُوۡرِہٖ کَمِشۡکٰوۃٍ فِیۡہَا مِصۡبَاحٌ ؕ اَلۡمِصۡبَاحُ فِیۡ زُجَاجَۃٍ ؕ اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوۡکَبٌ دُرِّیٌّ (سورۃ النور: ۳۵

اللہ ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے. اس کے نور کی مثال (قلبِ مومن میں) یوں ہے جیسے ایک طاق ہو جس میں ایک دیا ہو، وہ دیا ایک شیشے میں ہو، (اور) وہ شیشہ ایسے ہو جیسے ایک چمکتا ستارا !

(اس آیۂ مبارکہ کے ضمن میں بالکل صحیح ہے وہ رائے جو اکثر متقدمین نے دی ہے کہ 
’’ مَثَلُ نُوۡرِہٖ‘‘ کے بعد ’’فی قلوب المؤمن‘‘ کے الفاظ مقدر و محذوف ہیں!) 
اس کے برعکس اگر شیشۂ قلب فسق و فجور کی کثرت، خواہشات کی پر ستش اور شہوات کے اتباع کے باعث داغدار اور مکدّر ہو جاتا ہے تو روح کے انوار کے انسان کے وجودِ حیوانی میں سرایت کرنے میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے اور اس کیفیت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اس طور سے جس کی وضاحت وحئ خفی یعنی اس حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ملتی ہے: 
(۱

ان المؤمن اذا اذنب کانت نکتۃ سوداء فی قلبہ فان تاب و استغفر صقل قلبہ وان زاد، زادت حتی تعلو قلبہ فذالکم الّران الذی ذکر اللہ تعالیٰ 
کَلَّا بَلۡ ٜ رَانَ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ مَّا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ ﴿۱۴﴾ (۱) رواہ احمدؒ ، و الترمذی و ابن ماجہؒ عن ابی ہریرہؓ و قال الترمذیؒ ، ہذا حدیثٌ حسنٌ صحیحٌ مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ داغ پڑ جاتا ہے. پھر اگر توبہ و استغفار کرتا ہے تو دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر اور گناہ کرتا ہے تو (دل کی) سیاہی بھی بڑھتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ پورے دل پر چھا جاتی ہے چنانچہ یہی ہے وہ دلوں کا زنگ جس کا ذکر اللہ نے اس آیۂ مبارکہ میں فرمایا ہے.

(سورۃ المطففین:۱۴) ’’نہیں بلکہ زنگ لگ گیا ہے ان کے دلوں پر ان کے اعمال کے سبب سے!‘‘
اور اس عمل 
(PHENOMENON) کی یہی وہ منطقی انتہا ہے جسے ’وحئ جلی‘ میں ختمِ قلوب اور طبع قلوب سے تعبیر فرما دیا گیا..... بفحوائے الفاظِ قرآنی: 

خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ عَلٰی سَمۡعِہِمۡ ؕ وَ عَلٰۤی اَبۡصَارِہِمۡ غِشَاوَۃٌ ۫ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ ٪﴿۷﴾ 
(سورۃ البقرہ:۷
اللہ نے مُہر کر دی ہے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر. اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے. اور ان کے لیے بہت بڑی سزا ہے. 

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ وَ سَمۡعِہِمۡ وَ اَبۡصَارِہِمۡ ۚ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ ﴿۱۰۸﴾ 
(سورۃ النحل: ۱۰۸
یہی ہیں وہ لوگ جن کے دلوں، کانوں اور آنکھوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے اور وہی ہیں (حقائق و معارف سے) غافل و بے خبر.!

اور یہی وہ کیفیت ہے جسے قرآن انسان کی ’روحانی موت‘ سے تعبیر فرماتا ہے. اس لیے کہ اس حال میں انسان کے وجودِ حیوانی کا اُس روحِ ربانی سے تعلق بالکل منقطع ہو جاتا ہے جس نے اُسے شرفِ انسانیت عطا فرمایا تھا. اور اس کا نہاں خانۂ قلب روح کی قبر کی صورت اختیار کر لیتا ہے. نتیجہ انسان کی صورت میں ایک دو ٹانگوں پر چلنے والا حیوان باقی رہ جاتا ہے جو ’حقیقتِ انسان‘ کے اعتبار سے ایک چلتے پھرتے مقبرے اور متحرک ’تغریے‘ کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا. 
’’اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ ‘‘!! چنانچہ ایسے ہی ’حقیقت کے اعتبار سے مُردہ اور ظاہری اعتبار سے زندہ‘ انسانوں کا ذکر ہے ان آیات قرآنیہ میں: 

اِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی 
(سورۃ النحل:۸۰
(اے نبیؐ ) آپ نہیں سنا سکتے اِ ن مُردوں کو! 

فَاِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی وَ لَا تُسۡمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ 
(سورۃ الرّوم: ۵۲
(اےنبیؐ ) آپؐ نہ ان مُردوں کو سنا سکتے ہیں اور نہ ان بہروں تک اپنی دعوت پہنچا سکتے ہیں.!

جنہیں بعض لوگ خواہ مخواہ گھسیٹ لے جاتے ہیں ’سماعِ موتیٰ‘ کے ایک اختلافی مسئلے پر بحث مباحثے میں!

الغرض! جب تک کوئی شخص انسانی شخصیت کے ان دو متضاد اجزائے ترکیبی کو نہ جان لے وہ دین و مذہب کے لطیف تر حقائق اور وحئ آسمانی میں وارد شدہ معارف و حکِمَ کا کما حقہ، ادراک نہ کر سکے گا. اور بایں محرومی و تہی دستی اگر مقامِ دعوت پر فائز ہو جائے گا تو اس کی تمام تر گفتگو احکامِ شریعت اور نظامِ اسلام کے بارے میں ہو گی. حقائق ایمانی کا تذکرہ ہو گا بھی تو بس سرسری سا..... اور اگر شارح و مفسر قرآن بن بیٹھے گا تو لغت و نحو کے اشکالات، معنی و بیان کے لطائف اور فصاحت و بلاغت کے نوادرات سے تو خوب بحث کرے گا لیکن فلفسہ و حکمتِ دین کے لطیف و غامِض نکات اس کی نگاہ سے اوجھل رہ جائیں گے اور حقائق و معارفِ ایمانی کے اعتبار سے اہم ترین مقامات سے وہ ایسے گزر جائے گا جیسے وہاں کوئی لائقِ توجہ بات ہے ہی نہیں! 

فَا عْتَبِرُوْا یَا اُوْلِی الْاَبْصَار!!