نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم 

اللہ تعالیٰ نے سورۃ بنی اسرائیل اور سو رۃ کہف میں اپنی کتاب مبین‘ فرقان حمید کا ایک وصف ’’تصریف الآیات‘‘ بیان کیا ہے. یہ بات قرآن مجید پر صد فی صد ہی نہیں‘ بلکہ ہزاروں گنا صادق آتی ہے کہ ’’اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں‘‘. قرآن حکیم اپنی دعوت کو اتنے مختلف اسالیب اور استدلال سے پیش کرتا ہے کہ اگر انسان مسلوب التوفیق ہی ہو گیا ہو تو دوسری بات ہے‘ ورنہ جس کے دل میں تھوڑی سی بھی انابت اور تلاشِ حق کی جستجو ہو تو اللہ اسے ہدایت عطا فرماتا ہے :

اَللّٰہُ یَجۡتَبِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یُّنِیۡبُ ﴿۱۳﴾ (الشوریٰ) ’’اللہ جسے چاہتا ہے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور اس کو (ضرور) ہدایت دیتا ہے جو اس کی طرف (ہدایت کے لیے) رجوع کرتا ہے‘‘.

قرآن مجید ہی کا یہ فیضان ہے کہ محترم ڈاکٹر اسرار احمد امیرتنظیم اسلامی دعوتِ حق کو مختلف اسالیب‘ دلائل اور انداز سے پیش فرماتے رہتے ہیں. موصوف کا یہ خطاب اس کی ایک واضح مثال ہے. اس خطاب کی تقریب یہ ہوئی کہ ۱۹۸۳ء کے اوائل میں تنظیم اسلامی کراچی نے جامع مسجد ناظم آباد‘ بلاک۴‘ نزد ہادی مارکیٹ میں درسِ قرآن کا پانچ روزہ پروگرام ترتیب دیا تھا جس میں ڈاکٹر صاحب موصوف نے قرآن حکیم کی دو سورتوں (سورۃ الحدید اور سورۃ الصف) کا درس ان پانچ دنوں میں مکمل کیا. درس کی تکمیل کے متصلاً بعد جمعہ کا دن تھا. ڈاکٹر صاحب نے خطابِ جمعہ میں نہایت عام فہم لیکن مؤثر اسلوب کے ساتھ ’’دینی فرائض کا جامع تصور‘‘ کے موضوع پر تقریر فرمائی تھی جو کیسٹ سے منتقل کر کے معمولی حک و اضافہ کے بعد اس کتابچے کے ذریعے پیش کی جا رہی ہے.

ڈاکٹر صاحب کی تحریر اور تقریر میں جو نمایاں فرق ہوتا ہے‘ اسے جاننے والے بخوبی جانتے ہیں. خطاب چونکہ عموماً سہل ہوتا ہےلہذا اس سے عوام و خواص دونوں ہی استفادہ کر سکتے ہیں. اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس سے توقع ہے کہ یہ خطاب قاری کو دینی فرائض کے جامع تصور کی تفہیم میں نہایت ممد ثابت ہو گا. اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو صحت و تندرستی کے ساتھ تادیر سلامت رکھے اور ان پر قرآن فہمی کی مزید ارزانی فرمائے.نیز تجدید دین و احیائے اسلام کے لیے موصوف جو عملی جدوجہد کر رہے ہیں اس کو دین و دنیا میں مشکور فرمائے.

اس خطاب کی منتقلی میں جو صواب ہے وہ من جانب اللہ ہے. اگر خطا ہے تو اس کے لیے یہ عاجز بارگاہِ رب العزت میں عفو و مغفرت کا طالب ہے.

احقرجمیل الرحمن
۱۸ مئی ۱۹۸۴ء