میں نے عرض کیا تھا کہ ہمارا دوسرا فرض اور ہماری دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اسلام کو پھیلائیں. پہلی ذمہ داری تو یہ ہے کہ ہم اس پر خود عمل پیرا ہوں‘اس پر کاربند ہوں. لیکن دوسرا فرض اور دوسری ذمہ داری اسلام کو پھیلانے سے تعلق رکھتی ہے. اس ذمہ داری کے لیے بھی کئی اصطلاحات ہیں‘لیکن چار کو ضرور ذہن نشین کرلیاجائے. 

(۱) تبلیغ

یعنی پہنچانا.دوسروں تک پہنچائیں گے تو اسلام پھیلے گا. رسول اﷲ  کو حکم دیا گیا:

یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ مِنۡ رَّبِّکَ (المائدہ : ۶۷
’’اے رسولؐ !پہنچا دو جو کچھ نازل ہوا ہے آپ ؐ پر آپؐ کے ربّ کی طرف سے.‘‘

اور رسول اللہ نے ہمیں حکم دیا: بَلِّغُوْاعَنِّیْ وَ لَوْ آیَۃً (۱پہنچاؤ میری جانب سے خواہ ایک ہی آیت‘‘.حجۃ الوداع میں آپ نے یہ فرما کر تبلیغ کی ذمہ داری تا قیامِ قیامت اُمت کے سپرد فرمادی کہ: فَلْیُبَلِّغِ الشَّاھِدُ الْغَائِبَ (۲’’اب پہنچائیں وہ جو یہاں موجود ہیں ان کو جو موجود نہیں ہیں‘‘. 

(۲) دعوت

یعنی لوگوں کو اسلام کی طرف بلانا. ارشادِ باری تعالیٰ ہے: 
وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا (حٰمٓ السجدۃ :۳۳
’’اور اس شخص سے بہتر بات کس کی ہوگی جو اﷲ کی طرف بلاتا ہو!‘‘ 

اور:

اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ (النحل : ۱۲۵)
’’پکارو اپنے ربّ کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ اور موعظہ حسنہ کے ساتھ اور ان(کج بحثوں)سے مجادلہ کرو اس طور پر جو بہت عمدہ ہو.‘‘ 

(۳) امر بالمعروف و نہی عن المنکر

یہ اصطلاح بڑی اہم ہے. امر بالمعروف کا مطلب ہے نیکی کا پرچار‘نیکی کی تلقین‘ نیکی کا حکم. اور نہی عن المنکر سے مراد ہے بدی اوربُرائی سے لوگوں کو روکنا‘بدی اور بُرائی کی اشاعت کے آڑے آنا. اور اگر قوت و طاقت میسر ہو تو بدی اور بُرائی کو بزور روکنا. اس کے لیے حدیث میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں: 

مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُُ بِیَدِہٖ‘ فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ‘ فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ‘ وذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ (۳
’’تم میں سے جو کوئی بھی کسی منکر کو دیکھے اس کا فرض ہے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے (۱

صحیح البخاری‘ کتاب احادیث الانبیاء‘ باب ما ذکر عن بنی اسرا ئیل.

(۲) صحیح البخاری‘ کتاب الحج‘ باب الخطبۃ ایام منی. وصحیح مسلم‘ کتاب القسامۃ والمحاربین والقصاص والدیات. باب تغلیظ تحریم الدماء والاعراض والاموال.
(۳) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان کون النھی عن المنکر من الایمان… عن ابی سعید الخدریؓ . 
(یعنی طاقت سے) بدلے. اگر اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے (یعنی تلقین و نصیحت سے اس بُرائی کو روکے). اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل سے(اس کے خلاف نفرت کا اظہار کرے) اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے.‘‘

یعنی کم از کم دل میں کڑھن تو ہو. اگر یہ کڑھن بھی نہ ہو تو اس کیفیت کے لیے دوسری حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں:

…وَلَـیْسَ وَرَائَ ذٰلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّۃُ خَرْدَلٍ (۱
’’…اور اس کے بعد تو ایمان رائی کے دانے کے برابر بھی موجود نہیں.‘‘

یعنی تم بدی کو دیکھو‘منکر کو دیکھو‘اور تمہارے احساسات پرجوں بھی نہ رینگنے پائے. بُرائی کو دیکھتے ہوئے گزر جاؤ لیکن یہ صدمہ بھی نہ ہو کہ یہ کیوں ہورہا ہے‘کیوں میرے ہاتھ میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ میں اس کو روک سکوں! اگر یہ کیفیت ہے تو جان لو کہ ایمان رائی کے دانے کے برابر بھی دل میں موجود نہیں. اور یہ فتویٰ کس کا ہے؟ یہ حقیقی مفتی ٔاعظم محمدٌ رسول اﷲ  کا فتویٰ ہے. ان کا فتویٰ کون ردّ کرے گا؟ اور اگر ردّکرے گا تو کیا ایمان سلامت رہ جائے گا؟ 

(۴) شہادت علی الناس:

یہ چوتھی اصطلاح جامع ترین ہے. شہادت علی الناس کا مفہوم یہ ہے کہ لوگوں پر حجت قائم کردینا تاکہ قیامت کے دن عدالتِ خداوندی میں گواہی دے سکو اور testify کرسکو کہ پروردگار! ہم نے تیرا دین پہنچا دیا تھا. یہ وہ اصطلاح ہے کہ یہاں آکر تبلیغ و دعوت کا تعلق کارِ رسالت سے جاکر جڑ جائے گا رسول کیوں بھیجے گئے؟ اس کو سورۃ النساء کی آیت ۴۱ سے سمجھئے جہاں فرمایا:

فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۴۱﴾ ’’پس اُس دن کیا حال ہوگا جس دن ہم ہر اُمت میں سے (اُس پر) ایک گواہ کھڑا کریں گے اور (اے نبیؐ )آپ کو گواہ بنا کر لائیں گے ان کے خلاف!‘‘ (۱) ایضاً.عن عبد اللہ بن مسعودؓ . کیوں؟ اس لیے کہ رسول یہ گواہی دیں گے کہ اے ربّ! میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا تھا. اب اپنے اعمال و افعال کے یہ لوگ خود ذمہ دار ہیں اب بتائیے کہ یہ گواہی ہمارے حق میں جائے گی یا خلاف؟ ظاہر ہے یہ گواہی خلاف جارہی ہے.عدالتِ خداوندی میں رسول دراصل استغاثہ کے گواہ(Prosecution witness) ہوں گے. وہ کہیں گے کہ اے پروردگار! میں نے تیرا پیغام بے کم و کاست ان لوگوں تک پہنچا دیا تھا‘ اب ان کی ذمہ داری تھی کہ یہ تیرا پیغام بنی نوعِ انسان تک پہنچا کر ان پر حجت قائم کریں. 

سورۃ البقرۃ میں فرمایا گیا کہ ہم نے جو تمہیں اُمتِ وسط یعنی بہترین اُمت بنایا ہے تو یہ اسی فریضہ شہادت علی الناس کی ادائیگی کے لیے ہے.

وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا ؕ (آیت ۱۴۳)
’’اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک درمیانی اُمت(بہترین اُمت) بنایا‘تاکہ تم گواہ ہوجاؤ پوری نوع انسانی پر اور رسولؐ ‘گواہ ہوجائیں تم پر.‘‘

عبادتِ ربّ کے بعد شہادت علی الناس کی یہ دوسری اہم ذمہ داری ہے جو اُمت کے سپرد کی گئی.اس کی نزاکت کو جان لیجیے. اگر رسول بالفرض اﷲ کا پیغام نہ پہنچاتے تو اﷲ کے ہاں وہ مسئول اور ذمہ دار ہوتے! انہوں نے پہنچا دیا لہذا وہ بَری ہوگئے اور باقی دنیا کو پہنچانے کی ذمہ داری اُمت کے حوالے کرکے تشریف لے گئے. اس لیے کہ محمدٌ رسول اﷲ پوری نوعِ انسانی کے لیے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے‘صرف عرب کے لیے تو نہیں. ازروئے الفاظِ قرآنی: 
وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا (سبا:۲۸اور: قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَۨا (الاعراف:۱۵۸)اور: وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۷﴾ (الانبیائ) باقی دنیا کو کون پہنچائے گا؟ اس کے متعلق میں عرض کرچکا کہ حجۃ الوداع میں آنحضور نے فرمادیا کہ اب یہ کام تمہارے ذمے ہے. میں نے تمہیں پہنچا دیا‘اب تم ان کو پہنچاؤ جو یہاں نہیں ہیں.

یہاں یہ بات مزید سمجھ لیجیے کہ یہ صرف اُس وقت کی دنیا والوں کا معاملہ نہیں تھا. اب تو دائمی رسالتِ محمدی کا دَور ہے (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام). اب تاقیامِ قیامت بنی نوعِ انسان کے لیے شہادت علی الناس کی ذمہ داری کون ادا کرے گا؟ یہ ذمہ داری اُمت محمد کی ہے (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام). اگر اُمت یہ فریضہ ادا نہیں کرتی تو جان لیجیے کہ دنیا کی گمراہی کا وبال اُس کے سر آئے گا. آپ یہ سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ کا اُمتی ہونے سے آپ کو اﷲ تعالیٰ کے ہاں کوئی کریڈٹ مل جائے گا! میں آپ کو دوسرا رُخ دکھا رہا ہوں. یہ تو اتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ اگر آپ اسے ادا نہیں کرتے تو دنیا کی ضلالت اور گمراہی کا وبال بھی آپ کے ذمہ آئے گا. بنی نوع انسان عدالت اُخروی میں یہ عذر پیش کرنے میں بڑی حد تک حق بجانب ہوں گے کہ اے اﷲ!ان کے پاس تیری آخری اور مکمل کتاب تھی‘ان کے پاس تیرا دین تھا‘یہ تیری شریعت کے علمبردار تھے‘یہ تیرے آخری نبی اور رسول کے اُمتی تھے‘انہوں نے اس دین کو نہ ہم تک پہنچایا اور نہ خود اس پر عمل کیا. یہ تیری آخری کتاب اور آخری نبیؐ ‘ کی تعلیمات پر خزانے کے سانپ بن کر بیٹھے رہے.

میں آپ کی نصح و خیر خواہی کا حق ادا نہیں کرپاؤں گا اگر میں آپ کو متنبہ نہ کردوں کہ اگر آپ کا طرز عمل یہ ہوگا تو آخرت میں لینے کے دینے پڑجائیں گے. خدارا مجھے بتائیے کہ اﷲ ربّ العزت کی عدالت میں جب ہم سے یہ سوال ہوگا کہ تم ہمارے آخری نبی و رسول جناب محمد کے اُمتی تھے‘تمہارے پاس ہمارا دین تھا‘تم حاملِ قرآن تھے‘ہم نے چینیوں اور امریکیوں کو اپنا دین نہیں دیا تھابلکہ اس کا وارث تم کو بنایا تھا اور یہ تمہاری ذمہ داری لگائی تھی کہ ان تک ہمارا دین پہنچاؤ‘ ہم نے محمد کو روسیوں میں مبعوث نہیں کیا تھا‘ان تک پہنچانا تمہارے ذمے تھا‘تو ہمارے پاس کیا جواب ہوگا؟ دوسروں تک دین نہ پہنچانے کی ذمہ داری ہم پر ہوگی یا نہیں؟ تو یہ ہے دوسری 
ذمہ داری جسے میں نے چار اصطلاحات کے حوالے سے بیان کیا ہے. اور ہمارا حال یہ 
ہے کہ ہم دوسروں تک تو کیا پہنچائیں گے‘آج ہم خود محتاج ہیں کہ صحیح دین ہم تک پہنچے. ہم تو‘ اِلاّماشائَ اﷲ‘پیدائشی طور پر (by birth) اور نام کے مسلمان ہیں کہ علامہ اقبال کے بقول: ؎

یوں تو سیّد بھی ہو‘ مرزا بھی ہو‘ افغان بھی ہو!
تم سبھی کچھ ہو‘ بتائو تو مسلمان بھی ہو؟