اب آئیے تیسری ذمہ داری کی طرف یعنی یہ کہ دین کو قائم کیا جائے. ایک ہے تبلیغ و دعوت یعنی دین کو پھیلانا‘اسے دوسروں تک پہنچانا‘اس کی طرف لوگوں کو بلانا اور ایک ہے اسے قائم و غالب کرنا. ان دونوں میں بڑا فرق ہے. اسلام اگر ایک مکمل نظامِ حیات ہے‘جیسا کہ فی الواقع وہ ہے 
اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ تو اسے بالفعل قائم کیا جانا چاہیے. ہم یہ بات بڑے فخر سے کہا کرتے ہیں کہ ہمارا دین ایک مکمل ضابطہ ٔحیات ہے. آج پاکستان میں شاید ہی کوئی پڑھا لکھا شخص ایسا ہو جو یہ بات نہ جانتا ہو اور نہ کہتا ہو. یہ فکر بڑا عام ہے. کم از کم ہمارے دروس و خطابات کے سامعین اور ہمارے لٹریچر کے قارئین میں سے تو کوئی شخص ایسا نہیں ہوسکتا جو اس بات کو جانتا نہ ہو. تو اگر یہ دین ایک مکمل نظامِ حیات ہے تو اس کو قائم کیوں نہیں کرتے! یہ صرف تبلیغ و تلقین کی خاطر‘یا محض تحقیقی مقالے لکھنے اور چھاپنے کی غرض سے‘یا مدح سرائی کرنے اور قصیدے کہنے کے لیے تو نہیں ہے. نظام اگر بالفعل قائم ہو تو اسے نظام کہا جائے گا‘ورنہ وہ نظام ہے ہی نہیں. پھر تو وہ محض ایک خیالی جنت ( Utopia) ہے یا ایک ایسا نظریہ جس کا عمل کی دنیا سے کوئی تعلق نہ ہو!
اس تیسری ذمہ داری کے لیے قرآن حکیم میں ہمیں چار اصطلاحات ملتی ہیں‘جن میں سے دو مکی سورتوں میں وارد ہوئی ہیں اور دو مدنی سورتوں میں. 


(۱) تکبیر رب

یہ اصطلاح مکی سورتوں میں سے سورۃ المدثر میں آئی ہے‘جہاں فرمایا گیا: وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳﴾ ’’اور اپنے ربّ کو بڑا کرو!‘‘ آپ شاید حیران ہوں کہ میں نے یہ کیا ترجمہ کیا ہے!… تو جان لیجیے کہ تکبیر کا لفظی معنی ہے کسی شے کو بڑا کرنا. تصغیر کا معنی ہے کسی شے کو چھوٹا کرنا. سوال پیدا ہوتا ہے کہ ربّ کو بڑا کرنا چہ معنی دارد؟ وہ تو بذاتہٖ بڑا ہے‘لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا والے اس کی بڑائی کو عملاً تسلیم نہیں کررہے. چنانچہ تکبیر ربّ سے مراد ہے اس کی بڑائی کو منوانا‘اسے تسلیم کرانا اور تشریعی معاملات میں اسی کے حکم کی تنفیذ کرنا. جیسا کہ فرمایا گیا : اِنِ الۡحُکۡمُ اِلَّا لِلّٰہِ اور بقول علامہ اقبال : ؎

سروری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آزری!

غور کیجیے کہ اس لحاظ سے تو وہ کہیں بڑا نظر نہیں آتا! بڑے تو ہم بنے بیٹھے ہیں. کیا آج ہمارا طرزِ عمل یہی نہیں ہے کہ حکم تو بس ہمارا چلے گا‘ہم نہیں جانتے کہ اللہ کون ہے! بتایئے‘ آج پوری دنیا کا یہ رویّہ ہے کہ نہیں؟ ہم اذانوں میں کہہ دیتے ہیں ’’اﷲ اکبر‘‘.جلسوں اور جلوسوں میں ’’نعرۂ تکبیر‘‘ کے جواب میں فلک شگاف انداز میں کہہ دیتے ہیں ’’اﷲ اکبر‘‘ … لیکن کہنے کو جتنا چاہیں کہہ لیں کہ اﷲ سب سے بڑا ہے‘حقیقت میں اﷲ کہاں بڑا ہے؟ اس کی بڑائی اور اس کی کبریائی نظام حیات میں تو بالفعل کہیں بھی نافذ نہیں. حالانکہ ’’تکبیر ربّ‘‘ کا اصل تقاضا یہ ہے کہ وہ نظام قائم کیا جائے جس میں اﷲ کی حاکمیت مطلقہ (Absolute Sovereignty) کو تسلیم کیا جائے‘مانا جائے کہ آخری اختیار اُس کا ہے اور آخری فیصلہ اُس کے ہاتھ میں ہے. یہ نظام قائم کرو گے تو تکبیر ربّ کا تقاضا پورا ہوگا.

دیکھئے ‘نبی اکرم کو بذریعہ وحی پہلا حکم ملا: 
اِقْرَاْ. پہلی وحی میں تبلیغ اور دعوت کا کوئی ذکر نہیں‘ البتہ ’’اِقْرَاْ ‘‘ دو مرتبہ آیا ہے: 

اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚ﴿۱﴾خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ ۚ﴿۲﴾اِقۡرَاۡ وَ رَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ ۙ﴿۳﴾الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ ۙ﴿۴﴾عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ ؕ﴿۵﴾ (العلق) دوسری وحی سورۃ المدثر کی ابتدائی آیات ہیں. وہاں باقاعدہ خطاب سے بات شروع ہوئی: یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۙ﴿۱﴾ ’’اے لحاف میں لپٹ کر لیٹنے والے!‘‘ خطاب کے بعد پہلا حکم ملا: قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۲﴾وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳﴾ کھڑے ہوجاؤ‘کمربستہ ہو جاؤ‘ مستعد ہوکر اپنا فرضِ منصبی ادا کرو! دو کام کرو‘ انذار اور تکبیر ربّ! بنی نوع انسان کو خبردار اور آگاہ کرو‘نیند کے ماتوں کو جگاؤ کہ کس دھوکے میں پڑے ہوئے ہو‘زندگی صرف یہ زندگی نہیں ہے‘ اصل زندگی وہ ہے جو موت کے بعد آئے گی وَ مَا ہٰذِہِ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا لَہۡوٌ وَّ لَعِبٌ ؕ وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۴﴾ (العنکبوت) کہ اے لوگو! اچھی طرح جان لو‘یہ دنیا کی زندگی عارضی زندگی ہے اور بس ایک کھیل اور دل کا بہلاوا ہے‘اور اصل زندگی کا گھر تو آخرت کا گھر ہے‘کاش لوگوں کو سمجھ آجائے! اور یہ کہ قیامت کا دن آنے والا ہے جس دن سب کو اپنے ربّ کے حضور میں جواب دہی کے لیے لازماً کھڑے ہونا ہوگا. اَلَا یَظُنُّ اُولٰٓئِکَ اَنَّہُمۡ مَّبۡعُوۡثُوۡنَ ۙ﴿۴﴾لِیَوۡمٍ عَظِیۡمٍ ۙ﴿۵﴾یَّوۡمَ یَقُوۡمُ النَّاسُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ؕ﴿۶﴾ (المطفّفین) ’’کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ ایک بڑے دن (یعنی قیامت کے روز) اٹھا کر لائے جانے والے ہیں؟ اُس دن جب پوری نوع انسانی اس کائنات کے مالک کے سامنے (جواب دہی کے لیے) کھڑی ہوگی.‘‘ انسان اس زعم میں مبتلا نہ رہے کہ یہ محض ڈراوا ہے. یہ دن آکر رہے گا اور یہی اصل ہار جیت کا دن ہوگا. ازروئے الفاظِ قرآنی: یَوۡمَ یَجۡمَعُکُمۡ لِیَوۡمِ الۡجَمۡعِ ذٰلِکَ یَوۡمُ التَّغَابُنِ (التغابن:۹… یہ انذار ہے اور یہی نبی اکرم  کی جدوجہد کا نقطۂ آغاز ہے. لیکن جانا کدھر ہے‘ آخری منزل کون سی ہے؟ اس کا تعین اگلی آیت میں کردیا گیا: وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳﴾ یعنی وہ منزل ہے تکبیر ربّ! اور آپ غور کیجیے‘تیئیس سال میں آنحضور نے تکبیر ربّ فرما دی کہ نہیں؟… یہ ماننا پڑتا ہے کہ جزیرہ نمائے عرب میں آپؐ نے وہ نظام قائم فرما دیا جس میں اختیارِ اعلیٰ (Supreme Authority) اور حاکمیتِ مطلقہ کا مالک فقط اﷲ عزوجل ہی کو تسلیم کیا گیا تھا. خیال رہے کہ تکبیر ربّ کی ذمہ داری آنحضور کو مرتبہ رسالت پر مأمور ہونے کے وقت ہی سونپ دی گئی تھی. یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ بعض مفسرین کی یہ رائے ہے اور مجھے بھی اس سے اتفاق ہے کہ پہلی وحی یعنی سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات سے آنحضور کی نبوت کا اور دوسری وحی یعنی سورۃ المدثر کی ابتدائی سات آیات سے آنحضور  کی رسالت کا آغاز ہوا تھا. واﷲ اعلم! 

(۲) اقامتِ دین

اسی ذمہ داری کے لیے دوسری اصطلاح اقامتِ دین ہے جو ایک دوسری مکی سورت سورۃ الشوریٰ میں وارد ہوئی. فرمایا گیا:

اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ (آیت ۱۳)
’’دین کو قائم کرو اور اس بارے میں تفرقے میں نہ پڑو.‘‘

قائم کون سی چیز کو کہتے ہیں؟ اس کو جو کھڑی ہو. زمین پر پڑی ہوئی چیز تو قائم نہیں کہلاتی. کوئی چیز گر جائے تو کہا جاتا ہے کہ اس کو قائم کرو‘اسے کھڑا کرو. دین اگر پہلے سے قائم ہے تو اسے قائم رکھنا اہل دین کی ذمہ داری ہوگی اور اگر زمین بوس ہو تو اس کا اپنے ماننے والوں سے یہ تقاضا ہے کہ اسے قائم کریں‘اسے کھڑا کریں. اسی دین کے مطابق نظامِ معیشت و معاشرت استوار ہو‘اسی کے مطابق نظامِ حکومت و سیاست قائم ہو. اگر یہ صورت ہے تو ’’اَقِیْمُوا الدِّیْنَ‘‘ کا تقاضا پورا ہورہا ہے ‘اور اگر نہیں تو جان لیجیے کہ محض تلاوت اور مدح سرائی کے لیے تو یہ دین نہیں اُتارا گیا دیکھئے سورۃ المائدۃ میں فرمایا:

قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَسۡتُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ حَتّٰی تُقِیۡمُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ (آیت ۶۸
’’(اے نبی صاف صاف) کہہ دیجیے کہ اے اہل کتاب! تم ہرگز کسی اصل پر نہیں ہو جب تک کہ تم تورات اور انجیل کو اور دوسری کتابوں کو قائم نہ کرو جو تمہارے ربّ کی طرف سے نازل کی گئی ہیں.‘‘

یہاں وہی لفظ اقامت (قائم کرنا) آیا ہے. اب اس آیت میں بغرضِ تفہیم ’’ یَا اَھْلَ الْکِتَابِ‘‘ کی جگہ ’’ یَا اَھْلَ الْقُرْاٰنِ‘‘ اور ’’تورات و انجیل‘‘ کی جگہ ’’قرآن‘‘ رکھ دیجیے تو بات یوں ہوگی: یَا اَھْلَ الْقُرْاٰنِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْئٍ حتّٰی تُقِیْمُوا الْقُرْاٰنَ کہ اے اہل قرآن‘اے حاملانِ کتاب اﷲ! تمہاری کوئی حیثیت نہیں ہے جب تک تم قرآن کو قائم نہ کرو. قرآن حکیم اگر واقعی ضابطۂ حیات ہے‘جیسا کہ فی الواقع وہ ہے‘تو اس کو نافذ کیا جانا چاہیے. قرآن نے اگر کوئی نظام دیا ہے‘اور واقعی دیا ہے‘تو وہ نظام قائم ہونا چاہیے. یہ مختصر شرح ہوئی ’’اقامتِ دین‘‘ کی جو مکی دَور کی دوسری اصطلاح ہے. 

(۳) یَکُوْن الدِّینُ کُلّہٗ لِلّٰہ

یہ تیسری اصطلاح مدنی دور کی ہے اور یہ دو سورتوں (البقرۃ اور الانفال) میں آئی ہے. سورۃ البقرۃ میں فرمایا: 

وَ قٰتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ لِلّٰہِ ؕ (آیت ۱۹۳)
’’اور جنگ کرو ان (مشرکین) سے یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اﷲ ہی کے لیے ہوجائے!‘‘

سورۃ الانفال میں بات اور آگے بڑھی. وہاں فرمایا:
وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ (آیت ۳۹

’’اور(مسلمانو!) تم ان سے جنگ جاری رکھو جب تک فتنہ فرو نہ ہو جائے اور دین کُل کا کُل اللہ ہی کے لیے نہ ہو جائے.‘‘ 

یہ نہ ہو کہ دین کو اجزاء میں تقسیم کرلیا جائے مسجد میں نمازیں بھی پڑھی جارہی ہوں‘روزے بھی بڑے اہتمام سے رکھے جارہے ہوں‘چلیے زکوٰۃ بھی جیسے تیسے ادا کی جارہی ہو‘حج اور عمرے بھی ذوق و شوق سے ہورہے ہوں لیکن ملک میں قائم نظامِ حکومت کے ڈھانچے میں دین کو کوئی دخل نہ ہو! مالی معاملات کو ہم شریعت کے تحت لانے کے لیے کسی طور پر تیار نہ ہوں اور اس سے گریز کے لیے عذرات کا انبار لگادیں‘حدود وتعزیراتِ اسلامی کے نفاذ کا فیصلہ اگر کر بھی لیں تو اس پر عمل درآمد کے لیے عملاً کوئی پیش رفت نہ ہو. 

ستروحجاب کے احکام کے بارے میں ہماری سوچ یہ ہو کہ یہ زمانے کا ساتھ نہیں دے سکتے‘لہذا ان کے نفاذ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘بلکہ اس معاملے میں دین کے احکام کی پوری ڈھٹائی سے خلاف ورزی میں ہمارے قدم آگے بڑھتے چلے جائیں اور مَرد و زن کی مساوات اور زندگی کے ہر میدان اور ہر شعبے میں دونوں کو شانہ بشانہ مواقع فراہم کرنا ہمارا نعرہ (slogan) بن جائے‘ عورت کے تقدس کو ہم برسرِ بازار نیلام کریں اور اسے اشتہار و تشہیر کی جنس بنا کر رکھ دیں.

ہمارا حال تو اتنا پتلا ہے کہ صدر ایوب کے دَور میں جو عائلی قوانین بذریعہ آرڈی نینس جاری ہوئے تھے اور جن کی اکثر دفعات کو پاکستان میں موجود تمام فرقوں کے علماء نے متفقہ طور پر خلافِ اسلام قرار دیا تھا‘ان کو قانونی طور پر شریعت کورٹ میں زیرِ بحث نہیں لایا جاسکتا. اس لیے کہ معلوم ہے کہ شریعت کورٹ خلافِ شریعت دفعات کو گوارا نہیں کرے گی اور اس طرح مغرب زدہ اور اباحیت پسند خواتین و حضرات کے ایک چھوٹے لیکن بااثر طبقے کی ناراضگی کا اندیشہ ہے اور اس طبقے کو مطمئن رکھنا ضروری ہے. گویا اﷲ تعالیٰ کی ناراضگی سے زیادہ خوف ہمیں اس مغرب زدہ اور اباحیت پسند طبقے کا ہے.اس کا مطلب یہی تو ہے کہ ہم نے دین کے حصے بخرے کردیے ہیں.

ستم ظریقی ملاحظہ کیجیے کہ ’’شریعت کورٹ‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا لیکن طے کردیا گیا کہ فلاں فلاں اُمور اس کورٹ کے دائرے سے باہر ہیں‘حتیٰ کہ عائلی قوانین بھی اس کی حدودِ کار میں نہیں آتے. حالانکہ عائلی قوانین پر قرآن حکیم نے سب سے زیادہ تفصیل سے بحث کی ہے‘ اور یہ بحث ایک دو نہیں‘متعدد سورتوں میں پھیلی ہوئی ہے. ہمارے یہ عائلی قوانین وہ تھے جن کو انگریز تک نے نہیں چھیڑا تھا. یہ امر واقعہ ہے کہ انگریز نے ہمارے Personal Law کو ہاتھ نہیں لگایا تھا. یہ ہماری بدبختی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کے بعد اسلام کے عائلی قوانین کی کتر بیونت کی گئی. ایک مارشل لاء آیا تو یہ مسخ شدہ غیر اسلامی قوانین نافذ ہوئے اور دوسرا مارشل لاء آیا تو اس نے ان کو تحفظ دیا. کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ جو کام غیروں نے ہمارے دورِ غلامی میں نہیں کیاوہ اپنوں نے آزادی ملنے کے بعد اپنے ہاتھوں سے کیا.

تو تیسری اصطلاح ہمارے سامنے سورۃ البقرۃ اور سورۃ الانفال کی دو آیات کے حوالے سے یہ سامنے آئی کہ دین کُل کا کُل اﷲ کے لیے ہو.جیسا کہ میں نے عبادت 
کے ضمن میں عرض کیا تھا کہ عبادت وہی ہوگی جو پوری زندگی پر محیط ہو‘اسی طرح ’’اقامتِ دین‘‘ کے بارے میں نوٹ کرلیجیے کہ یہ اقامت پورے اور مکمل دین کی ہوگی. یہ نہیں کہ ایک حصہ ہمیں پسند نہیں‘وہ مشکل ہے‘لہذا وہ قائم نہ کریں‘اور جو حصہ ہمیں پسند ہے اور آسان ہے وہ قائم کردیں. یہ اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت نہ ہوئی بلکہ یہ تو اپنے من کی چاہت ہے جس کی پیروی کی جارہی ہے! 

(۴) غلبۂ دین حق:

اس سلسلے کی چوتھی اور عظیم ترین اصطلاح وہ ہے جو سورۃ الصف میں وارد ہوئی اور جو اس سورۃ مبارکہ کی مرکزی آیت کا اصل موضوع ہے. فرمایا:

ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ‘ (آیت۹)
’’وہی ہے (اﷲ) جس نے اپنے رسولؐ ‘کو الہدیٰ اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ وہ غالب کردے اس کو تمام جنسِ دین (یا تمام نظام ہائے اطاعت) پر.‘‘

یہ الفاظ ایک شوشے کے فرق کے بغیر سورۃ الصف کے علاوہ سورۃ التوبہ اور سورۃ الفتح میں بھی آئے ہیں. سورۃ التوبہ اور سورۃ الصف میں آخری ٹکڑا آیا: وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ٪﴿۹﴾ اور سورۃ الفتح میں وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۲۸﴾ .اس طرح ان تین مقامات کے حوالے سے ’’اظہارُ دینِ الحقِّ علی الدّین کُلِّہٖ‘‘ کی یہ اصطلاح سامنے آئی.

آپ نے دیکھا کہ اصطلاحات ثقیل ہوتی چلی جارہی ہیں. یہی وجہ ہے کہ میں نے اصل باتوں کو سادہ ترین الفاظ میں آپ کے سامنے رکھا. ان کا پھر اعادہ کررہا ہوں. پہلی بات یہ ہے کہ دین پر خود عمل پیرا اور کاربند ہو. دوسری یہ کہ دین کو پھیلائو. اور تیسری بات یہ کہ دین کو قائم کرو. یہ ہیں تین فرائض جو ہم پر دین کی طرف سے عائد ہوتے ہیں. کلمۂ شہادت ان کے لیے بمنزلہ بنیاد کے ہے‘اور نماز‘زکوٰۃ‘حج اور روزہ اس کے چار ستون ہیں. ان چار ستونوں پر یہ تین منزلہ عمارت کھڑی ہے. اہم ترین دینی اصطلاحات کے حوالے سے ان تین منزلوں کو (۱) عبادتِ ربّ (۲) شہادت 
علی الناس اور (۳) اقامتِ دین کا نام دیا جائے گا. اگر آپ کے ذہن میں دینی فرائض کا یہ تصور موجود ہے تو بنیادی خاکہ مکمل ہوگیا‘اور اگر یہ نہیں ہے اور ذہن میں صرف نماز‘زکوٰۃ‘ حج اور روزہ ہی ہیں تو پھر ستون ہی ستون ہیں‘چھت تو آپ کے سامنے ہے ہی نہیں.بغیر چھت کے جو ستون ہوتے ہیں وہ تو بطورِ یادگار کھڑے رہ جاتے ہیں‘ان کا مصرف کوئی نہیں ہوتا. وہ آثارِ قدیمہ ہوسکتے ہیں‘اور تو کوئی مقصد پورا نہیں کرتے. 

چنانچہ فرائض دینی کی عمارت کا خاکہ اچھی طرح ذہن نشین کرلیجیے کہ ارکانِ اسلام یعنی کلمۂ شہادت ‘نماز‘زکوٰۃ‘حج اور روزہ پر اسلام ‘اطاعت اور عبادتِ ربّ کی پہلی منزل استوار ہوتی ہے. تبلیغ و دعوت‘امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور شہادت علی الناس اس کی دوسری منزل ہے‘جبکہ تکبیر ربّ‘اقامت ِدین‘کُل کا کُل دین اﷲ ہی کے لیے ہو اور اظہارِ دین الحق یعنی اس دین حق کو غالب و قائم کردیا جائے‘یہ تیسری منزل ہے. یہ خاکہ اپنے ذہن میں رکھئے تو آپ کے سامنے صحیح تصور آئے گا کہ ہمارا دین ہم سے کیا چاہتا ہے؟ ہمارے دینی فرائض کیا ہیں؟ یا یوں کہئے کہ اﷲ تعالیٰ کے ایک بندۂ مؤمن سے مطالبات کیا ہیں؟