پہلا لازمہ جہاد

اب آئیے ان تین اُمور کی طرف جن کی حیثیت ان فرائض کے لوازم یعنی لازمی تقاضوں کی ہے. ان میں سے پہلے لازمی تقاضے کو سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو وہ ہوگا کوشش اور کشاکش. غور کیجیے کہ کوشش اور محنت کیے بغیر کیا یہ منزلیں سرہوسکتی ہیں؟ ہرگز نہیں! بلکہ محض کوشش اور محنت سے بھی کام نہیں بنتا‘اس لیے کہ یہاں خلاء تو ہے نہیں.آپ اگر اپنے نظریات کے مطابق کوشش کررہے ہیں تو اور لوگ بھی تو ہیں جو اپنے نظریات کے لیے کوشش کررہے ہیں. لہٰذا کوشش‘کوشش سے ٹکرائے گی. جب کوششیں باہم ٹکراتی ہیں تو اس کا نام ہوتا ہے کشاکش‘جسے عام طور پر کشمکش بھی کہا جاتا ہے. اس کشاکش یا کشمکش کے لیے دینی اصطلاح ’’جہاد‘‘ ہے. یہ جہاد وہ پہلا لازمی 
عمل ہے کہ اگر یہ ہوگا تو دین کے وہ تین بنیادی تقاضے پورے ہوں گے جو ہمارے سامنے آئے‘ورنہ نہیں. اب اس لفظِ جہاد کو ان تین بنیادی تقاضوں کے حوالے سے بھی سمجھ لیجیے. 

(۱) جہاد مع النفس:

فرائضِ دینی کی پہلی سطح یعنی اسلام‘اطاعت‘تقویٰ اور عبادت کی سطح پر جہاد کس سے ہوگا؟ اپنے نفس سے اپنے نفس کو اﷲ کا مطیع بنانے کے لیے کشاکش کرنی ہوگی‘کیونکہ نفس توکسی اور طرف زور لگاتا رہتا ہے.ازروئے الفاظِ قرآنی: اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ (یوسف:۵۳. وہ حرام کی طرف بڑھنا چاہتا ہے‘آپ کو اسے روکنا ہوگا. اس کے اندر خواہشات کا سرکش گھوڑا ہے‘آپ کو اسے لگام دینی ہوگی. صبح ہوگئی ہے‘اذان سن لی ہے‘اﷲ کی پکار آگئی ہے‘نفس کہتا ہے کہ سوتے رہو. اس سے کشمکش کریں گے اور اسے زیر کریں گے تو نماز کے لیے کھڑے ہوسکیں گے‘ورنہ نہیں. اگر اُس وقت ذرا سی کروٹ لی اور چادر اوپر سرکالی کہ ابھی اٹھتے ہیں تو پھر اٹھنا محال ہے. یہی کشمکش و کشاکش دراصل جہاد کی پہلی اور اہم ترین سطح ہے.حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم  نے فرمایا: اَلْـمُجَاھِدُ مَنْ جَاھَدَ نَفْسَہٗ (۱حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے دریافت کیا: اَیُّ الْجِھَادِ اَفْضَلُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ؟ ’’اے اﷲ کے رسول ! بہترین جہاد کون سا ہے؟‘‘ آنحضور نے فرمایا: اَنْ تُجَاھِدَ نَفْسَکَ وَھَوَاکَ فِیْ ذَاتِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ (۲’’یہ کہ تو اپنے نفس اور اپنی خواہشات کو اللہ کا مطیع بنانے لیے ان سے جہاد کرے‘‘.ایک موقع پر آنحضرت نے روزمرہ کے معمولات کو اﷲ کے احکام کے تابع رکھنے کو ’’جہادِ اکبر‘‘ قرار دیا‘اور یہ موقع سفرِ تبوک سے واپسی کا تھا جس سے زیادہ طویل اور سخت سفر شدید گرمی کے موسم میں کوئی اور نہیں ہوا تھا. ایک روایت کے مطابق اس سفر سے مدینہ منورہ مراجعت ہو رہی تھی تو 

(۱) سنن الترمذی‘ کتاب الجھاد‘ باب ما جاء فی فضل من مات مرابطاً.
(۲) حلیۃ الاولیاء لابی نعیم ۲؍۲۸۲. السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی ‘ ح ۱۴۹۶

اس موقع پر فرمایا: رَجَعْنَا مِنَ الْجِھَادِ الْاَصْغَرِ اِلَی الْجِھَادِ الْاَکْبَرِ (۱’’ہم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف لوٹے ہیں‘‘. یعنی لوگ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ اعداء سے مقابلہ اور کشاکش ہی جہاد ہے‘بلکہ یہ جو ہمارے اندر بیٹھا ہوا دشمن ’’ہمارا نفس‘‘ ہے ‘اہم ترین کشاکش اس سے کرنی پڑتی ہے. اس گفتگو کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاد کی پہلی سطح اور اس کا پہلا مرحلہ ’’جہاد مع النفس‘‘ ہے. یعنی اپنے نفس کے ساتھ کشاکش اور پنجہ آزمائی! 

(۲) جہاد بالقرآن

دینی فرائض کے دوسرے مرحلے یعنی تبلیغ‘دعوت‘امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور شہادت علی الناس کی سطح پر جہاد کی صورت کیا ہوگی؟ دیکھئے! آپ اگر دین کی تبلیغ کررہے ہیں ‘اس کی دعوت دے رہے ہیں تو الحاد‘دہریت‘مادہ پرستی ‘فسطائیت‘اشتراکیت اور دوسرے اَدیان و مذاہب باطلہ کے مبلغین بھی تو آپ کے اسی معاشرے میں موجود ہیں. آپ اسلام کے قائل ہیں تو کفر کی طاقتیں بھی یہیں موجود ہیں. دعوت و تبلیغ کی سطح پر ان سے کشمکش و کشاکش ہوگی. البتہ یہ کشاکش نظریاتی سطح پر ہوگی‘خیالات کی سطح پر‘فلسفہ و فکر کی سطح پر اس کشاکش میں مال اور جسم و جان کی توانائیاں کھپانی پڑیں گی. رسول اللہ جب توحید کی دعوت دے رہے تھے تو آپؐ کے مقابل ابوجہل اور اس کے ساتھی شرک اور بُت پرستی کے علمبردار بن کر کھڑے تھے. چنانچہ باہم کشاکش ہوئی یانہیں؟ پس تبلیغ و دعوت‘امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور شہادت علی الناس کے فرائض کی ادائیگی کے لیے جب آپ محنت‘کوشش اور جدوجہد کریں گے تو اگر آپ کا خیال ہے کہ آپ کو دیکھتے ہی کفر اور الحاد میدان چھوڑ کر بھاگ جائیں گے تو یہ محض ایک مغالطہ ہے. اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ آپ کو کشمکش و کشاکش سے سابقہ پیش آکر رہے گا. اب مرحلہ مشکل تر ہوگیا. پہلے تو اپنے باطن میں کشاکش والا معاملہ تھا‘جہاد مع النفس تھا‘اب دعوت و تبلیغ کے لیے‘امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے 

(۱) المستدرک علی المجموع لابن تیمیۃ۲۲۱/۱. مجموع الفتاویٰ لابن تیمیۃ۱۹۷/۱۱. الاسرار المرفوعۃ لملا علی قاری ۲۱۱. السلسلۃ الضعیفۃ للالبانی‘ ح۲۴۶۰ائمہ حدیث نے اسے انتہائی غریب اور ضعیف حدیث قرار دیا ہے اور اکثر نے اس کے بارے میں لکھا ہے : لا اصل لہ. لیے اور شہادت علی الناس کے لیے آپ کو جہاد کرنا ہوگا‘کشمکش کرنی پڑے گی باطل کے ساتھ‘الحاد کے ساتھ‘اباحیت کے ساتھ اور تمام باطل نظریات کے ساتھ. 

اس جہاد اور کشاکش میں تلوار کون سی چلے گی؟ اس کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے سورۃ الفرقان میں رہنمائی فرمائی : 
وَ جَاہِدۡہُمۡ بِہٖ جِہَادًا کَبِیۡرًا ﴿۵۲﴾ کہ اے نبیؐ ! ان کفار سے جہاد کیجیے اس قرآن کے ساتھ‘زبردست جہاد.یہاں ’’بِہٖ‘‘ کی ضمیر مجرور قرآن کی طرف جارہی ہے. فرمایا جارہا ہے کہ ہم نے تمہارے ہاتھ میں قرآن دیا ہے‘یہ وہ تلوار ہے جو ہر باطل نظریے کو کاٹ پھینکنے والی ہے. ایک تلوار لوہے کی ہوتی ہے‘اس کا ذکر آگے چل کر آئے گا. قرآن بھی ایک تلوار ہے. علامہ اقبال نے اس کو بڑے پیارے انداز میں بیان کیا ہے. وہ کہتے ہیں کہ نفس اور شیطان کے ساتھ کشمکش کرنے کے لیے یہی قرآن کی تلوار کام دے گی: ؎

کشتنِ ابلیس کارے مشکل است
زانکہ او گم اندر اَعماقِ دل است
خوشتر آں باشد مسلمانش کنی
کشتۂ شمشیرِ قرآنش کنی!

’’ابلیس کو ہلاک کرنا ایک مشکل کام ہے‘ اس لیے کہ وہ انسان کے دل کی گہرائیوں کے اندر روپوش ہو جاتا ہے. چنانچہ بہتر یہ ہو گا کہ تم اسے مسلمان کر لو اور(اس کا طریقہ یہ ہو گاکہ) تم شمشیرِ قرآنی کے ذریعے اسے گھائل کرو!‘‘

چنانچہ نفس امّارہ کو بھی مارو گے تو قرآن کی تلوار سے مارو گے‘ویسے یہ نہیں مرے گا. اورشیطان سے لڑنے کے لیے بھی یہی تلوار کام آئے گی جو اﷲ تعالیٰ نے تمہارے ہاتھ میں قرآن مجید کی صورت میں دی ہے اور جو محمدٌ رسول اﷲ  کا سب سے بڑا معجزہ ہے‘جسے ہم نے ’’کتابِ مقدس‘‘ بنا کر طاقوں میں رکھ چھوڑا ہے. تویہ جہاد کی دوسری سطح ہوئی. یعنی فکری و نظریاتی سطح پر کشاکش اور تصادم. حق کا بول بالا کرنا‘یعنی احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کے لیے جان و مال سے سعی و جہد کرنا. اس کے لیے زبان بھی استعمال ہوگی اور قلم بھی. اس میں تمام ذرائع ابلاغ اور نشرواشاعت کے تمام وسائل استعمال ہوں گے اور ان سب کے ذریعے قرآن مجید کی دعوت اور اس کے پیغام کو پھیلایا جائے گا. 

(۳) قتال فی سبیل اﷲ:

تیسری سطح یعنی اﷲ کے دین کو بالفعل قائم و نافذ کرنے کے مرحلے پر یہ جہاد بھی اپنی چوٹی پر پہنچ جاتا ہے اور یہ جہاد کا تیسرا اور بلند ترین مرحلہ ہے. اس مرحلہ میں باطل کے علمبرداروں کے ساتھ کشاکش اور تصادم ہوگا. دعوت و تبلیغ کے مرحلے میں کشاکش اور تصادم باطل نظریات کے ساتھ تھا‘ لیکن جب دین کو قائم کرنے کا مرحلہ آئے گا تو یہ کشاکش اور تصادم محض باطل نظریات سے نہیں بلکہ باطل کے علمبرداروں اور باطل کی قوتوں کے ساتھ ہوگا. اس لیے کہ وہ اس راستے میں مزاحم ہوں گے. وہ ہرگز یہ نہیں کہیں گے کہ ٹھیک ہے ہم ہٹ جاتے ہیں‘آپ آئیے اور اپنا دین قائم و نافذ کردیجیے! ع ایں خیال است و محال است و جنوں!ہر نظامِ باطل کے ساتھ مراعات یافتہ طبقات (privileged classes) کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں. ایسے طبقات کے ہاتھوں میں ملک کے معاملات کی زمامِ کار ہوتی ہے. تو کیا ایسے تمام طبقات کبھی یہ گوارا کریں گے کہ آپ وہ رائج نظام جس سے ان کے مفادات وابستہ ہیں‘ہٹا کر دین کا نظام مکمل طور پر قائم کردیں؟ اس بات کو وہ لوگ ٹھنڈے پیٹوں ہرگز برداشت نہیں کریں گے. چنانچہ ان کے ساتھ لازماً پنجہ آزمائی کرنی پڑے گی. اس پنجہ آزمائی کی بھی مختلف سطحیں ہیں. پہلی سطح صبرو مصابرت اور استقامت (Passive Resistance) کی ہے. دوسری سطحاقدام (Active Resistance) کی ہے‘ جبکہ تیسری سطح مسلح تصادم (Armed Conflict) کی ہے. اہل حق اگر کمزور ہوں تو جب تک طاقت حاصل نہ ہو جائے انہیں صبر محض کی روش پر عمل کرنا ہوگا. وہ مار کھائیں گے لیکن ہاتھ نہیں اُٹھائیں گے‘کیونکہ حکمت اسی میں ہے. مکہ مکرمہ میں اسی حکمت پر عمل ہوا. وہاں اہلِ ایمان کو یہی حکم تھا کہ مصائب جھیلو‘ظلم و تعدی برداشت کرولیکن ہاتھ نہ اُٹھاؤ. یہ ہے صبر و مصابرت‘یعنی Passive Resistance لیکن جب طاقت حاصل ہو جائے تو پھر انہیں اجازت ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیں. چنانچہ وہی مسلمان جو مکہ میں ہاتھ نہیں اُٹھا رہے تھے‘مدینہ میں ان کے ہاتھ کھول دیے گئے. انہیں اذنِ قتال دے دیا گیا. ازروئے الفاظِ قرآنی:

اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصۡرِہِمۡ لَقَدِیۡرُۨ ﴿ۙ۳۹﴾ ‘ (الحج)
’’اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف (کفار کی طرف سے) جنگ کی جارہی ہے‘کیونکہ وہ مظلوم ہیں ‘اور بے شک اﷲ ان کی مدد پر قادر ہے.‘‘

تو جان لیجیے کہ اس کشمکش کا آخری مرحلہ مسلح تصادم (Armed Conflict) ہے‘یعنی قتال فی سبیل اﷲ. اور یہ جہاد کی چوٹی ہے. سورۃ الصف میں واضح فرما دیا گیا ہے کہ یہی چوٹی محبوبیت ربّ کا مقام ہے. ارشاد ہوا:

اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ﴿۴
’’بلاشبہ اﷲ کو تو اپنے وہ بندے محبوب ہیں جو اُس کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اس طرح صفیں باندھ کر گویا کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں.‘‘

اس موقع پر میں صحیح مسلم کی ایک حدیث شریف کا حوالہ دے رہا ہوں. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ نے ارشاد فرمایا :

مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَغْزُ وَلَمْ یُحَدِّثْ بِہٖ نَفْسَہٗ مَاتَ عَلٰی شُعْبَۃٍ مِنَ النِّفَاقِ (۱
’’جو شخص اس حال میں مرگیا کہ نہ تو اس نے (اﷲ کی راہ میں) جنگ کی اور نہ اس کے دل میں اس کی تمنا ہی پیدا ہوئی تو وہ ایک قسم کے نفاق پر مرا.‘‘

چنانچہ دل میں یہ تمنا ضرور رکھنی چاہیے. اگر دل میں فی الواقع ایمان موجود ہے تو یہ آرزو ضرور رہے کہ کوئی وقت آئے کہ خالصتاً اﷲ کے دین کو قائم کرنے کے لیے ہم اﷲ (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب ذم من مات ولم یغز ولم یحدث نفسہ بالغزو. کی راہ میں اپنی گردنیں کٹا کر سرخرو ہوجائیں. اگر اس تمنا سے سینہ خالی ہے تو اس سینے میں نفاق ہے. میں پھر عرض کردوں کہ یہ جناب محمدٌ رسول اﷲ کا فتویٰ ہے.