فرائضِ دینی کے ضمن میں دوسرا لازمی تقاضا التزامِ جماعت ہے. کون ہے جو بقائمی ٔہوش و حواس یہ کہہ سکے کہ یہ کام انفرادی طور پر ہوسکتے ہیں؟ کوئی ایک بھی سلیم العقل شخص ایسا نہیں ہوسکتا جو یہ رائے رکھتا ہو کہ ان کاموں کے لیے جماعت ضروری نہیں.اگر یہ اُمور یعنی عبادتِ ربّ‘اطاعتِ ربّ‘ شہادت علی الناس‘امر بالمعروف‘ نہی عن المنکر‘ اقامتِ دین اور اظہارِ دین الحق علی الدین کلہ فرائض دینی ہیں تو ان کے لوازم کا شمار بھی فرائض میں ہوگا‘کیونکہ جو شے فرض کی ادائیگی کے لیے لازمی ہو وہ بھی فرض ہے. مثلاً نماز پڑھنا فرض ہے اور اس کے لیے وضو شرط ہے تو وضو بھی فرض ہوا کہ نہیں؟ حج یا عمرہ کی ادائیگی کے لیے احرام شرط ہے تو احرام بھی فرض ہوا کہ نہیں؟لہذا ‘التزامِ جماعت بھی لازم و واجب ہے. نبی اکرم کا حکم ہے‘جسے حضرت حارث الاشعری رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے:

اَنَا آمُرُکُمْ بِخَمْسٍ‘ اَللّٰہُ اَمَرَنِیْ بِہِنَّ : بِالْجَمَاعَۃِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَالْھِجْرَۃِ وَالْجِہَادِ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (۱
’’(مسلمانو!)میں تمہیں پانچ باتوں کا حکم دیتا ہوں‘اللہ نے مجھے ان کا حکم دیا ہے: التزامِ جماعت کا‘(امیر کا حکم) سننے اور ماننے کا‘ہجرت کا‘اور اﷲ کے راستے میں جہاد کا!‘‘
جرت کیا ہے؟ یہ کہ ہر اُس چیز کو چھوڑ دینا جو اﷲ کو پسند نہ ہو جیسے رسول اﷲ سے پوچھا گیا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَیُّ الْھِجْرَۃِ اَفْضَلُ؟ تو آپؐ نے جواب دیا: اَنْ تَھْجُرَ مَاکَرِہَ رَبُّکَ (۲یہاں تک کہ وقت آئے اور گھر بار اور وطن چھوڑ نا (۱) مسند احمد۱۳۰/۴ وسنن الترمذی‘ کتاب الامثال‘ باب ما جاء فی مثل الصلاۃ والصیام والصدقۃ.

(۲) سنن النسائی‘ کتاب البیعۃ‘ باب ھجرۃ البادی. عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضی اللّٰہ عنھما. 
پڑے تو اس کے لیے بھی انسان ہر دم آمادہ رہے. اور یہ ہجرت کی چوٹی ہے. جیسے جہاد کی چوٹی قتال فی سبیل اﷲ ہے اسی طرح ہجرت کی چوٹی اﷲ کے دین کے لیے ترکِ وطن ہے. رہا جہاد فی سبیل اﷲ تو اس کا آغاز مجاہدہ مع النفس سے ہوتا ہے اور اس کی چوٹی اﷲ تعالیٰ کی راہ میں قتال ہے. اور سب سے پہلی چیز جس کا اس حدیث میں حکم دیا گیا وہ التزامِ جماعت ہے. یہ ہے التزامِ جماعت کی فرضیت!

اب یہ آپ حضرات کے سوچنے کی بات ہے کہ آپ کسی ایسی جماعت میں شامل ہیں یا نہیں جو اقامت دین کے لیے‘دین کو قائم کرنے کے لیے ‘دین کو برپا کرنے کے لیے اور دین کو شہادت علی الناس کی سطح پر دنیا میں پھیلانے کے لیے قائم کی گئی ہو. باقی اگر آپ نے رفاہِ عامہ ‘خدمتِ خلق ‘اشاعت تعلیم یا اپنے پیشہ ورانہ مفادات کے تحفظات کے لیے کوئی انجمن‘کوئی ادارہ یا کوئی ایسوسی ایشن بنائی ہوئی ہو تو اس پر ’’جماعت‘‘ کا اطلاق نہیں ہوگا. اس حدیث کی رو سے تو وہ جماعت درکار ہے جس کا مقصدِ وجود اﷲ کے دین کا غلبہ ہو. بقول علامہ اقبال: ؎

ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے
کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے‘جام رہے؟

اور: ؎

مری زندگی کا مقصد ترے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں‘میں اسی لیے نمازی

اور یہ بات بھی جان لیجیے کہ اس جماعت کا نظام ٹھیٹھ اسلامی اصول ’’سمع و طاعت‘‘ پر ہونا چاہیے‘جس کا حکم بھی مذکورہ بالا حدیث میں ’’بِالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ‘‘ کے الفاظ میں آیا ہے. اگر آپ ایسی کسی جماعت میں شامل نہیں ہیں تو دین کے یہ تقاضے گویا آپ کے سامنے ہی نہیں ہیں.