بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج سے لگ بھگ ۲۱ سال قبل ۳ / مئی ۷۴ء کو ایچی سن کالج لاہور میں علامہ اقبال مرحوم کی یاد میں ایک جلسہ منعقد ہوا تھا جس کے مرکزی مقرر محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب تھے. یہ ایک یاد گار خطاب تھا جس میں محترم ڈاکٹر صاحب نے نہایت منفرد انداز میں مسلمانانِ پاکستان اور علامہ اقبال کے باہمی تعلق پر روشنی ڈالی. ڈاکٹر صاحب نے واضح کیا کہ اقبال بلاشبہ مصور و مجوز پاکستان تو تھے ہی، وہ قافلۂ ملی کے ایک عظیم حدی خواں اور ایک بلند پایہ "ترجمان القرآن" بھی تھے. اس اعتبار سے پاکستان میں بسنے والا ہر مسلمان نہ صرف یہ کہ علامہ اقبال کے ساتھ ایک سہ گونہ رشتے میں منسلک ہے بلکہ وہ تین جہات سے اقبال کے زیر بارِ احسان بھی ہے اس فکر انگیز خطاب کو بعد میں مرتب کرکے "علامہ اقبال اور ہم" کے نام سے کتابی صورت میں شائع کیا گیا.
علامہ مرحوم کے ساتھ محترم ڈاکٹر صاحب کی دلچسپی کا اہم ترین سبب علامہ کا فکرِ قرآنی ہے. انہوں نے افکارِ قرآنی کو اپنے اشعار میں جس طرح سمویا وہ انہی کا حصہ ہے. سب جانتے ہیں علامہ نے اپنی شاعری کے ذریعے قوم کو ایک پیغام دیا اور جسدِ ملی میں ایک نئی روح پھونکی، لیکن اس بات سے شاید بہت کم لوگ واقف ہوں کہ اقبال در حقیقت ترجمانِ قرآن تھے، ان کا پیغام بھی تمام تر افکارِ قرآنی ہی سے عبارت ہے. چنانچہ یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اپنے پر تاثیر کلام کے ذریعے مسلمانانِ برصغیر کو قرآن حکیم اور اس کی تعلیمات کی جانب متوجہ کرنا، انہیں قرآن کے انقلابی فکر سے روشناس کرانا اور اس طرح اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی راہ ہموار کرنا فی الاصل اقبال کے پیش نظر تھا. اسی حقیقت کا نہایت شدت کے ساتھ انکشاف محترم ڈاکٹر صاحب پر بھی ہوا کہ کرنے کا اصل کام یہی ہے. چنانچہ وہ اس معاملے میں علامہ مرحوم کو بجا طور پر اپنا پیش رو قرار دیتے ہیں اور ان کی عظمت کے واشگاف الفاظ میں اظہار و اعتراف میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے.
محترم ڈاکٹر صاحب کے نزدیک دورِ حاضر میں اسلام کے انقلابی فکر کی تجدید میں سب سے بڑا حصہ علامہ اقبال کا ہے. مسلمان بحیثیتِ مجموعی اس اہم حقیقت کو فراموش کرچکے تھے کہ اسلام محض ایک مذہب نہیں، دین ہے جو پورے نظام اجتماعی پر اپنا غلبہ واقتدار چاہتا ہے. اقوامِ مغرب کی غلامی نے انہیں اس درجے پست ہمت اور کوتاہ فکر بنا دیا تھا کہ وہ اپنے ذاتی نماز روزے پر ہی قانع ہوکر رہ گئے تھے اور اسی کو کل اسلام سمجھ بیٹھے تھے. "تکبیرِ رب" جیسے ولولہ انگیز انقلابی تصور کو مسلمان نے تسبیح و وظائف تک محدود کردیا تھا. اقبال نے بڑے زوردار انداز میں دین و مذہب کے اس محدود تصور پر ضرب لگائی اور نہایت دلنشیں پیرائے میں دین کے اصل تصور کو اجاگر کیا:
یا وسعتِ افلاک میں تکبیر مسلسل وہ مذہب مردانِ خود آگاہ و خدا مست یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات یہ مذہبِ ملّا و جمادات و نباتات فکرِ اقبال کے ان گوشوں سے محترم ڈاکٹر صاحب کو خصوصی دلچسپی ہے. یہی وجہ ہے کہ جب انہیں کسی فورم سے اقبال کے موضوع پر اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی انہوں نے خوش دلی کے ساتھ اس دعوت کو قبول کیا. مرکزیہ مجلس اقبال لاہور کے زیر اہتمام یوم اقبال کی تقریب میں متعدد بار وہ مہمان مقرر کی حیثیت سے خطاب کرچکے ہیں... اس ضمن میں ۲۱ اپریل ۸۶ء کو الحمرا ہال میں یومِ اقبال کی تقریب میں "فکرِ اقبال کی روشنی میں، حالاتِ حاضرہ اور ہماری قومی ذمہ داریاں" کے عنوان سے انہوں نے ایک مبسوط مقالہ تحریری شکل میں پیش کیا تھا جو بعد میں میثاق میں بھی شائع ہوا. اس فکر انگیز مقالے کو بھی زیر نظر کتاب کے اس تازہ ایڈیشن میں شامل کرلیا گیا ہے.
بات نامکمل رہے گی اگر "فکر اسلامی کی تجدید اور علامہ اقبال اور فکرِ اقبال کی تعمیل کا تاریخی جائزہ" کے عنوان سے محترم ڈاکٹر صاحب کی ان دو تحریروں کا ذکر نہ کیا جائے جو اب ان کی کتاب "برعظیم پاک و ہند میں اسلام کے انقلابی فکر کی تجدید و تعمیل کی مستقل جزو ہیں. بحیثیتِ مجددِ فکرِ اسلامی اقبال کا کردار ان تحریروں کے ذریعے زیادہ وضاحت کے ساتھ سامنے آتا ہے. یہ تحریریں اولاً اخباری کالموں کی صورت میں ۹۲ء کے نصفِ آخر میں روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوئیں اور پھر مذکورہ بالا کتاب کا حصہ بن گئیں. علامہ اقبال کے بارے میں محترم ڈاکٹر صاحب کے خیالات کو پورے طور پر جاننے کے لیے ضروری ہوگا کہ زیر نظر کتاب کے ساتھ ساتھ ان تحریروں کو بھی نظر سے گزار لیا جائے. ان مقالات و مضامین کے مابین جن کا اوپر ذکر کیا گیا، اگرچہ اچھا خاصا زمانہ فصل اور بعد موجود ہے کہ پہلا مضمون "علامہ اقبال اور ہم" ۷۴ء کا مرتب کردہ، دوسرا مقالہ "فکرِ اقبال کی روشنی میں حالاتِ حاضرہ کا جائز" اس کے ۱۲ سال بعد ۸۶ء کا تحریر کردہ ہے اور ان حالیہ تحریروں کی تسوید جن کا اوپر حوالہ دیا گیا، مزید ۶ سال بعد یعنی ۱۹۹۲ء کے اواخر میں ہوئی، لیکن آپ دیکھیں گے کہ ان تمام مضامین و مقالات میں فکری اعتبار سے کوئی تناقض و تباین نہیں ہے، بلکہ ایک واضح فکری تسلسل موجود ہے جو بلاشبہ ایک نہایت قابل قدر بات ہے!
علاوہ ازیں زیرِ نظر کتاب میں شارح کلامِ اقبال پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم کے بعض نہایت وقیع مضامین بھی شامل کیے گئے ہیں کہ جن کے ذریعے اقبال کی شخصیت، ان کا فلسفۂ خودی اور ملتِ اسلامیہ کے نام اقبال کے پیغام کا ایک جائزہ نہایت جامعیت اور عمدگی کے ساتھ قاری کے سامنے آتا ہے. ان مضامین سے متعلق خاص بات یہ ہے کہ ۱۹۳۳ میں اس وقت سپرد قلم کیے گئے جب علامہ اقبال مرحوم ابھی بقیدِ حیات تھے. چشتی صاحب مرحوم ان خوش نصیب لوگوں میں سے تھے جنہیں ایک طویل عرصے تک علامہ مرحوم کی خدمت میں حاضری کا مسلسل موقع ملتا رہا. لہٰذا اقبال اور افکارِ اقبال کے بارے میں چشتی صاحب مرحوم کے مضامین غیر معمولی اہمیت و وقعت کے حامل ہیں. یہ مضامین "میثاق" کی پرانی فائلوں میں دبے ہوئے تھے، زیر نظر کتاب میں انہیں اس خیال سے شامل کیا جا رہا ہے کہ یہ قیمتی علمی مضامین ضائع ہونے سے بچ جائیں اور لوگوں کے لیے ان سے استفادہ کرنا بسہولت ممکن ہوسکے! ... علامہ سے قرب رکھنے والے ان کے ایک اور ارادت مند جناب سید نذیر نیازی مرحوم کا وقیع مضمون "اقبال اور قرآن" بھی اسی غرض سے شاملِ کتاب کیا گیا ہے. اس طرح کتاب کا یہ تازہ ایڈیشن اپنے حجم کے لحاظ سے پہلے کے مقابلے میں کم و بیش تین گنا ضخامت کا حامل ہے.
یادش بخیر، چند سال قبل ایران کے مشہور مفکر و دانشور ڈاکٹر علی شریعتی مرحوم کی اقبال کے موضوع پر ایک کتاب نظر سے گزری. ڈاکٹر شریعتی کے بارے میں یہ بات اکثر احباب کے علم میں ہوگی کہ ایران کے حالیہ انقلاب کے لیے فکری و نظری غذا انہوں نے ہی فراہم کی تھی. ان کے انقلابی افکار جو مختصر کتابچوں کی صورت میں نہایت سرعت کے ساتھ ایران کے طول و عرض میں پھیلے، انقلابِ ایران کا پیش خیمہ ثابت ہوئے. کتاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بھی اقبال کے فارسی کلام اور فلسفہ و فکر سے شدید طور پر متاثر تھے اور خود انہوں نے بہت کچھ فکری غذا اقبال سے حاصل کی تھی. حسنِ اتفاق سے اقبال اور اس کے افکار پر انہوں نے جو کتاب مرتب کی اس کا نام بھی بعینہ وہی رکھا جو محترم ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب کے لیے ۱۹۷۷ء میں تجویز کیا تھا، یعنی "ما و اقبال" . جس کا سیدھا سا ترجمہ یہی بنتا ہے: ہم اور علامہ اقبال!..
ناظم نشر و اشاعت
مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور
۱۴ جولائی ۹۵ء