سب جانتے ہیں کہ علامہ مرحوم بنیادی طور پر سیاست دان نہ تھے، بلکہ انتہائی کوشش کے باوجود بھی وہ اپنے مزاج کو عملی سیاست کے ساتھ سازگار نہ بنا سکے. اس کے باوجود انہوں نے برّصغیر ہندوپاک کی مسلمان قوم کے مستقبل کے بارے میں جو کچھ سوچا اور ان کے مسائل کا جو حل پیش کیا وہ ان کی بیدار مغزی اور معاملہ فہمی بلکہ کہنا چاہیے کہ سیاسی تدبّر کا شاہکار ہے. ۳۰ء سے قبل تو سوال ہی کیا پیدا ہوسکتا ہے، اس کے بعد بھی ایک طویل عرصے تک ہندوستان کی تقسیم کا خیال تک کسی کے ذہن میں نہیں آسکتا تھا. یہ صرف علامہ مرحوم ہی کی نگاہِ دور رس و دور بین تھی جس نے حالات کے رخ اور زمانے کی رفتار کو پہچان کر مسلمانانِ ہند کے جملہ مسائل کا حل اسے قرار دیا کہ ہندوستان کے کم از کم شمال مغربی گوشے میں واقع مسلم اکثریت کے علاقوں پر مشتمل مسلمانوں کی ایک آزاد اور خود مختار مملکت قائم کی جائے! ؎

آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی 
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب

پاکستان کے ساتھ علامہ کا تعلق صرف مصور کا نہیں اس سے کہیں زیادہ ہے. وہ اگرچہ خود عملی سیاست کے مردِ میدان نہ تھے، تاہم حالات کی صحیح نبّاضی اور ان کی سیاسی بصیرت کا دوسرا شاہکار یہ ہے کہ انہوں نے موجود الوقت حالات میں مسلمانانِ ہند کے قومی مقدمے کی پیروی کے لیے صحیح ترین وکیل ڈھونڈ نکالا اور نہ صرف یہ کہ ان کی نگاہ دور رس نے مسلمانانِ ہند کی قیادتِ عظمیٰ کے لیے محمد علی جناح مرحوم کو تاکا بلکہ خود ان میں اپنی اس حیثیت کا احساس اجاگر کیا. اور یہ تو بلاشبہ علامہ مرحوم کے غایتِ خلوص و اخلاص کا بیّن ثبوت اور ان کے حد درجہ انکسار اور تواضع کی دلیلِ قاطع ہے کہ انہوں نے اس قائد کے ساتھ اس کی تنظیم کے ایک صوبائی صدر کی حیثیت سے کام کرنا بھی منظور کرلیا حالانکہ ان کے مزاج کو اس قسم کے کاموں کے ساتھ کوئی طبعی مناسبت نہ تھی. اس طرح علامہ مرحوم نے نہ صرف یہ کہ پاکستان کا تصور پیش کیا بلکہ اس خاکے میں رنگ بھرنے کی عملی 
جدّو جہد کے ابتدائی مراحل میں بنفسِ نفیس شرکت بھی کی اور گویا ’تحریکِ پاکستان‘ کے کارکنوں کی فہرست میں شامل ہو گئے.

اس اعتبار سے علامہ مرحوم کا ایک عظیم احسان ہر اس مسلمان کی گردن پر ہے جو پاکستان کی فضا میں ایک آزاد شہری کی حیثیت سے سانس لے رہا ہے. افسوس کہ ہم نے بحیثیت قوم خود پاکستان ہی کی قدر نہ کی، علامہ کے احسان کو کیا یاد رکھتے. کاش کہ لوگوں کو معلوم ہوتا کہ آزادی اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی نعمت ہے. اور یہ مملکتِ خداداد پاکستان اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے. اسی صورت میں ہمیں علامہ مرحوم کے ذاتی احسان کا بھی کوئی احساس ہوسکتا تھا. 

ہماری اسی ناقدری کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کا ایک بازو نہ صرف یہ کہ کٹ کر علیحدہ ہوگیا بلکہ کم از کم فوری طور پر اس کی کامل قلبِ ماہیت بھی ہوگئی اور اس نے ایک اسلامی یا اس سے بھی کمتر درجے میں ایک مسلمان مملکت کے بجائے ایک لادینی، قومی، سوشلسٹ ریاست کا روپ دھار لیا. اس حادثۂ فاجعہ پر بھارت میں جس طرح خوشی منائی گئی اور اسے جس طرح ’’ہزار سالہ شکست کے انتقام‘‘ سے تعبیر کیا گیا اس سے ان لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو ہندوؤں کے بارے میں کسی حسنِ ظن میں مبتلا تھے. اگر مسز اندرا گاندھی اس نہرو خاندان کی بیٹی ہوتے ہوئے جس کی وسیع المشربی ضرب المثل ہے، یہ الفاظ زبان سے نکال سکتی ہے تو ’’قیاس کن زگلستانِ من بہار مرا!‘‘ کے مصداق سوچنے کی بات ہے کہ فرقہ پرست متعصّب مزاج ہندو اکثریت کا رویہ، اگر اسے ایک بار ہندوستان میں فیصلہ کن اقتدار حاصل ہوجاتا، تو کیا ہوتا!

حقیقت یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ پاکستان قائم نہ ہوا ہوتا تو نہ صرف یہ کہ اب تک ہندوستان سے اسلام کا صفایا ہوچکا ہوتا بلکہ پورا مشرق وسطیٰ ہندوامپریلزم کے سیلاب کی زد میں ہوتا. 

علامہ مرحوم نے حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ تعالی کے بارے میں فرمایا تھا: ؎

وہ ہند میں سرمایۂ ملت کا نگہباں 
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار

تو اگرچہ شخصاً تو علامہ مرحوم کا کوئی مقابلہ یا موازانہ حضرتِ مجدد رحمہ اللہ تعالی کے ساتھ خارج از بحث ہے، تاہم اگر یہ کہاجائے کہ خاص طور پر ’’ہند میں سرمایۂ ملت کی نگہبانی‘‘ کے اعتبار سے علامہ مرحوم کو ایک 
نسبِ خصوصی حضرت مجدد کے ساتھ حاصل تھی یا یہ کہ علامہ مرحوم کی شخصیت کا یہ پہلو حضرت مجددکے ساتھ ان کی والہانہ محبت اور عقیدت ہی کا مظہر ہے تو غالباً یہ غلط نہ ہوگا.