جہاں تک دینِ حق کے اسرار و رموز اور حقائق و معارفِ ایمانی اور علم و حکمتِ قرآنی کی ترجمانی کا تعلق ہے، حقیقت یہ ہے کہ علامہ مرحوم رومئ ثانی تھے! انہوں نے علی الاعلان مولانا روم کو اپنا شیخ تسلیم کیا ہے اور ’’پیرِ رومی‘‘ کے ساتھ بحیثیت ’’مریدِ ہندی‘‘ ان کے مکالمات ان کے کلام کی زینت ہیں. بلکہ ایک مقام پر انہوں نے اپنی اس نسبت کا ذکر قدرے فخریہ انداز میں بھی کیا ہے یعنی .؏ .
’’برہن زادۂ رمز آشنائے روم و تبریز است!‘‘ 
(۱
اب اگرمثنوی مولاناروم کے بارے میں عارف جامی کے یہ اشعار مبنی برحقیقت ہیں کہ:

مثنوئ مولوئ معنوی
ہست قرآن در زبانِ پہلوی
(۲)

من چہ گویم وصفِ آں عالیجناب
نیست پیغمبر و لے دارد کتاب
(۳
تو یقیناً علامہ اقبال مرحوم بھی دورِ حاضر کے ’’ترجمان القرآن‘‘ قرار دینے جانے کے مستحق ہیں.
علامہ مرحوم خود بھی اس کے مدعی ہیں کہ ان کے اشعار فکر و پیغامِ قرآنی ہی کی ترجمانی پر مشتمل ہیں اور اس پر انہیں اس درجہ وثوق اور اعتماد ہے کہ انہوں نے ’’مثنوی اسرار و رموز‘‘ کے آخر میں ’’عرضِ حالِ مصنف بحضور رحمۃ للعالمین‘‘ کے ذیل میں یہاں تک لکھ دیا کہ:

گر دلم آئینۂ بے جوہر است 
در بحر فمِ غیر قرآں مضمر است
(۴)

پردۂ ناموسِ فکرم چاک کن
ایں خیاباں را زخارم پاک کن
(۵)

روز محشر خوار و رسوا کن مرا!
بے نصیب از بوسۂ پا کن مرا!
(۶
آخری مصرع کو پڑھ کر ہر وہ شخص کانپ اٹھتا ہے جسے کسی بھی درجے میں علامہ کی نبی اکرم  سے محبت کا اندازہ ہے. .. اور واقعہ یہ ہے کہ خود میں نے جب بھی یہ اشعار پڑھے ایک مرتبہ ضرور جھرجھری سی آگئی اور دل لرز اٹھا کہ اللہ اکبر! اپنے حق میں اتنی بڑی بد دعا! لیکن پھر اس خیال سے تسکین ہوتی رہی کہ در اصل اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ مرحوم کو کس 
فارسی اشعار کا ترجمہ مضمون کے آخر میں ملاحظہ فرمائیں. 

درجہ پختہ یقین تھا اس بات پر کہ انہوں نے اپنے کلام میں قرآن ہی کی ترجمانی کی ہے. (۱