۱.... روحِ دین کی تشریح و تعبیر

وحدت الوجود کی عامیانہ تعبیرات کی پرزور تردید کی اور جواباً وہ نظریہ پیش کیا جو اقبال کے فلسفۂ خودی کے نام سے موسوم ہے اور اصلاً حضرت مجدد رحمہ اللہ تعالی کے نظریۂ وحدت الشہود سے مشابہ ہے... اور دوسری طرف عبادات کے میدان میں نری رسم پرستی (RITUALISM) کی زور دار نفی کی اور اثباتاً عبادت کی اصل روح یعنی عشق و محبتِ خداوندی پر زور دیا. 

یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جہاں تک ہمہ اوست کی مختلف تعبیروں کے مابین فرق یا ابن عربی کے نظریۂ وحدت الوجود کی باریکیوں کا تعلق ہے، ان کی وضاحت کا یہ مناسب موقع ہے 
(۱) یہاں راقم یہ عرض کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ چند سال قبل جب مولانا امین احسن اصلاحی مدظلہٗ آنکھ کے آپریشن کے لیے لاہور میں مقیم تھے اور آپریشن میں کسی وجہ سے تاخیر ہورہی تھی تو فرصت کے اس وقت کا مصرف مولانا نے یہ نکالا کہ علامہ اقبال کا پورا اردو اور فارسی کلام از ابتدا تا انتہانظر سے گزار لیا. لاہور کے تمام رفقاء و احباب جانتے ہیں کہ اس کے نتیجے کے طور پر طویل عرصے تک ایک خاص کیفیت مولانا پر طاری رہی اور حسبِ عادت مولانا نے اپنے تاثر کا اظہار بھی برملا اور واشگاف الفاظ میں فرمایا. اس سلسلے میں مولانا کے تاثر کی شدت کا اندازہ ان کے مندرجہ ذیل دو جملوں سے لگایا جا سکتا ہے جو راقم الحروف کے حافظے میں محفوظ رہ گئے ہیں:

ایک یہ کہ قرآن حکیم کے بعض مقامات کے بارے میں مجھے کچھ مان سا تھا کہ میں نے ان کی تعبیر جس اسلوب سے کی ہے شاید کوئی اور نہ کرسکے. لیکن علاقہ اقبال کے کلام کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ وہ ان کی تعبیر مجھ سے بہت پہلے اور مجھ سے بہت بہتر کرچکے ہیں!. دوسرے یہ کہ اقبال کا کلام پڑھنے کے بعد میرا دل بیٹھ سا گیا ہے کہ اگر ایسا حدی خواں اس امت میں پیدا ہوا لیکن یہ امت ٹس سے مس نہ ہوئی تو ہما شما کے کرنے سے کیا ہوگا! (اسرار احمد) 


نہ ہی میں اس کا اہل ہوں اور نہ ہی اس کا اصل مسئلے سے کوئی تعلق ہے. واقعہ یہ ہے کہ یہ مسائل بہت دقیق ہیں اور ان کا سمجھنا ہر کس و ناکس کا کام نہیں. اصل خرابی اس طرح واقع ہوئی کہ ان نظریات کا پرچار اشعار کے ذریعے کیا گیا جو زبان زدِ خواص و عوام ہوگئے. اب خواص نے تو انہیں ہضم بھی کرلیا اور رچا پچا کر جزو بدن بھی بنالیا لیکن عوام کے لیے یہ زہر ہلاہل بن گئے اور انہوں نے ان کو عمل سے گریز اور فرار کا بہانہ بنا لیا. 

اقبال کا جہاد اصلاً ان نظریات کے ان عمومی اثرات ہی کے خلاف ہے جو حافظؔ اور جامیؔ کے اشعار کے ذریعے عوام کے اذہان پر مترتب ہوئے اور جن کے نتیجے میں امت کے ایک بڑے حصے میں سکر، جذب، مستی اور بالآخر فنا کا ذوق پیدا ہوگیا لیکن عمل اور جہاد کا جذبہ ختم ہوتا چلا گیا.