بدقسمتی سے علامہ مرحوم کے فلسفۂ خودی نے مختلف بلکہ متضاد تشریحوں اور تعبیروں کے باعث ایک چیستاں کی صورت اختیار کرلی ہے اور معاملہ بالکل وہی ہوا ہے کہ .
؏ . ’’شد پریشاں خوابِ من از کثرتِ تعبیرہا!‘‘
آسانِ تفہیم کے لیے یوں کہا جا سکتا ہے کہ علامہ کے فلسفے کا بنیادی پتھر انسان کی ہستی کی نفی کے بجائے اثباتِ ذاتِ خویش ہے. نتیجۃً ان کے پیش نظر ’’سلوک‘‘ کی انتہائی منزل ’’فنا فی اللہ‘‘ نہیں بلکہ ’’بقا باللہ‘‘ ہے.
اس نکتے کی وضاحت کے لیے اپنی طرف سے کچھ کہنے کی بجائے میں خود علامہ مرحوم کی اس تحریر کے بعض حصے آپ کو سناتا ہوں جو انہوں نے پروفیسر نکلسن کی اس فرمائش پر کہ علامہ اپنے فلسفیانہ خیالات کو ایک مختصر لیکن جامع مضمون کی صورت میں بزبانِ انگریزی تحریر کردیں، سپرد قلم کی تھی اور جسے پروفیسر موصوف نے ’’مثنوی اسرار خودی‘‘ کے ترجمے (SECRETS OF THE SELF) کے شروع میں شائع بھی کردیا تھا (مطبوعہ ۱۹۲۱ء) اپنی اس تحریر میں علامہ فرماتے ہیں:
’’ظاہر ہے کہ کائنات اور انسان کے بارے میں میرا یہ نظریہ ہیگل اور اس کے ہم خیالوں اور اربابِ وحدت الوجود سے بالکل مختلف ہے، جن کے خیال میں انسان کا منتہائے مقصود یہ ہے کہ وہ خدایا حیاتِ کلی میں جذب ہوجائے اور اپنی انفرادی ہستی کو مٹا دے... میری رائے میں انسان کا اخلاقی اور مذہبی منتہائے مقصود یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی ہستی کو مٹا دے یا اپنی خودی کو فنا کردے بلکہ یہ ہے کہ وہ اپنی انفرادی ہستی کو قائم رکھے ... قربِ الٰہی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان خدا کی ذات میں فنا ہوجائے بلکہ اس کے برعکس یہ کہ خدا کو اپنے اندر جذب کرلے ... (۱) میں نے افلاطون کے فلسفے پر جو تنقید کی ہے اس سے میرا مطلب ان فلسفیانہ مذاہب کی تردید ہے جو بقا کے عوض فنا کو انسان کا نصب العین قرار دیتے ہیں... ان مذاہب کی تعلیم یہ ہے کہ مادہ کا مقابلہ کرنے کے بجائے اس سے گریز کرنا چاہیے. حالانکہ انسانیت کا جوہر یہ ہے کہ انسان مخالف قوتوں کا مردانہ وار مقابلہ کرے اور انہیں اپنا خادم بنا لے، اس وقت انسان ’’خلیفۃ اللہ‘‘ کے مرتبے کو پہنچ جائے گا...‘‘ (۲)
میں اگر اس حقیقت کو اپنے الفاظ میں ادا کرنے کی کوشش کروں تو وہ یوں ہوگی کہ اس پورے سلسلۂ کائنات مادی اور تمام عالمِ کون و مکان کی طرح خود انسان کا مادی وجود یا اس کا وجودِ حیوانی بھی خالص وہمی و خیالی اور اعتبارئ محض ہے، سوائے اس کی انا، یا من، یا ذات، یا خودی ، کے جو در اصل عبارت ہے اس کی اس روح سے جو اس کے وجودِ حیوانی میں پھونکی گئی اور جس کی اضافت اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات کی طرف کی ہے بفحوائے آیۂ قرآنی:
’’فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ ﴿۷۲﴾‘‘ (۳) ، یعنی جب میں اس کو پوری طرح درست کردوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں تب گرپڑنا اس کے لیے سجدے میں!... یہ روحِ انسانی نہ وہمی وخیالی ہے نہ عارضی وفانی بلکہ حقیقی اور واقعی بھی ہے اور دائم و باقی بھی! خدایا روحِ کائنات یا انائے کبیر اور اس روحِ انسانی یا انائے صغیر میں ایسا قریبی رابطہ اور لازم و ملزوم کا رشتہ ہے کہ انسان اسے ؎ ۱: یہاں علامہ مرحوم نے ’’تَخلقوا باخلاق اللہ‘‘ کا حوالہ بطور حدیثِ رسول دیا ہے لیکن اصلاً یہ الفاظ کسی حدیث کے نہیں بلکہ صوفیا کے ایک مشہور مقولے کے ہیں!
۲: غالباً یہی مفہوم ہے علامہ مرحوم کے اس مشہور مصرع کا کہ . ؏ . یزداں بکمند آور اے ہمت مردانہ!
؎
یا وسعتِ افلاک میں تکبیرِ مسلسل یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات!
وہ مذہبِ مردانِ خود آگاہ و خدا مست یہ مذہبِ ملا و جمادات و نباتات
؎ سورۃ الحجر آیت ۲۹ اور سورۃ ص آیت ۷۲
پہچان لے تو خدا کو جان جاتا ہے (۱) اور اگر اسے نہ پہچان پائے تو کبھی خدا کی معرفت بھی حاصل نہیں کر سکتا. یا عکساً یوں کہہ لیں کہ اگر کوئی خدا کو پہچان لے تو اپنی عظمت سے واقف ہوجاتا ہے اور اگر خدا کو بھلا دے تو اپنی حقیقت بھی اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتی ہے. (۲)
خالق و مخلوق اور عبد و معبود یا انائے کبیر اور انائے صغیر یا علامہ کے الفاظ میں انائے مطلق (INFINITE EGO) اور انائے محدود (FINITE EGO) کے مابین اصل رشتہ باہمی عشق اور محبت کا ہے بفحوائے آیاتِ قرآنی:
وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ؕ (البقرۃ:۱۶۵)
اور (حقیقی) ایمان والے سب سے زیادہ شدید محبت کرتے ہیں خدا کے ساتھ!
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ ٖ (الصف:۴)
یقیناً اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے ، (۳) ان لوگوں سے جو جنگ کرتے ہیں اس کی راہ میں ....
اور اسی باہمی رشتۂ الفت و محبت کا مظہر خارجی ہے جسے قرآن ولایت باہمی سے تعبیر کرتا ہے:
اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ (البقرہ:۲۵۷)
اللہ اہل ایمان کا ولی ہے.
اَلَاۤ اِنَّ اَوۡلِیَآءَ اللّٰہِ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿ۚۖ۶۲﴾ (یونس:۶۲)
آگاہ ہوجاؤ اللہ کے ولیوں کے لیے نہ کوئی خوف ہے نہ حزن!
اب ظاہر ہے کہ جس کسی کو اس عشق کی حقیقی لذت حاصل ہوگئی وہ اس کے دوام و بقا کا خواہشمند ہوگا نہ کہ اس کے انقطاع اور خاتمے کا! اور ظاہر ہے کہ بقائے عشق بقائے ذات پر منحصر ہے اور (۱) یہ ترجمہ ہے صوفیاء کے اس مقولے کا جو عموماً حدیثِ رسول کی حیثیت سے بیان کردیا جاتا ہے یعنی: ’’من عرف نفسہ فقد عرفہ ربہ‘‘
(۲) یہ ترجمہ ہے آیہ قرآنی کا. وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنۡسٰہُمۡ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۱۹﴾ (سورۃ الحشر آیت ۱۹)
(۳) اس آیۂ کریمہ کو پڑھتے ہوئے میرا ذاہن علامہ مرحوم کے اس شعر کی جانب لازماً منتقل ہوجاتا ہے کہ ؎
محبت مجھے ان نوجوانوں سے ہے ستاروں پر جو ڈالتے ہیں کمند!
فنائے ذات کا لازمی نتیجہ خاتمۂ عشق ہے. بس یہیں سے علامہ مرحوم کے فلسفے کا دوسرا اہم نکتہ سمجھ میں آسکتا ہے یعنی عشق خداوندی اور اس کا دوام اور محبت الٰہی اور اس کا ’’سوزِ ناتمام‘‘. ؎
تو نہ شناسی ہنوز شوق بمیروز وصل
چیست حیاتِ دوام؟ سوختنِ نا تمام!
(۷)
دوامِ ماز سوزِ نا تمام است
چوماہی جز تپش برما حرام است!
(۸)
ہر لحظۂ نیا طور، نئی برقِ تجلی،
اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے!
الغرض اثباتِ ذاتِ خویش اور دوامِ عشقِ الہی علامہ مرحوم کے فلسفۂ خودی کے دو ستون ہیں، اور یہ دونوں ظاہر ہے کہ باہم لازم و ملزوم ہیں. علامہ کے ان دو اشعار میں ان کا یہ باہمی لزوم بہت نمایاں ہے. یعنی ؎
میں انتہائے عشق ہوں، تو انتہائے حسن
دیکھے مجھے کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی!
اور ؎
نہ ہو طغیانِ مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی
کہ میری زندگی کیا ہے؟ یہی طغیانِ مشتاقی!
یہ عرض کرنا تحصیلِ حاصل ہے کہ اسی عشقِ الہی کا ایک عکس عشقِ رسول بھی ہے. اس لیے کہ کون ہے جو نہیں جانتا کہ اطاعت و محبت دونوں کے اعتبار سے اللہ اور رسول ایک وحدت کی حیثیت رکھتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ علامہ مرحوم کے کلام میں عشقِ رسول کا جذبہ تانے بانے کے مانند پیوست ہے. جیسے ؎
ہر کہ عشقِ مصطفےٰ سامانِ اوست
بحر و بردر گوشۂ دامانِ اوست!
(۹)
یا
بمصطفےٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است!
(۱۰)