روحِ دین کی تعبیر کے ضمن میں، جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھا، علامہ مرحوم کی دوسری بڑی خدمت یہ ہے کہ انہوں نے نری رسم پرستی اور خشک فقہی و قانونی موشگافی کی پرزور مذمت کی اور دین و شریعت کے جملہ مظاہر کی اصل روح باطنی عشقِ الہی کو قرار دیا. اپنے مرشد کے اتباع میں جس نے نعرہ لگایا تھا کہ ؎

شاد باد اے عشقِ خوش سودائے ما!
اے طبیبِ جملہ علت ہائے ما!
(۱۱
انہوں نے بھی واشگاف الفاظ میں کہا ؎ 

عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اوّلیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدۂ تصوّرات!

اور ؎

شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا سجود بھی حجاب میرا قیام بھی حجاب!

اور فریاد کی کہ ؎

بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے 
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

یا

رہ گئی رسمِ اذاں، روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقینِ غزالی نہ رہی

اس لیے کہ جملہ اعمال کی روح عشقِ الہی ہے. اسی کی لپک بلال رضی اللہ عنہ کی اذان میں تھی اور اسی کی دمک تلقینِ غزالی رحمہ اللہ میں! بقول علامہ مرحوم:

؎
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پر حرام
عشق دمِ جبرئیل، عشق دلِ مصطفےؐ 
عشقِ خدا کا رسول، عشقِ خدا کا کلام!
عشقِ فقیہہ حرم، عشقِ امیر جنود
ہے ابن السبیل، اس کے ہزاروں مقام!
عشق کے مضراب سے نغمۂ تارِ حیات 
عشق سے نور حیات، عشق سے نارِ حیات!

اور ؎

صدقِ خلیل بھی ہے عشق، صبر حسینؓ بھی ہے عشق!
معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق!