۲. نظامِ دین کی توضیح و تفسیر

نظامِ دین حق کی جو تشریح علامہ مرحوم کے کلام میں نظر آتی ہے اسے بغرض تفہیم تین اجزا میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، اور یہ تینوں در حقیقت ایک ہی مرکزی نکتے کی شرح اور ایک ہی ’’نقطۂ توحید‘‘ کی توسیع (Extension) کی حیثیت رکھتے ہیں:

؏ یہ سب کیا ہیں؟ فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں!
(۱). مثلا عام تمدنی اور معاشرتی سطح پر وحدِ خالق ہی وہ اساسی تصور ہے جس سے وحدتِ انسانیت کا خیال جنم لیتا ہے اور جس میں مزید گہرائی و گیرائی وحدتِ آدم کے تصور سے پیدا ہوتی ہے اور نتیجۃً انسانی حریت، اخوت اور مساوات کے اصول مستنبط ہوتے ہیں، چنانچہ نظامِ دین حق کے اس پہلو پر بہت زور علامہ کے کلام میں پایا جاتا ہے. میں اس وقت طوالت کے خوف سے ان دو اشعار پر اکتفا کرتا ہوں. 

مردِ مؤمن کی شان میں علامہ مرحوم فرماتے ہیں:

کل مومن اخوۃ اندر دلش
حریت سرمایۂ آب و گلش
(۱۲)

نا شکیبِ امتیازات آمدہ
در نہادِ او مساوات آمدہ
(۱۳)

(ب). اسی طرح ہیئتِ سیاسی کے ضمن میں توحیدِ الہی ہی کے اصلُ الاصول سے مستنبط ہوتا ہے یہ اساسی قاعدہ کہ حاکمیت صرف خدا کے لیےہے، ماسِویٰ کی حاکمیت پر مبنی نظامِ سیاسی مجسم شرک ہے. غور کیجیے کہ کتنے سادہ لیکن پر شکوہ الفاظ میں ادا فرمایا ہے علامہ مرحوم نے یہ قاعدہ کلیہ : ؎

سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی باقی بتانِ آذری.

کسی ہیئت سیاسی میں تصوّرِ حاکمیت کے بعد سب سے اہم مسئلہ “امر جامع” کا ہے یعنی یہ کہ اس ہیئت سیاسی میں شریک افراد کو باہم ایک دوسرے سے جوڑنے والی چیز کونسی ہے! اس ضمن میں اس زمانے میں وطنی قومیت کا جو تصوّر پوری دنیا میں رائج ہے، حیرت ہوتی ہے کہ علامہ مرحوم نے اس کی شناعت کا احساس کسی شدت سے کیا اور اس شجرِ خبیثہ کی خباثت کا کس قدر صحیح اندازہ لگایا. سنیے اور سر دھنیے: ؎

اس دور میں مے اور ہے، جام اور ہے ، جم اور
ساقی نے بنا کی روشِ لطف و ستم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے
غارت گرِ کاشانۂ دینِ نبوی ہے
بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے
نظارۂ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک میں اس بت کو ملا دے

(ج). یہی معاملہ نظامِ معیشت کا بھی ہے. توحید کا اصول جس طرح حاکمیت اور قومیت کے تمام مروجہ تصورات کی نفی کلی ہے، اسی طرح ملکیت مطلقہ کے عام تصور کی بھی کامل نفی ہے. ظاہر بات ہے کہ اگر “ملک” اللہ کا ہے تو “مِلک” بھی اللہ ہی کی ہے اور اگر زمین و آسمان اور جو کچھ ان دونوں میں ہے اسسب کا “مَلِک” (بادشاہ) اللہ ہے تو یقینا “مالک” بھی اللہ ہی ہے. 

گویا انسان خود بھی اللہ کا ہے (انا للہ) اور جو کچھ اس کے پاس ہے، خواہ وہ اس کی اپنی ذات اور اس میں مخفی قوتیں، صلاحیتیں اور اس کی مہلتِ عمر ہوں، خواہ اس کا مال و اسباب یا زمین و جائیداد، سب اصلاً اللہ کی ملکیت ہیں اور اس کے پاس اللہ کی امانت، جس میں تصرف کا اختیار تو اسے دیا گیا ہے لیکن اصل مالک کے احکام کے اندر اندر. ملکیت کے بجائے امانت کا یہ تصور توحید کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہے جس سے کوئی فرار ممکن نہیں. بقول شیخ سعدی رحمہ اللہ ؎

ایں امانت چند روزہ نزدِ ماست
در حقیقت مالکِ ہر شے خدا ست
(۱۴)
افسوس کہ جب دینِ الہی کے چہرے پر ازمنۂ وسطی کے جاگیردارانہ نظام کی نقاب پڑ گئی تو اس کے روئے منور کے دوسرے خدوخال کی طرح یہ حقیقت بھی نگاہوں سے اوجھل ہوتی چلی گئی اور یہ علامہ مرحوم کی ژرف نگاہی اور حقیقت بینی کا شاہکار ہے کہ انہوں نے نکتۂ توحید کی اس لازمی توسیع(Extension) کو بھی حد درجہ واضح الفاظ میں بیان کردیا: ؎

کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف
منعَموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں

اور ؎

پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون؟ 
کون دریاؤں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب؟
کون لایا کھینچ کر پچھم سے بادِ سازگار؟
خاک یہ کس کی ہے؟ کس کا ہے یہ نورِ آفتاب؟
کس نے بھر دی موتیوں سے خوشۂ گندم کی جیب؟
موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب؟
دہ خدایا! یہ زمیں تیری نہیں، تیری نہیں!
تیرے آبا کی نہیں، تیری نہیں، میری نہیں!

نہ صرف یہ بلکہ مرحوم نے اس اصول کو بھی بہت وضاحت کے ساتھ پیش فرما دیا جو تاریخ انسانی کے دوران پہلی بار خلافتِ راشدہ کے زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبانِ مبارک سے ادا ہوا تھا، یعنی ریاست کی جانب سے تمام شہریوں کی کفالتِ عامّہ. علامہ فرماتے ہیں ؎

کَس نباشد در جہاں محتاجِ کس
نکتۂ شرعِ مبیں ایں است و بس!
(۱۵)

اور ؎
جو حرفِ “قل العفو” میں پوشیدہ ہے اب تک
اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار! 
اس سلسلے میں حرفِ آخر کا درجہ رکھتے ہیں علامہ مرحوم کے یہ اشعار:
چیست قرآن؟ خواجہ را پیغام مرگ
دستگیرِ بندہ بے ساز و برگ!
(۱۶)
ہیچ خیر از مردکِ زرکش مجو!
لَنْ تَنَالُوْا البِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا
(۱۷)
از ربا آخر چہ می زاید؟ فتن
کس نداند لذت قرضِ حسن
(۱۸)
از ربا جاں تیرہ، دل چوں خشت و سنگ
آدمی درندہ بے دندان و چنگ
(۱۹)
رزقِ خود را از زمیں بردن روا ست
ایں متاع بدن و ملکِ خدا ست
(۲۰)
بندۂ مومن امیں، حق مالک است
غیرِ حق ہر شے کہ بینی ہالک است
(۲۱)
رایتِ حق از ملوک آمد نگوں
قریہ ہا از دخلِ شاں خوار و زبوں
(۲۲)
آب و نانِ ماست از یک مائدہ
دودۂ آدم "کنفس واحدۃ"
(۲۳)
نفسِ قرآن تا دریں عالم نشست
نفس ہائے کاہن و پا پا شکست
(۲۴)
با مسلماں گفت جاں بر کف بنہ
ہر چہ از حاجت فزوں داری بدہ
(۲۵)
محفلِ ما بے مے و بے ساقی است
سازِ قرآن را نواہا باقی است ۱؎
(۲۴ ۱؎ اشارہ ہے اس حدیث نبوی کی طرف جس میں خبر دی گئی ہے کہ ایک زمانہ آئے گا کہ اسلام میں سے سوائے اس کے نام کے کچھ باقی نہ رہے گا اور قرآن میں سے بھی سوائے اس کے رسم الخط کے کچھ باقی نہ رہے گا. (رواہ البیہقی عن علی رضی اللہ عنہ )