اب میں اس چوتھی اور آخری بات کے بارے میں کچھ عرض کرکے اپنی گزارشات ختم کردوں گا جس کے ضمن میں میں نے ابتداء میں یہ عرض کیا تھا کہ میرا گمان ہے کہ مجھے علامہ مرحوم کی روح سے ایک خصوصی نسبت حاصل ہے. یعنی مرحوم کا تعلق قرآنِ حکیم سے اس موضوع کا اہم ترین حصہ تو پہلے ہی زیر بحث آ چکا ہے. یعنی یہ کہ علامہ مرحوم کی حیثیت فی الواقع “ترجمان القرآن” کی ہے ، اور جیسا کہ خود ان کا دعویٰ ہے ان کا فکر بھی قرآن ہی پر مبنی ہے اور ان کا پیغام بھی قرآن ہی سے ماخوذ ہے. لہذا اب میں اس موضوع کے بعض ضمنی مگر نہایت اہم پہلوؤں کی طرف آپ حضرات کی توجہ مبذول کراؤں گا.
۱: عظمتِ قرآن کا نشان
اس سلسلے میں سب سے پہلی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ میرے نزدیک اس دور میں علامہ مرحوم کی شخصیت عظمتِ قرآن کے ایک عظیم علم اور نشان (SYMBOL) کی حیثیت رکھتی ہے. اس لیے کہ ایک عام آدمی کا متوارث عقیدے کے طور پر قرآن مجید کو اللہ کی کتاب ماننا اور بات ہے، اور ایک ایسے شخص کا قرآن پر وثوق و اعتماد اور ایمان و یقین جو فکرِ انسانی کی تمام وادیوں میں گھوم پھر چکا ہو اور مشرق و مغرب کے تمام فلسفے کھنگال چکا ہو، بالکل دوسری بات ہے.
سب جانتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کا اصل اور عظیم ترین معجزہ قرآنِ حکیم ہے. اب خود اعجازِ قرآنی کے پہلو بے شمار اور بے حدو نہایت ہیں جن کا احاطہ یا احصاء کسی فرد بشر کے لیے ممکن نہیں. اور میرے نزدیک اس دور میں اعجازِ قرآنی کا عظیم ترین مظہر یہ ہے کہ وہ کتاب جسے دنیا کے سامنے آج سے چودہ سو برس قبل عرب کے ایک امی شخص (صلی اللہ علیہ وسلم وفداہ ابی و امی) نے پیش کیا تھا، آج بھی جبکہ دنیا کہیں سے کہیں پہنچ گئی ہے، مادی علوم انتہائی بلندی کو چھو رہے ہیں اور علم و ہنر کی دنیا میں انقلاب آ چکا ہے، نوعِ انسانی کی ہدایت و رہنمائی کی جملہ ضرورتوں کو پورا کرسکتی ہے!
اور اسی کی ایک گواہی اور شہادت ملتی ہے علامہ مرحوم کی زندگی سے کہ ایک شخص جس نے انیسویں صدی کے اواخر میں شعور کی آنکھ کھولی. پھر یہ نہیں کہ پوری زندگی “بسم اللہ کے گنبد” ہی میں بسر کردی ہو بلکہ وقت کی اعلیٰ ترین سطح پر علم حاصل کیا، مشرق و مغرب کے فلسفے پڑھے، قدیم و جدید سب کا مطالعہ کیا. لیکن بالآخر اس کے ذہن کو سکون ملا تو صرف قرآن حکیم سے، اور اس کی علم کی پیاس کو آسودگی حاصل ہوسکی تو صرف کتاب اللہ سے، گویا بقول خود ان کے ؎
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں
کیا اس دور میں قرآن حکیم کے “ھدیً للناس” ہونے کے لیے کسی اور دلیل کی حاجت باقی رہ جاتی ہے؟ اور کیا یہ کافی ثبوت نہیں ہے اس کا کہ قرآن ہر دور اور ہر ذہنی سطح کے انسان کی فکری رہنمائی کا سامان اپنے اندر رکھتا ہے؟
۲: واقفِ مرتبہ و مقامِ قرآن
اور اسی کا ایک عکس سمجھیے اس حقیقت کو کہ اس دور میں عظمتِ قرآن اور مرتبہ و مقامِ قرآن کا انکشاف بھی جس شدت کے ساتھ اور جس درجہ میں علامہ اقبال پر ہوا، شاید ہی کسی اور پر ہوا ہو! اس لیے کہ عظمتِ قرآنی کا انکشاف بہرحال کسی شخص پر اس کے اپنے ظرفِ ذہنی کی وسعت اور عمق کی نسبت ہی سے ہوسکتا ہے.
واقعہ یہ ہے کہ علامہ جب قرآن کا ذکر کرتے ہیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ .؏ . “قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید”کے مصداق وہ فی الواقع جمال و جلالِ قرآنی کا مشاہدہ اپنے قلب کی گہرائیوں سے کر رہے ہیں اور جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ شنید نہیں، دید پر مبنی ہے، بلکہ ایسے لگتا ہے جیسے ان کا پورا وجود کلامِ پاک کی عظمت کے بارِ گراں سے “خاشعا متصدعا” ہوا جا رہا ہے، عظمتِ قرآنی کا احساس و ادراک ان کے ریشے ریشے میں سرایت کیے ہوئے اور ان کا ہر بنِ مو قرآن کی جلالت قدر اور رفعتِ شان کے ترانے گا رہا ہے. ذرا گوشِ ہوش سے سنیے: ؎
آں کتابِ زندہ، قرآن حکیم
حکمت او لا یزال است و قدیم
(۲۷)
نسخۂ اسرارِ تکوین حیات
بے ثبات از قوتش گیرد ثبات
(۲۸)
حرفِ او را ریب نے، تبدیل نے
آیہ اش شرمندۂ تاویل نے
(۲۹)
نوعِ انساں را پیامِ آخریں
حاملِ او رحمۃ للعالمین
(۳۰)رہزناں از حفظِ او رہبر شدند ۱؎
از کتابے صاحبِ دفتر شدند
(۳۱)
آنکہ دوشِ کوہ بارش برنتافت
سطوتِ او زہرۂ گردوں شگافت
(۳۲)
اور سوچیے کہ کیا اس کلام میں دور دور بھی کسی آورد کا سراغ ملتا ہے. حقیقت یہ ہے کہ یہ آمد ہی آمد ہے، واقعہ یہ ہے کہ یہ قائل کا قول نہیں، حال ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ “از دل خیزد بردل ریزد” کی اعلی مثال ہے.
اور اسی پہ بس نہیں، آگے بڑھیے اور سنیے: ؎
فاش گویم آنچہ در دل مضمر است
ایں کتابے نیست چیزے دیگر است
(۳۳)
مثلِ حق پنہاں و ہم پیدا ست ایں
زندہ و پائندہ و گویا ست ایں
(۳۴)
صد جہانِ تازہہ در آیاتِ اوست
عصرہا پیچیدہ در آنات ا وست
(۳۵)
بات کتنی سیدھی اور سادہ معلوم ہوتی ہے، قرآن عام معروف معنوں میں کتاب نہیں یہ اللہ کا کلام ہے اور کلام خود متکلم کی صفت اور اس کی جملہ صفات کا مظہر ہوتا ہے. لہذا قرآن مثلِ ذات باری تعالیٰ ’ظاہر‘ بھی ہے اور ’باطن‘ بھی اور ’زندہ‘ بھی ہے ’قائم و دائم‘ بھی. پھر نہ ذاتِ باری زمان و مکان کی مقید ہے نہ کلامِ الہی ان کا پابند، بلکہ جیسے خود اللہ تعالیٰ اول بھی ہے اور آخر بھی اور زمان و مکان کل کے کل وجود باری میں گم ہیں اسی طرح کلام الہی کے بھی “صیدِ زبوں” کا درجہ رکھتے ہیں اور جس طرح اللہ کی شان یہ ہے کہ “کل یوم ھو فی شان” اسی طرح قرآن حکیم بھی ہر دور کے افق پر ایک خورشیدِ تازہ کے مانند طلوع ہوتا رہے گا! لیکن واقعہ یہ ہے کہ کم از کم میرے محدود علم اور مطالعے میں قرآن حکیم کی اس سے زیادہ مدح و ستائش ہماری پوری تاریخ میں موجود نہیں. ! اب ظاہر ہے کہ تعریف معرفت کی مناسبت ہی سے کی جا سکتی ہے. بس اسی سے اندازہ کرلیجیے کہ عظمتِ قرآنی کے کتنے بڑے عارف تھے. علامہ اقبال مرحوم!
اور یہیں سے سمجھ میں آسکتی ہے یہ بات کہ کیوں اس قدر دکھ تھا علامہ مرحوم کو امت کی قرآن مجید کی جانب عدمِ توجہ کی روش سے، جس کا مرثیہ ان کے کلام میں جا بجا موجود ہے، اور کیوں ان کا ۱؎ جس کی سب سے تابندہ مثال حضرت ابو ذر غفاری ہیں، رضی اللہ عنہ!دلِ حساس خون کے آنسو روتا ہے اس پر کہ مسلمانوں کو، عام اس سے کہ وہ عوام میں سے ہوں یا خواص میں سے، قرآن سے نہ اعتناء ہے نہ دلچسپی! غور فرمائیے کہ کتنی تلخی ہے علامہ کے اس شعر میں کہ : ؎
بآیاتش ترا کارے جز ایں نیست!
کہ از یاسینِ او آساں بمیری!!
(۳۶)
اور کس قدر صحیح نقشہ کھینچا ہے علامہ مرحوم نے امت مسلمہ کے مختلف طبقات کا: ؎
صوفئ پشمینہ پوشِ حال مست
از شرابِ نغمۂ قوّال مست!
(۳۷)
اتش از شعرِ عراق در دلش
در نمی سازد بقرآں محفلش
(۳۸)
واعظِ داستاں زنِ افسانہ بند
معنئ او پست و حرفِ او بلند
(۳۹)
از خطیب و دیلمی گفتارِ او
با ضعیف و شاذ و مرسل کارِ او
(۴۰)
رہے “فقہیانِ حرم” تو ان کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ: ؎
خود بدلتے نہیں، قرآن کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقہیانِ حرم بے توفیق!
لہذا اب عوام کا تو کہنا ہی کیا، وہ غریب تو ہیں ہی “کشتہ ملائی و سلطانی و پیری” ان کی عظیم اکثریت بے ذوق بھی ہے اور بے طلب بھی، اور بقول علامہ مرحوم ؎
صاحبِ قرآن و بے ذوقِ طلب
العجب، ثم العجب، ثم العجب
(۴۱)
اور ظاہر ہے کہ یہاں طلب سے مراد تعمیرِ خودی کی طلب بھی ہے اور غلبہ حق کی آرزو بھی، اس لیے کہ فی زمانہ یہی دونوں نایاب ہیں اور انہی کا حال یہ ہے کہ: ؎
آرزو اول تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں
ہو کہیں پیدا تو مرجاتی ہے یا رہتی ہے خام!
رہی دنیوی آرزوؤں اور طولِ امل کا جال تو اس میں تو ہر شخص ہی ؏ . کہ ہستم اسیرِ کمندِ ہوا، کے مصداق بری طرح جکڑا ہوا ہے.
ملت اسلامی کے اس حالِ زبوں کے بارے میں علامہ فرماتے ہیں:
پیشِ ما یک عالمِ فرسودہ است
ملت اندر خاکِ او آسودہ است
(۴۲)رفتِ سوزِ سینۂ تاتار و کرد
یا مسلماں مرد یا قرآن بمرد!
(۴۳)
۳: داعی الی القرآن
علامہ مرحوم کے نزدیک قرآن سے یہی دوری اور کتابِ الہی سے یہی بعد اصل سبب ہے مسلمانوں کے زوال و اضمحلال کا اور امت مسلمہ کے نکبت و افلاس اور ذلت و خواری کا! جوابِ شکوہ میں جو بات انہوں نے حد درجہ سادہ الفاظ میں فرمائی تھی کہ:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہوکر
بعد میں اس کا اعادہ نہایت پرشکوہ الفاظ اور حد درجہ درد انگیز اور حسرت آمیز پیرائے میں یوں کیا کہ:
خوار از مہجورئ ۱؎ قرآں شدی
شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شدی
(۴۴)
اے چو شبنم بر زمیں افتندۂ
در بغل داری کتابِ زندۂ
(۴۵)
اور اب ان کے نزدیک اسی “کتاب زندہ”سے وابستہ ہے ان کا احیا اور اسی پر دار و مدار ہے ان کی نشاۃ ثانیہ کا! گویا مسلمانوں کی حیاتِ تازہ کا انحصار ہے ان کے از سرِ نو حقیقتاً مسلمان ہونے پر اور ان کے مسلمان ہونے کا دارومدار ہے قرآن حکیم پر.. یا یوں کہہ لیں کہ ملت اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ وابستہ ہے، احیائے اسلام، سے اور احیائے اسلام وابستہ ہے، احیائے قرآن، سے جو عبارت ہے مسلمانوں کے اس کے ساتھ صحیح تعلق کی از سرِ نو استواری سے! علامہ فرماتے ہیں:
اے گرفتارِ رسوم ایمانِ تو
شیوہ ہائے کافری زندانِ تو!
(۴۶)
قطع کردی اَمرِ خود را در زُبُر
جادہ پیمائی الی شیء نکر
(۴۷)
گر تو می خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جز بقرآن زیستن
(۴۸)
از تلاوت بر تو حق دارد کتاب
تو ازد کامے کہ می خواہی بیاب
(۴۹)
علامہ کے نزدیک علم ہے تو صرفِ علم قرآنی اور حکمت ہے تو صرف حکمتِ قرآنی اور یہی ۱ ؎ مہجوری کا لفظ استعمال کرکے علامہ قاری کے ذہن کو قرآن مجید کی اس آیت کی طرف منتقل کرنا چاہتے ہیں:
وقال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا ھذا القرآن مہجورا. (الفرقان آیت. ۳۰) علم و حکمتِ قرآن ہے جو اگر کسی کے ذہن میں سرایت کرجائے اور قلب میں رچ بس جائے تو اس کے باطن میں ایک انقلاب برپا ہوجاتا ہے جو منتج ہوتا ہے ظاہر کے انقلاب پر اور یہی وہ عمل ہے جو بالآخر ایک عالمی انقلاب کو جنم دے سکتا ہے. علامہ فرماتے ہیں کہ قرآن حکیم وہ کتاب ہے کہ:
چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چوں دیگر شد، جہاں دیگر شود
(۵۰)
اور کس خوبصورتی سے مسلمانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ اس قرآن کے ذریعے ایک عالمگیر انقلاب برپا کرنے کے لیے کمربستہ ہوجاؤ:
بندۂ مومن ز آیاتِ خدا ست
ایں جہاں اندر بر او چوں قباست!
(۵۱)
چوں کہن گردد جہانے دربرش
می دہد قرآن جہانے دیگرش
(۵۲)
یک جہانے عصر حاضر را بس است!
گیرا گر در سینہ دل معنی رس است!
(۵۳)
اور کہیں للکارتے اور غیرت دلاتے ہیں کہ:
اے کہ می نازی بہ قرآن عظیم
تا کجا در حجرہ ہا باشی مقیم؟
(۵۴)
در جہاں اسرارِ دیں را فاش کن
نکتۂ شرعِ مبیں را فاش کن!
(۵۵)
علامہ کے نزدیک تطہیرِ ذہن اور تعمیر فکرِ کا واحد ذریعہ تو یہ ہے ہی کہ “اسرار دیں” فاش کیے جائیں اور نوعِ انسانی کے سامنے “نکتہ ہائے شرعِ مبیں” کی وضاحت کی جائے، خود تزکیۂ نفس، تصفیۂ قلب اور تجلیۂ روح کا کارگر اور مؤثر ذریعہ بھی قرآن حکیم ہی ہے. چنانچہ فرماتے ہیں:
کشتنِ ابلیس کارے مشکل است
ز انکہ ا وگم اندر اعماق دل است
(۵۶)
خوشتر آں باشد مسلمانش کنی
کشتۂ شمشیرِ قرآنش کنی
(۵۷)
اور
جز بقرآن ضیغمی روباہی است
فقرِ قرآن اصلِ شاہنشاہی است
(۵۸)
فقرِ قرآں اختلاطِ ذکر و فکر
فکرِ را کامل ندیدم جز بذکر
(۵۹)
لیکن یہ ذکر صرف زبان سے ہی نہیں پورے وجود سے ہونا چاہیے:
ذکر؟ ذوق و شوق را و اون ادب
کارِ جان است ایں نہ کارِ کام و لب
(۶۰) الغرض علامہ کے نزدیک امت کے جملہ امراض کے لیے نسخۂ شفا بھی قرآن حکیم ہے اور ملت کے تن مردہ میں ازِ سرِ نو جان ڈالنے کے لیے آبِ حیات بھی چشمۂ قرآنی ہی سے حاصل ہوسکتا ہے. فرماتے ہیں:
برخور از قرآن اگر خواہی ثبات
در ضمیرش دیدہ ام آب حیات
(۶۱)
می دہد ما را پیامِ لَاتخف
می رساند بر مقام لا تخف
(۶۲)
گوہرِ دریائے قرآن سفتہ ام
شرح رمز صبغۃ اللہ گفتہ ام
(۶۳)
فکرِ من گردوں مسیر از فیضِ اوست
جوئے ساحل نا پذیر از فیضِ اوست
(۶۴)
پبس بگیر از بادۂ من یک دو جام
تا در خشی مثلِ تیغِ بے نیام!
(۶۵)
اور
از یکِ آئینی مسلماں زندہ است
پیکرِ ملت ز قرآن زندہ است!
(۶۶)
ماہمہ خاک و دلِ آگاہ اوست
اعتصامش کن کہ حبل اللہ اوست
(۶۷)
چوں گہر در رشتہ او سفتہ شو!
ورنہ مانندِ غبار آشفتہ شو!
(۶۸)
گویا احیائے دین کی جدوجہد ہو یا تجدیدِ ملت کی سعی، علامہ مرحوم کے نزدیک اس کا مرکز و محور ایک ہی ہوسکتا ہے اور وہ ہے قرآنِ حکیم، اور یہی معنی ہیں قرآن حکیم کی اس آیت کے جو نبی اکرم ﷺ کے طریقِ کار اور منہجِ انقلاب کی وضاحت کے ضمن میں معمولی سے لفظی فرق کے ساتھ قرآن مجید میں چار مقامات پر وارد ہوئی ہے یعنی: یتلوا علیہم آیاتہ ویزکیہم ویعلمہم الکتاب والحکمۃ اور یہی ہے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لیے کرنے کا وہ اصل کام ۱؎ جس پر ایک طویل عرصے تک ادھر ادھر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد بالآخر میری نگاہ جم گئی ہے کہ ’’جا ایں جا است‘‘. ۱؎ یہ دراصل نام ہے میرے ایک کتابچے کا جو میری اس تحریر پر مشتمل ہے جو میں نے جون ۶۷ء میں میثاق کے صفحات میں لکھی تھی اور جو میری موجودہ سرگرمیوں کے لیے بمنزلۂ اساس ہے. اس کے اب تک آٹھ ایڈیشن، اسلام کی نشاۃ ثانیہ: کرنے کا اصل کام، کے عنوان سے شائع ہوچکے ہیں. اس کا انگریزی میں ترجمہ برادر عزیز ڈاکٹر ابصار احمد سلمہ نے کیا ہے، جسے مکتبہ انجمن نے شائع کیا ہے.
(اسرار احمد) آخر میں، میں معذرت خواہ ہوں کہ میں نے آپ کا بہت سا وقت لے لیا اور ساتھ ہی آپ سب کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں کہ آپ نے میری ان گزارشات کو صبر اور سکون کے ساتھ سنا. خود میں نے جو محنت اس سلسلے میں کی ہے اس کا اصل سبب یہ ہے کہ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ پاکستان کے بقا و استحکام، ملت اسلامی کی تجدید و نشاۃ ثانیہ اور دینِ حق کے احیاء و اظہار ۱؎ ایسے اہم اور جلیل مقاصد کے ضمن میں علامہ اقبال کے فکر اور پیغام کی اشاعت کو بھی بہت اہمیت حاصل ہے اور پاکستانی عوام میں بالعموم اور نوجوان نسل میں بالخصوص جو بعد رفتہ رفتہ علامہ مرحوم کی شخصیت اور افکار و نظریات سے پیدا ہوتا جارہا ہے، حالات کا ایک شدید تقاضا ہے کہ اسے کم کرنے کی کوشش کی جائے. آپ چاہیں تو اسے “احیائے اقبال”کا نام دے لیں. بہرحال یہ وقت کی ایک اہم ضرورت اور اسی کی ایک حقیر سی سعی ہے جو میں نے کلامِ اقبال سے یہ مواد جمع کرکے مرتب صورت میں آپ کے سامنے پیش کرکے کی ہے.
اب اگر میری ان گزارشات سے آپ میں سے کسی ایک کے دل میں بھی یہ جذبہ بیدار ہوجائے اور ایک عزمِ مصمم پیدا ہوجائے کہ وہ قرآن ہاتھ میں لے کر ایک عالمگیر اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہو، تب تو میں سمجھوں گا کہ میری محنت پوری طرح سپھل ہوگئی اور گویا “شادم از کردگئ، خویش کہ کارے کردم”اور اگر بدرجۂ ادنیٰ میری ان گزارشات سے آپ حضرات کے دلوں میں کلامِ اقبال کے مطالعے ہی کا شوق بیدار ہوجائے تب بھی میں یہ جانوں گا کہ میری محنت کم از کم ضائع نہ ہوئی. وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین. ۱؎ ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ. (التوبۃ: ۳۳، الفتح: ۲۸، الصف: ۹)