(۱). ایک برہمن زادہ (یعنی علامہ اقبال خود) روم (مراد ہیں مولانا رومی) اور تبریز (مراد ہیں شمس تبریزی) کے علوم کا حامل اور ان کے اسرار و رموز سے واقف ہے.
(۲)و(۳). مثنوئ مولوئ معنوی یعنی مثنوی مولانا روم در اصل فارسی زبان میں قرآن ہی کی ترجمانی ہے اور میں ان (مولانا روم) کی صفات اس کے علاوہ اور کیا بیان کروں کہ وہ اگرچہ پیغمبر نہیں ہیں لیکن انہیں کتاب بہرحال عطا ہوئی ہے.
(۴)تا(۶). اگر میرے دل کی مثال اس آئینے کی سی ہے جس میں کوئی جوہر ہی نہ ہو، اور اگر میرے کلام میں قرآن کے سوا کسی اور کی ترجمانی ہے، تو (اے نبی ﷺ ) آپ میرے فکر کے ناموس کا پردہ خود چاک فرما دیں اور اس چمن کو مجھ ایسے خار سے پاک کردیں (مزید برآں) حشر کے دن مجھے خوار و رسوا کردیں اور (سب سے بڑھ کر یہ کہ) مجھے اپنی قدم بوسی کی سعادت سے محروم فرما دیں!
(۷). تو ابھی اس راز سے آگاہ نہیں ہوا کہ وصل سے شوق ختم ہوجاتا ہے. (کاش کہ تو جان لے کہ ) ہمیشہ کی زندگی کیا ہے؟ مسلسل سلگتے رہنا! (نہ کہ ایک بار بھڑک کر ختم ہوجانا!)
(۸). ہماری بقا سلگتے رہنے ہی میں ہے. اور ہم پر مچھلی کی طرح تڑپتے رہنے کے سوا ہر شے حرام ہے.
(۹). جسے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کی دولت حاصل ہے تو گویا دنیا کا کل خشک و تر اس کے دامن کے ایک گوشے میں موجود ہے.
(۱۰). خود کو درِ مصطفٰے تک پہنچا کر دم لو. اس لیے کہ اگر تم اس مقام تک نہ پہنچ سکے تو سمجھ لو کہ پھر بولہبی کے سوا اور کچھ ہاتھ نہ آ سکے گا!
(۱۱). اے مرے جذۂ عشق. اے میری عزیز متاع اور اے میرے جملہ امراض کے معالج، تو سدا شاد و آباد رہے! (۱۲)و(۱۳).اس کے (یعنی بندۂ مومن) کے دل میں یہ حقیقت جاگزیں ہے کہ “تمام اہلِ ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں!” اسی طرح جذبۂ حریت بھی اس کے ضمیر میں رچا بسا ہوا ہے، وہ (نسلی، لسانی یا علاقائی) امتیازات سے بالکل نا واقف ہے اور مساوات اس کی سرشت میں موجود ہے!
(۱۴). یہ (میرا جملہ مال و اسبابِ دنیوی) میرے پاس ایک عارضی امانت ہے، ورنہ ہر شے کا مالکِ حقیقی تو خدا ہی ہے!
(۱۵). شریعتِ حقہ اور نظامِ اسلامی کا اصل مقصود یہی ہے کہ دنیا میں کوئی کسی کا محتاج نہ رہے.
(۱۶). (جانتے ہو؟) قرآن کی حقیقت کیا ہے؟ سرمایہ دار کے لیے موت کا پیغام اور بے سروسامان لوگوں کا سہارا و آسرا!
(۱۷). دولت سمیٹنے والے سے کسی بھلائی کی توقع نہ کرو. (اس لیے کہ قرآن نے صاف فرما دیا ہے کہ) تم نیکی کا مقام ہر گز حاصل نہیں کرسکتے جب تک (بجائے سمیٹنے اور جمع کرنے کے) خرچ کرنے کی عادت نہ ڈالو!
(۱۸). سود سے سوائے فساد کے اور کس چیز میں اضافہ ہوسکتا ہے؟ (افسوس کہ) بغیر سود قرض دینے کی لذت کسی کو معلوم نہیں!
(۱۹). سود سے روح تاریک اور دل اینٹ پتھر کی طرح سخت ہوجاتا ہے اور انسان بغیر دانتوں اور پنجوں کے درندہ بن جاتا ہے.
(۲۰). زمین سے اپنے لیے رزق کا حصول جائز ہے. (لیکن) یہ انسان کے لیے صرف استعمال کی چیز ہے، ملکیت صرف خدا کی ہے.
(۲۱). بندۂ مومن (اپنے مال و متاع کا صرف) امین ہے، مالک خدا ہے. خدا کے سوا جو کچھ دیکھتے ہو سب فانی اور ہلاک ہوجانے والا ہے!
(۲۲). حق کا پرچم بادشاہوں کے باعث نیچا ہوجاتا ہے اور ان کی وجہ سے بستیاں کی بستیاں خوار و بدحال ہوجاتی ہیں.
(۲۳). ہمارا آب و دانہ ایک ہی دسترخوان سے ہے. اس لیے کہ آدم کا پورا خاندان ایک جان کے مانند ہے.
(۲۴). جب اس دنیا میں قرآنی تعلیمات کا سکہ چلا تو کہانت اور پاپائیت ایسے تمام گمراہ کن سلسلوں کا زور ٹوٹ گیا.
(۲۵). مسلمانوں سے کہو کہ جان ہتھیلی پر رکھ لیں (یعنی قتال فی سبیل اللہ کے لیے کمر کس لیں) اور جو کچھ بھی ضرورت سے زائد ہو وہ سب ( اللہ کی راہ میں) دے ڈالیں!
(۲۶). (لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکتا اس لیے کہ) ہماری محفل ساقی اور شراب سے تہی دست رہ گئی ہے یعنی قرآن کے ساز کی صرف آواز ہی آواز باقی رہ گئی ہے!
(۲۷). وہ زندہ کتاب، قرآن حکیم، جس کی حکمت لازوال بھی ہے اور قدیم بھی!
(۲۸). زندگی کے وجود میں آنے کے رازوں کا خزینہ. جس کی حیات افروز اور قوت بخش تاثیر سے بے ثبات بھی ثبات و دوام حاصل کرسکتے ہیں.
(۲۹). اس کے الفاظ میں نہ کسی شک و شبہ کا شائبہ ہے نہ ردوبدل کی گنجائش. اور اس کی آیات کسی تاویل کی محتاج نہیں.
(۳۰). نوعِ انسانی کے لیے (خدا کا) آخری پیغام. جس کے لانے والے تمام جہانوں کے لیے رحمت قرار پائے (ﷺ )
(۳۱). اسے یاد کرلینے کے باعث یا اس کی حفاظت میں آکر رہزن اور لٹیرے رہبر ورہنما بن گئے اور ایک کے طفیل وہ خود بہت سی کتابوں کے مصنف بن گئے!
(۳۲). وہ (کتاب) کہ جس کے بوجھ کو پہاڑ بھی نہ اٹھا سکے اور جس کے دبدبے سے آسمان کا پتہ بھی پھٹ کر رہ گیا!
(۳۳). (اس کتاب کے بارے میں) جو بات میرے دل میں پوشیدہ ہے اسے اعلانیہ ہی کہہ گزروں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب نہیں کچھ اور ہی شے ہے!
(۳۴). یہ ذات حق سبحانہ و تعالیٰ (کا کلام ہے لہٰذا اسی) کے مانند پوشیدہ بھی ہے اور ظاہر بھی. اور جیتی جاگتی بولتی بھی ہے اور ہمیشہ قائم رہنے والی بھی!
(۳۵). اس کی آیتوں میں سینکڑوں تازہ جہان آباد ہیں اور اس کے ایک ایک لمحے میں بے شمار زمانے موجود ہیں!
(۳۶). (لیکن افسوس کہ اے مسلمان!) تجھے اس کی آیات سے اب اس کے سوا اور کوئی سروکار نہیں رہا کہ اس کی سورۂ یسین کے ذریعے موت کو آسان کرلے!
(۳۷). ادنیٰ لباس میں ملبوس اور اپنے حال میں مست صوفی قوّال کے نغمے کی شراب ہی مدہوش ہے!
(۳۸). اس کے دل میں عراقی کے کسی شعر سے تو آگ سی لگ جاتی ہے لیکن اس کی محفل میں قرآن کا کہیں گزر نہیں!
(۳۹). (دوسری طرف) واعظ کا حال یہ ہے کہ ہاتھ بھی خوب چلاتا ہے اور سماں بھی خوب باندھ دیتا ہے اور اس کے الفاظ بھی پرشکوہ اور بلند و بالا ہیں لیکن معنی کے اعتبار سے نہایت پست اور ہلکے!
(۴۰). اس کی ساری گفتگو (بجائے قرآن کے) یا تو خطیب بغدادی سے ماخوذ ہوتی ہے یا امام دیلمی سے اور اس کا سارا سروکار بس ضعیف، شاذ اور مرسل حدیثوں سے رہ گیا ہے!
(۴۱). کوئی صاحبِ قرآن ہو اور پھر بھی اس میں نہ جذبہ ہو نہ حوصلہ و امنگ، یہ کتنی تعجب خیز اور حیرت آمیز بات ہے!!
(۴۲). ہمارے سامنے ایک پرانا اور گھسا پٹا عالم ہے اور ملت اسلامی اس کی خاک نشینی ہی میں آسودگی محسوس کر رہی ہے.
(۴۳). (مسلمان اقوام مثلاً) مغلوں اور کردوں کے سینے حرارت سے کیوں خالی ہوگئے؟ آیا مسلمان پر موت طاری ہوگئی ہے یا خود قرآن ہی کے حیات بخش سوتے خشک ہوگئے ہیں!
(۴۴). (اے مسلمان!) تیری ذلت اور رسوائی کا اصل سبب تو یہ ہے کہ تو قرآن سے دور اور بے تعلق ہوگیا ہے لیکن تو اپنی اس زبوں حالی پر الزام گردشِ زمانہ کو دے رہا ہے!
(۴۵). اے وہ قوم کہ جو شبنم کے مانند زمین پر بکھری ہوئی ہے (اور پاؤں تلے روندی جا رہی ہے) اٹھ کہ تیری بغل میں ایک کتابِ زندہ موجود ہے! (جس کے ذریعے تو دوبارہ بامِ عروج پر پہنچ سکتی ہے!) (۴۶). اے مسلمان! تیرا ایمان رسومات کے بندھنوں میں جکڑا ہوا ہے اور تو خود کفر کے طور طریقوں کے زندان میں اسیر و مقید ہے!
(۴۷). تونے اپنی وحدتِ ملی کو پارہ پارہ کرلیا ہے اور اب ایک خوفناک انجام کی طرف تیزی سے رواں دواں ہے!
(۴۸). (اب) اگر تو (دوبارہ) مسلمان ہوکر جینے کا خواہش مند ہے تو (اچھی طرح جان لے کہ) اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اپنی حیاتِ نو کی بنیاد قرآن پر قائم کرے!
(۴۹). اس کتاب کا حقِ تلاوت تم ادا کردو. پھر جو مقصد و مطلب چاہو حاصل کرلو.
(۵۰). (یہ کتاب حکیم) جب کسی کے باطن میں سرایت کرجاتی ہے تو اس کے اندر ایک انقلاب برپا ہوجاتا ہے اور جب کسی کے اندر کی دنیا بدل جاتی ہے تو اس کے لیے پوری دنیا ہی انقلاب کی زد میں آجاتی ہے!
(۵۱). بندۂ مومن آیاتِ خداوندی میں سے ہے اور اس عالمِ کی حیثیت بس ایسی ہے جیسی اس کے لباس میں ایک قبا.
(۵۲). جب اس کے لباس کی کوئی قبا یعنی کوئی عالم پرانا ہوجاتا ہے تو قرآن اسے ایک جہانِ نو عطا فرما دیتا ہے.
(۵۳). عصرِ حاضر کو بھی بس ایک ایسا ہی جہانِ نو درکار ہے (جو قرآن سے ماخوذ اور مستنبط ہو!). اے مسلمان اگر تیرے سینے میں ایک ایسا دل ہے جو معانی کی گہرائیوں تک رسائی حاصل کرسکتا ہو تو (مجھ سے) یہ راز کی بات حاصل کرلے!
(۵۴). اے وہ شخص یا قوم جسے حاملِ قرآنِ عظیم ہونے پر فخر ہے، آخر کب تک حجروں اور گوشوں میں دبکے رہوگے؟
(۵۵). (اٹھو اور) دنیا میں دینِ حق کے اسرار و رموز کو عام کرو اور شریعتِ اسلامی کے رموز و حکم کی تشہیر و اشاعت کے لیے سرگرم ہوجاؤ.
(۵۶). شیطان کو بالکل ہلاک کردینا ایک نہایت مشکل کام ہے، اس لیے کہ اس کا بسیرا نفسِ انسانی کی گہرائیوں میں ہے! (۵۷). بہتر صورت یہ ہے کہ اسے قرآن حکیم کی (حکمت و ہدایت) کی شمشیر سے گھائل کرکے مسلمان بنا لیا جائے!
(۵۸). قرآن کے بغیر شیر بھی گیدڑ بن جاتا ہے اور اصل بادشاہی قرآن کے تعلیم کردہ فقر میں ہے.
(۵۹). جانتے ہو یہ قرآن کا فقر کیا ہے؟ یہ ذکر اور فکر دونوں کے جمع ہونے سے وجود میں آتا ہے اور حقیقت یہی ہے کہ بغیر ذکر کے فکر کامل نہیں ہوسکتا.
(۶۰). (لیکن یہ بھی جان لو کہ ذکر کی حقیقت کیا ہے) ذکر اصل میں ذوق و شوق کو صحیح راہ پر ڈالنے کا نام ہے. یہ محض زبان اور ہونٹوں کا وظیفہ نہیں بلکہ کامل وجود اور پوری ہستی کے ساتھ کرنے کا کام ہے.
(۶۱). (اے مسلمان) اگر دوام و ثبات اور قوت و استحکام کا طالب ہے تو قرآن کے سامنے دستِ سوال دراز کر. اس لیے کہ مجھے قرآن ہی کے مخفی چشموں میں آب حیات کا سراغ ملا ہے!
(۶۲). یہ ہمیں بے خوفی کا پیغام ہی نہیں دیتا، بالفعل اس مقام تک پہنچا بھی دیتا ہے جہاں نہ خوف باقی رہتا ہے (نہ حزن!)
(۶۳). میں نے قرآن کے بحربیکراں کے موتی بیندھ لیے ہیں اور “صبغۃ اللہ” کے اسرار و رموز کی شرح بیان کردی ہے.
(۶۴). میرے فکر کی یہ بلندی اور گردوں نوردی سراسر قرآن ہی کے فیض سے ہے اور اسی کے طفیل میرے خیالات میں بحرِ بیکراں کی سی وسعت پیدا ہوگئی ہے.
(۶۵). پس (اگر خدا توفیق دے تو ) میری شراب کے ایک دو جام چڑھا یعنی میرے فکر اور پیغام سے سرشار ہوکر آمادۂ عمل ہوجاتا کہ تو شمشیرِ برہنہ کے مانند چمکنے لگے!
(۶۶). وحدتِ آئین ہی مسلمان کی زندگی کا اصل راز ہے اور ملتِ اسلامی کے جسدِ ظاہری میں روحِ باطنی کی حیثیت صرف قرآن کو حاصل ہے.
(۶۷). ہم تو سرتاپا خاک ہی خاک ہیں، ہمارا قلبِ زندہ اور ہماری روحِ تابندہ تو اصل میں قرآن ہی ہے.
(۶۸). (اے ملت اسلامی! اب بھی وقت ہے کہ تو) اپنے آپ کو موتیوں کی طرح قرآن کی رشتے میں بیندھ اور پرولے. ورنہ پھر اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں کہ خاک اور دھول کے مانند پریشان اور منتشر (اور ذلیل و خوار) رہ!
................