فکرِ اقبال کی روشنی میں حالاتِ حاضرہ اور ہماری قومی ذمّہ داریاں

احمدہ و اصلی علی رسولہ الکریم
اما ابعد فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم . بسم اللہ الرحمن الرحیم. رب اشرح لی صدری. و یسر لی امری. و احلل عقدۃ من لسانی . یفقہوا قولی.

محترم و مکرّم صدرِ مجلس!
محترم اراکین و کارکنانِ مرکزیہ مجلسِ اقبال لاہور،
اور معزز خواتین و حضرات!

اگرچہ اس سے قبل بھی متعدد بار ع “بیا بہ مجلسِ اقبال و یک دو ساغر کش” کے مصداق مجلسِ اقبال میں شرکت و شمولیت کی سعادت حاصل ہوچکی ہے لیکن اس بار جس انداز میں اس بندۂ ناچیز کا اعزاز و اکرام فرمایا گیا ہے اس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے مناسب الفاظ واقعۃً میرے پاس موجود نہیں ہیں. لہٰذا مجبوراً ملک نصر اللہ خاں عزیز مرحوم کے الفاظ مستعار لے رہا ہوں کہ ع “اِک بندۂ عاصی کی .... اور اتنی مداراتیں..!.”

مجھے آج صبح ہی کی فلائٹ سے “شامِ الہدی” کے مستقل پروگرام کے لیے کراچی روانہ ہوجانا تھا لیکن مجلسِ اقبال میں شرکت کی سعادت کے لیے یہ ادنیٰ سا تردد تو ہر گز کوئی قربانی نہیں کہ یہاں سے سیدھا ائیر پورٹ اور ائیر پورٹ سے سیدھا تاج محل ہوٹل کراچی پہنچوں. البتہ منتظمینِ مجلس کا یہ احسان عمر بھر یاد رہے گا کہ انہوں نے خاص طور پر میری شمولیت کے لیے مجلس کا آغاز اپنے طے شدہ پروگرام سے ایک گھنٹہ پہلے کیا ... اس کے ساتھ ہی اپنی اس محرومی کا احساس بھی شدت سے ہے کہ آج سے ڈیڑھ سال قبل کی ایک مجلس کی طرح آج بھی مجھے اپنی گفتگو ختم کرتے ہی آدابِ مجلس کے خلاف فورا! روانہ ہوجانا ہوگا اور اس طرح میں اپنے سے بدرجہا اعلم و افضل اصحابِ علم و فضل کے افکار و خیالات سے مستفید نہ ہوسکوں گا. بہرحال “مالا یدرک کلہ لایترک کلہ” کے مصداق جو میسر آ گیا ہے غنیمت ہے!

بہت سے حضرات یقیناً اس پر حیران ہوں گے کہ ’میں اپنی روایت کے یکسر خلاف ‘ آج اپنے خیالات تحریری صورت میں پیش کر رہا ہوں. اس کی وجہ یہ ہے کہ عام معمول سے ہٹ کر اس بار ’ مجلسِ اقبال ‘ کے لیے بھی ایک موضوع تجویز کردیا گیا ہے یعنی “فکرِ اقبال کی روشنی میں حالاتِ حاضرہ اور ہماری قومی ذمہ داریاں” اور یہ موضوع اوّلاً تو خطیبانہ جوش سے زیادہ سنجیدہ غور و فکر کا متقاضی ہے... ثانیاً اس کا اندیشہ ہے کہ زبانی گفتگو کی رواداری میں اس کا کوئی اہم گوشہ تشنہ رہ جائے! .... پھر ایک خواہش یہ بھی ہے کہ یہ باتیں جلد از جلد وسیع پیمانے پر لوگوں کے سامنے لائی جائیں اور من و عن شائع ہوں لہٰذا 
“نۤ والْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَ” کے مطابق ذہن و لسان کے مابین قلم کو خیالات کی شیرازہ بندی کے ذریعے کے طور پر استعمال کر رہا ہوں. 

عنوان میں اختیار کردہ ترتیب سے ذرا سا ہٹ کر میں پہلے “حالاتِ حاضرہ” کے ضمن میں اپنا مشاہدہ اور تجزیہ پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں:
آج ہر شخص یہ محسوس کر رہا ہے کہ ہم نے معمارِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کے اس اندیشے کے عین مطابق جو ان کے اس تاریخی جملے میں سامنے آتا ہے کہ
:. God Has given us a golden opportunity to prove our worth as architects of a new nation and let it not be said that we did’nt prove equal to the task

اپنی نا اہلی اور عدم قابلیّت کا بھرپور ثبوت دیتے ہوئے ان کے قائم کردہ پاکستان کو تو آج سے لگ بھگ ساڑھے چودہ سال قبل دو لخت کرالیا تھا... اب اندیشہ یہ ہے کہ مفکّر و مصوّرِ پاکستان علامہ اقبال نے ۱۹۳۰ء میں جس پاکستان کا خواب 

“An independent Muslim State at least in the North-West of India”

کی صورت میں دیکھا تھا کہیں ہم اسے بھی اپنی نا اہلیوں کی بھینٹ نہ چڑھا دیں! اور اس طرح برّصغیر پاک و ہند کی مسلم قوم کی نصف صدی سے زائد عرصہ پر پھیلی ہوئی مساعی حبط اعمال کے حسرتناک انجام سے دوچار نہ ہوجائیں!.... اس لیے کہ ایک طرف ع “خموشی گفتگوہے، بے زبانی ہے زبان میری” کے مصداق تاحال ’بےآئینی ‘ ہی سرزمین پاکستان کا ’آئین ‘ ہے. گویا قمری حساب سے اپنی قومی زندگی کے چالیس سال پورے کرچکنے کے باوجود (واضح رہے کہ آنے والے ماہِ رمضان مبارک کی ستائیسویں کو یہ چالیس سال پورے ہوجائیں گے!)
ہم ؎

چہل سالِ عمرِ عزیزت گذشت
مزاجِ تو از حالِ طفلی نہ گشت

کے مصداق سیاسی و دستوری اعتبار سے ہنوز ’نابالغ ‘ ہیں! تو دوسری طرف ... صاف نظر آتا ہے کہ ؏ “آہ! وہ تیرِ نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف”.... اور ؎

“چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہروا کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں”

کے مصداق اس قافلۂ ملی کی کوئی منزل معین ہے ہی نہیں! اور یہ “ہجومِ مومنیں” بے مقصدیت کے صحرائے تیہہ میں بالکل اس شان سے بھٹک رہا ہے کہ 

؎
کس طرف جاؤں، کدھر دیکھوں، کسے آواز دوں
اے ہجومِ نا امیدی دل بہت گھبرائے ہے!

چنانچہ اغیار طعنے دے رہے ہیں اور پھبتیاں چست کر رہے ہیں، مبصرین اور تجزیہ نگار انتشار (DISINTEGRATION اور حصے بخرے ہوجانے (Blakanisation) کی پیشین گوئیاں کر رہے ہیں اور دشمن گھات میں ہیں کہ کب آخری ضرب لگانے کا بہترین موقع ہاتھ آئے اور ؏ “خوش درخشید ولے شعلۂ مستعجل بود” کے مصداق عصرِ حاضر کی تاریخ کا ایک درخشاں باب ختم کردیا جائے.!

گویا ’نظر بظاہر ‘ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ؎

اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز
جس نے اس کا نام رکھا تھا جہانِ کاف و نوں

پاکستان کی فضا پر متذکرہ بالا عمومی تشویش اور بَد دلی و مایوسی کے جو بادل چھائے ہوئے ہیں ان کے درمیان جھانک کر واقعات کی دنیا میں “حالات حاضرہ” کے داخلی اور خارجی پہلوؤں کا مشاہدہ کیا جائے تو صورتِ حال کچھ یوں نظر آتی ہے کہ: 

ایک جانب سیاچین گلیشئر ہمارے ہاتھ سے جا چکا ہے، اور کشمیر کی کنٹرول لائن آئے دن کی بھارتی جارحیّت سے خون آلود ہوتی رہتی ہے. پھر کشمیر کے علاوہ ہماری حسّاس ترین سرحد سے ملحق بھارتی پنجاب شدید خلفشار اور عدم استحکام کا شکار ہے اور اس کے ضمن میں کوئی دن نہیں جاتا جب بھارتی زُعما میں سے کوئی نہ کوئی ہمیں مورِ الزام نہ ٹھہراتا ہو. نتیجۃً پاکستان سے بھارت کی پیدائشی دشمنی اور مستقل نفسیاتی اور واقعاتی آویزش پر مستزاد یہ فوری اور شدید اندیشہ سر پر منڈلا رہا ہے کہ کسی بھی وقت اپنے اندرونی خلفشار کے باعث جھنجھلا کر بھارت کسی بڑی جارحیّت کا ارتکاب نہ کر گذرے!

دوسری جانب افغانستا ن کی صورتِ حال اور اس کے داخلی نظریاتی تصادم پر مستزاد روس کی ننگی اور براہِ راست مداخلت اور امریکہ کی قدرے ڈھکی چھپی اور بالواسطہ دخل اندازی نے نہ صرف یہ کہ پاکستان کے لیے شدید مسائل اور خطرات پیدا کر رکھے ہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ پاکستان ، افغانستان اور روسی ترکستان کے پورے علاقے کی قسمت کو گویا ایک معلق ترازو سے وابستہ کردیا ہے. چنانچہ جہاں اس کی بھی امید ہے کہ ایک مردِ درویش کے لگ بھگ 
پون صدی قبل کے الفاظ کہ

؎
اِک ولولۂ تازہ دیا میں نے دلوں کو 
لاہور سے تا خاکِ بخارا و سمرقند!

حقیقت و واقعیت کا روپ دھار لیں اور یہ خطّہ ایک وحدت کی صورت اختیار کرکے اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور عالمی غلبے کا نقطۂ آغاز بن جائے، وہاں یہ خطرہ بھی حقیقی اور واقعی ہے کہ سائبیریا کا برفانی ریچھ بحیرۂ عرب کے گرم پانی میں غوطہ لگانے کے لیے آخری دوڑ کا آغاز کردے اور ’خاکم بدہن‘ پاکستان بھی اس کی عریاں جارحیت کا نشانہ بن جائے!

داخلی محاذ پر .......... پاکستان کی ماں اور معمار پاکستان اور مصور پاکستان دونوں کی مشترک وراثت مسلم لیگ جو ان دونوں کے منظرِ عام پر آنے سے قبل واقعۃ صرف نوابوں اور نواب زادوں، اور وڈیروں اور جاگیرداروں کی جماعت تھی البتہ ۳۵ء اور ۴۷ء کے درمیان ایک عوامی تحریک کی صورت اختیار کر گئی تھی عرصہ ہوا کہ ؏ “ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے!” کی مصداق کامل بن چکی ہے. اور حال ہی میں سرکاری و درباری ذرائع سے اس کے تنِ مردہ میں جان ڈالنے کی جو کوشش ہوئی ہے اور غیر جماعتی انتخابات میں اپنے ذاتی وسائل اور محض زمینداری یا سرمایہ داری کے بل پر کامیاب ہونے والوں کی پیشانی پر اس کا لیبل چسپاں کرکے اس کے نام سےفائدہ اٹھانے کی جو کوشش کی گئی ہے کون نہیں جانتا کہ اس کا حاصل کچھ نہیں اور کم از کم عوام کی سطح پر اس کی نہ کوئی حقیقت ہے نہ حیثیت. 

اس طرح ’بظاہر موجود لیکن حقیقتاً کالعدم مسلم لیگ‘ سے قطع نظر... قومی سیاست کے میدان میں انتہائی بائیں جانب ہیں وہ اشخاص اور گروہ جن کی پاکستان کو توڑ دینے کی خواہش اب ڈھکی چھپی نہیں رہی بلکہ ببانگ دہل سامنے آچکی ہے. ان میں شخصیات کی سطح پر تو اہم نام صرف خان عبدالغفار خان اور جی ایم سیّد کے ہیں البتہ چھوٹی بڑی جماعتیں یا گروہ نصف درجن بلکہ اس سے بھی زائد ہیں جن میں اہم تر نام این ڈی پی، پی این پی، اور سندھی بلوچی پختون متحدہ محاذ کے ہیں! تاہم غنیمت ہے کہ ابھی ان سب کا دائرہ اثر 
صرف چھوٹے صوبوں تک محدود ہے اور پنجاب کی حد تک اس کی صرف ایک خفیف سی صدائے باز گشت جناب حنیف رامے کی صورت میں سامنے آئی ہے!

دوسری انتہا پر ہیں بعض نیم مذہبی اور نیم سیاسی جماعتیں، جن کی اکثریت واضح طور پر دائیں بازو سے تعلق رکھتی ہے. ان میں بھی قابلِ ذکر تو تین ہی ہیں یعنی جے یو آئی، جے یو پی اور جماعتِ اسلامی تاہم دوسری نسبتاً چھوٹی جماعتوں اور بڑی جماعتوں کے متحارب دھڑوں کو بھی شمار کیا جائے تو تقریباً وہی بائیں بازو والی تعداد بن جاتی ہے... یہ جماعتیں اگرچہ پاکستان کے بقاء و استحکام کی بھی دل سے خواہش مند ہیں اور اس میں اسلام کے نفاذ کی بھی داعی ہیں لیکن اولاً اس بنا پر کہ ان کا دائرہ اثر بہت محدود بھی ہے اور ملک کے طول و عرض میں مختصر ٹکڑوں 
(SMALL POCKETS) کی صورت میں منتشر بھی، اور ثانیاً اس بنا پر کہ پاکستان اور اسلام دونوں کی محبت اور وفاداری کی عظیم قدرِ مشترک کے باوجود ان کی باہمی آویزش بلکہ چپقلش ضربُ المثل کی صورت اختیار کرگئی ہے، وہ کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتیں!

ان دو انتہاؤں کے مابین واقعہ یہ ہے کہ قومی اور عوامی سیاست کا اصل دھارا سیکولر ڈیما کریسی یا سوشل ڈیما کریسی کے رخ پر بہہ رہا ہے جس میں یوں تو جماعتی اور تنظیمی سطح پر دو نام سامنے آتے ہیں یعنی ایک پاکستان پیپلز پارٹی کا اور دوسرا تحریکِ استقلال کا..... لیکن بنظرِ غائر دیکھا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ عظیم دھارا اصلاً کچھ چھوٹی اور بڑی، اور نئی اور پرانی شخصیتوں اور ان کے مداحوں اور حامیوں، اور عاشقوں اور جان نثاروں پر مشتمل ہے جو ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی سرتوڑ کوششوں میں مصروف ہیں اور سرِ دست یہ کہنا مشکل ہے کہ اس عظیم لہر پر سواری کی سعادت کس کے حصے میں آتی ہے.

گویا دیکھیے! اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا!

اسی درمیانی دھارے میں ایک طوفانی لہر حال ہی میں آنسہ بے نظیر بھٹوں کی اپنی اختیاری جلا وطنی کو ختم کرکے پاکستان واپسی.... اور شہرِ اقبال لاہور میں ورود. اور اس موقع پر ان کے بے مثال اور حد درجہ والہانہ استقبال، اور پھر پاکستان کے دل پنجاب، اور اس کے بھی اصل قلب یعنی لاہور، گوجرانوالہ، شیخوپورہ اور فیصل آباد وغیرہ کے اضلاع میں ان کے شاندار اور والہانہ خیر مقدم اور عظیم الشان جلسوں اور جلوسوں کی صورت میں اٹھی ہے جس نے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے کسی بھی درجہ میں بہرہ ور ہر پاکستانی مسلمان کو نہ صرف یہ کہ ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے بلکہ ملک و ملت کے مستقبل کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کردیا ہے اور غالباً یہ بھی اسی کا شاخسانہ ہے کہ ’مجلسِ اقبال‘ بھی جو ایک خالص روایتی اور ثقافتی ادارہ بن چکی تھی “فکرِ اقبال کی روشنی میں حالاتِ حاضرہ اور ہماری قومی ذمہ داریوں” کا جائزہ لینے پر مجبور ہوگئی ہے.

ہماری قومی اور عوامی سیاست کے اصل اور عظیم تر درمیانی دھارے میں جو طوفانی لہر حال ہی میں اٹھی ہے اس کے ضمن میں یہ بات بھی بالکل غلط نہیں ہے کہ یہ کسی حد تک آٹھ نو سال کے سیاسی حبس کا ردِّ عمل ہے اور اس بات میں بھی یقیناً کچھ نہ کچھ صداقت موجود ہے کہ حالیہ طوفانی کیفیت زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکتی، گویا ؏ “چڑھی ہے یہ آندھی اتر جائے گی” ... لیکن اس قسم کے جملہ عوامل کا حصہ منہا کرنے کے بعد بھی اس کیفیت (PHENOMENON) کی اہمیت ہر گز کم نہیں ہوتی اور اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ اس کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے کہ اس کے اصل عوامل کیا ہیں، اجزائے ترکیبی کیا ہیں اور اس کے ضمن میں ملک و ملت کے مخلصوں اور بہی خواہوں کا طرز عمل کیا ہونا چاہیے... اس لیے کہ جہاں یہ اندیشہ موجود ہے کہ اس طوفانی لہر کے جوش کو ٹھنڈا پڑتے دیکھ کر اس پر سوار قائدین بے قابو ہوجائیں اور جھنجھلاہٹ میں کوئی غلط اقدام کر بیٹھیں، وہاں اس کے سرکاری یا غیر سرکاری مخالفین کا غلط طرز عمل اور MIS HANDLING بھی نہایت خوفناک نتائج پیدا کرسکتی ہے.. جس کا ایک تجربہ ہم پندرہ سال قبل مشرقی پاکستان کے معاملے میں کرچکے ہیں. 

میں جب علامہ اقبال کے فکر کی روشنی میں عوامی سیاست کے اس درمیانی دھارے اور اس کی موجودہ طوفانی لہر کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے بعینہٖ وہی صورت نظر آتی ہے جو حضرتِ علامہ نے اس تہذیب حاضر کے تجزیے کے ضمن میں پیش فرمائی ہے جو اپنے آغاز کے اعتبار سے تو یقیناً مغربی اور یورپی تھی لیکن اپنے اثر و نفوذ کے اعتبار سے دیکھتے ہی دیکھتے عالمی اور آفاقی بن گئی تھی اور اس وقت پورے کرۂ ارضی کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے ... اور جس کی خودکشی کی خبر بھی علامہ مرحوم نے اب سے لگ بھگ پون صدی قبل دی تھی کہ

؎
دیارِ مغرب کے رہنے والوں خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا. 

اہلِ نظر جانتے ہیں کہ حضرت علامہ کے نزدیک اس تہذیب کے اصل ازجائے ترکیبی دو ہیں: ایک اس کی اصل ریڑھ کی ہڈی ہے جس کی صلابت اس کے قیام و بقا کی اصل اساس ہے، ’خطبات‘ میں حضرت علامہ نے اسے ’INNER CORE‘ سے تعبیر فرمایا ہے... اور اسے خالص قرآنی الاصل گویا صد فی صد اسلامی قرار دیا ہے. یعنی الفاظِ قرآنی: وَ لَا تَقۡفُ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ اِنَّ السَّمۡعَ وَ الۡبَصَرَ وَ الۡفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنۡہُ مَسۡـُٔوۡلًا ﴿۳۶﴾ (بنی اسرائیل:۳۶کے مطابق یہ طرز اور روش کہ اپنے موقف کی بنیاد نہ توہمات پر قائم کی جائے نہ نرے ہوائی تخیلات پر بلکہ مشاہدات و تجربات اور ان پر مبنی ٹھوس استدلال پر قائم کی جائے. حضرت علامہ کی یہ رائے نہایت صائب اور حد درجہ اہم ہے اس لیے کہ واقعہ یہی ہے کہ یہی قرآنی ہدایت و رہنمائی تھی جس نے ایک جانب مظاہرِ قدرت کو آیاتِ الہیہ کا تقدس عطا فرمایا ۱؎ اور انسان کو کتابِ فطرت کے سائنٹیفک مطالعے اور مشاہدے کی جانب متوجہ کیا۲ ؎ اور دوسری جانب منطق کو استخراج کی تنگنائیوں سے نکال کر ۱؎ سورۃ البقرہ: آیت ۱۶۴

۲ ؎ سورۃ الغاشیہ آیات : ۱۷ تا ۲۰ 
استقراء کی وسعتوں اور پہنائیوں سے روشناس کرایا... اور اس طرح جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے لیے میدانِ ہموار کیا. چنانچہ یہی چیز یورپ میں تحریکِ احیاء علوم کی بنیاد بنی جس کے نتیجے میں یورپی اقوام اوجِ ثریا پر پہنچیں اور یہ صورت پیدا ہوئی کہ: ؎

عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے

حضرت علامہ یہ ژرف نگاہی بجائے خود جس عظمت کی مظہر ہے اس سے قطع نظر میرے لیے اس کی قدر و قیمت کا ایک اضافی پہلو یہ ہے کہ اس سے نبی اکرم  کے ایک اہم قول کی عظمت و صداقت مبرہن ہوتی ہے جو صحیح مسلم میں حضرت عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ “ان اللہ یرفع بھذا الکتب اقواماً و یضع بہ اٰخرین”. اب اللہ تعالیٰ اسی کتاب (قرآن) کے ذریعے قوموں کو ابھارے گا اور اسی کے (ترک کرنے کے) باعث قوموں کو گرائے گا!”. گویا مغربی تہذیب بھی جو ابھری تو یقیناً قرآن ہی کی ہدایت و رہنمائی کے ایک اہم جزو کے سہارے ابھری! اور مسلمان گرے تو اسی سبب سے گرے کہ انہوں نے قرآن کی اس ہدایت سے یورپ کو روشناس کرانے کے بعد خود اسے ترک کردیا گویا ؎

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر 
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہوکر

اور

خوار از مہجوئ قرآن شدی 
شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شدی
اے چوں شبنم بر زمین افتندۂ 
در بغل داری کتابِ زندۂ

۲. تہذیب حاضر کا دوسرا جزو اس کے کچھ خارجی مظاہر ہیں جنہیں خطبات میں تو حضرت علامہ نے صرف ایک لفظ ’DAZZLING EXTERIOR‘ سے تعبیر فرمایا ہے لیکن اشعارِ اقبالؔ کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ ان مظاہرِ خارجی کے بھی دو رخ ہیں جنہیں کہیں تو حضرتِ علامہ “چہرہ روشن‘ اندروں چنگیز سے تاریک تر”کے الفاظ سے تعبیر فرماتے ہیں‘ کہیں ان کی نشاندہی ؏ “طبّ مغرب کے مزے میٹھے اثر خواب آوری” جیسے الفاظ کے ذریعے کرتے ہیں ... اور اس ضمن میں غالباً سب سے زیادہ بھرپور انداز یہ ہے کہ ؎

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

تہذیبِ حاضر کے ان بظاہر حسین و خوشنما اور دل کش و مرعوب کن مظاہر خارجی میں سے مثلاً ایک حریت فکر ہے جس کے پردے میں یا باضابطہ کفر والحاد ہے یا لا ادریت و ارتیابیت، اور ان دونوں کا حاصل ہے یا عریاں لامذہبیت یا کم از کم محدود مذہبیت کے پردے میں لپٹی ہوئی لادینیت! گویا

؎
ہو فکر اگر خام تو آزادئ افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ!

دوسرے حریت عمل ہے جس کی شکر والی تہہ کے نیچے مضمر ہے اباحیت اور آوارگی کا زہر‘ جس نے اخلاق کردار اور شرافت و انسانیت کا دیوالہ نکال دیا ہے، تیسرے نمبر پر ہے حریّتِ نسواں اور نظریۂ مساواتِ مردو زن جس نے مرد کو ’نامرد‘ اور زن کو ’نازن‘ بنا کر رکھ دیا اور دونوں کو تماشائی و ہرجائی بنا کر خاندان کے مقدس ادارے کی چولیں ہلا کر رکھ دیں. نتیجہ یہ نکلا کہ

؎
فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور
کہ مرد سادہ ہے بے چارہ زن شناس نہیں

اور

کیا یہی ہے معاشرت کا کمال
مرد بے کار و زن تہی آغوش!

اسی طرح ؎
خشتِ اوّل چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج

کے مصداق اجتماعیاتِ انسانیہ کے ضمن میں تہذیبِ مغرب نے سیاسی و معاشی مساوات کے حسین عنوانوں سے انسان کو اوّلاً لا دینی جمہوریت (SECULAR DEMOCRACY) کا تحفہ دیا جو “چہرہ روشن اندروں چنگیز سے تاریک تر” کا مصداقِ کامل ہے. اس لیے کہ اس کے ذریعے حقیقتاً سرمایہ داروں کی بدترین آمریت عوام پر مسلط ہوگئی. ؎

دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

اور اس کے بعد ، اس نہلے پر دہلا بے خدا اشتراکیت کا مارا جس نے انسان سے اس کی آزادی کو کلیۃً سلب کرکے اسے ایک مشین کا پرزہ بنا کر رکھ دیا. فاعتبروا 

آگے بڑھنے سے قبل، اس مقام پر دو امور کی وضاحت مناسب ہے:
ایک یہ کہ تہذیبِ جدید کے اس المیے کا اصل سبب سورۃ البقرۃ کے چوتھے رکوع کی روشنی میں ایک جملے میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اس نے “علم الاسماء”پر تو پوری توجہ صرف کی جو ابتدائے آفرینش ہی میں حضرت آدم کی سرشت میں ودیعت کردیا گیا تھا اور جس نے تاریخ انسان کے دوران مسلسل بروز ظہور اور صعود و ارتقاء کے ذریعے ’علم الاشیاء‘ اور ’علم الخواص‘ کے راستے سے سائنس اور ٹیکنالوجی کی صورت اختیار کی... لیکن اس علمِ وحی سے یکسر منہ موڑ لیا جسے قرآن ’ہدایت‘ فَاِمَّا یَاۡتِیَنَّکُمۡ مِّنِّیۡ ہُدًی فَمَنۡ تَبِعَ ہُدَایَ فَلَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۳۸﴾ ۱؎
سے تعبیر کرتا ہے. نتیجۃ اس نے اس ’دجال‘ کی صورت اختیار کرلی جس کی ایک آنکھ بند ہے اور جس کی پیشانی پر جلی حروف میں “ک ف ر” لکھا ہوا ہے. چنانچہ اب یہ یک چشم عفریت نوع انسانی ہی نہیں ہر قسم کی حیاتِ ارضی کی کلی تباہی پر تلا کھڑا ہے!

دوسرے یہ کہ عالمِ اسلام میں اس تہذیب ضمن میں یہ متوازن نقطۂ نظر، میری محدود معلومات کی حد تک، سوائے علامہ اقبال مرحوم کے اور کسی کے یہاں نظر نہیں آتا، اور ان کے بعد ان کی شمع سے اپنے چراغ روشن کرنے والوں میں بھی کم از کم اپنی محدود بصارت و بصیرت کی حد تک مجھے صرف ایک شخصیت ایسی نظر آتی ہے جس کے فکر میں اس توازن کا عکسِ کامل موجود ہے اور وہ ہیں ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم و مغفور! ... ورنہ اکثر و بیشتر افراد و اشخاص کی حد تک بھی یا حیرانی و سرگردانی نظر آتی ہے، یا انتہا پسندی اور یک رخا پن!... اور بحیثیتِ مجموعی بھی ملت کے دو اہم طبقات نے متضاد طرز عمل اختیار کیا. چنانچہ ایک طرف علماء کرام کی اکثریت نے اس تہذیب کو بالکلیہ رد کردیا. نتیجۃ اس کے اس 
INNER CORE سے بھی محرومی اختیار کرلی جو اصلاً خالص قرانی اور اسلامی تھا. اور وہ صرف ۱؎ البقرہ: ۳۸ آسمانی ہدایت کے امین بن کر قال اللہ اور قال الرسول کے حصار میں محصور ہوکر رہ گئے. اور دوسری جانب قوم کی عظیم اکثریت نے تہذیبِ مغرب کو من و عن قبول کرلیا. نتیجۃً اس کے INNER CORE کے ساتھ ساتھ اس کی “جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری” سے پیدا شدہ “صناعی” کو بھی ایک شکست خوردہ اور مرعوب ذہنیت کے ساتھ جوں کا توں قبول کرلیا. نتیجہ وہ نکلا جسے کسی صاحبِ ورد نے یوں بیان کیا کہ

؎
میں نے دیکھا ہے کہ فیشن میں الجھ کر اکثر
تم نے اسلاف کی عزت کےکفن بیچ دیے
نئی تہذیب کی بے روح بہاروں کے عوض
اپنی تہذیب کے شاداب چمن بیچ دیے

اور اس ضمن میں بھی اللہ رحمتیں نازل فرمائے اپنے اس بندۂ قلندر پر جس نے کمال انصاف کا ثبوت دیا جب ملت کے ان دو اہم طبقات کے تضادِ عمل کو یوں واضح کیا کہ

؎
کہا اقبال نے شیخِ حرم سے
تہہ محراب مسجد سو گیا کون؟
ندا مسجد کی دیواروں سے آئی
فرنگی بتکدے میں کھو گیا کون؟

فکرِ اقبالؔ کی اس روشنی میں پاکستان کی عوامی سیاست کے بڑے اور درمیانی دھارے اور اس کی حالیہ ’مہیب‘ لہر کا تجزیہ کیا جائے تو اس کے بھی دو جزو سامنے آتے ہیں، چنانچہ اس کا بھی ایک 
INNER CORE ہے جو نہ غیر اسلامی ہے نہ غیر قرآنی، اور نہ افکار و نظریاتِ اقبال کے منافی ہے، نہ تصوراتِ قائد اعظم کی نقیض بلکہ عین قرآنی اور اسلامی بھی ہے اور پاکستان کے مصور و مفکر اور مؤسس و معمار دونوں کے خیالات کے مطابق بھی اور اسی میں اس دھارے کی مقبولیت اور اس کی قوت و شوکت کا راز مضمر ہے، البتہ دوسرا جزو جو بجائے خود نہایت اہم ہے بے خدا بھی ہے اور بے دین بھی اور خالص مشرکانہ بھی ہے اور ملحدانہ بھی! اور یہ بات نہایت اہم اور لازمی ہے کہ ان دونوں اجزاء کو علیحدہ علیحدہ پہچان لیا جائے اور دونون کے ساتھ ایک طرز عمل اختیار کرنے کی بجائے علیحدہ علیحدہ رویہ اختیار کیا جائے!

اس دھارے اور لہر کی 
INNER CORE کے اجزاء ترکیبی میں سے اوّلین جزو ہے. “ولقد کرمنا بنی آدم... الایۃ” کے مطابق انسان کا محض انسان ہونے کے ناطے اعزاز و اکرام اور تشریف و تکریم، اور رنگ و نسل، مال و منال، اور عہدے، پیشے یا جنس کی بنیاد پر انسانوں کے مابین اس سماجی و معاشرتی سطح پر کامل مساوات! بفحوائے الفاظ قرآنی: یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ ﴿۱۳﴾ (الجرات:۱۳اور بقول اقبالؔ 

کل مومن اخوۃ، اندر دلش
حریت سرمایۂ آب و گلش
نا شکیبِ امتیازات آمدہ!
در نہادِ او مساوات آمدہ!

ان امتیازات کا کلی خاتمہ اور کامل انسانی مساوات کا بالفعل قیام رسولِ عربی  کا وہ طرہ امتیاز ہے جس کے سامنے ایچ جی ویلز جیسے دشمنِ اسلام اور شاتمِ رسول بھی اپنے آپ کو سرجھکانے پر مجبور پاتے ہیں. لیکن بدقسمتی سے یہی وہ چیز ہے جو موجودہ نام نہاد مسلمان معاشرے میں ناپید ہوچکی ہے، اس ضمن میں علامہ اقبالؔ نے تو صرف یہ فرمایا تھا کہ ؎ “یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو. تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو”.... میں ان کی روح سے معذرت کے ساتھ اس میں یہ اضافہ کروں گا کہ ؏ “تم سبھی کچھ ہو مگر سوچو کہ ’انسان‘ بھی ہو!”.

اس 
‘INNER CORE’ کا دوسرا اہم جزو ہے انسان کے بنیادی عمرانی حقوق (یعنی ... CIVIL RIGHTS) اور ان کے ضمن میں کامل سیاسی و قانونی مساوات! جس سے “تمیزِ بند و آقا” کا مکمل خاتمہ ہوجائے اور نہ کوئی قوم کسی دوسری قوم پر حکمران ہو، نہ کوئی طبقٍہ دوسرے طبقے پر برتری کا حامل ہو اور نہ ہی کوئی علاقہ دوسرے علاقے پر بالا دستی کا حق جتائے، بلکہ نوع انسانی “کونوا عباد اللہ اخوانا”(الھدیث) پر عمل پیرا ہوجائے. (ترجمہ) تم سب اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ! حضور نبی اکرم  نے اپنی ذاتِ اقدس اور جسم اطہر کو بھی قصاص کے لیے پیش فرما کر، حضرتِ عمررضی اللہ عنہ نے بھرے مجمع میں احتساب پر برافروختہ نہ ہوکر بلکہ بالفعل جوابدہی فرما کر، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں عدالت میں ایک عام مدعی کی حیثیت سے پیش ہوکر اور اپنے دعوت کے اخراج پر کبیدہ خاطر نہ ہوکر جو اعلی و روشن اور ابدی و لازوال مثالیں قائم کی تھیں وہ آج متفق علیہ اقدار کی حیثیت سے انسان کے اجتماعی ضمیر کا جزو لاینفک بن چکی ہیں اور عہد حاضر کا انسان ان کو ACHIEVE اور REALISE کرنے کے لیے علامہ اقبالؔ کے ان پرشکوہ الفاظ کے مطابق ہاتھ پاؤں مار رہا ہے کہ 

ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو
زانکہ از خاکش بروید آرزو!
یا ز نورِ مصطفٰے او را بہا ست
یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفٰے است!

لیکن چونکہ وہ نورِ نبوت سے براہ راست استفادہ کرنے پر آمادہ نہیں لہٰذا افراط و تفریط کے دھکوں کے سوا اسے کچھ حاصل نہیں ہورہا. تاہم کون نہیں جانتا کہ آج ان اقدارِ عالیہ سے سب سے بڑھ کر محروم اور سب سے زیادہ تہی دست و تہی دامن وہ ہیں جو مسلمان کہلاتے ہیں .... اور اسی کا ردّ عمل ہے جو ہماری سیاست کے موجودہ ابھار کی اساس بنا ہے!

اس 
INNER CORE کا تیسرا لیکن اہم ترین جزو ہے معاشی عدل و انصاف اور کم از کم واقع کی حد تک کامل مساوات اور ہر نوع کے اقتصادی استحصال اور ‘سرمایہ داری‘ کی لعنت کا مکمل خاتمہ اور ہر شہری کی بنیادی ضروریات کی کفالت کا ذمہ! ... یہ تمام باتیں وہ ہیں جو تمام جہانوں کے پروردگار نے اپنے کلامِ پاک میں ارشاد فرمائیں اور محمد  اور ان کے حواریین و خلفاء راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے بالفعل کرکے دکھائیں. چنانچہ “کیلا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم” کے مطابق دولت کی منصفانہ تقسیم اسلام کے معاشی نظام کا اصل الاصول ہے اور “وما من دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقہا” کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول کہ : اگر دجلہ و فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوکا مر جائے تو اس کے لیے اللہ کے یہاں عمر ذمہ دار ہوگا”. اسلام کے اقتصادی مقاصد کے ضمن میں POLICY STATEMENT کی حیثیت رکھتا ہے جسے اقبال نے یوں تعبیر فرمایا کہ: 

؎
کس نباشد در جہاں محتاج کس
نقطۂ شرع مبیں ایں است و بس
اور

آب و نانِ ماست از یک مائدہ
دودۂ آدم “کنفسً واحدۃ”

لیکن افسوس کہ جب مسلمانوں کے دورِ زوال میں اس پر ملوکیت کے ساتھ ساتھ جاگیر داری اور سرمایہ داری کی چھاپ پڑ گئی تو اسلام اور قرآن کے رخِ روشن کی یہ جہاں تابیاں نگاہوں سے اوجھل ہوگئیں وہ صورت بن گئی جس کا نقشہ حضرت علامہ نے ان الفاظ میں کھینچا ہے کہ

؎
جانتا ہوں میں یہ امت حامل قرآن نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندۂ مومن کا دیں
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے یدِ بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں

نتیجۃً... قوم کی عظیم اکثریت تو اقبال کے اس شعر کا مصداق کامل بن ہی چکی ہے کہ ؎

ہیچ خیر از مردکِ زرکش مجو
لن تنا لوا البر حتی تنفقوا

خود ’مذہبیت‘ کی بھی اکثر و بیشتر صرف یہ مسخ شدہ صورت (PERVERTED FORM) باقی رہ گئی ہے کہ ہر قسم کے حرام و حلال ذرائع سے دولت سمیٹو البتہ کچھ صدقہ و خیرات کے کھاتے بھی جاری رکھو. چنانچہ حکومت کی جانب سے سود دے کر اس میں سے زکوۃ وصول کرلینے کا تماشا تو حال ہی میں ہوا ہے. سود لو اور اس میں سے زکوۃ دے دو، پر تو ہمارے مذہبی مزاج کے سرمایہ دار بزرگ بہت پہلے سے عمل پیرا ہیں.
اس سلسلے میں نقد کے ضمن میں 
’ربا النسیئہ‘ اور ’ربا الفضل‘ کی جو بے شمار صورتیں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر ہماری پوری تجارت و صنعت اور ریاست کی سطح پر دفاع وترقی کی جملہ سکیموں میں رچی بسی ہوئی ہیں ان کا ذکر تو تحصیل حاصل ہے، اگرچہ حضرتِ علامہ کے یہ دو اشعار نقل کیے بغیر آگے بڑھنے کو جی نہیں چاہتا کہ ؎

از ربا آخر چہ می زاید فتن!
کس نداند لذتِ قرضِ حسن
از ربا جاں تیرہ، دل چوں خشت و سنگ
آدمی درندہ بے دندان و چنگ

تاہم ’زمین کے سود‘ کا ذکر ضروری ہے. اس لیے کہ اس کے ضمن میں مذہبی سطح پر تو مغالطے موجود ہی ہیں شیدائیان اقبال کا ذہن بھی صاف نہیں ہے. چنانچہ وہ ان اشعار کو تو لہک لہک کر پڑھتے ہیں کہ:

کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف
منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں
اس سے بڑھ کر اور کیا، فکر و عمل کا انقلاب
پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں

اور
دہ خدایا یہ زمیں تیری نہیں تیری نہیں
تیرے آبا کی نہیں تیری نہیں، میری نہیں

اور 

رزق خود را از زمیں بردن روا ست
ایں متاعِ بندہ و ملکِ خدا است

لیکن غالباً انہوں نے قرآن کی اس تعلیم اور اقبالؔ کی اس تبیین کو صرف اخلاقی وعظ کے خانے میں رکھا ہوا ہے، اور یہ نہیں جانتے کہ زمین کے سلسلے میں یہ اسلام کے قانونی و فقہی نظام کی اہم اساس ہے! چنانچہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی اور امام دار الہجرت مالک رحمہ اللہ تعالی دونوں کا متفقہ فتویٰ ہے کہ مزارعت مطلقاً حرام ہے اور اقبالؔ کا یہ فرمانا محض شاعری ۱؎ نہیں ہے کہ 

خدا آں ملتے را سروری داد
کہ تقدیرش بدستِ خویش بنوشت 
بہ آں قومے سروکارے ندارد 
کہ دہقانش برائے دیگراں کشت

چنانچہ سماجی، سیاسی اور معاشی جملہ سطحوں پر تمام نا انصافیوں اور ناہمواریوں کا خاتمہ کرکے دینِ حق کے کامل نظامِ عدل و قسط کو بالفعل نافذ و قائم کرنے کے لیے مبعوث فرمائے گئے تھے خاتم النبیین اور سید المرسلین، محمدن الامین صلی اللہ علیہ وسلم! (بفحوائے الفاظ قرآنی وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ(الشوری: ۱۵اور لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ (الحدید: ۲۵ اور ؏ “خدایا آں کرم بارِ دگر کن!”کے مصداق ؎ ؏ مرا یاراں غزلخوانے شمردند. اسی کا پیغام دیا تھا حکیم الامت اور مصوّر پاکستان علامہ اقبال مرحوم نے کہ ؎

بمصطفٰے برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست 
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است

چنانچہ اقبال سے دلچسپی رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ جہاں شعریت اور جذباتی سوز و ساز کے اعتبار سے کلامِ اقبال کے نقطۂ عروج کا مظہر ان کی دوسری نظمیں (خصوصاً ذوق و شوق ) ہیں وہاں امتِ مسلمہ کے نام ان کے پیغام کا مظہرِ اتم و اکمل ہے، ’ابلیس کی مجلس شوری‘ اور خصوصاً اس کے یہ آخری اشعار: ؎

عصرِ حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہونہ جائے آشکارا شرعِ پیغمبر کہیں
الحذر! آئینِ پیغمبر سے سو بار الحذ
حافظ ناموسِ زن، مرد آزما، مرد آفریں
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف
منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
پادشاہوں کی نہیں‘ اللہ کی ہے یہ زمیں
چشمِ عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب
یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ یقیں!

چنانچہ اس مردِ قلندر نے تو نہ صرف یہ کہ ؏ “جوہرِ دریائے قرآن سفتہ ام” کے مصداق قرآن حکیم کے حقائق و معارف کی دل نشیں پیرائے اور شعری اسلوب میں تعبیر و تعلیم میں اپنی توانائیاں کھپا دیں بلکہ ساتھ ہی ’انقلاب‘ کا نعرہ بھی بلند کردیا تھا... کہ 

خواجہ از خونِ رگِ مزدور سازد لعلِ ناب
از جفائے دہ خدایاں کشتِ دہقاناں خراب
انقلاب! انقلاب!! اے انقلاب!!!
یہ دوسری بات ہے کہ ان کے نام لیواؤں اور شیدائیوں نے ان کے ساتھ وہ معاملہ کیا کہ ؎
ہر کسے از ظنِ خود شد یارِ من
وز درونِ من نہ جست اسرارِ من

مزید برآں... یہی تھی وہ حقیقت جسے تعبیر فرمایا تھا بابائے قوم اور بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کبھی ان الفاظ سے کہ ہم پاکستان کی صورت میں ایک ایسے خطہ ارضی کے خواہاں ہیں جس میں اسلام کے اصولِ حریت و اخوت و مساوات کا عہد حاضر میں عملی اور مثالی نمونہ پیش کرسکیں. اور کبھی یہ فرما کر کہ “اسلام ایک سوشل ڈیماکریسی ہے”
(روایات بالمعنی)

لیکن افسوس کہ علامہ اقبال تو خالص ’مسنون عمر‘ میں پاکستان کے قیام سے لگ بھگ دس سال قبل ہی دنیا سے رخصت ہوگئے تھے، قائد اعظم مرحوم بھی قیامِ پاکستان کے بعد کل ایک سال زندہ رہے. اور ان کے بعد ان کی عوامی تحریک کا ثمرہ اچک لیا، اوّلاً نوابوں اور نوابزادوں اور زمینداروں، جاگیرداروں اور وڈیروں نے، اور بعد ازاں اس میں مستقل حصہ دار بن گئے کچھ نئے اور پرانے سرمایہ دار اور باری باری حصہ بٹاتے رہے اعلی سول اور فوجی عہدہ دار! جس کے نتیجے میں قانونِ قدرت کے عین مطابق عوامی سطح پر ایک شدید احساس محرومی پیدا ہوا جو اندر ہی اندر سلگنے والی آگ کے مانند بڑھتا چلا گیا . اور ... اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ اسی احساس ِ محرومی کی پرزور ترجمانی کی تھی، ذوالفقار علی بھٹو نے جس نے پاکستان کی سیاست کے اس نئے اور زور دار عوامی دھارے کو جنم دیا تھا جس کی ایک طوفانی لہر پر سوار ہوکر وہ اب سے پندرہ سال قبل خود ایوانِ اقتدار تک پہنچے تھے!

واضح رہے کہ اس وقت مجھے نہ بھٹو صاحب کی ذات اور شخصیت سے کوئی بحث ہے نہ ان کی سیرت و کردار سے، اور نہ ان کے خلوص یا عدمِ اخلاص کے بارے میں کوئی گفتگو کرنی ہے، نہ ان کی اہلیت یا نا اہلیت کے بارے میں کوئی فیصلہ دینا ہے بلکہ فی الوقت میری گفتگو صرف اور صرف پاکستان کی عوامی سیاست کے درمیانی دھارے کے اس 
INNER CORE کی تعیین و تشخیص سے متعلق ہے جس نے اس میں وہ قوت و مقاومت پیدا کردی ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے طویل ترین مارشل لاء سے بھی اس کے جوش و خروش میں کوئی کمی نہیں آئی. چنانچہ مارشل لاء کے ذرا پس منظر میں جاتے ہی اس کی طوفانی لہر سامنے آگئی. اگرچہ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ اس بار اس پر سواری بھٹو مرحوم کی صاحبزادی مس بے نظیر کرتی ہیں یا ان کے سابق رفیق کار مسٹر جتوئی، یا ان کی ایک نظر بندی کے دوران ان کے خلا کو پر کرنے والے ائر مارشل (ریٹائرڈ) اصغر خان... یا کوئی اور!!

بہرحال یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ اس دھارے کے بہاؤ کو روکنا نہ کسی چوتھے مارشل لاء کے لیے ممکن ہے نہ پانچویں کے، اور اس کے آگے نہ علماء کرام کوئی بند باندھ سکتے ہیں نہ مشائخ عظام، نہ پشتینی رئیس اس کی راہ میں مزاحم ہوسکتے ہیں نہ نو دولتیے سرمایہ دار، نہ سردار اور وڈیرے اس کا راستہ روک سکتے ہیں نہ زمیندار و جاگیر دار ... اور نہ کوئی میر اس کے راستے میں حائل ہوسکتا ہے نہ کوئی پیر... زیادہ سے زیادہ اگر کچھ کیا جا سکتا ہے تو صرف یہ کہ اس کے رخ کو موڑنے کی کوشش کی جائے!

اس لیے کہ مغرب کی اندھی تقلید میں ہمارا یہ ’ڈان‘ بھی خالص مادیت ہی کے رخ پر بہہ رہا ہے اور اس کے 
‘INNER CORE’ کا سارا خارجی لبادہ یورپ سے مستعار لیا ہوا ہے. چنانچہ اس کا کوئی براہ راست سروکار نہ اللہ سے ہے نہ رسول سے اور اس میں نہ ہدایتِ آسمانی سے کوئی اعتناء ہے نہ آخرت کی جوابدہی کا کوئی ذکر، لہٰذا عدلِ اجتماعی کے جملہ تصوّرات و معیارات بھی مغرب ہی سے ماخوذ ہیں اور ان کے ضمن میں افراط و تفریط کی انتہاؤں کے مابین بھٹکنے کی کیفیت بھی لامحالہ وہیں کا چربہ ہے... مزیدِ برآں ان کے جلو میں بے پردگی بھی ہے اور عریانی بھی، اباحیت(PERMISSIVENESS) بھی ہے اور آوارگی بھی، لاف زنی بھی ہے اور بڑکیں بھی، بھنگڑہ بھی ہے اور “ہے جمالو” بھی.‘ اور ان سے بھی بڑھ کر عبادات سے بے اعتنائی ہی نہیں، ان کا استہزاء و تمسخر ہے ‘ شریعت سے بے پروا ہی نہیں اس کے خلاف نشوز اور بغاوت ہے اور شعائر اسلامی کا عدمِ احترام ہی نہیں ان کی باضابطہ توہین و تذلیل ہے. و قس علی ذلک! 

فکر اقبال کی روشنی میں اس صورتِ حال کا علاج بھی اس کی کلی نفی (TOTAL NEGATION) اور بحیثیت مجموعی رد کردینے (TOTAL REJECTION) میں نہیں بلکہ اس کے صحیح جزو کو قبول کرتے ہوئے غلط جزو کی اصلاح میں مضمر ہے!
بالکل ایسے جیسے حضرتِ علامہ نے موجودہ سائنس اور ٹیکنالوجی کو ایک ایسے نیام سے تشبیہہ دی ہے جس میں سے ایمان باللہ کی تلوار نکال لی گئی ہو ؎

عشق کی تیغِ جگر دار اڑالی کس نے؟
علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی!

گویا نیام تو اپنی جگہ درست اور کار آمد ہے، ضرورت صرف اس کی ہے کہ اس میں تلوار داخل کی جائے اسی طرح علمِ جدید میں فی نفسہٖ کوئی شے غلط نہیں ہے اور کائنات کے بارے میں معلومات کا جو عظیم خزانہ اس نے جمع کیا ہے وہ اپنی جگہ متاعِ بے بہا ہے. ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اس میں خالقِ کائنات کی معرفت و محبت کی چاشنی گھول دی جائے!
یہی وجہ ہے کہ حضرت علامہ نے اپنے اس مشہور اور متنازعہ فارمولے میں کہ :

“MARKXISM + GOD ISLAM”

مغرب کے مادی فکر کی منطقی انتہا یعنی جدلی مادیت اور اس کے بھی نقطۂ عروج یعنی مارکسزم تک کو بالکلیہ رد نہیں کیا بلکہ صرف اس ضرورت کا احساس دلایا ہے کہ اس میں ایمان باللہ کا تریاق شامل کردیا جائے تو اس کی سمیت اور زہر ناکی ختم ہوجائے گی اور یہ اسلام کے بہت قریب آجائے گا!

بنا بریں فکر اقبال کی روشنی میں اس وقت ’کرنے کا اصل کام ‘ یہ ہے کہ پاکستان کی عوامی سیاست کے عظیم دھارے کے آگے بند باندھنے کی لا حاصل ہی نہیں حد درجہ مضر اور خطرناک کوشش کی بجائے اس میں ایمان و یقین کی چاشنی اور حکمت و معرفت کی روشنی شامل کرنے کی کوشش کی جائے اور اس طرح فی الجملہ اس کے رخ کو آسمانی ہدایت کی جانب موڑ دیا جائے!

اور یہ کام، ظاہر ہے کہ، ہرگز آسان نہیں بلکہ نہایت مشکل اور مشقت طلب ہے، البتہ 
اس کے ضمن میں ایک بہت اہم اور مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں وہ لوگ جو اقبال کے مداح و شیدائی اور ان کے فکر و فلسفہ اور حکمت و بصیرت سے فیض حاصل کرنے والے اور خود کو ان کی جانب منسوب کرنے والے ہیں. اس لیے کہ اقبالؔ کے متذکرہ بالا فارمولے کے مانند ایک بظاہر نہایت سادہ لیکن بباطن حد درجہ محکم فارمولا یہ بھی ہے کہ: 

“پاکستان کی بقا اور استحکام صرف اور صرف اسلام سے وابستہ ہے اور احیاء اسلام کا واحد ذریعہ ہے تجدید ایمان اور ایمان کا واحدمنبع اور سرچشمہ ہے قرآن حکیم اور دورِ حاضر میں احیاء قرآن کا ایک نہایت اہم اور مؤثر ذریعہ ہے فکر و کلامِ اقبال!”

اس لیے کہ جیسے کہ میں نے ہمیشہ کہا ہے اور علی وجہ البصیرت کہا ہے اور آج پھر کہہ رہا ہوں اور ڈنکے کی چوٹ کہہ رہا ہوں کہ عہدِ حاضر کے ذہنی و فکری ظروف و احوال میں قرآن حکیم کی عظمت کا جس قدر انکشاف اقبالؔ پر ہوا، اور کسی پر نہیں ہوا... اور موجودہ دور کی اعلیٰ ترین علمی و فکری سطح پر قرآن کے علم و حکمت اور ہدایت و معرفت کی تعبیر و تبیین اور تشریح و توضیح کی ہے صرف .... اور صرف اقبالؔ نے!
لیکن اس کے لیے اقبالؔ کے مداحوں اور شیدائیوں کو ؏ “پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے ” کے مصداق کردار اور عمل کے میدان میں اترنا ہوگا. اور حلقہ اقبال کو محض ایک روایتی اور ثقافتی طائفے کی صورت اختیار کرنے بلکہ شدتِ احساس کے لیے معذرت خواہ ہوں. مزارِ اقبال کے مجاوروں کی حیثیت اختیار کرنے کی بجائے خود اقبال کی “خانقاہ” سے بھی باہر نکل کر “رسمِ شبیری” ادا کرنی ہوگی! اور اس کے لیے انہیں اس ہمت و جرات، محنت و مشقت، ایثار و قربانی اور بے نفسی و بے غرضی کے علاوہ، جو کسی بھی عظیم مقصد کے لیے لازمی ولابدی ہیں، حسبِ ذیل عملی اقدامات کرنے ہوں گے. 

۱. اولاً جس دین و شریعت کے نام لیوا اور علمبردار ہیں اس پر خود عمل پیرا ہونا اور اگر جان کی امان پاؤں تو عرض کروں گا کہ اقبال کے مداحوں اور شیدائیوں کے لیے سب سے مشکل اور کٹھن مرحلہ یہی ہے. اس لیے کہ انہوں نے خود اقبال کی ’بے عملی‘ کو ’سند‘ کا درجہ دے دیا ہے. حالانکہ قطع نظر اس سے کہ خود حضرتِ علامہ نے اپنی بے عملی اور ’تن آسانی‘ کا ہمیشہ ایک کمی کی حیثیت سے برملا اعتراف کیا اور اسے کبھی سند کی حیثیت سے پیش نہیں فرمایا، ان کے فکر کے علو و عظمت کے پیش نظر ان کی ’بے عملی‘ کی کوئی اہمیت نہیں رہتی بلکہ بلا مبالغہ مجھ ایسے لاکھوں انسانوں کا ’عمل‘ ان کی ’بے عملی‘ پر نچھاور کیا جا سکتا ہے. لیکن دوسرا کون ہے جو اس کا مدعی بن کر سامنے آسکے؟ مولانا مودودی مرحوم نے تو حضرت علامہ کو صوفیا کے ’ملامتیہ‘ سے متعلق قرار دیا ہے جو اپنے ’عمل‘ کو لوگوں کی نگاہوں سے چھپانے کے لیے ’بے عملی‘ کا مظاہرہ کرتے ہیں، میں یہاں تک بھی نہیں جاتا بلکہ اسے اس قاعدہ کلیہ کے ذیل میں شمار کرتا ہوں کہ نابغہ لوگوں کا عمل بالعموم ان کے فکر کا ساتھ نہیں دے سکتا، تاہم اصل بات یہ ہے کہ حضرتِ علامہ ہمیں وہ فکر دے گئے جو اس دور کے لاکھوں نہیں کروڑوں ’باعمل‘ لوگ بھی نہیں دے سکتے تھے لیکن اب اس فکر کو عملاً بروئے کار لانے کا اوّلین تقاضا ؏ “شرطِ اوّل قدم ایں ست کہ مجنوں باشی” کے مصداق اس اسلام پر بالفعل عمل پیرا ہونا ہے جس کی تعبیر حضرت علامہ نے یوں فرمائی کہ ؏ “عاشقی محکم شو از تقلیدِ یار”.

اس ضمن میں اس مغالطے پر مستزاد جس تضاد کا مظاہرہ علامہ مرحوم کے حلقہ بگوشوں میں نظر آتا ہے اس کی ادنیٰ مثال یہ ہے کہ بالفرض وہ داڑھی اس لیے نہیں رکھتے کہ علامہ نے نہیں رکھی تو اسی دلیل کے تحت اپنے گھروں میں پردہ کیوں رائج نہیں کرتے حالانکہ اس موضوع پر حضرت علامہ کے افکار و آراء بھی نہایت واضح اور روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں اور ان کا عمل تو اس سے بھی کہیں زیادہ روشن و تابناک ہے! اس ضمن میں اس وقت مزید کچھ عرض کرنے سے اس لیے گریز کرتا ہوں کہ اس دور میں حضرت علامہ کے اس شعر کا مصداقِ کامل میں ہوں کہ : 

؎ کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب 
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند !

تاہم یہ صرف ایک مثال ہے. ؎ “قیاس کن زگلستانِ من بہار مرا”
۲ . ثانیاً اس عظیم مقصد کے لیے علماء کرام کا تعاون حاصل کیا جائے

اور اس ضمن میں حضرتِ علامہ کی ان تنقیدوں اور لطیف اور مزاحیہ انداز کی ان پھبتیوں کے ساتھ ساتھ جو انہوں نے روایتی ملا پرچست کی ہیں ان کے اس طرز عمل کو نگاہ میں رکھا جائے کہ انہوں نے ہمیشہ علماء حق کا احترام کیا. یہاں تک کہ اپنے تمام تر مرتبۂ علمی و فکری کے باوجود بالغ نظر اور وسیع الذہن علماء سے خالص طالب علمانہ انداز میں کسبِ فیض میں کبھی اپنی توہین یا سبکی محسوس نہیں کی. چنانچہ علامہ سیّد سلیمان ندوی رحمہ اللہ تعالی کے ساتھ ان کی خط و کتابت اس پر شاہد عادل ہے. 

خصوصاً فقہ و قانونِ اسلامی کے ضمن میں اس دور میں اجتہاد کے سب سے بڑے داعی اور علمبردار ہونے کے باوجود، انہوں نے خود اپنے آپ کو کبھی مجتہد مطلق نہیں سمجھا. بلکہ اس کے باوجود کہ عربی زبان پر انہیں عبور حاصل تھا، قرآن ان کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے تھا اور خود وہ تمام عمر قرآن میں غوطہ زنی کرتے رہے تھے، حکمتِ دین ان کے ذہن و فکر کی جزو لاینفک تھی اور تفقہ فی الدین ان کا اوڑھنا بچھونا تھا.‘ قانونِ اسلامی کی تدوینِ نو کے ضمن میں انہیں کبھی یہ خیال تک نہیں آیا کہ وہ تن تنہا اس کے اہل ہیں، بلکہ کسے معلوم نہیں کہ وہ اپنی حیاتِ دنیوی کے آخری ایام تک بیہقئ وقت مولانا سیّد محمد انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ تعالی سے درخواست فرماتے رہے کہ وہ کسی طرح لاہور منتقل ہوجائیں تو دونوں مل کر وقت کی اس اہم ترین ضرورت سے عہدہ برآ ہونے کی کوششیں کریں. 

اس ضمن میں قدیم اور جدید کے امتزاج کی جس قدر فکر اور خواہش حضرت علامہ کو تھی اسی کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ مولانا سید ابو الاعلی مودودی مرحوم و مغفور کی تحریروں میں اس امتزاج کی جھلک دیکھ کر حضرت علامہ نے انہیں دکن کی سنگلاخ زمین سے ہجرت کرکے پنجاب آنے کی دعوت دی اور اپنے ایک عقیدت مند چودھری نیاز علی مرحوم کے ذریعے پانچ دریاؤں کی سرزمین ان کے ’تمکن‘ کی سبیل پیدا فرمائی... مجھے حضرت علامہ کے اس اقدام 
کا پس منظر نظر آتا ہے ان کے اس قطعے میں جو آج بھی ان کے مرقد کی زینت بنا ہوا ہے کہ ؎

بای تا کارِ ایں امت بسازیم
قمارِ زندگی مردانہ بازیم
چناں نالیم اندر مسجدِ شہر
ولے در سینۂملا گدازیم

لیکن افسوس کہ مولانا مرحوم نے برّ صغیر کے مسلمانوں کی قومی جدوجہد کے نقطۂ عروج کے آغاز پر تو یہ کہہ کر قومی سیاست سے علیحدگی اختیار کرلی تھی کہ ’میں مسلمانوں کا نہیں صرف اسلام کا کام کرنا چاہتا ہوں‘... لیکن قیامِ پاکستان کے بعد ’اسلام کے کام‘ کے لیے قومی ہی نہیں خالص سیاسی راستہ اختیار کرلیا. اس پر تو اس وقت میں صرف یہ کہنے پر اکتفا کرتا ہوں کہ کاش کہ ایسا نہ ہوتا! اور مولانا مرحوم قیام پاکستان کے بعد بھی اپنے سابق انقلابی طریق کار ہی پر عمل پیرا رہتے ، تاہم فکرِ اقبال کے شیدائیوں کی توجہ اس جانب مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ جس چیز کی اہمیت حضرت علامہ کو اس وقت محسوس ہوئی تھی وہ آج بھی نہایت اہم ہے! اور قدیم و جدید کے محکم امتزاج اور علماء حق کے تعاون و اشتراک کے بغیر پاکستان کی قومی سیاست کے دھارے کے رخ کو اسلام کی جانب موڑنا ناممکن ہے.

آخر میں جملہ شرکاء مجلس سے طویل سمع خراشی کے لیے معذرت خواہی کے ساتھ ساتھ کارکنان مرکزیہ مجلسِ اقبالؔ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے ’مجلس اقبال‘ میں شرکت کی دعوت دے کر میرا اعزاز و اکرام بھی فرمایا... اور مجھے یہ موقع بھی عنایت فرمایا کہ اپنا دردِ دل ایسے منتخبِ روزگار حضرات کی محفل میں بیان کرسکوں اور واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین کے مطابق سب سے آخر میں شکریہ ادا کرتا ہوں اللہ کا کہ اس نے مجھے بھی تین دن کی مختصر مدت کے اندر اپنے خیالات کو قلمبند کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور میرے ساتھیوں کو بھی ہمت دی کہ اسی قلیل عرصہ میں اس کی طباعت کا مرحلہ طے کرلیا. اگر ہم سے کوئی خیر بن آئے تو یہ سب اللہ ہی کی توفیق سے ہوتا ہے. اور خطا ہوتی ہے تو وہ ہمارے نفوس کی شرارت سے. 
اقول قولی ھذا واستغفر اللہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات.